دس دن پورے دس دن سے وہ خود سے لڑ رہی تھی پر شہریار کو چھوڑ دینا اس کے بس میں نہیں تھا وہ آج سویرا سے ملنے یونیورسٹی آئی تھی وہ میڈیسن ڈپارٹمنٹ میں پہنچی ہی تھی کہ اسے سویرا سامنے سے چند لڑکیوں کے ساتھ آتی نظر آئی اس سے پہلے وہ سویرا کے پاس جاتی ایک چھ فٹ لمبا ہینڈسم سا آدمی سویرا کا راستہ روک چکا تھا ۔۔۔
_______________________________
سمسٹر بہت تیزی سے گزر رہا تھا سویرا کی پوری توجہ پڑھائی کی طرف تھی ، بریڈلی کی وجہ سے اس کی کلاس میں کچھ انڈین اور گوری لڑکیوں سے بھی دوستی ہو گئی تھی ابھی بھی وہ اپنی فرینڈز ایشا اور جولی کے ساتھ لائبریری کی طرف جا رہی تھی جب ڈاکٹر اینڈریو ان کے سامنے آگئے ۔۔۔
” ہیلو ایوری باڈی ، کدھر جا رہے ہیں آپ ۔۔۔” وہ بات ان سب سے کررہا تھا پر دیکھ سویرا کو رہا تھا
” سر لائبریری تک جا رہے ہیں ۔۔۔”جولی نے جواب دیا
ڈاکٹر اینڈریو پوری یونیورسٹی میں ڈیشنگ اینگری ہیرو کے نام سے مشہور تھے اگلے سمسٹر میں اناٹومی کی کلاس انہوں نے ہی لینی تھی ان کی پرسنیلٹی جہاں اسٹوڈنٹس کو متاثر کرتی تھی وہی ان کے لئیے دیئیے انداز کی وجہ سے اکثر اسٹوڈنٹس ان کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے لیکن جب سے ڈاکٹر اینڈریو نے سویرا کو اپنے ڈپارٹمنٹ میں دیکھا تھا وہ اکثر اس کی راہ میں کھڑے ملتے تھے سویرا ہمیشہ انہیں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتی تھی ۔
” آپ لوگ چلیں اور مس سویرا تھوڑی دیر میں آپ کو جوائن کرتی ہیں ۔۔۔” وہ سویرا کو دیکھتے ہوئے بولا
ایشا اور جولی اثبات میں سر ہلاتی ہوئی کن اکھیوں سے سویرا کے ہوائیاں اڑتے چہرے کو دیکھتی ہوئی آگے چلی گئیں
سویرا نے ہمت مجتمع کر کے آگے قدم بڑھائے ہی تھے کہ اس کی نازک کلائی پر اینڈریو نے سختی سے گرفت کی
” میں نے ابھی کیا کہا ؟؟ مجھے تم سے بات کرنی ہے بس دو منٹ لونگا ۔۔۔” اس نے نرمی سے کہتے اس کی کلائی اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کی
“سنو سویٹ ہارٹ آج میرا برتھ ڈے ہے جسے میں تمہارے ساتھ سیلیبریٹ کرنا چاہتا ہوں شام میں تیار رہنا میں تمہیں تمہارے گھر سے پک کر لونگا ۔۔۔”وہ بولتے بولتے رکا
” ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟؟ تمہارے سو کالڈ ہسبنڈ کے ایڈرس کو میں اچھی طرح سے جانتا ہوں سو بی ریڈی آن ٹائم ہنی ۔۔۔۔”
” آپ ایسا نہیں کرسکتے ہیں میں آپ کی ٹیچرز کونسل میں شکایت کرونگی ۔۔۔” سویرا ایک جھٹکے سے اپنی کلائی چھڑاتے ہوئے بولی
” لیٹ سی بے بی ۔۔۔” وہ بڑے اطمینان سے اس کا سکون غارت کرتا ہوا مسکرا رہا تھا
سویرا نے نفرت آمیز نظروں سے اسے دیکھا اور تیزی تیز قدم اٹھاتی ہوئی لائبریری کی طرف چلی گئی ۔۔۔
******************
عروہ ستون کی آڑ سے یہ سارا تماشہ دیکھ رہی تھی سویرا کے جاتے ہی وہ ستون کے پیچھے سے باہر نکلی ابھی اس نے ڈاکٹر کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ ایک اسٹوڈنٹ بھاگتے ہوئے آیا
” ڈاکٹر اینڈریو !! لیب میں آپ کو بلا رہے ہیں ۔۔۔”
“ڈاکٹر اینڈریو ” عروہ بڑبڑائی اس کی آنکھوں میں ایک مخصوص چمک تھی وہ تیزی سے پلٹ کر اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے اپنا سیل فون نکالا اور فیس بک لاگ ان کی اب وہ ڈاکٹر اینڈریو کو ڈھونڈ رہی تھی کچھ دیر میں ہی ڈاکٹر اینڈریو کا پروفائل اس کی نظروں کے سامنے تھا
Dr ۔Professor Andrew Smith
Queen Mary University of London (QMUL)
Email ۔ Dr Andrew_89@hotmail۔com
contact # 004456743892
وہ اپنا مائنڈ بنا چکی تھی اب اسے بہت احتیاط سے اپنی چال چلنی تھی ۔۔۔
اب اس کا رخ شہریار کے آفس کی طرف تھا جو بھی تھا وہ کسی بھی قیمت پر اپنے شیری کی زندگی سے یہ سویرا نام کا کانٹا نکال کر پھینک دینا چاہتی تھی تیز رفتاری سے گاڑی دوڑاتے وہ شہریار کے آفس پہنچی تیزی سے لفٹ کے ذریعے چوتھے فلور پر پہنچی
” گڈ مارننگ عروہ میم ۔۔۔” اینا نے کھڑے ہو کر اسے وش کیا
” مس اینا !! شیری کدھر ہے ؟؟ ”
” میم سر اپنے روم میں ہیں ۔۔۔”
” اوکے ۔۔” وہ سر ہلاتی ہوئی اینا کو بیٹھنے کا اشارہ کرتی ہوئی شیری کے کیبن میں داخل ہو گئی ۔۔
” ہیلو شیری ۔۔۔” اس نے تھکی تھکی آواز میں اسے پکارا آج وہ پورے دس دن بعد اسے دیکھ رہی تھی
شہریار نے فائل بند کر کے سر اٹھا کر عروہ کو دیکھا جب سے سویرا اس کے ساتھ لندن آئی تھی وہ عروہ کو وقت نہیں دے پا رہا تھا ،تو ساتھ ہی ساتھ سویرا کو بھی نہ معلوم کس جذبے کے تحت نظر انداز کررہا تھا ۔ دوسری جانب سویرا کا انداز بھی اس کے لئیے بیگانہ ہوتا تھا جیسے شہریار کا اس پر توجہ دینا یا نہ دینا اس کیلیئے کوئی معنی نہ رکھتا ہو شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اس سے اکھڑتا چلا جا رہا تھا وہ جسے ہر مقام پر سراہا گیا ہو جس کی وجاہت پر ایک زمانہ فدا ہو اسے اس کی ہی منکوحہ نظر انداز کرے یہ اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا حالانکہ وہ یہی چاہتا تھا لیکن ۔۔۔۔
” ہیلو شیری ابھی تک ناراض ہو ۔۔۔۔” وہ بجھے ہوئے انداز میں بولتی ہوئی اس کے نزدیک آئی اور سیدھی اس کے کندھے سے لگ گئی
عروہ نے ڈینم کی گھٹنوں تک کی کیپری اور سلیو لیس آسمانی رنگ کی ٹاپ پہنی ہوئی تھی اپنے گھنگھریالے بالوں کی اونچی پونی بنائے وہ کسی کا بھی ایمان بآسانی ڈانواڈول کر سکتی تھی ۔۔۔
” عروہ دور ہٹو ۔۔۔۔” شہریار نے ناگواری سے اسے خود سے الگ کیا اور کرسی گھسیٹ کر کھڑا ہو گیا
” یعنی تم ابھی تک مجھ سے خفا ہو ۔۔۔۔” وہ اپنی آنکھوں میں آنسو بھر لائی
” عروہ ۔۔۔میں نے تمہیں کبھی بھی اپنے ساتھ بندھے رہنے پر مجبور نہیں کیا تھا اگر میں فئیر نہیں ہوتا تو تمہیں ہرگز بھی اپنے اور سویرا کے رشتے کی حقیقت نہیں بتاتا لیکن تمہارا شک ، تمہارا بار بار جھگڑنا ہمارے رشتے کیلئے ٹھیک نہیں ہے اس لئیے بہتر ہے تم ایک بار اچھی طرح سے سوچ لو ۔۔۔”
