وہ شہریار کی توجہ سے ، اس کی نظروں سے گھبرا گئی تھی اور بھاگ کر اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر سر پکڑے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔
” آپ کیوں میری زندگی میں اپنی ہمدردی کی بھیک ڈال رہے ہیں !! میں بھلا کہاں آپ کی ہمدردی اور توجہ کے قابل ہوں ، مت کریں پلیز ایسا مت کریں آپ خود تو عروہ کے سنگ زندگی گزارنا شروع کردینگے اور میں !!! اگر مجھے آپ کی توجہ کی عادت ہو گئی تو ؟؟ میں تو مر جاؤ گی ۔۔۔۔” وہ من ہی من میں شہریار سے مخاطب تھی تبھی اسے کھنکھارنے کی آواز سنائی دی اس نے چونک کر سر اٹھایا تو شہریار کمرے کے دروازے پر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اس نے آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ بند کیا اور اس کی طرف قدم بڑھائے ۔۔۔
_______________________
سویرا کے کمرے کے دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھ کر وہ دروازے کو کھولتے ہوئے اندر داخل ہوا سامنے ہی بیڈ پر فیروزی سادے سے قمیض شلوار میں ملبوس دھلاے دھلائے صاف چہرے پر افسردگی لئیے وہ اس کی نظروں کے سامنے تھی وہ آج پہلی بار اسے مخصوص مردانہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا سویرا کا بے داغ حسن اور دلکش سراپہ اسے باور کروا رہا تھا کہ سامنے موجود لڑکی کسی کو بھی اپنی طرف مائل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے وہ آج اسے بچی نہیں لگ رہی تھی وہ ہلکے سے کھنکھارتا ہوا اندر داخل ہوا
اس نے کمرے میں آکر دروازہ بند کیا ہی تھا کہ سویرا اسے دیکھ کر اپنی جگہ سے گھبرا کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔
” آپ !! کوئی کام تھا کیا ؟؟ ” وہ ہاتھ مسلتے ہوئے بولی
شہریار اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا سر سے سرکتے ہوئے آنچل نے اس کی نازک پشت پر لہراتی گھنی سیاہ چوٹی کو واضح کردیا تھا وہ اسے چھو کر دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔
سویرا اس کی نگاہوں کے ارتکاز سے گھبرا چکی تھی اس کے سینے میں موجود دل بہت زور سے دھڑک اٹھا تھا چہرہ خوف سے سرخ پڑ گیا تھا
وہ مضبوطی سے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پاس آیا جو اسے اپنے قریب دیکھ کر سر جھکا گئی تھی اس نے ایک بھرپور نظر اس کے لرزتے سراپے پر ڈالی اور دھیرے سے اس کے چہرے پر بکھری لٹوں کو ہاتھ سے سمیٹ کر اس کے کان کے پیچھے اڑسا ۔۔۔
سویرا اس کے ہاتھ کے لمس سے لرز اٹھی
آااااااپ پلیز مجھے مت ماریں میں آئندہ کبھی بھی ایسا نہیں کہونگی ؟؟؟ ” وہ گھبرا گئی آنکھوں میں نمی امنڈ آئی تھی
” کیا نہیں کہو گئی ۔۔۔۔” اس نے دلچسپی سے پوچھا
” یہی کہ آپ کی وجہ سے سب ۔۔۔۔۔” وہ بولتے بولتے شہریار کی خود پر جمی پرشوق نگاہیں دیکھ کر چپ ہو گئی پلکیں جھکا کر دم سادھ گئی تھی
گھنی لرزتی پلکوں کا رقص اس کے سرخ و سفید چہرے کو ایک ملکوتی سا روپ دے رہا تھا وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے نم پلکوں کو اپنی پوروں سے چھوتے ہوئے اسے اپنی گرفت میں لے چکا تھا ۔۔۔
” پلیز ۔۔۔۔۔۔” وہ اس کی قربت میں تڑپ اٹھی آنکھوں سے آنسوؤں کی لکیریں نکلنے لگی تھیں
شہریار جو اس کے نرم و نازک وجود کو محسوس کررہا تھا اس کی بھرائی ہوئی آواز سن کر چونک کر پیچھے ہٹا اور اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو بغور دیکھتے ہوئے اسے نرمی سے خود سے علیحدہ کرتے ہوئے بڑے بڑے قدم اٹھاتا باہر نکل گیا ۔۔۔
وہ اسے ایک چانس دے چکا تھا اور اس کا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا وہ واقعی بچی ہی ہے اس۔ رشتے کے تقاضوں سے نابلد جو اس کے چھونے سے لرز جائے نگاہوں سے ڈر جائے وہ اس ساتھ کیسے قدم سے قدم ملا کر چل سکتی تھی ؟؟
