آپا آپ اس قدر ٹینشن کیوں لے رہی ہیں ؟ خوشی خوشی چلیں خوامخواہ پریشان ہونے کا کیا فائدہ ہے میں شیرو کو اچھی طرح سے جانتا ہوں بیٹا ہے میرا ، لاکھ اسے اختلاف ہو لیکن وہ اپنی چیز اپنا حق کبھی نہیں چھوڑتا اور سویرا تو بچپن سے اس کے نام پر ہے وہ چاہے بھی تو اسے نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔” سلیم صاحب نے سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے رسان سے سمجھایا
” سلیم میاں جو بھی ہے اس نے خوشی خوشی تو اسے نہیں اپنایا ہے آخر سمجھوتوں پر تو زندگی نہیں گزاری جا سکتی ۔۔۔” فرزانہ نے اپنا نظریہ بیان کیا
” آپا اگر میں ابھی سویرا کو اس کے حوالے نہیں کرتا تو یقین جانیں بعد میں اسے ساری زندگی پچھتاوا ہوتا وہ اسے کسی دوسرے کے نکاح میں برداشت نہیں کرسکتا تھا اور یہ بات اسے خود بھی نہیں پتا تھی اور وہ خود سویرا کی زمہ داری اپنے سر لے کر گیا ہے اسے ایک موقع تو دیں ہمیں چند دن ان بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی گزارنے ہیں اور اگر آپ کو وہ خوش نہیں لگا تو میں آپ کو نہیں روکو ں گا ۔۔۔” سلیم صاحب نے بات ختم کی
” مجھ سے تو وقت ہی نہیں گزر رہا کب یہ جہاز ادھر پہنچے گا ۔۔۔” زاہدہ بیگم نے بات بدلی
” چھ گھنٹے کا سفر ہے ہم ان شاءاللہ رات نو ہیتھرو ائیرپورٹ پہنچ جائیں گے پھر امیگریشن کسٹم کے بعد تقریباً رات گیارہ بارہ تک شیرو کے گھر پر ہونگے ۔۔۔” انہوں نے اپنی بیگم کو تسلی دی
” اے لو سلیم میاں !! تم نے شیرو کو تو ہمارے آنے کا بتایا ہی نہیں اب رات میں ہم اس کا گھر کیسے ڈھونڈتے پھرتے گے ۔۔۔” فرزانہ ناک پر انگلی رکھتے ہوئے بولیں
” آپا میں لندن آتا جاتا رہا ہوں بیفکر رہیں ٹیکسی کر لینگے اور آرام سے پہنچ جائیں گے ۔۔۔”
**********************
تین دن سے وہ کمرے میں بند تھی مسٹر اور مسز سہراب اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے لیکن وہ دروازہ کھول کر باہر آنے کو تیار نہیں تھی ۔۔
آج مسز سہراب زبردستی دروازہ کھلوا کر اس کے پاس آئیں تھیں ۔۔
” عروہ ڈارلنگ ! کمرے سے باہر نکلو بیٹا ۔۔۔” وہ پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں
” مما سب ختم ہوگیا ۔۔۔۔” وہ تلخی سے بولی
” ایسا نہیں کہتے میری اتنی پیاری خوبصورت سی بیٹی کو دیکھنا کوئی پرنس ہی ملیگا ۔۔۔” انہوں نے اسے بہلانا چاہا
شیری کا سویرا کو لیکر وہ جنونی انداز بار بار اس کی نگاہوں کے پردے پر کسی فلم کی طرح چل رہا تھا ۔۔۔
” مما !! مجھے ب
ھی ایسا ہی عاشق چاہئیے جو میرے لئیے زمانے سے لڑ جائے جیسے وہ شیری اس لڑکی کے لئیے پاگل ہو رہا تھا ۔۔۔۔” وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
“ملیگا اور ضرور ملیگا اب تم یہ اسٹوپڈ رنگ تو اتارو میں واپس بھجواتی ہوں ۔۔۔” انہوں نے اس کی نازک سی انگلی سے رنگ اتارنی چاہی
“نہیں مما !! پلیز یہ میری انگیجمنٹ رنگ ہے اور جو بھی ہے انگیجمنٹ تو ہو چکی ہے اب تو بس یہ دیکھنا ہے کہ وہ مجھے بھی اس شدت سے چاہے گا یا نہیں ۔۔۔” وہ ضدی بچے کی طرح اکڑ گئی
” عروہ وہ کسی اور کا ہے بچے اب تم اس کو بھول جاؤ ۔۔۔”
” کیا بھولنا آسان ہوتا ہے ؟؟ میری ساری فرینڈز سارا سرکل مجھے فیوچر مسز شہریار کے نام سے جانتا ہے آپ نے کبھی سوچا ہے میں ان سب کو کیسے فیس کرونگی ؟؟ بتائیں ۔۔۔” وہ ہذیانی انداز میں چیخی
مسز سہراب اسے تاسف سے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی وہ اب کھڑی ہو کر وارڈ روب سے اپنے لئیے ڈریس دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” مسٹر شہریار تیار رہو آج کا لنچ تو تم اپنی فیانسی کے ساتھ ہی کرو گے ۔۔۔”
فریش ہو کر سادہ سی جینز اور ٹی شرٹ پہن کر اس نے اپنے گھونگریالے بالوں کی پونی بنائی اور گاڑی کی چابی اور سیل فون اٹھا کر باہر نکلی ۔۔گاڑی میں بیٹھ کر اس نے اپنا فون آن کیا تو ڈاکٹر اینڈریو کو میسج آیا ہوا تھا اس نے بیزاری سے فون آف کیا اور گاڑی کا رخ شہریار کے آفس کی طرف موڑ دیا ۔۔
*****************
بریڈلی کلاس لیکر باہر نکلا وہ صبح سے سویرا کو کال ملا رہا تھا پر وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی اس نے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے اینا کو کال ملائی ۔۔
” ہیلو اینا کیسی ہو ۔۔۔”
” تم اس وقت !! کیسے کال کی ۔۔۔” اینا فائل بند کرتے ہوئے آرام سے بیٹھ گئی
