سورج کی تیز کرن چہرے سے ٹکرائی تو اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ درید عباس حسب معمول ونڈو سے پردہ ہٹا کر گیا تھا تاکہ سورج کی تیز شعائیں جیسے ہی ونڈو سے اندر داخل ہوں تو وہ فوراً ہی جاگ جائے۔ یہ واحد طریقہ تھا اس کو جگانے کا….
کسلمندی سے اس نے خود پر سے کمبل ہٹایا تھا اور ذہنی طور پر خود کو بستر چھوڑنے کے لیے تیار کیا۔ بمشکل نیند چھوڑ کر انگڑائیاں لیتا وہ کھڑکی تک آیا تھا۔
روشن صبح مسکرا کر اسے ویلکم کہہ رہی تھی۔ مگر سویرے ہی دھوپ کی شدت سے انداز ہ ہو رہا تھا کہ آج سورج کا موڈ صبح سے ہی خاصا خراب ہے۔مگر اس کے باوجود سڑک پر ہر طرف گہماگہمی تھی۔ معمول کی زندگی روز کی طرح شروع ہو چکی تھی۔ کھڑکی کے پردے برابر کرتا وہ واش روم میں گھس گیا۔
باتھ لے کر اس کی ساری سستی ہوا ہو گئی تھی اور وہ بہت فریش موڈمیں کمرے سے باہر نکلا۔ مگر یہاں صرف سناٹا تھا۔ ویران پڑا ڈائننگ ٹیبل اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
تقریباً گھنٹہ پہلے یہاں کس قدر دھماچوکڑی مچی ہو گی، یہ سوچ کر خودبخود دھیمی سی مسکراہٹ اس کے لبوں کوچھو گئی۔
گھر میں جب وہ سارے ہوں تو زندگی کتنی خوشگوار لگتی ہے۔ عبدل اور نہال ایک دوسرے سے چھیڑچھاڑ، بلال کا انہیں سمجھانا اور کبھی سخت جھنجھلا کر انہیں پیٹنا۔درید عباس کی ناشتے کے لیے بھاگ دوڑ،اور ٹیبل سجا کر اپنے مخصوص اسٹائل میں سب کو بریک فاسٹ کے لیے بلانا…. وہ چاروں صبح میں جلدی میں ہوتے تھے۔نہال اور طلال کو کالج کی اور درید کو اپنی جاب کی، بس وہ کاہلی مارا تھا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا آفس لیٹ ہی تھا۔ لیکن اگر وہ کبھی کبھار جلدی جاگ جاتا (غلطی سے) یا فجر کے بعد سوتا ہی نہیں تھا تو ان چاروں کی نظریں ہی اسے گاڑ دیتیں۔ حیرت سے مربعوں میں پھیلی آنکھیں دیکھ کر وہ خود پر ہزار بار لعنت بھیجتا کہ وہ جلدی اٹھ کر آیا ہی کیوں تھا۔
ناشتے کے نام پر چائے کی طلب نے اسے کچن کی طرف رُخ کرنے پر مجبور کیا تھا مگر پہلا قدم کچن میں رکھتے ہی اس کا دل گھبرانے لگا۔
”اُف تو یہ آج درید پر کون سا جنون سوار تھا۔“
کچن کی ابتر حالت دیکھ کر اس کی نفاست پسند طبیعت بوجھل ہونے لگی۔ برتن یوں سارے کچن میں پھیلے ہوئے تھے گویا ان میں جنگ عظیم ہوئی ہو۔ چائے بنانے والا ساس پین چولہے پر یونہی کھلا پڑا تھا۔ مکھیوں کو خوب عیاشی کا موقع ملا تھا۔ یا انہیں یہ گولڈن چانس خود فراہم کیا گیا تھا۔ جو بھی ہو مگر اس کے لیے وہاں رکنا ناممکن ہو گیا تو وہ لاﺅنج میں آ کر دیکھنے لگا پھر کچھ دیر بعد اماں بی آ گئیں (کام والی ماسی) تو اسے چائے پینے کی کچھ امید نظر آئی تھی۔
”السلام و علیکم اماں بی۔“