” سوری شاہ بی بی !! میں نے آج اسے ایک چانس دیا تھا پر شاید ہم ایک دوسرے کےلئے نہیں ہیں ۔۔۔۔” وہ خود کلامی کرتا ہوا سونے کے لئیے لیٹ گیا تھا
*******************
وہ آفس میں کام میں مصروف تھا جب اس کے فون پر بابا سائیں کی کال آئی 0
” شہریار !! یہ کیا بیہودگی ہے ، تم اتنے بیوقوف کیسے ہو سکتے ہو ؟؟ ایک غیر لڑکی کو ہمارے خون پر ترجیح کیسے دے سکتے ہو ؟؟” اس کے فون اٹھاتے ہی بابا سائیں اس پر برس پڑے
” بابا سائیں ہوا کیا ہے ؟؟ ” وہ پریشانی سے پوچھ رہا تھا
” اپنا واٹس ایپ چیک کرو !! کسی دن تمہاری ایسی واہیات حرکتوں سے میرا ہارٹ فیل ہوجانا ہے غضب خدا کا اب تم لڑکیاں بھی لانے لگے ہو ۔۔۔” وہ غصہ سے بول رہے تھے اور شہریار اپنی اور عروہ کی مال والی تصاویر دیکھ کر حیران رہ گیا تھا
” بابا سائیں آپ غلط سمجھ رہے ہیں میری بات تو سنیں
” دیکھو شیرو !!! کہہ دو یہ خبر جھوٹی ہے مجھے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سنا ۔۔۔۔” وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولے
” ویسے بھی تم اپنی شاہ بی بی سے ایک سال تک اپنے اور سویرا کے رشتے کو نبھانے کا وعدہ کر کے گئے تھے پھر یہ سب ۔۔۔۔” وہ پریشان تھے
” سوری بابا سائیں !! آپ بیفکر رہیں ایک سال تک میں اپنی زندگی میں کسی کو بھی شامل نہیں کرنے والا ۔۔۔۔۔”
” شیرو میں تمہاری ماں اور پھپھو جلد آرہے ہیں میں اپنی آنکھوں سے تمہیں اور سویرا کو ایک ساتھ زندگی گزارتے دیکھنا چاہتا ہوں میرا دل مطمئن نہیں ہو رہا ہے میں اپنی نظروں سے تمہیں یہ رشتہ نبھاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولتے ہوئے فون بند کرگئے تھے
شہریار خود بہت حیران تھا کہ پاکستان تک اس کی اور عروہ کی تصاویر اور خبریں کیسے پہنچی؟؟
دفعتاً اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں ۔۔۔
” سویرا یہ تم نے اچھا نہیں کیا ۔۔۔۔” وہ لب بھینچتے ہوئے غرایا
اب جو بھی تھا وہ کسی بھی صورت اپنی اور عروہ کی منگنی کی خبر میڈیا تک نہیں پہنچنے دینا چاہتا تھا نا ہی پاکستان تک کچھ دیر تک سوچنے کے بعد اس نے اینا کو انٹر کام پر اندر آنے کی ہدایت کی ۔۔
” یس سر !!!” اینا کاپی پین لے کر اندر آئی
” اینا تمہیں انگیجمنٹ پارٹی آرگنائز کرنی ہے شہر سے دور میرے فارم ہاؤس میں اسی فرائیڈے کو !!
” اوکے سر ، آپ مجھے گیسٹ لسٹ دے دیجئیے اور لڑکا لڑکی کے نام بتا دیں میں سب ارینج کر لونگی ۔۔۔” وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی
گیسٹ لسٹ مس عروہ بنا چکی ہیں ان سے لے لیں لیکن خیال رہے یہ ایک سیکرٹ سیرمنی ہوگی اس میں میڈیا کا ایک بھی بندہ شامل نہیں ہونا چاہئیے اور نا ہی اس منگنی کی خبر آؤٹ ہونی چاہئیے انڈر اسٹینڈ !! ” وہ سختی سے بولا
” اوکے سر ۔۔۔۔” اینا نے سر ہلایا
” ون مور تھنگ !! اس لڑکی سویرا کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ اچھا ہے تھوڑا کام کریگی تو بزی رہیگی ۔۔۔۔” وہ اسے روکتے ہوئے بولا
” سر انگیجمنٹ کس کی ہے آپ نام تو بتا دیں کیک پر لکھوانے ہونگے ۔۔۔۔”اینا نے سوال کیا
” عروہ اور میری انگیجمنٹ ہے اور ہاں ایک رنگ بھی ارینج کرنی ہے ۔۔۔
” سر آپ اور عروہ میم ۔۔۔۔۔” اینا شاکڈ ہو گئی
” اینی پرابلم ؟؟ ” شہریار نے اینا کو گھورا
” نو نو سر !! ” وہ بوکھلا تے ہوئے بولی
” اوکے پھر جاؤ اپنا کام کرو اور آج ہی سویرا کو لیکر فارم ہاؤس شفٹ ہو جاؤ ۔۔
” سر کیا میں اپنے بوائے فرینڈ کو ہیلپ کیلیئے ساتھ لے جا سکتی ہوں ؟ ” اینا نے جھجھکتے ہوئے پوچھا
” شیور !! ناو یو مے گو ۔۔۔۔” اس نے اینا کو باہر کا راستہ دکھایا
اینا نے باہر اپنی ٹیبل پر آکر جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا اور کانوں پر فون لگاتی ہوئی باہر نکل گئی
” ہیلو بریڈلی !! وہ سویرا کے ہسںنڈ میرے باس اپنی گرل فرینڈ سے انگیجمنٹ کررہے ہیں ۔۔۔” وہ افسوس سے اسے بتا رہی تھی
