اسفند کی ذہنی حالت بہت ابتر تھی۔ ایک ہفتہ مکمل ہو چکا تھا مگر وہ سنبھل نہ سکا۔ اور پھر جب کچھ حوصلہ ہوا تو عینی کنول پھر اس کے سامنے آ گئی۔ وہ اور سعد بیٹھے ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے۔
”تم واقعی میری دیوانگی بن گئے تھے، مگر جب تابش سے میری دوستی ہوئی اور دھیرے دھرے ہم قریب آئے تو مجھے محسوس ہوا کہ تم سے محبت محض میری جذباتیت تھی۔ محبت تو مجھے تابش سے ہے اور اتنی شدید کہ اس کے بن اک پل بھی سانس لینا مجھ پر بھاری گزرتا ہے۔“
اسفند ضیاءکا دل ماتم کرنے لگا کہ جس لڑکی کو اس نے دیوانگی کی تمام حدوں سے چاہا وہ….
”میں تمہاری محبت کی قدر کرتی ہوں اسفند۔ ہم ہمیشہ اچھے دوست رہیں گے۔“
”تمہیں لگتا ہے عینی کنول کہ اب مجھے تمہاری شکل بھی دیکھنی چاہیے!“
”تمہیں تو میرا احسان مند ہونا چاہیے افند ضیائ۔ تم غیر مسلم تھے اور تمہیں دائرہ اسلام میں داخل کرنے کا کریڈٹ مجھے جاتا ہے۔“
”اور اگر تم ایسا سمجھتی ہو کہ تمہیں اس کا ثواب ملے گا تو تم غلط ہو عینی کنول۔ تم ایک دھوکے باز عورت ہو۔ تم نے جس طرح میرے دوست کی زندگی برباد کی ہے اس کا دل توڑا ہے، وہ آہ عمر بھر تمہارا پیچھا کرے گی۔“ سعد مزید چپ نہ رہ سکا۔
میں جاکر تمہارے شوہر کو تمہاری حقیقت بتاﺅں گا کہ تم کس قدر گری ہوئی ہو۔“
”اچھا! کوشش کر کے دیکھ لینا۔“
وہ تلخ مسکراہٹ اچھالتی چلی گئی۔ اور اسفند ضیاءسعد رسول کی بانہوں میں ڈھے گیا تھا۔
”میرے سچے جذبوں کے ساتھ اتنا بڑا مذاق!“
”اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں!“
سعد نے اسے خود سے بھینچ لیا۔
ض……..ض……..ض
”تمہیں صبر صرف اللہ کی ذات دے گی اسفند۔ دل کے قرار کے لیے اس سے رجوع کرو۔“
سعد نے اسے رستہ دکھایا تھا۔ یہ سچ تھاکہ اس نے اپنی محبت کے لیے اسلام قبول کیا تھا۔
لیکن اب اس نے دل کے سکون و قرار کے لیے اس ذات سے رجوع کیا تھا۔ اپنے الفاظ اپنے اعمال کی معافی مانگی تھی۔ گڑگڑا کے توبہ کی تھی۔
باقاعدگی سے قاری صاحب کے پاس جاتا اور اکثر اپنا وقت ان کی قربت میں گزارتا۔
”اسلام کیا ہے، قاری صاحب….!“
”اللہ پاک کی ذات اس کی وحدانیت پر کامل یقین اور اس رب کی عبادت و اطاعت ہی اسلام ہے۔“
”مجھے اس رب کی ذات پر یقین ہے، مگر وہ اطمینان نہیں، وہ سکون حاصل نہیں ہے جو مجھے آپ کے چہرے پر ملتاہے۔“
”تمہارے من میں وسوسے ہیں، انہیں دور کرو، سچے دل سے توبہ کرو۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جو بظاہر ایمان رکھتے ہیں مگر ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرتے، تردد کا شکار رہتے ہیں۔ تم نے اسلام اللہ کی رضا کے لیے قبول کیا ہے تو اب رب کو راضی کرو، ایمان کامل رکھو۔“
”قاری صاحب! میں گناہ گار ہوں۔ مجھے راہ دکھائیے کہ کیسے اب رب سے توبہ کروں۔ مجھے اپنے جیسا بنا دیں۔“”بچے! میں تو خود گناہ گار ہوں۔ اس رب کو راضی کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہوں۔ تم شرمندہ ہو اپنی خطاﺅں پر۔ اس رب سے معافی مانگو وہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور بخشش کرنے والا ہے۔ وہ تو اپنے بندوں کی مغفرت کے حیلے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ بس بندے کو اس سے رجوع کرنا شرط ہے۔“
وہ جیسے جیسے ان کی قربت میں بیٹھتا، اجس کی روح کو تسکین ملتی تھی۔ دل کو سکون اور راحت ملتی تھی۔
اسے افسوس ہوتا تھا کہ وہ اب تک کیوں دور رہا ہے اس رب سے، جو تمام جہانوں کا مالک ہے، یکتا ہے، لاشریک ہے۔“
مگر شاید ابھی اس کے صبر کی آزمائش تھی۔
اس کا قریبی دوست اس کے دکھ سکھ کا ساتھی سعد رسول ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوا تھا اور محض چند گھنٹوں میں اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔ یہ دکھ تو اس دکھ سے کہیں بڑھ کر تھا جو اسے محبت کی بے وفائی پر تھا۔
”میرے پاس میرے دوست کے علاوہ کوئی رشتہ نہیں تھا قاری صاحب۔ اب میں تنہا رہ گیا ہوں۔“
”اللہ پاک تمہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔ اپنے دوست کے لیے دعا کرو اللہ پاک اس کی مغفرت فرمائے۔“ آمین!