ان کی عمر کے باعث وہ سب انہیں احترام سے پکارتے تھے۔
”وعلیکم السلام پتر۔“
انہوں نے خوش دلی سے جواب دیا پھر بغور اس کا جائزہ لیا۔
”کی گل…. تھکا تھکا لگ رہا ہے۔“
”نہیں بس آج صبح کی چائے نہیں پی۔“
”میں بناداں پُتر۔“
”اماں بی چائے تو میں بنا لوں گا مگر پلیز آپ کچن سمیٹ دیں۔“
”اچھا…. فیر چائے بنا داں۔“
”ہوں۔“
اس نے مختصر سا جواب دیا۔ ایک تو وہ کم گو تھا دوسرا اماں بی بولنے کی شوقین تھیں۔اماں بی نے ا س کی توجہ اخبار پر دیکھی تو وہاں سے ہٹ گئیں۔
”ہو گئی تیری سویر۔“
درید عباس کی آواز پر وہ بے طرح چونکا۔ اخبار چھوڑ کر اسے دیکھاجو قطعی رف حلیے میں اس کے سامنے سنگل صوفے پر آ کر گر سا گیا تھا۔
”تو گھر پر ہے۔“
اس کی آواز میں تازگی نہ تھی نہ چہرے پر روز والا فریش لُک۔ بکھرے الجھے بے ترتیب سیاہ گھنے بال، ہلکا ہلکا سرخ ہوتا چہرہ، آنکھوں میں سرخی سی جھلک رہی تھی۔ سلیولیس ٹی شرٹ اور ٹراﺅزر میں وہ بالکل ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔
”آر یُو اوکے۔“
”ہاں بس رات سے ٹمپریچر ہے۔صبح بیچارے بلال کو بھی اکیلے ہی سب ہینڈل کرنا پڑا ہو گا۔ اسے اپنے بخار سے زیادہ فکر بلال کے ڈبل مشقت کی تھی اور بنا کسی رشتے کے وہ ایک محبت ہی تو اسے اٹریکٹ کرتی تھی…. بنا کسی تعلق کسی رشتے کے وہ ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے تھے اتنا خیال رکھتے تھے۔ اب تو وہ بھی ان میں شامل ہونے لگا تھا۔
”میڈیسن لی تو نے۔“
”رات لایا تو تھا، مگر ابھی تک خاص اثر نہ ہوا۔“
”میں اماں بی سے تمہارے لیے ناشتے کا کہہ آﺅں۔“
وہ اٹھ کر کچن میں گیا اور انہیں ناشتے کا کہہ کر آیا تو درید کے نقاہت بھرے چہرے پر نظر ڈالی تھی۔
”درید عباس موسم چینج ہو رہا ہے۔ اس میں لاپرواہی یوں ہی مہنگی پڑتی ہے۔
مانا کہ سردی نہیں رہی مگر گرمی بھی نہیں آئی کہ تم کپڑوں سے باہر ہو جاﺅ۔“ اس نے درید کی ڈریسنگ پر تنقید کی۔ درید مسکرایا۔
”بخار کی حدت اتنی زیادہ ہے کہ مجھے گرمی محسوس ہو رہی ہے۔“
”ہونے دو۔“ تم بریک فاسٹ کے بعد میڈیسن لو اور حلیہ درست کرو اپنا۔ درید اسکی نفاست پسند نیچر سے واقف تھا۔
”تیرے آنے سے کنوارپن کا احساس کم ہو گیا ہے۔“
بخار کے باوجود وہ باز نہ آیا اس پر حملہ کرنے سے، جواباً اس نے گھورا تھا۔
”شٹ اَپ….“
اس نے آنکھیں دکھائیں تو دل تھام کر تڑپنے کی بھرپور ایکٹنگ کرنے لگا۔
”جان من کیوں قتل کرنے کی ٹھانی ہے، ہم تو ویسے ہی مرمٹے ہیں ان سنہری کانچ سی آنکھوں پر۔“
اس نے دہائی دی تھی مگر وہ جانے کیوں لب بھینچ گیا۔ ”سنہری کانچ سی آنکھیں۔“ یہ بات اس کے کتنے ہی زخم ہرے کر گیا۔
ض……..ض……..ض
فلک تک چل ساتھ میرے
فلک تک چل ساتھ چل
یہ بادل کی چادر، یہ تاروں کے آنچل میں
چھپ جائےں ہم پل دو پل….!!