کچھ دیر بریڈلی سے بات کرنے کے بعد اب اس کا رخ شہریار کے گھر کی طرف تھا ۔۔۔
*******************
شہریار کی قربت پھر اچانک اسے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل جانا یہ سب سویرا کی سمجھ سے باہر تھا شہریار کے جانے کے بعد وہ کافی دیر تک خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتی رہی رات بھر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ شہریار کا سامنا کرنے سے گھبرا رہی تھی اسی لئیے صبح پانچ بجے ہی وہ شہریار کا ناشتہ جوس اخبار سب میز پر تیار کرکے اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی شہریار کو سوچتے سوچتے کب اس کی آنکھ لگی اسے پتا ہی نہیں چلا
باہر سے وقفے وقفے سے بجتی اطلاعی گھنٹی سے اس کی نیند میں خلل پڑا وہ اٹھ کر مین دروازے پر آئی کی ہول سے باہر دیکھا تو اینا کھڑی تھی
” ہیلو اینا ۔۔۔۔” وہ دروازہ کھولتے ہوئے خوشدلی سے مسکرائی
” تم ٹھیک ہو ؟؟” اینا نے اندر داخل ہو کر بغور اس کی سوجی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا
” میں ٹھیک ہوں پر تم مجھے ایسے کیوں گھور رہی ہو ؟؟؟ ” سویرا اس کی نظروں کے ارتکاز سے الجھ گئی
” آر یو میڈ ؟؟ سویرا تمہارا ہسبنڈ ایک دوسری لڑکی سے منگنی کررہا ہے اور تم ٹھیک ہو ؟؟ “اینا نے اسے لتاڑا
” میرا ہسبنڈ !!! تمہیں کس نے بتایا ۔۔۔” سویرا نے خائف ہو کر پوچھا
“میں نے اس دن کیفے میں خود سر کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ تم ان کی وائف ہو اور میں تو انتظار کر رہی تھی کہ تم خود مجھے کب بتاؤ گئی اور ادھر باس اس چڑیل عروہ سے منگنی کرنے جا رہے ہیں اور بے حسی تو دیکھو کہتے ہیں سویرا کو ساتھ لے جا کر انتظامات کرو ۔۔۔” اینا پھٹ پڑی
” اینا پلیز ناراض مت ہو !! میں تیار ہو کر آتی ہوں پھر راستے میں تمہیں سب سچ سچ بتا دونگی ۔۔۔۔” وہ رسان سے اینا کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی
” اوکے جاؤ ریڈی ہو کر آؤ اور اپنے تین چار جوڑے بھی رکھ لینا ہمیں فارم ہاؤس میں رہنا پڑیگا ۔۔۔” اینا نے اپنے غصہ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔۔
سویرا سر ہلاتے ہوئے اندر بڑھی اپنے کمرے میں آکر اس نے ایک گہری سانس لیکر اپنے رکے ہوئے آنسوؤں کو بہنے دیا۔۔۔۔یہ تو ہونا ہی تھا لیکن دل پتا نہیں کیوں بغاوت کرنے پر تلا ہوا تھا
چلو میں یہ فرض کرتی ہوں
کہ میری تم سے عداوت تھی
کہ مجھے تم سے شکایت تھی
کہ مجھے تم سے رقابت تھی
چلو میں یہ فرض کرتی ہوں
کہ تم کو بھول جاتی ہوں
تم سے جڑے رشتے کو
چلو آج توڑ دیتی ہوں
تمھاری خوشیوں کی خاطر
میری ذات سے آذاد کرتی ہوں
مگر ایک بات ہے جاناں
اس مقدس رشتےکہ
اس پاک بندھن میں
میں صرف اتنا کہتی ہوں
کہ یہ میرا حال دل ہے جو
کہ تیرے ساتھ کی ضرورت ہے
کہ مجھے تم سے محبت ہے
کہ بس اب تیری چاہت ہے
مکمل کربھی دو اب تو
امر کردو ان لمحوں کو
کہ اب اگر اور تڑپاؤ گے
تو ہم جان سے جائیں گے
کہ تیری الفت میں اے جاناں
ختم ہوجائیگی میری ہستی
ختم ہوجائیگی میری ہستی
(شزا خان)
#######################
اپنے آنسوؤں کو صاف کرتی ہوئی وہ چلتی ہوئی کیبنٹ تک آئی اور اپنے دو جوڑے بیگ میں ڈال کر سامنے پڑے شاپنگ بیگ کو دیکھنے لگی یہ وہ لباس تھا جو اس کے سر کے سائیں نے اپنی دوسری عورت سے منگنی پر پہننے کیلئے دلایا تھا اس نے وہ بیگ ہاتھ میں لیا اور کمرے سے باہر نکل گئیل
______________
اینا سویرا کو لیکر روانہ ہو گئی تھی کچھ دور پہنچ کر اس نے گاڑی روک دی
” کیا ہوا اینا فارم ہاؤس اتنی جلدی آگیا ۔۔۔” سویرا نے حیرانگی سے پوچھا
” نہیں سوئیٹی !! یہ فارم ہاؤس نہیں بلکہ تمہاری اسٹریٹ کا پچھلا حصہ ہے ۔۔۔۔” اینا نے بے فکری سے گم چباتے ہوئے کہا
” تو ہم ادھر کیا کررہے ہیں ؟؟ ”
