شہریار گاڑی تیز رفتاری سے دوڑاتے ہوئے گھر کی طرف جا رہا تھا گھر کے پاس پہنچ کر اس نے گاڑی پارک کی۔ سامنے ڈرائیو وے میں سوٹ کیس رکھے ہوئے تھے۔ وہ تیزی سے سویرا کو گاڑی میں ہی چھوڑ کر نیچے اتر کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر بڑھا۔ سامنے ہی بابا سائیں ، امی اور پھوپھو تھکے ہارے سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
” اسلام علیکم! ” وہ زور سے پرجوش انداز میں سلام کرتا ہوا ہوا بابا سائیں سے لپٹ گیا۔
“کہاں تھے شیرو؟ ہم کب سے یہاں تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ میری تو تھکن سے حالت ہی خراب ہوگئی ہے ، تم کم سے کم اس سویرا کو تو گھر چھوڑ جاتے۔ ” فرزانہ پھپھو نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
” شیرو سویرا بیٹی کدھر ہے؟ نظر نہیں آرہی۔” زاہدہ بیگم نے پوچھا۔
شہریار نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جہاں سویرا سوٹ کیسز کو گھسیٹتے ہوئے سیڑھیوں کے پاس لا رہی تھی۔
” اچھا اچھا اب یہ گلے شکوے گھر کے اندر چل کر لیں گے۔ شیرو بیٹا دروازہ کھولو اور بیگم! آپ آپا کو لے کر اندر چلیں۔ میں بیگ لے کر آتا ہوں۔” سلیم صاحب نے دونوں خواتین کو ٹوکا۔
شہریار نے مین دروازہ کھول کر اندر کی لائٹ جلائی ۔
” امی پھپھو آپ لوگ بیٹھیں میں اور سویرا ابھی سامان لے کر آتے ہیں۔” اس نے لاؤنج میں بچھے صوفہ سیٹ کی طرف اشارہ کیا۔
” چلو بیٹا میں بھی ہیلپ کروا دیتا ہوں ۔” سلیم صاحب بولے۔
” بابا سائیں آپ رکیں ، میں سامان لے آؤں گا۔ ” وہ سلیم صاحب کو روکتے ہوئے تیزی سے باہر نکلا۔
دھان پان سی سویرا بڑی مشکل سے ایک سوٹ کیس کو لیکر اوپر کی طرف آرہی تھی۔ اس نے خاموشی سے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے سوٹ کیس تھاما اور اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔
سویرا ہچکچاتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ سامنے ہی سب بیٹھے ہوئے تھے۔
” السلام علیکم! ” اس نے ہمیشہ کی طرح نگاہیں نیچی کیے دھیمے لہجے میں سلام کیا۔
” وعلیکم السلام بیٹی! ” سلیم صاحب نے شفقت سے جواب دیتے ہوئے قریب آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
زاہدہ بیگم سویرا کو غور سے دیکھ رہی تھیں، لندن آکر اس کا رنگ روپ اور بھی نکھر گیا تھا۔ وہ ان کے اکلوتے بیٹے کی بیوی تھی، ان کے خاندان کی نسلوں کی امین۔ وہ بڑے پرجوش انداز میں اٹھ کر آگے بڑھیں اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ ان کی گرم جوشی اور شفقت محسوس کر کے سویرا کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔
“اب اس فضول ڈرامہ کو ختم بھی کرو۔ اس منحوس کو تو کوئی مروت اور لحاظ تک نہیں ہے۔ اتنا لمبا سفر کرکے مہمان آئے ہیں اور یہ، نہ چائے پانی کو پوچھا۔ الٹا ٹسوے بہا رہی ہے ہمیں دیکھ کر۔ ” فرزانہ کڑی نظروں سے سویرا کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
” آپا آپ بھی، بس کریں نا۔ ” زاہدہ بیگم نے انہیں ٹوکا۔
اس سے پہلے فرازنہ پھپھو کچھ جواب دیتیں۔ شہریار سارا سامان واچ مین کی مدد سے اوپر لے آیا تھا اور ایک نظر سویرا کے ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتے ہوئے پھپھو کی طرف بڑھا۔
” پھپھو ، امی آئیں میں آپ کو روم دکھا دوں۔ آپ لوگ فریش ہولیں اور سنو تم جلدی سے چائے پانی لیکر گیسٹ روم میں آؤ۔ “وہ ساکت کھڑی سویرا سے کہتا ہوا سب کو لیکر اندر بڑھا۔ کچن کی داہنی طرف ایک بڑا سا گیسٹ روم تھا۔ جس میں دو بڑے بیڈ سیٹ الماری صوفہ ٹی وی سب موجود تھا۔
” اے نوج! کیا ہم سب ایک ہی کمرے میں رہیں گے؟ ” پھپھو نے ناقدانہ انداز میں کمرے کا جائزہ لیا۔
شہریار نے سلیم صاحب اور سعیدہ بیگم کا سامان کمرے میں رکھا اور پھر آگے بڑھ کر پھوپھو کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
” آپ کے لیے پورا گھر حاضر ہے، آئیے میں آپ کو دوسرا کمرہ دکھا دیتا ہوں۔ ” وہ رسان سے بولا۔
” آپا یہ اتنا بڑا کمرہ ہے اور پھر ہم چھٹی پر آئے ہیں۔ اچھا ہے نا سب مل جل کر رہے گے۔ ویسے بھی آپ اکیلے کمرے میں کیا کریں گی؟ ” سلیم صاحب نے انہیں ٹوکا۔
” نہیں میاں! پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ویسے بھی مجھے رخسار نے بتایا تھا کہ شیرو کے گھر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ “انہوں نے تنک کر کہا۔
