وہ سویرا کو ایک ٹھیک ٹھاک رقم دیکر گھر سے نکل آیا تھا اب اس کا رخ اپنے آفس کی طرف تھا
آفس پہنچ کر اس نے ساری پینڈنگ فائلز چیک کرنے کیلئے منگوائیں ۔۔۔
ابھی وہ فائلز چیک ہی کررہا تھا کہ اس کا فون بج اٹھا ۔۔
” عروہ کالنگ ۔۔۔”
اس نے کچھ سوچتے ہوئے فون اٹھایا
” ہیلو شیری !! کدھر ہو ؟ کب آرہے ہو ؟ ” عروہ نے چھوٹتے ہی سوالات کی بھرمار کر دی
” ریلیکس عروہ !! میں واپس آچکا ہوں ۔۔۔” اس نے ایک جملے میں سارے سوالات کا جواب دیا
” کیا !!! شیری تم واپس آگے اور مجھے بتانا بھی گوارہ نہیں سمجھا ؟؟ ” وہ شاکڈ ہوئی
” اس میں ایسی خاص بات کیا تھی انفیکٹ آج میں تمہیں فون کرنے ہی والا تھا کہ تم نے کال کر لی ۔۔۔”
“پتا ہے شیری !! کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے تمہیں ذرہ برابر بھی میری پروا نہیں ہے شاید میرا وجود تمہارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔۔۔” عروہ نے افسردگی سے کہا
” عروہ تم اچھی طرح جانتی ہو پیار عشق محبت یہ سب میرے نزدیک خرافات ہیں اور کم آن بی پریکٹیکل اگر مجھے تمہاری پروا نہیں ہوتی تو آج ہم ساتھ نہیں ہوتے ۔۔۔۔”
” ہم ساتھ کب ہیں شیری ؟؟ وہ تو میں ہی پیچھے پڑی رہتی ہوں ورنہ تم تو کسی اور ہی دنیا کے باسی لگتے ہو ۔۔۔”
” دیکھو آخری بار سمجھا رہا ہوں جذبے کسی اظہار کے محتاج نہیں ہوتے ہیں جب ساتھ رہینگے تو جذبے بھی اپنا آپ منوا لینگے وقت سے پہلے کچھ اچھا نہیں لگتا ۔۔۔” اس نے کوفت سے جواب دیا
” اچھا پھر میں ابھی آرہی ہوں لنچ پر چلتے ہیں ۔۔۔”
” ابھی تو میں بہت بزی ہوں سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے ایسا کرو ڈنر پر ملتے ہیں ۔۔۔” وہ ریسٹورنٹ کا نام بتاتے ہوئے بولا
” گولی مارو ریسٹورنٹ کو ادھر پرائیویسی نہیں ہوتی ہے میں بس رات میں تمہارے گھر آرہی ہوں مل کر ڈنر کرتے ہیں تمہارا فیورٹ چائینز آرڈر کرینگے ۔۔۔۔” وہ فیصلہ کن لہجہ میں بولی
” اوکے ڈن ڈنر ایٹ نائن ۔۔۔۔” وہ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا
________________________________________
وہ شہریار کے جانے کے بعد کچن سمیٹ کر تیار ہونے چلی گئی تھی ٹھیک ایک گھنٹے بعد اطلاعی گھنٹہ بجا کر شارٹ سفید اسکرٹ اور پنک کلر سلیولیس بلاؤز میں ملبوس ہائی پینسل ہیلز میں ٹک ٹک کرتی اینا اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔
سویرا نے جب بمشکل پچیس سال کی ماڈرن سی سنہرے بالوں نیلی آنکھیں اور سفید رنگت والی اینا کو دیکھا تو وہ ایک لمحہ کو دنگ رہ گئی اتنا حسن اور وہ بھی بےحجاب ان کے ساتھ کام کرتا ہے ۔۔۔
” ہائے کیوٹ گرل میرا نام اینا ہے مجھے سر شہریار نے بھیجا ہے کیا تم ان کی کزن سویرا ہو ؟؟ ”
وہ بڑے اشتیاق سے اسے دیکھ رہی تھی
