طلحہ یار! نکل بھی آ باہر، کہیں مر تو نہیں گیا واش روم میں ہی۔“ روز کی طرح صبح صبح ہی وہی آوازیں، شورہنگامہ، کہنے کو تو اس گھر میں صرف دو فرد تھے، مگر ان کا شور دو سو کے برابر ہوتا تھا اور حرمین کو ان کے اس ہنگامے سے سخت الجھن ہوتی تھی۔ تنگ تو امی بابا بھی ہوتے تھے، مگر اس کے علاوہ گھر کا کوئی فرد اظہار نہیں کرتا تھا۔ صرف ایک ماہ ہوا تھا انہیں ان کے برابر آئے ہوئے۔
”پہلے اچھی خاصی فیملی رہتی تھی۔ اللہ جانے انہیں کیا مصیبت آئی تھی کہ ان میراثیوں کو بیچ دیا ہے یہ گھر۔“ ادھر سے پھر آواز آئی تھی۔ وہ بڑبڑانے لگی۔ صحن میں بیٹھ کر اخبار پڑھنے کا خیال دل سے نکال دیا۔
”تم تو ٹھہرے پردیسی وعدہ کیا نبھاﺅ گے۔“
”اے بھیا! پردے بعد میں سی لینا، ناشتہ دے تاکہ ہم اس منحوس باس کے متھے لگیں سویرے سویرے۔“ طلحہ نے حارش کو گاتے میں ٹوکا، ساتھ ہی گانے کا بھی ستیاناس کیا، حارش نے مگ اس کے سامنے پٹخا۔
”میں تیرا باوا کا نوکر نہیں ہوں روز ناشتہ بناﺅں، بس کل سے تو ناشتہ بنائے گا۔ شام کا میں کچھ نہ کچھ کر لوں گا۔“ حارش کئی دن برداشت کرتا رہا۔ وہ صرف بیٹھ کر کھاتا تھا۔ کچن اس نے سنبھال رکھا تھا، جیسے وہ اس کی سگھڑ بیوی ہو۔
”کیا یار حارش! یُو نو ، مجھے کتنی الرجک ہے ان لیڈیز کاموں سے۔“ وہ معصومیت سے بولا۔
”کمینے، ذلیل، پاجی…. تجھے کھانے سے الرجی نہیں ہے صرف پکانے سے ہے، اور میں تجھے کوئی لیڈی نظر آتا ہوں جوسارے ایسے کام مجھ سے کراتا ہے۔ بس انیف آج سے بائیکاٹ۔“ وہ جذبات میں اٹھ کھڑا ہوا۔
”اچھا یار! ناشتہ تو کر لے۔ اب تو نے اتنی محنت سے یہ جلا ہوا آملیٹ اور سوکھے ہوئے پراٹھے بنائے ہیں، ان کو حلق سے اتار کر بھی دکھا ناں۔“ طلحہ اس کی بنائی اتنی پیاری پیاری آملیٹ اور پراٹھوں کی بے عزتی کرتا رہا۔ وہ کڑھ کر ناشتہ کرتا رہا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب حارش عالم کو سنجیداً غصہ آ گیا ہے تب طلحہ کو بھی بریک لگ گئی اور وہ جلدی جلدی ناشتہ ختم کرنے لگا۔ لیکن حارش پھر بھی اس سے پہلے ہی بائیک باہر نکال چکا تھا اور جب تک وہ تالے لگا کر باہر آیا وہ جا چکا تھا۔ یعنی آج آفس جانے کے لیے بس یا رکشے کے دھکے کھانے تھے۔ خیر اس نے چابیاں پڑوس میں دیں تاکہ ماسی آ کے صفائی وغیرہ کر جائے اور خود بھی اللہ کا نام لیتا آفس چل دیا۔
ض……..ض……..ض
یہ دو لڑکے مہینہ بھر پہلے ہی یہاں شفٹ ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی لیڈیز یا بچے وغیرہ نہیں تھے۔ یعنی دونوں چھڑے چھانٹ کنوارے تھے، اور ایک نمبر کے بدتمیز، نالائق اور چھچھورے۔ خیر اسے تو آج تک کچھ نہیں کہا مگر آپس میں ان دونوں کی گفتگو اور مذاق اس قدر بھونڈے ہوتے تھے کہ وہ بعض دفعہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگتی۔ صبح ان کی بک بک اس نے ساری سنی تھی اور پھر جب وہ چابیاں دینے آیا تو اسے ہنسی آ گئی۔
آج اس نے بڑے نمونے کو خفا کر دیا تھا اور سزا کے طور پر اس نے اپنی بائیک پر اسے لفٹ نہیں دی تھی۔ ویسے یہ بھی سچ تھا کہ یہ طلحہ نام کا نمونہ ایک نمبر کا کام چور اور پیٹو تھا۔ کھانے کو جو مرضی دے دو، سب ہضم اور پکانے کی باری میں اسے یہ کام خالصتاً عورتوں کا لگتا تھا۔ دوسرا بے چارہ صبح شام عورتوں کی طرح کچن بھی سنبھالتا اور نوکری بھی کرتا۔ کسی دن وہ لیٹ ہو جاتا تو کھانا بازار سے آ جاتا تھا مگر وہ پیٹو نہیں ہلتاتھا۔ پتہ نہیں یہ شخص کیسے برداشت کرتا ہے ایسے انسان کو….؟ اسے تو یہ بھی نہیں علم تھا ان دونوں میں رشتہ کیا ہے اور ان کا کوئی آگے پیچھے بھی ہے یا نہیں۔
مئی کا آغاز تھا اور گرمی اچھی خاصی شروع ہو جاتی تھی اس لیے شام کو صحن میں بیٹھنا سب کو اچھا لگتا تھا۔ پھر ان کے صحن میں دو تین درخت تھے جن کی ہوا میں بیٹھ کر سکون ملتا تھا، اور وہ سب شام کی چائے یہیں بیٹھ کر انجوائے کرتے تھے۔ اس وقت بھی نرمین کے علاوہ وہ سب چائے پی رہے تھے۔ نرمین کچن میں شام کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی، تب ڈور بیل ہوئی۔ باہر ان دونوں میں سے ایک نمونہ تھا جو چابی لینے آیا تھا۔ ابو نے اخلاقاً اسے بھی چائے کی دعوت دی تھی۔
