تو چلا جا…. یار مجھے بڑی چڑ آتی ہے اس سے۔ چھپکلی کی طرح چپکنے کے چکر میں رہتی ہے یار۔
”آئی ڈونٹ کیئر اور یو نو مجھے نفرت ہے اس طرح کی گرلز سے۔“
”یو نو اسٹیفن، اس وقت وہ بیسٹ ماڈل ہے پاکستان کی۔“
”سو واٹ سعد…. مجھے اپنا نام بنانے کے لیے ایسی سیڑھی کی ضرورت نہیں ہے۔“
نشا سرمد جتنا اس پر مرتی تھی وہ اتنا ہی دور بھاگتا تھا اس سے۔“
”اچھا تجھ سے کام تھا، موڈ خراب نہ کر۔“
سعد نے اس کی پیشانی پر نمایاں ہوتے بل دیکھے۔
وہ بھی گہری سانس لے کر خود کو خوامخواہ کی بدمزگی سے نکالنے لگا۔ سعد کی باتوں میں الجھ کر اسے یاد نہیں رہا۔ ورنہ وہ سعد سے رانگ کال والی لڑکی کے بارے میں شیئر کرنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف اس کے من میں یہ بھی تھا کہ ہو سکتا ہے یہ اس کے کسی فرینڈ کی شرارت ہو۔ جو بھی تھا، ایک بار پھر وہ یہ بات فراموش کر گیا۔ مگر دوسری طرف وہ ہی مستقل مزاجی تھی اور بات کی اتنی پکی تھی کہ عین اس وقت کال کی جب وہ لائٹ آف کر کے سونے کی تیاری میں تھا۔ جی جان سے جل گیا تھا وہ اس کی آوازسن کر۔
”ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے۔“
”بی بی گھڑی کی سوئیاں دیکھو۔ اس وقت کسی بھی شریف آدمی کو کال کرو گی تو وہ ڈسٹرب ہی ہو گا۔
”ایم سوری، مگر تمہاری آواز سنے بنا مجھے نیند نہ آتی۔ یو نو، بے شک تمہیں میری آواز سن کر غصہ آتا ہے۔ بٹ میرے لیے تم اور تمہاری آواز، دونوں بہت اسپیشل ہیں۔“
”لسن میڈم! یہ ڈرامہ بند کرو اور سیدھے سے بتاﺅ کہ تم کون ہو اور مجھے تنگ کر کے کیا ملتاہے۔“
”میں صرف تمہیں چاہتی ہوں۔“
بے باک لہجے اس کے تن بدن میں آگ لگا گیا۔
”جسٹ شٹ اَپ۔“ بند کرو یہ بکواس اور مجھے سکون سے سونے دو۔“
”میرا سکون چھین کر تم کیسے سکون سے سو سکتے ہو۔“
”ٹیل می پلیز! آخر تم کون ہو؟“
”عینی کنول ہوں۔ آئی نو۔ تم مجھ سے تنگ ہو، بٹ میں تم سے دوستی کرنا چاہتی ہوں۔“
”اور میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہوتا۔“
”آئی پرامس یو، میں کبھی تمہیں تنگ نہیں کروں گی۔ بس تم جب تمام مصروفیات سے ایزی ہو جاﺅ تو مجھے مِس بیل کر دیا کرو۔“
”پاگل ہوں میں یا میرے سر پر سینگ ہیں۔“
”پاگل تو میں ہو چکی ہوں تمہارے لیے، بنا تمہیں دیکھے۔“
”اُف گاڈ…. یہ کیا بلا ہے؟“
مجال ہے جو کسی بات کا اثر ہوتا ہو۔ اگلے دن لنچ ٹائم میں وہ سعد سے یہ تمام صورتحال شیئر کر رہا تھا۔
”تمہاری چاہنے والیوں میں ایک اور کا اضافہ۔“
اس کے لہجے میں حسرت تھی۔
”اللہ میاں جی، ہمارے نصیب بھی کھول دو۔“
”خبیث انسان، میں جان چھڑوانے کے چکر میں ہوں اور تو!“
”اسٹیفی، اس سے ملنے کا بول ناں، دیکھتے تو ہیں کیا چیز ہے؟“
”آئی ول کل یو سعد رسول۔“
”ناﺅ سیریس۔“ دیکھ اگر تجھے شک ہے کہ وہ ہمارے کسی فرینڈ کی شرارت ہے تو تب بھی ایک بار ملنا تو پڑے گا ناں۔“ تو اسے فون کر ناں۔“
”نیور۔“
وہ ماننے کو تیار نہ تھا۔
”ہاں اگر وہ خود کال کرے گی تو کہہ دوں گا۔“
سعد نے آنکھیں نکالنے پر اس نے بات مکمل کی۔ اور شام میں ہی اس کی کال آ گئی تھی۔ اتفاق سے سعد اس کے ساتھ ہی تھا۔
”میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔“
”رئیلی! اس کا مطلب ہم دوست بن گئے۔“
”نو….ملنے کے بعد ڈیسائیڈ ہو گا۔“