” ہم کسی کا انتظار کر رہے ہیں بس ایک دو منٹ میں آتا ہی ہوگا ۔۔۔” وہ سکون سے کار بند کرتے ہوئے پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی
کچھ ہی دیر میں چہرے پر سنجیدگی لئیے بریڈلی نے گاڑی کی کھڑکی پر ناک کیا ۔سویرا اور اینا دونوں نے ایک ساتھ اسے دیکھا اور اینا نے جلدی سے گاڑی کا لاک کھولا
” اینا یہ یہ تو بریڈلی ہے ۔۔۔۔” سویرا اسے دیکھ کر حیران رہ گئی
” ہاں تو میں نے کب کہاں کوئی اور ہے اور فکر مت کرو اپنے کھڑوس باس کی پرمیشن سے اسے ساتھ لیا ہے ۔۔۔” اینا نے اسے گھورا
” ہیلو بریڈلی !! کیسے ہو ۔۔۔۔” سویرا نے گردن موڑ کر پیچھے بیٹھتے ہوئے بریڈلی کو مخاطب کیا
” تم سویرا کی بچی !! تم تو مجھ سے بات ہی مت کرو میرا دماغ گھوما ہوا ہے کہیں تمہیں ہی شوٹ نا کردوں ۔۔۔۔۔” وہ اسے غصہ سے دیکھتے ہوئے بولا
” میں نے کیا کیا ہے ؟؟؟ ” سویرا نے حیرت سے پوچھا
” تم نے اپنے اس خبیث ہسبنڈ کو شوٹ نہیں کیا !! اس لئیے میں تم سے ناراض ہوں ۔۔۔” وہ تپ اٹھا اس کی معصومیت پر
” پلیز الفاظ سوچ کر استمال کرو ۔۔۔” سویرا کو اس کا شہریار کو خبیث کہنا بالکل بھی اچھا نہیں لگا
” اینا اس بندریا کو چپ کراؤ ورنہ میں نے ایکشن لیا تو شکایت مت کرنا ۔۔۔”
” سیز فائر گائز !! آپس میں مت لڑو ۔۔۔۔” اینا نے ان دونوں کو ٹوکتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی
” اینا تم نے اسے ان کے بارے میں کیوں بتایا ۔۔۔” سویرا خفگی منھ پھلا کر بولی
” ہیلو مس ڈرپوک !! مجھے اینا نے نہیں بتایا بلکہ اس دن کیفے میں وہ تمہارا کھڑوس بدماغ ہسبنڈ چیخ کر خود اعلان کررہا تھا کہ تم اس کی بیوی ہو ۔۔۔۔” بریڈلی نے کہا
” سویرا !! تم اگر مجھے اپنی بہن اور اس بھوت کو اپنا دوست سمجھتی ہوں تو فوراً شروع ہو جاؤ !!! شروع سے اب تک کی اپنی اور باس کی اسٹوری بتاؤ ، یہ بتاؤ کہ تمہاری جیسی بیوٹی فل وائف کے ہوتے ہوئے وہ دوسری شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟ شاباش شروع ہو جاؤ ۔۔۔۔” اینا نے ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا
سویرا نے ایک نظر اپنے لئیے پریشان بریڈلی اور اینا پر ڈالی خدا نے اگر اس سے اس کے بابا چھین لئیے تھے تو آج اتنے اچھے مخلص دوست بھی دئیے تھے وہ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے دھیمی آواز میں اپنے بابا کی بیماری شہریار سے نکاح سب ایک ایک کرکے بتاتی چلی گئی ۔۔۔
” وہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں میں ہی ان کے قابل نہیں ہوں انفیکٹ میں ان کے اوپر زبردستی مسلط کی گئی ہوں ۔۔۔۔” وہ اپنی آنکھوں سے بہتے بےآواز آنسوؤں کو انگلی کی پوروں سے صاف کرتے ہوئے بولی
گاڑی میں سناٹا سا چھا گیا تھا اینا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے
” واؤ مجھے یقین نہیں آرہا آج کے دور میں بھی یہ سب ہوتا ہے !! اور غلطی نا تو تمہاری ہے نا شہریار کی لیکن بھگت تم دونوں رہے ہو ۔۔۔” بریڈلی کی آواز گونجی
” اینا آج کا دن سویرا کے نام تم گاڑی کا رخ شہر کے سب سے اچھے سپا SPA کی طرف لو ۔۔۔۔” بریڈلی نے اچانک سے پلان بدلا
” بریڈلی باس مجھے گولی سے اڑا دینگے ٹھیک دو دن بعد انگیجمنٹ ہے ساری تیاری مجھے ہی کرنی ہے ۔۔۔۔” اینا نے سمجھایا
” او کم آن اینا کسی ایونٹ آرگنائزر کو ابھی فون پر ہائر کرو اور سمجھا دو ہم بھی رات تک ادھر پہنچ جائیں گے ۔۔۔” بریڈلی نے بے فکری سے کہا
” یہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو پلیز مجھے کہیں نہیں جانا اور میں نے ان سے پرمیشن بھی نہیں لی ہے ۔۔۔۔” سویرا پریشان ہو گئی
” مادام سویرا !! اب تمہاری زندگی کا انچارج میں ہوں اور اب سے تم ایک آزاد ملک میں آزاد زندگی جیو گئی ٹو ہیل ود یور شادی !! اپنی لائف بناؤ خود کو کانفیڈینس دو !! یار تم فیوچر ڈاکٹر ہو ایک مسیحا اس لئیے پلیز موو آن !!
