”سفر میں زیادہ ٹینشن نہ لینا۔ گھر پہنچ کر اپنی اور انکل کی خیریت ضرور بتانا مجھے۔“
”اپنا خیال رکھنا، اوکے۔“
”اوکے مائی ہاف وائف۔“
”بڑا کمینہ ہے تو۔“
اسفندنے مسکرا کے اسے گلے لگایا تھا۔ جانے کیوں اسے درید عباس میں سعد رسول نظر آتا تھا۔ تب ہی تو وہ اتنا قریب آ گیا تھا اس کے۔“
شام میں گھر سونا لگا تو اس نے لائبریری کا رُخ کر لیا۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ اس کی عادت بن گئی تھی۔ وہ اکثر ہی یہاں آ جاتا تھا۔
”آپ یہیں بیٹھ کر مطالعہ کریں ہم یہ کتاب آپ کوایشو نہیں کر سکتے۔“
وہ پچھلے پانچ منٹ سے اس لڑکی کے ساتھ لائبریری انچارج کی بحث سن رہا تھا۔
”میں یہاں نہیں بیٹھ سکتی، پلیز!“
”ایم سوری بی بی! ہماری بھی مجبوری ہے۔“
اس نے صاف انکار کر دیا۔ لاچار وہ لڑکی خاموشی سے کتاب لیے وہیں بیٹھ گئی مگر اس کے چہرے پر ملال سا تھا۔ اسفند نے کئی بار اس لڑکی کو لائبریری میں دیکھا تھا۔ وہ یہیں بیٹھ کر اپنے نوٹس بناتی تھی۔ آج اس کی کوئی مجبوری ہو گی جو وہ کتاب لے کر جانا چاہتی تھی۔ انسانی ہمدردی کے تحت اس لڑکی پر ترس سا آیا تھا۔ اس کی نظر لمحہ بھر کو اٹھی، پھر وہ اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”ایکسیوز می….“
ابھی چند منٹ گزرے تھے کہ وہ آواز پر چونکا۔ وہ ہی لڑکی اس کے سامنے تھی۔
”ایم سوری! ہے تو غیر اخلاقی حرکت، مگر مجھے یہ کتاب چاہیے تھی۔ مجھے اسائنمنٹ مکمل کرنا ہے۔“
”شیور، وائے ناٹ۔“ اسفند نے کتاب بند کر کے اسے تھما دی مگر اسے یہ پتا چل گیا وہ تاریخ اسلام پر اسائنمنٹ بنا رہی ہے۔
”تاریخ اسلام کی سٹوڈنٹ ہیں آپ!“
ایک عرصے بعد وہ کسی صنف نازک سے مخاطب تھا۔
”جی!“ مختصر سا جواب دے کر وہ اس سے دو کرسیاں چھوڑکر بیٹھ کر لکھنے لگی تھی۔
”میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں….؟“
’آ….!!“
لڑکی نے بے حد حیرت سے اسے دیکھا۔
”جی! کیونکہ مجھے اسلامی ہسٹری بہت پسند ہے۔“
”رئیلی!“ ایک اشتیاق تھا جو اس کے معصوم چہرے پر اترا تھا۔
اس نے پیڈاس کے سامنے رکھ دیا تھا۔
”مجھے آج جلدی گھر جانا ہے،میری مما کی طبیعت خراب ہے۔“ وہ خود ہی بتانے لگی۔
”آپ کو ٹرسٹ ہو تو آپ چھوڑ جائیں، میں مکمل کر دوں گا۔“
”تھینکس! میری مما اکیلی ہیں ہاسپٹل میں، مجھے ان کے پاس جانا ہے۔“
”اللہ آپ کی مما کو صحت کاملہ عطا کرے۔ آپ فکر نہ کریں جائیں۔“ اس نے ہمدردانہ لہجے میں کہا تھا۔
ض……..ض……..ض
دو سال کے بعد اپنے گھر میں قدم رکھا تھا مگر یہاں آ کر ایسا لگا کہ دو سال کہیں درمیان آئے ہی نہیں تھے۔ گلی سے لے کر گھر تک کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ آج بھی براﺅن گیٹ کے باہر اعجاز عارف ایڈووکیٹ کے نام کی پلیٹ نمایاں تھی۔ وہ لب کچلتا اندر آ گیا۔ صحن میں ہر چیز یوں ہی رکھی تھی جیسے وہ چھوڑ کے گیا تھا۔ گملوں کی تعداد اور ترتیب تک نہ بدلی تھی۔
بوگن ویلیا کی بیل آج بھی ساری دیوار پر پھیلی ہوئی تھی۔ انار کے پیڑ کے پتے اب بھی سبز تھے۔ چارپائیاں وہی تھیں۔ برآمدے تک آیا تو وہاں بھی ہر چیز ویسی تھی، حتیٰ کہ امی نے اس کی مخصوص چیئر جس پر بیٹھ کر وہ پڑھتا تھا، ہلائی تک نہ تھی۔
”درید….“
یاسر کی پہلی نظر پڑی تھی اس پر۔
”امی، ابو درید آ گیا….“