اس کڑے وقت میں قاری صاحب کی باتوں نے اسے ہمت و حوصلہ دیا تھا۔ اس کا دل شہر سے اٹھ چکا تھا۔ وہ یہاں سے جانا چاہتا تھا۔
”اگر تمہیں لگتا ہے کہ ماضی سے وابستہ یادیں بھلانے کے لیے یہ قدم ناگزیر ہے تو ضرور جاﺅ۔ اللہ پاک تمہاری حفاظت کرے، تمہیں امان میں رکھے۔“
”مجھے عمر بھر آپ کی دعاﺅں کی طلب رہے گی قاری صاحب!“
اس نے ان کے دونوں ہاتھ تھام کر عقیدت سے آنکھوں سے لگائے۔
”بس ایک بات کہنا چاہتا ہوں احمد ضیائ!“
وہ اسے اسی نام سے پکارتے تھے۔
”ماضی قریب میں جو بھی تمہارے ساتھ ہوا، اسے بھلانا مشکل ہے۔ مگر اللہ کی رضا اور اس کے حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے تم اپنے دل کی تمام سچائیوں سے اس لڑکی کو معاف کر دو۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔“
”وہ تو میں کر چکا ہوں، مگر قاری صاحب! وہ محبت اب بھی دل میں ہے۔“
”اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو صبر کی تلقین فرماتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ رب اس صبر سے تمہارے لیے کوئی خیرکثیر پیدا فرما دے۔“
وہ سر ہلانے لگا تھا۔
اس نے خود کو مکمل بدل لیا تھا۔ اور اب ہر دم یہ ہی دعا مانگتا کہ اس کی حیات ایسی ہو جائے کہ جو معبود حقیقی کو پسند آ جائے۔“
بس سعد رسول کے بعد اس شہر میں من نہ لگتا، لہٰذا وہ شہر چھوڑ آیا۔ یہاں آ کر ہوٹل میں کب تک رہتا، تو اس نے فی الوقت رینٹ پر گھر کے لیے تلاش شروع کر دی۔
جہاں اسے درید عباس ملا۔
”بھیا! گھر ملے یا نہ ملے اگر اس کڑاکے کی گرمی اور تیز دھوپ میںاگر مزید تم نے یہ تلاش جاری رکھی تو 1122 والوں کو خبر ضرور مل جائے گی کہ سڑک پرایک بندہ بے ہوش پڑاہے۔“
”کیا مطلب!“
”اندر آ جاﺅ، سارے مطلب سمجھاتا ہوں۔ پہلے خشک حلق تر کر لو۔“
اس نے پہلے اسفند کو پانی دیا تھا۔
”شہر میں نئے آئے ہو؟“
”ہوں، صبح مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اس علاقے میں رینٹ پر گھر مل جائے گا۔“
”ہو گا، مگر بھیا اتنی دوپہر میں کیوں خوار ہو رہے تھے؟“
”مجھے گھر کی شدید ضرورت ہے۔“
”اگر ضرورت اتنی ہی شدید ہے تو تم ہمارے غریب خانے پر زندگی بسر کر سکتے ہو، جب تک تمہیں قابل قبول گھر نے ملے۔ یہاں میرے علاوہ بھی تمہیں تین کارٹون برداشت کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ کوئی مشکل نہیں ہے بس۔“
ضرورت تو اسے واقعی تھی، اس نے طائرانہ نظر گھر پر ڈالی۔
”چار کمرے، ایک لیونگ، کچن اور صحن شامل ہیں اس گھر میں۔“
”کرایہ اور ایڈوانس۔“
”پا جی! تُسی اپنا سامان چکو، تے آ جاﺅ۔ فیر کرایہ بھی مُک جاﺅ گا۔“
اسفند کو قدم جمانے کے لیے ٹھکانہ درکار تھا۔ اس نے غنیمت سمجھا اور سامان اٹھا کر آ گیا۔
سنہرے کانچ کی سی آنکھوں کے گوشے نم تھے اور ان میں گہری سرخی کی لہر نمایاں تھی۔ درید عباس کوافسوس ہوا۔ کاش وہ لاعلم رہتا، لاعلمی بھی نعمت ہوا کرتی ہے۔ اب اسے وہ الفاظ نہیں مل رہے تھے جن سے وہ اسفند کو حواصلہ دیتا۔
”تجھے اب بھی محبت ہے اس سے؟“
”کیا کروں، بے بس ہوں۔ میری محبت تو سچ تھی ناں درید! میرے من سے وہ محبت نہیں مٹتی۔“
”لاحاصل ہے اسفند ضیائ۔“
”ہاں! مگر مجھے اس سب سے یہ سبق حاصل ہوا کہ عورت ذات ناقابل اعتبار ہے۔“ لہجہ ٹوٹا ہوا تھا۔
”یو نو اسفند! یو آر رانگ!“
”آئی ایم سرپرائزڈ درید عباس…. یہ تم کہہ رہے ہو جبکہ جس کے دل کو خود ٹھیس اس عورت ذات نے ہی دی ہے۔“
”تو!“ وہ زور سے نفی میں سر ہلانے لگا۔
”اس کی کوئی مجبوری رہی ہو گی کہ وہ مجھے سچ نہ بتا سکی، مگر اس نے ارادتاً مجھے ہرٹ نہیں کیا۔“
”اچھا، یہ پھر ہر مہینے کے اینڈمیں سوگ کس بات کا مناتا ہے تو۔“
”کم از کم اس بات کا نہیں کہ وہ غلط تھی یا مجھے چھوڑ گئی، ہاں دکھ ہوتا ہے کہ وہ مجھے نہ مل سکی اور مجھے یقین ہے کہ جیسے میرے دل میں آج تک آباد ہے، مجھے بھلا وہ بھی نہیں پائی ہو گی۔“