For God Sake Stop being a Victim ۔۔
” میں بریڈلی سے ایگری کرتی ہوں ۔۔۔” اینا سنجیدگی سے بولتے بوئے گاڑی کا رخ موڑ چکی تھی
” تم دونوں کرنا کیا چاہتے ہو ؟؟ ” سویرا نے سر پکڑ لیا
” تمہیں ایک نارمل انسان بنانا چاہتے ہیں ۔حد ہو گئی سویرا ۔۔۔۔” بریڈلی ٹھیک ٹھاک تپا
” گڑیا !! تمہارا میک اوور کرینگے ایک نئی سویرا کو دنیا کے سامنے لائیں گے جو صرف خود پر فوکس کریگی اپنے کیرئیر کی پرواہ کریگی ۔۔۔۔” اینا نے پیار سے سمجھایا
گاڑی ایک بڑے SPA کے سامنے رک چکی تھی اندر اینا بڑے مزے سے کمپنی کے کارڈ پر اپنا اور سویرا کا مینی پیڈی کیور کروا رہی تھی فیشیل آئی بروز ساری سروسز کے بعد اس نے لڑکی کو سویرا کے بالوں کی کٹنگ کا اشارہ کیا
” نہیں اینا پلیز !! مجھے بال نہیں کٹوانے ۔۔۔”سویرا روہانسی ہوئی
” چپ چاپ بیٹھی رہو ہم صرف شیپ دے رہے ہیں تمہارے اس بالوں کے جنگل کو ۔۔۔۔” اینا نے ڈپٹا
وہ دونوں چار گھنٹے لگا کر فارغ ہوئی تو باہر بریڈلی غائب تھا فون کیا تو پتا چلا صاحب بہادر مووی دیکھنے سینما چلے گئے تھے ۔
اینا سویرا کو لے کر مال میں داخل ہوئی
” اینا میں ایسے کپڑے نہیں پہن سکتی میرے مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے ۔۔۔” وہ اینا کو بلاؤز اسکرٹ اٹھاتے ہوئے دیکھ کر سرعت سے بولی
” کم آن سویرا اس میں برائی کیا ہے ؟؟ ” اینا نے حیرانگی سے پوچھا
” میرا مذہب ایسا کوئی لباس پہنے کا حکم نہیں دیتا جس میں جسم عریاں اور نمایاں ہو ۔۔۔” سویرا نے اسے سمجھایا
” ٹھیک ہے پھر ہم لانگ اسکرٹ فل سلیو شرٹس اور انڈین کرتے لے لیتے ہیں ۔۔۔۔” اینا نے دوسری شاپ کی طرف قدم بڑھائے
شاپنگ سے فارغ ہو کر وہ دونوں بریڈلی کو سنیما سے پک کرتی ہوئی شہر سے دور مضافاتی علاقے میں بنے فارم پہنچ چکی تھیں رات کے سائے پھیلنے لگے تھے
” چلو گرلز !! سب اپنا اپنا کمرہ سلیکٹ کر کے سامان رکھ کر فریش ہو کر باہر گارڈن میں آجاؤ باربی کیو کرتے ہیں اور ٹینس کھلیں گے اور تم دکھی آتما !! ۔۔۔” وہ سویرا کی سمت مڑا
” خدا کیلئے ڈھنگ کے لباس میں آنا ،اپنے سارے پرانے کپڑے پھینک دو اور جلدی سے آؤ ۔۔۔”
” لیکن مجھے ٹینس کھیلنا نہیں آتا ۔۔۔۔” سویرا منمنائی
” میں سکھا دونگا بس اب جلدی سے انسان بن کر آؤ ۔۔۔”
بریڈلی انہیں حکم دیتا ہوا اوپر چلا گیا
*********************
اینا کو فارم ہاؤس بھیج کر وہ اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا تھا لنچ بریک پر اسے فرصت ملی تو اس نے عروہ کو کال کر کے شام میں گھر آنے کا کہا ۔ابھی اسے عروہ کو بھی ہینڈل کرنا تھا اسے وینیو کی تبدیلی کا بتانا ضروری تھا ، وہ جو بہت دھوم دھام سے منگنی چاہ رہی تھی یقیناً اس نے اپ سیٹ ہو جانا تھا۔
شام ڈھلے وہ اپنا کوٹ اور بریف کیس ہاتھ میں تھامے گھر کے اندر داخل ہوا تو پورے گھر میں اندھیرا چھایا ہوا تھا وہ لائٹ آن کر کے آگے بڑھا اس کی نگاہ خود بہ خود کچن کی جانب بڑھیں پر وہ خالی پڑا تھا وہ سیدھا اپنے کمرے میں داخل ہوا بیڈ پر معمول کے مطابق اس کا گھر کا ڈریس نہیں تھا الجھتے ہوئے وہ الماری کی طرف بڑھا اور ٹراؤزر شرٹ نکال کر فریش ہونے چلا گیا ۔