اس نے فوراً۱ سپاٹ لہجے میںکہا تھا۔
”اوکے، کب اور کہاں….“
وہ تو جیسے تیار بیٹھی تھی…. اسٹیفن نے اسے ٹائم اور جگہ کا بتا کر فون بند کر دیا تھا۔
”مل لینا جا کے اب۔“
”کیا مطلب؟؟“
سعدکے حیران انداز میں کہا۔
”اسے کیا پتا چلے گا اگر میری جگہ پر تم چلے جاﺅ گے، تمہاری حسرت بھی پوری ہو جائے گی۔“
”بڑا کمینہ ہے تو….!“
”یو نو، آج میں بزی ہوں۔“
”کل کا ٹائم دے دیتا۔“
”سچ بتاﺅں تو مجھے ملنا ہی نہیں۔ تیری خواہش تھی ، اب مل لینا اور آ کے مجھے بھی بتا دینا۔“
”دس از ناٹ فیئر اسٹیفی۔ تم خود جانا۔“
سعد نے صاف منع کر دیا۔
”اکیلا!!“
”کہاں پھنسا دیا تو نے۔“ تجھے ہیلپ کرنے کو کہا تھا، جان عذاب میں ڈالنے کو نہیں۔“
اس نے گردن جھٹکی مگر سعد نے کسی نہ کسی طرح اسے قائل کر لیا تھا اور وہ عین ٹائم پر پہنچ بھی گیا تھا۔
”میں اسے جانتا تک نہیں۔ یہاں تو سینکڑوں لڑکیاں ہیں۔“ کیسے پتا چلے گا ان میں عینی کنول کون ہے۔“
وہ جھنجھلایا ہوا تھا۔ سعد اس کے چہرے پر بیزاری دیکھ کر جل کر رہ گیا۔
”اچھا شکل تو ٹھیک کر۔ جا ڈیٹ پر رہا ہے اور بارہ بج رہے ہیں۔“
”تھپڑ کھا لے گا تو۔ ڈیٹ پر۔“
وہ دونوں چاروں طرف نگاہیں گھما رہے تھے۔
”وہ اکیلی لڑکی بیٹھی ہے بلیو ڈریس والی۔“
سعد نے آنکھ سے اشارہ کیا۔
”تو ضروری ہے کہ وہ ہی ہو۔“
”پوچھنے میں کیا حرج ہے، جا دفع ہو۔ میں یہیں ویٹ کرتا ہوں۔ سعد نے اسے آگے کی طرف دھکا دیا اور خود وہیں خالی ٹیبل کے گرد پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔
اچھا خاصا بندہ کس چکر میں پھنسا دیا تھا۔
”مس عینی کنول۔“
وہ عین اس کے سامنے آن رکا تھا۔ اس کے سوال پر وہ اٹھ کھڑی ہوئی تہوئی تھی۔
”یس!!“
عینی کنول کی نظریں اس کے چہرے پر جیسے جم کر رہ گئیں۔
”میڈم پلیز سٹ ڈاﺅن۔“
بمشکل اس نے لہجہ نارمل رکھا۔ کرسی پربیٹھتے ہوئے اسے بھی کہا تھا وہ جیسے چونک کر مسکرا کر پھر سے بیٹھ گئی۔
اسے دیکھ کر یہ شک بھی دور ہو گیا تھا کہ اس کے کسی فرینڈ کی شرارت ہو گی۔ مگر یہ طے تھا کہ وہ جو بھی تھی
حسن و خوبصورتی کا نمونہ تھی۔
نازل سا سراپا، کمر پر لہراتے براﺅن بال، سیاہ بڑی آنکھیں۔
”اب ہم دوست بن سکتے ہیں۔“
وہ مسکرا کر بولی تو وہ لمحے بھر کو ساکت رہ گیا تھا۔
”کیا چاہتی ہو تم مجھ سے۔ میں تمہیں جانتا تک نہیں ہوں۔“
جان پہچان بنانے کے لیے تو آئے ہیں ناں۔“
اس کے لہجے میں اعتماد تھا۔
”نام جان سکتی ہوں تمہارا؟“
”اسٹیفن جوزف۔“
اس کے بولنے پر وہ لمحہ بھر کو خاموش سی ہوئی تھی مگر اگلے پل وہی مسکراہٹ دوبارہ اس کے لبوں کا حصہ بن گئی جو پہلے بھی اس کے چہرے پر تھی۔
”یو نو اسٹیفن، تمہارے لیے میں غیراہم ہوں۔ مگر تم میری دیوانگی بن گئے ہو۔ تمہیں دیکھے بنا چاہنے لگی ہوں میں اور آج تم سے ملنے کے بعد اس دیوانگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔“
’لیکن میں یہاں صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ پلیزکیوں اپنا اور میرا وقت برباد کر رہی ہو، میں بہت مصروف بندہ ہوں۔“
”میں نے پہلے بھی تم سے کہا تھا اور آج بھی وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری مصروفیت میں کبھی تنگ نہیں کروں گی۔ بٹ پلیز یہ مت کہنا کہ مجھے کال کرنا چھوڑ دو۔“