”یو آر امیزنگ درید عباس۔ایک لڑکی تمہیں دھوکا دے کر کسی اور کی ہو جائے۔“
”اس نے مجھے دھوکہ نہیں دیا اسفند، میرا دل کہتا ہے۔“
اسنے اسفند کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
”آئی ڈونٹ نو۔ بس اتنا طے ہے درید عباس کہ محبت صرف دکھ دیتی ہے۔
اس کی یہ بات بھی درید کو سچ لگی تھی۔
”ہائے ہائے میرے شرٹ!“
سویرے سویرے نہال کی دہائی پر اس کی آنکھ کھلی تھی۔
”خد کی قسم ویک اینڈ اتنا اچھا گزرا اور پھر آج سویرے ہی سویرے چخ چخ شروع ہو گئی۔“ ٹیبل پر ناشتہ لگاتے درید کی جھنجلاتی آواز آئی۔
”ڈونٹ وری! ہم تمہاری جان نہیں چھوڑنے والے۔“
بلال نے عالمی ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا۔
”پتہ ہے مجھے، بے غیرتی کے مقابلے میں سیکنڈ پرائز تو نے ہی جیتا تھا۔“ اس نے پانی سے بھرا جگ ٹیبل پرپٹخا۔
”ہائیں، سیکنڈ…. فرسٹ پرائز کس کو ملا تھا درید بھائی۔“
طلال جو اب تک بے نیاز بنا بیٹھا تھا، اشتیاق سے بولا۔
”آف کورس تجھے۔“ اور یہ سن کر طلال منہ بسورنے لگا تھا۔
”حد ہو گئی ہے، کوئی میرا دکھڑا سن ہی نہیں رہا۔“ نہال نے واویلا مچایا۔
”میاں کبھی کبھار ہو تو کان بھی دھریں۔ تم نے تو لڑاکا بیویوں والا وطیرہ ہی اپنا لیا ہے۔ صبح سے دہائیاں دیتے ہوئے رات ہو جاتی ہے۔“ درید نے لاپرواہی سے کہا۔
”طلال نے میری شرٹ جلا دی ہے۔“ نہال نے روہانسی لہجے میں کہا تھا۔ بلال نے طلال کو گھورا۔
”بائی گاڈ! ارادتاً نہیں جلائی۔ بس استری کو زیادہ ہی محبت تھی اس کی شرٹ سے۔ ایسے چپکی عمران ہاشمی کی طرح اترنے کا نام ہی نہیں لیا۔“
”ہاں تجھے جس دن بھی استری کرنی پڑ جائے ایسا ہی ہوتا ہے۔“
وہ غصے سے لال پیدا ہوتا اندر مڑ گیا۔ دوسری شرٹ استری کر کے پہنی اور بنا ناشتے کے چلا گیا۔
”کتنی غلط بات ہے۔ وہ بنا ناشتے کے چلا گیا۔“
”اسفند اٹھ تو چکا تھا نہال کی آواز پر، اب آیا تو وہ تینوں اطمینان سے ناشتہ کر رہے تھے۔
”روٹھی حسیناﺅں جیسے نخرے ہوتے ہیں اس کے صبح میں منانے کا ٹائم نہیں ہوتا۔“
”لیکن زیادتی تو طلال نے کی ہے ناں! کالج کی شرٹ جلا دی اس کی۔“
”بیلیو می بگ بی…. جان کر نہیںجلائی۔“
”کم از کم بلال تجھے زبردستی کچھ کھلانا چاہیے تھا۔“
”مغز نہیں الٹا تھا میرا، جو میں اپنا ناشتہ بھی حرام کرتا۔“
بلال ویسے ہی ان کے جھگڑوں سے عاجز تھا۔ اسفند نے تاسف سے سر ہلایا۔
”اور میری ہاف وائف اب نصیب سے جلدی اٹھ گیا ہے تو ناشتہ کر لے۔“
درید عباس اکثر اسے یوں چھیڑتا تھا۔
”بک نہیں۔“ اس نے درید کو گھورا۔
شام تک اسے نہال کا خیال رہا تھا، تب ہی واپسی پر اس کے ہاتھ میں نئی شرٹ تھی جو اس نے نہال کو تھمائی تھی۔
”تھینکس اسفند بھیا!“
”واہ! کبھی ہم پر بھی نظر کرم ڈال دیا کریں بگ بی۔“
طلال نے فوراً ہی ٹوکا تھا۔
مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ض……..ض……..ض
”طلال! اگر اب تو نہیں بیٹھا ناں تو تجھے چھت سے نیچے پھینک دوں گا۔“ درید نے نیچے جھانکتے ہوئے طلال کو دھمکی دی تھی۔
”ایویں انرجی ویسٹ کر رہے ہو بھیا جان تُسی۔ اینوں لگنی کوئی نئیں، بے غیرتی وچ ڈپلومہ ایویں نئیں کیتا۔“ نہال نے کلستے ہوئے کہا۔
”طلال! دس ازلاسٹ وارننگ۔“
”کیا ہے یار؟؟ خود تو گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہے ہو، مجھے تو لائف کا مزہ لینے دیں۔“
”یہ ہی حال رہا نا تیرا، چھت پر داخلہ ممنوع کر دوں گا میں۔“ درید نے سنجیدگی سے کہا۔
”طلال بات مانتے ہیں یار، شریفوں کا محلہ ہے، ضروری ہے کہ کہیں سے کمپلین آئے گی تو تب ہی مانو گے۔“
”یار! میں نے کیا کیا ہے، میرے کھڑے ہونے سے کیا کمپلین آئے گی۔“
”تم اچھی طرح جانتے ہو کہ گرمی کی شام میں اکثر لوگ چھت پر ہوتے ہیں۔“
”مانا کہ ٹین ایج میں مخالف صنف کی جانب متوجہ ہونا نیچرل سی بات ہے مگر تمہارا طریقہ غلط ہے۔“
