شادی کے ہنگامے شروع ہو چکے تھے اور آج مہندی کی رات تھی جہاں کاشف نے تمام ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دی تھیں گھر کی سجاوٹ کی ذمہ داری بھی اس نے بخوبی ادا کی تھی کہ دونوں گھر پوری طرح جگمگا رہے تھے۔ حارش کی غائب دماغی تو ویسے تو سب ہی نوٹ کر رہے تھے کہ آج کل گھر میں جس قدر کام بڑھ گئے تھے ان کی غائب دماغی بھی عروج پر تھی۔ وہ یوں تمام کام انجام دے رہا تھا جیسے زبردستی باندھ کے کرائے جا رہے ہوں۔ گھر سے باہر رہنے کو زیادہ فوقیت دیتا۔ پہلے تو سب اس کی وجہ شگفتہ بیگم کی آمد سے منسلک کرتے رہے، مگر جب حارش اور ان کا پیار دیکھا جس میں کسی رنجش کی شبیہ تک نہیں ملتی تھی تو پھر الجھ گئے۔ پوری مہندی کے فنکشن میں وہ طلحہ کے ساتھ جڑا بیٹھا رہا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ یہاںہو کر بھی نہیں تھا یہاں۔ کسی کے بلانے پر یوں چونک جاتا تھا جیسے نیند سے جاگا ہو۔
”حارش….!“ فریال کی آواز پر وہ یوں ہی چونکا تھا۔ حرمین اور نرمین بھی اس کے ہمراہ تھیں۔
”تم ٹھیک ہو….؟ مجھے نہیں لگتا کہ تم نے آج انجوائے کیا ہے۔“
”میں ٹھیک ہوں، انجوائے کر رہا ہوں۔“ زبردستی لبوں پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کی تھی۔ مگر حرمین عالم پر نظر جیسے ٹھہری وہ بھی غائب ہو گئی۔
”کیا انجوائے کر رہے ہو، رسم ختم ہو گئی، آدھے سے زیادہ مہمان چلے گئے، اب بچا کیا ہے….؟“
”سوری فریال! میرے سر میں درد تھا ناں۔“ اس کے لب سکڑ گئے۔ اٹھ کر جانے لگا تو طلحہ نے بازو تھام لیا۔
”ڈیئر سسٹرز! تم کیوں پاجی کے ساتھ اپنا مزہ بھی کرکرا کر رہی ہو، جا کے انجوائے کرو۔“ طلحہ نے انہیں ٹالا۔
مگر وہ جانتا تھا حرمین کی آنکھوں میں ٹھہرا پانی کیا چاہتا تھا، طلحہ نے آنکھوں کے اشارے سے اسے حوصلہ دیا تھا۔ وہ لب کچلتی وہاں سے ہٹ گئی۔ نرمین اور فریال بھی مہندی لگانے کے لیے چلی گئیں۔
”تجھے نہیں لگتا حارش عالم! تم خود کو عیاں کر رہے ہو سب پر، اس طرح بی ہیو کر کے۔“ طلحہ کی بات بہت گہری سہی مگر وہ جانتا تھا سمجھتا تھا، لیکن ان دنوں جتنا وہ اس سے دور جانا چاہتا تھا وہ اس قدر ہی سامنے آ جاتی۔ حارش عالم کی زندگی میں کسی محبت کا وجود پہلی بار آیا تھا۔ صحیح معنوں میں حرمین عالم وہ ہستی تھی جس نے اس کے اندر ہلچل مچائی تھی۔ جذبات و احساسات جگائے تھے۔ بھلا اس سے الگ ہونا، اسے بھولنا اتنا آسان تھا۔ اس کی حیات میں نرم جذبے جگانے والی وہ واحد لڑکی تھی، اس نے تو حارش عالم کو سرتاپیر بدل ڈالا تھا۔ اس کے لبوں کو ہنسنا سکھایا تھا۔ اپنی ذات کا احساس دلایاتھا اور پھر خود ہی سارے خواب چکناچور کر ڈالے اس کی آنکھوں سے نوچ کر۔ اسے حرمین سے یہ ہی گلہ تو تھا کہ وہ سب جانتے ہوئے بھی اس کے ساتھ اس کے جذبات کے ساتھ کھیلتی رہی، کاش وہ پہلے جان لیتا تو….
”آج کل میرا خود پر سے اختیار ختم ہو گیا ہے طلحہ! نہیں رہے میرے احساسات میرے بس میں۔“ اس وقت شاید وہ خود سے بھی خفا تھا، تبھی تو بے بس لہجے میں غصہ بھی موجود تھا۔
”پھر مان لے ہار۱ شاید اسی میں تیری جیت ہو۔“ طلحہ کی ذومعنی بات اس کے قطعی پلے نہیں پڑی تھی۔ وہ اسے گھورنے لگا۔
”اور مجھے لگتا ہے طلحہ احمد خوشی سے تیرے دماغ کے سارے اسکرو ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔“ نہ چاہتے ہوئے بھی طلحہ اس کی بے بسی پر مسکرایا تھا حالانکہ حارش کی یہ حالت بذات خود اس کے لیے تکلیف کا باعث تھی۔
”ابھی بھی وقت ہے حارش! حرمین کا نکاح پھر سے کینسل ہو چکا ہے، جانے میرا دل کیوں کہتا ہے کہ وہ رب یہ ہی چاہتا ہے کہ تو ذرا سا اپنی ناک کو نیچے لا کر دادی سے بات تو کر، وسیلہ تو اللہ بناتا ہے ناںیار۔“
”تو پاگل ہو گیا ہے طلحہ! اور بس۔“ حارش نے افسوس بھرے اندازمیں کہا۔
”نکاح اس لیے تھوڑا سا لیٹ ہو گیا کیونکہ عثمان ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ اس میں یہ بات کہاں واضح ہے کہ وہ اس رشتے سے انکاری ہے یا خوش نہیں ہے۔ یار! وہ میرے لیے بھائیوں کی طرح ہے،میں اتنا گرا ہوا قدم کیوں اٹھاﺅں گا، اتنے عرصے سے حرمین اس سے منسوب ہے، سوچ طلحہ! اس نے کتنے خواب سجائے ہوں گے، کتنے جذبات و احساسات اس بندھن سے جڑے ہوں گے۔“
”تو پھر اپنے دل کو سمجھا لے، مجھ سے تیری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی، میری اتنی بڑی خوشی ہے مگر حارش! تجھے دیکھتا ہوں تو مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔“ اس نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے سامنے کرتے ہوئے کہا تھا۔ حارش نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں دکھ اور تکلیف نمایاں تھے۔ وہ اپنی نئی زندگی شروع کرنے جا رہا تھا مگر صرف اس کی وجہ سے وہ اپنی ہر خوشی پر دل سے انجوائے نہیں کر پا رہا تھا۔
”آئی پرامس…. اس کے بعد سے کبھی تو میری آنکھوں اور لبوں پر یہ اداسی نہیں دیکھے گا۔“