کالی سیاہ چمکدار بڑی بڑی آنکھیں گلابی رنگت ٹراؤزر پر کرتا پہنے ایک ہاتھ میں گھڑی اور لمبے سیاہ بالوں کی چٹیا بنائے سویرا اپنی سادگی میں بھی کمال لگ رہی تھی بالکل ایک تروتازہ پھول کی طرح ۔۔۔
” جی مس میں ہی سویرا ہوں ۔۔۔” سویرا اس سے امپریس ہو کر بولی
” اوکے سویرا میم !! لیٹس گو میں آپ کو شاپنگ سینٹر نزدیکی مال اور اسکول دکھا دیتی ہوں اس کے بعد بینک چلیں گے ۔۔۔”
” آپ پلیز مجھے میم مت کہئیے ۔۔۔۔” سویرا نے کہا
” بٹ میم !! آپ سر کی رشتے دار ہیں وہ ناراض ہونگی ۔۔۔”اینا اس چھوٹی سی لڑکی کو بغور دیکھتے ہوئے بولی
” آپ ویٹ کریں میں بس ابھی آئی ۔۔۔” سویرا تیزی سے کچن میں آئی ملک شیک بنا کر نفاست سے ٹرے میں رکھ کر اینا کے پاس آئی
” آپ یہ شیک لیجئے میں بس دو منٹ میں اسکارف لیکر آئی ۔۔۔”
اینا حیرانی سے اس کو دیکھ رہی تھی ان ممالک میں مہمان نوازی تو جیسے ناپید تھی اور یہ باس کی کزن ایک امپلائی کو شیک پلا رہی تھی
تھوڑی ہی دیر میں عربک اسٹائل میں سر پر لباس سے ہم آہنگ اسکارف پہنے کاندھے پر پرس لٹکائے سویرا اندر داخل ہوئی
“چلیں میں ریڈی ہوں ۔۔۔” اس نے آکر کہا
اینا نے خالی گلاس میز پر رکھا اور کھڑی ہو گئی سویرا تیزی سے گلاس کچن میں رکھ کر آئی
” لیٹس گو میم ۔۔..” اینا گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے بولی
وہ دونوں باہر نکل آئی تھیں بہت ہی پرفضا ماحول تھا ہواؤں میں ٹھنڈک بسی ہوئی تھی اوپر سے سورج بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا
” موسم کتنا خوشگوار ہورہا ہے نا ۔۔۔۔” سویرا کے منھ سے نکلا
“یس میم !!! ”
” اینا جی !! پلیز مجھے سویرا کہئیے اب اگر آپ نے میم کہا تو میں واپس چلی جاؤنگی ۔۔۔”
اینا نے دلچسپی سے اس سادہ خوبصورت ایشین بیوٹی کو دیکھا جو عمر میں بمشکل سولہ سترہ برس کی تھی اس وقت اس کے گلابی چہرے پر خفگی کے آثار تھے
“اوکے سویرا !! فرینڈز ؟؟؟ ” اینا نے اپنا ہاتھ بڑھایا
” یس پلیز !!! ” سویرا نے چمکتی آنکھوں سے اس کا ہاتھ تھام لیا یہ اس کی سترہ سالہ زندگی میں پہلی دوست بن رہی تھی
” چلو واک کر کے پہلے تمہیں قریب کے راستے سمجھا دیتی ہوں ۔” اینا نے اس کا ہاتھ تھام لیا
” یہ لندن ہے دنیا کا قدیم ترین شہر ، لندن دو ہزار سال سے بھی پرانا شہر ہے اور یہ دریائے تھیمس کے دونوں طرف بسا ہے۔ اس کی داغ بیل رومن نے ڈالی تھی اور اس کا نام لندینیم رکھا تھا۔
لندن صرف تاریخی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ثقافتی، تہذیبی، معاشی، رواداری ،آزادی اور وقار کے لئے بھی دنیا ایک بہترین شہر ماناجا تا ہے۔” اینا بڑے مزے سے اسے لندن کی تاریخ بتاتی آس پاس کے علاقے سے متعارف کرواتی ہوئی بس اسٹاپ وغیرہ سارے راستے ازبر کروا رہی تھی