”بگ بی! آپ کے خیال میں صرف میں غلط ہوں۔ کس دور کی بات کر رہے ہیں آپ! اب لڑکیاں خود آفر کرتی ہیں لڑکوں کو، آپ نہیں جانتے۔“
وہ نروٹھے پن سے بولا۔
”تم سے کہیں زیادہ ایڈوانس ماحول میں لائف گزاری ہے اس نے۔ اگر سمجھانے کی کوئی بات کر رہا ہے تو سن لے۔“ درید نے جھڑکا۔
”آئی نو! آنے والے وقت میں حیا اور وقار صنف نازک میں بھی نایاب ہو جائیں گے۔ بٹ ینگر برادر! انسان کو اپنی نظر کی حفاظت خود کرنی چاہیے۔
”ویری سوری بگ بی! بٹ کیا کروں، آپ میرے آئیڈیل انسان ہیں مگر میں آپ جیسا نہیں بن سکتا۔“ طلال نے معذوری بیان کی۔
”قصور تیرا نہیں، تیری عمر کا ہے۔“
”تُسی اب بڈھے ہو گئے ہو جی۔“
”روح بڈھی ہے، آپے تے اینے سوہنے ہو۔“ نہال نے گوہر افشانی کی۔
”یو آر امپاسبل!“ اسفند چڑ گیا۔
”تُسی خفا ہو گئے۔
”نہیں،میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی پڑھائی پر توجہ دو، کن چکروں میں پڑ گئے ہو۔“
”آپ محبت پر بہت یقین رکھتے ہیں بگ بی!“
”تمہیں لگتا ہے کہ جو تم کر رہے ہو وہ محبت ہے!“
”نہیں، لیکن مجھے درید عباس کی طرح پہلی نظر کی محبت پر قطعی یقین نہیں ہے۔ میرے خیال سے انسان کو اچھی طرح سمجھ کر ایک دوسرے کو جان کر محبت کرنی چاہیے۔“
”محبت نہ ہوئی پلاننگ ہو گئی۔“
”لائف پلان کرنے کا نام ہی تو محبت ہے۔ زندگی بھر کا سودا ہوتاہے۔“ طلال نے بحث بڑھائی۔
”محبت ہوتی وہ ہی ہے جو پہلی نظر میں ہو۔“
”پتہ چلے محترمہ کہیں اور کمیٹڈ ہوں پھر! بندہ تین چار لڑکیاں نظر میں رکھے، پھر سیلیکٹ کرے۔“
”لڑکی کیا ہوئی شرٹ ہو گئی جو دل کو بھائی پہن لی،باقی پھینک دیں۔“
”میرے نزدیک عورت کی عزت و احترام زیادہ مقدم ہے۔ جس شخص کی نظر میں عورت کا احترام ہو گا وہ یہ سوچ کبھی نہیں رکھے گا۔ محبت کرنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں طلال، یہ بھی بڑے دل والے ہی کر سکتے ہیں۔ ہر لڑکی پر عاشق ہونے والے نہیں۔“
درید کو موضوع سنجیدہ کر گیا۔
”کیا ملا آپ کو محبت کر کے؟ نہیں کرنی مجھے ایسی محبت جس کی وجہ سے میں باقی ساری محبتیں فراموش کر دوں۔“
”اب تم پرسنل ہو رہے ہو۔“ درید نے ٹوکا۔
”غلط تو نہیں ہوں ناں!“
”او کم آن یار! اسٹاپ اٹ۔“
اسفند نے دونوں کو روکا تھا مگر درید سخت موڈ آف کیے اٹھ گیا۔
ض……..ض……..ض
جانے لوگ کیسے کہہ دیتے ہیں محبت سوچ سمجھ کر اور پرکھ کے بعد کرنی چاہیے۔ اس کے نزدیک یہ محبت نہیں، پلاننگ ہوتی ہے۔“
”محبت تو وہ اثر ہے جو اچانک دل پر ہو اور دھڑکنیں منتشر کر دے۔“
”روح کو سرشار کرنے والا وہ جذبہ جو کسی بھی لمحہ دل میں اتر جائے اس کی تیاری نہیں کی جاتی۔ پہلے سے ارادہ نہیں باندھا جاتا۔“
”اور اگر یہ جرم ہے تو وہ پورے دل سے اقرار کرتا ہے کہ اس نے یہ جرم کیاہے۔ اس نے پہلی نظر کی محبت کی ہے۔“
وہ سردیوں کی نرم گرم سی دوپہر تھی۔ دو ہفتوں کی سخت سردی اور دھند کے بعد آج سورج سویرے ہی مہربان ہوا تھا۔ اور تمام لوگ دھوپ کی اس نعمت (سردیوں میں دھوپ نعمت لگتی ہے) سے بھرپور فیض اٹھا رہے تھے۔ وہ بھی فارغ تھا، سو آج دھوپ انجوائے کرنے کا نیا طریقہ اپنایا تھا۔ کرسی اور ایک اسٹول اٹھا کر گھر کے باہر آ بیٹھا۔ کرسی پر بیٹھ کرٹانگیں اسٹول پر پھیلائیں۔ اس سے دو سال بڑا بھائی یاسر عباس بھی کینو لے کر وہیں آ گیا۔
”کینو صرف آج مزے دار لگے ہیں۔“
وہ دونوں بھائی ہلکی پھلکی شوخیوں کے ساتھ کینو کھا رہے تھے۔ دو سال بڑا ہونے کے باوجود یاسر سے اس کا مذاق چلتاتھا۔
”آپس کی بات ہے، یہاںبیٹھ کر دھوپ اور آنکھیں دونوں سینک رہے ہو تم۔“
اس نے پل بھر کی چوری بھی پکڑ لی تھی یاسر کی۔
”مجھے جیسے شریف آدمی پر اتنا بڑا الزام!“
”الزام نہیں،میری دو گناہ گار آنکھیں گواہ ہیں۔ ابھی جو ریڈ اور بلیو ڈریس میں براﺅن بالوں والی لڑکی گئی ہے، آپ نے اسے پٹانے کی کوشش کی۔ آپ کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا۔ اس کے یاقوتی لبوں پر پنک لپ سٹک تھی۔“