” سویرا کدھر ہے ؟ آج یونیورسٹی بھی نہیں آئی اور فون بھی نہیں اٹھا رہی ہے ۔۔” اس نے اینا کی خیریت پوچھنے کے بعد سوال کیا
” باس ابھی آفس میں ہی ہیں میں ان سے پوچھ کر کال کرتی ہوں ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولی
” سنو اپنے اس کھڑوس باس کو اس ڈاکٹر اینڈریو کا ضرور بتا دینا وہ آج بھی صبح اینٹرینس پر نظریں گاڑے کھڑا تھا میں تو اس کی بینڈ بجانے کو پر سویرا ہی نہیں آئی ۔۔۔۔”
” بس رہنے دو جس وقت بینڈ بجانی چاہئیے تھی اس وقت تو منھ پھلا کر پارٹی چھوڑ گئے تھے ویسے باس نے اس کی خوب پٹائی کی تھی پورا بھیگا مرغا لگ رہا تھا ۔۔۔” اینا مزے سے بولی
” اچھا اچھا اب طعنہ مت دو اور جا کر سویرا کا پتا کرو ۔۔۔” بریڈلی نے فون رکھا
اینا نے فون بند کر کے شہریار کے آفس کے بند دروازے کو دیکھا اور پھر اس سے بات کرنے کے لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
______________
پانچ گھنٹے گزر چکے تھے ایمریٹس ائیرلائن کا طیارہ بس اب ایک گھنٹے میں ہیتھرو ائیرپورٹ پر اترنے ہی والا تھا زاہدہ بیگم نے تو پورا سفر سوتے ہوئے ہی گزارا تھا لیکن فرزانہ پورے سفر میں ایکٹیو رہی تھیں اور سلیم صاحب سے باتیں کرتے ہوئے وقت گزار رہی تھی اب ان کے سر میں درد ہو رہا تھا سلیم صاحب بھی نیم غنودگی میں چلے گئے تھے فرازنہ نے بیل بجا کر ائیر ہوسٹس کو اپنے لئیے چائے لانے کا حکم دیا
“ہیزل وہ فرسٹ کلاس سیٹ 20 A کو چائے دے آؤ ۔۔۔” ایک خوبصورت سی ائیر ہوسٹس نے اپنی ساتھی ائیر ہوسٹس سے گزارش کی
” نو نیور اس اولڈ لیڈی کو کھانا میں نے سرو کیا تھا اور اب دوبارہ ان کے پاس جانے کی میری ہمت نہیں ہے ۔۔۔” ہیزل نے کانوں کو ہاتھ لگایا
“اوکے پھر میں ہی جاتی ہوں ۔۔۔۔” انعم پاکستانی ائیر ہوسٹس نے ٹھنڈی آہ بھری اور چائے لیکر فرسٹ کلاس کیبن کی جانب بڑھی
” میم آپ کی چائے ۔۔۔۔” اس نے بڑے سلیقے سے چائے اس ڈیسنٹ سی خاتون کے سامنے رکھی جن کی پیشانی پر اسے دیکھتے ہی بل پڑ گئے تھے
” یہ کیسی کالی چائے ہے ؟؟ اور لڑکی تم تو مجھے پاکستانی لگتی ہو یہ کیسا واہیات یونیفارم پہنا ہے تم نے ۔۔۔۔” وہ انعم کے اسکرٹ کو گھورتے ہوئے بولیں
” میم آپ کو کیسی چائے چاہئیے بتائیں میں بنانے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔” انعم لاچاری سے بولی
” دودھ میں پتی اور سبز الائچی ڈال کر اچھی طرح سے جوش دیکر چائے لاؤ اور شکر صرف دو چمچ رکھنا ۔۔۔”وہ عینک درست کرتی ہوئی بولیں
” میم ۔۔۔” انعم کراہ اٹھی
” میم یہ پلین ہے ادھر چولہا نہیں ہوتا کہ ہم آپ کے لئیے دودھ پتی بنا سکیں ۔۔۔۔” اس نے سمجھانا چاہا
” لاکھ کا ٹکٹ دیتے ہو اور موا ایک کپ ڈھنگ کی چائے بھی نہیں ملتی تف ہے تم لوگوں پر !! میں تو اتر کر تم سب کی شکایت کرونگی ۔اب جاؤ بھی میرا منھ کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔” انہوں نے اسے گھورا
ائیر ہوسٹس نے جلدی سے چائے اٹھائی اور جانے کیلئے مڑی ۔۔
” او بی بی اب یہ سڑی ہوئی چائے تو چھوڑ جاؤ ۔۔۔”
انعم نے پلٹ کر چائے رکھی اور تیزی سے توبہ کرتی ہوئی کیبن سے باہر نکلی
“کیا ہوا ۔۔۔۔” ہیزل نے انعم کے تپے ہوئے چہرے کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا
” یار جلدی سے لینڈنگ ہو اور اس ہٹلر لیڈی سے جان چھوٹے میں تو تنگ آگئی ہوں سر الگ درد کر رہا ہے ۔۔۔” انعم نے کہا
” ویسے اس لیڈی کے گھر والے تو سارے جنتی ہونگے ۔۔۔” ہیزل شرارت سے مسکرائی
” ظاہر ہے بیچارے دنیا میں ہی عذاب بھگت رہے ہیں ۔۔۔” انعم نے جل کر کہا
لینڈنگ کی اناؤسمنٹ ہو چکی تھی سیٹ بیلٹ کے سائن آن ہو چکے تھے سارے مسافر ہوشیار تیار سیدھے ہو کر بیٹھ گئے جہاز لندن ائیرپورٹ پر لینڈ کررہا تھا ۔۔۔
کسٹم امیگریشن سب سے فارغ ہو کر سلیم صاحب ان دونوں خواتین کو ساتھ لئیے ٹیکسی کارنر کی طرف آگئے تھے ۔
” چلیں آپ دونوں خواتین ٹیکسی میں بیٹھیں میں سامان رکھواتا ہوں ۔۔۔” انہوں نے فرزانہ آپا اور زاہدہ بیگم کو متوجہ کیا
” سلیم میاں پاگل ہوگئے ہو کیا !! ذرا اس کالے ڈرائیور کو تو دیکھو کتنا خبیث لگ رہا ہے ۔۔۔” فرزانہ نے بیٹھنے سے صاف انکار کردیا
” آپا یہ نیگرو ہے اس نسل کے لوگ ایسے ہی کالے ہوتے ہیں آپ اس کی شکل پر مت جائیں گاڑی میں بیٹھئیے پلیز ۔۔” سلیم صاحب نے اپنا غصہ دباتے ہوئے انہیں سمجھایا
” نہیں بھئی میں تو اس کلو کے ساتھ نہیں جانے والی تم کوئی گورا ڈرائیور ڈھونڈو ۔۔۔” وہ بھی صاف اکٹر گئیں
