عبداللہ کی محبت کمرے کی ہر چیز سے ٹپک رہی تھی ۔ عائلہ اپنی جائے نماز کے قریب جا بیٹھی۔ سجدے کی جگہ ا س نے انگلیاں پھیریں۔ دو سال پہلے ا س شام کیفے جانے سے پہلے ، عصر کے بعد سجدے میں گڑگڑا کے ، اس نے عبداللہ کی محبت ہی تو مانگی تھی۔
جائے نماز کا مڑا ہوا کونا سیدھا کرتے ا س کی انگلیاں تسبیح سے مس ہوئیں۔ یہ وہی کالے عقیق کی تسبیح تھی جو بابا بطور خاص ا س کے لیے تحفتاً ایران سے لائے تھے۔ اس تسبیح پر بھی صبح و شام عائلہ نے عبداللہ کا نام ہی تو جھپا تھا۔
اگر بابا کو یہ بھی پتا چل جائے تو ؟
شرم ساری کا غلبہاب بھی تھا۔
عائلہ نے روئی روئی نظریں چرا کے پلنگ کی طرف دیکھا جس کے سرہانے اب بھی ایک کتاب ادھ کھلی رکھی تھی۔
”عبداللہ۔”
ہاشم ندیم خان کی ”عبداللہ” ہاتھ میں پکڑے ہونٹوں نے سرگوشی کی تھی ۔
اگلے پل اس نے ایسے کتاب کو ٹٹولا ، جیسے اچانک کچھ یاد آیا ہو۔
اسی اثنا میں سلیقے سے طے شدہ کاغذ ا س کے قدموں میں آگرا۔ ا س نے عجلت میں جھکتے ہوئے کاغذ اٹھا کے اس پر سے گرد جھاڑی ۔
سہولت سے ا سے کھولتے ہوئے ، ا س کی نگاہیں سطروں پہ دوڑ گئیں ۔ اوّلین محبت کے ان چھوئے جذبات کو بے وزن لفظوں میں ڈھالے، ا س نے خود ہی صفحہ ٔقرطاس پہ نقش کیا تھا۔
بیتے سالوں نے لکھنے والی کو بدل ضرور ڈالا تھا، مگر ا س کے دل میں چھپے بیش بہا قیمتی اور پاکیزہ جذبات کہاں بدلے تھے۔ آنسوئوں کی دھندکے پار وہ اپنی تحریر پڑھ رہی تھی :
تو سورج میرا میری جان عبداللہ
میرا تن من جائے تجھ پہ قربان عبداللہ
تجھے دیکھ جیوں، تجھے دیکھ مروں
تجھ میں ہی اٹکی میری جان عبداللہ
تو ہی خوشی ہے، تو ہی سکوں میرا
میں تجھ پہ جاں صدقے واری عبداللہ
جو مُسکرا دے تو، مجھے دیکھ کے یوں
تو کیوں نہ تم پہ میں مر جائوں عبداللہ
تو ہی سورج چاند، تو ہی تارا میرا
تو کیوں نہ لے آسمان بلائیں تیری عبداللہ
میری آنکھیں، باتیں، خواب ہو تم
تم ہی میری ہر ایک سانس عبداللہ
کہو تو رکھ دوں قدموں میں دل اپنا
پھر اس کو روند کے امر کر دو عبداللہ
میں پری ہوں کوہ قاف کی
تو شہزادہ پربتوں کا عبداللہ
میں تو تیری ہوئی ازلوں سے
ہے تیری کس میں جان عبداللہ؟
”مجھ میں …؟”
”مجھ میں ہے اس کی جان…”
کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی ۔ ا س پہ وحشت سی طاری تھی ۔
اس کی جان مجھ میں ہے۔
پر…
پر میں نے خود ہی تو ا س کی زندگی کے بدلے اپنی محبت کا سودا کیا تھا ۔
وہ ہذیانی انداز میں خود سے باتیں کر رہی تھی ۔ کبھی خود کو یقین دلاتی تو کبھی خود سے پوچھتی۔
کیوں کیا میں نے ایسا ؟
اپنی محبت کا مقبرہ بنا کے دفنا دیا کیوں ؟
اس کی نظروں کے سامنے دو سال پہلے کے کچھ منظر گھوم گئے ۔ عائلہ نے اپنے ہونٹ بھینچے تھے۔
کم زوری اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
ہشاش بشاش نظر آتی ڈاکٹر نے نہایت ہلکے پھلکے انداز میں اس سے کچھ سوال کیے تھے ۔
خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتے عائلہ نے نقاہت زدہ آواز میں دو تین مختصر جواب دیے تھے۔
”بہت اچھے عائلہ! آپ تو بہت جلدی صحت یاب ہوگئیں۔” لبوں پہ پیشہ ورانہ مُسکراہٹ سجاے وہ عائلہ کے بے تاثر چہرے کو غور سے جانچتی رہیں۔
پھر خود ہی ”brave girl ”کہتیں ، اس کا گال تھپتھپا کے کمرے سے باہر چلی گئیں ۔
اور عائلہ پھر سے نظریں چھت پہ جمائے، اپنے سوچوں کے بحر میں غوطہ زن ہو گئی۔ بہت سے بے ربط خیال تھے جو اس کے ذہن میں نوحہ کناں تھے۔
”یہ ڈاکٹر کیوں کہہ رہی تھی کہ میں جلد صحت یاب ہوئی ہوں۔ مجھے تو جانے کتنے دن گزر گئے یہاں یوں پڑے پڑے ۔”
”مجھے گھر نہیں جانا واپس۔ میں کیا کروں گی واپس جا کر۔عبداللہ جانے کیسا ہوگا اب ؟ کس سے پوچھوں خدایا !”