”اچھا!“ یاسر نے دو جھانپڑ لگائے تھے اس کے۔“
”میں نے سرسری نظر ڈالی۔ مجھے بدنام کرتے ہو، خود پورا پوسٹ مارٹم کر کے بیٹھ گئے۔“
”ارے میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، وہ تو اس کی نیلی کانچ سی آنکھیں پل بھر مجھ پر رکیں تو میں نے بھی دیکھ لیا۔“
اس نے ڈھٹائی سے بتیسی نکالی۔ یاسر دو چار ہاتھ مزید اس کے جڑتا اٹھ گیا اور پھر سے پھیل کر بیٹھ گیا۔
وہ آج شرط لگا کر بیٹھا تھا کہ سورج جائے گا تو وہ اندر جائے گا۔ امی نے دوبارہ کھانے پر بلایا تو وہ نہیں گیا۔
”اندر آﺅ گے تو کھانا ملے گا۔ فقیروں کی طرح دروازے پرنہیں دوں گی۔“
وہ جی اچھا کہہ کر آنکھیں موند کر دھوپ کے مزے لینے لگا۔
قریبا ڈھائی بجے کا ٹائم تھا جب نیند کا غلبہ زور سے آیا اور وہ کرسی سے نیچے گرتے گرتے بچا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں…. جسم پر سُستی سی چھا گئی تھی۔ مگر اچانک نیند کے جھٹکے سے اس نے آنکھیں جو کھولیں تو اسے لگا بالکل رائٹ ٹائم پر اس نے دیدے وا کیے تھے۔
وائٹ کالج کے یونی فارم میں جو دوشیزہ اسے سامنے دکھائی دی تھی وہ اس کی نظریں ساکت کر گئی تھی۔ حالانکہ اس کا چہرہ بالکل سادہ تھا۔ وائٹ دوپٹے کے ہالے میں سنہری گندمی چہرے میں جو کشش تھی وہ آج سے پہلے ہزاروں چاند چہرے دیکھ کر بھی اسے محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اس کی کٹورہ سی بڑی بڑی آنکھوں میں ناگواری تھی اس کے لیے جو ہونقوں کی طرح اسے گھور رہا تھا اور جب تک وہ ان کے گیٹ سے اگلے گیٹ کو کراس کر کے اندر نہیں گئی درید عباس کی نگاہیں اس پر ہی جمی رہیں۔
کتنی حیرت انگیز بات تھی، اس کے پڑوس میں دنیا کی سب سے پیاری لڑکی رہتی تھی اور وہ بے خبر تھا۔ اب اسے دھوپ میں بھی کشش محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ تب ہی وہ کرسی اور اسٹول اٹھا کر اندر آ گیا اور امی کے پاس صحن میں ہی چارپائی پر پھیل گیا۔ مگر اس کے ذہن سے لمحہ بھر کو بھی وہ چہرہ محو نہیں ہوا تھا۔ بڑی عجیب سی بات تھی کہ ایک سادہ سا چہرہ اس کے حواسوں پر چھا گیا تھا حالانکہ اس سے کہیں زیادہ خوبصورت وہ ریڈ ڈریس والی لڑکی تھی جس کے حوالے سے وہ یاسر کو چھیڑ رہا تھا۔ پھر بھی وہ محض چند منٹ بعد ہی ذہن سے نکل گئی تھی۔ یہ تو ذہن سے چپک کر ہی رہ گئی تھی۔
”ہمارے محلے میں نئے لوگ آئے ہیں امی۔“
رات کے کھانے پر وہ امی سے پوچھ رہا تھا۔ امی کے ساتھ ساتھ یاسر اور ابو نے بھی بہت حیران ہو کر اسے دیکھاتھا۔
”بچے، جو تمہارے حالات ہیں کچھ دنوں میں تمہیں اپنے گھر میں رہنے والے لوگ بھی نئے لگیں گے۔“
امی ہمیشہ ہی اس کی عادت سے نالاں رہتی تھیں کہ وہ صرف اپنی ذات میں مگن ہو کر جیتا تھا۔ گھر میں، پڑوس میں، محلے میں کیا ہو رہا ہے، اسے کچھ خبر نہ تھی۔
”ہمارے محلے میں تو دو سال سے نئے لوگ نہیں آئے، تم پڑوس کی بات کر رہے ہو۔“
”یہ جو ہمارے ساتھ والا گھر ہے براﺅن گیٹ والا….“
”اعجاز بھائی کا ہے۔ چھ سال ہو گئے ہیں انہیں یہاں آئے۔ ایڈووکیٹ ہیں۔ بہت اچھی فیملی ہے۔“
”مجھے نہیں پتا تھا۔“
”اپنی ذات سے نکلو گے تو پتا چلے گا ناں! عمر بھر یہ تعلقات، یہ رشتہ داریاں ہم نے ہی نہیں نبھانی۔ آج ہیں، کل کا کیا پتا۔ آنکھیں بند کرکے جس طرح تم زندگی گزار رہے ہو، یہ غلط ہے۔ دو بھائی ہو تم، جو ہماری کل کائنات ہو۔ یاسر سے ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے مگر تم نے کبھی گھر کو وقت دیا۔“
”تمہیں تو یہ تک علم نہیں ہوتا کہ تمہاری امی کی طبیعت کس قدر خراب رہی ہے۔“
امی کے ساتھ ساتھ ابو نے بھی آج اس کی خبر لی تھی۔
”مجھ سے سارا وقت گھر میں ٹک کر نہیں بیٹھا جاتا۔ یہ میرے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔“