وہ زور سے چیختا اسکے گلے لگ گیا تھا۔ امی بھی باہر آ گئیں۔ ان کی آنکھیں نم تھیں۔ درید نے انہیں بانہوں میں سمیٹ لیا۔
”جیتے جی ہی مار بیٹھا ہمیں۔ پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔“
ان کی بات پر وہ شرمندہ تھا۔ امی بہت کمزور ہو گئی تھیں۔
”ایم سوری…. اچھا ابو کہاں ہیں….؟“
”اپنے کمرے میں ہیں۔“
یاسر کے بتانے پر وہ خاموشی سے ان کے کمرے میں آیا تھا۔ ابو سو رہے تھے یا شاید دواﺅں کے زیراثر تھے۔ وہ ہولے سے چلتا ان کے پاس آ بیٹھا تھا۔ کتنے ویک ہو گئے تھے۔ چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی۔ اسے شدت سے افسوس ہونے لگا کہ وہ کیوں دور رہا اتنے عرصے…. اپنے گھر، اپنے ہر رشتے سے شاید اس کے وجود کا احساس تھا کہ ابو نے آنکھیں کھولی تھیں۔
”درید….“ ان کے لب ہولے سے ہلے تھے۔ درید نے آگے بڑھ کر ان کاہاتھ تھام لیا۔
”تو آ گیا….“
”جی! کیسے ہیں آپ….!“
”تجھے دیکھ لیا ناں، اب ٹھیک ہوں۔“
نقاہت بھری آواز اسے شرمندگی کی اتھا گہرائیوں میںڈبو گئی۔ وہ چھوٹا تھا اسی لیے ابو کا لاڈلا تھا۔ اپنی تمام تر لاپرواہی کے ساتھ بھی انہیں عزیز تھا۔
”ابو آپ آرام کریں۔“
اس نے ابو کا ہاتھ لبوں سے لگایا۔ وہ ان کے پاس بیٹھا رہا، جب تک ابو سوئے نہیں۔ پھر باہر آ گیا۔
”حد ہو گئی، دو سال ہو گئے منگنی کو آپ نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ شادی کر دیں اس کی ریٹائرمنٹ لے لیں گھر کے کاموںسے۔“
امی کو کام میں مصروف دیکھ کر وہ بولا تھا۔
”تو آ گیا ہے ناں، اب دونوں کی ساتھ کروں گی۔“
”میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔“
”کتنی دیر لگتی ہے ارادہ بنتے۔ یوں بھی مشرقی لڑکا ہے۔ ارادہ تو امی نے بنا لیا ہے، تو نے صرف سہرا باندھ کے جانا ہے۔“ یاسر نے چھیڑا۔
”ہاں! کاٹھ کا الو ہوں نا میں۔“
اس نے گردن جھٹکی۔ ہمیشہ ہی صرف اپنی مانتا تھا وہ۔
”یہ لاپرواہی چھوڑ دے درید۔ چھبیس سال کا ہو چکا ہے۔ میچور ہے، سمجھدار ہے اور پھر شادی کی ایک عمر ہوتی ہے۔“
”وہ لڑکیوں کی ہوتی ہے۔“ فوراً جواب دیا۔
”خدا کے لیے بدل لو خود کو، ابو کی طرف دیکھو! بے موسم کے پھل اچھے لگتے ہیں نہ پھول خوشبو دیتے ہیں،امی ٹھیک کہہ رہی تھیں۔“
شادی کی بھی تو عمر ہوتی ہے۔
”ہاں تو، تُو کر لے دوسال بڑا ہے مجھ سے۔“
وہ کب ہاتھ آنے والا تھا۔
”امی سے کام نہیں ہوتا۔ ساری زندگی ملازم رکھنے کے خلاف رہیں اور اب دیکھو یہ گھر ملازموں کے سپرد ہے۔ صرف کچن کا کام امی کرتی ہیں۔ یاسر نے بتایا۔
”شرم کر، یہ نہیں ہوا کہ بیوی لا کر ماں باپ کی خدمت کرواتے۔“ وہ درید عباس تھا، مجال ہے کہ ذرا بھی اثرلے۔
”اچھا چل اندر چلتے ہیں۔“
”نہیں، یہاں مزہ آرہا ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے۔“
وہ چارپائی پر پھیل کر لیٹ گیا۔
دروازہ کھول کر وہ آئی تھی جو پہلی بار کی طرح آج بھی اس کی ساری توجہ کھینچ گئی اور وہ ان کے پاس سے گزر کے یاسر سے ہیلو ہائے کرتی اندر چلی گئی۔ درید کی نظروں نے کچن تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
”ہوش میں آ جاﺅ میاں۔“
”یہ کون ہے یاسر۔“
اس نے یہ جان بوجھ کر انجان بننے کی ایکٹنگ کی، حالانکہ دل کی دھڑکن اس کانام پکار رہی تھی۔ میں نے دنیا تیاگ دی، وہ مجھے یوں بھول گا۔
