کشف بیٹا! اگر تم نے یہ فیصلہ صرف میری ذات کے سبب کیا ہے تو میں خوش ہوں، مگرمیںاتنا خودغرض نہیں ہوں بچے! میں سمجھتا ہوں تمہاری تربیت اور پرورش جس ماحول میں ہوئی ہے وہ گاﺅں کے ماحول سے بالکل الگ ہے۔ محض پندرہ دن گزار کر تم اتنا بڑا فیصلہ کر رہی ہو؟ یہ محض جذباتی فیصلہ ہے۔“
”نو ڈیڈ! حماد احسن کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ محض وقتی یا جذباتی نہیں ہے۔میں نے تمام تر حقیقتوں کو مدنظر رکھا ہے اور پھر ڈیڈ وہ بھی تو ڈاکٹر ہے میری طرح۔ یہ ہی خواہش تو تھی آپ کی…. ڈیڈ زندگی بھر پیسہ کمانا ہی تو مقصد حیات نہیں ہوتا۔ پیسے کی کمی مجھے نہ یہاں ہے اور نہ وہاں ہو گی۔ حماد احسن انسانیت کے لیے وہاں کے لوگوں کی ہمدردی میں ان کی خدمت کر رہا ہے اور میںبھی چاہتی ہوں کہ میں ان لوگوں کے لیے کچھ کروں اور رہی اس ماحول میں ایڈجسٹ کرنے کی بات تو مجھے وہاں کا پُرسکون ماحول یہاں سے اچھا لگتا ہے۔ یقین کریں ڈیڈ! یہ فیصلہ میں نے سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اس امید پر کہ آپ میرا ساتھ دیں گے۔“
”بچے! مجھے صرف تمہاری خوشی عزیز ہے اور بس! اگر تم خوش ہو تو وہی ہو گا جو تمہاری خواہش ہے۔“ ڈیڈ نے اسے تسلی دی تو وہ مسرور ہو گئی لیکن دھماکا تو ہونا تھا۔ جب مما کو یہ بات پتا چلی تو وہ فوراً ہی اس کے سر پر آ کھڑی ہوئیں۔ اتفاق سے بھیا بھی گھر پر تھے۔
”تم پاگل ہو گئی ہو کشف! اس گندے ماحول میں پندرہ دن گزار کر میری ساری تربیت پر پانی پھیرنا چاہتی ہو؟ کیا چاہتی ہو تم کہ تمہاری مما تا عمر تمہاری شکل نہ دیکھیں؟ میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی، ویسے بھی میں نے مسز بخاری سے کہہ دیا ہے دانیال بخاری کے لیے۔“
”مما! یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ میں فیصلہ کر چکی ہوں، میں صرف حماد احسن سے شادی کروں گی۔“
”آخر ان پست ذہن لوگوں نے تم پر کیا جادو کر دیا ہے جو تم ہماری بیٹی ہی نہیں رہیں؟‘
”خدا کے لیے مما! اتنی الٹرا ماڈرن ہیں آپ، اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، شہر کے جدید ماحول میں رہتی ہیں، ہائی سوسائٹی میں آپ کا نام ہے اور سوچ آپ کی کیا ہے؟ جادو ٹونے…. خدایا! مما وہ لوگ پست ذہن ہوں نہ ہوں مگر اس طرح کی باتیں نہیں سوچتے۔“
”بس یہ ہی ڈر تھا مجھے اتنی دیر تمہارے باپ کو اس گندے ماحول سے الگ کرنے میں لگی تھی اور اب تم چار دن رہ کر آئی ہو تو تمہاری زبان پر بھی ان کا ہی اثر ہے۔ لیکن کان کھول کر سن لو، میں ہرگز تمہاری شادی وہاںنہیں کروں گی۔ میں ابھی مسز بخاری کو فون کرتی ہوں کہ وہ دانیال اور تمہاری منگنی کی تیاری کریں۔“ ان کا انداز ایسا فیصلہ کن تھا کہ ڈیڈ کو مخالفت کرنی پڑی۔
”سلمیٰ پلیز! ہربات کو ضد اور اَنا کا مسئلہ مت بنایا کرو۔ ہمارے لیے ہمارے بچوں کی خوشیاں سب سے اہم ہیں۔“
”اگر وہ کنویں میں چھلانگ لگانا چاہیں تو لگانے دوں شاہ نواز احمد!“ وہ تلملا کر بولیں۔
”ساری عمر تمہاری میرے خاندان سے نفرت برقرار رہی ہے لیکن آج میں اپنی بچی کی خوشیاں تمہاری نفرت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا۔“ ڈیڈ کو شدید غصہ آ گیا اور وہ دونوں بہن بھائی جانتے تھے کہ ڈیڈ دل کے مریض ہیں، غصے سے ان کی طبیعت بگڑ جاتی ہے سو جہاں کشف لپکی وہیں احزاز شاہ بھی اٹھ کر آیا تھا۔
”ڈیڈ پلیز! آپ غصہ نہ کریں اور مما! اگر کشف نے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کیا ہے تو آپ کو کیوں اعتراض ہے؟ وہ بچی نہیں ہے اپنا اچھا بُرا سمجھتی ہے۔“ وہ پہلی بار اس سارے معاملے میں بولا تھا۔
”احزاز تم بھی؟ ارے یہ دونوں باپ بیٹی پاگل ہو گئے ہیں، کم از کم تم تومیرا ساتھ دو۔“