***************
عروہ کا موڈ بہت خوشگوار تھا آج کئی دنوں بعد شیری نے اسے فون کر کے خود اپنے گھر انوائیٹ کیا تھا وہ گنگناتے ہوئے تیار ہو رہی تھی
سرخ مختصر سی ٹاپ اور بلیک منی اسکرٹ میں اس کا سراپا جگمگا رہا تھا اس نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے گھنگھریالے بالوں کی اونچی پونی بنائی جس سے اس کی گردن مزید واضح ہو گئی تھی اب اس نے نازک سا ڈائمنڈ پینڈٹ اپنے گلے میں ڈالا جس سے اس کا وجود جگمگا اٹھا میک اپ کو فائنل ٹچ دے کر خود پر پرفیوم کا اسپرے کرکے وہ شیری کے گھر روانہ ہو چکی تھی ۔
چابی سے دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی پورا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا وہ سویرا کے روم کو چیک کرتی ہوئی شہریار کے کمرے میں داخل ہوئی وہ شاید شاور لے رہا تھا وہ آرام سے اس کے بیڈ پر نیم دراز ہو کر اس کا ویٹ کرنے لگی
شہریار شاور لیکر ٹراؤزر پہنے گلے میں تولیہ لٹکائے کمرے میں داخل ہوا
“واؤ شیری !!! ۔۔۔۔” عروہ نے بیڈ سے اٹھ کر اس کے قریب آکر اس کے ورزشی بازوؤں پر ہاتھ پھیرا
” عروہ تم !! تم کب آئی ۔۔۔” شہریار نے اسے نرمی سے خود سے دور کیا
” بس تھوڑی دیر پہلے ہی آئی ہوں تم سناؤ کہیں ڈنر پر چلیں ۔۔۔” وہ چمکتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی
” آؤ لیونگ روم میں بیٹھتے ہیں مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں اور ڈنر میں آرڈر کررہا ہوں ۔۔۔۔” وہ کمرے سے باہر نکل گیا
” شیری کیا بات کرنی ہے ، اٹس ایوری تھنگ اوکے ؟؟” وہ پریشانی سے اس کے قریب آئی
” عروہ میں ہماری انگیجمنٹ پارٹی اپنے فارم ہاؤس میں رکھ رہا ہوں اور ابھی میں ہماری منگنی کو راز رکھنا چاہتا ہوں میں نہیں چاہتا کہ میری فیملی تمہیں لیکر غلط فہمی کا شکار ہو ، ہاں ہم شادی دھوم دھام سے سب فیملی ممبرز کے ساتھ کرینگے ۔۔۔” وہ رسان سے سمجھاتے ہوئے بولا
” شیری تم !!!! ” عروہ نے اسے گھورا
” لسن عروہ !! میں ایسا ہی ہوں مجھے اپنی فیملی کی پرواہ ہے تو دوسری طرف ان کی نظر میں تمہاری عزت کی تمہارے امیج کی بھی فکر ہے ہوپ فلی تم مجھے انڈر اسٹینڈ کرو گی ۔۔۔”
” شیری ۔۔۔۔۔” عروہ مسکراتے ہوئے اس کے نزدیک آئی اچک کر اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈال کر اس کے بیحد نزدیک ہو کر سرگوشی میں گویا ہوئی
” I am Truly Deeply in Love with you ”
ایک کمزور لمحہ ان دونوں کے بیچ آچکا تھا
شہریار نے اپنی گرفت اس پر مضبوط کی تو عروہ نے مسکراتے ہوئے اپنا وجود اس کے سپرد کر دیا جند لمحے کی بے اختیاری میں عروہ اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی جب اس کی آنکھوں میں ایک لرزتا ہوا جھجکتا ہوا نازک سا سراپا لہرایا وہ ایک جھٹکے سے عروہ سے دور ہوا
” کیا ہوا شیری ؟؟ ” عروہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