”کوئی فائدہ نہیں، وہ میرڈ ہے۔“
یاسر ے چھیڑا، اس نے گھورا۔
”ہے کون….؟“
”اعجاز انکل کی بیٹی ریحاب۔“
یاسر نے بتایا تو وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا۔
”کیا! کیا نام بتایا تو نے۔“
”ریحاب! یہ رہنے آئی ہوئی ہے۔ امی کی طبیعت کی وجہ سے اکثر ان کی ہیلپ کرنے آ جاتی ہے۔“
”اعجاز انکل کی بیٹی کانام تو میرب نہیں تھا۔“
”ہاں! وہ مگر دوسری ہے۔ یہ دونوں ٹوئنز ہیں ناں…. ریحاب کی شادی جلدی ہو گئی تھی۔ میرب ماسٹرز کر رہی ہے۔“
”واٹ….!!“
اس کے پیروں تلے گویا زمین کھینچ لی تھی کسی نے۔
”ان کی دو بیٹیاں ہیں؟“
”ہاں! تجھے نہیں پتا….؟“
یاسر نے اچنبھے سے دیکھا اور وہ کہہ تک نہ سکا کہ اگر پتہ ہوتا تو دو سال وہ یہاں سے دور جا کر کیوں گزارتا۔
زندگی میں پہلی بار درید عباس کو اپنی نیچر کی لاپرواہی بہت بُری لگی تھی۔ دو سال گنوا دیے…. دو پل بھی کر یہ ہی بات پہلے امی یا یاسر سے پوچھ لیتا تو آج یوں نہ بیٹھا ہوتا۔
”تیرے چہرے پر یہ ہوائیاں کیوں اُڑ رہی ہیں۔“
یاسر نے اب اس کے چہرے پر غور کیا تھا۔
”بس یار، افسوس ہو رہا ہے کہ میں دو سال اپنے گھر سے دور رہا، کاش میں خود کو بدل لیتا تو یہ لمحے نہ گنواتا۔“
”دیر آید، درست آید….“
یاسر نے مسکر کر کہا۔ پھر سنجیدہ ہوا۔
”ایک بات اور پوچھوں۔“
”ہاں! میرب کی کال کیوں اٹینڈنہیں کی تو نے۔“
”تجھے پتا ہے کہ اس نے مجھے کال کی تھی۔“
”ہاں‘ تو نے نمبر بدل لیا تو اس نے مجھ سے تیرا نیا نمبر لیا تھا۔“
یاسر نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔
”تیرے اور میرب کے بیچ کچھ ہے درید….“
”اگر کچھ تھا بھی تو میری اپنی غلطی کی وجہ سے ختم ہو گیا۔“ وہ گہری سانس لیتا اٹھ گیا۔
ض……..ض……..ض
“Where are you Asfand Zia? Please call me back.”
وہ عشاءپڑھ کر گھر آیا تو اس نے سیل چیک کیا۔ چھ مِس کالز اور تین SMS درید عباس کے آئے ہوئے تھے۔ اس نے فوراً ہی کال کی تھی۔
”کہاں مر گیا تھا…. کال کر کر جان آدھی رہ گئی میری۔“ بنا سلام دیا کیے اسٹارٹ ہوا تھا وہ۔
”ایم سوری یار! موبائل Silent Mode پر تھا، مجھے پتا نہ چلا۔“
”تجھے پتہ نہیں چلے گا کسی دن میں بھی Silent Mode پر چلا جاﺅں گا۔“
”اچھا بک نہیں،یہ بتا انکل ٹھیک ہیں۔“
”ہوں، ہی از فائن ناﺅ۔“
”تھینکس گاڈ…. پھر کب آرہا ہے؟“
”ایک دو دن میں….“ آجا یار میرا تو دماغ خراب ہو یا ہے ان کے واویلے سن کر…. یو نو، طلال صرف تیری زبان سمجھتا ہے۔“
”سچ اسفند، دال میں ضرور کالا ہے۔ پہلے بلال مہینوں گاﺅں نہیں جاتا تھا اور اب ہفتے کے پانچ دن بعد بھاگ جاتا ہے۔ کوئی چکر تو ضرور ہے۔“
”جوبھی چکر ہے، آ کے دریافت کر لینا۔ اس وقت صرف اپنی اور میری بات کر۔“
”کیا بتاﺅں یار، مجھ سے بڑا بھی کوئی گھامڑ نہیں ہے۔“
”کیوں، کیا ہوا….؟“
”آ کے بتاﺅں گا….“
”ابھی بتادے یار، رات بھر نیند نہیں آئے گی ورنہ….“
”مجھے الزام نہ دے،تجھے پہلے کون سا نیند آتی ہے۔“
”جس دن سے تو گیا ہے بالکل بھی نہیں آتی۔“
”ہائے میں مر جاواں، خیر ہے جان من۔“
”تیرے خراٹوں کی ایسی عادت پڑی کہ اب سناٹے سے خوف آتا ہے۔“
درید عباس کو اس سے ایسے جواب کی امید نہیں تھی، تب ہی گلا پھاڑ کے ہنسا تھا۔