”تھینک یو سو مچ انکل! مگر اس وقت گرمی سے برا حال ہے۔ آپ پلیز انجوائے کریں ٹی۔“ واہ بھئی واہ، یہ لوگ اتنے مہذب انداز میں بھی بول سکتے ہیں۔ بڑی حیرت کی بات ہے۔ یہ یقینا حارش تھا۔ اگر طلحہ ہوتا تو کبھی انکارنہ کرتا۔ اسے اپنی بات سوچ کر خود ہی ہنسی آ گئی اور کچھ دیر بعد ہی ادھر آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔
”حارش یار! چائے تو پلا دو، سچ سر میں شدید درد ہے۔“ پھر وہی پیٹو، جواباً کوئی آواز نہیں آئی تھی۔ شاید وہ اب تک ناراض تھا۔
”تھینک یو برادر۔“ یعنی چائے بھی اسی بے چارے نے بنائی تھی۔ کچھ دیر خاموشی رہی، پھر طلحہ کی پریشانی بھری آواز آئی تھی۔
”حارش! یہ کیا ہوا تجھے، او گاڈ یہ ہوا کیا ہے….؟“
”ایکسیڈنٹ….“ مدھم آواز گونجی۔
”کیا اور تو مجھے اب بتا رہا ہے، کب ہوا؟ اور زیادہ تو نہیں لگی چوٹ۔“ فکر، پریشانی، دکھ، ہر احساس نمایاں تھا آواز میں۔
”صبح ہی ہو گیا تھا، آج آفس گیا ہی نہیں ہاسپٹل تھا، وہاں سے گھر آ گیا۔“
”حارش‘ سارا دن تو اتنی تکلیف برداشت کرتا رہا اور مجھے فون تک نہ کیا، اتنا بُرا ہوں میں!“ وہ روہانساہوگیا۔
”یار طلحہ! ایسا نہیں ہے۔ میں نے سوچا تو پریشان ہو گا۔ دوپہر میں آفس سے بھاگے گا گرمی میں، بس اس لیے۔“
”تجھے میری اتنی فکر ہے اور میں کتنا خودغرض اتنی تکلیف کے باوجود چائے بھی تو نے بنائی، تو اب تو مجھے بتا سکتا تھا ناں۔ حارش یہاں کون ہے ہمارا۔ ایک دوسرے کے علاوہ۔ پڑوس بھی نیا ہے۔ کون جانتا ہے ہمیں۔ ہم نے خود ہی ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے۔ آئندہ تو نے ایسے کیا ناں تو میں گھر چھوڑ کے چلا جاﺅں گا، پھر سڑنا اکیلے۔ اس محلے میں تو کوئی ہم جیسوں کو پانی کا بھی نہ پوچھے۔ بیماری میں تڑپ تڑپ کے مر جائیں گے اور کسی کو خبر بھی نہ ہو گی۔“ کتنا جذباتی ہو رہا تھا وہ۔
”یو نو طلحہ! میں کبھی کسی سے بھی کوئی امید وابستہ نہیں رکھتا۔ انسانوں سے امیدیں باندھنا چھوڑ دی ہیں میں نے۔ پھر چاہے وہ پڑوسی ہوں یا اپنے اور ویسے بھی اس جہاں میں اپنا ہے ہی کون….؟ تنہا آئے تھے، تنہا چلے جائیں گے۔“ اس کا جواب پہلے والے سے بھی زیادہ چھو لینے والا تھا۔
”یعنی تو مجھے بھی ان اپنوں کی کیٹیگری میں کھڑا کر رہا ہے۔“ طلحہ بُرا مان گیا۔
”ایسانہیں ہے طلحہ! تو اچھی طرح جانتا تھا، میری زندگی کے ہر باب کو…. پھر تجھے اتنا اندازہ بھی ہو گا کہ میں نے اپنا ناطہ تعلق ختم کر ڈالا ہے سب سے، اور تو اگر میرے سامنے بیٹھا ہے تو صرف اس لیے کہ میں تجھے اور پھوپھو کو ان جیسا نہیں سمجھتا۔“
”اچھا چل دفع کر۔“ طلحہ نے اس کا موڈ آف دیکھ کر کہا۔
”تو ریسٹ کر۔“ اس نے حارش کو پکڑ کر کھڑا کیا۔ اس کے لیے صحن میں چارپائی ڈالی، بستر لگایا۔
”چل لیٹ جا، میں تیرے لیے کچھ لاتا ہوں کھانے کو۔“
”طلحہ! مجھے بھوک نہیں ہے یار! تو صرف اپنے….“
”اچھا بس، مجھے پتہ ہے۔ اب خوامخواہ پرانی باتوں کو ذہن پر سوار مت کرنا۔“ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ان کے ذکر پر وہ کس قدر ڈسٹرب ہوجاتا تھا۔ حارش نے اسے کوئی جوا ب نہیں دیا تھا، بس آنکھیں موند لیں۔ ذہن خودبخود ہی پیچھے چلا گیا۔
ض……..ض……..ض
”اُف او…. ایک تو یہ منحوس بچہ ہر وقت ندیدوں کی طرح میر بچوں کو کھاتے پیتے دیکھتا ہے۔ چار دن ماں کے گھر رہنے کیا آ گئی جان عذاب میں آ گئی میری۔ اللہ جانے بھابی اس عذاب مسلسل کو اپنے باوا کے گھر ہی کیوں چھوڑ کر نہیں آئیں۔“ دس سال کے اس معصوم بچے کو دیکھتے ہی ثمینہ باجی بولنے لگ گئیں اور شگفتہ آنکھوں میں آنسو بھرے اس بچے کا ہاتھ تھامے اندر آئیں اور اسے پٹخ دیا۔
”کتنی بار منع کیا ہے تجھے مت نکلا کر باہر۔ جو چاہیے مجھے کہہ دیا کرمیں یہیں لا دوں گی، مگر تو نہیں مانتا ناں میری۔“ ان کا غصہ اس معصوم پر نکلا تھا۔ دو تھپڑ اور ہزاروں دفعہ کی ڈانٹ اسے رُلا گئی اور وہ بے چارہ بیڈ پر اوندھا لیٹ گیا۔ خود وہ باہر چلی گئی تھیں۔ کتنی دیر بعد کمرے میں آئیں تو وہ اسی طرح لیٹا تھا۔ ان کا دل بر آیا۔ روتے روتے سو گیا۔ کیسی ماں تھیں وہ….؟ ایک طرف وہ معصوم سارے گھر والوں کی پھٹکار سہتا تھا، پھر رونے کوماں کا آنچل بھی نصیب نہ ہوتا۔ وہ کٹھور ہو جاتیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی سارا قصور اس کا ہی نکال دیتیں۔ زیادہ غصہ آتا تو دو چار لگا دیتیں۔ ایسے میں وہ بالکل تنہائی پسند ہوتا جا رہا تھا۔ اس گھر میں صرف ایک ماں کا رشتہ ہی تو سگاتھا، ورنہ تو ہر رشتہ سوتیلا تھا، حتیٰ کہ اس کے چھوٹے بھائی بہن تک اسے سوتیلا کہتے تھے، آخر تھے جو سوتیلے۔