”حارش عالم! شاید تجھے خود اندازہ نہیں ہے کہ تیری آنکھوں میں تو عکس ہی اس کا چھلکتا ہے، ان آنکھوں کا کیا کرے گا….؟“
”کاش میں انہیں نوچ کر پھینک سکتا۔“ اس نے لب کچلے۔
”نکال سکتا ہے تو اسے دل سے نکال دے، اپنی روح سے نکال دے، کیونکہ وہ تو حارش عالم کی روح میں سما گئی ہے۔“
”پلیز طلحہ! ٹیل می…. کیا کروں میں….؟ مجھے خود سمجھ نہیں آتا کہ اس نے مجھے اس قدر کمزور کر دیا ہے،میرا خود پر اختیار ختم ہو گیا ہے۔“ وہ ہار گیا تبھی طلحہ کے ہاتھ جھٹکتا اندر کی طرف تیز قدموں سے چل دیا۔ مگر ہال روم میں ہی وہ ٹکرا گئی جس سے وہ بچ کر جانا چاہتا تھا۔ رائل بلیو اور وائٹ کنٹراسٹ کے سوٹ میں بالکل اس کے سامنے ہی تو کھڑی تھی وہ، چمکتا چہرہ اور اداس آنکھوں میں پانی لیے۔ وہ یوں رکا گویا وقت رک گیا۔ کتنے لمحے گزر گئے مگر حارش عالم اس کے چہرے سے نظر نہ ہٹا سکا۔ پھر جیسے یکدم وہ ہوش میں آیا تھا۔ نگاہوں کا زاویہ بدلا اور کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
”حارش….“ حرمین عالم نے اپنی ساری ہمت مجتمع کر کے اسے پکارا تھا۔ حارش عالم کے بڑھتے قدم رک گئے، مگر وہ پلٹا نہیں تھا۔
”میں گناہ گار ہوں آپ کی کہ میں نے سچائی جانتے ہوئے بھی آپ سے چھپائی لیکن…. مجھے خود علم نہ ہوا کہ میں نے یہ کب اور کیوں کیا….؟ شاید اس لیے حارش کہ محبت واقعی ارادے، نیت اور وقت مقرر کر کے نہیں کی جاتی، ورنہ میں کبھی یہ غلطی نہ کرتی آپ سے محبت کرنے کی۔ میری زندگی کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی مگر مجھے کبھی اس چیز کا احساس نہیں رہا، کیونکہ تب تک آپ میری زندگی میں نہیں آئے تھے۔ لیکن آپ کے آنے کے بعد مجھے دھیرے دھیرے خود کا ادراک ہوا۔ آپ کی دیوانگی، آپ کی چاہت سے میں لاکھ منہ موڑتی رہی، خود کو بچاتی رہی، پر جانے کب میںاس آگ میں جل پڑی۔ آپ کی ناراضی سہنا میرے بس سے باہر تھا۔ آپ روٹھ جاتے بات نہ کرتے مجھ کچھ اچھا نہ لگتا۔ اور میں خود سے ہار جاتی صرف آپ کی خوشی کے لیے۔ آپ کی ہر ضد مان لیتی تھی۔ میں جانتی تھی کہ آپ کے لبوں نے ہنسنا کیوں سیکھا ہے۔ آپ کی آنکھوں میں جو عکس ہے وہ کس کا ہے۔ پھر بھلا کب تک، کب تک میں خود پر جھوٹے پہرے ڈالتی کہ میرا دل تو آپ کا اسیر ہو چکا تھا۔ بس یہی میری خطا ہے کہ صرف میںآپ کی محبت میں کھو کر اس کڑوے سچ کو فراموش کر گئی، اس امید پر کہ شاید رب میری تقدیر بدل دے، اور اس میں حارش عالم کے نام کی خوشیاں ڈال دے، مگر امید امید ہی رہی۔ لیکن حارش! میں آپ کا سامنا کرنے کی ہمت خود میں نہیں کرپاتی۔ آئی نو آپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ میں آپ کے سامنے نہ آﺅ مگر شاید ہم دونوں اپنی اپنی جگہ مجبور ہیں۔ حارش! میں اتنا اندازہ تو کر سکتی ہوں کہ آپ کب کیا چاہتے ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ آپ کے سامنے نہ آﺅں، لیکن آج کل شاید ایسا ممکن نہیں ہے۔ سو پلیز مجھے معاف کر دیجئے گا۔ میں جانتی ہوں کہ میں نے آپ کا دل توڑا ہے مگر پھر بھی شاید جب یہ سچ آپ کے منہ سے سنتی ہوں تو دل بہت دکھتا ہے، سہہ نہیں پاتی پلیز….“ حرمین نے اس کے سامنے آ کر ملتجی نظروں سے اسے دیکھا۔ حارش کی نظریں اٹھیں اور اس کی آنکھوں میں کھو گئیں۔ حرمین کے اتنے واضح اعتراف نے ایک بار پھر اس کے اندر ہلچل مچائی تھی۔ جانے اسے کیا سوجھی کہ اس نے حرمین کو کاندھوں سے تھام کر جھنجھوڑ ڈالا۔
”جب سب کچھ جانتی ہو مانتی ہو کہ حارش عالم تمہارے وجود کے بغیر ادھورا ہے، پھر انکار کیوں نہیں کر دیتیں۔ تم بھی تو محبت کرتی ہو ناں مجھ سے، رہ لو گی عثمان کے ساتھ….؟ بھول پاﺅ گی مجھے….؟“ حرمین کی آنکھوں سے سیال مادہ بہہ نکلا، کتنی بے بس تھی وہ۔ کاش…. اس سے کچھ کہہ پاتی، وہ تمام باتیں جو اس کے دل میں چیختی تھیں، ہنگامہ برپا کرتی تھیں۔
”پلیز حرمین! میں جی نہیں سکتا تمہارے بِنا پلیز….“ اس نے حارش عالم کی بے بسی آنکھیں بند کر کے سنی تھی، آنکھیں کھولتی تو شاید۔
”تم منع کیوں نہیں کر دیتیں۔“ اس نے ایک بارپھر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ یہ روبرو ان کا ایک دوسرے سے پہلا اعتراف تھا، ورنہ تو دل کی حکایتیں وہ صرف نگاہوں سے بیان کرتے تھے۔
”بس ایسا نہیں کر سکتی حارش۔“ بے بسی سے لب کچلے۔
”کیوں…….. حرمین……..؟“ یکدم جیسے حرمین عالم کے دل نے بغاوت کی تھی اس نے حارش عالم کے ہاتھ جھٹکے۔
”آپ خود کیوں نہیں کہہ سکتے یہ سب کے سامنے….؟ کہہ دیں
. آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ صرف ایک بار دادی کے سامنے ذکر بھی کریں گے تو وہ ہر ممکن کوشش کریں گی آپ کے لیے۔ حالانکہ دادی جانتی ہیں کہ میں بھی اس رشتے سے خوش نہیں مگر وہ خاموش ہیں۔ پر حارش عالم! ایک بار صرف ایک بار تم ان سے کہتے تو وہ ضرور مان جاتیں، مگر تم نے خود کوشش ہی نہیں کی۔ کبھی کہا ہی نہیں، بلکہ تم تو اس کوشش میں ہو کہ کسی کو کچھ علم ہو بھی نہیں۔“ وہ جیسے دبی آواز میں چیخ پڑی تھی۔