” شیری اب بس کرو !! مجھے اور کتنا شرمندہ کرو گئے ؟؟ یہ بھی تو دیکھو وہ خبر میرے لئیے کتنی شاکنگ تھی اوپر سے تم نے کہا کہ ایک سال پورے ایک سال اس لڑکی نے تمہارے گھر میں رہنا ہے تو شیری میرا دماغ گھوم گیا تھا ۔۔۔” وہ دھیرے سے اپنی صفائی دیتے ہوئے اس کے پاس آئی اور بڑی بے تکلفی سے اپنے عریاں بازوں اچک کر شہریار کے شانے پر رکھتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی ۔۔
شہریار نے ایک نظر خود سے لگی عروہ کو دیکھا شادی سے پہلے ایسی حرکات اسے ہرگز پسند نہیں تھیں اس سے پہلے وہ اسے الگ کرتا یکایک اس کا سیل بج اٹھا اس نے نرمی سے عروہ کو خود سے الگ کیا اور سیل فون نکال کر کانوں سے لگایا
اسلام علیکم شاہ بی بی ۔۔۔۔”
“وعلیکم اسلام شاہو کیسے ہو بیٹا سویرا کیسی ہے کئی دن ہو گئے اس بات نہیں ہوئی بہت یاد آرہی ہے ۔۔۔” شاہ بی بی شفقت سے سلام کا جواب دیتی ہوئی بولیں
” شاہ بی بی ابھی تو میں آفس میں ہوں میں گھر جا کر آپ کی بات کرواتا ہوں ۔۔۔” اس نے ادب سے جواب دیا
عروہ بڑے غور سے شہریار کو دیکھ رہی تھی جب فون بند کرکے اس نے اس کی خود پر جمی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی
“کیا ہوا ؟؟ کہاں گم ہو ؟؟ ”
” شیری تمہاری سو کالڈ بیوی کے پاس فون نہیں ہے کیا ؟؟ جو یہ سب ایرے غیرے لوگ تمہیں ڈسٹرب کرتے ہیں ؟؟اب کیا تمہاری یہ اوقات رہ گئی ہے کہ تم اپنا فون اسے دیتے ہوں ؟؟ ” وہ تیکھے لہجے میں بولی
” نہیں اس کے پاس فون نہیں ہے اور عروہ تمیز سے بات کرو شاہ بی بی کیلیئے میں کوئی لفظ برداشت نہیں کرونگا ۔۔۔۔” شہریار نے اسے ٹوکا
“مگر مجھے برداشت نہیں ہو رہا کہ وہ تمہاری کسی بھی چیز کو چھوئے ۔۔۔۔” عروہ نے بیچارگی سے اسے دیکھا
” ایسا کرو تم یہ میرا فون اسے دے دو میں تو ویسے بھی نیا لینے ہی والی تھی ۔۔۔” عروہ نے اپنا قیمتی سیل فون شہریار کی طرف بڑھایا
شہریار نے عروہ کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے انٹرکام اٹھایا
” مس اینا ، فوری طور پر ایک نیا سیل فون ارینج کریں مس سویرا کیلیئے ۔۔۔۔” اس نے انٹرکام بند کیا
“یہ کیا شیری تم اسے نیا فون دلوا رہے ہو ؟؟ میں دے تو رہی تھی ۔۔۔” وہ ناگواری سے بولی
” اٹس اوکے ، عروہ میں نہیں چاہتا تم خواہ مخواہ اپنا فون کسی کو دو ۔۔۔” وہ سامنے رکھی فائل کھولتے ہوئے بولا
” یہ کیا شہریار پھر فائل کھول لی ذرا تھوڑا بہت خود کو آرام بھی دیا کرو یو نو اچھا کام کرنے کے لیے فریش ہونا ضروری ہوتا ہے اس لئیے یہ فائل بند کرو اور دیکھو تو باہر موسم کتنا رومینٹک ہو رہا ہے چلو لنچ پر چلتے ہیں پھر لانگ ڈرائیو ۔۔۔۔” وہ بے تکلفی سے بولی
“عروہ میری ابھی دس منٹ میں ایک بہت اہم میٹنگ ہے تم یہ پروگرام ویک اینڈ پر رکھو اور لندن کا موسم تو ہمیشہ ہی ابر آلود رہتا ہے اس میں نئی بات کیا ہے ۔۔۔” وہ کھڑے ہو کر اپنا کوٹ پہننے لگا
” ٹھیک ہے تم جاؤ میٹنگ میں ، میں ادھر ہی تمہارا ویٹ کرتی ہوں ۔۔۔” وہ آرام سے بیٹھ گئی
***********************
اینا جلدی سے اپنی گاڑی پارک کرکے آفس کی طرف بھاگی اس کے ہاتھ میں ایک جدید فون کا باکس تھا وہ تیزی سے چلتے ہوئے اپنے باس شہریار کے آفس میں داخل ہوئی ۔۔۔
” سوری سر ٹریفک جام تھا دیر ہوگئی یہ لیجئے نیا فون ۔۔” وہ بولتے بولتے رکی سامنے عروہ اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی
” اینا یہ فون مجھے دو میں شیری کو دے دونگی اور ہاں میں تھوڑا آرام کر رہی ہوں اس لئیے کسی کو بھی اندر مت بھیجنا۔۔۔” وہ اس کے ہاتھ سے فون لیتے ہوئے بولی
اس کی سبز آنکھیں فون کو دیکھ کر جگمگا رہی تھیں وہ سوچ چکی تھی کہ اب اس کا اگلا قدم کیا ہوگا اس نے ایک نظر اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ڈالی اس کے پاس ٹھیک آدھا گھنٹہ تھا
اس نے تیزی سے فون کو آن کیا اس سے اپنے نمبر پر بیل دی پھر تیزی سے اپنے سیل فون پر نیا فیس بک اکاؤنٹ بنانے لگی ، سویرا کے فون نمبر پر اس نے سویرا ہی کے نام کا اکاؤنٹ بنایا ایک سیکنڈ کے اندر اندر ویریفیکیشن کوڈ سویرا کے موبائل پر آچکا تھا ۔۔
سویرا کے نام کا اکاؤنٹ بن چکا تھا اس نے بیک گراؤنڈ پک میں یونیورسٹی کی پک اپلوڈ کر کے ڈالی پھر ہنستے ہوئے ڈاکٹر اینڈریو کو سرچ کر کے فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی ۔۔۔
اب وہ بڑے اطمینان سے شہریار کی ریوالونگ چئیر پر ٹیک لگا کر سویرا کا فون ہاتھ میں لئیے ڈاکٹر اینڈریو کی پروفائل سے فون نمبر دیکھتے ہوئے نمبر ملا رہی تھی ۔۔۔
” اینڈریو اسپیکنگ ۔۔۔۔۔” تین بیلز کے بعد اینڈریو کی گھمبیر آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی
” سرررر ۔۔۔۔۔” وہ نہایت دھیمے ڈرے سہمے انداز میں بولی
” کون ۔۔۔۔۔” اینڈریو نے حیرانی سے پوچھا
“وہ سر میں ۔۔۔۔” وہ رکے رکے انداز میں بات کررہی تھی
” یس مس آگے بھی بولوں ۔۔۔۔؟ ” اینڈریو نے جھاڑا
” میں میں کیا بولوں!! ” عروہ کو اب سویرا بننے میں مزا آرہا تھا
” سب سے پہلے اپنا نام بتاؤ ؟؟ ”
” سر میں سویرا فرسٹ ائیر میڈیسن ۔۔۔”
” واؤ آئی کانٹ بیلیو تم نے مجھے کال کی ہے ویسے تمہارا نام بھی تمہاری طرح بہت خوبصورت ہے ۔۔۔۔” اینڈریو نے جھٹ سے کہا
” سر وہ میں ۔۔۔۔۔”
” دیکھو سویرا اگر تم آج شام میرے ساتھ جانے سے انکار کرنے کا سوچ رہی ہوں تو بھول جاؤ ، میں شام میں تمہیں پک کرنے آرہا ہوں ویسے بھی جب تمہارا وہ ہسبنڈ گرل فرینڈ رکھ سکتا ہے تو تم کیوں پیچھے رہوں ؟؟ ۔۔۔”
عروہ اینڈریو کی بات سن کر تیزی سے سیدھی ہوئی
” آپ کو کیسے پتا ہے یہ سب ؟؟ ” اس نے سوال کیا
” جب ہم کسی سے پیار کرتے ہیں تو اس کے اچھے برے کی سب خبر رکھتے ہیں اب میں فون رکھتا ہوں شام کو ملتے ہیں میں آنے سے پہلے تمہیں کال کردونگا ۔۔۔۔”
” نہیں نہیں پلیز ۔۔۔۔آپ آج رہنے دیں میری پوزیشن سمجھیں وعدہ میں نیکسٹ ٹائم خود آپ سے ملونگی مجھے پہلے اپنے حالات ٹھیک کرلینے دیں اور پلیز مجھے اس نمبر پر کبھی کال مت کیجئے گا میں آپ کو فیس بک ریکوئسٹ بھیج رہی ہوں میسنجر پر بات کرینگے ۔۔۔” عروہ نے جلدی سے کہہ کر فون رکھ دیا
اب وہ سویرا کے فون سے سارا کال لاگ اور ہسٹری ڈیلیٹ کررہی تھی جب دروازہ کھول کر شہریار اندر داخل ہوا