”سچ کہا۔ آج قسمت سے گھر میں تھے تو گلی میں ڈیرے ڈالے بیٹھے رہے ہو۔ میں کہتی ہوں کب جائے گی تمہاری لاپرواہی۔ شادی کی عمر ہو چکی ہے تمہاری…. اور اگر یہ ہی حالات رہے تو میں ہرگز کسی معصوم لڑکی کو لا کر عمر بھر بددعائیں نہیں سمیٹ سکتی۔ تم نے تو اس کی خبر نہیں لینی۔“
”چار دن ہوئے ہیں میری نوکری کو، آپ کو شادی کی پڑ گئی ہے۔ یہ جو دو سال سے جاب کر رہا ہے اس کی کر دیں۔“
وہ چڑ گیا تھا۔ اس لیے کچھ لاڈلا تھا اور بقول یاسر کے بدتمیز بھی۔
”ہاں تو کر رہی ہوں ناں! تمہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ تمہارے بھائی کی بات طے ہو گئی ہے۔“
”اس گھنے نے مجھے بتایا کب ہے۔“ اس نے کھسیا کر کہا۔
”شاباش! تم گھر میں رہتے ہو اور یہ تمہیں بتائے گا۔“
ابو نے اسے شرمندہ کیا…. اسے قدرے افسوس بھی ہوا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی لاپرواہ ہے۔ مگر وہ کیا کرتا، اس کی نیچر ہی ایسی تھی۔ خیر یاسر کی منگنی طے ہو گئی تھی اور دن اسے یاد تھا۔
اس منگنی سے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی میرب اعجاز سے جان پہچان ہو گئی۔ بے تکلفی تو خیر نہیں، مگر بات چیت ضرور ہوئی تھی۔ وہ فورتھ ایئر کی اسٹوڈنٹ تھی۔ پُرخلوص، ملنسار اور سادہ مزاج۔ درید عباس تو اس کے سادہ مگر پُرکشش چہرے کا ہی دیوانہ ہو چکا تھا۔ اس کے لیے یہ ہی بہت اچھا تھا کہ میرب اعجاز ایڈووکیٹ اعجاز عارف کی بیٹی تھی۔ ان کے پڑوس میں رہتی تھی اور بس۔ اس سے زیادہ جاننے کی اس نے سعی کی نہ اسے ضرورت تھی۔”آپ کو میرا نمبر کہاں سے ملا۔“
پہلی بار جب اس نے یاسر سے اس کا فون نمبر لے کر فون کیا تھا تو وہ حیران رہ گئی۔
”یاسر سے، کیا تمہیں بُرا لگا۔“
”نہیں تو، بس….!!“
یہ اس کی پہلی کال تھی۔ پھر وہ اکثر آفس سے آ کر شام میں اسے کال کر لیتا تھا۔ بات ہمیشہ وہ مختصر سی کرتی تھی۔ کال صرف وہ کرتا تھا۔ میرب نے کبھی اسے کال نہیں کی تھی مگر اتنا جانتا تھا کہ ان میں اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی تھی۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ میرب کے لیے وہ کیا ہے۔ مگر وہ میرب اعجاز کو دل کی تمام شدتوں سے چاہنے لگا تھا۔
اسکی سحر کا آغاز اور دن کا اختتام میرب اعجاز سے ہونے لگا تھا۔
”آج کالج نہیں گئیں۔“
”اوں ہوں۔“
اس کی آواز میں تازگی نہیں تھی۔
”تم ٹھیک تو ہو میرب!“
”ہاں! میں بزی تھی۔ گھر میں کچھ گیسٹ آئے ہوئے ہیں۔“
اس نے ٹالا، حالانکہ درید انداز ہ لگا گیا تھا کہ وہ کچھ چھپا رہی تھی۔
”تم ٹینس ہو!‘
”کچھ پرسنل پرابلم ہیں بس۔“
اس کا مطلب ہے کہ تم مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھتیں کہ اپنے پرابلمز شیئر کر سکو۔“ اس نے افسوس سے شکوہ کیا۔
”شاید ابھی آپ سے شیئر نہ کرنا میری مجبوری ہو۔“
اس کے لہجے میں مان تھا۔
”اوکے، ایز یُو وِش۔“
اس نے بنا خفا ہوئے سہولت سے فون بند کر دیا تھا۔
دو تین دن وہ بھی مصروف رہا جو اس نے میرب کو کونٹیکٹ نہیں کیا۔ مگر اس دن دوپہر میں وہ جلدی گھر آ گیا تب ہی راستے میں میرب بھی کالج سے آتے ہوئے اسے ملی تھی۔
درید نے قطعاً راستے میں اسے مخاطب نہیں کیا مگر گھر آ کے پہلا کام اسے کال کی تھی۔
”میں نے ابھی ابھی تمہیں دیکھا ہے، تم بہت ڈسٹرب لگی ہو۔“
”ہاں!“ اس نے اعتراف کیا تھا۔
”کیا وجہ ہے….؟“
اس نے پوچھا اور وہ بتاتی بھی، مگر تب ہی اسے میرب کے پیچھے بہت تیز آوازیں سنائی دی تھیں۔
”درید میں خود آپ کو کال کرتی ہوں، ابھی پلیز کچھ۔“
”نیور مائنڈ۔“ اسے خود تشویش ہوئی تھی کہ پرابلم کیا ہے۔
”خفا تو نہیں ہوئے۔“
”کم آن میرب! جنہیں چاہا جاتا ہے ان کے دکھوں اور پریشانیوں کو سمجھنا بھی انسان پر فرض ہے۔“
”تھینکس….“
میرب نے فون بند کر دیا مگر وہ الجھ گیا۔ اس کے پیچھے جو چیخنے کی آوازیں تھیں اور اس الجھن کو امی سلجھا سکتی تھیں۔