فلک تک….
”اوکے یار…. چل جہاں لے جانا ہے لے چل ورنہ تو یونہی میرا سر کھائے گا۔“
نہال اٹھ کر پاﺅں میں یوں چپل ڈالنے لگا جیسے وقعی طلال اس سے مخاطب ہو۔
”پرپہلے یہ تو بتا فلک کون ہے؟ تیری کوئی نئی ”غلط فرینڈ!! تو نہیں۔“
سارے جہاں کی معصومیت اپنے چہرے پر سجائے وہ طلال کے فیورٹ سانگ اور اس کے اچھے موڈکا بیڑا غرق کر چکا تھا۔ جبکہ لیپ ٹاپ پہ انگلیاں چلاتے درید نے بمشکل اپنے امڈنے والے قہقہے کو روکا تھا۔ بلال تو ناکام ہو کر منہ پھاڑ بیٹھا تھا۔
”واہ اب کیسے دانت دکھا رہے ہیں۔ جیسے کولگیٹ والوں نے آپ کو پیسے دے کر فرمائش کی ہو۔ اور اگر میں اسے کچھ کہہ دیتا تو آپ اپنا برسوں پرانا نو نمبر کاجوتا لے کر میرے پیچھے پڑ جاتے۔“
طلال نے بنا لحاظ رکھے لگی لپٹی رکھے بنا بلال کو پکڑا تھا۔
”یار وہ ناسمجھ ہے، چھوٹا ہے تجھ سے۔“
”ناسمجھ صرف آپ کی نظر میں ہے یہ، میرا تو یہ دشمن بن بیٹھا ہے۔ مجال ہے جو کسی بھی لڑکی کو میری طرف متوجہ ہونے دے۔“
”معصوم اور پیارا جو وہ اتنا ہے۔“
”جانے کیوں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کا عذاب اسی وقت نازل نہیں ہوتا۔“ طلال تڑپ کر بولا تھا۔
”پیارا ویارا نہیں ہے یہ، لڑکیاں دیکھ کر اکشے کمار کی طرح چھچھورپن پر اتر جاتاہے۔“
”اور تو جیسے بہن جی بنا کر انہیں گھمانے لے جاتا ہے۔“
اس بار نہال نے خود جواب دیا تھا۔
”تو میرے منہ نہ لگ۔“
طلال نے اسے دھمکی دی۔
”میرا مرنے کا کوئی ارادہ ایسا ہے بھی نہیں کہ تیرے منہ لگوں، جس پر دنیا کا ہر ماﺅتھ واش ناکام ہو چکاہے۔
نہال نے دو انگلیوں سے اپنی ناک دبا کر یوں منہ بنایا گویا ابھی مرے گا۔ بس یہاں طلال کی برداشت بھی جواب دے گئی اور اس نے لمحے کے ہزارویں حصے میں اٹھ کر نہال کی ”منڈی“ دبوچ لی اور اسے اچھی طرح دھو ہی ڈالا تھا۔ بلال اور درید اس اچانک حملے پر پہلے ہراساں ہوئے پھر بیچ بچاﺅ کرانے لگے۔
”قسم اللہ پاک کی میں روز کے ان جھگڑوں سے تنگ آ گیا ہوں۔“
انہیں بمشکل چھڑا کر بلال نے پھولی سانسوں سے دل تھام کرکہا۔
”اگر آپ انصاف سے کام لیں ہم دونوں میں یہ نوبت ہی نہ آئے مگر آپ نے ہمیشہ اسے بے جا سپورٹ کیا ہے۔“