” بابا سائیں ، پھپھو کو مت روکیں۔ یہ ان کا گھر ہے۔ جہاں دل چاہے رک سکتی ہیں۔ ” وہ کہتے کہتے فرازنہ پھپھو کی طرف مڑا۔
” آئیے پھپھو! آپ کو دوسرا کمرا دکھاتا ہوں۔ ” وہ انہیں لیکر سویرا کے کمرے کی طرف آیا۔
” آپ اس کمرے میں ٹھہریں اور چلیں اب جلدی سے فریش ہو جائیں۔ میں جب تک چائے منگواتا ہوں۔ ”
” نہیں شیرو! چائے نہیں، میں تو کھانا کھاؤں گی۔ اس موئے جہاز میں کچھ بھی ڈھنگ کا کھانے کو نہیں ملا۔ ”
” آپ فریش ہوں، میں تب تک کھانا آرڈر کرتا ہوں۔ ” وہ فون نکالتے ہوئے بولا۔
” یہ اچھا ہے کہ تم نے بیوی کو سر پر نہیں چڑھایا آرڈر کرتے ہو اس کو۔ بہت اچھا کرتے ہو۔ ” وہ مسکرائیں۔
” پھپھو میرا مطلب باہر ریسٹورنٹ سے آرڈر کرنے کا تھا۔ ” اس نے تصیح کی۔
فرزانہ پھپھو کے تو سر پر مانو جیسے پہاڑ گر گیا تھا۔
“اب تمہاری بیوی کیا گھر آئے مہمانوں کو پکا کر کھلا بھی نہیں سکتی؟ غضب خدا کا اب ہم بیمار باہر کا کھا کر اور بیمار پڑیں گے۔ ” انہوں نے گال پیٹے۔
” اچھا آپ فکر مت کریں میں سویرا سے کہہ کر کچھ پکواتا ہوں۔ ” وہ بات ختم کرتے ہوئے باہر نکلا۔
***********
وہ تایا ابو اور تائی امی کو پانی کی بوتل اور چائے دیکر واپس کچن میں آئی تھی اور اب دوسری ٹرے میں پھپھو کے لیے چائے رکھ رہی تھی جب شہریار کچن کے اندر آیا۔
” پھپھو کو میں نے تمہارے کمرے میں ٹھہرا دیا ہے۔ اب تم اپنا انتظام کہیں اور کر لینا۔ ” وہ سنجیدگی سے اس کے صبیح چہرے کو اپنی نگاہوں کی گرفت میں لیتے ہوئے بولا۔
” میں میں کہاں جاؤں؟ ” وہ پریشان ہو اٹھی۔
” اب یہ بھی کیا مجھے بتانا پڑیگا؟ ” اس نے سویرا کو گھورا۔
” دیکھیں آپ سمجھتے کیوں نہیں۔ میں پھپھو کے ساتھ روم شیئر نہیں کرسکتی۔ بلکہ وہ ہی راضی نہیں ہونگیں۔ ” سویرا نے انگلیاں مسلتے ہوئے کہا۔
شہریار دو قدم آگے بڑھا اور اس کے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا۔
” مسز شہریار! میرے ہوتے ہوئے آپ کسی اور کے سارتھ روم شیئر کر بھی نہیں سکتی ہیں۔ ”
” لیکن آپ! آپ!! تو مجھ سے خفا ہیں نا۔ میں تائی امی کے پاس سو جاؤ ں گی۔ ” وہ سوچتے ہوئے بولی
” اسٹاپ اٹ ، یو فول! اب بس بہت ہوگیا۔ تم نے اب تک جتنی حماقتیں کرنی تھی کر لی ہیں۔ اب سے تم ہمارے کمرے میں رہوگی۔ اپنی جگہ پہچانو اور یقین کرو تمہاری ایک ایک حماقت کا میں تم سے کڑا حساب لینے والا ہوں۔ ” وہ اس کے ہاتھوں کو آزاد کرتے ہوئے فون کی طرف بڑھا اور نزدیکی ریسٹورنٹ سے کھانا آرڈر کیا۔
” سنو! یہ پھپھو کی چائے مجھے دو اور سب سے یہی کہنا کہ کھانا تم نے بنایا ہے۔ ” وہ سنجیدگی سے بولا۔
” میں کچھ پکا لیتی ہوں۔
ایسے باہر کا کھانا اچھا نہیں لگتا۔ ”
” سنو! تم بھی اس وقت تھکی ہوئی ہو اور کل سے جو چاہے پکا لینا۔ انفیکٹ میں صبح ہوتے ہی ایک کک اور ہاؤس کیپر ارینج کررہا ہوں تاکہ تم پر برڈن نا پڑے۔ ”
” اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مینج کر لوں گی۔ ”
” میری بیوی ہر وقت کام کر کر کے ماسی بنی رہے تو میرے اتنا کمانے کا کیا فائدہ؟ ” وہ اس کے بہت نزدیک آکر آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
” مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ہر سکھ دے۔ اس پر اپنی کمائی لٹائے، کچھ سمجھ میں آیا؟ ” اس نے سویرا کے سر سے دھیرے سے اپنا سر ٹکرایا۔
” پہلے بس میں اور تم تھے اور تم میرے لیے، بس میرے لیے پکاتی تھیں۔ لیکن اب کام زیادہ ہے۔ میں تمہیں تھکانا نہیں چاہتا۔ مجھے اپنی بیوی روز آفس سے واپسی پر تروتازہ چاہیے ، انڈر اسٹینڈ ؟ ”
وہ اس کے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے پیچھے ہٹا اور چائے کی ٹرے اٹھا کر پھپھو کے کمرے کی طرف چلا گیا۔
ڈیلیوری بوائے کے آتے ہی سویرا نے جلدی سے میز لگا کر سب کو اطلاع دی۔ کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔ سفر کی وجہ سے سب ہی بہت تھکے ہوئے تھے۔ ان سب کے کمرے میں جاتے ہی سویرا نے برتن سمیٹنے شروع کیے۔
” سنو یہ سب کام صبح ہو جائیں گے۔ تم جلدی سے روم میں آؤ۔ ” شہریار اسے حکم دیتا ہوا اندر چلا گیا۔