” چلو سویرا اب راستے تو تم نے دیکھ لئیے ہیں اب میں تمہیں ادھر کے اسکول ہائی اسکولز بھی دکھا دیتی ہوں ابھی ایڈمن آفس کھلا ہوگا تو تمہارے ایڈمیشن کی بھی بات کرلینگے ۔۔۔” اینا نے کہا
” وہ اینا سس !! مجھے ہائی اسکول نہیں جانا ۔۔۔”
“ہائی اسکول نہیں جانا ؟؟ مگر سر نے تو آرڈر دیا ہے تمہارا ایڈمیشن کروانے کا ساتھ ہی ایک بڑی رقم کا چیک بھی دیا ہے اسکول ڈونیشن کیلیئے ۔۔۔” اینا الجھی
” جانا ہے لیکن اسکول نہیں بلکہ کوئین میری یونیورسٹی جانا ہے ۔۔۔”
” یونیورسٹی ؟؟ وہ بھی کوئین میری ؟؟ سویرا ڈارلنگ اس یونیورسٹی میں داخلہ بہت مشکل سے ہوتا ہے اور ۔۔۔۔”
” اینا سس !! میرا ایڈمیشن ہو چکا ہے انفیکٹ فیس بھی ادا کی جا چکی ہے بس مجھے کیمپس دیکھنا ہے اور کلاسس کا پتا کرنا ہے ۔۔” سویرا اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی
وہ دونوں یونیورسٹی کا چکر لگا چکی تھیں اور اب اینا اسے گھر واپس چھوڑنے جا رہی تھی
” اینا سس !! کیا یہاں کوئی پاکستانی شاپ ہے ؟ ” سویرا نے سوال کیا
” ایشین اسٹورز تو بہت ہیں ! کیوں تمہیں کچھ چاہئیے کیا ؟؟ ”
“تھوڑی سی گروسری کرنی تھی اگر آپ برا نا مانیں تو !! ” وہ ہچکچائی
________________________________________
وہ آج صبح سے ہی بہت پرجوش تھی شہریار نے اسے رات ڈنر پر انوائیٹ کیا تھا اس وقت وہ شہر کے ایک مشہور و معروف ڈیزائنر شاپ میں موجود اپنے لئیے ڈریس تلاش کررہی تھی کئی گھنٹوں کی خواری کے بعد بالآخر اسے ایک لباس پسند آہی گیا تھا ۔۔۔
سفید سلیولیس بلاؤز جس پر ملٹی شیڈ کڑھائی تھی ساتھ ہی بلیک شارٹ اسکرٹ ۔۔۔
” واؤ !!! ”
” شیری مجھے جب اس لباس میں دیکھے گا تو دیکھتا ہی رہ جائیگا ۔۔۔” اس نے فخر سے سوچا
اس نے ٹاپ کو خود سے لگا کر آئینہ میں دیکھا
” بیوٹیفل ۔۔۔۔”
پیچھے سے جونس کا عکس آئینے میں ابھرتا نظر آیا وہ تیزی سے مڑی
” جونس تم ادھر !!! ”
“یس سویٹ گرل شاپنگ پر آیا تھا کہ تم نظر آگئی ویسے یہ ڈریس کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے آؤ آج میری پسند سے ڈریس لو ۔۔۔” وہ اس کے ہاتھ سے ٹاپ اور اسکرٹ لیکر سیلز گرل کو پکڑاتے ہوئے بولا
” جونس !! اتنا پیارا تو ہے ۔۔۔۔” وہ غصہ دباتے ہوئے بولی
” نہیں اس میں تمہارے وجود کی خوبصورتی نمایاں ہو گی جو مجھے گوارا نہیں ۔۔” وہ سختی سے بولا
عروہ کے تو چودہ طبق روشن ہو گئے یہ انگریز کی اولاد خواہ مخواہ اس پر اپنا حق جتا رہا تھا
” جونس میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ مجھے اپنی لائف میں انٹرفئیرنس پسند نہیں ہے اور میں تمہاری بات کیوں مانوں ؟؟ اسٹے اوے فرام می ۔۔” وہ تپ کر بولی