اعظم علی سے ان کا دوسرا نکاح تھا اور حارش ان کے پہلے شوہر سے تھا۔ اعظم علی کی پہلی بیوی سے اولاد نہیں تھی اور صرف اولاد کی وجہ سے انہوں نے شگفتہ سے دوسرا نکاح کیاتھا۔ ان کے پہلے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا اور وہ ایک بچے سمیت ماں باپ کے گھر بیٹھی تھیں۔ لیکن بھابیوں نے ان کا وقت گزارنا عذاب کیا ہوا تھا۔ پھر جب اعظم علی سے نکاح ہوا تو انہوں نے سوچا شاید ان کے برے دن ختم ہوئے لیکن حارش کا مسئلہ تھا۔ نانا، نانی معصوم نواسے کو رکھ بھی لیتے لیکن ماموں، ممانیاں بالکل راضی نہ تھیں۔ دوسرا حارش کو اعظم علی نے خود بھی کہہ دیا تھا وہ اگر شگفتہ کے ساتھ آ جائے گا تو ہمیں کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔ شگفتہ نے سکھ کا سانس لیا، لیکن اعظم کے ماںباپ اور بہن بھائیوں نے حارش کو دل سے قبول نہ کیا۔ ان کا رویہ بہت سرد اور روکھا تھا۔ وہ حارش کو اپنے سامنے تک بیٹھا برداشت نہ کرتے تھے۔ اعظم علی البتہ اکثر اس کے لیے باہر سے کوئی چیز لے آتے۔ کبھی کبھار پیار سے بلا لیتے تھے لیکن ان کے رویے میں بھی سوتیلا پن نمایاں ہوتا تھا۔ ایسے میں ان کا دل کٹ جاتا۔ سگے نانا، نانی، ماموں نے نہیں رکھا تو پھر ظاہر ہے کہ یہاں تو رشتہ سوتیلا تھا۔
حارش یہاں آ کر بہت گم صم رہنے لگا تھا۔ ان کی توجہ بھی کم ہو گئی تھی۔ سارا دن کام میں گزر جاتا تھا۔ بھرا پُرا گھر تھا۔ صبح سے کام میں لگتیں تو شام میں بھی فارغ نہ ہوتیں۔ پھر تھوڑی دیر حارش کے ساتھ گزارتیں۔ رات کو وہ اعظم کی اماں کے کمرے میں سوتا تھا۔
سال یوں ہی گزر گیا۔ حارش سب کے رویے محسوس کرتا لیکن جب ماں کا آنچل ملتا تو سب بھول جاتا۔ لیکن جب اعظم علی کی پہلی اولاد ہوئی تو حارش مزید تنہائی کا شکار ہو گیا۔ اعظم علی کبھی کبھار جو توجہ اسے دے دیتے تھے اب وہ بھی ان کی آنکھوں میں چبھنے لگا۔ کیونکہ اب اللہ نے انہیں بیٹا عطا کر دیا تھا۔ وہ تمام گھر والے اس معصوم بچے کو مزید تکلیف دیتے اور شگفتہ کی توجہ بھی اب اس پر سے بالکل ختم ہو گئی۔
گھر کے کام اور ننھے ریان میں لگ کر وہ حارش کو خود سے بہت دور محسوس کرنے لگی تھیں۔ انہیں اپنے معصوم کی فریاد اور شکوہ کرتی نگاہیں بے کل کرتیںاور اگر کبھی ریان سے ہٹ کر وہ حارش کے پاس بیٹھ جاتیں اور ننھا رونے لگ جاتا تو اس کی ساس بہت زیادہ برا مناتیں۔ حد تو جب ہو جاتی جب وہ ریان کی وجہ سے حارش کو مارنے بھی لگ گئی تھیں اور یہ بات ان کا دل چیر دیتی۔ انہوں نے حارش کو سمجھایا بھی تھا کہ وہ زیادہ وقت کمرے میں گزارا کرے۔ مگر وہ بچہ تھا ہنسنے کھیلنے کو مچلتا تھا۔ کبھی ریان کے پاس آ بیٹھتا تو دادی، پھپھو ڈانٹ کر اٹھا دیتیں اور وہ آنکھوں میں آنسو لیے کمرے میں جاتا اور لیٹ کر رونے لگتا۔ اسے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا یہ ہی ایک طریقہ آتا تھا۔
اسکول سے شکایت آئی تو اعظم علی نے اسے ڈانٹا بھی اور مارا بھی۔ اس دن وہ بھی رو دی تھیں۔ شاید ان کے آنسوﺅں کی وجہ سے اعظم نے اسے ٹیوشن ڈال دیا۔ آفٹر آل شگفتہ بیگم کی وجہ سے آج وہ صاحب اولاد تھے۔ اتنی تو قدر تھی انہیں اپنی بیوی کی۔ ٹیوشن کیا رکھی کہ حارش اب بالکل بھی ان کے پاس نہیں رہتا تھا۔ اسکول سے مدرسے اور شام میں ٹیوشن، رات کو آتے ہی سو جاتا۔ اکثر اب وہ رات میں کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ گھر کا کوئی فرد یہ بات محسوس کرے نہ کرے انہیں تو پتہ تھا ناں کہ ان کا بچہ بھوکا سویا ہے۔ وہ اپنے آنسو پی کر رہ جاتیں۔ اتنی بے قدری تھی ان کے بچے کی۔ اگر یہ لوگ سمجھ بوجھ والے ہوتے تو حارش کو کو آنکھوں پر بٹھا کر رکھتے کہ اس کے نصیب سے ہی ان کے سونے گھر میں بچے کے قلقاریاں گونجی ہیں۔ یہ اس قدر جاہل لوگ تھے کہ بس۔ دوسری طرف ان کے اپنے ماں باپ، بھائی بھابیاں ان کے بیٹے کی شکل دیکھنے کو راضی نہ تھے۔ آخر وہ کیا کرتی….؟ حارش کا کیا مستقبل ہو گا….؟ یہ سوچ سوچ کر گھلتی رہتیں۔