”حرمین! میں، میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔ عثمان، احسان چاچو، بابا، اتنی محبتیں، میری سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، میں کسی کو بھی دکھ نہیں دے سکتا صرف اپنی ذات کے لیے۔“
”پھر حارش عالم! میں ایک لڑکی ہو کر کیسے یہ قدم اٹھا لوں، میری زبان پر بھی انہی کی محبتوں کے قفل پڑے ہیں۔ میرے ماں باپ کی عزت میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہے، میں کیسے انکار کر دوں….؟ تم ایک مضبوط مرد ہو کر یہ اقرار خود سے چھپائے پھرتے ہو، میں ایک کمزور لڑکی ہو کر کیسے سب کی محبتوں کو ذلیل کر دوں۔ آئی ایم سوری حارش عالم! میں بھی یہ نہیں کر سکتی۔“ اس نے حارش کی آنکھوں میں دیکھا، وہ جیسے یکدم پھر مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرا تھا، نظریں جھکا گیا۔
”پھر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے ایک دوسرے کی محبت مٹا دے۔“ بے رُخی سے کہتا وہ آگے بڑھ گیا۔ حرمین نے بہنے والے آنسو صاف نہیں کیے تھے اور وہیں صوفے پر ڈھے گئی
طلحہ کی شادی بخیر و خوبی انجام پا گئی۔ حنا ان کے گھر آ گئی۔ دو تین دن تو مہمانوں کی رونق رہی، مگر پھر سب رخصت ہو گئے اور گھر میں صرف گھر کے افراد ہی رہ گئے۔ شادی ختم ہوئی تو جیسے حرمین عالم کاان کی طرف آنا بالکل ہی ختم ہو گیا، ظاہر ہے پہلے تو گھر کے مختلف کام کے لیے اسے آنا پڑتا تھا۔ مگر اب حنا تھی، پھر شگفتہ آنٹی تھیں، کچن کا زیادہ تر کام تو وہ کرتی تھیں اور حارش کے تمام کام بھی آنٹی اکثر خود کرتی تھیں۔ کپڑے وغیرہ وہ خود پریس کر لیتا تھا۔ حنا بہت اچھی نیچر کی تھی، مگر پھر بھی وہ اسے بہت کم ہی کوئی کام کہتا تھا۔ یہ بات حنا نے شدت سے نوٹ کی تھی کہ وہ اور طلحہ اتنے اچھے دوست تھے۔ طلحہ تو اتنی خوبیاں بیان کرتا ہے حارش کی، پر حارش تو صرف اپنی ذات میں مگن رہتا تھا۔ خود اپنی ماں سے وہ صرف ضرورت کے وقت مخاطب ہوتا تھا۔
”طلحہ! حارش بھائی ضرورت سے زیادہ ریزرور نہیں ہیں۔“ اس دن شام کی چائے پر وہ چپ نہ رہ سکی۔ جب سب حارش کے انتظار میں تھے کہ وہ آئے تو چائے پئیں گے مگر حارش صاحب آئے اور منع کر کے چلے گئے۔ پہلی بار حنا کو بُرا سا لگا تھا۔ حنا کے سوال پر طلحہ اور حرمین دونوں کی نظریں اس پر اٹھی تھیں۔ ان کی شادی کے بعد وہ پہلی بار آئی تھی اور حارش صرف اس کی وجہ سے یہاں نہیں رکا تھا۔
”نہیں حنا! ہو سکتا ہے اس کی طبیعت اچھی نہ ہو اس لیے، ورنہ وہ ایسا نہیں ہے۔“
”ہو سکتا ہے، مگر میں تو جس دن سے آئی ہوں وہ ایسے ہی ہیں۔ اب اتنے دن سے تو طبیعت خراب نہیں تھی ناں! مجھے لگتا ہے انہیں میری آپ سے شادی اچھی نہیں لگی۔“ حنا کا لہجہ ناگوار ہو گیا۔ طلحہ کے پیشانی کے بل نمایاں ہو گئے۔
”حنا….“ وہ اتنا ہی بولا تھا کہ حرمین کھڑی ہو گئی۔
”بھیا پلیز…. آئی تھنک مجھے چلنا چاہیے۔ ایم سوری، شادی میری وجہ سے۔“ وہ بات ادھوری چھوڑ کر چلی گئی۔
”حرمین گڑیا! میری بات سنو!“ طلحہ نے اسے آواز دی، مگر وہ رکی نہیں تھی۔ حنا مزید الجھ گئی۔ طلحہ نے خفگی بھری نظروں سے حنا کو دیکھا تھا۔
”ایم سوری طلحہ! مگر حرمین کو تو میں نے کچھ نہیں کہا۔“
”بعض دفعہ ہم انجانے میں دوسروں کو بہت کچھ کہہ دیتے ہیں، لیکن تم ان باتوں کونہیں سمجھو گی۔ شاید اس میں تمہاری بھی خطا نہیں۔“ وہ سوچتے ہوئے بولا تھا، اور چائے کا کپ رکھ کر اٹھ گیا۔ حنا نے پیچھے تک اسے دیکھا تھا۔ اس کا رُخ حارش عالم کے کمرے کی طرف تھا۔
ض……..ض……..ض
وہ آفس سے لوٹا تو گھر میں بے حر رونق تھی۔ صحن میں اسے حنا ہی نظر آئی تھی۔
”بھابی خیریت ہے….؟ کون آیا ہے….؟“ وہ اندر جانے سے پہلے جان لینا چاہتا تھا۔ حنا نے اس کے فکرمند چہرے کو دیکھا پھر مسکرا دی۔
”حارش بھائی! آپ اتنے کیوں بھاگتے ہیں لوگوں سے، ارے احسان چاچو اور ان کی فیملی ہے۔“
”او…. تھینکس….“ اس نے شکر کا سانس لیا اور اندر بڑھ گیا۔
”السلام وعلیکم!“ اس نے باآواز بلند سلام کیاتو سب ہی متوجہ ہو گئے۔
”وعلیکم السلام….! جیتے رہو۔“ احسان چاچو ہمیشہ کی طرح ملے تھے اس سے اور گلے لگایا۔
”کیسے ہو ینگ مین….؟“
”فائن چاچو…. آپ سنائیں۔“
”اللہ کا شکر ہے بیٹا….“ وہ مسکرائے۔
وہ آنٹی، عثمان، عمیر اور فریال سے ہیلو ہائے کرنے لگا۔
”آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے حارش! تم تو بہت ویک ہوتے جا رہے ہو۔“ فریال کی بات پر وہ محض مسکرا دیا تھا۔ عثمان نے بغور اس کا چہرہ دیکھا، پھر مسکرا دیا۔
”بعد میں بتاتا ہوں میں ذرا فریش ہو جاﺅں۔“ اس نے کہا اور ایکسکیوز کرتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ فریش ہو کر لوٹا تو بابا بھی فیملی سمیت براجمان تھے سوائے اس کے۔
”السلام وعلیکم بابا! کیسے ہیں….؟“ کتنی حیرت کی بات تھی کہ ایک ساتھ رہتے ہوئے وہ ان سے آج کئی دن بعد مل رہا تھا۔
”وعلیکم السلام! جیتے رہو۔“ انہوں نے اسے اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔
”طبیعت ٹھیک ہے تمہاری….؟“