”ہاں ہیں ہم پاگل…. لیکن سلمیٰ بیگم! اب تم بھی کان کھول کر سن لو، جو کشف چاہتی ہے وہی ہو گا۔ میں دیکھتا ہوں کون مجھے منع کرے گا۔“ ڈیڈ چیخ کر بولے مگر اگلے ہی پل سینہ تھامنے لگے۔ مما پیر پٹختی اندر چلی گئیں اور وہ دونوں بہن بھائی ڈیڈ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ آرام سے ان کے کمرے میں لٹا کر انہیں دوائیں دے کر جب وہ باہر آئے تو احزاز شاہ بولا تھا۔
”کشف! یہ ساری زندگی کا معاملہ ہے، کیا تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے، تم وہاں لائف گزار سکتی ہو؟“
”یس برادر! میں نے بہت اچھی طرح سوچ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔“ اس کا لہجہ اٹل تھا۔
”اوکے،تمہاری مرضی! میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔“ احزاز یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا اور وہ مسکرا دی۔ یعنی بھیا بھی مان گئے، مما بھی مان ہی جائیں گی۔
ض……..ض……..ض
ڈیڈ کی طبیعت سنبھل نہیں رہی تھی کیونکہ روز ہی اسی مسئلے کو ڈسکس کیا جاتا تھا۔ افسوس کشف کو مما کے توہین آمیز روئیے پر ہوتا تھا۔ مما تو ان لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی تھیں۔ اپنے سسرال سے ہر عورت کو ہی شکایت ہوتی ہے۔ مگر مما کو تو ان سے نفرت تھی، وہ بھی انتہا درجے کی اور اس کی وجہ اسے سمجھ نہیں آتی تھی۔ اگر ان سے اتنا چڑتی تھیں تو ڈیڈ بھی ان میں سے ہی تھے، پھر مما نے انہیں کیسے قبول کر لیا تھا۔ ٹھیک ہی کہتا تھا حماد احسن۔ ”کشف! جتنا آسان تم سمجھ رہی ہو یہ سب اتنا آسان ہے نہیں۔“ اب واقعی اسے سمجھ آیا تھا کہ حماد احسن نے اپنی پوری تعلیم شہر میں مکمل کی مگر کبھی ان کے گھر کیوں نہیں آیا حالانکہ وہ ان کا سگا پھوپی زاد تھا۔ مما نے کتنے پیار بھرے رشتے ان سے ہمیشہ دور رکھے تھے۔ پھوپو، اماں، بڑے ابّا، چاچو…. صرف بڑے چاچو تھے ج
جو ان کے گھر آتے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی اپنی حقیقت بھول کر شہر کے اس دوغلے ماحول میں رچ بس گئے تھے۔
وہ بظاہر ناشتہ کر رہی تھی، آج اس کی ڈیوٹی آف تھی اور کچھ اپنی ذہنی پریشانی کی وجہ سے وہ کمرے سے ہی نہیں نکلی تھی مگر ذہن کہیں اور ہی الجھا ہوا تھا۔ ڈیڈ اور بھیا بھی ناشتے کے بعد اخبار دیکھ رہے تھے۔ ممااب تک سو کر نہیں اٹھی تھیں۔ ناشتے کے بعد وہ ڈیڈ کے پاس آبیٹھی جو اس کا مرجھایا چہرہ دیکھ چکے تھے۔
”کشف! بچے تم ٹھیک تو ہو؟“
”یس ڈیڈ!“ بظاہر بے پروائی سے کہہ کر اس نے ٹیبل پر دھرا اخبار اٹھا لیا۔
”مجھے پتا ہے بیٹا! تم اداس ہو،مگر فکر مت کرو، تم جیسا چاہو گی وہ ہی ہو گا۔“
”مگر ڈیڈ! میں مما کی مرضی کے بنا یہ کیسے کر سکتی ہوں؟ میری خواہش ہے کہ میری اس خوشی میں تمام لوگ دل سے شامل ہوں لیکن مما….؟“
”ایک بات کہوں اگر اپنی مما کی رضامندی کی فکر کرو گی تو یہ خواہش چھوڑ دو۔ جس عورت نے مجھ سے میرا ہر رشتہ چھڑوا دیا، میری ماں، باپ، بیوی بہن، چھوٹا بھائی…. اور اسے اس چیز پر ذرا پشیمانی نہیں تو وہ تمہیں بھی ان لوگوں سے ملنے نہیں دے گی۔“ ڈیڈ آزردہ لہجے میں بولے۔ احزاز نے کبھی ان باتوں پر غور نہیں کیا تھا پر آج وہ بھی سن رہا تھا۔
”ڈیڈ! مما کیوں اتنا بُرا سمجھتی ہیں ان لوگوں کو؟“
”کیونکہ تمہارے گرینڈ فادر یعنی نانا اور میرے بابا دونوں سگے بھائی ہیں۔ تمہاری ماں شروع سے اسی ماحول کی عادی تھی۔ اس کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی مجھ سے کر دی مگر وہ ہمارے گھر میںاور وہاں کے سادہ ماحول میں نہ رہ سکی۔ کوشش کرتی تو شاید رہ بھی سکتی تھی مگر تمہاری ماں کو تو یہ لگتا تھا کہ اس کی زبردستی شادی کر کے سب نے اس سے دشمنی نکالی ہے، وہ ناصرف اپنے والدین سے بلکہ میرے گھر کے ہر فرد سے خفا تھی۔ مجھ سمیت میرے تمام گھر والوں سے نفرت کرتی تھی، ہمیں جاہل، اجڈ، گنوار، اَن پڑھ جانے کن کن لفظوں سے نوازتی۔ اماں بی نے سب سہہ لیا کیونکہ وہ ان کے جیٹھ کی بیٹی تھی لیکن تمہاری ماں کی دن بدن بڑھتی نفرت نے میرے اندر لاوا بھر دیا اور ایک دن میں غصے میں اسے لے کر شہر آیا اور اس کے ماں باپ کے گھر چھوڑ گیا۔ میرے تایا مجھے روکتے رہے مگر میں نہیں رکا۔ گھر پہنچا تو میرے ماں باپ الگ مجھ پر برس پڑے کہ میں نے غلط کیابلکہ اگلے دن ہی وہ مجھے لے کر بھائی کے گھر شہر آ گئے۔ ان سے معافی مانگی اور تمہاری ماں کو منایا کہ گھر چلے لیکن تمہاری ماں نے صاف انکار کر دیا۔ بیٹا! ہمارے بزرگ یہ رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ دو بھائی الگ ہونا نہیں چاہتے تھے، اس لیے اباجی نے تمہاری ماں سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے اور اس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ”اگر وہ اپنے بیٹے کا گھر بسانا چاہتے ہیں تو اس کو یہاں شہر میں رہنے کی اجاز دیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میرے گھر کے کسی فرد کو مجھ سے ملنے آنے کی اجازت نہیں ہو گی، میں چاہوں تو خود گاﺅں جا کے مل سکتا ہوں۔“ مجھے یہ شرط قطعاً منظور نہ تھی مگر اباجی نے ان کی یہ بات بھی مان لی کہ میرا گھر نہ اجڑے، وہ نہیں سمجھ سکے کہ گھر دل سے بستے ہیں اور جب دلوں میں جگہ نہ رہے تو گھر نہیں بستے…. میں نے ان کی بات تو مان لی مگر ان سے شدید خفا ہو گیا، جب تک تایا رہے، مجھے سمجھاتے رہے، سلمیٰ سے بھی بازپرس کرتے رہے۔ مگر ان کے گزرجانے کے بعد سلمیٰ کو کسی کی پروا نہیں رہی۔ مجھے تو پہلے ہی کچھ نہ سمجھتی تھی، تایا جی کے بعد ان کا کاروبارمیرے کندھوں پر آ گیا اور یوں میں بھی اس مصروف ترین زندگی کا حصہ بن گیا۔ تم دونوں نہ ہوتے تو شاید میں کب کا چلا جاتا کیونکہ تمہاری ماں کونہ گھر کی فکر ہے نہ شوہر اور نہ بچوں کی…. وہ صرف اپنی ذات کے لیے جیتی ہے۔ ایسے میں اگر میں کوئی غلط فیصلہ کرتا تو تم دونوں کی زندگی تباہ ہو جاتی اور میں اپنے بچوں کو کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں نے تمہاری ماں کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو کاروبار اور بچوں میں مگن کر لیا۔ ماںباپ سے خفا تھا سو مڑ کر وہاںبھی نہیں گیا۔ لیکن تم نے خواہش کی جانے کی تو تمہیں منع بھی نہیں کیا۔“ پہلی بار ایسا ہوا کہ اس نے ڈیڈ کو اتنا کمزور شکست خوردہ دیکھا تھا۔ ان کی آنکھوں کے گوشے نم تھے۔ ہاں یہ سچ تھا کہ ڈیڈ کی توجہ اور محبت پا کر ہی وہ بڑے ہوئے تھے، مما کی اپنی مصروفیت تھی، ان کے پاس تو شاید اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں تھا۔
”ڈیڈ پلیز….!“ احزاز اٹھ کر ان کے پاس آ گیا۔ ”آپ کیوں دکھی ہو رہے ہیں، مما کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور آپ کشف کی شادی کی تیاری کریں۔“
”احزاز! تم چلو گے میرے ساتھ گاﺅں کشف اور حماد کی شادی کرنے کے لیے….؟“
”ڈیڈ میری ایک ہی بہن ہے، ہم اس کی شادی دھوم دھام سے کریں گے، یہیں اپنے گھر سے رخصت کریں گے۔“
”ہاں مگر بات کرنے کے لیے تو جانا پڑے گا نا!“
”جب آپ چاہیں میں تیارہوں، مگر آپ مما کی ٹینشن نہ لیں پلیز! آپ ٹھیک ہوں گے تو ہم جائیں گے نا!“
”میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے فکر یہ ہی تھی کہ کہیں تم بھی اپنی ماں کی طرح اڑ نہ جاﺅ مگر…. مجھے خوشی ہے کہ تم میرے ساتھ ہو۔“ واقعی شاہ نواز احمد کو احزاز شاہ کی رضا مندی سے حوصلہ ملا تھا۔ وہ بہت پُرسکون اور ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے خود کو۔
”ڈیڈ!“ احزاز نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما۔ ”میں جانتا ہوں مما کی طرح میں بھی اسی ماحول کا عادی ہو چکا ہوں اگر میں منع کرتا تو صرف اس لیے کہ کشف اس ماحول کی عادی نہیں ہے پر جب وہ ہی راضی اور خوش ہے تو بھلا مجھے کیا اعتراض….“