وقت تیزی سے گزر رہا تا اور جیسے جیسے حارش بڑا ہو رہا تھا اتنا ہی حساس ہو رہا تھا، لیکن پے درپے چار بچوں کی پیدائش نے ان کو ضرورت سے زیادہ مصروف کر دیا تھا، اور جیسے جیسے بچوں کو شعور آ رہا تھا وہ بھی حارش سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ حارش چوری چھپے ان کے ساتھ کھیلتا، خوب خوش ہوتا، مگر اب ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ حارش سے ان کا کوئی رشتہ نہیں ہے اور وہ ان کا سوتیلا بھائی ہے۔ یہ بات ریان نے سب سے پہلے سیکھی۔ اب وہ بھی حارش کو دیکھتے ہی چڑجاتا اور اگر وہ مخاطب کرتا تو بدتمیزی سے پیش آتا۔ پہلے پہل انہوں نے ریان کو پیار سے سمجھایا مگر اس پر اثر نہ ہوا کہ اس کی فیور میں سارا خاندان تھا۔ آخر انہوں نے حارش کو ہی منع کر دیا اور پہلی بار انہوں نے حارش کے منہ سے کوئی ایسی بات سنی تھی کہ اندازہ ہو گیا کہ صرف گھر والوں سے ہی نہیں خود اپنی ماں سے بھی وہ بدگمان ہو چکا ہے۔
”آپ کو میری ضرورت نہیں تھی تو آپ مجھے مار دیتیں۔ آج مجھے اتنی اذیت نہ سہنی پڑتی۔“ کتنے آنسو اترے تھے اس کی آنکھوں میں، مگر اب اس نے آنسوﺅں کو پینا سیکھ لیا تھا۔ اس دن کے بعد اس نے ماں کو مخاطب تک کرنا چھوڑ دیا۔ اس کا میٹرک کا سال تھا لیکن وہ دیکھ رہی تھیں کہ وہ اب سارا دن باہر رہتا تھا۔ کہاں جاتا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ انہیں علم نہ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے رات میں بھی آنا کم کر دیا تو وہ پریشان ہوئیں، لیکن اس کا اظہار وہ کس سے کرتیں کہ اعظم علی نے پھر اسے مارنا پیٹنا تھا۔انہیں پرواہ کب تھی۔ ظاہر ہے وہ صرف ان کا بیٹا تھا۔ یوں بھی اپنے چار بچوں کے بعد حارش کو وہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ اگر وہ اس کی ضروریات پوری کرتے تھے تو صرف شگفتہ کی وجہ سے، ورنہ گھر والوں کے کہنے میں آ کر وہ کب کا اسے گھر سے پھینک چکے ہوتے۔
اس کے ایگزام کے لیے فیس جمع کرانی تھی لیکن پتہ نہیں وہ گھر کیوں نہیں آ رہا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو اس نے اسکول چھوڑ دیا ہو….؟ غلط دوست نہ بنالیے ہوں….؟ جانے کیسے کیسے وہم ہر وقت پریشان کر کے رکھتے تھے۔
آج کئی دن کے بعد وہ آیا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ تقریباً سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ دروازہ انہوں نے ہی کھولا تھا۔ اسے دیکھتے ہی جان میں جان آئی۔ لیکن وہ اس سے یہاں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے کمرے میں لے آئیں۔
”کہاں تھے تم اتنے دن سے؟ اور کن لوگوں میں رہنے لگے ہو؟ جانتے ہو میں کتنی پریشان تھی۔“
”آپ کو بھی فکر ہوتی ہے میری….؟ کتنا کاٹدار لہجہ تھا۔
”حارش! زبان درازی مت کرو۔ آج کے بعد تم مجھے بتائے بنا کہیں نہیں جاﺅ گے۔ تمہارے پیپرز ہونے والے ہیں اور تمہیں پرواہ….“
”اس کی پرواہ ہے مجھے لیکن میں اب آپ کے شوہر کا مزید احسان لینا نہیں چاہتا اسی لیے میں نے خود اپنا بوجھ اٹھانا سیکھ لیا ہے۔ آپ برائے مہربانی میری فکر چھوڑ دیں اور صرف اپنے بچوں کی فکر کریں۔ میں اب الحمدللہ اپنا خیال رکھ سکتا ہوں اور میں آپ کو صرف یہ ہی بتانے آیا تھا کہ اب میں یہاں نہیں رہوں گا۔ اپنے کپڑے اور کتابیں اٹھانی تھیں، سو اس لیے آیا تھا۔“ اس نے اپنی بات مکمل کی اور اٹھ کر اپنی چیزیں سمیٹنے لگا۔ بُت بنی شگفتہ کی طرف دیکھا تک نہیں۔
”تم اتنے بڑے ہو گئے ہو حارش کہ اپنے فیصلے خود کر لو۔“
”بڑا تو میں اسی دن ہو گیا تھا جس دن اعظم علی کا بیٹا اس دنیا میں آیا تھا،بس اب تو آپ کو علم ہوا ہے۔ اتنے سال ہو گئے ہیں آپ نے کبھی میرے بارے میں سوچا بھی ہے۔ میں اپنے فیصلے خود ہی کرتا آ رہا ہوں۔ آپ کو آج خیال آیا ہے۔“ اس نے تمام چیزیں اٹھائیں، ان کو جواب دیا اور پھر بنا ان کی شکل دیکھے وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ وہ گم صم کھڑی تھیں جب وہ نکلا تو تیزی سے اس کے پیچھے لپکیں لیکن تب تک وہ دروازہ کراس کر گیا تھا۔ وہ وہیں ڈھے گئیں اور رو پڑیں۔
ض……..ض……..ض
”بچے! اپنی ماں سے بدگمان مت ہونا۔ وہ بےچاری مجبور ہے لیکن اس کاکلیجہ بھی پھٹتا ہے تیرے ساتھ سب کا رویہ دیکھ کر۔“ پھوپو اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔
”آج تک میرے ساتھ جو بھی زیادتی ہوئی ہے انہی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اگر وہ ایک بار بھی میری سائیڈ لیتیں تو شاید وہ لوگ مجھے اس طرح نہ دھتکارتے۔ انہوں نے تو ہمیشہ دوسروں کی غلطی پر بھی مجھے مارا ہے۔ پھر بھی آپ ان کی سائیڈ لے رہی ہیں۔“ وہ اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتا تھا۔ پھوپھو کو لگا فی الوقت اسے سمجھانا بے کار ہے کیونکہ اس کے زخم ابھی تازے تھے۔