عروہ نے جلدی سے فون میز پر رکھا ۔۔۔۔
” تم بور تو نہیں ہوئی ۔۔۔؟ ” شہریار نے استفسار کیا
” نہیں !! بلکل بھی نہیں ، میں تو یہ فون !!! ہاں یہ فون چیک کررہی تھی دیکھو یہ اینا بھی کتنی فضول خرچ ہے اتنا مہنگا پندرہ سو پاؤنڈ کا فون خرید لائی ہے ۔۔۔”
” کم آن عروہ !! لیو دس چلو تمہیں لنچ کرواتا ہوں ۔۔۔۔” وہ اسے اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنا سامان سمیٹنے لگا
” نہیں شیری ابھی رہنے دو تم آرام سے اپنا کام کرو میں اب چلتی ہوں کل پرسوں کا کچھ پلان کرتے ہیں ۔۔۔” وہ اسے جلدی سے منع کرتی ہوئی کھڑی ہو گئی
” اوکے ایز یو وش ۔۔۔۔” شہریار کندھے اچکاتے ہوئے بیٹھ گیا
**********************
وہ اسائنمنٹ جمع کروانے کے چکر میں صبح سات بجے سے یونی ورسٹی آئی ہوئی تھی تھی اوپر سے سر اینڈریو سے ٹکراؤ ہوگیا تھا اب اس کا دل لائبریری جانے کا نہیں تھا تھا وہ وہ دبے قدموں سے چلتی ہوئی پارکنگ لاٹ کی طرف آ گئی جہاں ہاں ڈرائیور اس کا ویٹ کرتا تھا اسے شہریار کی سخت ہدایات تھی ۔۔۔
گھر آکر اس نے لباس تبدیل کیا پھر کچن میں آگئی صبح سے اس نے ایک کپ چائے کے سوا کچھ بھی حلق میں نہیں انڈیلا تھا وہ کچن میں موجود ٹیبل کی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی اس کے سر میں شدت سے درد ہو رہا تھا اسے ڈاکٹر اینڈریو کا خوف سب سے زیادہ تھا ۔
” اگر وہ واقعی گھر آگئے تو ۔۔۔ ” وہ کانپ کر رہ گئی اور اپنا سر جھکا کر دونوں ہاتھوں سے آہستہ آہستہ دبانے لگی کمزوری الگ غالب آرہی تھی وہ وہی ٹیبل پر سر رکھے نیم غنودگی میں ڈوب چکی تھی
شہریار گھر میں اپنے مخصوص انداز سے داخل ہوا چابی اور بریف کیس اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے اس کی نظر ٹیبل پر سر رکھ کر سوتی ہوئی سویرا پر پڑیں وہ خاموشی سے اسے اگنور کرتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ دو گھنٹے بعد فریش ہو کر آرام کر کے وہ باہر نکلا تو سویرا اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی
” ذرا مینرز نہیں ہیں اس لڑکی کو !! یہ کوئی آرام کرنے کی جگہ ہے ؟؟ نانسینس ۔۔۔” وہ لب بھینچتے ہوئے اس کے پاس آیا
” سنو لڑکی !! اٹھو اپنے کمرے میں جاؤ ۔۔۔”
لیکن سویرا ٹس سے مس نہیں ہوئی اس نے تنگ آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ لڑھک سی گئی اب اس کا متورم چہرا شہریار کی نظروں کے سامنے تھا سرخ ناک اور سوجے ہوئے پپوٹے اس کے رونے کی چغلی کھا رہے تھے صاف ستھرا
آنسوؤں سے دھلا پاک چہرہ بہت ہی دلکش اور پر کشش لگ رہا تھا ۔۔۔
“اٹھو ۔۔۔۔” اس نے اسے ہلایا
“آہ پلیز نہیں ۔۔۔۔” سویرا نیم غنودگی میں بڑبڑا رہی تھی اس کی بند پلکیں بھیگ رہی تھیں
چند منٹ شہریار وہی کھڑا اسے گھورتا رہا
” سنو لڑکی !! ابھی کے ابھی اٹھو اور اپنے کمرے میں جاؤ ۔۔۔” اب کے وہ بہت زور سے بولا
سویرا جو نیم بیہوشی میں شہریار کی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی پھر تیز آواز سن کر اس نے بمشکل آنکھیں کھول دی سامنے ہی شہریار کھڑا اسی کو گھور رہا تھا اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے ۔
” کیا بات ہوئی ہے ؟؟ تم روئی کیوں ۔۔۔؟؟ ” شہریار نے سپاٹ لہجہ میں پوچھا
“کچھ نہیں ، کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔” وہ جھرجھری لے کر رہ گئی
شہریار پلٹ کر کچن کیبنٹ کی طرف گیا اور ایک سر درد کی گولی نکالی پھر فرج سے دودھ نکال کر گلاس میں ڈال کر سویرا کی طرف بڑھایا
“یہ ٹیبلٹ لو اور کچھ کھا پی کر آرام کرو ۔۔۔” وہ کہتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا
“انہیں کیسے پتہ چلا کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔” وہ حیرانی سے شہریار کو جاتا دیکھ رہی تھی
شہریار کے پچھلے رویے کو دیکھتے ہوئے اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس کی زندگی میں کہیں بھی نہیں ہے اسے دیکھتے ہی شہریار کا موڈ بگڑ جاتا تھا وہ بس اسے مجبوراً ہی برداشت کر رہا تھا جس کا اظہار وہ کئی بار برملا کرچکا تھا ۔۔۔
*****************
رخسار کچن میں شام کی چائے کا اہتمام کروا رہی تھیں جب فرزانہ اندر داخل ہوئیں
” اسلام علیکم پھپھو ۔۔۔” رخسار نے دھیمی آواز میں سلام کیا
” ماں کہاں ہے تمہاری ؟ پوری حویلی چھان ماری ہے ۔۔۔” وہ غصہ سے بولیں
” اماں تو دوپہر سے بابا سائیں کو لیکر اسپتال چیک اپ کروانے گئی ہیں بس اب آنے والی ہونگی ۔۔۔”رخسار ٹرے میں برتن سیٹ کرتے ہوئے بولی
” آ لینے دو آج انہیں میں نے بھی کھل کر بات کرنی ہے ۔میں شاہ بی بی کے پاس جارہی ہوں تمہاری ماں آئے تو اسے بھی ادھر ہی بھیج دینا ۔۔ ” وہ نخوت سے کہتی ہوئی باہر نکل گئی
تھوڑی ہی دیر میں زاہدہ بیگم سلیم صاحب کو لے کر آچکی تھیں رخسار نے انہیں فرزانہ پھپھو کا پیغام دیا وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے شاہ بی بی کے کمرے کی طرف چل دیں ۔
” اسلام علیکم ۔۔۔” انہوں نے اندر داخل ہوتے ہی اجتماعی سلام کیا
” وعلیکم السلام ،تم کب آئی زاہدہ ؟ اور ڈاکٹر نے کیا کہا ۔۔۔۔؟ ” شاہ بی بی نے پوچھا
” جی بس ابھی ہی آئی ہوں ڈاکٹر کہتا ہے یہ پہلے سے بہتر ہیں اور اس نے آج نسخہ بھی بدلا ہے ۔۔ ” وہ تفصیل سے بتاتی ہوئی بولیں
” میں بہت دیر سے تمہارا انتظار کر رہی تھی اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ میری تم سے ایسی کیا دشمنی تھی جو تم نے میرے شاہو کو اس چڑیل کے ساتھ ایسا بھیجا ہے کہ وہ پلٹ کر ہمیں یاد بھی نہیں کرتا وہ جب پیدا ہوا تو تم بیمار تھیں ساری زندگی اسے اپنے سینے سے لگا کر رکھا ان ہاتھوں سے اس کی پرورش کی اور بدلے میں کیا ملا ؟؟ اس کی شادی آپ سب نے میرے بھائی کی قاتل سے کروا دی اور اب وہ لڑکی اسے ہم سب سے دور کررہی ہے ۔۔۔”
” خدا کا خوف کرو ، فرزانہ کیسی باتیں کررہی ہوں ؟؟ سویرا معصوم کا اپنے باپ کی موت سے کیا تعلق ؟؟ آئندہ ایسے بنا سوچے سمجھے مت بولنا “شاہ بی بی نے تنبیہہ کی