**********
وہ کمرے میں جلے پیر کی بلی کی طرح ٹہل رہی تھیں۔ سویرا کا روپ ، اس کی دلکشی ، شہریار کی اس پر اٹھتی نظریں، چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ وہ دونوں ایک ہوچکے ہیں۔ اس رشتے کو تسلیم کر چکے ہیں۔ لیکن! وہ انگریز جو رات کو ملا تھا۔
وہ کمرے سے نکل کر سیدھی کچن کی طرف آئیں اور بہت ہی جارحانہ انداز میں میں کچن میں کام کرتی ہوئی سویرا کو ایک جھٹکے سے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔
” آہ! ” سویرا کے منھ سے نکلا ۔
” تم نے کیا سوچا تھا کہ تم گھنی بنی ادھر گلچھرے اڑاتی رہو گی اور ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک دوگی؟ ” وہ غرائیں۔
” میں نے کیا کیا ہے؟ پھپھو! آپ پلیز آرام سے بات کریں۔ ” وہ اپنا بازو ان کی سخت گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔
” آرام؟ آرام سے بات کروں؟؟ وہ بھی تجھ جیسی منحوس سے۔ ارے آرام تو ہمارے نصیب سے اسی دن اٹھ گیا تھا۔ جب تو پیدا ہوئی تھی۔ میرے گھبرو بھائی کو کھا گئی۔ لیکن اب میں تجھے شیرو کے ساتھ ایسا کرنے نہیں دوں گی۔ تو جو ہمارا منھ کالا کرنے کا سوچ رہی ہے مجھے سب پتا ہے۔ ” وہ ایک جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑتے ہوئے بولیں۔
” پھپھو! آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں؟ مم میں نے کیا کیا ہے؟ ” وہ اٹکتے ہوئے بولی۔
” خبردار! جو میرے آگے زبان کھولی۔ چمٹے سے کھینچ کر کاٹ کر پھینک دونگی۔ ”
” فرزانہ آپا کیا ہوا ؟ ” زاہدہ بیگم جو سویرا کی مدد کروانے کا سوچ کر کچن میں آئی تھیں۔ تیزی سے ان دونوں کے بیچ میں آئیں۔
” کیا ہوا ہے؟ ارے مجھ سے کیا پوچھتی ہو۔ ہمت ہے تو اس کرم جلی سے پوچھو۔ جو اتنے عرصے سے میرے شاہو کو الو بنا کر ادھر گلچھرے اڑا رہی ہے۔ ” وہ قہر برساتی نظروں سے سویرا کو گھورتے ہوئے بولیں۔
” قسم لے لیں تائی امی! مجھے کچھ نہیں پتا۔ پھپھو کیوں اتنا ناراض ہو رہی ہیں؟ میں، میں ” وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
” اپنی اس دو ٹکے کی معصومیت سے تم مجھے الو نہیں بنا سکتی۔ میں خوب جانتی ہوں۔ کیسے تم میرے شاہو کو دھوکا دے رہی ہو۔ ” وہ بھڑک کر بولیں۔
” آپا آپ بڑی ہیں۔ پر مجھے لگتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ اپنی سویرا تو بہت نیک اور سعادت مند بچی ہے۔ ” زاہدہ بیگم جو حواس باختگی سے فرزانہ کا رویہ دیکھ رہی تھیں۔ ان کو ٹوکتے ہوئے بولیں۔
” سویرا بیٹی تم اپنے کمرے میں چلو اور آپا آپ میرے ساتھ آئیں۔ ”
***************
سویرا اپنی آنکھیں صاف کرتی ہوئی بوجھل قدموں سے بیڈروم کی جانب بڑھی۔ پھپھو کی نفرت آج بھی اتنی ہی تھی اور اب پتہ نہیں وہ کیوں اس کے کردار پر انگلیاں اٹھا رہی تھیں۔ وہ گردن جھکائے وسوسوں میں گھری کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے اندر خوف ڈیرا ڈال رہا تھا۔ شہریار نے ہمیشہ اس کی ذات کی نفی کی تھی اور اب جب وہ اس رشتے کو تسلیم کرنے لگا تھا تو پھپھو کا آنا اسے مزید ڈرا رہا تھا۔ کل اسے یونیورسٹی بھی جانا تھا۔ اس کی اجازت بھی لینی تھی۔ وہ ہمت کرکے اس کمرے میں آئی تھی۔ سامنے ہی بیڈ پر شہریار اس کے نئے فون کا سیٹ اپ کررہا تھا۔
” کیا ہوا؟ ” سویرا کی آہٹ پر اس نے سر اٹھا کر اس کے فق چہرے کو دیکھا۔
” مم مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ ” وہ لرزتی ہوئی آواز میں بمشکل بولی۔
” گھبراہٹ؟ ” شہریار نے حیرت سے اسے دیکھا ہاتھ میں تھاما فون بیڈ پر رکھ کر کھڑا ہوا اور چلتے ہوئے اس کے نزدیک آکر رکا۔
” کیا بات ہے؟ ” اس نے سنجیدگی سے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ کر پوری توجہ سے پوچھا۔
سویرا نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری۔ وہ اسے پھپھو ، ڈاکٹر اینڈریو اور یونیورسٹی سب کے بارے میں بتانا چاہتی تھی پر الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
” سنو لڑکی! میں تمہارا لائف پارٹنر ہوں اور یہ جو ہمارا رشتہ ہے نا اس میں سب سے اہم آپس کا اعتماد ہوتا ہے۔ اگر ایک بار اس رشتے کے بیچ انا اور بے اعتباری کی فصیل حائل ہو جائے تو پھر جو فاصلے قائم ہوتے ہیں، وہ ساری زندگی نہیں مٹتے ہیں اور تمہیں مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے؟ اس لیے پریشان مت ہو اور بلا جھجک کہو کیا کہنا ہے؟ ” اس نے سامنے کھڑی ڈر و خوف سے لرزتی ہوئی لڑکی کی ہمت بندھائی۔
” آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟ “اس نے بمشکل پوچھا۔
” کیوں؟ تم ایسا کیوں لگا؟ ” شہریار نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا۔
” وہ میں نے آپ کو عروہ جی سے شادی کرنے کا کہا تھا۔ ” وہ ہاتھ مسلتے ہوئے پریشانی سے بولی۔
” ہاں کہا تو تھا اور کیا سوچ کر کہا تھا۔ اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دو ؟ ” اس کا لہجہ تلخ ہوا۔
” کیا آپ واقعی! سچی میں عروہ جی سے شادی کریں گے؟ ” وہ لرزتی ہوئی آواز میں آنکھوں میں نمی لیے اس کا ضبط آزما رہی تھی۔
” میں تم سے اپنے اوپر اتنی بے اعتباری کی وجہ پوچھنا چاہتا ہوں؟ جب سے میں نے تمہیں اپنی ذات کا حصہ بنایا ہے۔ کیا تمہیں احساس نہیں ہوا میری چاہت کا؟ یا میں تمہیں دغاباز نظر آتا ہوں؟ ” وہ غصہ دباتے ہوئے بولا۔
” میں آپ سے اپنے روئیے کی معافی چاہتی ہوں۔ ” وہ کپکپاتے ہوئے لہجے میں بولی۔
” تم تو عروہ سے میری شادی کروانے پر تلی تھیں۔ اب کیا ہوا ؟ اب تو سب گھر والے بھی آگئے ہیں۔ کیا خیال ہے اس ویک اینڈ پر تمہاری یہ خواہش پوری کردوں؟ ”
” مم میں ایسا نہیں چاہتی تھی ل۔ وہ تو آپ پارکنگ میں عروہ جی کے ساتھ۔۔۔ میں مر جاؤنگی، آپ پلیز ایسا مت کریں۔ ” وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔
” تمہاری عقل کو سات سلام ہیں! اگر پارکنگ تک آہی گئیں تھی۔ تو آگے آکر حق سے سوال کیوں نہیں کیا؟ بولو جواب دو ؟ ” وہ دھاڑا۔
” اب یہ اپنا ہر وقت کا رونا دھونا بند کرو۔ سیریسلی آئندہ اگر میں نے تمہاری آنکھوں میں یہ آنسو دیکھے تو یہ آنکھیں ہی پھوڑ ڈالوں گا۔ فساد کی جڑ ہیں یہ تمہاری آنکھیں۔ دماغ خراب کردیتی ہیں میرا۔ ” وہ تپ گیا۔
” وہ میری اسٹیڈیز مجھے کل سے ۔۔۔۔۔” وہ آنکھیں صاف کرتے ہوئے بولی۔
” باقی باتیں بعد میں تم ابھی ڈریس چینج کرکے آؤ اور صبح کی فکر مت کرو میں تمہیں ڈراپ کردوں گا۔ ”
” پر وہ اینڈریو سر! ” وہ اٹکی۔
” کون اینڈریو! وہ ذلیل آدمی؟ تم اسے کیسے جانتی ہو؟ ” شہریار نے سختی سے سویرا کا بازو جکڑا۔
” بولو سویرا جواب دو۔ اس سے پہلے میرا دماغ گھوم جائے۔” وہ دھاڑا۔
” مجھے درد ہو رہا ہے۔ ” سویرا کی آنکھوں میں تکلیف کی شدت سے نمی ابھر آئی۔
” وہ ہمارے انسٹیٹیوٹ میں ٹیچر ہیں۔ ” سویرا مدھم بھرائے ہوئے لہجے میں استنبول ایئر پورٹ سے لیکر منگنی کے دن تک کے سارے واقعات ایک ایک کرکے بتاتی چلی گئی۔
” ہممم تم نے مجھ سے کچھ کہا کیوں نہیں؟ میں مر گیا تھا کیا ؟ ”
” آپ اس وقت مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ پھر مجھے آپ سے ڈر بھی تو لگتا تھا۔”
” سویرا! تم میری بیوی سے پہلے میرے خاندان کی عزت ہو، میری عزت ہو۔ ایسے راہ چلتے بدمعاش قسم کے لڑکوں کی حرکتیں اپنے گھر والوں سے کبھی بھی چھپانی نہیں چاہیے۔ یہ لڑکی کو اکیلا سمجھ کر اور شیر ہوتے ہیں اور تم اکیلی نہیں ہو اوکے! ” اس نے تاسف سے سویرا کو دیکھا۔
” میری بیوی کی طرف اب اس نے آنکھ بھی اٹھائی تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ” اس نے سویرا کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
” سوری ” وہ دھیمے لہجے میں بولی اور آنکھیں صاف کرکے دروازے کی طرف پلٹی۔
” اب کدھر جا رہی ہو ؟ ” اس نے ہاتھ پکڑ کر روکا۔
” میرے کپڑے ادھر کمرے میں ہیں۔ ”
” اب اس وقت کیا پھپھو کو ڈسٹرب کر کے اپنا تعریف نامہ سننے کا ارادہ ہے؟ جاؤ میری وارڈروب سے کچھ نکال کر پہن لو۔ ” اس نے ٹوکا ۔
سویرا ہچکچاتے ہوئے اس کی وارڈروب کھول کر کھڑی ہوگئی۔ چاروں جانب مردانہ لباس لٹک رہے تھے۔
” اب کیا کسی ملک کا نقشہ بنا رہی ہو؟ واللہ اتنا تو علامہ اقبال بھی نہیں سوچتے ہوں گے جتنا تم سوچتی ہو۔ ” شہریار نے اسے الماری کے آگے جما دیکھ کر پوچھا
” وہ ادھر قمیض شلوار نہیں ہے۔ ” سویرا منمنائی۔
” قمیض شلوار؟؟ تم نے کیا مجھے رضیہ سلطانہ سمجھا ہوا ہے ، جو میں قمیض شلوار پہنوں گا ؟ ” وہ ٹھیک ٹھاک تپا اور اٹھ کر الماری تک آیا۔ سویرا کو بازوں سے پکڑ کر پیچھے کیا اور اپنی ایک ٹی شرٹ اور ٹراؤزر نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
” یہ لو آج اسی سے گزارا کرو۔ کل میں تمہارے لیے فارمل ڈریسسز اور نائٹ ڈریس کا ارینج کرلونگا۔ ”