دو آنسو آنکھوں کے کونوں سے بہ کے بالوں میں جذب ہوئے تھے ۔
ہوش میں آنے کے دو دن بعد تک مسلسل اماں اور لالا اسپتال آتے رہے ۔ وہ آتے عائلہ سے بات کرنے کی کو شش کرتے ،ا سے کچھ کھلانے کی کوشش کرتے ، پر عائلہ ا ن سے منہ موڑے چپ چاپ بستر پہ لیٹی رہتی۔
انہیں اندازہ تھا کہ عائلہ ناراض ہے پر جب اس نے ایک دن اماں کے ساتھ آئی ذاکرہ سے کہا:
”آئندہ صرف تم ہی آنا کافی ہے۔”
تب لالا اور اماں کو اس کی ناراضی کی انتہا پتا چلی۔
اماں نے اس کی خواہش کے مطابق آنا چھوڑ دیا پر لالا اکثر آتے ، باہر ہی سے ڈاکٹروں سے بات کر کے چلے جاتے ۔ جب کہ ذاکرہ روز آتی ۔
عائلہ ا س سے بھی منہ موڑ کے لیٹی رہتی اس لیے نہیں کہ وہ ناراض تھی ، بلکہ ایک سیدزادی ہو کر محبت کرنے کی شرمساری چھپانے کو۔ وہ اکثر سوچتی مجھ سے توذاکرہ اچھی ہے اس کے دامن پر کوئی داغ تو نہیں ۔ یہی کمتری کا احساس ا سے نظریں چرانے پہ مجبور کرتا ۔
اچانک دستک کی آواز پہ عائلہ چونکی۔ اس کے بے ربط خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا ۔
اگلا بندہ دستک کے بعد تھوڑی دیر رکا اور پھر خود ہی اندر داخل ہوگیا ۔
قدموں کی دھمک بتا رہی تھی کہ آنے والا ا س کا لالا معید سید ہی ہے۔
عائلہ بازو آنکھوں پہ رکھے ، سوتی بن گئی ۔
”عائلہ!”
لالا کی آواز گونجی ۔
وہ سوتی بنی رہی ۔
”گودی ! مجھے پتا ہے تم جاگ رہی ہو۔”وہ مزید بولا ۔
عائلہ نے بازو ہٹا کے دیوار پہ نظر جمائی کہ لالا ا سے پہچانتے تھے ،ان کے سامنے یہ سب کرنا بے کار تھا۔
”بابا نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ تم گھر آئو یا بابا سے تمہارا سامنا ہو ۔ ا ن کا فیصلہ ہے کہ تم واپس کرانی چلی جائو۔”
ٹوٹے ہوئے لہجے میں لالا نے اسے بابا کا فیصلہ سنایا۔
”بہت مشکل سے میں نے انہیں راضی کیا ہے کہ تم شانزے کے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لو اور اپنی ڈگری مکمل کر لو۔”
وہ مزید بولے ۔
”اور روانگی آج ہی ہے۔ تمہارا سامان گاڑی میں رکھا ہوا ہے ۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تمہاری فلائٹ ہے۔”
وہ خاموش ہوئے تو اتنے عرصے میں پہلی دفعہ عائلہ کچھ بولی ۔
”بدلے میں، میں بھی کچھ چاہتی ہوں۔”
بہن کے سپاٹ بے رنگ چہرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھتا معید ابراہیم سید بولا :
”بولو ؟”
”مجھے عبداللہ کی زندگی ، اس کی خیریت کی ضمانت چاہیے۔ بس !”
اب کہ عائلہ نے لالا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا تھا ۔
آج معید نے زندگی میں پہلی دفعہ اپنی بہن کی آنکھوں میں بغاوت دیکھی تھی ۔تبھی میکان کی انداز میں بولا :
”ٹھیک ہے میں ضمانت دیتا ہوں تمہیں۔ کوئی اسے کچھ نہیں کرے گا، پر بدلے میں تم کبھی اس کا نام اپنے ہونٹوں تک بھی نہ لائو گی ۔”
عائلہ کی آنکھیں چمکی تھیں ۔
”منظور ہے۔”
اس نے اپنی محبت کی قبر پہ مٹی کا آخری بیلچہ ڈالا تھا۔
گاڑی میں بیٹھے ائیرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے ، ا س نے ڈھلتے سورج کو سرگوشی کرتے سنا تھا۔
”الوداع اے پیاری لڑکی الوداع۔”
اسے لگا جیسے عبداللہ کے شہر کے کئی منظر اسے الودا ع کہتے ، رو پڑ ے تھے ۔
”عائلہ کا سفر۔”
کوئٹہ ائیرپورٹ سے گائوں کی طرف جاتے ہوئے اتنے خوب صورت مناظر نظروں سے ہو کے گزرے کے عائلہ حیران رہ گئی ۔کیا یہ وہی کوئٹہ ہے جہاں اس نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا ؟
کیا تب بھی کوئٹہ اتنا حسین ہو تا تھا؟
کیا تب بھی شام ڈھلے جب سورج کی شعاعیں مہر ِ در کی چوٹی پہ پڑتی تھیں ، ا س پہ جمی برف ہیروں کی طرح چمکتی تھی ؟ کیا تب بھی اوائل فروری کے دنوں میں کوئٹہ یونہی دھند ، بونداباندی اور کبھی کبھی برف باری میں لپٹے، آنے والی بہارکی خوشبو بسائے ، کسی الف لیلیٰ کی کہانی جیسا اسرار خود میں سموئے رکھتا تھا ؟
کیا تب بھی اندھیرا چھانے کے بعد مغربی بائی پاس سے گزرتے ہوئے ، نیچے نظر آتی شہر کی روشنیاں اتنا حسین چراغاں کیے رکھتی تھیں ؟
عائلہ نے اتنے دلکش منظر کہیں نہیں دیکھے تھے۔
مغربی بائی پاس کوئٹہ شہر کے مقابلے اتنی اونچائی پہ تھا کہ مغربی سے لے کر مشرقی بائی پاس تک شہر کا کونا کونا دکھتا تھا۔