وہ اعظم علی کی کزن تھیں مگر جس دن سے شگفتہ بیاہ کر اعظم کے گھر آئی تھیں وہ اس معصوم بچے پر ہونے والے ہر ظلم کو دیکھ رہی تھیں۔ شگفتہ جب بچوں میں مصروف ہو کر حارش کی طرف سے بالکل ہی لاپرواہ ہو گئیںتو انہوں نے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔ حارش کو بھی ان کی محبت بے غرض اور پُرخلوص لگی تو وہ ان سے اٹیچ ہو گیا۔ وہ اسکول کے بعد پھپھو کے پاس آ جاتا۔ سارا دن یہیں گزارتا، طلحہ کے ساتھ کھیل کر، اس کے ساتھ بیٹھ کر ہوم ورک کر لیتا۔ شام کو گھر آ کر سو جاتا۔ اکثر وہ کھانا بھی پھپھو کی طرف ہی کھا لیتا تھا۔ اگر پھوپھو نہ ہوتیں تو جس طرح اس کی مما اس کی ذات سے لاپرواہ ہو گئی تھیں یا تو وہ مر جاتا ورنہ پھر غلط ہاتھوں میں چلا جاتا، لیکن پھوپھو کی ماں جیسی محبت نے اس کی ذات کا اعتماد کھونے نہ دیا۔ وہ دن بدن ان کے اور طلحہ کے قریب ہوتا چلا گیا۔
جب وہ آٹھویں میں تھا تو اس نے اسکول کے ساتھ ساتھ شام میں الیکٹریشن کی شاپ پر جانا شروع کر دیا۔ کچھ اس کا انٹرسٹ تھا کہ وہ الیکٹریکل انجنیئر بننا چاہتا تھا، کچھ ا س کی ضرورت، کیونکہ اعظم علی پر مزید بوجھ بن کر اپنی زندگی مزید برباد کرنا نہیں چاہتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی چیزیں اپنی پاکٹ منی سے جو دکان سے ہر ہفتے ملتی تھی خریدنا شروع کر دیں اور اب جبکہ وہ میٹرک میں تھا تو اچھا خاصا کام بھی سیکھ چکا تھا۔ وہ اب بھی شام میں اسی شاپ پر کام کرتا تھا۔ اب اس کی پاکٹ منی بھی بڑھ چکی تھی۔ سو اسے لگا کہ اب وہ خود اپنا خرچ اٹھا سکتا تھا، اس لیے وہ اپنی مما کا گھر چھوڑ کر پھوپھو کے پاس آ گیا۔
طلحہ اس کے مستقل آنے سے بہت خوش تھا۔ اب وہ صبح میں مل کر اسکول جاتے۔ پھر شام میں اکٹھے کام پر۔ چونکہ پھپھو بیوہ تھیں اور وہ خود سیکنڈری اسکول میں ٹیچر تھیں، طلحہ بھی چاہتا تھا وہ اپنی مما کے ساتھ مل کر کام کرے۔ دونوں کا وقت اچھا گزر جاتا۔ ساتھ ہاتھ میں ہنر بھی آ گیا تھا، اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا انہیں اچھا لگتا تھا۔ وقت اسی طرح گزرتا چلا گیا۔ اس کی مما، پھپھو کے گھر آ جاتی تھیں کبھی کبھار اس سے ملنے۔ لیکن اس کے دل پر اب گہری گرد چھا چکی تھی۔ وہ اپنی مما سے بہت دور جا چکا تھا۔ اسے اب ان کی آنکھوں کی نمی ڈھونگ اور ان کا پیار محض ڈرامہ لگتا تھا۔
کتنے سال یوں ہی بیت گئے۔ وہ دونوں تعلیم مکمل کر کے اب پروفیشنل لائف اسٹارٹ کر چکے تھے اور اپنی پسندیدہ جاب پا کر وہ بہت خوش بھی تھے۔ طلحہ ہر قدم پر اس کے ساتھ تھا۔ ان دونوں نے اپنی الیکٹریشن شاپ بنا رکھی تھی۔ جاب سے پہلے ہی، سو جاب کے بعد بھی وہ اکثر شام کا وقت وہیں گزارتے کہ بے کاری سے بہتر کارگزاری،اور اس طرح وہ کافی پیسہ سیو کر لیتا تھا۔ پھوپھو تقریبا۱ اس کی ساری پے منٹ سیو کرتی تھیں۔ دوکان سے ہی وہ اپنی ضرورت پوری کر لیتا تھا۔ یوں جلد ہی اس نے اتنے پیسے کر لیے کہ اپنا خود کا گھر خرید سکے۔ اب وہ اسی کوشش میں تھا۔ انہی دنوں اچانک پھپھو کی طبیعت خرب ہوگئی۔ ہائی بلڈپریشر کی وہ مریضہ تو تھیں لیکن اچانک ان کا بی پی بہت ہائی ہو گیا۔ وہ فوراً ہسپتال لے گئے مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ پھپھو کے دماغ کی رگ پھٹ چکی تھی، جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی ہار بیٹھیں۔ اس دن حارش کو لگا کہ اب وہ بالکل تنہا رہ گیا ہے۔ یتیم ہو گیا ہے۔ لیکن طلحہ کی حالت اس سے بھی بری تھی۔ وہ بھی تنہا ہو گیا تھا۔ ان دونوں نے ہی اب ایک دوسرے کو سنبھالنا تھا، کیونکہ اس دنیا میں ان کا ایک دوسرے کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
کافی وقت لگا تھا انہیں خود کو سنبھالنے میں۔ مگر وقت نے آخر انہیں سنبھال ہی لیا۔ وہ دونوں تھے اور زندگی کا ایک نیا سفر۔ پھوپھو کے بغیر گھر کھانے کو آتا تھا۔ اب اس گھر میں دل نہ لگتا اس لیے دوسرے علاقے میں گھر خرید لیا اور وہاں شفٹ ہو گئے۔ دکان بھی ختم کر دی۔ اب صرف جاب تھی اور گھر کے کام۔ شام میں دونوں اکٹھے ہوتے تو الٹی سیدھی گپیں، گانے اور مذاق کر لیتے جس سے زندگی تھوڑی سہل ہو گئی تھی اور نئے گھر میں بھی ان کا من لگ گیا تھا۔ آخر زندگی کو تو گزارنا تھا تو وہ ہنسی خوشی سہی۔