صوفے پر بیٹھا طلال مڑے ہوئے مرغے کی طرح ناک پھلائے بولا تھا جبکہ نہال کو درید کمرے میں پھینک آیاتھا۔
”مجھے تجھ سے دشمنی جو ہے۔“
بلال نے کھا جانے والے انداز میں کہا۔
محض ایک سال چھوٹا ہے وہ مجھ سے، مگر آپ یوں ہی بی ہیو کرتے ہیں گویا وہ مجھ سے صدیوں چھوٹا ہو۔ ”کاکا“بنا کے رکھا ہوا ہے۔“
طلال آج سارا حساب کلیئر کرنے کے موڈ میں تھا۔
”طلال بس کر دے یار۔ اس نے صرف مذاق ہی توکیا تھاں ناں۔“ اور تم نے اس کی ٹکور بھی دل لگا کر کر دی، پھر بھی تیرا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہا۔“ اب بے وجہ ہی بڑے بھائی سے الجھ رہا ہے۔ چل دفع ہو، جا کر انجوائے کر اپنا میوزک، درید نے اس کے بکھرے جنگلی چوہے کی طرح کھڑے بال درست کیے تھے۔ طلال پیر پٹختا جھلاتا باہر چلاگیا۔
”اب تم بھی اٹھ کر اپنے دھندے لگو۔ کیا آٹھ بچوں کی ماں کی طرح دونوں ہاتھوں سے سر تھامے بیٹھاہے۔
درید کی مثالیں ہمیشہ ہی نرالی ہوتی تھیں۔ بلال سارا ذہنی دباﺅ بھول کر اسے گھورنے لگا۔
”مجھے نہیں لگتا کہ میرے نصیب میں اپنا ایک بچہ بھی ہو گا۔ دونوں مجھے کنوارہ ہی مار کر دم لیں گے۔“
”تو مجھ پر کاہے گھوریاں مار رہاہے، سارا قصور تمہارے ابا جی کی رومانٹک نیچر کا ہے۔“
درید کی بے غیرتی پر بلال اچھل پڑاتھا اور لاﺅنج میں انٹر ہوتا اسفند چاہ کر بھی اپنی مسکراہٹ نہ روک پایاتھا۔
”کمینے، بے غیرت، بے شرم۔“
بلال نے صوفے پر دھرے سارے کشن ایک ایک کر کے اسے مارے تھے مگر وہ بھی ڈھیٹ تھا۔ دانت نکالتا رہا۔ بلال مار کر دل ہلکا کرکے صوفے پر لیٹ گیا اور انگلیوں سے کنپٹی کو دبانے لگا۔
”بائی دی وے بلال میرے ذہن میں ایک انٹرسٹنگ خیال آیا ہے، اگر کہے تو تجھ سے شیئر کروں۔“
تیرے گھٹیا ذہن میں صرف بے ہودہ خیال آ سکتے ہیں دفع کرو۔“
”درید بھیا بتائیں تو۔“
نہال کمرے سے نکل کر پھر سے وہیں آ بیٹھا تھا۔“
”اچھا اب تو اتنا کہہ رہاہے تو خیال یہ تھا کہ اگر تمہارا ایک اوربھائی ہوتا تو اس کا نام کیا ہوتا۔ جمال، بلال، طلال، نہال کے بعد ایسا کوئی ہم قافیہ نام بچتاہے۔“
”آپ کے ذہن میں ہے!“
”ہے تو!!“