اندھیرا چھاتے ہی جب ڈھیروں روشنیاں ایک ساتھ ٹمٹماتیں، تو ایسا لگتا کہ آسمان اور اس پہ چمکتے تارے ماند پڑنے لگے ہوں ۔ یہ منظر اتنا حسین لگتا کہ دنیا کا کوئی بھی منظر اس کے سامنے ماند پڑ جائے۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا آسمان زمین پہ ہو اور ٹمٹماتی روشنیاں تارے ہوں۔
اپنی سوچوں میں گم، عائلہ حیران تھی کہ اتنے عرصے یہ خوب صورتی اس کی آنکھوں سے مخفی کیسے رہ گئی؟
یہ سارے منظر کتنے عام سے لگتے تھے ۔
پر اب…
اب کیا بدلا تھا؟
”میری نظر۔”
”ہاں !میری نظر ہی تو بدلی ہے ۔ اب میں آنکھوں سے کہاں دیکھتی ہوں؟”
”اب تو میں محبت سے دیکھتی ہوں ۔”اس کی پلکیں نم ہوئی تھیں ۔
اب اونچائی سے اس کے گائوں کی روشنیاں بھی دکھ سکتی تھیں۔
خواجہ ولی بابا کے مزار کا سنہرا گنبد ڈھیروں روشنیوں کے ہالے میں ، روز ِ روشن کی طرح چمک رہا تھا۔
گاڑی بائے پاس سے اتر کر اونچی نیچی پگڈنڈیوں سے ہوتی ، خواجہ بابا کے مزار کے پاس سے گزری۔
عائلہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔
خاموش لب اور نم آنکھوں سے اپنی ہتھیلیوں کو تکتے وہ حیران تھی کہ کیا مانگے ۔
اسے یاد تھا بچپن میں اسکول سے آتے جاتے وہ دعا مانگا کرتی۔ گاڑی خواجہ کے مزار کی وسیع و عریض حدود سے دور نکل جاتی ،پر تیزی سے دعا مانگتی عائلہ کے لب نہ رکتے اور آج اسی عائلہ کے لب خاموش تھے ۔
وہ مانگے بھی تو کیا مانگے ؟
”عبداللہ…”
اس کے ہونٹوں کی جنبش پہ دو آنسو پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پہ آ گرے ، مگر یہ حق بھی تو وہ کھو چکی تھی۔ کیسے مانگے عبداللہ کو؟
آنسو رواں تھے اور اب لبوں پہ دعا بھی…
”یا اللہ پاک !مجھے صبر دے ، میرے مولا تکلیف بہت ہے اور میرا صبر کم تر ، میرا صبر وسیع کردے۔ مجھے میرے فیصلے پہ قائم رکھ کہ پھر میں اس کا نام بھی ہونٹوں پہ نہ لائوں۔ مجھ سے ا س کی مزید تکلیف نہ دیکھی جائے گی میرے رحمن مولا۔ مجھے میری زبان پہ قائم رہنے کا حوصلہ دے۔”
”آمین۔”
اس نے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرے ہی تھے کہ گاڑی حویلی کی طرف جانے والے رستے پہ گامزن ہو چکی تھی۔ قطار سے لگے پائن کے درخت ، بابا کا ڈیرا ، شاندار بیٹھک ، سب ویسے کا ویسا ہی تو تھا۔ یہ بیتا وقت کلی کرانی پر جیسے گزرا ہی نہیں۔ اگلے پل ایک ہلکے سے جھٹکے سے گاڑی رکی ۔ عائلہ کی نظریں اٹھیں اور اپنی حویلی پہ گڑھ کے رہ گئیں ”آہ !شاہ ہائوس ۔”
سب کچھ ویسے کا ویسا ہے ،پر تم اجڑے اجڑے کیوں دکھتے ہو ؟
کیا تم پر بھی کوئی قیامت بیتی ہے ؟”
خاموشی کی زبان میں سوال کرتی عائلہ اور سنتی وہ بنجر حویلی ، جیسے ایک دوسرے کے لیے بنے تھے۔
ہاں !بے شک …
ایک بنجر کو آباد ایک بنجارن ہی کر سکتی ہے ۔
”اڑی ببو خیرٹ کنا گودی ای خیرات نے کے۔” ارے ! آئیں خیر سے میری گودی ، میں صدقے آپ پہ۔
ماہ پری شاید دہلیز پر کھڑی، اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ تبھی اس کی ایک جھلک دیکھتے ہی لپک کے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اس پر ، اپنی دونوں آنکھیں رکھیں اور پھر ہونٹ رکھ کے ا سے تعظیم بخشا۔
ماہ پری ذاکرہ کی ماں تھی ۔ بچپن سے ا ن پر جان چھڑکتی تھی۔ ا س کا پورا خاندان ا ن کی خدمت اپنا فرض سمجھ کے کرتا ۔ شاید انہیں ماں کی کوکھ ہی سے سادات کی خدمت کا سبق دیا جاتا تھا۔
عائلہ نے بچپن سے ماہ پری اس کے خاندان اور بابا کی ڈھیروں مرید عورتوں کو خود سے ایسے ہی ملتے دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ ایسے ملتیں جیسے سیدزادیوں کو زیارت کر رہی ہوں ۔
اسے کبھی کبھی بہت عجیب بھی لگتا کہ ہم بھی ان ہی کی طرح انسان ہی تو ہیں ۔ تبھی اکثر ملنا ترک کر کے اپنے کمرے میں چلی جاتی ۔
عائلہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی جب یخ بستہ ہوا کے جھونکے نے اسے خیالوں کی دنیا سے حقیقت میں لا پٹخا۔
عائلہ سید نے خود کو حیرت سے تکتی ماہ پری کورسمی مُسکراہٹ، چہرے پہ سجاتے جواب دیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلتی حویلی کے اندر قدم دھرے ۔
ہر سو اُداسی ، خاموشی ، یاسیت ۔ ایسا تو نا تھا شاہ ہائوس جب عائلہ اسے چھوڑ کے گئی تھی۔