شہریار نے ایک گہری نگاہ اس کے نیم عریاں وجود پر ڈالی پتا نہیں کیوں پر اسے کراہیت سی محسوس ہوئی ایک وہ لڑکی تھی جو اس کی نگاہوں سے گھبرا جاتی تھی اور ایک یہ جو اس کی قربت کیلیئے بیقرار تھی وہ الجھ سا گیا
” شیری !! کیا ہوا ڈارلنگ ۔۔
” نتھنگ دیکھو بیل بج رہی ہے شاید ڈیلوری بوائے آگیا ہے ۔۔۔” وہ دروازے کی طرف بڑھا
” شیری ابھی تو صرف شام کے سات بجے ہیں اتنی جلدی ڈنر ۔۔۔۔” وہ میز پر برتن رکھتے ہوئے بولی
“میری کل صبح ایک اہم میٹنگ ہے میں جلدی سونا چاہتا ہوں ۔۔۔” وہ بیزار سا ہوا
ایک پرتکلف ڈنر کے بعد عروہ جا چکی تھی اب وہ اپنے کمرے میں لیٹا سونے کی کوشش کررہا تھا پر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی تنگ آکر اس نے سگرٹ سلگائی اور ٹیرس پر جا کر کھڑا ہو گیا۔۔
“وہ اس وقت کیا کررہی ہو گئی ؟؟ کہیں رو رو کر اپنی آنکھیں نا سجا لی ہوں اس بیوقوف نے ۔۔۔۔ویسے اینا تو ہے اس کے ساتھ ۔۔۔۔
” سر میں اپنے بوائے فرینڈ کو ساتھ لے جا سکتی ہوں ۔۔۔” اس کے ذہن میں اینا کی آواز گونجی
” شٹ !! آخر میں اس کیلیئے اتنا پریشان کیوں ہو رہا ہوں؟
تنگ آکر اس نے سگریٹ بالکونی سے باہر پھینکا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر لاک کرتے ہوئے باہر نکل گیا اس کا رخ فارم ہاؤس کی جانب تھا وہ تیز رفتاری کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جارہا تھا ۔
____________
اینا اور سویرا اوپر کی منزل میں اپنے لئیے کمرے دیکھ رہی تھی ایک ترتیب سے آمنے سامنے چھ کمرے موجود تھے لیکن زیادہ تر پر لاک لگا ہوا تھا
” اینا یہ کمرہ بھی لاک ہے اب کیا کریں ؟؟ ” سویرا تیسرے دروازے کی ناب گھماتے ہوئے پریشان ہوئی
” باس کا یہ فارم ہاؤس زیادہ تر بند ہی رہتا ہے کوئی بڑی بزنس پارٹی ہو تو اسے استعمال کیا جاتا ہے ویسے صبح مالی اور ہاوس کیپر آئیں گے تو ہمیں سب کمروں کی چابی مل جائیگی ۔۔۔۔” اینا نے چوتھا دروازہ چیک کرتے ہوئے کہا
” تو صبح تک ہم کیا کرینگے ؟؟ ” سویرا نے پوچھا
” یہ دیکھو یہ کمرا کھلا ہوا ہے ۔۔۔۔۔” اینا نے پرجوش لہجے میں کہا
وہ دونوں اندر داخل ہوئی یہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا جس میں ایک پرتعیش بیڈروم سیٹ اسٹڈی ٹیبل اور بیچ میں صوفہ سیٹ پڑا ہوا تھا
” واؤ !! یہ کمرہ تو کسی شہزادے کی خواب گاہ معلوم ہوتی ہے ۔۔۔۔” اینا ستائشی انداز میں چاروں اطراف دیکھ رہی تھی
جبکہ سویرا کی نظریں دیوار پر نصب شہریار کی پینٹنگ پر جمی ہوئی تھیں ۔۔۔
” اینا یہاں سے چلو !! ہمیں یہاں نہیں رہنا ۔۔۔۔” وہ اینا کے پاس آکر اس کا ہاتھ تھام کر بولی
” کیوں یہاں کیوں نہیں رہنا ؟؟ ” اینا حیران ہوئی
” یہ ان کا کمرہ ہے ۔۔۔” وہ جھجھکتے ہوئے بولی
” ان کا کن کا ؟؟ ” اینا نے سوال کیا
سویرا نے دیوار کی سمت ہاتھ اٹھایا ۔۔۔۔
” او یہ تو باس کا روم ہے ویسے باس تو منگنی والے دن ہی آئینگے اس لئیے تم اس روم میں ٹہرو میں اور بریڈلی لیونگ روم میں گزارا کر لینگے ۔۔۔۔” اینا نے مشورہ دیا
” نہیں میں ادھر نہیں ٹہر سکتی میں بھی لیونگ روم شئیر کرونگی ۔۔۔۔” سویرا نے ضدی لہجے میں کہا