بمشکل لب سے مسکراہٹ روک رکھی تھی اسفند نے سر ہلایا کہ باز آ جاﺅ۔
”کیا….!“
صرف نہال نہیں بلکہ انجان بنے بلال کا ذہن بھی ادھر ہی تھا۔
”وبال احمد….“
اسفند اس بار اپنی ہنسی روک نہ سکا تھا جبکہ بلال خطرناک تیور لیے اٹھنے کو تیا رتھا۔
”شکر کرو تمہارے اباجی کا موڈ بدل گیا ورنہ….“
درید کو بات مکمل کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ بلال نے آ کر اس پر جو چڑھائی کی کہ اسفند بھی دنگ رہ گیا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ہنسے یا بلال سے درید کو بچائے۔
ض……..ض……..ض
آف سے گھر لوٹا تو شدید سناٹے نے استقبال کیا تھا اس کا۔ پہلے وہ قدرے فکرمند ہوا مگر لاﺅنج میں بیٹھ کر ذہہن کو ریلیکس کیا تو یاد آیا کہ آج فرائی ڈے ہے، اور ظاہر ہے وہ تینوں بھائی ویک اینڈ گزارنے گاﺅں چلے گئے ہوں گے۔ مگر درید…. وہ لگتا ہے آج اب تک نہیں لوٹا۔ اسفند نے خود ہی اندازہ لگایا تھا مگر گھر لاکڈ تو نہیں تھا!! اس کا مطلب درید گھر پر ہے۔ وہ اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔ فریش ہو کر فریج چیک کیا، سوائے جوس کے اور کوئی قابل قبول چیز نہیں لگی۔ اس نے جگ نکالا اور دو گلاس اٹھا کر چھت پر آ گیا، کیونکہ اسے یقین تھا کہ درید وہیں ہو گا۔
”گڈ ایوننگ۔“
وہ درید کے ساتھ والی چیئر سنبھال کر بیٹھا تھا۔ گلاس اورجگ ساتھ رکھے ہوئے چھوٹے سے ٹیبل پر رکھ دیے۔ خلاف معمول درید بہت چپ تھا۔
”اینی پرابلم۔“
”ہوں۔“
وہ پہلے چونکا پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ اسفند سمجھ گیا کہ آج پھر اس پر اداسی کا دورہ پڑا ہے۔ ریزرو تو نہیں رہتا تھا، ہاں کبھی کبھی اداسی کا دورہ پڑتا تھا۔
”لے جوس پی لے۔“
گلاس بھر کے اس کے سامنے کیا، اس نے خاموشی سے تھام لیا۔
”امی کا فون آیا تھا۔“
اکثر یہ خاموشی اسی دن ہوتی تھی جب اس کے گھر سے فون آتا تھا۔ درید نے محض سر ہلایا تھا۔
بات تو عجیب تھی مگر سچ کہ درید عباس کے من میں محبت کا دکھ بہت گہرا تھا مگر اس نے اسفند کی طرح اپنی ذات گم نہیں کی تھی۔ بھرپور طریقے سے جیتا تھا،لیکن کبھی کبھی دکھ شدت اختیار کر لیتا تو….