”وائے۔“ وہ اکتا گیا تھا۔
”میں تمہیں مجبور نہیں کرتی کہ تم بھی مجھے چاہو۔ مگر تم میری چاہت ہو اور تم سے بات کرنا میری مجبوری ہے۔ پلیز!“
وہ صاف انکار کرنا چاہتا تھا مگر اس کی آنکھوں میں التجا نے اس کی زبان روک لی اور وہ سر ہلا بیٹھا تھا۔
یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ مگر پھر روزرات میں عینی کنول سے بات کرنا اس کی روٹین میں شامل ہو گیا۔
پہلے پہل وہ صرف اس کی سنتا تھا اور ہوں ہاں میں جواب دے دیتا۔ مگر دھیرے دھیرے جب بے تکلفی ہوئی تو وہ بھی عینی کنول سے اچھی خاصی گپ شپ کرنے لگا۔ اور محض ایک ماہ میں وہ ونوں ایک دوسرے کے بارے میں تمام باتیں جان چکے تھے۔
عینی کنول ایک امیر باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ ماں باپ دونوںہی بزنس میں انوالو رہتے تھے اور تنہائی دور کرنے کے لیے اس نے فون پر دوستیاں بنانے کا مشغلہ اپنایا تھا۔
اسٹیفن کے علاوہ بھی اس کے بہت سے دوست تھے جن سے فرینڈشپ اس کی فون پرہوئی تھی۔ یہ اس کا شوق بن گیاتھا۔ مگر اسٹیفن دوست سے بڑھ کر تھا اس کے لیے۔
اب ان کی دوستی محض فون تک محدود نہیں تھی، وہ اکثر ملتے تھے۔ کبھی باہر ڈنر کر لیا اور کبھی وہ اسٹیفن کے اپارٹمنٹ پر آجاتی۔ کبھی اسے فون کر کے پوچھ لیتی کہ وہ کب تک بزی ہو گا…. اور وہیں سے اسے پک کر لیتی۔
”اسٹیفی…. خیریت ہے ناں،کچھ خاص اہمیت دینے لگے ہو عینی کو۔“
سعد رسول نے جو نوٹس کیا کہہ دیا۔
”ہاں….! بی کوز وہ ہے ہی اسپیشل۔“
اس نے کھل کر مسکراتے ہوئے کہا۔
”دھیان سے! نشا سرمد کو علم ہو گیا کہ تم کسی اور کی زلف کے اسیر ہو چکے ہو تو بہت برا ہو گا۔
”میری پرسنل لائف میں انٹرفیئر کرنے کا حق کس نے دیا ہے اسے۔“
”اچھا تو جا، موڈ خراب نہ کر۔“
وہ جانتا تھا کہ عینی نے اسے فون کیا ہے۔
”سعد! پتا نہیں مگر عینی بہت اہم ہو گئی ہے میرے لیے۔“
”اچھی بات ہے ناں! تنہا زندگی گزر نہیں سکتی۔ اور لائف پارٹنر بھی ٹائم پر تلاش کرلینا چاہیے۔“
”لائف پارٹنر۔“
اس نے زیرلب دہرایا تھا مگر مزید کچھ کہا نہیں اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ عینی کنول کے سامنے بیٹھا تھا۔
”اچھے لگ رہے ہو۔“
اسکائی بلیو شرٹ اور بلیک پینٹ میں اس کی وجاہت نمایاں ہو رہی تھی۔ وہ مسکرایا۔ یہ حقیقت تھی کہ عینی کی پرشدت چاہت نے اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔ وہ اتنی محبت کرتی تھی تو بھلا کیسے وہ خو دکو محبت کی اس آگ سے بچا سکتا تھا۔ تبھی وہ عینی کنول کو اس کی شدتوں سے بڑھ کر چاہنے لگاتھا۔
”پتا نہیں عینی کنول اس محبت کا انجام کیا ہے۔“
اس کی سنہرے کانچ سی آنکھوں میں بے چینیاں جھلک رہی تھیں۔
”کیوں ہو تم بے یقین۔“ میں تمہارے لیے جان دے سکتی ہوں مگر تمہیں چھوڑ نہیں سکتی۔“
”میں اتنا جانتا ہوں عینی کہ!! میں ادھورا ہوں تمہارے بنا۔ تمہارے وجود سے میری ذات مکمل ہو سکتی ہے۔“
ض……..ض……..ض
”آئی ایم فائن سعد رسول۔“
سینکڑوںبار کہنے کے باوجود بھی سعد نے اسے گھر لا کر ہی چھوڑا تھا۔
”تجھے وہم ہو گیا ہے، میں نے نارمل ہی پی ہے۔“
”اندازہ ہے مجھے۔“
اس کے لڑکھڑاتے لہجے پر وہ تپ کر بولا تھا۔
”تم یہ چھوڑ نہیں سکتے۔“
”تجھے کیا پرابلم ہے۔“
”یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے اور جب اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے تو….“
”تمہارے مذہب میں منع ہے!! اور اس کے باوجود تم سب لوگ پیتے ہو، سرعام پیتے ہو۔ مجھ پر پابندی کیوں؟؟“
وہ کبھی کبھی ایسی تلخ بات کہہ جاتا اور سعد سہہ جاتا۔ کیونکہ بات تلخ ضرور ہوتی تھی مگر حقیقت بھی تھی کہ مسلمان ہونے کے باوجود یہ برائی عام تھی ہمارے معاشرے میں۔
”میں تو نہیں پیتا۔ اسی لیے تمہیں اپنا سمجھ کر منع کر دیتا ہوں۔مگر آج کے بعد نہیں کروں گا…. سو جاﺅ گڈ نائٹ۔“
”سعد لسن۔ ایم سوری، میں تجھے ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔“
”میں ہرٹ نہیں ہوا۔“
وہ سعد کو روکنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا تھا۔ سعد نے سہولت سے اس کا ہاتھ ہٹایا تھا اوربہت دھیمے سلجھے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔
”ایک بات کہوں؟ مذہب کوئی بھی ہو برائی سب کے لیے برائی ہی ہے۔ یہ محض انسان کی اپنی سوچ کا فرق ہوتا ہے۔“
لمحہ بھرکو وہ رسان سے بولا تھا۔
”ناراض ہو گیا ہے ناں!“
”نہیں، بس نیند آ رہی ہے۔“
”تو…. یہیں سو جا اس وقت گھر جائے گا، انکل آنٹی ڈسٹرب ہوں گے۔ میں فون کر دیتا ہوں۔“
زبردستی کھینچ کر اسے واپس لے آیا۔
”ایم سوری سعد پلیز!“ اتنا وہ سمجھ گیا تھا کہ سعد ہرٹ ہوا ہے۔
”آئی تھنک، مجھے عینی کنول سے بات کرنی ہو گی۔ تم اس کی بات کبھی نہیں ٹالو گے۔“
سعد بھی ناراضگی بھول کر بولا تھا۔ وہ ہنس دیا۔
”لو کچھ اور مانگ لیتے، ادھر نام لیا ادھر اس کا فون آ گیا۔“
اس کے موبائل پر صرف عینی کی ہی کال آ سکتی تھی۔ اس نے بنا اٹینڈ کیے سیل سعد کی طرف بڑھا دیا تھا۔
”نو، میںتو ایسے ہی کہہ رہا تھا۔ خود بات کرو۔ اس سے تم نے بات کرنی ہے۔“ وہ سر ہلاتا ہوا دور جا بیٹھا تھا۔
”وہ تو ہر وقت صرف مجھ سے بات کرنا چاہتی ہے۔ یو نو سعد! شی از کریزی اور اس نے مجھے بھی دیوانہ بنا دیاہے۔ اب تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بن سانس بھی نہیں لے سکوں گا۔“
اسے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی، سعد اس کی دیوانگی کے عالم سے بخوبی واقف تھا۔
”اوکے! بٹ ابھی کال اٹینڈ کرو۔“
ایک بار بند ہو کر پھر سے موبائل بجنے لگا تھا۔
”ہیلو ڈیئر….!“
لہجے میں کچھ شراب کا خمار تھا اور کچھ اس کے پیار کا۔
”سو گئے تھے۔“
”اوں ہوں…. ابھی آیا تھا گھر۔ یوں بھی تم سے بات کیے بنا سو سکتا ہوں۔“
”یہ ہی تو پرابلم ہے اسٹیفن جوزف، ورنہ رات کے اس پہر انسان سو چکا ہوتاہے۔“ وہ مسکراتے لہجے میں بولی تھی۔
”میں تو ہر رات تمہارے وجود کو محسوس کر کے سونا چاہتا ہوں۔ کب مٹاﺅ گی یہ دوریاں، کب ختم ہوں گی میری بے قراریاں۔“
وہ بہکے بہکے اندازمیں بولا تھا۔ سعد نے بمشکل اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی، کیونکہ اس کے خیال میں اسٹیفن۔
”آئی تھنک، تم نے آج پھر ڈرنک کی ہے۔“ عینی بھی سمجھ گئی۔
”تمہارے پیار سے زیادہ نشہ نہیں ہے شراب میں۔“
”بٹ، اس وقت صرف شراب کا نشہ ہے تمہارے لہجے میں…. تم پلیز سو جاﺅ۔“
”گڈ نائٹ!“
”گڈ نائٹ، لو یو ڈیئر۔“
”آئی لو یو ٹو….“
عینی کی خوبصورت آواز بند ہونے کے بعد بھی کانوں میں اتری ہوئی تھی۔