سلیم صاحب نے ڈرائیور سے معذرت کی رات کے گیارہ بج رہے تھے انہوں نے دیکھ بھال کر دوسری ٹیکسی لی اور شہریار کا ایڈرس بتا کر زاہدہ بیگم اور فرزانہ کو اندر بیٹھنے کا کہہ کر خود آگے بیٹھ گئے ۔۔
” سلیم میاں اب اور کتنی دیر لگے گی ۔۔۔” فرزانہ نے سوال کیا
” بس آپا بیس منٹ میں ہم شیرو کے گھر پر ہونگے ۔۔۔” وہ پیچھے مڑ کر رسان سے بولے
****************
سویرا کو لوری نے کافی چیزیں دلوا دی تھی اب وہ اسے ان کا استمال بتا رہی تھی بیس پاؤڈر بلش آن مسکارا لائنر وہ سب نرمی سے سویرا کے چہرے پر لگاتے ہوئے اسے ساتھ ساتھ سکھاتی بھی جا رہی تھی ۔۔۔
“واؤ یو آر لکنگ سو سو پریٹی ۔۔” لوری نے آخری ٹچ دے کر اسے توصیفی نگاہوں سے دیکھا
“چلو اب یہ اسکارف اتارو میں تمہیں ہئیر پروڈکٹ بھی سکھا دوں ۔۔۔۔” لوری نے اس کے اسکارف کی طرف اشارہ کیا
سویرا نے ہچکچاتے ہوئے اسکارف اتارا اور اپنا جوڑا کھولا
سویرا کے لمبے گھنے سیاہ چمکدار بال دیکھ کر لوری کی آنکھوں میں ستائش اتر آئی تھی ۔۔۔
” تم پاکستانی لڑکیوں کے بال بہت خوبصورت ہوتے ہیں ۔۔۔” وہ اس کے بالوں میں برش کرتے ہوئے بولی
سویرا کو ہئیر اسپرے کرل مشین وغیرہ کا استعمال سمجھا کر لوری فارغ ہو چکی تھی سویرا ریوالونگ چئیر سے کھڑے ہو کر اسکارف دوبارہ سر باندھنے ہی لگی تھی کہ لوری نے اسے ٹوکا ۔۔۔
” ابھی ایسے ہی رہنے دو پہلے مسٹر شہریار کو چیک تو کرلینے دو کیا پتہ وہ اور بھی کوئی سروس سجیسٹ کریں ۔۔۔۔”
شہریار کا نام سن کر سویرا رک گئی اور لوری کے ساتھ کیش کاؤنٹر پر آکر شہریار کے دئیے کریڈٹ کارڈ سے بل پے کیا اور پھر مین اینٹرینس کے پاس سجے شوکیس کے پاس آکر کھڑی ہو گئی ابھی ایک گھنٹے میں دس منٹ باقی تھے وہ شہریار کا ویٹ کررہی تھی ۔۔۔
ٹھیک ایک گھنٹے میں اپنی کچھ ضروری فون کالز نبٹا کر وہ شاپ پر پہنچا تو سامنے ہی اس کے انتظار میں کھڑی سویرا پر اسے کسی خوبصورت مجسمے کا گمان ہوا ۔۔۔
خوبصورت رنگوں سے سجی خوشنما آنکھیں ، مسکارے سے بوجھل گھنی پلکیں اس کے گلابی گالوں پر سایہ فگن تھیں لمبے سیاہ بال پشت پر پھیلے ہوئے تھے جن کو نیچے سے ہلکا ہلکا سا کرل کیا ہوا تھا ، ہاتھ میں بیگ پکڑے وہ نظریں جھکائے اس کے انتظار میں کھڑی تھی اس کے چہرے کی دلکشی اتنی زیادہ تھی کہ وہ اسے یک ٹک دیکھے جا رہا تھا میک اپ کے بعد وہ لگ بھی بہت خوبصورت رہی تھی شہریار کی نظریں اب بھی اسی پر تھیں وہ قدم بڑھاتے ہوئے اس کے پاس آیا ۔۔۔
” ریڈی ہو ؟؟ ” وہ اس کے چہرے پر نظریں جما کر بولا
” آپ آگئے ۔۔۔۔” سویرا نے پلکیں اٹھائیں
” اچھی لگ رہی ہو ۔۔۔۔” وہ اس کے بالوں کو چھوتے ہوئے بولا
” وہ میں اسکارف لے رہی تھی پر اس لڑکی نے کہا آپ دیکھ لیں پھر اسکارف لینا ۔۔۔” وہ اٹک اٹک کر بولی کہ کہیں وہ ناراض نا ہو جائے
” اٹس اوکے سوئیٹ ہارٹ !! لڑکی کی خوبصورتی اس کے ہسبنڈ کے لئیے ہی ہوتی ہے میں ساتھ ہوں تو تمہیں خود کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔” وہ آرام سے اس کے ہاتھ سے اسکارف لیکر اس کے ہاتھ میں پکڑے بیگ میں ڈالتے ہوئے نرمی سے بولا
” چلیں ۔۔۔۔” اس نے سویرا سے پوچھا
” جی ۔۔۔۔” اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا
شہریار اسے لیکر شاپ سے باہر نکلا اب اس کا ارادہ اپنے فیورٹ ریسٹورنٹ میں سویرا کے ساتھ ڈنر کرنے کا تھا
” سنو !! کیا تمہیں مسکرانا آتا ہے ۔۔۔” شہریار نے گاڑی ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں پارک کرتے ہوئے اس سے پوچھا جو نظریں جھکائے مسلسل اپنے ہاتھوں کو گود میں رکھے مسل رہی تھی
سویرا نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا شہریار نے بڑے آرام سے اپنا داہنا ہاتھ اسٹیئرنگ وہیل سے ہٹایا اور اس کی گود میں رکھے نازک مرمریں ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیا ۔۔۔
“مسز شہریار !! ایسے سر جھکائے بیٹھی رہوگی تو تمہاری گردن تھک جائے گی تھوڑا ری لیکس کرو ۔۔۔” وہ آرام سے بولا
” ویسے میں نے نوٹ کیا ہے کہ تم مجھے دیکھتے ہی نظریں جھکا لیتی ہو کیا میں تمہیں بہت خوفناک لگتا ہوں ؟؟ ۔۔۔” اس نے سنجیدگی سے سوال کیا
شہریار کی بات پر سویرا نے دھیرے سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا جو بڑی فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا
” نہیں آپ بھوت تو نہیں ہیں ۔۔۔۔” وہ جلدی سے بولی