”جی بابا….“ اس نے سر جھکا کر کہا۔ عجیب سی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی اسے کہ اتنی ساری چاہتیں تھیں اس کے پاس اور خود کو ان سب سے کتنا دور لے جا رہا تھا۔
”خیریت ہے بھئی! تم کہاں رہتے ہو….‘ بھیا بتا رہے تھے کہ کئی دن سے تم سے ملاقات نہیں ہوئی ان کی۔“ آخر چاچو نے پوچھ لیا۔ وہ مزید شرمندہ ہو گیا۔
”بس چاچو! وہ لیٹ آ رہا تھا ناں آفس سے، پھر تھکن کی وجہ سے جلد سو جاتا تھا، اس لیے۔“
”اچھا ادھر میرے پاس آﺅ۔“ انہو ںنے بلایا تو وہ اٹھ کر ان کے پاس صوفے پر جا بیٹھا۔ چاچو نے اسے لاڈ سے اپنی گود میں لٹا لیا۔
”طلحہ بھی تمہاری کمپلینٹ کر رہا تھا کہ تم اسے بھی وقت نہیں دے رہے ہو، کیا بات ہے بچے…. کوئی پریشانی ہے کیا….؟“ کتنی محبت سے پوچھ رہے تھے وہ۔ حارش نے پہلے سامنے بیٹھے طلحہ کو گھورا، پھر انہیں جوب دیا۔
”چاچو! کمپلینٹ تو مجھے کرنی چاہیے تھی، میری ہمت دیکھیں میں خاموشی سے سہہ رہا ہوں، وقت تو شادی کے بعد اس کے پاس نہیں ہوتا میرے لیے۔“ کم از کم طلحہ یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ یہ بات کہے گا۔
”میں زندگی میں سب سے زیادہ اس کے قریب ہی تو رہا ہوں۔ اب یہ بات یہ بھول گیا ہے، میں نہیں۔“ وہ مزید طلحہ کو جلانے کو بولا تھا، حنا دروازے میں ہی رک گئی تھی۔
”حارش، میرے بچے! ایسا کبھی مت سوچنا، طلحہ کبھی نہیں بدل سکتا۔“
”دیکھو بیٹا! حنا اس ماحول میں نئی ہے اسے ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگے گا اور ظاہر ہے وہ طلحہ کے علاوہ یہاں کسی کو اتنا نہیں جانتی تو اسے ہر کام ہر بات ہر قدم پر طلحہ کی ضرورت ہے، جب اس کی ہم آہنگی سب سے ہو جائے تو خودبخود وہ سب میں گھل مل جائے گی، تو اسے طلحہ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یار! تمہیں تو یہ بات سب سے زیادہ سمجھنی چاہیے تھی، اور تم ہی ناسمجھی کی بات کر رہے ہو۔“
”پتہ نہیں چاچو! خالص محبت میرے نصیب کا حصہ ہے ہی نہیں۔ ہمیشہ ہی بچی کھچی چاہت ملی ہے مجھے۔“ اس کی بات سے جہاں شگفتہ بیگم کا دل ہلا تھا، طلحہ تو جیسے تڑپ ہی گیا۔
”حارش! اب تو زیادتی کر رہا ہے میرے ساتھ۔“ وہ جیسے رونے کو تیار تھا۔ حارش نے اس کی شکل دیکھ کر بمشکل مسکراہٹ روکی تھی۔
”کیوں….؟ اب تجھے کیوں تکلیف ہو رہی ہے میری شکایتیں تو بڑے مزے سے لگا دیں، اپنی باری آئی تو رونے لگ پڑا۔“ وہ چاچو کی گود سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”چل اب آئندہ میرے منہ نہ لگنا۔“ طلحہ نے روٹھتے ہوئے کہا۔
”وعدہ نہیں کروں گا، گلے تو لگ سکتا ہوں ناں۔“ وہ عین اس کے سامنے آ گیا۔ طلحہ نے کچھ غصے سے اسے دیکھا تو کان پکڑ کر آنکھ مار دی۔
”پکا کمینہ ہے تو حارش۔“ کہتے ہوئے اسے خود سے بھینچ لیا۔
”اچھا اب ہمیں پارٹی دیں طلحہ بھیا! ہم نے آپ دونوں میں صلح کرائی۔“ عمیر نے کہا۔ حنا کو تب پتہ چلا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے خفا ہیں، واقعی حارش بھائی اور طلحہ کی دوستی کو سمجھنا اس کے بس کی تھی ہی نہیں۔
”جناب! جو حکم کریں۔“ دل و جان سے راضی تھا وہ۔ حارش اس سے الگ ہو کر پھر چاچو کے کندھے سے آ لگا تھا۔ عثمان دور بیٹھا جانے کیوں آج حارش عالم کو اتنے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اپنا یہ وجیہہ اور تھوڑا نخرے والا کزن اچھا تو لگتا تھا مگر اس نے شاید غور نہیں کیا تھا کہ وہ واقعی اتنا خوبصورت ہے۔ لائٹ بلیو ٹی شرٹ اور بلیوجینزمیں اس کی وجاہت بہت نمایاں تھی۔ آج وہ بھی اپنے دل میں یہ اعتراف کر رہا تھا کہ حارش بالکل اپنے پپا کی طرح ہے اور ان کے چاچو بہت خوبصورت تھے، مگر جہاں اس کی گہری آنکھیں اسے قدرے الگ کرتی تھیں وہیں اس کے چہرے پر گھنی مونچھیں اس کی وجاہت کو چار چاند لگاتی تھیں۔ وہ مسکراتا بہت اچھا لگتا تھا۔ عثمان شاید مسلسل اسے دیکھ رہا تھا تبھی تو وہ محسوس کر گیا۔
”عثمان! تم ٹھیک ہو؟“ وہ جیسے چونک گیا۔
”ہاں…. بس تم آج بہت اچھے لگ رہے ہو، اس لیے من چاہا دیکھتا رہوں۔“
”تھینک یُو….“ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
کچھ دیر بعد ینگ پارٹی نے صحن میں ڈیرہ لگا لیا تھا۔ حنا بے چاری اکیلے ہی سب کے لیے کچن میں مصروف تھی۔ یہ بات بھی حارش نے ہی سب سے پہلے نوٹ کی تھی۔ وہ کافی دیر دیکھتا رہا، پھر اٹھ کر کچن میں آ گیا۔
”اتنا کام اکیلے کیسے کرو گی بھابی! تھک جاﺅ گی۔“
”نہیں…. کرلوں گی۔“
”میں ہیلپ کراﺅں….؟“
”ارے نہیں…. جنہیں کرانی چاہیے انہیں تو ذرا بھی فکر نہیں۔“ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لبوں پر شکوہ اترا،حارش مسکرا دیا۔
”بھابی! شوہر وہ آپ کا ہے لیکن میں آپ کو نالج دیتا ہوں اس کے بارے میں، وہ شروع سے کچن کے کاموں سے بھاگتا ہے۔ پہلے یہ ڈیوٹی میں انجام دیتا تھا۔“ وہ اس کے ساتھ ہیلپ کرانے لگا۔ ساتھ طلحہ کی ساری حرکات سنانے لگا جو شادی سے پہلے وہ کرتا تھا۔
”او گاڈ! کوکنگ آپ کرتے تھے؟