”پہلے بتاتا میں بلال کو کہہ دیتا تیرے پاس سو جاتا۔ صرف خراٹے ہی نہیں پیار کی سرگوشیاں بھی سننے کو ملتیں۔“ (بلال کو نیند میںبولنے کی عادت تھی)
”یا پھر طلال کو سلا دیتا…. ایسے لپٹ کر سوتا کہ….!!“
”اوکے،اسٹاپ اٹ پلیز!“
”بھول گیاکہ درید عباس سے بات کر رہا ہے۔“
”چل سو جا اچھا…. پھر رات بھر مجھے کوسے گا۔ حالانکہ رات بھر تو نے مچھروں سے ہی مذاکرات کرنے ہیں۔“
”ملتان میں مچھر نہیں ہوتے۔“
”بس میرے باپ اللہ حافظ!“
”درید زور سے ہنسا تھا اس کی بے بسی پر۔“
”کاش درید عباس تو میرے پاس ہوتا۔“
”کیوں، میری جدائی میں کچھ کچھ ہو رہا ہے۔“
”گڈ نائٹ!“
اسفند کی برداشت ختم ہو گئی تو اس نے کال کاٹ دی۔ یہ اور بات ہے کہ فون بند کر کے وہ خود بھی ہنس پڑا۔
ض……..ض……..ض
اگلے دن عصر کے بعد وہ پھر امی کے پاس بیٹھی تھی۔ درید کو ذرہ برابر بھی فرق محسوس نہیں ہوا تھا۔ اس میں اور میرب میں تمام وہ ہی نقش تھے۔
”امی چائے پینی ہے۔“
حالانکہ دو سال سے یہ سارے کام وہ اپنے ہاتھوں سے کرتا تھا مگر ماں سے لاڈ اٹھوانے کا مزہ ہی اور تھا۔ ریحاب نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
”بیٹھیں آنٹی، میں چائے بنا لاتی ہوں۔“
وہ سبزی بناتی اٹھ کر چلی گئی۔ امی بھی سبزی اٹھا کر اس کے پیچھے چلی آئیں۔
”میرب کیسی ہے….؟“
غیرمتوقع سوال پر ریحاب چونکی تھی۔
”بڑی جلدی خیال آگیا ہے تمہیں اس کا۔ دو سال تک خبر بھی نہ لی کہ زندہ بھی ہے یا مر گئی۔ تمہاری بے رُخی سہہ کر۔“
”اس تمام غلط فہمی کی وجہ تم ہو۔“
اس نے صاف گوئی سے ساری الزام اس پر ڈالا تھا۔ ریحاب نے اسے دیکھا۔
”مجھے نہیں پتا تھا کہ تم دو بہنیں ہو۔ مجھے لگا کہ میرب کی شادی ہو چکی ہے۔ سو میں یہاں سے چلا گیا۔“
”کتنی بار اس نے تمہاری یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے کال کرنے کی کوشش کی مگر تم نے کال نہیں سنی۔“ امی کی ڈیتھ کے بعد وہ بالکل تنہا پڑ گئی۔ اس وقت میں اسے تمہاری کمی شدت سے محسوس ہوئی…. مگر تم تو ایسے گئے کہ پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔“
”آنٹی کی ڈیتھ…. کب ہوئی….؟“
”ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔“
”یعنی اس کے جانے کے چھ ماہ بعد ہی وہ۔“
”ایم سوری ریحاب….! بخدا میں ہر چیز سے لاعلم ہوں۔میں تم سے بھی معافی مانگتا ہوں، اس سے بھی شرمندہ ہوں۔“
”مانا کہ غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں مگر درید تمہیں ایک بار اپنے اس شک کو یقین میں بدلنے کے لیے سہی میرب سے پوچھنا چاہیے تھا۔“
”ضرور پوچھنا چاہیے تھا۔ مگر مجھے لگا کہ پہلے ہی اس کی میرڈ لائف ڈسٹرب ہے، کہیں میرا فون مزید مشکلات پیدا نہ کر دے۔“
”میرڈ لائف۔“ ریحاب بڑبڑائی۔
”اب قصور تو سارا تمہارا ہے ناں! تم میرے اور میرب کے بیچ فاصلے کی وجہ بنی ہو۔“
”صحیح، کمزوریاں اپنی، الزام میرے سر۔“ تمہاری عادت کا علم ہے مجھے۔ انکل آنٹی کتنے نالاں ہیں تمہاری عادتوں سے۔“
محبت کرتے تھے مگر کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ میرب اعجازکون ہے۔ ان کی فیملی کیسی ہے۔“
”میں نے سوچا تھا عمر پڑی ہے جان لوں گا۔“ اس نے خجل ہو کر سر کھجایا۔“
”اچھاپھر عمر پڑی ہے، مناتے رہنا میرب اعجاز کو۔ جواب تمہاری شکل دیکھنے کو بھی تیارنہیں ہے۔“