” واللہ یہ تم ہو ؟؟ زبردست لیکن اپنی یہ ضد باس کو دکھانا چلو جلدی سے حلیہ درست کرکے نیچے آؤ باربی کیو کرتے ہیں ۔۔۔” وہ اسے شرارت سے آنکھیں دکھاتے ہوئے نیچے چلی گئی
سویرا نے اپنے بیگ سے پنک لانگ کرتی اور بلیو ڈینم جینز نکالی اور فریش ہونے چلی گئی لباس تبدیل کرنے کے بعد وہ اپنے لمبے لیئرز میں ایک ترتیب سے کٹے بالوں کو پونی میں جکڑ کر گلے میں اسٹالر ڈال کر اپنا بیگ اٹھا کر باہر نکلی وہ کسی بھی صورت شہریار کے روم میں نہیں رہنا چاہتی تھی ۔۔
گول سیڑھیاں جو بڑے سے ہال میں جاتی تھی ان سے نیچے اتری اور سائڈ پر اپنا بیگ رکھ کر آگے بڑھی لاونج کی دیواریں شیشے کی تھیں جہاں اس کی نظروں کے سامنے ایک بڑا سا آرٹسٹک انداز سے بنا گارڈن تھا جس کے بیچ میں فوارہ لگا ہوا تھا سائیڈ پر بڑی سا فائر پلیس آتشدان دان تھا جس میں لکڑیاں سلگ رہی تھی اس کی آنکھوں میں اس خوابناک ماحول کو دیکھ کر ستائش اتر آئی تھی وہ دھیرے سے لابی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی جہاں اینا اور بریڈلی لکڑیاں سلگائے چکن کو میری نیٹ کررہے تھے ۔
” ہے سویرا جلدی آؤ ۔۔۔۔” بریڈلی نے اسے دیکھ کر آواز لگائی
سویرا مسکراتے ہوئے آگے بڑھی
” چلو تم یہ بوٹیاں سیخ میں پروتی جاؤ اور اینا تم اندر کچن سے گلاس پلیٹس لیکر آؤ میں تب تک کوئلہ سلگاتا ہوں ۔۔۔۔”
اینا سر ہلاتے ہوئے اندر بڑھ گئی سویرا نے سیخیں اٹھا لیں اور بریڈلی کوئلے دھکانے لگا ملگجی سی روشنی میں وہ تینوں دوست ہنستے مسکراتے ہوئے اپنی ہی دعوت کا اہتمام کررہے تھے۔۔
” چلو گرلز جب تک یہ چکن تیار ہوتا ہے ہم ٹیبل ٹینس کھیلتے ہیں وہ دیکھو ادھر ۔۔۔” بریڈلی نے دائیں طرف بنے سنگ مرمر کے ٹیبل ٹینس کورٹ کی طرف اشارہ کیا
وہ تینوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے اس طرف بڑھے پہلی باری اینا اور بریڈلی نے لی ۔۔۔
” سویرا چلو اب تم سروس کرواؤ میں جب تک چکن پلٹ کر آتی ہوں ۔۔۔” اینا بڑے مزے سے اس اناڑی کو بولتی ہوئی ٹینس بال تھما کر چلی گئی
سویرا نے تین چار دفعہ سروس کرانے کی ناکام کوشش کی ۔بریڈلی بڑے آرام سے جیب سے کوک کا کین نکال کر پینے میں مصروف تھا ۔۔
” بریڈلی !! مجھ سے نہیں ہو رہا ۔۔۔۔” وہ روہانسی ہوئی
” خبردار بندریا ! یہ میرے سامنے رونا نہیں ورنہ اس درخت سے الٹا لٹا دونگا ۔۔۔” بریڈلی نے سامنے آلوچے کے پیڑ کی طرف اشارہ کیا
” ویسے بھی رونے کی بجائے رلانا سیکھو ۔۔۔” وہ کوک پیتے ہوئے اسے سمجھا رہا تھا
“اوکے ۔۔۔۔” سویرا نے بڑی فرمانبرداری سے سر ہلایا اور ٹینس بال سے بریڈلی کے سر کا اشارہ لیکر زور سے بال پھینکا جو جاکر کوک پیتے بریڈلی کو لگا ۔۔۔
” سویرا کی بچی !!! ” وہ کین میز پر رکھ کر اس کی طرف بڑھا
” تم نے ہی تو کہا تھا کہ رونا نہیں ہے رلانا ہے ۔۔۔” وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹی
“مجھ سے پنگا !! اب دیکھو تمہیں کیسے اس درخت سے الٹا لٹکاتا ہوں بندریا ۔۔۔” وہ اس کی طرف بڑھا ۔
سویرا کھلکھلا کر ہنستے ہوئے ادھر سے بھاگ نکلی بریڈلی اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔۔۔۔
*******************