ض……..ض……..ض
دو دن تک طلحہ نے اسے آفس نہیں جانے دیا۔ خود بھی چھٹی کی تاکہ اس کا مکمل خیال رکھ سکے۔ کتنی حیرت کی بات تھی ناں کہ پچھلے دو دن سے وہ پڑوسیوں کے مہمان تھے اور تینوں وقت کا کھانا ان کے گھر سے آ جاتا تھا۔ حارش نے بہت منع کیا مگر وہ انکل نہیں مانے اور پھر ان کا بیٹا جو تقریباً ان کا ہی ہم عمر تھا، اچھے دوستوں کی طرح ان کا خیال رکھ رہا تھا۔
”حارش! کیا بات ہے یار؟ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ آج کل اتنی شرافت اور نیک نیتی کا زمانہ کہاں ہے۔“
’بک نہیں…. یہ لوگ بہت شریف ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ گھر کا باورچی بیمار ہے تو کوکنگ کون کرے گا۔ تجھ جیسے بے حس سے انہیں بھی امید نہیں کہ چائے ہی پلا دے گا مجھے۔“
”کیا، کیا یعنی….میں….“ وہ چیخا۔
”بس بائیکاٹ…. میں اب تجھ سے بات نہیں کروں گا،دو دن میں ہی بدل گیا۔“ اس نے منہ پھلایا تو حارش ہنس دیا۔
”ارے میرا بھائیٍ تو خفا ہو گیا، میں تو مذاق کر رہا تھا تجھ سے۔ تو نہ ہوتا تو بھلا آج میں یہاں ہوتا؟ جانے کہاں کہاں کے دھکے کھا رہا ہوتا۔“ وہ اب پھر سنجیدہ ہونے لگا تھا۔ طلحہ نے اسے گھورا۔
”اور اگر تو نہ ہوتا تو امی کے بعد میں بھی دھکے کھا رہا ہوتا۔ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں۔“
”ہاں طلحہ! یہ تو ہے یار۔ ایک دوسرے کے بغیر ہمارا ایک پل کا بھی گزارہ نہیں ہے۔“ وہ دونوں باتیں کر رہے تھے جب کاشف آیا۔
”ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے….؟“
”ارے نہیں یارٍ آﺅ ناں بیٹھو۔“
”تھینک یو۔“ وہ ان کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔
”دراصل مجھے ابو نے بھیجا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آج شام تم دونوں کھانا ہمارے ساتھ گھر کھاﺅ۔“
”کم آن کاشف! دو دن سے تم لوگوں کوہم زحمت دے رہے ہیں، یہ کافی نہیں ہے۔ پلیز یار…. اب مزید کیوں۔“
”زحمت کی کیا بات ہے یار! پڑوسیوں کے حقوق کتنے ہیں یہ تو تم بھی جانتے ہو، آئندہ ایسی باتیں مت کرنا۔ ہمیں علم ہے کہ تم خود اچھے خاصے سگھڑ ہو مگر ایک دو دن ریسٹ کرو۔ تمہارا بازو ٹھیک ہو جائے تو پھر بے شک سنبھال لینا اپنا کچن۔“ اس کی بات پر وہ ہنس دیا۔
”تھینک یو یار! تم لوگوں نے ہمارا اتنا خیال کیا وگرنہ ہم اس محلے میں بالکل نئے تھے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ ہمیں اچھے لوگ مل گئے ہیں۔“ وہ تہہ دل سے مشکور تھا ان کا۔ شام میں دل تو نہیں کر رہا تھا، پہلی بار ان کے گھر جاتے ہوئے جھجک رہے تھے، پر انکل خود دوبارہ بلانے آئے تو انہیں جانا پڑا۔ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ خوبصورتی سے سجا ڈرائنگ روم بہت اچھا پُرسکون سا لگا۔ حالانکہ گرمیوں کا موسم تھا، ان کے جاتے ہی انکل نے کھانا لگوا لیا۔ ان کے ساتھ کھانے کے دوران وہ ہلکی پھلی گفتگو کرتے رہے۔ طلحہ کے چٹکلے تو ظاہر ہے کم نہیں ہو سکتے تھے، کھانے کے بعد انہوں نے چائے بنوائی۔
”اور حارش! اب بازو کیسا ہے بیٹا….؟“
”بہت بہتر ہے انکل! تھینک یو ویری مچ! آپ لوگوں کی مہربانی سے….“
”یہ ہماری مہربانی نہیں ہے، ہمارا فرض تھا اور بس۔ اور ہاں، آئندہ بھی کسی بھی طرح کی ضرورت ہو تو فوراً بتا دینا، بالکل بھی اکیلا مت سمجھنا خود کو۔“
”جی بہت بہت شکریہ۔“
”اچھا چھوڑو یہ شکریہ…. یہ بتاﺅ تم لوگ کس علاقے کے رہنے والے ہو، یہیں اپنے شہر کے….؟“
”جی انکل! ہم ملتان سے ہی بی لونگ کرتے ہیں، بس پہلے یہاں دوسرے ایریا میں تھے۔“
”اور تمہاری باقی فیملی….؟‘ کاشف کے سوال نے ان دونوں کے چہروں کی مسکراہٹ غائب کر دی تھی۔ یہ بات خود انہوں نے بھی محسوس کی۔
”ہم دونوں کا ایک دوسرے کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ ایک پھپھو یعنی طلحہ کی مما تھیں۔ سال بھر پہلے ان کی بھی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ اس لیے ہم پرانا گھر رینٹ پر چھوڑ کر یہاں شفٹ ہو گئے۔ پھپھو کے بعد اس گھر میں ہمارادل نہیں لگتا تھا۔“ حارش کی بات سن کر لمحے بھر کو وہ بھی چپ رہ گئے۔
”آئی ایم سوری بیٹا!“ انکل نے افسوس کا اظہار کیا۔
”لیکن بیٹا! خود کو کبھی اکیلا مت سمجھنا، کوئی بھی کام ہو دکھ تکلیف ہر چیز میں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔“