”یوں تو مت کہو، کوئی تو ہیلپ کردو میری۔ دو سال پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے گنوا چکا ہوں۔“ اس نے معصوم بننے کی ایکٹنگ کی۔
”میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔میرے میاں مجھے لینے آ گئے ہیں، میں سویرے ملتان جا رہی ہوں۔“
”رئیلی! تم ملتان میں رہتی ہو۔“
”ہاں! میرا سسرال ہے وہاں۔“
”بس پھر میں تمہارے گھر کے سامنے دھرنا دوں گا کہ اس لڑکی کی وجہ سے میری زندگی برباد ہو گئی۔ میری محبت مجھ سے روٹھ گئی۔“
”جوتے بھی کھاﺅ گے، تمہیں شاید علم نہیں کہ میرے میاں ایس پی ہیں۔“
اس کے بتانے پر وہ منہ بنانے لگا۔
”اس کا سیل نمبر دے دو، خود منا لوں گا۔“
”خود ہی لے لینا۔“ وہ اسے چڑاتی وہاں سے ہٹ گئی۔
ض……..ض……..ض
”تھینک یو۔“
وہ توجہ سے اسٹڈی کر رہاتھا جب شناسا سی آواز پر چونکا۔ نگاہیں اٹھائیں تو سیاہ اسکارٹ کے ہالے میں وہ ہی چہرہ پُروقار مسکراہٹ لیے کھڑا تھا۔
”اس دن آپ میری ہیلپ نہ کرتے تو میرا اسائنمنٹ مکمل نہ ہوتا۔“
”اٹس مائی پلیژر!“ وہ مسکرا کر بولا۔
”آپ کی مما کیسی ہیں….؟“
”بہتر ہیں،مگر ابھی چھٹی نہیں ملی۔“
”تو آپ کے فادر۔“
”میرے پاپا کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ میں اور مما اکیلے ہیں اس دنیا میں۔“ وہ یکدم سنجیدہ ہو گئی۔
”او، ایم سوری! آپ کی مما کو کیا ہوا ہے؟“
”ہارٹ پیشنٹ ہیں۔ اکثر ہی بیمار رہتی ہیں، جب سے پاپا گئے ہیں۔“ اس نے کہا۔
”ویری سیڈ!“ اس نے دکھ بھرے انداز میں کہا تھا۔ ان دونوں کا ایک ہی شوق تھا مطالعہ اور پھر وہ تو ماسٹرز کر رہی تھی اسلامک ہسٹری میں۔
اب روز ہی تقریباً ا نکی ملاقات ہوتی تھی۔ مگر دونوں بہت محتاط اور اخلاق کے دائر میں ضرورت کی بات کرتے تھے۔ اسفند اس کی مما کی صحت کے متعلق ضرور پوچھ لیتا تھا اور اسے اپنے ٹاپک کے لیے اگر اس کی ہیلپ درکار ہوتی تو وہ لازماً پوچھتی تھی۔ وہ احتراماً اسے سر کہتی تھی۔ اس نے اپنا نام حریم فاطمہ بتایا تھا۔
وہ آج بھی کافی دیر تک اس کے ساتھ نوٹس بنواتا رہااور جب گھر پہنچا تو سب کی مشکوک نظریں خود پر پائیں۔
حالانکہ عام دنوں کی نسبت لاﺅنج کا ماحول کافی پُرسکون تھا۔ نہال اور طلال بھی اچھے موڈمیں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔
چونکہ گرمیاں عروج پر تھیں اس لیے بلال نے سب کے لیے چائے کے بجائے مینگو شیک بنا رکھا تھا۔
”بگ بی! بڑی مشکوک ٹائمنگ ہے آج کل آپ کی۔“
طلال اسے صوفے پر لیٹتا دیکھ کر بولا تھا۔
”کیوں….؟“
”شام میں کہاں ہوتے ہیں روز۔ بدنام مجھے کیا ہوا ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ میں شام گھر پر گزارتا ہوں۔“
اس نے ایکٹنگ کی تو وہ ہنس دیا۔
”سچ بتا، تیری نئی ہیئر کٹنگ کے بعد کوئی لفٹ شفٹ۔“
نہال ہاتھ آیا موقع کیسے جانے دیتا۔ طلال کے دل پر چھریاں چل گئیں۔
”سب بلال بھائی کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہر ہفتے گاﺅں جاﺅ۔“
”گاﺅں جانے سے بال کٹوانے کا کیا تعلق۔“ اسفنداس کا واویلا انجوائے کر رہا تھا۔
”ابا جی نے ڈانٹ ڈانٹ کر کٹوا دیے۔“
”مجھے تو تم اچھے لگ رہے ہو اس نئے لُک میں۔“
”ہاں! آپ کو تو اچھا لگوں گا۔ میرے خوبصورت بالوں سے تو آپ کی ویلیو کم ہونے لگتی ہے۔“ اسفند ہنس دیا۔