” میرے خیال سے ہم اچھے دوست ہیں اب تم اپنے ننھے سے دماغ پر زور مت ڈالو ۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتے ہوئے بولا
” تم بہت برے ہو ۔۔۔” وہ خفگی سے بولی
” اور تم بہت خوبصورت میرا مطلب اچھی دوست ہو ۔۔۔۔”
” اٹس یو ؟؟؟ میری تعریف کررہے ہوں ؟؟ لاسٹ ٹائم ڈنر پر تو مذاق اڑا رہے تھے ۔۔۔۔”
وہ اسے باتوں میں الجھائے ہوئے ایک ڈسپلے کے پاس رکا ہلکے سبز کلر کی خوبصورت سی میکسی تھی اس نے سیلز گرل کو اشارہ کیا
” میڈم کے سائز کا نکلوائیں ۔۔۔”
سیلز گرل ہینگر میں لباس لئیے پاس آئی
” عروہ یہ ایوننگ ڈریس ٹرائے کرو۔ ۔ ” اس نے عروہ کو اشارہ کیا
عروہ نے ایک نظر میکسی پر ڈالی جو نہایت ہی بیش قیمت تھی اور اندر ٹرائل روم کی طرف بڑھی ۔۔
جونس سگار سلگائے فون پر بات کرتے ہوئے عروہ کا ویٹ کررہا تھا جب وہ سامنے سے آتی ہوئی نظر آئی سبز لباس اس کی آنکھوں سے میل کھا رہا تھا سنہرے بالوں کے ہالے میں سرما کی دھوپ سا دمکتا روپ لئیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔
” ایسے کیا دیکھ رہے ہو ۔۔۔” عروہ نے پاس آ کر اسے ٹوکا
” یہ لباس تم پر بہت جچ رہا ہے تم چینچ کرو میں تب تک پیمنٹ کرتا ہوں ۔۔۔”
” میرا ڈریس تم کیوں ہے کرو گے ؟؟ ویسے تمہیں پتا بھی ہے کہ میں یہ ڈریس کیوں لے رہی ہوں ؟؟ ”
” آئی تھنک ایک جینٹلمین کے ہوتے ہوئے لیڈی پیمنٹ کرے یہ مجھے منظور نہیں ہے باقی یہ میری طرف سے ایک پیاری سی دوست کو گفٹ بس اب تم جلدی سے ایک اپنے جیسی کیوٹ سی ایشین گرل مجھے ڈھونڈ کر دو ۔۔۔”
” میرے جیسی تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی جونس بٹ سوری میں تو بک ہوں شیری کے ساتھ ۔۔۔” وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی
****************
پورا دن اینا کے ساتھ گزار کر وہ حلال گروسری سٹور سے کچھ کھانے پینے کا سامان لیتی ہوئی گھر واپس آگئی تھی ۔۔۔۔
” اوکے سویٹی !! تم اپنا خیال رکھنا اگر کبھی بھی کوئی ہیلپ چاہئیے ہو تو مجھے ضرور بتانا ۔۔۔” اینا پیار سے اس کے گال کو چومتے ہوئے بولی
سویرا نے اثبات میں سر ہلایا اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے بھلا آج سے پہلے کب کسی نے اتنے پیار سے ، اتنی محبت سے اس سے بات کی تھی ۔۔
آج وہ بہت خوش تھی اسے اپنے چاروں جانب رنگ ہی رنگ بکھرے نظر آرہے تھے وہ اپنے خوابوں کی جاگتی آنکھوں سے تعبیر دیکھ رہی تھی ٹھیک ایک ویک بعد اس کی میڈیکل کی کلاسس شروع ہونے والی تھیں وہ بہت پر امید تھی۔۔
بینک ، یونیورسٹی ، بس اسٹاپ ایک ایک چیز وہ دیکھ آئی تھی ادھر کے موسم کے لحاظ سے کچھ گرم کپڑوں کی شاپنگ بھی کی تھی جس میں اینا نے اس کی بہت مدد کی تھی اور اب اس وقت سارے شوپرز اپنے کمرے میں رکھنے کے بعد اپنے لمبے بالوں کا جوڑا بنائے آستین اوپر کئیے کچن میں کھڑی چکن کڑھائی بنا رہی تھی مانا کہ تنہائی کا احساس تھا لیکن دل خوش تھا