”شکریہ برادر!“ کشف نے بھائی کو مشکور نظروں سے دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔
ض……..ض……..ض
مما نے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ کشف انہیں منانا چاہتی تھی مگر ڈیڈ اور احزاز بھائی کا خیال تھا کہ فی الوقت یہ کوشش فضول ہے، سو وہ بھی چپ ہو گئی۔ گاﺅں جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ ڈیڈ نے مما کو مطلع بھی کر دیا تھا اور اتوار کوڈیڈ اور احزاز دونوں ہی روانہ ہوئے تھے۔
گاﺅں پہنچے تو لمحہ بھر کو شاہ نواز احمد کی دھڑکن تھم سی گئی تھی۔ برسوں بعد وہ گاﺅں آئے تھے۔ اماں جی اور اباجی نے انہیں دہلیز پار کرتے ہی دیکھ لیا تھا۔ ان کی نکھیں ترس گئی تھیں اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے…. اماں جی تڑپ کے آگے بڑھی تھیں اور شاہ نواز احمد نے ان کے شانوں پر سر رکھ دیا۔ اباجی بھی ان سے گلے لگے کافی دیر کھڑے رہے۔
”السلام علیکم ماموں جی!“ اس کی آواز پر وہ اباجی سے علیحدہ ہوئے تو اپنے سامنے خوبرو اور ذہانت سے بھرپور آنکھوں والے نوجوان کو دیکھ کر فوراً پہچان گئے کہ حماد احسن ہی ہو سکتا ہے۔
”وعلیکم السلام بچے!“ انہوں نے گرم جوشی سے اسے گلے لگا لیا۔ حماد احزاز شاہ سے بھی تپاک سے ملا تھا۔
”اللہ کا شکر ہے کہ ڈیڈ کے علاوہ میں بھی کسی کو نظر آیا۔“ اس نے سنجیدگی سے گلہ کیاکیونکہ ایک تو اتنا لمبا سفرگاڑی میں اس نے پہلی بار کیا تھا۔ دوسرا یہاں پہنچے تو ڈیڈ، ڈیڈ ہی ہو رہا تھا اب تک اس پر کسی نے نظر تک نہ ڈالی تھی۔
”ارے بگ برادر سوری بھئی….“ حماد احسن نے مسکراتے ہوئے معذرت کی۔
”ماں صدقے جائے پُتر دے….“ اماں جی نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ زندگی میں پہلی بار تو وہ پوتے کو دیکھ رہی تھیں۔ ڈیڈ کے بعد اب اس کی باری تھی۔ سب نے باری باری اسے پیار کیا، پھوپو بھی آ گئی تھیں۔
”عبدالجبارنظر نہیں آ رہا اماں جی….“ کافی دیر گزرنے کے بعد ہی انہیں چھوٹا بھائی نظر نہیں آیا تو وہ پوچھ بیٹھے مگر جواب میں سب کے چہروں پر چھائی افسردگی انہیں فکرمند کر گئی۔ ”اماں جی! کیا بات ہے…. آپ لوگ اتنے چپ اور غمزد کیوں ہو گئے؟“ ان کے استفسار پر اماں جی رو دیں۔
”شاہ نواز پُتر! کل تیرے ویر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ بڑی بُری حالت ہے میرے بچے کی….“
”اباجی…. اماں…. آپ لوگوں نے مجھے اطلاع بھی نہیں دی؟“
”پُتر! بہو کے ڈر سے….“
”اماں! حد ہو گئی۔ صرف اس عورت کی وجہ سے آپ لوگوں نے مجھ سے میرا ہر رشتہ دور کر دیا ہے لیکن اس عورت کا غرور کم پھر بھی نہ ہوا۔ کہاں ہے عبدالجبار! مجھے ملنا ہے اس سے….“
”ماموں پلیز! آپ ابھی تھکے ہوئے آئے ہیں، کچھ دیر آرام کریں پھر میں آپ کو ہسپتال لے جاﺅں گا۔“
”اسپتال! مگر اس کے پاس وہاں ہے کون؟“
”پُتر! مدھو ہے وہاں…. اس کی دھی….!“
”حماد بیٹا‘ مجھے ابھی لے چلو،میں برسوں سے بچھڑا ہوا ہوں اپنوں سے…. اب صبرنہیں ہوتا۔ میرا چھوٹا بھائی اسپتال میں ہے، میں کیسے آرام کر لوں؟ تم چلو بچے!“
”شاہ نواز! کوئی چائے پانی تو پی لے۔ ابھی تو آ کے بیٹھا ہے۔“
”جی ڈیڈ! اللہ بہتر کرنے والا ہے، آپ پلیز اتنی فکرمت کریں۔ ابھی فریش ہو جائیں پھر چلیں گے۔“ احزاز ان کی طبیعت کے باعث پریشان ہوا، وہ تو گھر سے ہی ٹینس تھے اور اب چاچو کا ایکسیڈنٹ…. شاید احزاز کے سمجھانے کا اثر تھا کہ وہ خاموش ہو گئے۔ فریش ہو کر آئے تو کھانا تیار تھا۔ اباجی کی خاطر انہوں نے انکار نہیں کیا۔ احزاز بھی فریش ہو کر آ گیا تھا۔ کھانے کے فوراً بعد وہ جانے کو تیار تھے۔ حماد انہیں اپنی گاڑی میں اسپتال لے گیا تھا۔ عبدالجبار ابھی بھی انجکشن کے زیراثر تھے لیکن ان کے وجود سے لپٹی پٹیاں انہیں رُلا گئیں۔