” وہ۔۔ اس کے ساتھ کوئی دوپٹہ یا اسکارف؟ ” سویرا نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
شہریار اس کی بات سن کر تقریباً اچھل پڑا۔ یعنی حد تھی۔ وہ اس کی الماری میں سے دوپٹہ برآمد ہونے کی امید کررہی تھی۔
” مائی ڈیئر مسز شہریار! ” وہ اس کو شانوں سے تھام کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
” آپ کو دوپٹہ اوڑھانا ، اپنے نام کی مہندی لگوانا ، اپ کے گالوں پر اپنے نام کی سرخی پھیلانا، یہ میرا کام ہے ۔ اب آپ اس روم میں آگئی ہیں تو بیفکر رہیں سب ہو جائے گا۔” وہ اس کے نزدیک آکر بلا تمہید بول رہا تھا اور اس کی باتیں سمجھ کر وہ شرم سے سرخ پڑ رہی تھی۔
معمول کے مطابق فجر کے وقت سویرا کی آنکھ کھل چکی تھی۔ سامنے ہی شہریار جاگنگ کیلئے ٹریک سوٹ پہننے تیار کھڑا تھا۔
” گڈ مارننگ سوئیٹ ہارٹ! ” وہ اسے جاگتا دیکھ کر جاندار انداز میں مسکرایا۔
سویرا نے اسے مسکراتے دیکھ کر شرم سے نظریں جھکا لی تھیں۔ وہ بڑی دلچسپی سے اس کے چہرے پر بکھرے رنگوں کو دیکھ رہا تھا۔
” آپ جائیں نا آپ کو دیر ہو رہی ہے۔ ” سویرا نے اسے ٹوکا۔
” پہلے تم اٹھو اور جا کر پھپھو کے جاگنے سے پہلے اپنے اسکول جانے کے کپڑے اور بیگ لے آؤ اور ہاں آج سے تمہیں اسکول میں خود ڈراپ کروں گا۔” اس نے سویرا کو ہدایات دیں۔
__________
شہریار کے جاگنگ پر جانے کے بعد وہ دبے قدموں چلتی ہوئی اپنے کمرے میں داخل ہوئی سامنے ہی پھپھو گہری نیند سو رہی تھیں وہ بہت بہت احتیاط سے بنا آواز کئے اسٹڈی ٹیبل تک آئی اس نے اپنا لیپ ٹاپ بیگ اٹھایا اور الماری سے کپڑے نکال کر تیزی سے کمرے سے باہر نکلتی چلی گی ۔۔۔
ماحول میں سکوت پھیلا ہوا تھا وہ بڑی تندہی سے کچن میں ناشتے کی تیاری کررہی تھی شہریار کا جوس اور نیوز پیپر وہ ٹیبل پر رکھ چکی تھی اب اس کا ارادہ جلدی جلدی سب کا ناشتہ بنا کر یونیورسٹی جانے کا تھا وہ آملیٹ کے لئے انڈوں کا آمیزہ پھینٹ رہی تھی جب دروازہ کھول کے شہریار اندر داخل ہوا
“اتنی صبح صبح تم کیا کر رہی ہو ؟؟؟”وہ جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے کاؤنٹر پر پھیلے پھیلاوے کو دیکھتے ہوئے میں حیرت سے پوچھ رہا تھا
“سب کے لئے ناشتہ بنا رہی ہوں تاکہ جب وہ اٹھیں تو نے کوئی پریشانی نہ ہو۔۔۔۔” وہ جلدی جلدی ہاتھ ہلاتے ہوئے بولی
“میں نے تمہیں کہا تھا نہ کہ فکر مت کرو سب لوگ بہت تھکے ہوئے آئے ہیں دس بجے سے پہلے کوئی اٹھنے والا نہیں ہے اس وقت تک فارم ہاؤس سے ہاؤس کیپر سوزن یہاں آ جائے گی اور وہ سب سنبھال لے گی ۔۔۔۔” وہ جوس کا گلاس خالی کرکے سویرا کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بولا
” مگر ایسے اچھا نہیں لگتا نا !! اور پھپھو تو ناراض ہو جائینگی مجھے تو آج اپنا جانا بھی عجیب سا لگ رہا ہے کہیں سب کو برا نا لگے کہ آج مہمان گھر میں آئے اور میں انہیں چھوڑ کر پڑھنے چلی گئی۔۔۔۔” وہ پریشانی سے بولی
” سنئیے !! آپ سن رہے نا ؟؟ ” اس نے شہریار کو مخاطب کیا
” بتائیں کیا کروں ؟؟ چھٹی کرلوں کیا ؟؟ ” اس نے قریب آکر پوچھا
گلابی سادہ سی کرتی بلیک جینز اور اوپر سے ایپرن باندھے ، لمبے گھنے بالوں کو جوڑے میں لپیٹے وہ اسے دیکھ رہی تھی !! اس کی منتظر تھی ۔ اس وقت اپنی توجہ کی منتظر وہ اسے اتنی دلکش لگی کہ وہ بے اختیار سا اس کی طرف کھنچا ۔وہ جو اپنے جذبوں کو ایک حد میں رکھنے کا قائل تھا نہ جانے کیوں اس لڑکی کے آگے اپنے جذبات کو سرنگوں ہونے سے نہیں روک پا رہا تھا ۔اس نے آگے بڑھ کر سویرا کو اپنی گرفت میں لیا ۔۔۔
” میں بہت ہی ریزرو پریکٹیکل سا بندہ ہوں اور تمہیں پانے سے پہلے میں محبت کو فضول سمجھتا تھا لیکن تم !! تم بہت بڑی ساحرہ ہو تم نے مجھے اپنی سادگی سے گھائل کردیا ہے !! میرا دل لوٹ لیا ہے ۔۔۔” وہ اس کے کانوں میں سرگوشی کررہا تھا
” سنو !! میرا دل چاہتا ہے تمہیں اپنے جذبات سے آشنا کردوں ، اپنے رنگ میں تمہیں رنگ دوں !! بولو میری دنیا میں میرے رنگوں میں ڈھلنا پسند کروگی ؟؟ ” وہ پرتپش لہجے میں اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کررہا تھا ۔۔۔
سویرا کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔شہریار کی توجہ اور اپنائیت کے جذبات وہ پہچان چکی تھی اس کی چاہت کے رنگوں کو دیکھ چکی تھی وہ اس کا سائبان تھا بچپن سے اس کے دل میں بسا ہوا تھا اور اب تو اس کی روح تک میں اتر چکا تھا