”بہتر ہو گا جتنی جلدی ممکن ہو سکے تم شادی کر لو، ورنہ تمہاری یہ بے قراریاں کہیں کچھ اور….“
سعد ے شرارت سے جملہ ادھورا چھوڑا۔
”سو واٹ، بدنام گر نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔ محبت میں انتہا سے گزرجانا ہی دیوانگی ہے۔“
”اچھا دیوانے صاحب! مجھے تو نیند آ رہی ہے۔ تم کھوئے رہو خیالوں میں، مجھے سونے دو۔“
سعد نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔
اکثر ہی وہ اس سے ملنے اس کے فلیٹ پر آ جاتی تھی ، جیسے آج اچانک آ کر اس نے سرپرائز دیا تھا۔ کیونکہ آج وہ گھر پر تھا۔
”سرپرائز براتو نہیں لگا۔“
”وائے!“ اس کی سارے جہاں سے خوبصورت آنکھوں والی مسکراہٹیں تھیں جو عینی کنول کو دیکھ کر گہری ہو جاتی تھیں۔
”یہ گھر بھی تمہارا ہے اور میں بھی، جب بھی آﺅ گی تمہیں منتظر ملیں گے۔“
”او، رئیلی!“
”میرے پیار کی سچائی میری آنکھوں میں نظر نہیں آتی جان من۔“
”ان آنکھوں میں جو نظر آتا ہے وہ میرے وجود کو پگھلا دیتا ہے۔“ دیوانگی دونوں طرف برابر تھی۔
”کیا لو گی۔“ ا سنے ماحول پر چھائے اثر کو زائل کرنا چاہا۔
”آج میں بناﺅں گی اور تم چپ کر کے پی لو گے۔“
”کیا….!“
”بلیک کافی….!“
”اوکے۔“ اس نے کندھے اچکائے۔ عینی کچن کی طرف چل دی۔ وہ وہیں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا تھا۔
”اسٹیفن! تمہیں نہیں لگتا یہ فلیٹ چھوٹا ہے۔“
کافی کا مگ اس کے سامنے رکھ کر بولی تھی۔ اپنا مگ ہاتھ میں لیے وہ وہیں کھڑے ہو کر تمام جائزہ لینے لگی۔
اسٹیفن نے گردن موڑ کے اسے دیکھا جو عین اس کے پیچھے کھڑی تھی۔
”میرے خیال میں ہم دونوں کے لیے کافی ہے۔“
عینی اس کی شوخ سی بات پہ کھل کر مسکرائی تھی اوربالکل اس کی پشت کے پاس آ کر بانہیں اس کے شانوں پر پھیلا دیں۔ چہرہ اس کے سیاہ بالوں پر رکھ دیا۔
”تمہارا ساتھ چاہیے اسٹیفن جوزف اور کچھ نہیں۔ جو کہو گے مان لوں گی، جہاں رکھو گے رہ لوں گی۔“
اس کے لفظوں میں آنچ تھی جو اسٹیفن کے دل کو چھو گئی۔ اس نے عینی کا بازو تھام کر اسے اپنے پیچھے سے اپنے سامنے بالکل قریب بٹھایا تھا اور اس کے نازک وجود کو بانہوں کی پناہوں میں لے لیا۔
اس پر سحر طاری ہونے لگا تھا۔
”ہاں! مگر وعدہ کرو یہ دیوانگی صرف میرے لیے ہو گی اور عمر بھر کم نہ ہو گی۔“
اس کی محبت کا خمار عینی کنول کو بھی مدہوش کر رہا تھا۔ اسٹیفن جوزف اس وقت کمزور لمحوں کی گرفت میں تھا۔ اس نے لبوں سے عینی کا چہرہ چھوا تھا۔ عینی کی قربت اسے بہکا رہی تھی۔ اس کا تنفس تیز ہونے لگا تھا۔
اس سے پہلے کہ اس کی مدہوشی حد سے گزرتی، یکدم اسے ہوش آیا تھا اور اس نے عینی کو جھٹکے سے دور کیا تھا خود سے اور فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
”او گاڈ!“ دس از رانگ۔“
دونوں ہاتھوں سے سر تھامے وہ نفی میں سر ہلا رہا تھا۔ عینی دنگ سی اس کی حالت دیکھ رہی تھی۔
جس ماحول میں دن رات وہ رہتا تھا وہاں صحیح غلط کا اندازہ بہت کم لوگوں میں ہوتاہے اور اس کے اندر یہ احساس تھا تبھی وہ شرمندہ تھا۔
”یہ کیا کرنے لگا تھا میں۔“
”او کے، جسٹ ریلیکس! شاید دیوانگی اسی کا نام ہے۔“
”بٹ دس از رانگ۔ مجھے لمٹس کراس نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ ایم سوری، عینی پلیز!“