”پھپھو کے جانے کے بعد ظاہر ہے ہم دونوں ہی بچے تھے اور طلحہ کوکنگ سے الرجک ہے، پھر مجھے ہی یہ کچن سنبھالنا پڑا، مگر پھر اس کے ہاتھ کے….“ وہ بے دھیانی میں شاید زیادہ ہی بول رہا تھا کہ یکدم بریک لگ گئے۔
”اس کے…. کیا مطلب حارش بھائی….؟“
”بس یوں ہی منہ سے نکل گیا، میں نرمین سے کہتا ہوں وہ آپ کی ہیلپ کرا دے گی۔“ وہ اپنی بات مکمل کر کے مڑا تو دروازے کے بیچ میں حرمین عالم کو کھڑا پایا۔
”بھیا نے فون کیا تھا بھابی! کہ آپ سخت مصیبت میں ہیں۔“ وہ قطعی اسے اگنور کرتی حنا کے پاس آ گئی۔ کتنے لمحے گزر گئے اسے یہیں کھڑے۔
”تھینک یو حارش بھائی! آپ پلیز سب کے ساتھ مزے کریں حرمین میری ہیلپ کرا دے گی۔“
”جی….“ وہ سر ہلاتا باہر آ گیا، پتہ نہیں سب نے غور کیا تھا یا نہیں، مگر عثمان نے کیاتھا کہ یکدم اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی ہے۔
ض……..ض……..ض
”میں آج آپ سے کچھ مانگنے آیا ہوں بھیا….؟“ احسان عالم، فرمان عالم کے سامنے بیٹھے تھے کمرے میں، ان کے علاوہ عالیہ بیگم، اماں اور عثمان عالم موجود تھے۔
”کیا بات ہے احسان کھل کر کہو….؟“
”میں حرمین کو مانگنے آیا ہوں اپنے بیٹے کے لیے۔“
”تم کیسی باتیں کر رہے ہو احسان! حرمین اس گھر میں تم لوگوں کی امانت ہے، میں تو طلحہ کی شادی پر ہی نکاح کرنا چاہتا تھا،مگر تم نے خود ہی تو منع کر دیا تھا کہ کم از کم دو سال تک تم لوگ، پھر اب یہ بات….؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔“
”آئی ایم سوری…. ہم مانتے ہیں کہ ہم نے ہی کہا تھا، کیونکہ عثمان دو تین سال تک شادی نہیں کرنا چاہتا،مگر میں یہاں عثمان کے لیے نہیں آیا ہوں، میں آپ سے اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں بھیا!“
”احسان! آخر بات کیا ہے….؟“ فرمان عالم اب فکرمند سے ہو گئے۔
”دراصل بھیا! حرمین آپ کو معلوم ہے کہ مجھے بچپن سے پسند ہے اور میں نے آپ سے کہا بھی تھا، اور میں جانتا ہوں کہ یہ دو سال کے ٹائم پر آپ کو برا بھی لگا ہو گا، بھیا! عثمان میرا بیٹا ہے، مگر میں آج حرمین کا ہاتھ عثمان کے لیے نہیں حارش کے لیے مانگنے آیا ہوں۔ وہ بھی تو میرا بچہ ہے، کیا ہوا اگر عثمان نہیں مانتا، میں اپنے حارش کے لیے آپ سے حرمین کا ہاتھ مانگتا ہوں۔“
”احسان! یہ کیا بکواس ہے؟“ فرمان عالم کو سچ میں غصہ آ گیا، اماں الگ حیران تھیں۔
”بڑے ابو پلیز…. پپا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔“
”تم پاگل تو نہیں ہو، کتنے سال سے حرمین تمہارے نام سے منسوب ہے اور اب….“
”منسوب ہے…. خوش نہیں ہے…. بڑے ابو!“ عثمان کی بات پر سب کے چہروں پر حیرانی تھی، سوائے احسان عالم کے۔ انہوں نے خود بڑے بھائی کو سمجھایا تھا۔
”حارش نے زندگی میں صرف محرومیاں دیکھی ہیں۔ وہ تو تقدیر سے اس قدر نالاں ہے بھیا کہ اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ مانگنا ہی چھوڑ دیا رب سے۔ اس کی آنکھوں کا پہلا خواب ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اس کا ہماری محبتوں پر سے بھی اعتماد جاتا رہے۔ اس نے خوشی اور محبت نہیں دیکھی آج اگر اس کے دل میں یہ خواہش ابھری ہے اور کسی بھی وجہ سے پوری نہ ہو سکی تو اس کا تو اعتبار ہی ختم ہو جائے گا محبت سے، پلیز بھیا!
”اور پھر بڑے ابو! اگر میں حرمین سے شادی کر بھی لوں تو نہ وہ خوش رہ پاوے گی نہ میں، کیونکہ میں سب جانتا ہوں، میرا دل یہ بات کبھی قبول نہیں کرے گا کہ….“ عثمان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”اور حارش بالکل مجھے بھائی کی طرح عزیز ہے۔ میں اپنے بھائی کی خوشی برباد کر کے اپنا گھر نہیں بسا سکتا۔ آئی ایم سوری بڑے ابو!“
”میں ناں کہتی تھی فرمان کہ کوئی بات ہے ضرور جو حارش کو اندر ہی اندر کھا رہی ہے، کتنا خوش رہنے لگا تھا وہ…. اور اب…. اور حرمین کے چہرے کی بھی تو مسکان وہ نہیں رہی تھی، ہمارے بچے کھلتے رہے اور ہم انجان رہے، بس فرمان! میرے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے، احسان جو کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے۔“ اماں جی نے گفتگو میں حصہ لیا۔
”بھیا! میں آپ کے پاس یہ ہی سوچ کر آیا ہو ںکہ میرے لیے عثمان اور حارش میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پلیز بھیا۔!! انہوں نے مان سے بڑے بھائی کو دیکھا جو سر جھکائے بیٹھے تھے۔ عالیہ بیگم بھی خاموش تھیں مگر یہ تو طے تھا ناں کہ ان کے نزدیک اپنے بچوں کی خوشی سب سے اہم تھی اور وہ اور اماں تو کافی پہلے یہ اندازہ لگا چکی تھیں کہ حرمین اپنی منگنی سے ناخوش ہے، اب بھی وہ صرف اپنے مجازی خدا کے فیصلے کی منتظر تھیں۔
”اگر آپ سب لوگ اسی بات پر خوش ہیں، میری بیٹی اس رشتے پر خوش ہے تو ٹھیک ہے، اماں! مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔“
”شکریہ بھیا!“ احسان عالم تشکر آمیز لہجے میں بولے۔
”میری آپ سب لوگوں سے ایک گزارش اور ہے کہ حارش کو ابھی کچھ نہ بتائیں اس کے لیے یہ سرپرائز ہو گا پلیز….“ عثمان بہت خوش تھا اور وہ چاہتا تھا کہ حارش عالم اس خوشی کو شدتوں سے محسوس کرے۔ سب نے حامی بھر لی اور باقی کے معاملات طے کرنے لگے۔