اس کے دکھ کو اسفند ضیاءنے دل کی تمام شدتوں سے محسوس کیا تھا۔ تبھی اس کا کندھا تھپک کر وہاں سے ہٹ گیا تھا۔
وہ تمام کیفیات سب سے چھپا کر رکھتا تھا۔ یا شاید اس نے اپنا درد اکیلے سہنا سیکھ لیا تھا۔ اگلے دن درید کا موڈ ٹھیک ہو گیا مگر وہ بہت زیادہ چپ تھا۔ رات بھر وہ کس قدر بے چین رہتا تھا درید واقف تھا۔ اس نے آج تک ایسی کوئی رات نہیں دیکھی تھی کہ جس میں اسفند نے سکون پایا ہو۔
ہاں فجر کی نماز کے بعد کچھ دیر وہ سوتا تھا اور اس پر درید ٹوک دیتا تھا کہ ”یہ نحوست نہ پھیلایا کر۔“
وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اسفند کے اندر کیا ہے مگر دکھ یہ تو طے تھا کہ کوئی ایسا زخم ہے جو اس کے اندر ہرا ہے۔
”کون سا روگ لگا بیٹھا ہے خود کو کہ زندگی یو ںبوجھ کی طرح گزار رہا ہے۔“
وہ چپ نہ رہ سکا۔ حالانکہ کتنے ماہ ہو گئے تھے اسفند کو یہاں آئے، اس نے اپنے اور ان سب کے درمیان ایک فاصلہ قائم رکھا ہوا تھا جسے وہ کبھی نہیں ختم کر پائے تھے۔ مگر آج درید کو جانے کیا سوجھی تھی۔
”تجھے ہی لگتا ہے…. ایسا کچھ نہیں ہے۔“
”تیری چپ کے پیچھے راز ہے اسفند ضیائ۔!!“
”ضروری ہے کہ خاموشی پراسرارہی ہو۔ یہ میرے مزاج کا حصہ بھی تو ہو سکتی ہے۔“
”یوں تو اسفند ضیاءمں تجھے بہت زیادہ تو نہیں جانتا، ہاں یہ بات دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خاموشی تیرے مزاج کا حصہ نہیں جو تو نے خود پر طاری کر لی ہے۔“
”ایسا ہے بھی تو، کیا کرے گا جان کر۔“
”صرف تیرے من کے لگے قفل کھولنا چاہتا ہوں۔ تاکہ تم زندگی کو اللہ پاک کی خوبصورت نعمت سمجھ کر جیو۔“
”کیوں چاہتا ہے تو ایسا، کیا رشتہ ہے تیرا میرا۔“
”رشتے تو من کے احساس سے بنتے ہیں۔ تیرا دل مانے تو رشتہ بہت گہرا ہے، اور نہ مانے تو کچھ بھی نہیں۔“
”میری تو اپنی ذات پر ’کچھ بھی نہیں‘ کا لیبل ہے درید۔ نہ کوئی میرا ہے اور نہ میں کسی کے لیے کچھ ہوں۔“
”یہ تیری سوچ ہے اسفند، ورنہ ہم نے کبھی تجھے خود سے الگ نہیں جانا۔ تبھی تو جاننا چاہتا ہوں کہ تیرے من کو کون سا روگ لگ گیاہے۔“
”ایکبار پھر بکھر جاﺅں گا،بہت مشکل سے سمیٹ پایا ہو ںخود کو۔“
اس کی سنہری کانچ سی آنکھوں میں سرخی نمایاں ہونے لگی۔
”تجھے لگتا ہے کہ درید عباس تجھے بکھرنے دے گا۔“
اس نے اسفند کے چہرے پر نظریں جما کر کہا تھا۔
حالانکہ وہ تو صرف اپنی ذات میں بند رہتا تھا، مگر آج درید کے سامنے ہار سا گیا۔
منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ
اکثر ملے وہ بھی بڑی بے رُخی کے ساتھ
درید کی نگاہیں اس کے رنجیدہ چہرے پر گڑھ کر رہ گئیں جس کی آنکھوں میں درد نمایاں ہونے لگا تھا اور لب ہولے ہولے ہل رہے تھے۔