” شاہ بی بی میں کہے دیتی ہوں اس منحوس سویرا کی چالاکیاں میں اچھی طرح سے جانتی ہوں دیکھنا وہ میرے شاہو کو بھی کھا جائیگی بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں لندن جا رہی ہوں ۔۔”
” شرم کرو فرزانہ ، تم ایک معصوم مظلوم بچی پر تہمت لگا رہی ہو ، مت بھولوں وہ تمہاری سگی بھتیجی ہے ۔۔۔” زاہدہ بیگم نے تڑپ کر کہا
” میں نے منشی محمد یوسف کو اپنے کاغذات دے دئیے ہیں اور اللہ نے چاہا تو اس ماہ کے آخر میں ،میں ولایت چلی جاؤنگی ۔” وہ سب کو حیران پریشان چھوڑ کر کمرے سے نکل گئی
******************
صبح چھ بجے وہ سو کر اٹھا جاگنگ کیلیئے ٹریک سوٹ پہن کر کمرے سے باہر نکلا تو سویرا سامنے ہی ڈائننگ ٹیبل پر بالکل اسی جگہ اسی انداز سے بیٹھی ہوئی تھی جیسے وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا ۔۔۔
” آر یو میڈ ؟؟ تم رات بھر یہیں بیٹھی رہی ہو ؟؟۔۔۔” وہ ٹھیک ٹھاک تپا تھا
سویرا مندی مندی آنکھوں سے غائب دماغی سے اسے دیکھ رہی تھی وہ کچھ دیر اس کی غائب دماغی کو نوٹ کرتا رہا
” اٹھو !! جاؤ جا کر منھ ہاتھ دھو کر آؤں ۔۔۔۔” اس نے آرڈر دیا
وہ فریش ہو کر واپس آئی تو وہ سامنے ٹیبل پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔
” جلدی سے کافی بناؤ ۔۔۔۔” وہ سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے نارمل انداز میں بولا
سویرا خاموشی سے کچن میں چلی گئی اس کو ابھی تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ بھیانک رات آکر گزر چکی ہے اور وہ ڈاکٹر اینڈریو گھر تک نہیں پہنچا لیکن کیا قیامت واقعی ٹل چکی ہے ؟؟ سوچیں تھی کہ آئی چلی جا رہی تھی ، وہ کافی مگ میں انڈیل کر شہریار کے پاس آئی
” لگتا ہے آج تمہارا اسکول جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔۔۔۔” وہ اس کے ویران سے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے بولا
” میں وہ بس !!! ”
” تم نے شاید کل سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے لو یہ دودھ لو اور آج گھر پر ریسٹ کرو خواہ مخواہ بیمار ہو گئی تو مجھے ہی بھگتنا پڑے گا ۔۔۔۔” اس نے کافی کا خالی مگ اٹھایا اور کچن میں چلا گیا
*********************
شہریار کے آفس جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آئی اس کے اندر بالکل بھی یونیورسٹی جا کر ڈاکٹر اینڈریو کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی وہ تھکے تھکے انداز میں بستر پر گر گئی ۔۔۔
زندگی پہلے بھی کبھی سہل نہیں رہی تھی لیکن پہلے اس کو حوصلہ دینے کیلئے شاہ بی بی اور رخسار ہوتی تھیں جو بڑے پیار سے اسے سمجھایا کرتی تھیں اس کی ڈھال بنا کرتی تھیں ۔۔۔
” رخسار آپی !!!” وہ سسک اٹھی
اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں ڈاکٹر بننا اعلا تعلیم حاصل کرنا اس کا خواب تھا جسے شہریار پورا کررہا تھا لیکن ڈاکٹر اینڈریو کا یوں اس کی راہ میں آنا ، زبردستی حق جتانا ، اس نازک سے دل کی مالک لڑکی کو ڈرا رہا تھا ۔۔۔
” اللہ جی !! میری مدد کریں مجھے اس مشکل سے نکال دیں ۔۔۔۔” وہ روتے روتے پتا نہیں کب سو گئی تھی اور نہ جانے کتنی دیر تک سوتی رہی تھی جب اس کی آنکھ مسلسل مین ڈور کی لگاتار بیل بجنے سے کھلی ۔۔۔
مسلسل بجتی بیل کی آواز سن کر وہ اٹھ بیٹھی دوپٹے جو درست کرتی ہوئی دروازے پر آئی کی ہول سے دیکھا تو سر پر سںن گلاسز ٹکائے اینا کھڑی تھی اس نے فوری دروازہ کھولا
” کیسی ہو سویرا ۔۔۔ ” اینا نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا
” ٹھیک ہوں ۔۔۔” وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولی
” چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ ، ڈاکٹر کے کلینک چلنا ہے ۔۔۔” وہ آرام سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی
” ڈاکٹر !! مگر کیوں۔ ۔۔۔”
” مائی سوئیٹ فرینڈ ، مجھے باس نے بھیجا ہے کہ تمہارا چیک اپ کروانا ہے اس لئیے کوئی اگر مگر نہیں تمہارے پاس دس منٹ ہیں ہری اپ گرل ۔۔۔۔” اینا نے جلدی مچائی
” پر مجھے کچھ نہیں ہوا ، سچی میں ٹھیک ہوں ۔۔۔”
” تم ٹھیک ہوگئی پر باس ٹھیک نہیں ہیں میرے سارے کام آف کروا کر مجھے ادھر بھیجا ہے تاکہ تمہیں ڈاکٹر کے دکھا دوں انہیں بہت فکر ہے تمہاری ۔۔۔۔” اینا شرارت سے بولی
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی کمرے میں آئی
” ہاں میں اکیلی تو نہیں ہوں میرا سب سے مضبوط رشتہ تو میرے ساتھ ہے مجھے ان کو سب بتا دینا چاہئیے ۔۔۔۔” وہ تیار ہوتے ہوئے سوچ رہی تھی
********************
صبح کے وقت ایک گھنٹہ جاگنگ کرنا اس کی پرانی عادت تھی اس کے بعد پورا دن تو آفس ، بزنس میٹنگز میں ہی گزر جاتا تھا آج بھی وہ معمول کے مطابق جاگنگ کرنے کے لیے نکل رہا تھا جب اس کی نظر میز پر سر رکھ کر بیٹھی ہوئی سویرا پر پڑی تھی اپنے ارد گرد سے بے نیاز چہرے پر عجیب سا ڈر و خوف لئیے وہ اسے اپنی طرف متوجہ کر گئی تھی اس نے زبردستی اسے اٹھا کر منھ ہاتھ دھونے بھیجا اس کے بعد وہ چاہتے ہوئے بھی باہر نہیں جاسکا وہ اسے دوبارہ دیکھنا چاہ رہا تھا تھوڑی ہی دیر میں وہ دھلے منھ کے ساتھ سر پر دوپٹہ اوڑھے باہر آئی اس کا انداز ہرگز بھی نارمل نہیں تھا اس نے زبردستی اسے دودھ کا گلاس دیا اور اسکول سے چھٹی کرنے کا آرڈر دیکر آفس آگیا ۔۔۔
آفس میں کام کرتے ہوئے بھی اسے سویرا کا خیال آرہا تھا اس کا دل چاہا کہ اسے فون کر کے طبعیت کا پوچھے مگر فون تو وہ سویرا کو دینا ہی بھول گیا تھا تنگ آکر اس نے اپنی سیکریٹری اینا کو انٹر کام کیا اور اسے گھر جا کر سویرا کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی سخت ہدایات دیں ۔ابھی وہ اپنے کام میں مصروف تھا جب جونس نے اسے کال کر کے لنچ پر جوائن کرنے کو کہا ۔۔۔