سفید سنگ ِ مر مر کی روش بارش کے بعد دھلی دھلی سی لگ رہی تھی ۔ ا ن کا بڑا سا عالی شان باغیچہ ابھی تک خزاں کے زیرِ اثر تھا۔ کیاریوں میں جہاں کبھی ہر قسم اور ہر رنگ کے گلاب مہکتے تھے ، جھاڑ جھنکار اُگ آئی تھی۔
سامنے کھڑی سفید حویلی اپنے اندر جانے کتنے راز چھپائے ، پر اسراریت سے کھڑی تھی۔
ماہ پری اور اس کے ساتھ دو تین لڑکیاں بھاگم بھاگ ا س کا سامان کمرے میں سیٹ کر رہی تھیں۔
عائلہ یونہی چلتے چلتے حویلی کے پچھلے صحن کی طرف آگئی۔ سامنے ہی ا سے اخروٹ کا وہ درخت نظر آگیا جس میں جھولا جھولتے اس کا سارا بچپن گزرا تھا۔ چھوٹے چھوٹے قدم ا ٹھاتی عائلہ درخت تک آئی۔
اس کی شاخوں پر خزاں رقصاں تھی۔ عائلہ نے پیار سے ا س کے تنے پہ انگلیاں پھیریں۔ بیتے وقت نے درخت کو مزید قدآور بنا دیا تھا، البتہ جو ویرانی اب ا س کے گرد پھیلی ہوئی تھی پہلے کبھی ا س کا مقدر نہ تھی۔ عائلہ کا بچپن اسی کے سائے تلے کھیلتے گزرا تھا ۔یہ درخت اس کے دکھ سکھ کا ساتھی تھا۔ عائلہ کو اندازہ تھا کہ ا س کے چلے جانے کے بعد یہ کتنا اکیلا ہو گیا ہو گا۔
اس نے نظر اٹھا کے درخت کی تاحدِ نگاہ پھیلی شاخوں کو دیکھا۔ اچانک ا سے خود پہ کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا۔ عائلہ نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔کسی کا وجود اپنے گرد نہ پا کے ، ا س نے حویلی کے پچھلی طرف کھلنے والے دریچوں پہ نگاہ کی ۔ وہ ایک کمرا جس کا نہ ا س نے کبھی دروازہ کھلا دیکھا تھا ، نہ ہی ا س کے واحد دریچے سے پردے ہٹے دیکھے تھے۔ ا س کمرے کے مکین کی نظروں کا ارتکاز تھا جو اسے بے چین کیے ہوئے تھا۔ پردہ ہٹائے وہ جانے کتنی دیر سے عائلہ پہ نظر کیے ہوئے تھیں۔ عائلہ تھوڑی دیر حیرانگی سے دریچے کے پار نظر آ تے ہیولے کو دیکھتی رہی پھر خوشگوار حیرت سے دریچے کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ وہ پردے برابرکرتیں تیزی سے پرے ہٹ گئیں۔
ششدر کھڑی عائلہ کے ہونٹوں نے سرگوشی کی تھی :
”اماں کاکی۔”
اماں تو ما ں کو ہی کہتے ہیں جب کہ ”کاکی” فارسی میں بہن کو کہتے ہیں۔
بچپن میں معید کی تربیت اس کی واحد پھپھو نے کی تھی ۔ تبھی وہ سکینہ صاحبہ کے ساتھ ساتھ ، اپنی پھپو آبگینے کو بھی اماں کہتا تھا ۔ معید کی تقلید میں عائلہ بھی آبگینے سید کو اماں کہتی تھی ، پھر بابا کو انہیں ”کاکی” بلاتے دیکھ، اماں کاکی بلانے لگی ۔ آہستہ آہستہ معید، شانزے ، علیزے اور شاہ زین بھی انہیں اماں کاکی بلانے لگے۔
علیزے ، شانزے اور شاہ زین ا ن کے چچا کے بچے تھے۔ جب تک دادا دادی حیات تھے ، سب ایک ساتھ اسی حویلی میں رہتے تھے۔ پھر ا ن کے جانے اور بچوں کے بڑے ہو جانے کے بعد چچا افراہیم سید ، باہمی رضامندی سے باغ والی حویلی میں منتقل ہوگئے ۔
سید قبیلے میں ”کزنز ”کا بھی کوئی تصور نہیں۔ بچے بڑے ہو جائیں تو ان پر ایک دوسرے سے پردہ کرنا لازم قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ان کے منتقل ہونے کی ایک اہم وجہ تھی۔ البتہ آبگینے سیداپنی مرضی سے بڑے بھائی کے پاس رہتی تھیں۔ ا ن کی تعلیم جاری تھی ۔ ابھی وہ میٹرک میں تھیں کہ ایک دن جانے کیوں وہ گھر آئیں تو ، رنگ فق اور آنکھیں لال تھیں۔ آتے ہی اپنے کمرے میں بند ہوگئیں ۔ پھر کچھ دن بعد میر ابراہیم سید اور سکینہ صاحبہ کی ا ن سے دیر تک تکرار ہوئی ۔ جانے کیا ہوا کیسے ہوا ، لیکن کچھ دن بعد ، سب کو بتا دیا گیا کہ آبگینے سید نے اپنی مرضی سے تعلیم اور دنیا کو ترک کر کے ”فقر”کو اپنا لیا ہے۔
بلوچستان میں اسے”ستی” کہتے ہیں۔ اکثر قبائل میں زبردستی بھی بہنوں بیٹیوں کو ستی بنا دیا جاتا تھا۔ کچھ اپنی مرضی سے دنیاوی زندگی اور ہر خوشی رنگ و بو کے در خود پہ بند کر کے ایک کمرے میں قید ہو کے یاد ِ الٰہی کو اپنا لیتی تھیں۔
آبگینے بہت زندہ دل لڑکی تھی ۔ ا س کا رشتہ بچپن ہی میں ا س کے ماموں کے بیٹے سے طے تھا۔ ابھی میٹرک کے بعد ا س کی شادی ہونی تھی ، لیکن ا س نے تو میٹرک بھی مکمل نہیں کیا اور یوں ایک کمرے میں مقفل ہونے کا ارادہ کر لیا ۔ تبھی یہ خبر پورے خاندان کو چونکا گئی۔