”مدھو! ماموں…. کشف کے ڈیڈ!“ حماد نے ہونق بنی مدیحہ کو بتایا۔
”السلام علیکم! تایا جی!“
”جیتی رہو بچے!“ انہوں نے اس کا سر تھپکا تبھی عبدالجبار کے وجود میں جنبش ہوئی تو شاہ نواز ان کی طرف لپکے۔
”عبدالجبارمیرے بھائی! دیکھ تو…. میں تجھ سے ملنے آیا ہوں۔“ ان کے لہجے میں بے تابی تھی، آنکھوں میں نمی تھی۔ ان کی آواز پر عبدالجبار نے بمشکل آنکھیں کھولی تھیں۔
”بھائی جی…. آپ….؟“ ان کی آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے۔
”آنکھیں ترس گئیں…. بھائی جی آپ کو دیکھنے کو…. میری آخری خواہش تھی کہ زندگی میں ایک بار آپ سے مل لوں پھر رب چاہے سانس کی بھی مہلت نہ دے اور سوہنے رب نے پوری کر دی….“ وہ بہت مشکل سے بول رہے تھے۔
”نا میرے جھلے بھائی! ایسا نہ کہہ، اللہ تجھے میری حیات بھی لگا دے،اللہ تجھے صحت دے۔“ وہ تڑپ اٹھے تھے۔
”ماموں….!“ حماد نے انہیں پکارا اور آنکھوں کے اشارے سے زیادہ بات کرنے سے منع کیا۔
”اچھا! اب تُو زیادہ باتیں نہ کر، جلدی سے اچھا ہو جا پھر باتیں کریں گے۔ میں یہیں ہوں ابھی تیرے پاس….“ انہوں نے بھائی کا ہاتھ تھام کر تسلی دی۔ ”دیکھ تیرا بھتیجا بھی آیا ہے، تجھ سے ملنے….“ انہوں نے کہا تو احزازنے آگے بڑھ کر سلام کیا، وہ خوش ہو گئے۔
”جُگ جُگ جیو بچے! لمبی عمراں پاﺅ۔“ کافی دیر وہ اسپتال میں رہے مگر عبدالجبار کو زیادہ بولنا نہیں تھا تو انہوں نے منع کر دیا کہ وہ خاموش لیٹے رہیں۔ شاہ نواز نے مدیحہ کو اپنے پاس بلایا اور اس سے باتیں کرنے لگے۔ جب کہ حماد اور احزاز باہر نکل گئے۔ واپسی پر حماد اسپتال میں رہ گیا اور مدیحہ ان کے ساتھ آ گئی۔
”پُتر! نہالے، کل سے تُو نے اپنا کیا حلیہ بنا لیا ہے، جا میری رانی….“ اماں نے مدھو کا ماتھا چوما، وہ بھیگی آنکھیں لیے اٹھ گئی
”ہاجرہ! میری رانی کے لیے کھانا گرم کر کے لا، بھوکی ہے وہ کل سے….“ انہوں نے ملازمہ کو حکم دیا پھر بیٹے سے مخاطب ہوئیں۔ ”شا نواز! مدھو دو سال کی تھی جب ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا لیکن پھر کوثر بانو نے ماںبن کر اسے پالا۔ تیرے بہنوئی کی وفات کے بعد اس کے سسرال والوں نے اسے حویلی سے نکال دیا، چار سال کا حماد لے کر یہ یہاں آ گئی پھر حماد اور مدیحہ دونوں کو اس نے یوں پالا جیسے سگے بہن بھائی ہوں۔ مدھو اسے پھوپو نہیں، امی کہتی ہے حماد کی طرح اور حماد کو بڑا بھائی…. کل سے بچی پریشان ہے اسپتال سے گھر تک نہیں آئی۔“
”اماں جی! باپ کی حالت ایسی ہو تو اولاد کو کب سکون آتا ہے۔“
”اللہ میری رانی کی دعائیں قبول کرے، میرا بچہ جلد ٹھیک ہو کر گھر آ جائے۔“
”آمین….“ شاہ نواز نے دل میں کہا۔ مدھو کے آنے کے بعد اماں جی نے اسے زبردستی تھوڑا سا کھانا کھلایا تھا پھر اسے اپنی گود میں لٹا لیا۔
”کچھ دیر سو جا پُتر!“
”مجھے نیند نہیں آتی اماں‘ میرا دل ادھر بابا میں اٹکا رہے گا۔“
”اللہ خیر کرے گا بچے! اب کل سے تو بہتر ہے نا!“ وہ جواباً کچھ نہ بولی بس خاموشی سے آنکھیں موند گئی کیونکہ حماد احسن نے انہیں تسلی دینے کے لیے یہ ہی کہا ہو گا ورنہ وہ اور بھائی دونوں جانتے تھے کہ بابا کی حالت بہت سیریس ہے۔
”احزاز کہاں ہے شاہ نواز!“
”وہیں حماد کے ساتھ ہی ہو گا اماں جی!“ وہ بولے تبھی احزاز اندر داخل ہوا تھا اور شاہ نواز کے برابر میں آ بیٹھا۔
”ڈیڈ! یہ گاﺅں ہے، یہاں سہولیات کی کمی ہے کیوں نا ہم چاچو کو شہر لے جائیں اپنے ساتھ…. کسی اچھے اسپتال میں ان کی دیکھ بھال ہو گی تو وہ جلد سنبھل جائیں گے۔ میں نے حماد کو بھی یہ آئیڈیا دیا ہے کہ مزید دیر نہ کرے اور چاچو کو لے کر ہمارے ساتھ چلے۔“
”بچے! کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو، حماد سے میں بھی بات کرتا ہوں۔“