”درید نہیں آیا…. دل نہیں لگ رہا اس کے بنا۔“
”بڑی عجیب لو اسٹوری ہے دریدبھیا کی بھی۔“
”ہوں….“ ٹاپک پیار محبت کا ہو وہ جانے کیوں کتراتا تھا۔ اب کے بھی یہ ہوا مگر اس بار طلال نے اسے پکڑلیا۔
”وائے بگ بی! ذکر محبت کا ہو، آپ نگاہ کیوں چرا لیتے ہیں۔“
وہ سمجھا تھا اس کی خاموشی موضوع بدل دے گی، بٹ آج تو طلال نے حد کر دی، ڈائریکٹ پوچھ ڈالا۔
”اس لیے کہ میرے نزدیک یہ وقت کا زیاں ہے۔“
”امپاسیبل مجھے لگتا ہے محبت کی گہرائی آپ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا اور آپ کہتے ہیں کہ محبت وقت کا زیاں ہے۔“
”جس شخص کا خمیر محبت سے گندھا ہو وہ محبت کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا۔“
”مجھ پر ریسرچ کرنے سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔“
”اوں ہوں، ریسرچ نہیں کر رہا۔ آپ سا بننا چاہتا ہوں۔“
”ہو ہی نہیں سکتا۔“
نہال نے بیچ میں بول کر حتمی فیصلہ دیا۔
”کیوں….؟“
”وہ کڑیاں دیکھ کر منہ موڑ لیتا ہے اور توں کڑیاں دیکھ کے دنیا توں منہ موڑ لیتا ہے۔“
”یونو…. یہ بھی اسٹائل ہے بگ بی، جتنا منہ موڑتے ہیں لڑکیاں اتنا ہی مرتی ہیں ان پر۔“
”ہائے ربا…. تُسی اس لیے ریزرو رہتے ہو بھائی جان!“ نہال نے کلیجہ تھاما۔
”تم لوگ کبھی نہیں سدھر سکتے۔ بھلا میری عمر ہے اس چھچھور پن کی۔“
”یو نو بگ بی! شادی کے لیے بیسٹ ایج ہے آپ کی۔ بندے کو اسی عمر میں شادی کرنی چاہیے جب وہ میچور ہو جائے۔“
”تھینکس فار ایڈوائز۔“
”بلال کی کر دو، میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔“
”قربان تیری سادگی…. کیا خیا ل ہے آپ کا ہر ویک اینڈ پر گاﺅں کے چکر ابا جی کی محبت میں لگ رہے ہیں۔ وہ خود ہی یہ پلان کر رہے ہیں۔“
”مطلب؟“
”مریم فاروق کی کشش ہر ویک اینڈ پر گاﺅں لے جاتی ہے اور ہم معصوم بلاوجہ مارے جاتے ہیں۔ آپے دونوں شام کو چھت پر چہل قدمی کرتے ہیں، میں اور نہال ابا جی کی جھڑکیاں کھاتے ہیں۔“
”اور تب ہی ہم دونوں نے فیصلہ لیا ہے کہ اس ویک اینڈ پر ہم ان کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ ہمارا ویک اینڈ خراب کر دیتے ہیں۔“ نہال نے پُرجوش اندازمیں فیصلہ سنایا تھا۔
ض……..ض……..ض
ریحاب واقعی صبح چلی گئی تھی۔ اب میرب سے بات کرنا بہت کٹھن مرحلہ تھا۔ جو بھی ہے میرب اعجاز تمہیں منا تو میں لوں گا مگر اس سے پہلے میں نے کچھ اور سوچا ہے۔ اس نے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنایا اور یاسر سے تمام باتیں شیئر کریں۔“
”اب امی ابو کو منانا تیری ذمہ اری ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ یاسر کہ شادی مجھے صرف میرب سے کرنی ہے۔“
”اور اگر وہ نہ مانی۔“
”وہ من جائے گی، آئی بیلیو، مگر کیا امی ابو مان جائیں گے۔“
”آج تک تیری ایسی کوئی خواہش ہے جو انہوں نے رد کی ہو۔ مگر اعجاز انکل کی طرف سے کچھ۔“
”اچھی بات منہ سے نکال یاسر۔ میں جا رہا ہوں یہ معاملہ تیرے سپرد کر کے اور اب صرف جب ہی آﺅں گا جب تم سب کو منا لوں گےاور مجھے یقین ہوجائے گا کہ میرب اعجاز صرف میری ہے۔“
”اوکے!“
”ایک کام اور کر دے، مجھے اس کا سیل نمبر دے دے۔“