ض……..ض……..ض
یکدم گھرمیں اتنی رونق سی رہتی تھی جیسے کوئی تقریب ہو۔ ظاہر ہے وہ رہتا ہی اس قدر بے خبر تھا، سب سے بھی اور خود سے بھی۔
”آج کل گھر میں اور بابا کی طرف بہت ہلچل سی ہے، خیریت ہے بھابی….؟“ وہ اب کوشش کرتا تھا کہ حنا کو گلہ شکوہ نہ ہو اس لیے آتے جاتے مخاطب کر لیتا تھا۔
”حارش بھائی! آپ اتنے بے خبر کیوں رہتے ہیں ہر چیز سے، ارے بھئی حرمین کا نکاح ہے ہفتے کے بعد۔“
”جی….“ پتہ نہیں حنا کو لگا تھا کہ یکدم حارش کے چہرے پر ایک گہرا طوفان سا گزرا تھا، یکدم اس نے سختی سے آنکھیں بند کر کے جیسے خود کو مضبوط کیا ہو۔
”حارش بھائی کیا ہوا….؟“
”نتھنگ۔“ ہزاروںکوششوں کے بعد بھی وہ مسکرا نہ سکا تھا، اور فوراً وہ وہاں سے ہٹ گیا مگر رات میں عثمان آ گیا۔
”ابھی میرے ساتھ چلو مجھے ڈریس لینا ہے نکاح کے لیے اور مجھے تمہاری ہیلپ چاہیے۔“
”یہ کس نے تمہیں غلط خبر دی ہے کہ کپڑے خریدنے کے معاملے میں میری چوائس اچھی ہے، ارے یار مجھے قطعی آئیڈیا نہیں ہے اس طرح دولہے کے ڈریس خریدنے کا۔“
”مجھے کسی کی خبر کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے، بس مجھے تیرے ساتھ جانا ہے، تیری پسند سے ڈریس لینا ہے۔ تو فوراً اٹھ جا۔“
”عثمان پلیز یار! میری چوائس بہت بُری ہے۔“
”کوئی پرواہ نہیں، مجھے منظور ہے۔ بس اب مزید ایک لفظ نہیں سننا۔“ اس نے زبردستی اسے ہاتھ پکڑ کر اٹھایا تھا۔ ناچار اسے جانا پڑا۔ خاندان میں اتنی بڑی تقریب تھی۔ظاہر ہے سب ہی خوش تھے اور وہ کسی کی خوشی کو اپنی وجہ سے خراب نہیں کرنا چاہتا تھا، سو جس طرح عثمان چاہتا تھا، وہ اسی طرح کرتا تھا اور جانے عثمان کو کیا ہو گیا تھا کہ ہر کام میں اسے شامل کر رہا تھا۔ ادھرطلحہ کی خوشی بھی سمجھ سے بالاتر تھی۔
”تجھے کچھ زیادہ ہی خوشی ہے ناں اس نکاح کی۔“ وہ آخر برداشت نہ کر پایا۔ اس وقت حنا بھی ان کے ساتھ ہی موجود تھی۔
”آف کورس…. خوشی کا موقع ہے ناں تو خوش ہی ہونا چاہیے اور میرا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ میں کس طرح سے یہ سب سیلیبریٹ کروں۔“ ساری حقیقت جاننے کے بعد طلحہ کی خوشی ناقابل بیان تھی لیکن چونکہ ابھی حارش عالم کو علم نہیں تھا تو وہ کھل کے اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ حارش نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا اور پھر اپنے کمرے کی جانب مڑ گیا۔
”حارش! تو آنکھیں بند کر کے کب تک زندگی گزارے گا یار۔ پلیز آنکھیں کھول کے حقیقت کا سامناکر۔“
”تھینکس فار ایڈوائز۔“ اس نے روکھے لہجے میں کہا اورآگے بڑھ گیا، طلحہ آواز لگاتا رہ گیا۔
”آئی ڈونٹ نو…. شاید مجھے ہی لگتا ہے کہ حارش کے ساتھ کوئی نہ کوئی پرابلم ضرو رہے۔“
”ہاں حنا! تم کچھ بھی نہیں جانتیں اس کے بارے میں اس لیے لیکن پلیز دعا کرنا، یہ جو زندگی کی سب سے بڑی خوشی اس کی زندگی میں آ رہی ہے ناں، اس کے بعد اسے کوئی دکھ نہ ملے کبھی۔“
”آمین….! مگر مجھے تو لگتاہے کہ وہ اس پر بھی خوش نہیں ہیں۔“
”اسے اس بات کا علم ہو جائے تو شاید وہ پاگل ہو جائے خوشی سے۔“
”کیا مطلب….؟“ طلحہ نے زبان دانتوں تلے دبائی۔
”اوں ہوں…. کچھ نہیں، بس تم نے یہ بات حارش کے سامنے نہیں کرنی، اوکے….!“
”اللہ جانے تم لوگ کیا کر رہے ہو۔“ حنا نے سر تھام کر کہا اور کچن کی طرف چل دی۔
ض……..ض……..ض
آج حرمین کا نکاح تھا۔ سب بابا کی طرف تھے۔ بس وہ کمرے میں بند تھا۔ طلحہ، کاشف کئی دفعہ اسے بلانے آئے تھے اور وہ ہر بار ٹال دیتا تھا، لیکن اس بار عثمان عالم اسے بلانے آیا تھا۔
”شرم کر حارش! وہاں سب تیرے منتظر ہیں اور تو یہاں بیٹھا جانے کس چیز کا سوگ منا رہا ہے۔ اٹھ فٹافٹ یہ لے کپڑےاور صرف دس منٹ میں تیار ہو جا۔“ عثمان نے اس دن لائے گئے کپڑے اس کے ہاتھ میں تھمائے تھے۔ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
”عثمان! یہ ڈریس تو تم نے اپنے لیے خریدا تھا ناں….!“
”جی نہیں، یہ ڈریس میں نے دولہے کے لیے خریدا تھا۔“
”ہاں…. وہ ہی تو…. پھر تم مجھے کیوں دے رہے ہو….؟ خود پہنو اسے۔“ اس نے بہت حیرت سے اسے دیکھا۔ حارش کی آنکھوں میں اسے صاف الجھن نظر آ رہی تھی۔
”دولہا تم ہو تو میں کیسے پہن سکتا ہوں یہ ڈریس۔ اب فوراً تیار ہو جاﺅ، وہاں نکاح کے لیے قاضی تک پہنچ گیا ہے، بس دولہا غائب ہے۔“
”عثمان! یہ کیا مذاق ہے….؟“ اب ناگواری اتر آئی تھی لہجے میں۔ عثمان نے مسکراتے ہوئے اس کے دونوں کندھوں کو تھام کر اپنے سامنے کیا پھر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