”پر شاہ نواز! یہاں وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے تو ہمیں حوصلہ ہے۔ اتنی دور ہم کیسے جائیں گے؟“ اماں کا لہجہ بھرّا گیا۔
”دادی! ہمت رکھیں چاچو کو وہاں اچھی ٹریٹ منٹ ملے گی، بڑے ڈاکٹرز ہوں گے، دیکھئے گا وہ بہت جلد اچھے ہو جائیں گے۔“ اس نے اپنی دادی کو تسلی دی۔
”چلو اللہ بہتر کرے گا۔“ فی الوقت سب خاموش ہو گئے، رات میں شاہ نواز اپنے بھائی کے ساتھ اسپتال میں رہے تھے۔ جب کہ احزازکو رات گزارنا مشکل ہو گیا۔ ایک نئے اور انجان ماحول اور جگہ پر نیند آنابہت دشوار تھا۔ ساری رات اس نے سوتے جاگتے گزاری تھی۔ کچھ دیر آنکھ لگی تھی کہ اذان کی آواز پر پھر سے جاگ گیا۔ وہ لان میں آ گیا لیکن وہاں آ کر اسے شدید حیرت ہوئی تھی۔ گھر کے سب لوگ جاگ چکے تھے۔ خواتین نماز ادا کر رہی تھیں۔ دادا جی بھی شاید مسجد سے آئے تھے، ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ وہ انجانی سی شرمندگی کا شکار ہو گیا۔ ایک وہ لوگ تھے جو شاید سالوں نماز ادا نہیں کرتے تھے، صرف عید کی نماز تھی جو وہ لوگ ادا کرتے تھے۔ ڈیڈ واحد انسان تھے ان کے گھر میں جنہیں اس نے نماز ادا کرتے دیکھا لیکن وہ بھی باقاعدہ نہیں اور یہاں…. اُف خدایا! ہم کیسے مسلمان ہیں؟ اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ فریش ہو کر اس نے وضو کیا اور نماز ادا کرنے مسجد گیا۔ واپسی پر اس کے دل کو بہت سکون ملا تھا۔ حویلی کے اندر قدم رکھا تو داداجی کی آوازمیں قرآن پاک کی تلاوت اس کی روح تک میں اُتر گئی۔ وہ ان کے پاس ہی پلنگ پر آبیٹھا۔ گھر کی خواتین بھی قرآن پاک پڑھ رہی تھیں لیکن داداجی باآواز بلند تلاوت کر رہے تھے جو اس کے دل و دماغ کو پُرسکون کر گئی تھی۔
”اور پُتر! رات کو نیندتو اچھی آئی نا!“ قرآن پاک رکھ کر داداجی نے پوچھا۔
”جی بس…. آ ہی گئی تھی۔“ حالانکہ وہ رات بھر سو نہ سکا تھا پھر بھی وہ انہیں تسلی دے گیا۔
”کشف تو ہمارے ماحول میں یوں رچ بس گئی تھی جیسے وہ ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہو۔ کئی دن اس کے جانے کے بعد حویلی میں سونا پن رہا۔ بڑی پیاری دھی ہے کشف….!“ ان کے لہجے میں کشف کے لیے بہت پیار تھا۔
”وہ بھی آپ لوگوں کو بہت یاد کرتی ہے۔“
”اس سے مل کو یوں لگا جیسے شاہ نواز کی نو عمری لوٹ آئی ہو۔ وہ ہی عادتیں، ویسا ہی مزاج، دوسروں میں گھل مل جانے والی…. مگر تیرا مزاج کچھ الگ ہے۔ لگتا ہے تجھے بھی ہم اچھے نہیں لگے نا!“
”تجھے بھی“ کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھتا تھا۔
”ارے نہیں دادا جی! ایسا نہیں ہے، بس میری طبیعت ہی ایسی ہے۔ میں خاموش رہتا ہوں نا اس لیے۔“ یہ سچ تھا کہ وہ کشف کی طرح جلد گھلنے ملنے والا بندہ ہرگز نہیں تھا۔ وہ تو اپنی ذات میں مگن، سنجیدہ مزاج، کم گو سا بندہ تھا اور پھر ظاہر ہے یہاں تو وہ زندگی میں پہلی بار آیا تھا۔
”مجھے لگا شاید تجھے بھی ہم اور ہمارا ماحول اچھا نہیں لگا۔“
”ایسی کوئی بات نہیں دادا جی! آپ سب لوگ بہت اچھے ہیں، میں خوش ہوں آپ لوگوں سے مل کر۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔ ان کی باتوں کے درمیان ہی ملازمہ نے ٹیبل وہاں رکھ کے ناشتا لگا دیا تھا۔
”چل پُتر! ناشتا کرتے ہیں۔“ داداجی نے کہا تو وہ بھی ناشتے کی طرف متوجہ ہوا۔ پراٹھے، لسی، مکھن اتنا سب کچھ ناشتے پر دیکھ کر وہ چپ نہ رہ سکا۔
”داداجی! میں اتنا بھاری ناشتا نہیں کرتا۔“
”ارے بچے! کچھ نہیں ہوتا۔ تُو نے کون سا روز آ کرکھانا ہے یہ…. چل کھا لے!“ دادی بھی آ گئیں۔
”نو دادی اماں! پلیز مجھے صرف چائے منگوا دیں، میں مزید کچھ نہیں لوں گا۔“
”خالی پیٹ چائے مت پینا، نقصان دیتی ہے۔“ دادی ابھی اسے ہدایت کر رہی تھیں کہ ملازمہ ٹرے سنبھالے آئی اور اس کے سامنے رکھ دی۔ سلائس، آملیٹ اور چائے۔