بہرحال پورے خاندان کو دعوت دی گئی ۔ پر تکلف کھانے کے بعد ، سفید لباس میں ملبوس آبگینے کو لایا گیا۔ تمام خواتین باری باری ، ا سے پھولوں کے ہار پہناتی مبارک باد دیتیں ، ماتھا چومتیں۔ گلابی چہرہ لیے نظریں جھکائے بیٹھی آبگینے کو دیکھ اس کی ممانی جان کی آنکھیں چھلک آئیں۔ آخر دل کے ہاتھوں مجبور ا سے گلے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑیں ۔ ا سے بہو بنانے کا ا ن کا ارمان جو ٹوٹ گیا تھا۔
اسے خود سے لگائے ہی اس کے کان میں سرگوشی کی :
”آبی !کسی نے تمہیں مجبور تو نہیں کیا نا ؟”
اس سے پہلے کی سسکتی آبگینے کچھ بولتی ۔ سکینہ سید ہاتھ میں قرآن پاک پکڑے تیزی سے اس کی طرف بڑھیں ۔
”اُٹھ جا آبی ! رخصتی کا وقت آن پہنچا ہے ۔”
دونوں بھائی آگے بڑھے اور اسے قرآن پاک کے سائے تلے ، کسی دلہن کی طرح ، پورے قبیلے کے سامنے ،اس کے کمرے میں تنہائی کی عمر قید کاٹنے کے لیے اکیلا چھوڑ گئے ۔ سسکتی آبگینے نے ایک محتاط نظر ا ٹھا کے ممانی کو دیکھا تھا۔
اپنے آنسو پونچھتی اس کی ممانی چونکی تھیں ۔ کچھ تو تھا آبی کی نظروں میں مگر کیا ؟
اِس سے پہلے کے ممانی یہ پہیلی سلجھا پاتیں ، آبگینے اپنے قید خانے میں قدم رکھ چکی تھی ۔
”عائلہ !عائلہ…کدھر ہو ؟عا عا عا یل یل یل آ آ آ۔”
یہ کھنکتی ہوئی آواز شانزے کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی تھی؟ بے صبری سے حویلی کے صحن میں داخل ہوتے ہی عائلہ کو آوازیں دیتی، وہ اندر کی طرف ہی آ رہی تھی۔
عائلہ سید جو اپنے کمرے میں مسہری پہ براجمان،پروین شاکر کی ”ماہ ِ تمام” کھولے اس میں گم تھی۔ کتاب بند کرتے ہوئے کمرے کے ادھ کھلے دروازے پر اپنی منتظر نگاہیں ٹکاتے ہوئے، شانزے کا انتظار کر نے لگی۔
لمبے چوڑے، دالان سے گزرتے شانزے سید کے چہرے پہ ، دریچوں کی رنگین کانچ سے منعکس ہوتی دھوپ ، رنگین لکیریں کھینچ رہی تھی۔ پر وہ تو شانزے تھی۔ ا س کے چہرے پہ ویسے ہی قوس ِ قزح کے رنگ بکھرے رہتے یہ مصنوعی رنگ ا س پر کیا چڑھنے تھے ۔
محبت بھی عجب رنگین مزاج احساس ہے جس پر مہربان ہو جائے ، ا س کے چہرے پر دھنک بکھیر دیتی ہے ۔ پھر نہ تو ہونٹوں سے مُسکراہٹ ہٹتی ہے اور نہ ہی باتوں سے خوش اخلاقی جاتی ہے۔
دن جاگتی آنکھوں میں خواب سجاتے گزرتے ہیں اور رات بند آنکھوں میں سپنے پروتے۔
کچھ لوگ مر بھی جائیں تب بھی محبت ان پہ مہربان نہیں ہوتی اور کچھ لوگوں کی ایسی قسمت ہوتی ہے کہ جس کے خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں وہی بن مانگے ان کی تقدیر بنا دیا جاتا ہے ۔ شانزے بھی ان ہی خوش قسمت لوگوں میں تھی۔ بچپن سے جس معید کے سپنے اس کی پلکوں پہ سجے تھے ۔ خدا نے بنا کسی تگ و دو کے اسی معید کو ا س کا مقدربنا دیا ۔
اور پھر جب ا سے علم ہوا کہ معید نے ہر ممکن کوشش کر کے بابا اور شانزے کے ابا کو شانزے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے راضی کیاہے۔ شانزے ہوائوں میں ا ڑنے لگی ۔ ا سے لگا معید کے دل میں بھی کہیں ا س کی محبت رہتی ہے ۔ یہ منگنی کے بعد کا وہ سنہری دور تھا ۔ جب پیر زمین کی جگہ بادلوں پہ ہوتے ہیں اور آنکھوں میں سپنوں کی چمک صاف دیکھی جا سکتی ہے ۔
شانزے کے حسین چہرے پہ حسرت سے نظریں ٹکائے عائلہ تب چونکی جب شانزے نے چٹکی بجائی ۔
”کدھر گم ہو بھئی ؟ میں کب سے بک بک کر رہی ہوں ، مجال ہے جو محترمہ کوئی جواب ہی دے دیں۔”
کالی بڑی بڑی آنکھوں میں مصنوعی خفگی سجی تھی ۔
”ارے نہیں !میں تو بس …ایسے ہی کچھ سوچ رہی تھی ۔ دوبارہ بتا نا کیا کہہ رہی تھیں ۔ ”
عائلہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا۔
”میں کہہ رہی تھی کہ یونیورسٹی چلو گی ؟ مجھے کچھ کام ہے ، تم بھی چلو ۔ داخلے کا کچھ کرتے ہیں۔”
اب کے شانزے سنجیدگی سے بولی ۔
”ہاں کیوں نہیں چلو چلیں۔”عائلہ نے کھوئے کھوئے لہجے میں جواب دیا۔ تب ہی شانزے کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑی کتاب پر گئی۔ عائلہ !ایک بات پوچھوں ؟”
شانزے کے فکرمند لہجے نے عائلہ کے دماغ میں احتیاط کی گھنٹی بجائی تھی ۔
”ہاں پوچھو ۔ ”زبردستی مُسکراتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔
”سب ٹھیک ہے نا عائلہ ؟ مجھے نہ تم ٹھیک لگ رہی ہو نہ یہ سب ۔ تم تو کبھی اکیلے اس حویلی میں یوں نہ رہتی ، نہ ہی تمہاری طبیعت ٹھیک لگ رہی ہے مجھے ، جب سے آئی ہو اس کمرے میں بیٹھی ہو ۔ نہ نکلتی ہو نہ ہنستی ہو ، نہ پہلے کی طرح باتیں کرتی ہو ، کھانا بھی ماہ پری نے بتایا برائے نام کھاتی ہو ، بس تم ہو اور یہ کتابیں ہیں ، یہ کمرا ہے ۔ کیوں ؟ کیا ہوا ہے ؟ تم مجھے تو بتا سکتی ہو ۔”