”تھینک یو انکل۔“ اس بار طلحہ بولا تھا۔ کافی دیر وہ لوگ بیٹھے رہے، پھر اجازت لے کر آ گئے۔
ض……..ض……..ض
”بچے اس دنیا میں اکیلے ہیں۔ اللہ کی مصلحت، کتنے پیارے بچے ہیں دونوں۔ سمجھدار، ذمہ دار….“ دادی کو تو ان سے بہت ہی لگاﺅ ہو گیا تھا۔ جس دن سے یہ پتہ چا کہ وہ دونوں بالکل اکیلے ہیں، ان سے اور زیادہ ہمدردی ہو گئی تھی۔
”ذمہ دار….“ حرمین کو ہنسی آ گئی۔ چلو حارش کے بارے میں تو بندہ کہہ سکتا ہے مگر طلحہ اور ذمہ دار۔
”تو کیوں دانت نکال رہی ہے۔“ دادی نے فوراً ٹوکا۔
”بس یوں ہی دادی! یہ اخبار میں لطیفے پڑھ رہی ہوں۔“
”اچھا سن…. شام تو ہو چلی ہے، تو دو کپ چائے بنا کر بھیج دے ان بچوں کے لیے، تھکے ہارے آئے ہوں گے آتے ہی چولہے میں گھسیں گے گرمی میں۔“
”اُف دادی! آپ نے تو انہیں بہت ہی….“ و ہ جھنجھلا گئی مگر اندر آتے کاشف کو دیکھ کر بات مکمل نہیں کی اور چپ ہو گئی۔
”حرمین ڈیئر! چائے تو پلاﺅ زبردست سی۔“ کاشف نے وہیں دادی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”جی بھیا! ابھی لاتی ہوں۔“ وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
”میں بھی یہ ہی کہہ رہی تھی اس سے کہ دو کپ چائے بنا کر دیوار پر رکھ دے حارش اور طلحہ کے لیے۔“
”دادی اماں! وہ ابھی گھر نہیں آئے۔ صبح طلحہ ملا تھا مجھے بتا رہا تھا کہ ان کے کسی رشتے دار کی ڈیتھ ہو گئی ہے انہیں وہاں جانا ہے۔ شاید وہیں چلے گئے ہوں گے۔“
”یقینا وہیں گئے ہوں گے۔“ تب ہی ابوبھی آ گئے اور دادی نے انہیں بھی بتایا۔
”پتہ نہیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ حارش اپنے رشتے داروں سے کٹا کٹا ہے، ذکر تک نہیں کرتا کبھی۔“ کاشف بولا، ابو بھی کچھ سوچ رہے تھے۔
”اماں! مجھے حارش کو دیکھ کر جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ میں نے پہلے بھی اسے دیکھا ہے۔ کچھ جانی پہچانی سی شکل اپنا پن سا محسوس ہوتا ہے اسے دیکھ کر۔ مگر اس سے پوچھنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی کہ معلوم کروں وہ کون ہے۔ اس کے والد اس کا خاندان….؟ ایک عجیب سا کھنچاﺅ ہے جو مجھے اس کی طرف کھینچتا ہے۔“ ان کے لہجے میں حارش کے لیے اپناپن صاف چھلک رہا تھا۔ حرمین تو دادی کو ہی کہہ رہی تھی، اب تو ابو بھی ان کے شیدائی نظر آ رہے تھے۔ وہ سب کو چائے دینے لگی۔
”ڈیتھ کس کی ہوئی ہے….؟“ ابو، کاشف سے مخاطب تھے۔
”معلوم نہیں…. حارش تو اس معاملے میں بات کرنا ہی نہیں چاہتا تھا، طلحہ نے مجھے بتایا ہے۔ آئی تھنک وہ حارش کو فورس کر رہا تھا جانے پر، کیونکہ وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔“ کاشف کی بات انہیں الجھا گئی۔ اس کے لہجے میں رشتے داروں کے لیے تلخی تو وہ محسوس کرتے تھے کیونکہ وہ صاف الفاظ میںکہتا تھا کہ اس کا دنیا میں کوئی رشتہ ہے ہی نہیں، جو کچھ بھی ہے صرف طلحہ ہے اور بس۔
ض……..ض……..ض
”حارش یار پلیز! اب تو غصہ تھوک دے۔ دیکھ اگر تو وہاں چلا گیا تھا تو کیا عذاب آ گیا؟“
”میں گیا نہیں تھا، تم زبردستی لے کر گئے تھے مجھے۔“ وہ بھڑک اٹھا۔ اس نے تو قسم کھائی تھی اب دوبارہ زندگی میں اعظم علی کے گھر نہیں جائے گا، مگر اعظم علی کی ڈیتھ کی خبر آئی تو طلحہ زبردستی اس لے گیا تھا۔
”مجھے پتہ ہے کہ میں تجھے لے گیا تھا، اگر کوئی غیربھی ہوتے تو تم ضرور جاتے، تو کیا فرق پڑا کہ تم چلے گئے۔“
”طلحہ! میرا ہر زخم تازہ ہو جاتا ہے وہاںجا کر۔“ اس کے لہجے میں درد تھا، طلحہ سمجھتا تھا۔
”آئی نو…. لیکن تجھے پتہ ہے حارش! آنٹی شگفتہ کی آنکھیں تجھے کس بے تابی سے ڈھونڈ رہی تھیں۔ کاش تو ایک بار اندر جاکر ان سے مل لیتا۔ انہوں نے مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھا تو میں کہہ بھی نہ سکا کہ تم آئے ہو۔“
”اچھا کیا، وہ میرے اندر کے دکھوں کی ذمہ دار ہیں۔ میں ان سے ملنا نہیں چاہتا۔“شاید اس کے بچپن کے حالات تھے ہی ایسے کہ وہ ماں سے بھی بدگمان تھا، کاش شگفتہ اپنی تمام تر مصروفیت میں سے اس کے لیے بھی کچھ توجہ پیار نکال پاتیں۔ ان کی بے توجہی نے آج ان کے بیٹے کو بہت دور کر دیا تھا ان سے۔
”تمہارے نانا اور ماموں بھی تمہیں دیکھ رہے تھے۔“
”طلحہ! کیا مسئلہ ہے تیرے ساتھ….؟ آج تو کیوں میرے زخم ہرے کر رہا ہے، جب ایک بار میں کہہ چکا ہوں کہ میرا کوئی ہے ہی نہیں تو کیوں ایک ایک رشتے میرے سامنے لے کر گن رہا ہے۔“ اس کی برداشت کی حد ختم ہو چکی تھی۔
”رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے حارش! صرف تمہارے کہنے سے کہ تمہارا کوئی نہیں ہے، سارے رشتے مر نہیں جائےں گے۔ تلخیاں زندگی کا حصہ ہیں بیٹا! مگر ان سے تاعمر منہ نہیں موڑ سکتے تم۔ ہاں کچھ قت ایسا آتا ہے کہ ہم سب سے کٹ جاتے ہیں، لیکن خون کے رشتے یوں نہیں ٹوٹتے۔“ انکل جانے کب آ گئے تھے۔ اس کے اندر کی تلخی محسوس کیے بنا نہیں رہ سکے۔
”انکل! اپنے نصیب میں خون کے رشتے تھے ہی کہاں۔ سارے رشتے ملے وہ بھی سوتیلے اور ظاہر ہے سوتیلے رشتوں کا زہر تو رگوں میں اترنا ہی تھا ناں، سو مجھے رشتوں ناتوں نے صرف زہر دیا ہے۔ بدگمانی اور نفرت سکھائی ہے۔ پھر آپ بتائیں میرے اندر سے اور کیا نکلے گا سوائے اس کے کہ میرا کوئی ہے ہی نہیں۔“ اس کا لہجہ بھیگ گیا۔
”سوتیلے رشتے۔“ وہ کچھ اچنبھے سے بولے۔
”انکل! حارش کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی اس کے پپا کی ڈیتھ ہو گئی تھی اور آنٹی کو ان کے سسرال نے منحوس اور بدنصیب جیسے طعنے دے کر گھر سے نکال دیا۔ آنٹی چھ ماہ کے بچے کو لیے اپنے ماں باپ کے گھر آ گئیں۔ دو سال گزر گئے۔ جیسے جیسے حارش نے ہوش سنبھالا، اسے ماموں ممانیوں کی آنکھوں میں صرف نفرت ملی، وہ چاہتے تھے کہ یہ بچہ مر جائے یا کہیں دفع ہو جائے۔ انہی حالات میں شگفتہ آنٹی کا ایک رشتہ آیا، اعظم علی کا، جن کی پہلی بیوی سے اولاد نہیں تھی، سو وہ دوسری شادی کے خواہشمند تھے۔ حارش کے نانا نانی نے رضامندی دے دی۔ اس طرح آنٹی حارش کو ساتھ لیے وہاں سے اعظم علی کے گھر آ گئیں۔ انہیں لگا شاید ان کے معصوم بیٹے کو یہاں قدر مل جائے۔ یہ گھرانہ بچوں کو ترسا ہوا تھا مگر ایسا نہ ہوا۔ ان کے معصوم کی یہاں بھی تذلیل تھی۔ اعظم علی کی جب تک اپنی اولادنہ ہوئی تب تک وہ حارش کو پیار کرتے تھے مگر پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد حارش ان کے کیا اپنی ماں تک کے پیار کو ترس گیا اور جیسے جیسے وقت گزرتا رہا، حارش کے اندر رشتوں ناتوں سے نفرت پیدا ہوتی گئی، حتیٰ کہ آج یہ اپنی سگی ماں سے بھی بدظن ہے۔“ طلحہ کی زبانی ساری بات سن کر ان کا دل بھر سا آیا تھا۔ انہوں نے حارش کو کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا۔
”آئی ایم سوری بیٹا! شاید تم بھی اپنی جگہ سچ ہو مگر ایک بات بتاﺅ…. تم نے کبھی اپنی مما سے اپنے سگے رشتوں کے بارے میں جاننے کی سعی نہیں کی؟ تمہارے پپا کے بہن بھائی، ماںباپ….“
”کس لیے جانتا انکل….؟ چھ ماہ کے بچے کو انہوں نے گھر سے نکالا تب انہیں خیال تک نہ آیا کہ وہ ان کے مرحوم بیٹے کی نشانی ہے، تو میں کیوں اپنے آپ کو مزید اذیت دیتا۔ انہیں تلاش کر کے اگر میں ان کے پاس چلا بھی جاتا اور وہ بھی میرے ساتھ وہ ہی سلوک کرے جو میرے سوتیلے رشتوں نے کیا پھر کیا بھرم رہ جاتا میرا….؟ اب تو دل کو پھر بھی یہ آسرا ہے کہ رشتے سوتیلے تھے، کم از کم خود کو تسلی تو دیتا ہوں کہ سوتیلے رشتے اپنے نہیں بن سکتے۔ آپ بتائیں انکل! اگر ایسا ہوتا تو پھر میں خود سے کیا کہتا….؟ میرا تو ہر رشتے سے اعتبار بالکل ہی اٹھ جاتا….“ کتنا بڑا سچ تھا جو وہ کہہ رہا تھا اس کی بات کی گہرائی جان کر وہ چپ سے ہو گئے۔
”کیا نام تھا تمہارے پپا کا….؟“
”سلطان عالم….“ اس کی زبان سے نکلا نام ان کی سماعتوں پر بم کی طرح گرا تھا۔ وہ بے یقینی سے اس کی شکل دیکھ رہے تھے۔
”کیا نام بتایا تم نے….؟ شاید انہیں سننے میں غلطی ہوئی ہو۔
”سلطان عالم۔“ حارش نے انکل کو غور سے دیکھا۔ ان کے چہرے کا اڑتا رنگ دیکھ کر ٹھٹھکا۔
”خیریت انکل….؟“
”تم سلطان کے بیٹے ہو….؟“ ان کو اب بھی بے یقینی سی تھی، حارش، سلطان کابیٹا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی کا بیٹا۔ ان کا اپنا خون تھا وہ…. تب ہی اس کو دیکھ کر ان کو اپنے پن کا احساس ہوتا تھا۔ ہاں اس کے چہرے میں سلطان کی شبیہہ جھلکتی تھی، وہ جو اس کی صورت میں ہمیشہ کسی کا چہرہ تلاشتے تھے آج خود ہی جواب پا گئے۔ ان کی حالت طلحہ اور حارش دونوں ہی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ چہرے پر پھیلی بے یقینی اور آنکھوں میں بھرا پانی، لہجہ بھیگا بھیگا تھا۔
”کیا بات ہے انکل….؟“ طلحہ نے ان سے پوچھا، مگر وہ کوئی بھی جواب دئیے بنا تیزی سے چلے گئے اور انہیں پریشان چھوڑ گئے۔
ض……..ض……..ض