”شکریہ!“ وہ مسکرا دیا۔ ناشتے کے بعد وہ حماد کے پاس اسپتال چلا گیا۔ چاچو کی وہ ہی حالت تھی۔
”حماد! تم ڈاکر ہو، سمجھدار ہو پلیزمزید دیر مت کرو، چاچو کو لے کر ہمارے ساتھ چلو۔“
”احزاز! میرے اسپتال میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے اور رہی ڈاکٹرز کی بات تو ان شاءاللہ دس بجے تک ڈاکٹرز یہاں پہنچ رہے ہیں ماموں کے آپریشن کے لیے، ملک کے بہترین ڈاکٹرز ہیں وہ۔“
”اوکے! جیسی تمہاری مرضی!“ اس نے مسکرا کر کہا۔ اسپتال دیکھ کر وہ اندازہ کر چکا تھا کہ اس اسپتال میں شہر کے بڑے سے بڑے اسپتال والی ہر سہولت موجود ہے۔ کہیں سے بھی یہ دیہات کا ایک عام اسپتال نہیں لگتا تھا جو حماد احسن کی محنت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ احزاز کے دل کی خواہش تھی کہ اس کے چاچو صحت یاب ہو جائیں لیکن ڈاکٹرز کے پہنچنے کے ہی چاچو کی حالت بہت بگڑ گئی، انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ حتیٰ کہ حماد خود بُری طرح پریشان ہو گیا تھا، وہ مسلسل فون پر ڈاکٹرز سے رابطہ کر رہا تھا۔ ڈیڈ چاچو کے قریب ہی کھڑے تھے۔
”بھائی جی! میرا کوئی پتا نہیں…. میری بچی….“
”حوصلہ رکھ عبدالجبار! تجھے کچھ نہیں ہو گا۔“ انہوں نے بھائی کو حوصلہ دیا۔ ڈاکٹرز کے پہنچتے ہی چاچو کو آپریشن تھیٹر لے گئے۔ ڈیڈ کی حالت اس وقت بہت خراب تھی۔
”ڈیڈ! ان شاءاللہ چاچو ٹھیک ہو جائیں گے۔“ اس کے اپنے دل میں عجیب سی مایوسی تھی مگر پھر بھی اس نے ڈیڈ کو حوصلہ دینا چاہا۔ بہتر کرنے والا تو اللہ ہے زندگی اور موت بے شک اس کے ہاتھ تھی انسان صرف دعا کر سکتا تھا جو وہ کر رہے تھے۔ دو گھنٹے بعد چاچو کو آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تھا مگر اس وقت بھی ان کی حالت وہ ہی تھی۔ حماد احسن کے چہرے پر آنے والی مایوسی اور دکھ و اضطراب نے اسے فوراً ہی سمجھا دیا تھا۔ شام کو کہیں جا کر انہیں ذرا سا ہوش آیا تھا تو انہوں نے صرف ڈیڈسے ملنے کی خواہش کی تھی۔ حالانکہ اس لمحے ان کی بیٹی سب سے زیادہ تڑپ رہی تھی ان کو دیکھنے کو…. پندرہ بیس منٹ گزر گئے۔
”حماد بچے! دیکھ تو عبدالجبار اب ٹھیک تو ہے نا!“ اس وقت تقریباً سب ہی وہاں موجود تھے۔
”نانو! آپ پلیز دعا کریں، ماموں بہت جلد اچھے ہو جائیں گے، میں دیکھتا ہوں۔“ اس سے پہلے کہ حماداندر جاتا ڈیڈ باہر آ گئے۔
”حماد بیٹا! اما جی، مدیحہ اور اباجی کو اندر لے جاﺅ‘ عبدالجبار سے مل لیں گے۔“ قبل اس کے کہ وہ لوگ ڈیڈ سے کچھ کہتے ڈیڈ خود ہی بول پڑے۔ پھر وہ سب تو چاچو کے پاس چلے گئے مگر احزاز اپنے ڈیڈ کو دیکھ رہا تھا۔
’کیا بات ہے ڈیڈ‘ آپ کیوں اتنے الجھ گئے ہیں؟“
”نو بیٹا! آپ کو ایسے ہی محسوس ہو رہا ہوگا۔ میں ٹھیک ہوں۔“ احزاز خاموش ہو گیا مگر رات کی تکان کی الجھن و فکرمندی حد سے سوا ہو گئی۔ اسے علم بھی نہ ہوتا اگر اچانک ہی اس کی آنکھ نہ کھلتی۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا آج اسے کچھ نیند آئی تھی مگر پھرآنکھ کھل گئی۔ ڈیڈ اس کے ساتھ ہی تھے آج گیسٹ روم میں مگر ڈیڈ کو بیڈ پر نہ پا کر وہ اٹھ بیٹھا۔ حیرت اور پریشانی تب ہوئی جب اس نے ڈیڈ کو جائے نماز بچھائے گڑگڑاتے ہوئے دیکھا۔ جانے وہ کیا مانگ رہے تھے اپنے رب سے…. مگر ان کا آنسوﺅں سے تر ہوتا چہرہ احزاز سے نہ دیکھا گیا۔
”ڈیڈ….!“ اس نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک گئے۔ جلدی سے چہرہ صاف کیا۔ جائے نماز سمیٹ کر رکھی۔ ”آپ ٹھیک ہیں ناں ڈیڈ!“
”میں ٹھیک ہوں، بس یوں ہی دل پریشان سا ہو رہا تھا، سوچا اپنے رب کے آگے جھکنے سے دل کو سکون ملے گا۔ بس اس لیے….“ اگر یہ سچ تھا تو پھر ڈیڈ نظریں کیوں چرا رہے تھے، جب سے وہ چاچو سے مل کر آئے تھے عجیب سے اضطراب میں تھے۔