”اٹس او کے۔“
اس نے اسٹیفن کا ہاتھ تھام کر اسے صوفے پر بٹھایا اور پانی دیا۔
”تم میرا جنون بن گئی ہو۔ میں نہیں رہ سکتا اب مزید تمہارے بنا پلیز عینی۔“
”بیلیو می! یہ اتنا آسان نہیں ہے۔(وہ بولی)
”مشکل کیا ہے؟“ اسٹیفن کی آنکھیں اس کے جواب پر حیرت سے پھٹ گئیں۔
”تم جانتے ہو اسٹیفن کہ تمہارے اور میرے بیچ کیا رکاوٹ ہے۔“
”یو مین کہ تم مسلمان ہو اور میں!!‘
عینی اسے خاموش کرا گئی۔
”تمہارے لیے یہ میری محبت سے زیادہ اہم ہے۔ ہزاروں شادیاں ہوتی ہیں ایسے دنیا میں۔“
”ہوتی ہوں گی، مگر میں تم سے ایسے شادی نہیں کر سکتی۔“
’یعنی یہ شرط ہے تمہاری۔“
”ایسا نہیں ہے اسٹیفن، مگر میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتی جو ہمارے معاشرے میں غلط سمجھا جاتا ہے۔“
”معاشرے کی اتنی فکر ہے تمہیں۔ اور عینی تم اس وقت میرے گھر پر میرے ساتھ موجود ہو۔ یہ معاشرے کے لیے صحیح ہے، دن رات مجھے فون کرتی ہو۔“
”وہ میری محبت ہے کہ میں نہیں رہ سکتی۔ لیکن کیا تم میرے لیے یہ نہیں کر سکتے۔“
”کیا….؟“
”یہ ہی کہ تم اسلام قبول کر لو۔“
کئی لمحے ان دونوں کے بیچ خاموشی رہی۔
”تم مجھ سے میری سانسیں بھی مانگ لو تو عینی کنول میں انکار نہیں کر سکتا۔ تم جیسا چاہتی ہو میں تیا رہوں صرف تمہیں پانے کے لیے۔“
”رئیلی اسٹیفن!“
بہت خوش ہوئی تھی وہ۔ اسٹیفن نے سر ہلا دیا۔
اس کے خیال میں تو صرف عینی کنول کی محبت اہم تھی اب جو وہ چاہتی تھی۔
اس نے حامی بھر لی تھی۔
”میں کل صبح تمہیں لینے آﺅں گی۔ قاری صاحب کے پاس چلیں گے۔“
”جہاں لے جاﺅ گی چل پڑوں گا۔ مجھے صرف تمہیں پانا ہے اور بس، اس نے اقرار کی مہر لگا دی۔“
سعد رسول کو اس نے یہ نیوز دی تھی، وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکا ہے تو سعد نے بہت خوشی سے اسے گلے لگایا تھا، بہت خوش ہوا تھا۔
”محبت ہو یا دوستی، یہ کبھی کسی مذہب یا ذات کے فرق کو تسلیم نہیں کرتی۔ میرا ایمان میری محبت ہے اور میری محبت کی یہ خواہش تھی جس کا میں نے احترام کیا۔“
سعد رسول کے چہرے پر یکدم خوشی کے تاثرات ختم ہو گئے تھے۔
”تم جانتے ہو تم نے جو دین اپنایاہے اس کے لیے دل کی رضامندی اور دل سے ایمان لانا سب سے اہم ہے۔“
”دیکھو سعد! میں نے دل و دماغ کی رضامندی سے ہی یہ فیصلہ لیا ہے۔“ اس نے سعد کا چہرہ دیکھا۔
”مگر اس فیصلے میں تمہارا مرکز اللہ کی ذات نہیں، عینی کی خوشی اہم ہے۔ تم نے عینی کو پانے کے لیے یہ دین قبول کیا ہے۔ اللہ کی رضا کو پانے کے لیے نہیں۔“
”تم کیوں مجھ سے اب یہ بحث کرنا چاہتے ہو۔ تمہارے لیے میری خوشی اہم نہیں۔“
”ہے، اور میں تمہارے لیے بہت خوش بھی ہوں۔ اللہ پاک تمہیں سارے جہاں کی خوشیاں عطا کرے۔“
اس نے اس کے شانے کو تھپک کر کہا تھا اور مسکراتے ہوئے اسے گڈ لک کہہ کر چلا گیا۔ ہاں اسے اپنے بیسٹ فرینڈ کے اسلام قبول کرنے کی جو خوشی ہوئی تھی وہ اب نہیں رہی تھی۔ اسے اس کے حال پرچھوڑ دیا تھا سعد رسول نے۔
اور اب وہ تھا اور عینی، اور ان کی دیوانی محبت۔
”عینی! اب کس بات کے انتظار میں ہو؟ تم اپنے پیرنٹس سے بات کروناں!“
”اسفند ضیائ! میں نے ان سے بات کی ہے، پلیز کچھ ویٹ کرو۔“
”ڈیڈ سنڈے کو فارغ ہوں گے، میں تمہیں ان سے ملواﺅں گی۔“