” مجھے لگتا ہے کہ شاید تم مجھے پسند نہیں کرتی ہو ۔۔۔” اس نے مزید سنجیدگی سے پوچھا اور پھر وہی ہوا جس کا اسے اندیشہ تھا سویرا کی آنکھوں میں بڑی تیزی سے آنسو جمع ہونے شروع ہوگئے ۔۔
“دیر سے سہی پر یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے تمہیں پایا ہے اور اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ میں یہ رشتہ زبردستی نبھا رہا ہوں !! تو مسز شہریار تم غلط سمجھتی ہو ،جو ہوگیا وہ ہوگیا لیکن اب میرے لئیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ تم میری ہو ، میری دسترس میں ہو ۔۔۔ ” اس نے سویرا کے آنسو بڑی توجہ سے اپنی انگلیوں میں سمیٹے
” اگر تم مجھے نہیں سمجھ پائی تو اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے اب جب ہم ساتھ رہیں گے تو تم آہستہ آہستہ مجھے جان جاؤ گی اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ وقت دور نہیں جب تم مجھ سے محبت نہیں ، عشق کرو گی ۔۔۔۔” وہ پریقین لہجے میں بولا
اس کے پریقین لہجے پر سویرا نے اپنے دل کو سنبھالتے ہوئے حیرانی سے اسے دیکھا ۔۔۔وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا تو سویرا کو لگا جیسے اس کا اپنا دل بھی مسکرایا ہے اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکان اتر آئی ۔۔۔
” سویرا !!! ” وہ گھمبیر لہجے میں بولا
اس نے اپنی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا جو آج کسی اور ہی دنیا کا باسی محسوس ہو رہا تھا
” تمہیں پتہ ہے تم مسکراتی ہوئی بہت اچھی لگتی ہو میرا دل چاہتا ہے کہ تم مجھ سے باتیں کرو ضد کرو کچھ اپنی منواؤ تو کچھ میری مانو !! اور سب سے بڑھ کر ۔۔۔” وہ کہتے کہتے اس سمت جھکا
” جب تم مجھے دیکھ کر شرماتی ہو تب میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری شرم و حیا سے بوجھل آنکھوں کو بہت قریب سے دیکھوں ۔۔۔۔”
اس کے بدلے ہوئے اطوار سویرا کے ہاتھ پیر پھلا رہے تھے اس کا ننھا سا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئیگا چہرے کی رنگت سرخ ہو گئی تھی پلکیں لرز کر جھک گئی تھیں۔۔۔
” مسز شہریار !! یار مجھ پر رحم کرو اب تم ایسے شرماؤ گئی تو میں کسی کام کا نہیں رہونگا ۔۔۔۔” وہ اس کے گالوں کو نرمی سے چھوتے ہوئے بولا
” آپ ۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔” وہ گھبرا کر جھجک کر پیچھے ہٹی
” چلو اترو تمہیں اچھا سا ڈنر کرواتے ہیں اس سے پہلے میرا ارادہ بدل جائے ۔۔۔۔” وہ سیدھا ہوتے ہوئے بولا
گاڑی لاک کر کے وہ سویرا کو اپنے ساتھ لئیے اس شاندار سے ریسٹورنٹ میں داخل ہوا ۔ویٹرس نے مسکرا کر اسے اس کی مخصوص میز تک پہنچایا اور مینیو کارڈ ان دونوں کے سامنے رکھا
” کیا کھانا پسند کروگی ؟؟ ” شہریار نے پوچھا
” کچھ بھی ۔۔۔” وہ سادگی سے بولی
” تمہیں کیا پسند ہے ؟ تھائی فوڈ ، چائینیز یا اورئینٹل فوڈ ۔۔؟” شہریار نے پوچھا
” وہ مجھے اس سب کا نہیں پتہ میں تو جو بھی مل جائے کھا لیتی ہوں ۔۔۔” وہ شرمندگی سے بولی
” اٹس اوکے !! ۔۔۔۔” شہریار نے اسے ری لیکس کیا اور ویٹرس کو بلا کر آرڈر پلیس کیا ۔
” ویسے ہماری اس پہلی ڈیٹ پر ایک سیلفی تو ہونی چاہئیے ۔۔۔” اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا
” لڑکی ایک تو تم میری سدھ بدھ بھلا دیتی ہو اب آرام سے بیٹھو میں بس دو منٹ میں کار سے اپنا سیل فون لیکرآتا ہوں۔
کافی دیر سے شہریار کے گھر کے باہر بیٹھی ہوئی تھی رات کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا اب تو ہلکی پھلکی سی بارش بھی شروع ہو گئی تھی
اور وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا تنگ آکر اس نے اپنے فون میں وقت دیکھا پونے ساڑھے نو بج رہے تھے ۔۔۔
” شیری اتنی دیر تک تو کبھی باہر نہیں رہتا ۔۔۔۔” وہ بڑبڑائی صرف ایک ہی شخصیت ایک سی تھی جس سے اسے شہریار کا پتہ چل سکتا تھا
اس نے نا چاہتے ہوئے بھی اسے فون ملایا
” ہیلو اینا ہاؤ آر یو ۔۔۔”وہ زبردستی اپنے لہجے میں بشاشت پیدا کرتی ہوئی بولی
” فائن عروہ میم !! سب ٹھیک تو ہے آپ نے اس وقت کال کی ؟؟ ۔۔۔” اینا نے حیرت سے پوچھا
” شیری نے مجھے بلایا تھا کچھ ڈاکومنٹ سائن کروانے تھے پر وہ گھر پر نہیں ہے کیا تم مجھے بتا سکتی ہو وہ کدھر ملیگا ؟؟ ” اس نے بات بنا کر پوچھا
” میم !! باس تو اس وقت اپنی مسز کے ساتھ ڈیٹ پر گئے ہیں مجھے واقعی کوئی آئیڈیا نہیں وہ دونوں اس وقت کدھر ڈنر کررہے ہونگے ۔۔۔” اینا نے معذرت خواہ انداز میں جواب دیا اور فون رکھ دیا