وہ سارے کام سمیٹ کر کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے تیزی سے آفس سے باہر نکلا جونس نے ترکش پارٹنرز کو لنچ پر انوائیٹ کیا تھا اور شہریار کو وقت سے پہچنے کی ہدایت کی تھی ریسٹورنٹ کے دربان کو گاڑی کی چابی پکڑاتے ہوئے وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے بڑے سے ہال میں داخل ہوا اس نے متلاشی نگاہوں سے چاروں جانب دیکھا تو سامنے ہی سفید شرٹ پر ٹائی لگائے بلیک پینٹ میں جونس آستین فولڈ کئیے ہوئے دو تیس سے پینتیس سال کے آدمیوں سے باتیں کرتا ہوا نظر آیا ان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر ترک خاتون بھی تھیں وہ اطمینان سے اپنا کوٹ اتار کر ہاتھ میں لیتے ہوئے ان کی جانب بڑھا ۔۔
” سوری جینٹلمینس میں تھوڑا لیٹ ہوگیا ۔۔” وہ خوشدلی سے مسکراتے ہوئے بولا
جونس نے اسے گھورتے ہوئے اس کا تعارف ان دونوں مرد حضرات اور ان خاتون سے کروایا
اس کے بعد ایک پرتکلف لنچ کا آرڈر کرکے وہ سب آپس میں باتوں میں مصروف ہو گئے
لنچ سرو ہو چکا تھا تبھی اچانک سے وہ خاتون اپنے بیٹوں سے مخاطب ہوئیں ۔
” Ne tatlı bir kız “(کتنی پیاری لڑکی ہے )
“Tatlı anne çok tatlı değil”(پیاری نہیں ماں بہت خوبصورت ہے )
وہ سامنے بڑے غور سے اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا شہریار اور جونس نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا ۔۔
کونے والی میز پر اینا اور سویرا بیٹھی باتیں کررہی تھیں
*******************
اینا اسے ڈاکٹر کو دکھا چکی تھی سب نارمل تھا ڈاکٹر نے اسے ذہنی دباؤ کا شکار بتایا تھا اور خوش رہنے اسٹریس فری رہنے کی تلقین کی تھی ۔۔۔
” سویرا آخر تمہیں ٹینشن کیا ہے ؟؟ اتنے بڑی فیملی سے بلونگ کرتی ہوں اپنی من پسند تعلیم حاصل کررہی ہوں پھر کیا سوچتی رہتی ہوں جو یہ حالت بنا لی ہے ۔۔۔” اینا نے اسے جھاڑا
سارے راستے وہ اسے سمجھاتی بجھاتی ہوئی ایک بڑے سے ریسٹورنٹ میں لے آئی ۔۔۔
” چلو اترو آج میں تمہیں زبردست سا لنچ کرواتی ہوں ۔۔۔” اینا نے گاڑی پارک کی
” سوری اینا مگر میں ایسے لنچ نہیں کرسکتی ۔۔۔” سویرا ہچکچائی
” ڈونٹ وری ادھر کا فوڈ حلال ہوتا ہے شہریار سر ادھر ہی آتے ہیں اس لئیے مجھے پتہ ہے ۔۔۔” اینا اس کی ہچکچاہٹ سمجھ کر بولی
” ٹھیک ہے پر بل میں دونگی ۔۔۔” سویرا نے جلدی سے کہا
” آج تم میری مہمان ہو نیکسٹ ٹائم تم دے دینا اب چلو ۔۔۔” اینا نے اس کا بیگ چھین کر پیچھے کی سیٹ پر ڈالا
اینا اور سویرا اندر داخل ہوئیں اندر کا ماحول بہت خوابناک سا تھا ہلکا ہلکا آرکسٹرا بج رہا تھا چاروں جانب بڑے بڑے پام کے گملے رکھے ہوئے تھے اینا نے کونے پر ایک میز منتخب کی اور سویرا کے ساتھ بیٹھ گئی
” تم اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو ریلیکس یار ۔۔۔” اینا نے اسے ہاتھ مسلتے ہوئے دیکھ کر ٹوکا
اب سویرا اسے کیسے بتاتی کہ یہ اس کی زندگی میں پہلی بار تھا کہ وہ کسی ریسٹورنٹ میں آئی تھی ورنہ اسے تو ہمیشہ گھر میں چھوڑ دیا جاتا تھا ۔۔۔
تبھی ایک باوردی ویٹرس مینو کارڈ لیکر آئی
” چلو بھی جو دل چاہے آرڈر کرو ۔۔۔” اینا نے خوشدلی سے کہا
وہ دونوں اپنا اپنا آرڈر لکھوا کر اب ریلیکس ہو کر بیٹھ گئی تھیں ۔۔
” اینا میں جاب کرنا چاہتی ہوں کیا تم اس سلسلے میں میری مدد کر سکتی ہوں ؟؟ ” سویرا نے سوال کیا
” جاب !! آر یو سیریس !! ” اینا نے حیرانگی سے اسے دیکھا
” میں بہت سیریس ہوں ۔۔۔” سویرا نے جلدی سے کہا
” مگر سویرا ہنی ، تم میڈیکل کی ٹف پڑھائی کے ساتھ جاب کیسے مینج کروگی ؟؟ ”
” میں کر لونگی کوئی ایوننگ یا ویک اینڈ کی جاب مل جائے پلیز میری مدد کرو ۔۔۔”
” مدد کیسی مدد ڈئیر ؟؟ تمہارے تو کزن کا اتنا بڑا بزنس ہے تم وہ جوائن کیوں نہیں کر لیتی ہوں باس سے بولو گھر کی بات ہے وہ ٹائمنگ بھی ایڈجسٹ کر لینگے ۔۔” اینا نے مشورہ دیا
” نہیں اینا مجھے کسی کا احسان نہیں چاہئیے میں خود کچھ کرنا چاہتی ہوں خود کو پروف کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔”
” ہمم ٹھیک ہے مگر ابھی تو تمہاری ایجوکیشن بھی کوئی خاص نہیں ہے اور نا ہی کوئی ورک ایکسپیریئنس ہے ویسے بھی اسٹوڈنٹس تو چھوٹی موٹی جاب ہی کرتے ہیں ایسا کرو تم اپنا ریزیومے بنا لو میں نیکسٹ ویک تمہیں یونیورسٹی سے پک کرلونگی پھر مال میں اور کافی شاپس میں اپلائے کرتے ہیں ۔۔۔” اینا نے اسے تسلی دی
” ویسے تمہارا جاب کرنے کا فیصلہ بہت اچھا ہے میں تو کہتی ہوں خود کو گروم بھی کرو میک اوور کرواؤ اپنی پرسنیلٹی بناؤ بولڈ بنو ۔۔۔” اینا نے اسے سراہا
ابھی وہ دونوں باتیں کررہی تھی جب کسی کے کھنکھارنے کی آواز پر وہ دونوں چونک گئی
” مس اینا آپ ادھر کیا کررہی ہیں ؟؟ “جونس سر پر کھڑا پوچھ رہا تھا
“گڈ آفٹر نون سر !! میں اپنی فرینڈ کے ساتھ لنچ پر آئی ہوں !! ” اینا نے اسے سلام کرتے ہوئے جواب دیا
” آپ کی فرینڈ !! سسٹر سویرا !! ” اس نے حیرت سے پوچھا
” جی سر !! ” وہ جزبز ڈی ہو گئی
” سویرا تم کیسی ہو ؟؟ ” اب جونس سویرا کو دیکھ رہا تھا
اس سے پہلے سویرا جواب دیتی جونس کا فون بج اٹھا
” تم ادھر جا کر چپک گئے ہو ادھر گیسٹ ویٹ کررہے ہیں جلدی آو ۔۔۔” شہریار کی سرد آواز گونجی
” آپ دونوں خواتین ہمیں لنچ پر جوائن کریں ۔۔۔” جونس نے اپنی میز کی طرف اشارہ کیا
سویرا نے ادھر شہریار جو دیکھا تو ایک سرد سی لہر اس کی رگوں میں دوڑ گئی ۔۔۔
“پر سر ہم آرڈر کر چکے ہیں ۔۔۔” اینا نے سویرا کی گھبراہٹ کو بھانپتے ہوئے کہا
” کوئی بات نہیں وہ ادھر سرو ہو جائیگا ہری اپ گرلز ۔۔۔” جونس نے انہیں اٹھنے کا اشارہ کیا
وہ دونوں اٹھ کر جونس کی ہمراہی میں میز پر آئیں
” جنٹلمین اینڈ مادام ، میٹ مائی سسٹر سویرا اینڈ سیکریٹری مس اینا ۔۔۔” جونس نے شہریار کو خاموش دیکھ کر خود تعارف کروایا
سویرا خاصا جھجک رہی تھی اس پر ان مہمانوں کی پر شوق نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں
” ماشاءاللہ تمہاری بہن بہت خوبصورت اور معصوم ہے ۔۔۔۔” مادام نے سویرا کو سراہتی ہوئی نظروں سے دیکھا
” مس سویرا ، کیا آپ ہماری جیولری کے ایڈ کی ماڈلنگ کرنا چاہیں گئی ؟؟ معاوضہ منھ مانگا دونگا ۔۔۔” ان میں سے ایک نے پوچھا
” سوری اورہن ، یہ ماڈلنگ نہیں کرسکتی ہیں ۔۔۔” شہریار نے سختی سے جبڑے بھینچتے ہوئے کہا
” جونس تم مہمانوں کی خاطر تواضع کرو ، سوری گائیز مجھے اجازت دیں ۔۔۔” وہ کھڑا ہوا
” تمہیں کیا دعوت نامہ دینا ہوگا ؟؟ ” وہ اردو میں سویرا جو دیکھتے ہوئے غرایا