”وہ ریحاب کی طرح خوش مزاج نہیں ہے، ریزرو سی ہے۔ میری بھی اس سے زیادہ بات چیت نہیں ہے۔“
”غلط! وہ بہت خوش مزاج لڑکی ہے۔“
یاسر بولا تھا تب ہی امی آ گئیں۔
”درید ایک دو دن رک جاتا اور۔“
”امی میری چھٹی کل ختم ہو رہی ہے، پھر اسفند نے بھی فون کر کے تنگ کیا ہوا ہے۔“
اس نے گھر میں سب کو اسفند کے بارے میںبتا دیا تھا۔ امی کو تو اس سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔
”اچھا اگلی بار اسے لے کر آنا ساتھ۔“
”ہاں! یاسر کی شادی پر ضرور لاﺅں گا۔“
”تیری بھی ساتھ ہی کروں گی۔“
”دیکھیں گے۔“
وہ مسکراتا ہوا اٹھ کے ابو سے ملنے چلا گیا اور سب سے مل کر وہ ایک بار پھر سے یاسر کو یاد دلاتا ہوا باہر نکلا تھا۔ یاسر اس کے ہمراہ ہی آیا تھا۔
گیٹ سے باہر ہی انہیں اعجاز انکل کھڑے مل گئے تھے۔
”السلام علیکم انکل!“
اس نے احترام سے سلام کیا۔ حال چال پوچھا۔
”جا رہے ہو، اتنی جلدی۔“
”بس انکل، چھی ختم ہو رہی ہے کل۔“
’اچھا…. اللہ تمہیں کامیاب کرے…. مگر بچے چکر جلدی لگا لیا کرو، تمہارے ابوکی طبیعت اب ٹھیک نہیں رہتی۔“
انہوں نے پیار سے سمجھایا تھا۔
”جی ان شاءاللہ! اس بار جلد آﺅں گا۔“
قدرے خفیف سا وہ سر جھکا گیا۔
ض……..ض……..ض
وہ رات کو گھر لوٹا درید عباس کو سامنے دیکھا تو کھل سا گیا۔ درید بھی بہت چاہت سے اسے گلے لگا تھا۔
”کیسا ہے، بڑا بے شرم ہے، بھول ہی گیا تھا۔“
”تجھے بھولنا اتنا آسان کام ہے، ہاف وائف۔“ آنکھ دبا کر شوخی سے بولا تھا۔ اسفند ہنس دیا۔
”تھینکس بھیا آپ آ گئے، وگرنہ اسفند بھیا کی حرکات و سکنات آج کل مشکوک ہو گئی تھیں…. آفس کے بعد ایسے گھر سے نکلتے ہیںکہ دیکھیں اب لوٹے ہیں۔“
”تجھے صرف بکواس کرنی آتی ہے۔“
اسفندنے اسے ایک لگایا تھا۔ اور درید کے ساتھ بیٹھ کر حال احوال لینے لگا۔ وہ سب اس وقت صحن میںبیٹھے ہوئے تھے۔ درید کے آنے سے جیسے وہ بہت کھل سا گیا تھا۔ اسے درید سے وہ ہی لگاﺅ سا ہو گیا تھا جو سعد رسول سے تھا کبھی….اور اگر درید عباس نہ ہوتا تو شاید سعد رسول کی کمی عمر بھر اسے دکھی کرتی۔“
”گھر میں سب ٹھیک تھے؟“
”ہاں! اور سب تجھے سلام کہہ رہے تھے۔ امی نے خاص الخاص کہا ہے کہ اگلی بار تجھے ساتھ لے کر آﺅں۔“
”اچھا۔“ وہ اتنے خلوص پر خوشی سے مسکرایا تھا۔
”بھئی لگتا ہے بھابی سے صلح ہو گئی ہے۔ چہرہ پر نور برس رہا ہے۔“
عدیل پکا کھوجی تھا، اسفند ہنس دیا۔ درید گھورنے لگا۔
”میں نے تیری کھوج لگا لی بھئی۔“
”مجھے اتنی کھلی چھٹی کب دی ہے، تین تین پہرے دار ہیں میرے۔ نظریں بھی ڈھنگ سے ملانے نہیں دیتے۔ اور خود شام میں روز جانے کس سے ملنے جاتے ہیں۔“ وہ کلس کر بولا۔
”میری طرف سے کھلی چھٹی ہے تجھے، مگر لڑکی صرف ایک ہی ہو۔“
درید نے کہا، بلال نے اس کے سامنے روز کی طرح جوس کا گلاس رکھا۔ بھلا ایک گلاس سے پیٹ بھرتا ہے کبھی۔
اس کی ذومعنی بات درید سمجھ گیا تھا۔
”پیٹ تو بھرتا ہے میاں نیت نیک ہونی چاہیے۔ زیادہ پینے سے لوز موشن بھی لگ جاتے ہیں۔ اسی لیے موشن ہو یا اموشن، کنٹرول میں رکھنے چاہئیں۔“
”خاک…. یہ زندگی کا مزہ نہیں۔“
”تیرا قصور نہیں، ملتان کی آب و ہوا ہی ایسی ہے۔“
”ہور کی، کوئی لڑکی غلطی سے پتا بھی پوچھ لے تو پہلے منڈے نے فون نمبر مانگنا ہے، دوستی کی آفر مانگنی ہے۔ لڑکی نوں آپے پتہ چل جائے گا کہ لڑکا ملتان توں بی لانگ کر دا وا۔“