وہ ساحل سمندر پر بیٹھے تھے۔ اور آج اسفند بہت سنجیدہ تھا۔ اس ٹاپک کو لے کر اب عینی کیوں دیر کر رہی ہے۔ جبکہ عینی نے جو کہا اس نے آنکھیںبند کر ے مانا تھا۔
کیiونکہ اس نے پوری سچائی اور دل کی تمام شدتوں سے عینی کو چاہا تھا۔
”تمہارا موڈ کیوں آف ہے؟“
وہ اپنے موبائل پر آنے والے ایس ایم ایس کو چیک کرتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
”سیدھی سی بات ہے، اب ایک پل بھی تم بن نہیں گزرتا۔“
”او گاڈ! یو آر کریزی اسفند ضیائ۔“
یہ نام بھی عینی کی پسند تھا۔ ورنہ قاری صاحب نے اسے احمد ضیاءکا نام تجویزکیا تھا مگر اس نے تو وہ ہی کرنا تھا جو عینی کی چاہت تھی۔
”ہاں ہوں۔“
اس نے قدرے غصے سے کہا تو وہ ہنس دی۔ تبھی اس کے موبائل پر بیپ ہوئی تھی۔ اس نے فوراً کال اٹینڈ کی۔
”ہائے تابش! سوری یار میں بزی تھی۔“
حالانکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ اس کے ساتھ ہوتے ہوئے عینی کے پاس کوئی کال آئی تھی۔ اکثر ہی اس کی کالز آتی تیں کیونکہ فون پر دوستی کرنا اس کی ہابی تھی۔
مگر آج پہلے بار اسے بُرا لگا تھا۔ وہ کتنا سیریس تھا شادی کے ٹاپک کو لے کر جبکہ عینی کو فکر ہی نہیں تھی۔ وہ غصے میں وہاں سے اٹھ گیا۔
جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ اب عینی کی دیوانگی سرد پڑنے لگی ہے یا شاید وہ واقعی اس کے لیے کریزی ہو رہاہے۔“
”یہ کیا حرکت ہے، کیوں اٹھ آئے تم؟“
”تمہیں فرق پڑتا ہے، میرے ہونے یا نہ ہونے سے۔“
”اسفند ! تمہارے ساتھ کیا پرابلم ہے۔“
”میرے ساتھ ہوتے ہوئے تم کسی اور سے بات کرو، مجھے اچھا نہیں لگتا۔“ اس نے صاف گوئی سے دل کی بات کہہ دی۔
”وہ میرا دوست ہے اور یو نو ویری ویل، یہ فرینڈشپ کرنا میری ہابی ہے۔ یہ میں نہیں چھوڑ سکتی۔“
اسفند ضیاءاس وقت خاموش ہو گیا مگر اب اکثر ہی ان میں یہ بحث شدت اختیار کرنے لگی تھی۔ اسفند کے چہرے کا اضطراب ان دنوں چھپائے نہیں چھپتا تھا۔ تبھی سعد کو پوچھنا پڑا۔ حالانکہ اس نے اسفند کو اس کے حال پر چھوڑ دیاتھا۔
”کیوں بے چینیاں جھلک رہی ہیں ان سنہری آنکھوں میں!“
”نتھنگ….!“
وہ سعد کو کیا بتاتا کہ عینی کے سرد پڑتے جذبات نے بے چین کر دیا تھا۔ وہ جتنا اس کے لیے پاگل تھی، اب لاپروہ ہو رہی تھی۔
”اتنے فاصلے نہیں ہوئے ابھی ہم میں کہ تیری آنکھیں مجھ سے دل کا حال کہنا چھوڑ دیں۔“
”دل ہی تو احمق ہے، کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔“
”عینی سے جھگڑا ہوا ہے!“
”وہ ملتی کب ہے، اب کال کرو تو نمبر بزی ہوتا ہے۔ پورا ویک ہو گیا ہے سعد،جانے کیوں میرا دل وہموں کا شکار ہو رہا ہے۔ سعد اس کے بغیر نہیں جی سکتا، مر جاﺅں گا۔“
”اللہ پر بھروسہ رکھو۔ ان شاءاللہ جو ہو گا بہتر ہو گا۔ شاید اس کی کوئی مصروفیت ہو۔“
”کچھ بتائے تو سہی۔ ا س نے مجھ سے کہا تھا وہ اپنے پیرنٹس سے بات کر چکی ہے اور اتوار کو اس نے مجھے اپنے ڈیڈ سے ملوانا تھا۔ بٹ اس نے مجھ سے کوئی کانٹیکٹ نہیں کیا۔“
”ہو سکتا ہے اسی بات کو لے کر ان کے گھر میں کوئی پرابلم ہو اور وہ تمہیں پریشان نہ کرنا چاہتی ہو۔“
”سعد اس کے پیرنٹس اچھے خاصے لبرل ہیں۔ عینی ان کی اکلوتی اولاد ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس چیز کو ایشو بنائیں گے۔“