سویرا ہڑبڑا کر اٹھ گئی
” مس آپ تو رکیں ۔۔۔” اورہن ہے اسے روکنا چاہا
” یہ میرے ساتھ ہیں ” شہریار نے سرد لہجے میں کہا اور سویرا کا ہاتھ تھام کر تیزی سے باہر نکل گیا
اسے باہر آتے دیکھ کر دربان تیزی سے اس کی گاڑی لانے کے لیے گیا اس کے چہرے پر سرد مہری تھی اس نے گاڑی کا دروازہ کھول کر سویرا کو اندر دھکیلا پھر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کی وہ لب بھینچے ہوئے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے ڈرائیو کررہا تھا ۔۔۔
***********************
ڈاکٹر اینڈریو اپنی کلاس لیکر فارغ ہوا اب اس کا ارادہ سویرا سے ملنے کا تھا مگر اسے پورے ڈپارٹمنٹ میں سویرا کہیں نہیں ملی، رات بھی سویرا نے اسے گھر آنے سے منع کردیا تھا اور اب خود بھی یونیورسٹی نہیں آئی تھی ۔۔
” ہوسکتا ہے اس کے ہسبنڈ نے اسے روکا ہو ؟؟ ویسے بھی یہ ایشین مرد خود جو چاہیں کریں لیکن اپنی عورتوں کو پابندیوں میں جکڑ کر رکھتے ہیں ۔۔۔” وہ سوچ رہا تھا
کچھ دیر بعد اس نے فون نکالا ارادہ سویرا کو کال کرنے کا تھا حالانکہ سویرا نے اسے کال کرنے سے منع کیا تھا پر اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا سننا چاہتا تھا کچھ سوچ کر اس نے سویرا کو میسنجر پر میسج ٹائپ کیا
” کدھر ہو تم ؟؟ کال کروں ورنہ میں تمہارے گھر آرہا ہوں ۔۔۔۔”
عروہ کی ابھی صبح نہیں ہوئی تھی آج کوئی خاص پلان نہیں تھا ابھی بھی دن کے دو بج رہے تھے جب اس کے فون پر وائبریشن ہوئی بڑی ناگواری سے اس نے فون اٹھایا اور میسج دیکھ کر اچھی پڑی اس کی ساری سستی ہوا ہو گئی تھی اس نے جلدی سے میسنجر سے اینڈریو کو کال ملائی
” ہیلو سویرا کدھر ہو تم ؟؟ یونیورسٹی کیوں نہیں آئی ؟؟ ” پہلی بیل پر ہی اینڈریو فون ریسیو کرتے ہی شروع ہو گیا تھا
ایک لمحے کو تو عروہ کی کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کہے پھر وہ سنبھل کر بولنا شروع ہوئی
” وہ میں رات دیر سے سوئی تھی تو صبح آنکھ ہی نہیں کھلی ۔۔۔”
” پارٹی تو تم نے کینسل کر دی تھی پھر دیر سے کیوں سوئی ؟؟”
” وہ آپ کسی سے کچھ کہیں گئے تو نہیں ؟؟ ۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
” نہیں کہونگا ۔۔۔” اینڈریو کو اس کی ہچکچاہٹ پر ٹوٹ کر پیار آیا
” وہ وہ میں آپ کو سوچ رہی تھی مجھے لگا کہ آپ میرے انکار پر ناراض نا ہوگئے ہوں بس آپ کی ناراضگی کا سوچ کر نیند اڑ گئی ۔۔۔”
وہ بڑے مزے سے اینڈریو کو شیشے میں اتار رہی تھی اسے آہستہ آہستہ دیوانگی کی راہ پر لا رہی تھی ۔۔۔۔
***************
لنچ سے بڑے خراب موڈ کے ساتھ وہ سویرا کو گھر واپس لیکر آیا ۔
” آئندہ اس طرح تم مجھے اکیلی ہوٹلنگ کرتے ہوئے نظر آئیں تو ٹانگیں توڑ کر پاکستان بھجوا دونگا ہمارے گھر کی عورتیں اس طرح باہر نہیں نکلتی ہیں ۔۔۔” وہ اپنا سارا غصہ اس پر نکال رہا تھا
” اب سرجھکائے کیوں کھڑی ہو ؟؟ جاؤ شکل گم کرو ۔۔۔” وہ اسے چپ چاپ کھڑا دیکھ کر تپ گیا
سویرا بجھے ہوئے انداز میں اپنے کمرے کی جانب چلی گئی شہریار نے کچن میں آکر فرج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر اپنے منھ سے لگائی
اس کی نگاہوں میں بار بار اس آدمی کی پرشوق نگاہیں سویرا کو دیکھتی ہوئی نظر آرہی تھیں
” ماڈلنگ کروائے گا ؟؟؟ کل صبح سب سے پہلے اس کا کانٹریکٹ ختم کرواتا ہوں ” وہ بڑبڑایا
وہ اپنے کمرے میں آکر اب سگرٹ سلگا چکا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اتنا غصہ اسے کیوں آرہا ہے
” شاید یہ میرے چاچو کی بیٹی ہے میرے خاندان کی عزت اس لئیے مجھے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا ہے ۔۔۔۔” وہ اپنے آپ کو تسلی دے رہا تھا
” بہتر ہے میں اسے پہلی فرصت میں ہاسٹل شفٹ کردوں ورنہ یہ لڑکی میرا دماغ خراب کردیگی ۔۔۔۔” وہ یہ سوچ ذہن میں آتے ہی ریلکس ہوگیا
رات کا نا جانے کون سا پہر تھا جب اس کی آنکھ فون کی بیل سے کھلی ۔۔
شاہ بی بی کی کال تھی
” شاہو میرا دل گھبرا رہا ہے میری سویرا سے بات کروا دو ۔۔۔” شاہ بی بی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے حکم دیا
وہ انہیں ہولڈ کروا کر اٹھا اور سویرا کے کمرے میں آیا ۔۔۔
” سنو لڑکی اٹھو شاہ بی بی سے بات کرو ۔۔۔” اس نے دروازہ کھول کر آواز لگائی
کوئی جواب نا پا کر وہ اندر داخل ہوا کمرے کی لائٹ جلائی سامنے ہی سویرا بستر کے کنارے پر آڑی ترچھی کمبل اوڑھے ہوئے لیٹی ہوئی تھی وہ قریب آیا
” سنو لڑکی !! اٹھو ۔۔۔”
اب کے اس نے تشویش سے اسے دیکھا اس کا چہرہ سرخ انار ہو رہا تھا لمبی گھنی چوٹی بستر سے نیچے لٹک رہی تھی اور سانس بھی مدھم تھی ۔۔۔
” شاہ بی بی ادھر ابھی رات کے دو بج رہے ہیں آپ کی چہیتی سو رہی ہے میں آپ کی صبح بات کرواتا ہوں ۔۔۔” شاہ بی بی کو خدا حافظ کہہ کر فون رکھنے کے بعد وہ سوئی ہوئی سویرا کی طرف متوجہ ہوا
” اے لڑکی !! ” اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور چونک گیا
” اسے تو بخار ہو رہا ہے ۔۔۔” وہ کچن میں گیا کیبنٹ سے بخار کی گولی اور فرج سے پانی کی بوتل نکالی اور دوبارہ کمرے کی جانب بڑھا
*********************
سویرا کو رات گئے تک شدید بخار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا وہ نقاہت محسوس کررہی تھی پیاس سے حلق خشک ہو رہا تھا لیکن کچن میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی اسے شدت سے پاکستان یاد آرہا تھا شاہ بی بی رخسار آپی یاد آرہی تھیں اپنے بابا یاد آرہے تھے جب وہ چھوٹی سی تھی تو وہ کس طرح اس کے چھینک مارنے پر بھی ڈاکٹرز کی لائن لگا دیا کرتے تھے پھر بابا کے بعد ان کی شہزادی رل گئی مگر پھر بھی بیماری میں شاہ بی بی اس پر دم کیا کرتی تھیں اس کا خیال رکھا کرتی تھیں ۔وہ سب کو سوچتے ہوئے نا جانے کب غنودگی میں چلی گئی ۔۔۔
سویرا کا ماتھا تپ رہا تھا بخار کی شدت سے اس کے گال سرخ ہو رہے تھے جب شہریار نے سختی سے ہونٹ بھینچتے ہوئے اسے پکارا
” آنکھیں کھولوں اور یہ دوا لو ۔۔۔ ” وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی
شہریار نے پرتشویش نظروں سے اسے دیکھا پھر کمرے میں موجود اٹیچ باتھ روم کی طرف بڑھا اندر سے تولیہ گیلا کر کے باہر لایا سویرا کے پاس بیٹھ کر اس کے اوپر سے لحاف ہٹایا اور پھر اس کے ماتھے پر ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر گیلا تولیہ پھیرنے لگا تھوڑے تھوڑے وقفے سے وہ تولیہ گیلا کر کے لاتا اور پھر یہی عمل دہراتا کچھ دیر بعد سویرا نے ایک آہ بھرتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں تو شہریار کو خود پر جھکا پا کر گھبرا گئی
“اٹھو اور یہ دوا لو ۔۔۔” شہریار نے اسے آنکھیں کھولتے ہوئے دیکھ کر کہا
سویرا بڑی مشکل سے ہمت کر کے اٹھی اور خاموشی سے شہریار کے ہاتھ سے ٹیبلٹ لیکر منھ میں رکھی اس کے ہاتھ بالکل بے جان سے ہو رہے تھے پانی کی بوتل اس کے ہاتھ میں کپکپا رہی تھی
” کیا بات ہے ۔۔۔۔” شہریار نے اسے گھورا
” مجھے بہت درد ہو رہا ہے ۔۔۔” وہ اپنی کنپٹیوں کو دباتے ہوئے بولی
ایک لمحے کو شہریار کے چہرے پر ہمدردی کے تاثرات ابھرے
” تم لیٹ جاؤ دیکھنا ابھی تھوڑی دیر میں دوا اپنا اثر کریگی وہ نرم لہجے میں بولا
” تم نے یقیناً صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے اسی لئیے ویک نیس ہو رہی ہے رکو میں تمہارے لئیے جوس لاتا ہوں ۔۔۔۔”
*****************
صبح حسب معمول اس کی آنکھ کھلی جاگنگ سے فارغ ہو کر وہ کچن میں آیا تو اتنے دنوں میں پہلی بار اس کیلیئے فریش جوس میز پر نہیں تھا وہ سر جھٹکتے ہوئے اپنے کمرے میں گیا ۔ آفس کیلیئے تیار ہو کر باہر نکلا
باہر ایک سویرا کے نا ہونے سے ایک عجیب سا سناٹا چھایا ہوا تھا وہ پہلے اس کے کمرے میں آیا وہ ابھی بھی سو رہی تھی اس نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ۔ماتھا ابھی بھی گرم تھا زبردستی اسے اٹھا کر ایک گولی مزید دی
” کیا اسکول جاؤ گئی ؟؟ یا میں ادھر فون کردوں ؟؟ مجھے نمبر دو ۔۔۔”
” میری طبیعت بہت خراب ہے میں کہیں نہیں جا سکتی ۔۔۔۔” سویرا نے اس کھڑوس کو دیکھا
” ٹھیک ہے ایز یو وش ۔۔۔” وہ کندھے اچکاتے ہوئے باہر نکل گیا
******************
وہ صبح یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی جب شہریار اس کے کمرے میں چلا آیا ۔
” کل تک تو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔اور اب اسکول جا رہی ہو ؟؟ ”
” جی طبیعت اب بہتر ہے اور میں اسکول نہیں۔۔۔۔۔”
” ڈیم اٹ مجھے لگا تم چھٹی کروگی تو میں نے ڈرائیور کو بھی آف دے دیا ۔تم مجھے اپنا پلان بتا نہیں سکتی تھی ؟؟ ”
” آپ پریشان مت ہوں میں بس سے چلی جاؤنگی جیسے پہلے جاتی تھی ۔۔۔”
” ایک تو میرے اپنے سو مسائل ہیں اوپر سے تم کوئی نا کوئی پرابلم کھڑی کر دیتی ہوں ۔۔۔”وہ ٹھیک ٹھاک تپا ہوا تھا
” میری پہلے ہی دو چھٹیاں ہو گئی ہیں مجھے کوور کرنا مشکل ہو جائیگا ۔۔۔” وہ سر جھکائے دھیمے لہجے میں بولی
” تو مجھے نہیں بتا سکتی تھی ؟؟ میں ڈرائیور کو چھٹی نہیں دیتا مگر تمہیں تو عادت ہے بے وقوفانہ کام کرنے کی ۔۔۔”وہ اسے جھاڑ رہا تھا
سویرا چپ چاپ سر جھکائے اپنا قصور تلاش کرنے میں لگی ہوئی تھی
” سوری میں آپ کو بتانا بھول گئی تھی اگر آپ منع کرتے ہیں تو کوئی بات نہیں میں کل سے یونی۔۔۔۔”
” واٹ ؟؟؟ میں کیوں منع کرونگا؟؟ تمہاری لائف ہے جو جی چاہے کرو ناؤ گیٹ ریڈی آن فائیو منٹس میں تمہیں چھوڑتے ہوئے آفس چلا جاؤنگا ۔۔۔” وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
سویرا کے اثبات میں سر ہلاتے ہی وہ باہر نکل گیا اس کے جاتے ہی سویرا نے ایک گہری سانس ہوا کے سپرد کی اور تیزی سے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی ہو کر اپنے لمبے بالوں کی سادہ سی چوٹی بنانے لگی ، چوٹی بنا کر سر پر لباس کا ہم رنگ اسکارف لیا ،تیزی سے میز پر سے اپنا بیگ اٹھا کر کمرے سے نکلی وہ لاؤنچ میں نہیں تھا وہ تیزی سے جوڑے کی اسٹرپ بند کر کے گھر سے باہر نکلی سامنے ہی بلیک پینٹ پر آف وائٹ شرٹ پہنے گلے میں ٹائی لگائے آنکھوں پر سن گلاسز چڑھائے اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے کسی سے بات کررہا تھا وہ تیزی سے چلتے ہوئے پاس آئی تو اینا کھڑی تھی جو شہریار کے لمبے قد کی آڑ میں اسے نظر نہیں آئی تھی ۔ ۔
” مس اینا تمہیں ڈراپ کردینگی ۔۔۔” وہ اسے کہتا ہوا گاڑی میں بیٹھ کر جا چکا تھا
****************
” گڈ مارننگ سوئیٹ گرل !! اب طبعیت کیسی ہے ؟؟ ” اینا نے پوچھا
” اب ٹھیک ہے اینا آپ کیسی ہیں ۔۔۔” سویرا نے پوچھا
” میں بھی ٹھیک سوچا آفس جانے سے پہلے تمہیں دیکھتی جاؤں ادھر آئی تو باس پہلے ہی باہر کھڑے ہوئے تھے اس لئیے سوچا تمہیں میں ڈراپ کر دیتی ہوں راستے میں باتیں بھی کر لینگے ۔۔ “اینا خوشدلی سے مسکراتے ہوئے بولی
وہ دونوں باتیں کرتی ہوئی یونیورسٹی تک پہنچی اینا نے گاڑی پارکنگ میں روکی۔
” سنو گھر کیسے جاؤ گی ؟؟ “اینا نے اسے روکا
“پتا نہیں اگر ڈرائیور آگیا تو اس کے ساتھ ورنہ بس سے ۔۔۔”
” چھوڑو سب تم مجھے کلاسز آف ہوتے ہی فون کر دینا میں پک کر لونگی ۔۔۔۔” اینا نے اس کی مشکل آسان کی
” اینا !! میرے پاس فون نہیں ہے ۔۔” وہ شرمندگی سے بولی
” واٹ !! آخر تم ہو کس صدی کی ؟؟ سیریسلی تمہارے پاس فون نہیں ہے ؟؟ ” اینا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی
سویرا نے نفی میں سر ہلایا
” اوکے اوکے اس دن باس نے نیا فون منگوایا تھا مجھے لگا تمہارے لئیے ہوگا لیکن لیو اٹ مجھے ٹائم بتاؤ میں تمہیں اسی وقت ادھر ہی ملونگی ۔۔۔۔”
” تین بجے آف ہے ۔۔۔” سویرا نے جلدی سے کہا
” اوکے تین بجے ملتے ہیں۔ ۔۔” اینا نے اسے ہاتھ ہلایا اور آفس روانہ ہو گئی
سویرا اینا کے جانے کے بعد تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھی کلاس شروع ہونے میں بس دس منٹ تھے ابھی اس نے ڈپارٹمنٹ کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ ڈاکٹر اینڈریو اس کے سامنے آگئے
” شکر ہے تم یونیورسٹی تو آئی “۔۔۔وہ بڑے بے تکلفانہ انداز میں میں مخاطب ہوا