” ڈیٹ !! ڈنر میرے ساتھ تو کبھی رات کو باہر نہیں گیا ہر وقت ڈیٹ کو برا کہنے والا اس میسنی چڑیل کو لیکر ڈنر پر کیسے چلا گیا ۔۔۔” عروہ کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سویرا کو کچا چبا جائے اس نے اپنا پرس اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ کر پوری رفتار سے گاڑی کا رخ شہر کے سب سے مشہور و معروف شہریار کے فیورٹ ریسٹورنٹ کی طرف کردیا اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ ادھر ہی گیا ہوگا ۔
گاڑی پارک کرکے وہ اتر ہی رہی تھی کہ اسے شہریار اپنی گاڑی کھولتے ہوئے نظر آیا وہ تیر کی تیزی سے اس کی سمت بڑھی ۔۔
شہریار !! سویرا کو اندر چھوڑ کر باہر گاڑی سے فون لینے آیا ابھی اس نے گاڑی کھول کر فون نکالا ہی تھا کہ کورین کمپنی سے کال آنے لگی یہ ایک نئی کمپنی تھی جس سے اس کی ڈیلنگ چل رہی تھی اور اس وقت کوریا میں تو دن کا وقت تھا اس نے کال پک کی اور گاڑی میں بیٹھ کر ہی بات کرنے لگا وہ جلدی جلدی سے بات ختم کرنے کی کوشش کررہا تھا ویسے ہی کافی دیر ہو چکی تھی رات کے دس بج رہے تھے وہ کال ختم کرکے گاڑی سے اترا ہی تھا کہ کوئی تیزی سے آکر اس سے لپٹ گیا ۔۔
” شیری !! شیری تم کہاں تھے میں کب سے پاگلوں کی طرح تمہیں ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔” عروہ نے اپنی بانہیں سختی سے اس کے گرد لپیٹ دیں
” واٹ دا ہیل عروہ !! لیو می ۔۔۔۔” شہریار نے سختی سے اسے بازوں سے پکڑ کر جھٹکتے ہوئے کہا
” شیری پلیز !! ایسا مت کرو !! مجھے خود سے الگ مت کرو دیکھوں تم نے کہا تھا کہ اگر میں سویرا کو تمہاری فرسٹ وائف کی حیثیت سے قبول کر لوں تو تم مجھ سے شادی کر لوگے !! یاد ہے نا تمہیں اپنے الفاظ ۔۔۔”وہ اس کا چہرہ تھامتے ہوئے بولی
******************
سویرا کافی دیر سے شہریار کا انتظار کررہی تھی ڈنر سرو ہو چکا تھا کہیں سب ٹھنڈا نا ہوجائے وہ یہ سوچ کر اٹھی ارادہ باہر جا کر شہریار کو بلانے کا اور ڈنر سرو ہو جانے کے بارے میں بتانے کا تھا وہ اپنا بیگ وہی کرسی پر چھوڑ کر باہر پارکنگ میں آئی ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے کے سامنے سے نظر آتے منظر نے اسے اپنی جگہ فریز سا کر دیا ۔۔۔۔
عروہ اس کی زندگی کی ایک تلخ حقیقت شہریار کے گلے لگی ہوئی تھی دیکھتے ہی دیکھتے اس نے شہریار کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔۔۔
دل نے آج ہی تو مسکرانا سیکھا تھا ،محبت کی ننھی سی کونپل نے آج ہی تو دل کی سرزمین پر اپنے قدم جمائے تھے اور ۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی وہ چپ چاپ پلٹ کر واپس ریسٹورنٹ میں چلی گئی
___________
” عروہ !! اپنی لمٹس میں رہو ۔۔۔” شہریار نے ایک جھٹکے سے عروہ کو خود سے دور کیا
” دیکھو تم ایک اچھی لڑکی ہو لیکن تم میرے نظریات سے ہٹ کر ہو اور یہ بات میں تمہیں بارہا بتا چکا ہوں انفکٹ جب تمہارے ڈیڈ نے مجھے مجبور کیا تھا اس وقت انہیں بھی صاف صاف بتا دیا تھا کہ تم میرے ٹائپ کی نہیں ہو ۔۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
” تم ایک بار کہتے تو !! میں تمہارے ٹائپ کی بن جاتی ۔۔۔” وہ تڑپ کر بولی
” یاد کرو عروہ !! تم مجھے صاف کہہ چکی تھی کہ تم میرے بزنس ٹائیکون بننے تک شادی کے چکر میں آنے والی نہیں ہو اور نا ہی خود کو کبھی بدلو گی !! یاد آیا ؟؟ ” وہ طنز کرتے ہوئے بولا
” وہ میری نادانی تھی شیری !! تم مجھے بس ایک اور موقع تو دے کر دیکھو ۔۔۔۔”
” عروہ !! اللہ نے نکاح کے رشتے میں بڑی طاقت رکھی ہے جسے میں اب سمجھا ہوں !!! میں نے پہلے اپنی بیوی کو دیکھا اور جانا نہیں تھا لیکن اب وہ ایسی لڑکی ہے جس کی ذات میں مجھے شامل ہو کر سکون ملا ہے اس کی فطرت میں بہت لچک ہے وہ بالکل ایسی عورت ہے جیسی مجھے اپنی زندگی میں چاہئیے تھی گھر بنانے والی ۔۔۔۔” وہ پرسکون انداز میں بولا
” شیری !! تم ایک معمولی سی لڑکی کی خاطر مجھے ٹھکرا رہے ہو ؟؟ مجھے اپنی فیانسی کو ” وہ چلائی
” فار یور کائنڈ انفارمیشن وہ لڑکی میری بیوی ہے اور میری بیوی معمولی ہو یا خاص یہ تمہارا کنسرن نہیں ہونا چاہیے !! ناؤ موو !! اس سے زیادہ میں تمہیں نہیں سمجھا سکتا !! میری وائف میرا ویٹ کررہی ہوگی ۔۔۔” وہ اپنے ازلی اکھڑ انداز میں بولتا ہوا لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوا اس کے سامنے آیا