”مذاق تو تم نے کیا تھا اپنے ساتھ۔ لیکن ا ب سب کچھ صاف ہے۔ حرمین کا نکاح تم سے ہو رہا ہے۔حارش! یہ حقیقت ہے۔ ہم سب تمہیں سرپرائز دینا چاہتے تھے اس لیے تمہیں بتایا نہیں، اس کے لیے سوری…. بٹ ڈیئر برادر! آئندہ کبھی خود کو اس طرح تنہا مت سمجھنا، ہم سب تیرے ہیں، تیری خوشی ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ پھر تو نے کیسے سوچ لیا تھا ایڈیٹ ایک بار کہہ تو دیتا۔ تو جانتا ہے ناں پپا تم پر جان دیتے ہیں۔ جب سے تم ہمیں ملے ہو انہو ںنے کبھی تم میں اور ہم میں فرق نہیں رکھا۔ حرمین نے ہمارے گھر کی بہو بننا تھا، شرط یہ تو نہیں تھی کہ صرف میرے حوالے سے۔“
”لیکن وہ تم سے منسوب تھی، تمہارے دل کو کیسے ٹھیس پہنچاتا میں۔“
”ہاں!وہ مجھ سے منسوب ضرور تھی حارش! مگر یہ صرف میرے بڑوں کی خواہش اور میری فرمانبرداری تھی۔ کوئی جذبات یا میرے من کے احساسات نہیں تھے اس رشتے سے۔ وہ تو شکر ہے میں نے بروقت تمام حقیقت جان لی ورنہ تمام عمر خود کو تمہارا مجرم تصور کرتا میں۔ حرمین صرف تمہاری ہے اور تم میرے بھائی ہو۔ اپنے بھائی کی خوشی مجھے ہر خوشی سے بڑھ کر عزیز ہے، سمجھے۔“ عثمان نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام کر پیار سے سمجھایا۔
”تھینک یو عثمان۔“ حارش اس کے گلے لگ گیا۔ سچ ہی تو کہتا تھا طلحہ آنکھیں کھول کے دیکھ تیرے چاروں طرف محبت ہی محبت ہے۔ بس تو خود نظریں چرا رہا تھا۔“ ہاں! ہر سو چاہت ہی تو تھی، محبت ہی تو تھی، اس رب نے اسے نوازا تھا، جتنے دکھ اس نے بچپن میں جھیلے تھے، اب سکھ ہی سکھ تھے۔ اس کے پاس ہر رشتہ تھا، ہر رشتے میں چاہت تھی اور ہر رشتہ اس کا اپنا تھا، سوتیلا نہیں تھا۔ خوشی سے اس کی آنکھوں کی نچلی سطح بھیگی تھی۔
”آج نہیں…. آج صرف خوشی کا دن ہے حارش! اور مجھے اب کے بعد تیرے چہرے پر صرف مسکراہٹ چاہیے کیونکہ تو مسکراتا ہوا بہت خوبصورت لگتا ہے۔“ عثمان نے اس کی آنکھیں صاف کیں۔
”اچھا سن، اب تو فوراً تیار ہو جا کیونکہ بابا اور پپا دونوں تیرے منتظر ہیں۔“ اس نے جواباً صرف سر ہلایا تھا۔ اور اگلے پندرہ منٹ بعد وہ اس کے ساتھ جا رہا تھا۔ وہاں واقعی سب اس کے منتظر تھے۔ بابا نے اسے دیکھا تو فوراً بولے پڑے۔
”حارش! بچے کہاں تھے آپ….؟“
”بابا…. وہ….“
”بڑے ابو…. یہ میرے ساتھ تھا، سوری!“
”اوکے…. اب چلو….“ انہو ںنے خفگی سے دیکھا۔ احسان چاچو نے اسے دیکھتے ہی سینے سے بھینچ یا تھا۔
”تو نے مجھے اپنا باپ نہیں ناں سمجھا، لیکن دیکھ لے میں نے تجھے ہمیشہ بیٹا ہی مانا ہے۔“ ان کے گِلے پر وہ شرمندہ ہو گیا۔
”سوری چاچو! معاف کر دیں۔“
”اچھا بس۔“ انہوں نے اس کا سر تھپتھپایا۔ اس کے چہرے پر چھائی خوشی انہیں مسرور کر رہی تھی۔ دادی نے بھی اسے خوب پیار کیا تھا اور چوما تھا۔
”حارش! تجھ سے بڑھ کر تو نہیں تھی ہمارے لیے تیری خواہش بچے۔ اتنے دن اندر ہی اندر گھلتا رہا۔ مجھ سے بھی نہیں کہا۔“ وہ بس ہولے سے مسکرا دیا تھا۔ عثمان اسے اسٹیج پر لے آیا۔ اس نے تو اب غور کیا تھا کہ بابا کا گھر کتنا خوبصورت لگ رہا تھا اور یہ اسٹیج جہاں وہ بیٹھا تھا کتنی محنت اور لگن سے سجایا تھا۔
”واﺅ….“ واقعی اندر سے انسان خوش ہو تو ہر چیز ہی خوبصورت ہو جاتی ہے۔ نکاح کی رسم شروع ہو گئی وہ بہت خوش تھا لیکن وہ باربا رطلحہ کو خفگی بھری نظروں سے گھور رہا تھا جس کا مطلب صاف تھا کہ تو نے مجھے نہیں بتایا اب تیری خیر نہیں۔ طلحہ اسے اگنور کر رہا تھا۔ اپنی شامت جو صاف نظر آ رہی تھی۔ نکاح بخیر و خوبی ہو چکا تھا۔ سب نے اس کو گلے لگا کر مبارک باد دی تھی۔ طلحہ اسے مبارکباد دینے آیا۔
”ایسے ہوتے ہیں دوست….؟ تو نے بھی مجھے نہیں بتایا۔ الٹا میری حالت سے مزے لیتا رہا۔“
”عثمان نے سب کو منع کیا تھا ورنہ تو تو جانتا ہے ناں تجھے کوئی بات بتائے بغیر میں رہ نہیں سکتا۔“
”میں تجھ سے شدید خفا ہوں، بس۔“
”اچھا چل مبارکباد تو لے لے۔ بعد میں خفا ہو جانا۔“ طلحہ نے بانہیں پھیلائیں تو وہ ان میں سما گیا۔
”تجھے کیا پتہ حارش! اتنا تو میں اپنی شادی پر بھی خوش نہیں تھا جتنا آج خوش ہوں۔“
”کانگریجولیشن حارش بھائی!“ حنا نے اسے وِش کیا۔
”اینڈ آئی ایم سوری….! کیونکہ میں جانتی تھی مگر پھر بھی آپ کو بتا نہ سکی۔“ حنا نے معذرت کی۔ وہ محض مسکرا دیا۔ کچھ دیر بعد حرمین کو اس کے ساتھ بٹھا کر فوٹوسیشن ہوا۔ پھر وہ سارے کزنز مل کر حارش کے پیچھے لگ گئے۔
”ہم نے اتنی بڑی خوشی آپ کو دی، آپ ہمیں کیا دے رہے ہیں بگ بی….؟“ نرمین نے کہا۔
”یس…. حارش! آج تم پر ٹریٹ بنتی ہے۔“ عمیر نے کہا۔
”ویسے مجھے یقین نہیں آتا تم اتنا افلاطونی عشق کر سکتے ہو۔ تم تو بڑے گھنے نکلے۔“ اس کی بات پر سب ہنس دئیے تھے۔ حرمین کی ہنسی کی آواز پر اس نے پہلو میں بیٹھی سجی سنوری حرمین پر ایک نظر ڈالی۔
”تم بھی ہنس رہی ہو مجھ پر….“
”سوری….“ اس نے زبان دانتوں تلے دبائی۔
”اچھا، اچھا، ہمیں کیا کھلا رہے ہیں….؟“ ایک بار پھر شور گونجا۔
”جو تم کہو گے۔“ حارش نے کھلے دل سے آفر کی۔
”ڈنر…. کل کے لیے رکھ لیں، لیکن ابھی ہمیں آئس کریم کھلائیں۔“
”ابھی…. بارہ بج چکے ہیں، کل۔“
”نہیں…. آج اور ابھی۔“
’چل ناں یار! مزہ آئے گا۔“ عثمان نے کہا تو وہ منع نہ کر سکا۔
”اوکے…. چلو….“
”او…. یاہو۔“ عمیر اچھلا۔
”میں بابا اور دادی کو بتا دوں۔“ طلحہ نے کہا۔ حرمین اٹھ کر اندر جانے لگی۔