” مسز شہریار !! کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہوں ؟؟ ” شہریار نے سنجیدگی سے پوچھا
سویرا کی پلکیں لرز کر جھک گئی تھیں چہرے کی رنگت شرم و حیا سے سرخ پڑ گئی تھی ۔وہ اس کی مضبوط گرفت میں لرز رہی تھی شہریار نے ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ تھام کر اونچا کیا
” بولو سوئیٹ ہارٹ !! ڈو یو لو می ؟؟ ۔۔۔” وہ اس کے آنکھوں میں جھانک رہا تھا ۔
شہریار کی آنکھیں بول رہی تھیں ماحول پر ایک فسوں سا طاری تھا رہا تھا وہ اس کے جواب کا منتظر تھا ۔سویرا اسے جواب دینا چاہتی تھی لیکن شرم و حیا سے اس کے لب سلے ہوئے تھے شہریار اس کے چہرے پر پھیلے دلکش رنگوں کو دیکھ کر طمانیت سے مسکرایا ۔۔۔
” مجھے تمہارا یہ شرمانا بہت پسند ہے !! قسم سے دل لوٹ لیتی ہوں ۔۔۔” وہ اس کے چہرے پر نظر جماتے ہوئے بولا
” یہ کیا ہورہا ہے؟؟ ” فرزانہ پھپھو کی پاٹ دار آواز گونجی
شہریار تیزی سے سویرا سے الگ ہوا
” گڈ مارننگ پھپھو ۔۔۔۔”
اسلام علیکم پھپھو !! ” سویرا نے بھی جھجکتے ہوئے سلام کیا
” میاں یہ کیا ہورہا تھا ادھر ؟؟ کیا پورا گھر کم پڑگیا تھا جو باورچی خانے میں توبہ توبہ ۔۔۔” انہوں نے اپنے گال پیٹے
” پھپو یہ میری بیوی ہے ۔۔۔” وہ خجل ہوا اور مڑ کر فرج سے پانی کی بوتل نکالنے لگا
” بیوی ہے تو میاں کیا ماچس کی ڈبی بنا کر پاکٹ میں رکھ کر گھومو گے ؟؟ میں کہے دیتی ہوں آئندہ مجھے تم دونوں ساتھ نظر نا آؤ بلکہ اسے بولو پردہ کیا کرے ۔۔۔٫” وہ سویرا کو گھورتے ہوئے بولیں
” پردہ ؟؟ سیریسلی پھپھو بیوی کا شوہر سے پردہ ؟؟ ” وہ ان کی منطق پر حیران ہوا
” اللہ بخشے تمہارے پھپھا سے میں نے اکرام کے پیدا ہونے تک پردہ کیا تھا ۔۔۔” وہ فخر سے بولیں
پانی پیتے شہریار کے گلے میں یہ بات سن کر پھندا لگ گیا اس سے پہلے وہ انہیں جواب دیتا سویرا نے اس کا ہاتھ تھام کر اس سے خاموش رہنے کی آنکھوں سے التجا کی !! وہ اس کی آنکھوں کی التجا دیکھ کر پانی کی بوتل وہی کاؤنٹر پر رکھ کر اندر اپنے کمرے میں چلا گیا
” اے لڑکی ذرا ایک کپ چائے تو دے !! ہائے سر درد سے پھٹا جا رہا ہے اور یہ بے حیا میرے شاہو پر ڈورے ڈالنے میں لگی ہے ۔۔۔۔” وہ اونچی آواز میں بولیں
” پھپو چائے ۔۔۔۔” سویرا نے چائے مگ میں انڈیل کر ان کی طرف بڑھائی
“پھپو ناشتہ بنا دوں ؟؟ ” سویرا نے پوچھا
” ناشتہ تو میں سلیم اور زاہدہ کے ساتھ ہی کرونگی اور لڑکی تم ذرا سنبھل کر رہو آئندہ مجھے اس طرح شاہو سے چپکی نظر نا آنا ورنہ وہی چوٹی سے پکڑ کر تمیز سکھا دونگی ۔۔۔” وہ چائے کا مگ پکڑ کر دوبارہ کمرے میں چلی گئیں
****************
بلیک پینٹ کوٹ پر ریڈ ٹائی لگائے وہ اپنے اوپر پرفیوم کا اسپرے کررہا تھا جب سویرا اندر داخل ہوئی
” مسز !! جلدی کرو میری ایک اہم میٹنگ ہے ۔۔۔”شہریار گھڑی باندھتے ہوئے بولا
” وہ !! آپ جائیں میں کل سے جوائن کرونگی ۔۔۔” سویرا نے کہا
” کیوں ؟؟ ” وہ سنجیدہ ہوا
” گھر میں ایسے سب کو چھوڑ کر جانا مناسب نہیں لگتا ۔۔۔” اس نے وضاحت دی
” کیا مناسب ہے اور کیا نہیں یہ تم مجھ پر چھوڑ دو !! ”
” مگر !! ” سویرا نے کچھ کہنا چاہا
” نو مور آرگومنٹ !! تمہارے پاس بس پانچ منٹ ہیں ہری اپ ۔۔۔” وہ اس کی بات کاٹ کر اپنے لیب ٹاپ کی طرف بڑھا
سویرا نے جلدی سے کرسی پر رکھا گلابی اسکارف اٹھا کر سر پر لپیٹ کر پن لگائی گلے میں اسٹالر ڈالا ہلکی سی لپ اسٹک لگا کر اپنا بیگ اٹھا لیا
” چلیں !!! ” وہ اس کے پاس آئی گلابی اسکارف کے احاطے میں اس کا چہرہ مزید پرکشش لگ رہا تھا
” سنو تمہارے پاس کوئی اپر یا کوٹ نہیں ہے؟؟ ۔۔۔” وہ اس کے وجود سے چھلکتی رعنائیوں کو محسوس کرتے ہوئے بولا حالانکہ اس کا دلکش وجود اس ڈھیلے لباس میں چھپا ہوا تھا مگر پھر بھی اس کی خوبصورتی ابھر رہی تھی
” نہیں !! ” وہ شرمندگی سے اس کی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے بولی
” اٹس اوکے !! لیٹس گو ۔۔۔”
وہ شہریار کے پیچھے چلتی ہوئی گاڑی تک آئی ۔شہریار دروازہ کھول کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا
” تم اتنی پریشان کیوں ہو ؟؟ ” اس نے سر جھکا کر خاموش بیٹھی سویرا کو دیکھا
” وہ تایا سائیں ، تائی امی ، پھپھو سب اکیلے ۔۔۔۔”