”پھر تجھے کیا بے چینی ہے؟“
”عینی کا بدلتا رویہ۔“ اس نے دل کا خدشہ ظاہرکیا۔
”اوکے، میں عینی سے بات کروں گا، تو کیوں اتنا ٹینس ہو رہا ہے۔“ سعد نے اسے تسلی دی تھی اور محض تسلی نہیں تھی، اس نے عینی سے کانٹیکٹ بھی کیا تھا۔
”اسفند بہت اَپ سیٹ ہے، تم سے ملنا ہے۔“
”اوکے۔“ عینی نے کہا تھا اور وہ سعد نے جہاں بلایا، آئی بھی تھی۔“
”یو نو ویری ویل، کہ تم اس کے لیے کیا ہو۔ اس کے پاس دنیا میں تمہارے علاوہ اور کوئی بھی رشتہ نہیں بچا ہے۔ وہ وسوسوں کا شکار ہے۔“
سعد کی بات کے جواب میں وہ خاموش ہو رہی تھی۔
”میں اس سے خود بات کر لوں گی۔“
اس کا لہجہ کسی بھی تاثر سے خالی تھا۔ سعد نے اسے دیکھا۔
”کب….!“
”آج کل میں بزی ہوں، فرصت ملتے ہی۔“
”جبکہ تم جانتی ہو کہ وہ کتنا فکرمند ہے۔“
”دس از ناٹ مائی پرابلم…. اسے سمجھا دو۔“
”عینی! بات کیا ہے؟ تم سے ملنے کے بعد مجھے بھی اندازہ ہوا کہ اسفند سچ ہی پریشان ہے۔ تمہارا لہجہ بہت بدلا بدلا سا ہے۔“”یہ میرا پرسنل میٹر ہے۔ میں تم سے ڈسکس نہیں کر سکتی۔“
”اوکے،بٹ ریمیمبر، میرے دوست کو ذرا سی بھی ٹھیس پہنچی تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا۔“
سعد جانے کیو ںجذباتی ہو گیا۔
”اوہ، تو ٹھیک ہے۔ جا کے سنبھالو اپنے دوست کو۔ کیونکہ میں شادی کر رہی ہوں تابش سے، اور کل ہمارا نکاح ہے۔“
وہ سعد کو شاک کی کیفیت میں چھوڑ کر اپنی بات مکمل کر کے چلی گئی۔
ض……..ض……..ض
بہت کوشش کی اس نے کہ اسفند کوبتا دے مگر وہ یہ ہمت خود میں پیدا نہی کر سکا۔ دو دن کشمکش میں گزر گئے۔ مگر اس کی حالت دیکھ کر کچھ بتانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں بے سدھ پڑا تھا۔ کمرے میں سگریٹ اور شراب کی بو اس قدر پھیلی ہوئی تھی کہ سانس لینا محال تھا۔ مگر ساکت پڑے اسفند کو دیکھ کر وہ اس کی طرف لپکا۔
”اسفند!“ اس نے اسفند کو دونوں بازوﺅں سے تھام کر اٹھایا اور اس کا گال تھپکا تھا۔ مگر وہ قطعی ہوش میں نہ تھا۔پھر اسے ایمرجنسی میں اٹھا کر وہ ہاسپٹل لایا تھا۔ جہاں اسے فوری ٹریٹ منٹ دی گئی تھی۔
”ضرورت سے زیادہ ڈرنک کے باعث ان کی یہ کنڈیشن ہوئی ہے۔“
یہ ڈاکٹر کی رائے تھی۔
”یہ روٹین میں ڈرنک کرتے ہیں؟“
”اتنی زیادہ نہیں کرتا، کبھی کبھی بس فرینڈز کے ساتھ۔“
”آپ کو اندازہ ہے کہ اتنی زیادہ ڈرنک ان کی کڈنیز کے لیے بھی پرابلم بن سکتی ہے۔“
اب وہ کیا سمجھائے ڈاکٹر کو کہ صدمے اور دکھ کے باعث اس نے زیادہ پی لی ہے، ورنہ وہ کبھی حواس نہیں کھوتاتھا۔
دو دن کی ٹریٹ منٹ کے بعد وہ کچھ بہتر ہوا تھا۔ مگر سعد کی گود میں سر دھرے جب وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو دیا تو سعد کی آنکھیںبھی نم کر گیا…. وہ کیسے اسے حوصلہ دیتا، وہ تو خود شاک میں تھا۔
”کیوں سعد کیوں؟؟ ایسا کیو ںکیا اس نے میرے ساتھ؟“
”شاید وہ تیرے قابل ہی نہیں تھی۔ اللہ پاک نے تیرے لیے یقینا اس سے کہیں بہتر لڑکی منتخب کی ہو گی۔“
”سب کچھ چھین کر اب کیا دے گا وہ مجھے!“
”استغفراللہ…. ایسے الفاظ ادا نہیں کرتے اسفند…. وہ ہمیں ستر ماﺅں سے زیادہ چاہتا ہے، اسی لیے ہمیں وہ عطا کرتا ہے جو وہ ہمارے لیے چاہتا ہے اور جو وہ چاہتا ہے اسی میں ہماری بھلائی ہوتی ہے۔“ وہ کافی دیر اسے سمجھاتا رہا۔