ض……..ض……..ض
اس کا تعلق بھی میڈیا سے تھا۔ ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے منسوب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا فوٹوگرافر بھی تھا۔ اپنے پروفیشن کے باعث اس کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ جن میں میل فیمیلز سب ہی شامل تھے۔ یوں بھی یہ فیلڈ ایسی وسیع تھی کہ وہ قسم نہیں کھا سکتا تھا کہ اس کی کسی لڑکی سے دوستی نہیں ہے۔ اس کے فرینڈز میں لڑکیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔
بائی نیچر وہ بہت فرینڈلی تھا۔ کچھ وجاہت بھی وہ کمال رکھتا تھا کہ لڑکیاں خود ہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتی تھیں۔ اس کے چہرے پر سنہرے کانچ سی شوخیاں اور ہر دم مسکراتی دوسروں کو اپنی گرویدہ کر لیتی تھیں۔ ہاں یہ بھی سچ تھا کہ فرینڈز بہت تھیں مگر گرل فرینڈ والا پورشن ابھی تک خالی تھا۔
اس نے تقریباً تنہا عمر گزاری تھی۔ ماں باپ سالوں پہلے چل بسے تھے اور بہن بھائی کوئی نہیں تھا۔ مگر اس نے اکیلے پن کو کبھی خود پر طاری نہیں کیا تھا اور لائف کو بہت مزے سے گزار رہا تھا۔
دن کا بیشتر حصہ وہ باہر ہی گزارتا تھا اور فارغ ہو تو فرینڈز کے ساتھ گیدرنگ میں ٹائم پاس کرتا۔ بہت من موجی سا بندہ تھا۔ وہ کبھی اپنے کسی اپارٹمنٹ پر سب فرینڈز کو بلا لیتا۔ خوب ہلہ گلہ ہوتا اور خوب ڈرنک چلتی۔اور بس اس کی خامیوں میں سب سے بڑی خامی یہ ہی تھی کہ وہ ڈرنک کرتا تھا۔ اس کے کسی فرینڈ کو اعتراض نہ تھا، کیونکہ وہ خود اس کے ساتھ بیٹھ
کر پیتے تھے۔ مگر اس کا کلوز فرینڈ سعد رسول اسے اکثر ٹوکتاتھا۔ اور وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا تھا۔ کبھی کبھار فرینڈز کے ساتھ نائٹ کلب میں وہ ضرورت سے زیادہ ڈرنک کر لیتا تو سعد ہی اسے گھر چھوڑتا تھا۔
آج بھی اس کے دوست کی برتھ ڈے پارٹی تھی۔ اور اسی لیے وہ جلدی گھر آیا تھا۔ ابھی وہ باتھ سے نکلا ہی تھا کہ اس کے سیل پر بیپ ہوئی۔ وہ تولیے سے بال رگڑتا موبائل اٹھا کر چیک کرنے لگا۔ اور یس کا بٹن پش کر کے کان سے لگایا تھا۔
”ہیلو!“
”گڈ ایوننگ ڈیئرکہا ںتھے تم؟ کب سے کال کر رہی ہوں۔“
اس نے شدید حیرت سے موبائل کان سے ہٹا کر دیکھا۔اس کی حیرت کی وجہ وہ دوسری طرف سے نسوانی آواز نہیں بلکہ قطعی انجانی آواز، اور اس پر بے تکلف لہجہ تھا۔
”سوری! میں آپ کو پہچان نہیں پایا۔“
”نیور مائنڈ!“
دوسری طرف بے نیازی سے کھلکھلاتے لہجے میں کہا گیا تھا۔
”آپ کون ہیں….؟“
مے بی اس کا ذہن کام نہ کر رہا ہو اور وہ پہلے مل چکے ہوں، تبھی اس نے لہجے میں سختی نہیں آنے دی۔
”مائی نام از عینی، عینی کنول!“