” او گاڈ !! تمہاری سوئی ادھر ہی اٹکی ہوئی ہے !! سوئیٹ ہارٹ تم بس مجھے سوچا کرو !! باقی سب میں دیکھ لونگا ۔۔۔۔” وہ اس کے سر پر ہلکی سی چپت مارتے ہوئے بولا
” گاڑی تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی شہریار کانوں پر بلو ٹوتھ لگائے اپنے اسٹاف کو ہدایات دے رہا تھا جب سویرا نے بیچین نظروں سے اسے دیکھا
” واٹ ہیپنڈ ؟؟ ” شہریار نے بھنویں اچکا کر پوچھا
” وہ آپ غلط راستے پر جا رہے ہیں !! “سویرا نے سامنے سڑک کو دیکھتے ہوئے کہا
” میرا راستہ غلط ہو ہی نہیں سکتا یہ اور بات ہے کہ تمہیں پہچان نہیں ہے ۔۔۔” وہ پرسکون انداز میں بولا
” مگر آپ نے تو مجھ سے پوچھا ہی نہیں کے مجھے کدھر جانا ہے !!! ” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
” مسز سویرا شہریار !! کوئین میری اسکول آف میڈیسن فرسٹ ائیر اسٹوڈنٹ روم نمبر 10 !! ” وہ موڑ کاٹتے ہوئے بولا
” آپ کو پتہ ہے ؟؟ ” وہ حیران ہوئی
” تمہیں کیا لتا ہے میں دنیا میں گھاس کھودنے آیا ہوں ؟؟ ” وہ طنزیہ انداز میں بولا
” جی ۔۔۔” سویرا نے گھبرا کر جلدی سے سر ہلایا
” واٹ ؟؟؟ سیریسلی میں !! میں تمہیں گھاس کھودنے والا لگتا ہوں ؟؟ ” وہ دھاڑا
” نہیں !! ۔۔۔” اس نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا
” سنو لڑکی !! میں تمہیں اپنی ذمہ داری بنا کر پاکستان سے لایا تھا ، تمہارے ایڈمیشن سے لیکر ایک ایک چیز پر میری نگاہ تھی ۔ تم میرے نکاح میں تھی ، میری عزت کدھر جاتی ہے ، کیا کرتی ہے ؟؟ میں اس پر نظر رکھنے پر مجبور تھا ، ہوں اور رہونگا ۔ویسے بھی تمہارے معاملے میں میرا دل تمہیں اتنے سالوں بعد پہلی بار دیکھتے ہی باغی ہوچکا تھا لیکن میں خود کو وقت دے رہا تھا کہ کہیں تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کردوں ۔۔” وہ گاڑی کوئین میری کے سامنے روکتے ہوئے بولا
سویرا غور سے اس کی بات سن رہی تھی جب گاڑی یونیورسٹی کی اینٹرینس پر رکی وہ سر پر اسکارف درست کرتے ہوئے شہریار کو خداحافظ کہتے ہوئے گاڑی سے اتری صبح کا وقت تھا موسم نہایت ہی خوشگوار تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جس سے اس کی کرتی اور اسٹالر بھی ہلکے ہلکے اڑ رہے تھے ۔منظر بہت پرکشش تھا پر اس سے برداشت نہیں ہوا ۔ وہ گاڑی سے اتر کر لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے بلکل سامنے آکر رکا ۔۔
” کیا ہوا ۔۔۔” سویرا نے اسے اپنے سامنے کھڑا پاکر سوال کیا
شہریار نے بنا کچھ کہے اپنا کوٹ اتار کر اس کی طرف بڑھایا وہ خاموشی سے اس کی نظروں کا پیام سمجھ چکی تھی اور بڑی تابعداری سے اس کا کوٹ تھام کر پہن چکی تھی ۔۔
” ہمم ۔۔۔” اس نے تنقیدی نگاہوں سے اسے دیکھا پھر آگے بڑھ کر اس کے لبوں پر لگی لپ اسٹک کو اپنی انگلی سے صاف کیا
” اب ٹھیک ہے ۔۔۔” وہ ناقدانہ انداز میں اس کا جائزہ لیتے ہوئے بولا
سویرا جو پبلک پلیس پر اس کی اس جسارت پر لرز اٹھی تھی اب ساکت سی خاموش کھڑی تھی
” اب تم جاسکتی ہوں اور ہاں واپسی پر میرا ویٹ کرنا ۔۔۔” وہ اس کے سامنے سے ہٹتا ہوا بولا
************
” ہیلو مس سویرا !! کیسی ہو تم ؟؟ ” وہ کلاس روم کی طرف جا رہی تھی جب ڈاکٹر اینڈریو کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر چونکی
” سر راستہ دیجئیے میری کلاس شروع ہونے والی ہے ۔۔” وہ مضبوطی سے بولی
” تم !!! ” اینڈریو نے دانت پیسے
” تمہاری اس نام نہاد شرافت کو میں اچھی طرح جان چکا ہوں جب تک تمہارا شوہر تمہیں منھ نہیں لگا رہا تھا تو مجھ سے دل بہلایا اور اب ۔۔۔۔”
” شٹ اپ ۔۔۔۔” وہ نمی پیتے ہوئے چلا اٹھی
” مجھے نہیں پتہ آپ کا مسئلہ کیا ہے شیم آن یو سر !! آپ ایک شریف لڑکی کو بدنام کرنے پر تلے ہیں ۔۔۔”
” شریف ؟؟؟ اونہہ !!! تمہاری اس نام نہاد شرافت کو میں اچھی طرح جان گیا ہوں میں !! تم جیسی نیک چلن عورت جو اپنی معصومیت سے دو دو مردوں کو بیک وقت الو بنا رہی ہے ۔۔۔۔” اینڈریو پھنکارا
” میرے راستے سے ہٹیں ورنہ میں چلا چلا کر سب کو اکھٹا کر لونگی !!! ” سویرا نے دھمکی دی
” چلو غصہ چھوڑو میرے ساتھ چلو آخر شہریار کے ساتھ بھی تو وقت گزارتی ہو آج مجھے بھی چانس دے کر دیکھو ۔۔۔” وہ خباثت سے بولا
“شرم نہیں آتی آپ کو اس طرح کی چیپ باتیں کرتے ہوئے ؟؟ “وہ وحشت زدہ ہوئی
” تم میری بات سکون سے سن لو !! میں بس اتنا چاہتا ہوں ۔۔۔” ڈاکٹر اینڈریو اس کے سامنے پھیل کر کھڑا ہو گیا