” یہ رنگ !! ” اس نے عروہ کی انگلی میں موجود انگیجمنٹ رنگ کی طرف اشارہ کیا
” یہ میں نے تمہارے ڈیڈ کے اسرار کرنے پر تمہیں دلائی تھی میری طرف سے یہ سو کالڈ زبردستی کی انگیجمنٹ اب ختم سمجھو اور اسے اتار دو ۔۔۔” وہ سرد لہجے میں بولا
” کیوں اتار دو ؟؟ تاکہ تم میری رنگ اپنی اس زبردستی گلے پڑی بیوی کو دے دو جس کی بری نظر ہمیں لگ گئی ہے اونہہ !! مفلس کہیں کی ، زیور کے نام پر چھلا تک پاس نہیں ہے اور میری رنگ پر نظر رکھ کر بیٹھی ہے ۔۔۔۔” وہ زہر خند لہجے میں بولی
” یو شٹ اپ !! ” شہریار نے اپنے اٹھتے ہوئے ہاتھ کو مٹھی بنا کر روکا
” میری وائف کو کسی زیور ، کسی آرٹیفیشل چیز کی ضرورت نہیں ہے اس کا حسن بیمثال ہے ، اس کی خوبصورتی اس کی سادگی ہے جسے تم جیسے عقل سے پیدل نہیں سمجھ سکتے – تم یہ انگوٹھی رکھ سکتی ہو شہریار کی بیوی کو زیور کی کمی نہیں اس کے ایک اشارے پر دنیا کی ہر نعمت اس کے قدموں میں لاکر ڈھیر کرنے کے لیے اس کا شوہر موجود ہے ۔” وہ عروہ کو اپنے اور سویرا کے رشتے کی اہمیت جتا چکا تھا
” تم ایسا نہیں کرسکتے !! میں خود کو مار لونگی ۔۔۔۔” وہ ہذیانی انداز میں چلائی
” تو مر جاؤ !! کافی عرصہ سے سن سن کر پک چکا ہوں اب جب فائنلی مر جاؤ تو اطلاع بھجوا دینا ۔۔۔” وہ سرد مہری سے بولا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے اندر ریسٹورنٹ میں داخل ہو گیا ۔۔۔
*****************
ٹیکسی شہریار کے گھر کے پاس پہنچ چکی تھی سلیم صاحب نے گاڑی رکوائی ۔ ڈرائیور نے بڑے ادب سے نیچے اتر کر ڈگی سے ان کا سامان نکال کر باہر رکھا اور اپنا بل لیکر ادھر سے نکل گیا
” سنئیے مجھے تو لگتا ہے کہ گھر پر کوئی نہیں ہے ۔” زیبا بیگم چاروں طرف چھائے سناٹے سے گھبرا گئی تھیں
” بیگم آپ آگے چلیں دروازے کی بیل بجائیں میں جب تک یہ سامان لاتا ہوں ۔۔۔” سلیم صاحب نے سامان کی طرف اشارہ کیا
” میاں تم یہ سامان کیوں ڈھو گئے ؟ یہ شیرو اتنا بڑا بزنس مین بنا پھرتا ہے اس کا چوکیدار کدھر ہے ؟ اسے بلاؤ کے آکر مالک کا سامان اٹھائے ۔۔” فرزانہ نے انہیں ٹوکا
” آپا آپ بھی !! یہ ولایت ہے ادھر نوکر چاکر نہیں ہوتے آپ کو اپنا سارا کام خود کرنا ہوتا ہے اور چوکیداری کیلئیے ادھر پولیس ہوتی ہے یا باڈی گارڈ وہ بھی اگر آپ پر کوئی حملہ وغیرہ ہو ۔۔۔۔” سلیم صاحب نے انہیں رسان سے سمجھایا
” ہائے کیسا ملک ہے یہ ۔۔۔” فرزانہ نے ناک پر ہاتھ رکھا
” بس آپا ہر جگہ پاکستان جیسے ٹھاٹ نہیں ہوتے ۔۔۔” سلیم صاحب نے سوٹ کیس اٹھایا
” بس میاں رہنے دو !! ذرا اپنی صحت تو دیکھو دل کے مریض ہو اور وزن اٹھانے کی بات کرتے ہو !! اوپر جاؤ اور شیرو کو بلا کر لاؤ کہ سامان اٹھائے میں ادھر ہی رک کر سامان کی حفاظت کرتی ہوں ۔۔۔۔” وہ انہیں ٹوکتے ہوئے بولیں
“ٹھیک ہے آپا آپ رکیں میں شیرو کو بلاتا ہوں ۔۔۔” وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے
” کیا ہوا بیگم ۔۔۔۔” اوپر پہنچ کر انہوں نے پریشان کھڑی زاہدہ سے پوچھا
” کب سے بیل بجا رہی ہوں لگتا ہے یہ لوگ گھر پر نہیں ہیں یا پھر ہم غلط پتے پر آگئے ہیں ۔۔۔”
” رکو میں دیکھتا ہوں ۔۔۔” وہ اپنی جیب سے ڈائری نکالتے ہوئے بولے
” جلدی کریں ادھر آپا انتظار کر رہی ہونگی ۔
” صبر کرو کچھ نہیں ہوتا آپا کو ۔۔۔” وہ نظر کا چشمہ پہنتے ہوئے بولے
” ایڈرس تو یہ ہی ہے ۔۔۔” انہوں نے محراب کے اوپر لکھے ایڈرس کو اپنی ڈائری سے میچ کیا اور پھر آگے بڑھ کر خود پہلے کئی بار بیل بجائی پھر دروازہ کھٹکھٹانے لگے کافی دیر تک وہ دروازہ بجاتے رہے
” سلیم صاحب لگتا ہے یہ سرپرائز مہنگا پڑگیا ہے وہ دونوں گھر پر نہیں ہیں ۔۔۔” زاہدہ بیگم نے دیوار سے ٹیک لگائی
” کوئی بات نہیں میں اسے فون کرتا ہوں ۔۔۔” انہوں نے اپنی جیب سے سیل فون نکالا
” شکر ہے میں نے اس پر انٹرنیشنل رومنگ لگوا لی تھی ۔۔۔” وہ فون آن کرتے ہوئے بولے