عائلہ نے نظریں جھکا کے تمام تر کوشش سے آنسو پیے تھے ۔ پھر اس کی طرف دیکھ کے مصنوعی سا مُسکرائی تو آنکھیں چمکی تھیں ۔
”نہیں تو ایسا تو کچھ بھی نہیں ، تم فضول میں فکر کر رہی ہو ۔ اصل میں میری ہی ضد تھی یہاں تمہارے ساتھ آ کے پڑ ھنے کی تبھی بابا کو مجبور ہوکے مجھے بھیجنا پڑا ۔ آپس کی بات یہ ہے کہ اصل میں معید لا لا چاہتے تھے کہ میں ان کی دلہن کے ساتھ رہوں تا کہ وہ نا لائق جلدی سے پڑھ لکھ جائے اور لالا کی شادی ہو جائے ۔”
لہجے میں زبردستی شرارت کی رمق بھرتے عائلہ نے بات مکمل کی ۔
کچھ مطمئن نظر آتی شانزے نے اس کے تاثرات جانچتے ہوئے پھر سے پوچھا۔
”سچ کہہ رہی ہو نا عائلہ ؟”
”بالکل سچ !”عائلہ نے یقین دہانی کرائی ۔
”اچھا چلو باہر چلتے ہیں ، پچھلے صحن میں جھولا جھولیں ؟ ”
عائلہ نے بات بدلنے کو کہا اور اس میں کامیاب بھی رہی ۔ اگلے پل ماہ پری کو چائے کا کہتی وہ شانزے کو ساتھ لیے پچھلے صحن کی طرف بڑھ گئی ۔
جھولے پہ بیٹھی شانزے اور اخروٹ کے درخت سے ٹیک لگا کے کھڑی عائلہ ، ہاتھوں میں چائے کے کپ تھامے ، کسی پرانی شرارت کو یاد کر کے کھلکھلا رہیں تھیں۔
فروری کی ٹھنڈی دھوپ شام کا لبادہ اوڑھ رہی تھی۔ جب اُنہیں لگا کسی نے اُنہیں آواز دی ہو۔
اِدھراُدھر دیکھتے ہوئے دونوں نے تسلی کی کہ کوئی نہیں اور پھر سے خوش گپیوں میں مشغول ہوگئیں۔
” ہِش ہِششش …”دونوں چونکیں ۔ کوئی انہیں متوجہ کر رہا تھا ۔
محتاط نظروں سے اپنے گرددیکھتی عائلہ کی نظر ، حویلی کے دریچوں پہ گئی ۔
دریچے میں کھڑا ہیولا بلا شبہ آبگینے سید کا تھا جو انہیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی تھیں ۔
عائلہ اور شانزے نے تھوڑی دیر بے یقینی سے انہیں دیکھا ، پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں فیصلہ کرتیں ، دریچے کی جانب بڑھ گئیں ۔
ابھی دونوں دریچے کے قریب پہنچی ہی تھیں کہ آبگینے سید ہذیانی انداز میں ہنسنے لگیں۔ شانزے نے خوف زدہ نگاہوں سے عائلہ کو دیکھا ۔ عائلہ نے ہمت کرتے ہوئے دھیرے سے اُنہیں پکارا :
”اماں کاکی!”
وہ ہنستے ہنستے چونکیں ، نظریں نیچے زمیں پہ مرکوز تھیں ۔ چہرے پہ گزرا وقت د گنا ہو کے سلوٹیں چھوڑ گیا تھا۔ تیکھے حسین نقش وحشت میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ خوبصورت کالے بال جو کمر تک آتے تھے ، روکھے اور بے جان سے چہرے پہ بکھرے ہوئے تھے ۔ ا ن میں چاندی کی آمیزش اُنہیں مزید پراسرار بنا رہی تھی ۔
اندر کی طرف دھنسی حلقوں میں لپٹی کالی آنکھیں ، جو کبھی بے حد حسین ہوتی تھیں ، ا ٹھیں تو ا ن میں وحشت کا پورا جہاں آباد تھا۔ ان کی انگاروں جیسی لال آنکھیں عائلہ پہ ٹک گئیں۔ عائلہ کو اپنا سارا وجود جھلستا ہوا محسوس ہوا۔
شانزے کبھی آبگینے کو توکبھی عائلہ کو دیکھتی۔
آبگینے عائلہ کو دیکھتے ہوئے سرگوشی میں کچھ بڑبڑانے لگیں ۔ شانزے اور عائلہ دریچے کے تھوڑا مزید قریب ہوئیں تاکہ ا ن کی سرگوشی سمجھ سکیں ۔ پر ہر کوشش نا کام رہی کہ آہستہ آہستہ آبگینے سید کی بڑبڑاہٹ سرگوشی سے آواز میں ڈھلنے لگی ۔ ان کی نظریں اب بھی عائلہ پہ ٹکی تھیں ۔
”تم باغی ہو… تم بھی باغی ہو ۔ بغاوت تمہارا بھی نصیب ہے۔”
الفاظ تھے کہ زلزلہ ؟
عائلہ پھٹی پھٹی آنکھوں اور زرد چہرے سے ان کی طرف دیکھتی دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔
عائلہ کو یوں ڈرتا دیکھ وہ دوبارہ سے ہذیانی قہقہے لگانے لگیں ۔ اچانک ہنستے ہنستے رکیں۔ اب کے بولیں تو لہجہ اتنا ٹوٹا ہوا تھا کہ ا س کا کرب عائلہ اور شانزے اپنے دل میں محسوس کر سکتی تھیں ۔
”ذات نہ دیکھ جھلیے ذات کی کیا اوقات ؟ عشق دیکھ ، دل دیکھ ، روح دیکھ ۔ روایات کی زنجیر توڑ عشق کر ، عشق کر ، بس عشق کر ۔ باقی سب چھوڑ ، باقی سب مٹی ۔ صرف اپنی چاہ دیکھ ۔ عشق کو ”چاہ” بنا ، ”لا”نہ بنا مجھ جیسی ہوجائے گی۔ باقی سب چھوڑ ، عشق کر عشق ، عشق کر عشق ، عشق کر عشق ۔”
اب وہ رو رہی تھیں ۔ سسکتے ہوئے دہرا رہی تھیں ۔”عشق کر عشق۔”
سسکیاں آہوں میں بدلیں اور آہیں جانے کب چیخوں میں ۔
وہ چیختی ہوئیں دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھیں اور بار بار عائلہ کی طرف دیکھ کے کہتیں۔