”توں، وڈا سیانا۔“
طلال نے نہال کو لتاڑا تھا۔
اسی ہنسی مذاق میں کافی وقت بیت گیا تھا۔ وہ درید سے اس دن والی بات نہ پوچھ سکا۔مگر اگلے دن وہ شام میں لائبریری نہیں گیا تھا بلکہ درید کے ساتھ شام گزاری تھی اور درید نے اسے ساری اسٹوری سنا دی۔
”اگر اب بھی گھر نہ جاتا تو شاید عمر بھر پچھتاتا۔ تھینکس گاڈ اسفند، میرا نقصان زیادہ نہ ہوا،مگر وہ ناراض ہے مجھ سے۔“
”وہ حق پر ہے۔“
”میں اسے منانا چاہتا ہوں۔اس کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ میں اسے چھوڑ کر نہیں آیا تھا بلکہ۔“
”اللہ کرم کرے گا یار، ان شاءاللہ یاسر تمہیں گڈ نیوز ہی دے گا۔“
”انشاءاللہ!“
درید کے دل سے نکلا تھا۔
ابھی اسے لوٹے ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ یاسر نے اسے فون کر کے بتایا۔
”سب راضی ہیں، صرف میرب نہیں مانتی۔ انکل بھی خوش ہیں مگر وہ صرف میرب کی مرضی کے بنا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔“
”مجھے اس سے بات کرنی ہے یاسر پلیزمجھے اس کا نمبر دو۔“
وہ بے چین ہو گیا۔ یاسر نے اسے ریحاب کا نمبر دیا تھا۔
”ریحاب! تمہاری بہن احمق ہے اسے سمجھاﺅ پلیز۔“
”کیا ہوا….؟؟“
”مانا کہ میں سزا کا مستحق ہوں۔ وہ جو چاہے سزا دے مگر یہ نہ کرے۔ وہ منع کر رہی ہے۔ ریحاب اسے سمجھاﺅ۔“
”تم خود اس سے بات کیوں نہیں کرتے۔“
”وہ میری سنے گی؟“
”ہاں!“
”اس کو ریحاب سے میرب کا نمبر مل گیا تھا اور رات میں ہی وہ اس کا نمبر ملا رہا تھا۔ دو تین بار ملانے پر کال ریسیو کی تھی اس نے۔
”ہیلو…. کون؟“
شاید وہ نیندمیں تھی۔
”درید عباس۔“
اس کی آواز سن کر دوسری طرف سناٹا چھا گیا تھا۔
”میرب پلیز فون بند مت کرنا….“
”ایم سوری میرب پلیز……..! تم مجھے جو سزا دو گی میں سہہ لوں گا، مگر انکار مت کرو۔ میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتا۔“
”دو سال سے میرب اعاز کی خبرلی آپ نے۔“
”بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہو گیا تھا میں۔ مانتا ہوں، تسلیم کرتا ہوں اپنی ہر خطا۔ مگر دو سال کیسے جیا یہ میرا رب جانتا ہے میرب…. ہر رشتہ سے قطع تعلق کربیٹھا تھا میں۔“
”ایک بار مجھ سے پوچھ تو لیتے، بنا کچھ کہے، بنا بتائے چلے گئے، مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ ہر رابطہ ختم کر دیا۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں خود آپ سے شیئر کروں گی ہربات۔ انتظار تو کرتے، وقت تو دیتے مجھے۔“
اس کی آواز میں نمی گھل گئی، جو درید عباس کا دل کاٹ گئی۔
”مجھے اس وقت اپنی دنیا تباہ ہوتی نظر آئی تھی میرو، میں نہیں سہہ سکتا تھا کہ تم کسی اور کی ہو۔“
”مجھے محبت کی راہ پر لا کر خود راہ بدل گئے۔ میں کیسے کسی اور کی ہو سکتی تھی۔ آپ میرے لیے ہر راستہ بند کر گئے تھے درید عباس۔“
”مگر اب مجھے جینا آ گیا ہے۔ زندگی کے ان مشکل لمحو ںمیں جب آپ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، آپ منہ موڑ گئے۔ ایک بار پلٹ کر بھی نہیں پوچھا کہ تم کیوں باربار کال کر رہی ہو۔ اب صبر آ گیا ہے، جی لوں گی میں۔“
”مگر میں نہیں جی سکتا میرب اعجاز۔ میرے حال پر رحم کرو۔فار گاڈ سیک! مجھے معاف کر دو۔“ اس کے لہجے میں سچائی تھی۔