”تم نہیں چلو گی….؟“
”اس حلیے میں….؟ سوری۔“ اس نے بمشکل اتنے بھاری لہنگے میں اپنا وجود سنبھال رکھا تھا۔
”چینج کر لو۔“
”نہیں یار! تم لوگ جاﺅ۔“ نرمین اسے اندر چھوڑ آئی اور وہ لوگ اجازت ملتے ہی گاڑیوں میں گھس گئے۔
”حارش! تمہاری زوجہ محترمہ بہت بدمزاج ہیں، اتنا کہا کہ چلو مگر آئی ہی نہیں۔“
”بابا، دادی کو برا لگتا ناں۔“ اس نے سائیڈ لی۔
”اوہو…. اتنی فیور، طلحہ بھیا پرمیشن لے آئے تھے۔“
”اچھا…. پھر ہم واپس جا کر میڈم کی خبر لے لیں گے بس…. خوش۔“ اس نے فریال کو دلاسہ دیا تو وہ ہنس دی۔
وہ لوگ خوب انجوائے کر کے گھر پہنچے تو دو بج چکے تھے مگر ان میں سے کسی کا بھی سونے کا ارادہ نہیں لگ رہا تھا۔ ساتھ بیٹھے تو گپ شپ میں چار بج گئے انہیں پتہ ہی نہ چلا۔
”ارے یار چار بج گئے ہیں، سونا نہیں ہے کیا….؟“ کاشف نے گھڑی دیکھی۔
”کاشف! بور مت کرو، اتنا انجوائے کر رہے ہیں اور تم سونے کی بات کر رہے ہو۔“
”بابا سخت ناراض ہوں گے۔“
”نہیں ہوتے…. یار آج کا دن ہم سب کے لیے بہت خوشی کا دن ہے اور بابا کبھی بھی آج غصہ نہیں کریں گے۔ یوں بھی میں دیکھ کر آئی ہوں،بابا سو چکے ہیں۔“
”تھینکس بٹ یار…. مجھے تو بھوک لگنا شروع ہو گئی ہے۔“ فریال نے پیٹ پکڑا۔
”او یار…. تم کتنا کھاتی ہو، مہمانوں کے ساتھ بھی یہ یوں کھانے میں لگی تھی جیسے آخری دفعہ کھا رہی ہے۔ یار کباڑا کرے گی اس بندے کا جس کے گھر جائے گی۔“ کاشف نے اسے چڑایا اور وہ واقعی چڑ گئی۔
”جسٹ شٹ اَپ۔“
”اللہ کرے یہ تمہارے گھر ہی آئے۔“ طلحہ نے بددعا دی۔
”طلحہ! تجھ سے ایسی امید نہیں تھی مجھے کہ اتنی خراب دعا دے گا تو۔“
”کیا….؟“ اس سے پہلے کہ فریال ہنگامہ کھڑا کرتی، ماہین بول پڑی۔
”فری! وہ تمہیں ستا رہے ہیں، میں تمہارے لیے کچھ لاتی ہوں۔“
”حرمین ڈیئر! اگر سب کے لیے اچھی سی چائے ہو جائے تو۔“ عثمان نے مسکرا کر کہا۔
”اوکے…. ابھی لائی۔“ وہ اٹھ کر کچن میں چل دی۔
”حنایار! جاﺅ حرمین کی ہیلپ کرا دو، وہ بے چاری رات کے اس پہر بھی اکیلے کام کر رہی ہے۔“ حنا سر ہلاتی اٹھ گئی۔ شاید یہ ہی موقع اچھا تھا حرمین سے بات کرنے کا۔ و ہ اٹھ کے حنا کے پیچھے آ گیا۔ سب عمیر کے افیئر کے قصے میں مگن تھے اس لیے کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ حرمین اور حنا باتیں کر رہی تھیں جب وہ بھی آ گیا۔
”خیریت تھی ناں حارش بھائی۔“ وہ مسکرائی۔ کتنے ماہ بیت گئے تھے حنا کی شادی کو مگر اس نے آج پہلی بار حارش عالم کے لبوں پر کھلتی مسکراہٹ اور آنکھوں میں خوشی کی چمک دیکھی تھی۔
”بھابی! آپ سے ایک فیور چاہیے۔“
”کیا….؟“
”کیا میں حرمین سے کچھ دیر بات کر سکتا ہوں….؟“
”اوہ ہو…. اوکے…. بس چائے بن گئی ہے، میں لے جاتی ہوں۔“ حرمین چائے سب کے لیے ڈال رہی تھی، حنا ٹرے میں کپ وغیرہ رکھ کر باہر چلی گئی۔
”جلدی آ جائیے گا۔“
”اوکے۔“ حارش مسکرا دیا۔ پھر حرمین کی طرف متوجہ ہوا۔
”کیا کچن میں کھڑے ہو کر ہم پیار بھری باتیں کریں گے۔“ وہ حرمین کے قریب آ گیا۔
”حارش پلیز….“ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”تم خوش ہو ناں….؟“ اس کے سرخ ہوتے چہرے پر نظریں جمائے بولا تھا وہ۔ حرمین نے شکوہ بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
”اب بھی اعتبار نہیں ہے آپ کو….؟“ وہ مسکرا دیا تھا۔
”شاید ہم انسان ہی ناشکرے ہیں۔ اس رب کی محبت سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ جتنا وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور دیکھو! ہم دونوں ہی مایوس ہو چکے تھے تب اس نے ہمیں نوازا اور احساس دلایا کہ ہم غلط تھے جواس کی رحمت سے مایوس ہو رہے تھے۔“
”ہاں….! لیکن آپ تو خود ہی قدم موڑ گئے تھے۔ اگر کوشش کرتے تو بہت پہلے۔“ وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئی۔
”ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے حرمین! اور ہمارے لیے رب العزت نے یہ ہی وقت مقرر کیا تھا۔ آئی ایم ہیپی کہ آج میرے چاروں طرف محبت ہے۔ ہر رشتہ ہے، میرے اندر کی تمام کثافت دھل گئی ہے۔ حرمین! اب ہر طرف صرف روشنی ہے، محبت کی روشنی، اور مجھے محبت کرنا تم نے سکھائی ہے۔ تمہارے وجود نے پہلی بار مجھے پیار کے معنی بتائے ورنہ میں تو نفرتوں کے بے اعتباری کے اندھیروں میں گم تھا۔ تم وہ روشنی کی پہلی کرن ہو جو میرے اندر میری روح میں پیار بن کر اتری۔ تھینک یو، تھینک یو سو مچ۔“ اس نے حرمین کو نرمی سے شانوں سے تھام کر اعتراف کیاتھا۔
”اور آپ کے اس جنون، اس دیوانگی نے کب مجھے اپنا اسیر کر لیا، مجھے خود علم نہ ہوا، بس اتنا پتہ تھا حارش کہ آپ کے چہرے پر ہنسی دیکھنا میرے لیے دنیا کی ہر خوشی سے بڑھ کر تھا، اور صرف آپ کی مسکراہٹ کو تاعمر قائم رکھنے کی خواہش کی تھی میرے دل نے۔“ حرمین نے دھیرے سے کہا تھا۔ وہ جذباتی سا ہو گیا اور اسے خود سے بھینچ لیا اور اس کے کشادہ سینے سے لگی حرمین عالم کے دل میں ایک سکون سا اترتا چلا گیا۔
ض……..ختم شد……..ض