” تمہارا گروپ تو روز آرہا ہے بس تم دو دن سے غائب تھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ تم سے ملاقات کیسے کروں ۔۔۔”
” ایکسکیوز می سر !! میری کلاس لیٹ ہو رہی ہے ۔۔۔” اس نے سائیڈ سے گزر کر جانا چاہا
” کیا تمہیں بھی مجھے دیکھ کر اتنی خوشی ہو رہی ہے سن شائن جتنی مجھے تمہیں دیکھ کر ہو رہی ہے ۔۔ ” وہ اس کے چہرے کو اپنی نظروں کی گرفت میں لیتے ہوئے پوچھ رہا تھا
سویرا کو اس کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھی اس کے دیکھنے کا انداز ، راستہ روکنا اسے برا لگ رہا تھا دل چاہ رہا تھا کہ اسے کھری کھری سنا دے لیکن وہ اپنی ڈرپوک عادت کا کیا کرتی بس آنکھوں میں ناگواری لئیے ادھر ادھر دیکھنے لگی
” سن شائن !! مجھے تمہارا یہی انداز بہت اپیل کرتا ہے تم سب لڑکیوں سے الگ ہو اور مجھے ڈاکٹر اینڈریو کو اپنی اس شرم و حیا سے ، گریز سے اپنا عادی بناتی جا رہی ہو ۔۔۔۔”
” ہے سویرا !!! ” بریڈلی نے اسے دور سے دیکھ کر آواز لگائی
” کم آن کلاس شروع ہو رہی ہے ۔۔ ” وہ بولتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات کو جانتے ہوئے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے پاس آیا
” ایکسکیوز از سر !! ” اس نے تیزی سے کہا اور سویرا کا ہاتھ تھام کر بنا کچھ کہنے کا موقع دئیے بغیر اسے لیتا ہوا آگے بڑھ گیا
” تھینکس بریڈلی ۔۔۔ ” سویرا نے آگے پہنچ کر اپنا ہاتھ چھڑوایا
” کیا ڈاکٹر اینڈریو تمہیں ہراس کررہے تھے ؟؟ ” اس نے چلتے ہوئے اچانک سے سوال کیا
” پتا نہیں !! لیکن مجھے وہ اچھے نہیں لگتے بار بار راستہ روکتے ہیں ۔۔۔” سویرا نے کہا
” ہمم اب سے تم جب تک ڈپارٹمنٹ میں ہوں بس میرے ساتھ رہنا اکیلی یا اپنی ان بیوقوف فرینڈز کے ساتھ مت پھرنا ۔۔۔” بریڈلی کلاس کے اندر داخل ہوتے ہوئے بولا ۔
**********************
سویرا آخری کلاس لیکر باہر نکلی تین بج رہے تھے ۔۔
” گھر کیسے جاؤ گی ؟؟ ” بریڈلی نے پاس آکر پوچھا
” میری فرینڈ ڈراپ کریگی !! ” سویرا نے سادگی سے جواب دیا
” گڈ !! چلو تمہیں پارکنگ تک چھوڑ دیتا ہوں ۔۔” وہ اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھا
وہ دونوں چلتے ہوئے پارکنگ تک آئے ۔۔
” کہاں ہے تمہاری دوست ؟؟ ” وہ چاروں جانب دیکھتے ہوئے بولا
” وہ سامنے دیکھو ۔۔۔ریڈ بیوک ۔۔۔” سویرا نے اشارہ کیا
” واؤ ۔۔۔” بریڈلی اینا کو گاڑی سے اترتے دیکھ کر ستائشی انداز میں سیٹی بجاتے ہوئے بولا
” سویرا چلیں ؟؟ ” اینا پاس آئی
” مائی نیم از بریڈلی !! ” بریڈلی نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھایا
” سویرا کا دوست ۔۔۔” مزید اضافہ کیا
” اینا ۔۔۔” اس نے بریڈلی سے ہاتھ ملایا
” چلیں سویرا ؟؟ ” اینا نے پوچھا
سویرا ، بریڈلی کو گڈ بائے کہتے ہوئے اینا کی گاڑی کی طرف بڑھ گئی
” اینا !!! ہممم آئی لائک اٹ ۔۔۔۔” بریڈلی بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا
” یہ ہم کدھر جا رہے ہیں ؟؟ ” سویرا نے گاڑی کا رخ ویسٹ کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر چونک کر پوچھا
” ہم ویسٹ مال جا رہے ہیں ۔۔۔۔” اینا آرام سے بولی
” مگر کیوں ؟؟ تمہیں شاپنگ کرنی ہے کیا ؟ میں نے گھر سے اجازت نہیں لی ہے ۔۔۔” وہ لیٹ ہوجانے کے ڈر سے گھبرا کر بولی
” شاپنگ نہیں کرنی بس تمہیں ایک فون دلوانا ہے ۔۔۔” اینا گاڑی کا رخ موڑتے ہوئے آرام سے کہا
” لیکن اینا میں گھر سے پیسے لیکر نہیں آئی ہوں ۔۔۔” وہ پریشانی سے بولی
” ڈیبٹث کارڈ ہے ؟؟ ورنہ میں پیمنٹ کردونگی تم بعد میں پیسے دے دینا ۔۔۔” وہ لاپرواہی سے بولی
سویرا اثبات میں سر ہلاتی ہوئی خاموش ہو گئی ڈیبٹ کارڈ اس کے پاس تھا لیکن وہ پیسے دیکھ بھال کر خرچ کرنا چاہتی تھی مگر فون بھی ضروری تھا ۔۔۔
دو تین شاپ پر گھوم پھر کر بلآخر سویرا کو ایک اوسط درجے کا اسمارٹ فون پسند آگیا
” سویرا ہنی !! تم لیٹسٹ موڈل کا کیوں نہیں لے رہی ہوں ۔۔۔”
” اینا میں اسٹوڈنٹ ہوں ابھی افورڈ نہیں کرسکتی ۔۔۔” وہ جھجکتے ہوئے بولی
” یہ تو ہے خیر چلو یہاں سے کچھ دور میری کزن سسٹر کی کافی شاپ ہے شاید تمہاری لئیے جاب کا بھی کچھ بندوبست ہو جائے ۔۔۔” اینا سوچتے ہوئے بولی
” سچی !! واقعی اگر ایسا ہو جائے تو یہ میری زندگی کا سب سے اچھا دن ہوگا ۔۔۔” وہ خوشی سے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی
” اب مجھے ہی گھورتی رہو گی کیا ؟؟ چلو تمہیں کیتھی سے ملاتی ہوں ۔۔۔”
اینا سویرا کو لیکر ایک بہت ہی پوش علاقے میں آئی جہاں چاروں جانب بڑی تعداد میں آفسسز موجود تھے یہ ایک بہت ہی مشہور کمرشل علاقوں میں سے ایک تھا
وکٹورین اسٹائل سے بنا ایک خوبصورت سا کیفے سامنے ہی تھا جہاں اندر پرانا انٹیک ماحول تھا ساری ٹیبلز بھری ہوئی تھیں زیادہ تر کسٹمرز آفیشیل لگ رہے تھے سوٹ ٹائی میں ملبوس کاؤنٹر پر تین لڑکیاں بڑی پھرتی سے کام کررہی تھی ۔۔۔
” کیتھی سے کہو اس کی سسٹر آئی ہے ۔۔۔” اینا نے ایک لڑکی کو مخاطب کیا وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اندر چلی گئی
تھوڑی ہی دیر میں ایک تیس سالہ پرکشش عورت باہر آئی
” ہیلو اینا ڈارلنگ آج تم راستہ کیسے بھول گئیں ؟؟ ” کیتھی نے قریب آکر بڑی گرمجوشی سے اینا کو گلے سے لگایا
اینا نے سویرا کا تعارف کروایا اور اس کی جاب کی بات کی ۔۔
“اینا کی دوست میری دوست !! لیکن سویرا مجھے ابھی صرف دو دن پیر اور منگل کیلیئے ہیلپ چاہئیے بولو کر لوگی ؟؟” کیتھی نے پوچھا
” مگر اس دن تو میری یونیورسٹی ہوتی ہے کیا آپ کے ویک اینڈ پر کچھ سیٹنگ نہیں ہو سکتی ؟؟ ” وہ بڑی آس سے اسے دیکھ رہی تھی
” تم یونیورسٹی کے بعد آجاؤ شام پانچ سے رات نو بجے تک ۔۔۔” کیتھی نے اسے مشورہ دیا
اینا نے ایک گہری نظر سویرا کے پریشان چہرے پر ڈالی
” کیتھی کچھ بھی کرو اسے سیٹرڈے سنڈے مارننگ شفٹ دو ۔۔” اینا دو ٹوک انداز میں بولی
” اوکے مس سویرا آپ اگلے ویک سے کام شروع کریں ہفتہ اتوار صبح سات سے دوپہر بارہ بجے تک ۔۔۔” کیتھی نے اینا کو گھورتے ہوئے کہا
” تھینک یو سو مچ ۔۔۔۔” سویرا نے خوشی سے کہا
*********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...