”امی! اعجاز انکل کے گھر میںکوئی ٹینشن ہے۔“
بات تو بے ہوش ہونے والی تھی۔ ان کا بیٹا اپنی ذات سے نکل رہا تھا۔ ماں خوش تھی۔
”ہاں بس! لڑکیوں کے ماں باپ بھی عمر بھر فکرمند رہتے ہیں۔ اللہ پاک تمام بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔“
امی تو اسے مزید الجھن میں ڈال گئیں۔
”کیا ہوا، مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اعجاز بھائی کا۔“ ابو بھی شریک گفتگو ہو گئے۔
”آئے ہوئے ہیں بچی کے سسرال والے۔ عمران بھی آیا ہے۔ اللہ پاک لڑکے کو ہدایت دے۔“
امی اس کی ساری حسیں بیدار کر گئی تھیں۔ بچی کے سسرال والے کہہ کے۔
”پھول سی بچی مرجھا کے رہ گئی۔“ امی تاسف سے سر ہلانے لگیں۔
”آپ بھی خبر لے لیا کریں۔ اعجاز بھائی پوچھ رہے تھے آپ کا۔“
امی ابو سے مخاطب ہو گئیں اور درید عباس پر سانسیں بھاری ہونے لگیں۔ اسے جانے کیوں انہونی کا وہم ستانے لگا۔ وہ امی سے تو کچھ نہیں پوچھ سکا، ہاں رات میں یاسر سے ایویں سرسری سا ذکر چھیڑا تو اس پر تمام راز کھل گیا۔
”اعجاز انکل کی بیٹی نے لو میرج کی تھی اپنے کزن سے…. مگر چھ ماہ بعد ہی گھر میں جھگڑے شروع ہو گئے اور تقریباً سال بھر سے وہ یہیں ہے۔ اب سنا ہے کہ اس کا شوہر اور سسرال والے آئے ہیں اسے لینے۔“
”وہ تو پڑھ رہی تھیں ناں!“ درید نے اٹکتے ہوئے پوچھا۔
”اس کی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی، پھر اس نے وقت بھی تو گزارنا تھا۔ بہت پریشان رہی ہے وہ۔“
مزید کچھ پوچھنا بے کار تھا۔ اس کی آنکھوں میں مرچیں سی لگنے لگیں۔
”اوکے یار! میں تو سونے جا رہا ہوں، نیند آ رہی ہے۔“
وہ یاسر کو ٹال کرکمرے میں آ گیا۔
”میں انجان تھا۔ کم از میرب مجھے بتا کر میرے بڑھتے قدم روک دیتی۔ عورت کتنی ہی سادہ مزاج ہو، خود پر اٹھنے والی نگاہ کا مفہوم جان لیتی ہے۔ میرب میرے احساسات سے انجان نہیں تھی۔
غلطی میری ہے۔ میں نے کبھی میرب کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اس سے کبھی اس کی ذات کے حوالے سے اس کی فیملی کے حوالے سے کچھ نہیں پوچھا۔
شاید میں نے اپنی غلطی سے یہ ٹھیس کھائی ہے۔
بس محبت کا یہ روگ ایسا لگا کہ اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا۔ وہ تو بھرے گھر میں رہ کر ہمیشہ صرف اپنی ذات میں مگن رہا، مگر اب تو جانے اس پر عجیب سی کیفیت طاری تھی۔
اس نے حقیقت جاننے کے بعد دوبارہ میرب سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی۔ البتہ پہلی بار میرب نے اسے خود کال کی تھی جو اس نے بنا اٹینڈ کیے کاٹ دی تھی۔
ایک محبت ان تمام محبتوں پر ایسی حاوی ہوئی کہ اس نے اپنا گھر، ماں باپ، بھائی شہر تک چھوڑ دیا اور پچھلے دو سال سے وہ یہاں تھا۔
فون پر رابطہ بھی گھر والے خود کرتے تھے اور جس دن بات ہوتی تھی ان سے درید عباس کے من میں پہلی نظر کی محبت پھر بین کرنے لگتی۔ اس کے دل میں میرب اعجاز آج بھی اسی مقام و مرتبے پر تھی۔ نہ محبت کم ہوئی تھی نہ عزت۔ بس ایک پہیلی تھی جو وہ سلجھا نہ سکا۔ ایک بات تھی جو دو سال سے اسے الجھا رہی تھی کہ جب میرب نے لو میرج کی وہ اپنے گھر واپس چلی بھی گئی تو وہ کیوں اسے کال کرتی تھی۔ میرب نے ان دو سالوں میں کئی بار اسے کال کی تھی، جو اس نے اٹینڈ نہیں کی اور اس کا ایس ایم ایس تو آج بھی اس کے اِن باکس میں Saved تھا۔
وہ کیوں اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھی!“
مگر سونے سے پہلے وہ ایک بار اس کا میسج ضرور ریڈ کرتاتھا۔
”Where are you?“۔ آپ کی ضرورت شدت سے محسو س ہو رہی ہے۔ پلیز کال می۔“
اس کے الفاظ درید عباس کی سب سے بڑی الجھن ہے۔“
ض……..ض……..ض
وقت نے دھیرے دھیرے انہیں قریب کر دیا۔ وہ ایک دوسرے کے دکھ سے واقف تھے، سمجھتے تھے بلکہ اسفند ضیاءکو تو لگتا تھا کہ وہ چاروں ہی اس کے لیے اہم بنتے جا رہے ہیں۔