”عشق کر عشق۔”دریچے پہ سر پٹختیں اور پھر عائلہ کی طرف دیکھ کے کہتیں:
”عشق کر عشق۔”
عائلہ کو اپنے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑتے محسوس ہوئے۔ ہکا بکا کھڑی شانزے ششدر تھی کہ کیا کرے ۔ ان سارے بیتے سالوں میں جب سے آبگی ینے سید گوشہ نشین ہوئی تھیں ، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ شانزے نے اُنہیں دیکھا تھا ۔ صدمہ اتنا گہرا تھا کہ وہ خود نہ سنبھل پائی تھی عائلہ کو کیا سنبھالتی ۔
پر وہ عائلہ سے یہ سب کیوں کہہ رہی تھیں، ا س نے سوچا ۔ عائلہ کا خیال آتے ہی وہ اُس کی طرف پلٹی ۔ پر عائلہ تو جانے کب بے سدھ ہو کے زمین پہ گر چکی تھی ۔
گائوں میں رہتے اسے ایک سال ہونے والا تھا ۔ وقت تھا کے پر لگا کے ا ڑے جا رہا تھا۔ وقت ویسے بھی کہاں رکتا ہے اور کس کے لیے رکتا ہے ۔وقت تو وہ سر پھرا باز ہے جو جب اڑان بھرتا ہے، تو مڑ کے نہیں دیکھتا ، روز نئی منزلیں سر کرتا ہے ۔
آبگینے کی باتوں کا اثر زائل ہوتے مہینیلگ گئے تھے ۔ ا س دن ہوش میں آنے کے بعد کئی دن عائلہ بخار میں پھنکتی رہی۔ شانزے اور چچی ، اس کی مکمل صحت یابی تک ا س کے ساتھ رہیں ۔ عائلہ کو بخار نے تو چھوڑ دیا، مگر آبگینے کی باتوں کا آسیب ا س کے ذہن و دل پہ چھا گیا ۔ وہ بہت کوشش کرتی اپنا ذہن بٹانے کو، یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ، باغیچے پہ توجہ دینے لگی ، حویلی کی تفصیلی صفائی کرائی ، ماہ پری سے اپنے بچپن کے قصے سنتی ، اپنی واحد سہیلی شانزے کے ساتھ وقت گزارتی ، پر …آبگینے سید کے الفاظ اس کے ذہن سے نہ جاتے۔
اکثر عبداللہ کا تصور اور آبگینے سید کے لفظوں کا تال میل ا سے اچھا لگنے لگتا ۔ وہ عبداللہ کو سوچتی تو کانوں میں ان کی آواز گونجتی :
”ذات نہ دیکھ جھلیے بس عشق کر عشق۔”
اس کا دل ہر ذات پات کے فرق کو بھلا دیتا ۔ نہ بابا یاد آتے ، نہ معید لالا سے کیا وعدہ ، نہ اماں کی تربیت پہ لگنے والی تہمتوں کا خیال آتا ، نہ اپنی زندگی کا۔
اس کا دل بغاوت پہ ہمکنے لگتا ۔ وہ سر جھٹکتی، استغفار پڑھتی ، پر کانوں میں گونجتی آواز خاموش نہ ہوتی ۔
”چاہ نہ چھوڑ ، مجھ جیسی ہو جائے گی۔”
عائلہ بے ساختہ کانوں پہ ہاتھ رکھ دیتی ، آوازمزید گونجتی :
”ذات نہ دیکھ جھلیے ، ذات کی کیا اوقات ؟”
عائلہ کتاب کھول لیتی ۔ کتاب کے سارے لفظ مٹ جاتے ، صرف ایک سطر لکھی دکھائی دیتی :
”تم بھی باغی ہو۔”
وہ کتاب بند کر کے وضو کرنے چلی جاتی ۔ آواز اب بھی آتی ۔
”دل دیکھ ،روح دیکھ ، عشق دیکھ۔”
شہادت پڑھتی، آواز بلند کر دیتی تو کانوں میں گونجتی آواز بھی بلند ہو جاتی :
”باقی سب چھوڑ ، باقی سب مٹی ، بس عشق کر عشق۔”
عائلہ کانوں پہ ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتی ۔ یہ کیا روگ لگا دیا مولا ۔ مشکل سے تو میرے دل ِ بے قرار کو صبر آیا اور میں نے خود کو آمادہ کیا تھا ”عبداللہ” کو بھلا دینے پہ لیکن یہ کون سا آسیب چمٹ گیا مجھ سے ؟
وہ روتی اور سوچتی جاتی کیا کرے ۔
اس کا دل تو خاموش جھیل کی طرح پر سکون ہو چکا تھا جس کے بیچوں بیچ ایک ننھے سے جزیرے پہ اپنی محبت کی قبر بنا ، ا س کے کتبے پہ وجہِ موت ”ذات پات”جلی حروف میں رقم کر چکی تھی ۔ ہر شام کچھ دیر ا س قبر پہ گزارتی ۔ یادوں کے کچھ پھول نچھاور کرتی ، نارسائی کے آنسو بہاتی اور لوٹ آتی۔
مگر آبگینے سید سے اس کی ملاقات نے تواس کی دنیا ہی بدل دی ۔ دل کے پر سکون جھیل میں سمندر سا تلاتم برپا ہوا اور محبت کے جزیرے کو بہا لے گیا ۔ قبر سے آزاد ہوئی محبت ، کسی بد روح کی طرح اس کے گرد ، دائروں میں چکر کاٹتی رہتی ۔
کافی عرصہ ا س نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس آسیب سے بچ نکلے، مگر آخرکار وہ اس آسیب کے شکنجے میں پھنس ہی گئی ۔ پورے ایک سال بعد ا س نے قبول کیا تھا کہ وہ سچ مچ باغی ہے ۔
اس کی روح تو شاید بچپن ہی سے باغی ہے ۔ بس وجود ہی ہے جو کٹھ پتلی کی طرح روایات، ذات پات اور خود کو عظیم تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔
کیا کبھی باغی روح اور مقید وجود والے لوگ دیکھے ہیں کسی نے ؟