اس نے پوری طرح ذہن پرزور دیا تھا مگر اسکے حلقہ احباب میں یہ نام قطعی شامل نہیں تھا۔
”دس از رانگ نمبر، ایم سوری۔“
”سو واٹ۔ رانگ نمبر کو رائٹ بننے میں کتنی دیر لگتی ہے مسٹر….“
”واٹ ڈو یو مین!“
”سیدھا سا۔ فرینڈشپ کرنا چاہتی ہوں تم سے۔“
”میڈم میں اتنا فارغ بندہ نہیںہوں۔ کہیں اور ٹرائی کرو۔“
وہ چڑ سا گیا۔ اور لائن کاٹ کر تیاری کرنے لگا۔ کیونکہ اسے اپنے بالوں سے بہت پیار تھا اور وہ جانتا تھا کہ لیٹ ہونے پر اس کے فرینڈز نے گنجا کر دینا تھا اسے۔
لیٹ نائٹ وہ گھر پہنچا تھا۔ کچھ ڈرنک بھی زیادہ ہی کر لی تھی۔ بیڈ پر گرتے ہی ہوش نہ رہا اور صبح دیر سے آنکھ کھلی تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ اب ہر کام میں افراتفری کر رہا تھا۔ ناشتہ بنا کر ٹیبل پر رکھا تھا اور فریج سے جوس لے کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ سیل چیخنا شروع ہو گیا۔
اس نے بنا دیکھے مصروف انداز میں کال ریسیو کی تھی۔
”گڈمارننگ ڈیئر!“
گاڈ۔ اس کے ذہن سے تو لہجہ اور رانگ نمبر سب محو ہو چکے تھے کہ سویرے ہی پھر۔“
”فار گاڈ سیک۔ آپ جو بھی ہیں، میں قطعی آپ کے ٹائپ کا بندہ نہیں ہوں۔ مجھے تنگ کرنا بند کر دو۔“
”بٹ آئی تھنک، آپ میرے لیے مسٹر رائٹ ہیں۔“
”یوآر میڈ۔“
”آف کورس! بٹ صرف تمہارے لیے۔“
”او گاڈ….“
اس کا من چاہا سر پیٹ لے اپنا۔
”آئی تھنک یو آر بزی۔ میں رات میں کال کروں گی۔ بٹ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑوں گی۔“
کیاڈھیٹ لڑکی تھی۔ اپنی کہہ کر فون بند کرگئی لیکن اس وقت اس کے پاس ٹائم نہیں تھا ان فضول باتوں کو سوچنے کا۔
ض……..ض……..ض
”کیا بات ہے جان من آج ان قاتل نگاہوں میں مسکراہٹ کی جگہ الجھن نظر آ رہی ہے۔ خمار کی جگہ پریشانی دکھاوی دے رہی ہے۔“
اس نے سعد رسول کی بے وقت شاعری پر اسے گھورا تھا۔
”سب کچھ نظر آ رہا ہے، وہ نیند نہیں دکھائی دے رہی جو تیرے باعث پوری نہیں ہوئی۔“
”میرے باعث۔“
سعد نے حیرت سے دیکھا۔
”یوں کہیے مسٹر اسٹیفن جوزف کہ آپ کو شباب اور شراب نے مدہوش کر دیا تھا۔ ڈانس کرتے ہوئے وقت کا اندازہ نہ رہا۔“
سعد نے آئینہ دکھایا تو وہ آنکھ دبا کر ہنس دیا۔
”ویسے بہت مزہ آیا تھا ناں….“
”ہاں جی، جن کے آگے پیچھے دوشیزائیں مچھر مکھیوں کی طرح بھنبھناتی ہوں مزہ انہیں ہی آ سکتا ہے۔“
”چخ چخ۔ تو تو جیسے تسبیح کے دانے گن رہا تھا وہاں۔ پتلی کمر پر تو میں پھسل رہا تھا ناں۔“
اسٹیفن نے رات کی چوری پکڑ لی تھی اس کی۔ سعد منہ پھاڑ کے ہنس دیا۔
”بائی دی وے، آج نشا سرمد سے میٹنگ تھی تیری۔“
سعد نے سنجیدہ ہوتے ہوئے یاد دلایا تو اس کے خوشگوار موڈ کا بیڑہ غرق ہو گیا۔