”یک نہ شد دو شد، بگ بی! آپ بھی نہال کو فیور کرتے ہیں۔ مجھ سے بھی پیار کر کے دیکھیں، میں بھی برا نہیں۔“
”تجھے پیار کرنے والیاں بہت ہیں، ہمارے پیار کی تجھے ضرورت نہیں۔“ درید نے فوراً کہا تھا۔
”کل کس کو لیے بائیک پر گھوم رہا تھا۔“
”اتنا بڑا الزام میری شرافت پر۔“ احتجاج کروں گا،دھرنا دوں گا۔“ طلال نے چلا کر کہا۔
”چھتر بھی کھائے گا۔“ بلال نے لتاڑا۔
”ایویں ہمارے ہاں دھرنے کا رواج عام ہے۔ ہمیشہ دھرنے دینے والوں کی مانی جاتی ہے۔“
”تجربہ کر کے دیکھ لے پھر۔“ درید نے اکسایا۔
”نہ بابا…. اکثریت میری مخالف ہے، اقلیت کو ہمیشہ مار پڑتی ہے۔“ وہ ڈر گیا۔
”کاکا سمجھدار ہو گیا۔“
”اس ملک کا بچہ بچہ سیاست میں ہی سمجھدار ہے کیونکہ اسے ایک ہی سبق پڑھنے کو ملتا ہے، سیاست، سیاست، سیاست۔“
”اس ملک کے بچے ہی تو ناسمجھ ہیں، انقلاب ہمیشہ نوجوانوں نے برپا کیا ہے مگر آج کا نوجوان کیا سوچتاہے؟“
”یہ ہی کہ اس کی گرل فرینڈز کی تعداد اس کے دوست سے کم کیوں ہے۔ اس نے کونٹیکٹ میں لڑکیوں کے نمبر کی گنتی کم ہے۔ ہمارے ملک میں ہر چیز کا استعمال غلط ہوتا ہے چاہے وہ موبائلز ہوں یا انٹرنیٹ۔“
”مجھ پر ڈائریکٹ اٹیک نہ کریں، یہ سارے معاشرے کا المیہ ہے۔“ طلال نے کہا۔
”ہم سارے معاشرے کی ہی بات کر رہے ہیں۔“
”معاشرہ سدھارنا حکمرانوں کا کام ہے، ہمارا نہیں۔“
”یہ ہی خامی ہے ہمارے اندر طلال، تبدیلی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔“
اسفندنے رسان سے سمجھایا۔
”لگتا ہے آپ کو اس ملک میں تبدیلی آ سکتی ہے جس ملک میں ساٹھ سال سے چہرے تبدیل نہیں ہوئے جہاں حکومت وراثت سمجھ کر کی جاتی ہے۔ جہاں تعلیم و شعور کا فقدان ہے۔“
”اور یہ شعور کون آ کر بیدار کرے گا ہم میں۔ اب اقبال نہیں آئے گا جوانوں کو جگانے۔ یہ شعور ہمیں خود بیدار کرنا ہو گا اپنے اندر تبدیلی ہمیشہ اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔“
”او گاڈ! کس بحث میں پڑ گئے یار، چینج دی ٹاپک۔“ طلال نے کہا۔
”کب سدھرے گا طلال تو….“ اسفند نے اسے گھورا۔
”خدا کی قسم اگر آپ ساتھ رہے تو وہ دن ضرور آئے گا۔“
طلال واقعی اسے آئیڈیالائز کرتا تھا۔ اس کی مقناطیسی شخصیت سے بہت انسپائر تھا وہ۔
”کوئی مرد اتنا وجیہہ ہو کہ لڑکیاں اس پر مرتی ہوں اور اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کا راستہ بہت اچھا ہے۔ اللہ مجھے بھی ہدایت دے۔“
”چنگا مکھن لگا دیا۔“
نہال کی زبان پر کھجلی ہوئی۔اسفند مسکرا دیا اور طلال چڑ کے نہال کو مارنے لگا تھا۔
ض……..ض……..ض
اتنا گہرا ملال درید عباس کے چہرے پر پہلی مرتبہ تھا۔ اسے وقتی دورہ تو پڑتا رہتا تھا مگر دو دن گزرنے کے بعد بھی اس کے چہرے پر وہی کیفیت تھی۔
”سیریس میٹر ہے کوئی، تو کبھی اتنا اداس نہیں ہوتا۔“
”اسفند…. ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔“
”واٹ؟ اور تو اب تک یہیں بیٹھا ہے۔“
اسفند نے تاسف سے اسے دیکھا جس کے چہرے پر کرب جھلک رہا تھا۔
”وہاں جانے کا حوصلہ نہیں پڑتا یار۔“
”ایک لڑکی کی محبت اتنی حاوی ہے تم پر…. کہ تم نے جنم دینے والے ماں باپ، اپنا گھر ہر رشتہ چھوڑ دیا۔ خوش نصیب ہو درید عباس کہ یہ نعمت میسر ہے۔ سر پر دعائیں دینے والی ماں کا سایہ، باپ کی پُرشفقت نگاہیں اور تمہارے لیے تڑپنے والا بھائی ہے۔ شکر ادا کرو اس رب کاجس نے اتنا نوازا ہے تمہیں اور صبر کرو اس پر جو تمہارا نصیب نہیں تھی۔“
اسفندنے قدرے سختی سے اسے ڈانٹا تھا۔
”کیسی اولاد ہو تم، تمہارے ابو تکلیف میں ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہو۔“
”مجھے خبر ہے نا کیسے خود پر جبر کرکے بیٹھا ہوں۔“
”وائے کس نے کہا ہے…. جبر کرنے کو…. اٹھو تیاری پکڑو۔“
اسفندنے اسے جیسے جھنجھوڑا تھا۔ درید عباس اگلے لمحے بیگ تیار کر رہا تھا۔ اسفند اسے خود اسٹیشن چھوڑنے گیاتھا۔