ہمارے ارد گرد اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محفلوں میں یا تنہائی میں خاموش ہی رہتے ہیں ۔ جن کے چہروں پہ زردی ملی اداسی اور آنکھوں میں اشکوں کی چمک واضح ہوتی ہے ۔ لباس ملگجے اور شخصیت سوگوار رہتی ہے ۔ لہجے شیریں مگر الفاظ تلخ ہوتے ہیں۔
انہی لوگوں میں بلا کا ٹھہرائو بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ کی نظر ایک دفعہ ان پہ پڑھ جائے تو اِ س مقفل خزانے کو کھولنے کا احساس اس قدر مچلے گا کہ آپ خود ا ن کے گرد منڈلانے پہ مجبور ہو جائیں گے۔ پر وہ پھر بھی خود میں گم صم رہتے ہیں ۔ کیوں کہ ایسی باغی روحیں اپنے اندر اس قدر بلا کا طوفان برپا رکھتی ہیں کہ اُنہیں اپنے گرد رہنے والوں کا خیال ہی نہیں آتا ۔
بس روح اور وجود کے بیچ کی جنگ میں ان کی شخصیت کھو سی جاتی ہے۔
عائلہ بھی کھونے لگی تھی ۔ سجنا سنورنا ، پہننا ، اوڑھنا ، سب بھول سیاہ سلوٹ زدہ قمیص شلوار پہنے رکھتی۔ زیور کے نام پہ وہ واحد ہیرا اس کی چھوٹی سی ناک میں چمکتا رہتا۔ چمکدار بھورے بال ڈھیلی سی چوٹی میں گندھے نظر آتے ۔ تعلیم میں بھی اس لیے دل چسپی باقی تھی کہ اردو ادب سے لگائو باقی تھا ۔
چچی اس کی حالت دیکھ، ہولتیں رہتیں ، جب کے شانزے روز کوئی نیا مشغلہ ڈھونڈ ، حویل لی آدھمکتی۔ پر جب عائلہ کا دل ہی اُ ٹھ گیا تھا، تو یہ سب بے کار ہی جانا تھااور گیا بھی ۔
چچی نے کھانے پہ بہت اہتمام کیا تھا ۔ عائلہ بار بار شرمندہ سی کہتی :
”اتنے تکلف کی کیا ضرورت تھی چچی ، بس آپ کے ہاتھ کی ”خروت” ہی کافی تھی۔”
خروت بلوچستان کی مشہور سوغات تھی ۔ سردیوں میں دودھ سے پنیر بنا کے ا سے ململ کے کپڑے میں ڈال کے کسی ٹھنڈی سایہ دار جگہ پہ لٹکا دیا جاتا ۔ جب پنیر کا سارا پانی نکل جاتا، تو ا س کے چھوٹے چھوٹے پیڑے بنا کے سکھالیے جاتے ہیں۔ جنہیں پھر سالن بنانے کے وقت گرم کھولتے پانی میں بھگو کے پیسا جاتا اور انہی کا سالن بنایا جاتا ۔ بلوچستان کی اس سوغات کے چرچے دور دور تک ہیں ۔
عائلہ کو بھی خروت بہت پسند تھا ۔ تبھی چچی نے خاص طور پہ اس کے لیے بنایا تھا ۔ خوب خوشگوار ماحول میں کھانا کھا یا گیا اور پھر میٹھا ۔
طعام سے فراغت کے بعد چچی دسترخوان سمیٹوانے لگیں ۔ جب کہ شانزے اور علیزے نے باغ میں پردے کا انتظام کرایا اور عائلہ کو ساتھ لیے باغ کی سیر کو نکلیں۔ اوائل ِ اپریل کے دن تھے ۔ جب اس کے گائوں کی دھوپ گرم اور چھائوں سرد ہوتی ہے۔ باغ اب بھی پہلے جیسا تھا ۔ خوبصورت، تر وتازہ ، رنگ و خوشبو سے سجا ہوا ۔ شانزے اور علیزے اس کے ساتھ چلتے چلتے تھک گئیں تو جھرنے کے کنارے بیٹھ گئیں ۔ جھرنے کے ٹھنڈے میٹھے پانی میں پیر ڈالنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ عائلہ کا بھی دل چاہا کے ا ن کا ساتھ دے پر اسے چیری کے درختوں تک جانا تھا ۔
ابھی تو صرف بادام اور خوبانی کے درختوں کو ہی دیکھ پائی تھی ۔ پر باغ میں ہوا کے ہر آتے جاتے جھونکے سے چیری کی خوشبو آ رہی تھی ۔ ا س نے حویلی کے صحن میں ڈھیروں گلابی پھول بکھرے دیکھے تھے ۔ یہی گلابی پھول تو وہ خود پہ بکھرتے پھر سے محسوس کرناچا ہتی تھی ۔
خیالوں کے جہاں میں گم ، وہ تب چونکی جب اس کے پیر گلابی پھولوں کی دبیز چادر پر پڑے ۔
جھکی پلکیں اٹھی تھیں۔ سامنے ڈھیروں قطار سے لگے چیری کے درخت جو گلابی پھولوں کے پیرہن اوڑھے ، شان سے کھڑے اسی کے منتظر تھے ۔ ایک گہری سانس لے کے اپنے ارد گرد پھیلی روح تک کو تروتازہ کر دینے والی خوشبو ا س نے اپنے اندر اتاری ۔ اپنے پیروں کو سلیپر کی قید سے آزاد کرتے اگلے پل وہ درختوں کے نیچے بچھی پھولوں کی نشست پہ جا بیٹھی ۔ کیا اس سے بڑھ کہ کوئی حسیں منظر ہو سکتا ہے ؟ درخت کے خوشبودار تنے پہ سر ٹکاتے ا س نے سوچا تھا ۔
ہوا کے ٹھنڈے جھونکے اس کے چہرے پہ آتی بھوری لٹوں کو تھوڑا اور چھیڑ رہے تھے۔ جانے کتنے پھول جھڑ کے عائلہ پہ بکھرے تھے ۔ وہ کھلکھلا کے ہنس دی ۔
دور پردے کا انتظام دیکھتا میر شاہ زین سید چونکا تھا ۔ یہ کس کی ہنسی تھی ؟ اسے تجسس ہوا ۔
ہنسی کی آواز کے سمت قدم بڑھاتے شاہ زین کو سامنے چیری کے درختوں کے نیچے بیٹھی عائلہ نظر آ گئی ۔ ا س کی پشت ہونے کی وجہ سے وہ پہچان گیا تھا کہ یہ علیزے یا شانزے نہیں ہو سکتیں کیوں کہ مقابل کے بال بے حد لمبے اور دھوپ میں سونے کی طرح چمک رہے تھے ۔