*****************
ڈاکٹر اینڈریو بہت سلجھے ہوئی طبعیت کا مالک تھا دو شادیاں کرچکا تھا اور دونوں ہی ناکام رہی تھیں اسی لئیے اس کا مغرب کی عورت سے اعتماد اٹھ چکا تھا وہ اپنے ماحول کی عورتوں کی آزادی ، بے باک اداؤں سے اوبھ چکا تھا اسے عورت میں ذات سے نفرت ہوچکی تھی انہیں دنوں جب وہ چھٹیوں پر تھا اس نے سویرا کو دیکھا سیدھی سادھی سی لڑکی جس کے چہرے کی معصومیت نے اسے اپنی طرف کھینچا تھا اس لڑکی سے بات کرکے اسے اندازہ ہوا کہ دنیا میں اچھی لڑکیاں ابھی بھی باقی ہیں اس نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ اب وہ ایک وفا شعار مشرقی لڑکی کے ساتھ ہی اپنی زندگی گزارے گا وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ اس نے شہریار کو سویرا کے ساتھ دیکھا وہ اس انگلینڈ کے مشہور ماڈل بزنس مین کی بیوی تھی جو موسٹ وانٹڈ بیچلر کے طور پر مشہور تھا یعنی وہ معصوم لڑکی ایک ان چاہے رشتے کو نبھا رہی تھی پھر کچھ دن بعد اس نے سویرا کو یونیورسٹی میں دیکھا تو خود کو روک نہیں سکا پر وہ مشرق کی بیٹی اپنے شوہر کی وفادار تھی وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے قدم پیچھے ہٹانے کا سوچ رہا تھا جب اس لڑکی نے اس سے خود رابطہ کیا اس سے باتیں کی ، راتوں کو دیر تلک اس کا دل بہکایا اور اب جب وہ اسے پانے کیلئے بے قرار ہوگیا تو اپنے شوہر کی پناہوں میں جا کر چھپ گئی تھی ۔اور اب اس کا فون بھی نہیں اٹھا رہی تھی اس کے میسجز بھی اگنور کررہی تھی
“نہیں سویرا میں اتنی آسانی سے تم سے دستبردار نہیں ہونگا تمہیں میرا دل توڑنے کی سزا ضرور ملے گی ۔۔۔” وہ سرخ آنکھوں میں غصہ لئیے غرایا
اس نے ایک بار پھر میسنجر پر سویرا سے کانٹیکٹ کرنا چاہا مگر کوئی رسپانس نہیں ملا وہ اٹھا اب آر یا پار کرنے کا وقت آگیا تھا اس کا رخ شہریار سویرا کے گھر کی طرف تھا ۔گھر کے پاس پہنچ کر اس نے گاڑی روکی اور نیچے اترا سامنے ہی ایک پچاس پچپن سال کی خاتون تین سوٹ کیسوں کے ساتھ چوکس ڈرائیو وے میں کھڑی ہوئیں تھیں وہ حیرانگی سے انہیں دیکھتا ہوا ڈرائیو وے میں آیا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھا
” اے کون ہو تم !! ایسے کیسے منھ اٹھا کر گھسے چلے آرہے ہوں ؟؟ رکو اسٹاپ ۔۔۔۔” فرازنہ اس کے سامنے آکر اردو میں بولیں
وہ خاتون جو بھی بول رہی تھیں وہ اس کے سر پر سے گزر گیا تھا مگر وہ اسٹاپ سن کر رک گیا
” میں ادھر سویرا سے ملنے آیا ہوں ۔۔۔” وہ ٹہرے ہوئے لہجہ میں بولا
” سویرا !! ” فرازنہ نے اسے گھورا
” آر یو آ مدر آف سویرا ؟؟ ” اس نے ان کے سویرا کے نام پر بری طرح چوکنے پر سوال کیا
فرازنہ کی سمجھ میں مدر اور سویرا آگیا تھا انہوں تیزی سے گالوں پر ہاتھ رکھ کر توبہ کی
” اللہ نا کرے میں اس منحوس کی مدر بنو ۔۔۔”
اینڈریو نے غور سے اس خاتون کو دیکھا جو سویرا کے نام پر پرجوش ہو کر شاید خوشی سے اپنے ہی گال ہیٹ رہی تھیں
” مدر ۔۔۔ائی ایم ہر بوائے فرینڈ ۔۔۔ ” اینڈریو نے ان کو اعتماد میں لینا چاہا
” بوائے فرینڈ !!! ” فرازنہ کی تو آنکھیں پھٹ پڑیں انہوں نے بغور اس ہینڈسم گورے کو دیکھا
” یہ کیا بک رہا ہے تو ؟؟ کیا تو واقعی اس کلموہی کا بوائے فرینڈ ہے ۔۔۔۔” انہوں نے اینڈریو کا گریبان پکڑا
اینڈریو کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں وہ ان کی تیز آواز اور گرفت سے گھبرا گیا تھا
” ریلیکس مدر !! ” اس نے اپنا گریبان چھڑوایا
” ارے کمبخت کیسا ری لیکس وہ منحوس ماری تیرے جیسے کافر کے ساتھ مل کر خاندان کی عزت خاک میں ملا رہی ہے اور میں یہ موا ری لیکس کروں ۔۔۔” فرزانہ نے اسے گھورا
” او گاڈ یو آر ٹو مچ ۔۔۔۔” اینڈریو نے اس وقت ادھر سے جانا ہی مناسب سمجھا
******************
وہ واپس اندر آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی شہریار ابھی تک واپس نہیں آیا تھا وہ اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے اس کا صبر سے انتظار کررہی تھی اس کی نگاہوں میں بار بار عروہ کا چہرہ آرہا تھا کس طرح وہ شہریار سے لپٹی ہوئی تھی ایک عجیب سے احساس نے سویرا کو جکڑ لیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں بھاگ جائے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔ پہلے شہریار کا رویہ اس کی عروہ سے دوستی اسے اتنا دکھ نہیں دیتے تھے کہ شہریار نے اسے تسلیم ہی نہیں کیا تھا لیکن اب جب وہ اس کے دل و جان میں اتر چکا تھا اسے اپنا بنا چکا تھا تو یہ منظر برداشت نہیں ہورہا تھا اسے اپنے اندر کے موسموں کی خبر ہو چکی تھی یہ احساس ہوچکا تھا کہ وہ جو اس کے نام کے ساتھ جوان ہوئی تھی اس کے دل کے نہاں خانوں میں تو وہ کب سے بسا ہوا تھا اور آج تو اس نے سوچا تھا کہ وہ اسے اپنے بدلتے احساسات کا بتائے گی ڈاکٹر اینڈریو کا بتائے گی کہ وہ اس کا محافظ تھا اور اب تو وہ بھی اسے بھرپور توجہ بھی دے رہا تھا شاید اسے چاہنے بھی لگا تھا لیکن !!!!