” سوری سر !! میں اجنبی مردوں سے بات نہیں کرتی ۔۔۔” وہ تلخ لہجے میں بولی
” اجنبی ؟؟ آر یو سیریس ؟؟ لگتا ہے تمہاری یاداشت کھو گئی ہے ذرا اپنا فون کھول کر دیکھو ہر میسج میں تمہیں ہمارا پیار نظر آئیگا ۔۔یاداشت واپس لوٹ آئیگی ۔۔۔”
” میرا راستہ چھوڑوں ورنہ ۔۔۔”
” ورنہ ؟؟ ” اس نے زور دار قہقہہ لگایا
” سوئیٹی !! تمہارے منھ سے دھمکیاں بھی رومینٹک لگتی ہیں خیر میرا ہاتھ تھام لو اور چلو میرے ساتھ ۔۔۔”
” آ ۔۔آپ مجھے تنہا سمجھ کر ڈرا رہے ہیں ؟ ہمت ہے تو میرے ہسبنڈ کے سامنے بات کریں ، میرے ہسبنڈ آپ کو چھوڑیں گے نہیں ۔۔۔” وہ مضبوط لہجے میں بولی
” مسز شہریار !!! نا نا نا مس سویرا مجھے اس راہ تک تم خود لائی ہو اور مجھے اس بلڈی ہسبنڈ کا ڈراوا مت دو بلکہ ایسا کرو گھر جا کر میرا انتظار کرو میں آج تمہیں سب کے سامنے اٹھا کر اپنے ساتھ لے جانے آرہا ہوں ۔۔۔”
” دماغ درست ہے آپ کا ؟؟ یہ آپ جیسے لوگ ہی پورے ہیں جو استاد ہو کر درسگاہ کی توہین کرتے ہیں اپنی گھٹیا حرکتوں سے ۔۔۔۔۔”
” اتنا مت بولو کہ بعد میں تمہیں پچھتانا پڑے یہ تو تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میں سب کچھ جان کر بھی تم جیسی برتی ہوئی لڑکی کو اپنانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔” وہ غرایا
************
وہ گاڑی یونیورسٹی کے پارکنگ لاٹ سے نکال چکا تھا جب اس کی نگاہ ساتھ والی سیٹ پر سویرا کے لیب ٹاپ پر پڑی وہ شاید جلدی میں اسے گاڑی میں ہی بھول گئی تھی ۔۔۔
” مسز شہریار !! ” اس نے مسکرا کر گاڑی کا رخ واپس یونیورسٹی کی طرف موڑا
وہ جو پہلے سویرا کے وجود سے چڑتا چلا آیا تھا اب سویرا کو پا کر خود میں بہت تبدیلیاں محسوس کررہا تھا اس کی نگاہوں میں چاہت کا ایک جہان آباد ہوچکا تھا سویرا اپنی معصومیت سے ، سادگی سے اس کے دل میں بڑے شان سے براجمان ہو چکی تھی اس معاملے میں اس کے ساتھ بالکل آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا حساب ہوا تھا جب تک سویرا کو اس نے جانا نہیں تھا وہ اس رشتے کے منافی تھا لیکن یہ بھی اس کی سرشت کے خلاف تھا کہ اس کی چیز چاہے وہ سویرا ہی کیوں نہ ہو وہ کسی اور کے قبضے میں جائے ۔۔۔۔
“ازل سے تم ہی میرے نصیب میں لکھی تھیں بس میں نے ہی ذرا دیر سے جانا ۔۔۔۔” وہ گاڑی پارک کر کے اترا اور اندر میڈیکل ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھا ۔۔۔
**************
نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی پوری رات آنکھوں میں کٹی تھی صبح ہوچکی تھی وہ پژمردگی سے چلتی ہوئی گھر کے خوبصورت لان میں آکر بیٹھ گئی اس کی آنکھیں شدت گریہ سے سرخ ہو رہی تھیں دل کی دھڑکنیں ابھی بھی شہریار کے نام کا راگ الاپ رہی تھیں وہ بلاشبہ بہت حسین و دلکش لڑکی تھی جسے دل کھول کر ہر جگہ ہر محفل میں سراہا گیا تھا اسے اپنے حسن پر اپنے اسٹیٹس پر حد درجہ ناز تھا غرور تھا اور وہ غرور شہریار نے توڑا تھا بڑی مشکل سے وہ شہریار کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہوئی تھی اور اب جب سے وہ سویرا آئی تھی شہریار کے رنگ ڈھنگ بدل گئے تھے اس نے شہریار کی آنکھوں میں سویرا کے لئیے دیوانگی تھی جس نے اسے انگاروں پر دھکیل دیا تھا اب اسے یہ جنون سوار ہو گیا تھا کہ شہریار کو وہ اپنے آگے سرنگوں کر کے سویرا کو نیچا دکھا کر اس کی زندگی سے کہی دور نکال پھینکے گی ۔۔۔
اپنے خیالات سے الجھ کر وہ اٹھی اور گھر کے اندر بڑھی کمرے میں داخل ہوکر دیوار گیر گھڑی میں وقت دیکھا تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے وہ اپنا مائنڈ بنا چکی تھی کیبنٹ سے کپڑے نکال کر وہ تیار ہونے چلی گئی۔۔۔
آسمانی سلیو لیس بلاؤز اور شارٹ سکرٹ میں نازک سی ڈائمنڈ کے ساتھ ڈائمنڈ کی جیولری پہن کر پرفیوم اسپرے کر کے وہ تیار تھی ۔۔۔
سیل فون اٹھا کر اس نے پرس کھول کر شیری کے گھر کی چابی چیک کی اور سیدھی باہر نکلتی چلی گئی۔۔۔
بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ شیری کے گھر کے باہر موجود تھی گاڑی لاک کر کے وہ باہر نکلی اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پرس سے گھر کی چابی نکال لی ۔۔۔
دن کے دس بجنے والے تھے اس نے ایک گہرا سانس لیکر چابی گھما کر دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