”نہیں ڈیڈ! کوئی بات ضرور ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔ پلیز ڈیڈ! کیا مسئلہ ہے؟“ وہ ان کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ ان کا چہرہ اس لمحے بھی آنسوﺅں سے بھیگا ہوا تھا۔
”احزاز! میں بدنصیب ہوں۔ میرے بھائی نے زندگی اور موت کی اس کشمکش میں مجھ سے صرف ایک خواہش کی ہے لیکن میں پوری نہیں کر سکتا۔ بس یہ ہی تڑپ مجھے سکون سے نہیں بیٹھنے دیتی ہے، میں کیا کروں؟“
”ڈیڈ! ایسی کیا خواہش ہے جو آپ پوری نہیں کر سکتے؟“
”میں کسی کو بھی مجبور نہیں کرنا چاہتا بچے! مگر اپنے بھائی کی آس بھری نظروں کا سامنا کرنے سے بھی کترا رہا ہوں۔“
”ڈیڈ! کیا آپ کے بھائی کی خواہش سے بڑی ہے وہ مجبوری جو آپ مان نہیں سکتے؟ اس وقت صرف چاچو کی فکر کریں۔ ایسی کیا مجبوری ہے وہ…. مجھے بتائیں تو….؟“
”احزاز تم میری مجبوری سمجھ لوگے میری بات مان لو گے؟ صرف تمہارے بس میں ہے، ہماری خواہش پوری کرنا، میرے بھائی کی خواہش کا پاس رکھنا۔“ ڈیڈ نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر امید بھری نظروں سے دیکھا۔
”خدا کے لیے ڈیڈ! مجھے صاف الفاظ میں بتائیں نا کہ ایسا کیا کہہ دیا ہے چاچو نے اور میرے بس میں کیا ہے؟ میں ان کے کیا کام آ سکتا ہوں؟“ وہ شدید الجھن کا شکار ہو گیا تھا۔
”احزاز! عبدالجبار نے مجھ سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی بیٹی کا گھر بستا دیکھنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹرز نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اس کے پاس وقت نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انہی دنوں میں مدیحہ کا نکاح ہو جائے۔“
”تو کیا ہوا؟ اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟“ اس نے ڈیڈ کو دیکھا۔
”احزاز! صرف مجھے بلا کر یہ بات کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس کی خواہش ہے کہ مدیحہ کا نکاح تم سے کر دوں۔“ کتنی آس امید سے ڈیڈ نے اسے دیکھا تھا جو یہ سُن کر ہی اچھل پڑا تھا۔
”کیا…. نہیں…. نہیں…. یہ ناممکن ہے۔ پلیز ڈیڈ!
”میں جانتا ہوں احزاز! تبھی تو اللہ کے حضور معافی طلب کر رہا تھا کہ میں اپنے مرتے بھائی کی ایک خواہش تک پوری نہیں کر سکتا کتنا لاچار ہوں میں….“ وہ بُری طرح رو دئیے۔
”اُف خدایا! پلیز ڈیڈ!“ اس وقت احزاز شاہ کی حالت پاگلوں سے بدتر تھی۔ ایک طرف اس کا سارا مستقبل تھا تو دوسری طرف ڈیڈ اور چاچو کی خواہش۔ ”ایک انجان لڑکی…. دیہاتی سی…. میں ساری عمر ایسی لڑکی کے ساتھ کیسے گزار سکتا ہوں ڈیڈ!“
”احزاز بچے! میں مجبور ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ زیادتی کر رہا ہوں، اللہ گواہ ہے کہ میں تمہیں ساتھ لایا تھا مگر میرا ایسا ارادہ نہیں تھا مگر اپنے بھائی کی خواہش کے لیے میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں، مجھے مایوس مت کرنا۔
”ڈیڈ!“ اس کے پیروں تلے سے گویا کسی نے زمین کھینچ لی اور وہ خود کو گہری پستی میں ڈوبتا محسوس کرنے لگا۔ ”یہ کیا کر رہے ہیں آپ….!“ ڈیڈ کے دونو ںہاتھ تھام کر اس نے لبوں سے لگائے۔ ”آپ کو اپنی پرورش پر اتنا بھی اعتبار نہیں ہے جو آپ مجھے یوں اپنی ہی نظروں میں گرا رہے ہیں؟ پلیز ڈیڈ! میں لاکھ خودسر اور ضدی سہی مگر اپنے ڈیڈ کا سر جھکنے نہیں دوں گا۔ آپ چاچو سے کہہ دیں۔ میں وہ ہی کروں گا جو آپ کی خوشی ہو گی۔“ اس لمحے اس کے سامنے صرف ڈیڈ تھے، صرف ڈیڈ اور ان کی محبت…. ڈیڈ نے اسے خود سے بھینچ لیا۔
اگلی صبح ہی اس کا اور مدیحہ کا نکاح ہو گیا۔ شاید چاچو اسی انتظار میں جی رہے تھے، شام میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے اور حویلی میں کہرام مچ گیا۔ وہ چاچو کی وفات کے بعد دو دن رہا پھر ڈیڈ کو کچھ دن بعد آنے کا کہہ کر چلا گیا کیونکہ حویلی کے لوگوں کو ابھی ان کی ضرورت تھی۔
ض……..ض……..ض