ان دونوں کے درمیان میں موجود عروہ نام کا کانٹا !! اس کے دل میں آج دوبارہ گڑ گیا تھا ۔۔
” شاید میں ہی غلط فہمی کا شکار ہو رہی ہوں بھلا کہا میں اور کہاں وہ گڑیا جیسی عروہ جی !! میں ہی ان کے بیچ میں آگئی ہوں ۔ وہ بس مجھ سے رشتہ نبھا رہے ہیں ۔۔” اس کی آنکھیں بھر آئیں
وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا ذہن میں سویرا کا چاندنی جیسا روپ دمک رہا تھا وہ سوچ چکا تھا کہ کل صبح ہی وہ آفس سے آف لیکر سویرا کو شاپنگ پر لیکر جائیگا وہ مسز شہریار ہے اور اسے مسز شہریار نظر بھی آنا چاہئیے سب سے الگ سب سے منفرد ۔وہ میز کی طرف آیا جہاں سویرا دنیا جہاں سے بے خبر سر جھکائے بیٹھی تھی میز پر ڈنر سرو ہوچکا تھا اس نے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بہت آہستگی سے سویرا کا مرمریں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔
” سویرا !!! ” اس نے دھیمے لہجے میں اسے پکارا
” آپ آگئے ۔۔۔۔” سویرا کے ہونٹوں نے بے آواز جنبش کی
” کیا ہوا ہے ؟؟ تمہاری آنکھیں نم کیوں ہیں ۔۔۔۔” اس نے پریشانی سے اس کی بھیگی آنکھوں کو چھوا
” کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔۔۔” وہ نرمی سے اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے بولی
میرون سوٹ میں سینے پر دوپٹہ پھیلائے اس کی رنگت دمک رہی تھی کھلے گھنے بال ساری پشت پر بکھرے ہوئے تھے آنکھیں نم تھی اور گلابی گالوں پر لرزتی پلکوں کا رقص ۔۔اس نے آگے ہو کر اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دیے
” آپ ۔۔۔۔” سویرا پبلک پلیس پر اس کی اس حرکت پر گھبرا گئی
” مجھے تمہاری آنکھوں میں نمی پسند نہیں ہے اس بات کا خیال رکھا کرو ۔۔۔” وہ دور ہوتے ہوئے بولا
” چلو مسز شہریار !! اب کھانا شروع کرو ۔۔۔” وہ پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا
” سنئیے !! ” سویرا نے ہمت کرکے اسے پکارا
” جی مسز شہریار !! سنائیے ۔۔۔” وہ پوری توجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوا
” مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کو !! آپ کو نا چاہتے ہوئے بھی مجھ سے رشتہ جوڑنا پڑا ۔مم مجھے مجھے پتہ ہے آپ !! میں آپ کے اور عروہ جی کے بیچ میں آگئی ہوں ۔۔۔” سویرا کی آواز بھرا گئی
” آپ پلیز مجھے چھوڑ دیں اور اپنی من پسند زندگی عروہ جی کے ساتھ شروع کریں آپ عروہ جی سے شادی کر لیں ۔۔۔” وہ آنکھیں میچے جلدی سے اپنی بات کہہ گئی
شہریار نے غصہ سے اسے دیکھا جو اپنی بے اعتباری اسے جتا چکی تھی اس سے پہلے وہ اس کی طبیعت صاف کرتا اس کا فون بج اٹھا ۔۔
بابا سائیں !! کا نام دیکھ کر اس نے سرد نگاہوں سے سویرا کو دیکھتے ہوئے فون اٹھایا
” اسلام علیکم بابا سائیں ۔۔۔”
” وعلیکم السلام !! شاہو بیٹا تم کدھر ہو ؟؟ ”
” میں !!لندن میں ہوں بابا سائیں خیریت ۔۔۔” وہ الجھا
” وہ تو مجھے پتہ ہے تم لندن میں ہو مگر بیٹا جی اس وقت کدھر ہو ؟؟ میں کب سے تمہارے گھر کی گھنٹی بجا رہا ہوں ۔۔۔۔” انہوں نے کہا
” آپ لندن میں ہیں ؟؟ ” وہ تیزی سے کرسی کھسکاتے ہوئے کھڑا ہوا سویرا نے بھی چونک کر اسے دیکھا
” بابا سائیں !!آپ بس بیس منٹ ویٹ کریں میں آرہا ہوں ۔۔۔” اس نے فون بند کرکے اپنا والٹ نکالا اور پیسے ٹیبل پر رکھ کر سویرا کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے باہر نکل گیا
*******************
وہ لب بھینچے خاموشی سے تیز رفتاری سے گاڑی دوڑا رہا تھا سویرا کن اکھیوں سے اس کے پتھریلے چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” کیا تایا ابو آئے ہیں ۔۔۔۔” اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا پر شہریار اسے اگنور کئیے اپنی توجہ سامنے رکھے ہوئے تھا
” سنئیے !! ” اس نے ہمت کرکے پھر پکارا
شہریار نے گردن موڑ کر اسے خشک نظروں سے دیکھا
” آئی ایم سوری ۔۔۔”
” تو پھر !! میں کیا کروں ؟؟ ” اس نے تلخی سے پوچھا
” سنو لڑکی !! اس بے اعتباری پر میں تمہیں اتنی آسانی سے معاف نہیں کرونگا ۔اب میرا دماغ مزید خراب مت کرو ۔۔” وہ غرایا
سویرا نے حیرت سے اس کے غصیلے روپ کو دیکھا وہ تو اپنی دانست میں اسے اس کی زندگی جینے کا موقع دے رہی تھی اور وہ بجائے احسان مند ہونے کے الٹا اس پر ہی برس رہا تھا ۔۔