یہ گھر اسے اپنا اپنا سا لگ رہا تھا ادھر کوئی بھی اسے منحوس کہنے والا برا بھلا کہنے والا نہیں تھا ۔۔۔
” شاید انہیں یہ دیسی کھانے پسند نا ہوں !! لیکن کیا مجھے ان کیلیئے بھی کچھ بنانا چاہئیے ؟؟ ” چمچہ ہلاتے ہوئے اس نے سوچا
” شہریار !! آپ اب اتنے بھی برے نہیں ہیں جس طرح آپ مجھے اپنے گھر رکھ رہے ہیں ، پڑھنے کا موقع دے رہے ہیں اللہ نے چاہا تو میں بہت جلد یہ احسان اتار دونگی ۔۔۔” وہ نازک سی کومل سی لڑکی بہت خوش تھی
***************
وہ اچھی خاصی ریش ڈرائیونگ کررہا تھا ڈرائیور کو اس نے چھٹی دے دی تھی آج کا پورا دن پینڈنگ کام نبٹاتے ہوئے گزرا تھا اب وہ جلد از جلد گھر پہنچ کر آرام کرنا چاہ رہا تھا ۔۔
ابھی گاڑی مین روڈ سے گھر کی سڑک کی طرف موڑی ہی تھی کہ ڈیش بورڈ پر رکھا اس کا سیل فون بجنے لگا گاڑی سائیڈ پر روک کر اس نے نمبر دیکھا ۔۔۔
” شاہ بی بی ۔۔۔”
اسے اپنی تھکن لمحوں میں غائب ہوتی محسوس ہوئی زندگی میں کچھ لوگ اپنا الگ مقام رکھتے ہیں جن کے بغیر زندگی ادھوری سی لگتی ہے جن سے جڑا رشتہ اور تعلق ہر شئے سے بالاتر ہوتا ہے شاہ بی بی بھی شہریار کی زندگی میں ایسا ہی مقام و مرتبہ رکھتی تھیں انہیں کی وجہ سے آج وہ اپنی ضد چھوڑ کر سویرا کو ساتھ لانے پر مجبور ہوا تھا ۔۔۔
” اسلام علیکم شاہ بی بی ۔۔۔۔”
” وعلیکم السلام شیرو بیٹا !! کیسے ہوں؟ ”
” میں ٹھیک ہوں شاہ بی بی ، آپ بتائیں آپ کیسی ہیں ؟ بابا سائیں کیسے ہیں ۔۔؟ ”
” میں بھی ٹھیک ہوں اور سلیم بھی ٹھیک ہے تم نے سویرا کو قبول کیا عزت دی بس اب کوئی فکر نہیں ۔۔”
” شاہ بی بی !! ابھی قبول کرنے کیلیئے آپ نے ایک سال کا ٹائم دیا ہے یہ یاد رکھئیے گا ۔۔۔”
” شیرو بچے !! سب یاد ہے اچھا یہ بتاؤ تمہیں سویرا کیسی لگی ؟؟ اچھی لڑکی ہے اور دیکھنا بہت اچھی فرمانبردار بیوی ثابت ہو گی ۔۔۔”
” اچھا جب سے وہ گئی ہے ایک بار بھی بات نہیں ہوئی ذرا اسے فون تو دو ۔۔۔” شاہ بی بی نے حکم دیا
“شاہ بی بی میں ابھی باہر ہوں گھر جا کر آپ کی بات کرواتا ہوں ۔۔۔” اس نے ادب سے کہا
” ابھی دو دن بھی نہیں ہوئے اور تم اسے گھر میں اکیلا چھوڑ کر خود باہر پھر رہے ہو ؟ یاد رکھو شاہو پورا ایک سال تم نے اسے بیوی بنا کر رکھنے کا وعدہ کیا ہے ۔۔۔”
” شاہ بی بی !! اب کیا آفس بھی اسے لیکر جاؤ ؟ مرد ہوں کاروبار کے ہزاروں کام ہوتے ہیں ملنا ملانا ہوتا ہے اب ہر وقت تو اس کے پلو سے بندھا نہیں رہ سکتا ۔ پر آپ فکر مت کریں آپ کی لاڈلی ٹھیک ہے ۔۔”
” ٹھیک یاد سے بات کروا دینا اور اپنا بھی خیال رکھنا ۔۔۔” شاہ بی بی نے بات ختم کی
اس نے فون واپس ڈیش بورڈ پر رکھا اور تیزی سے گاڑی دوڑاتا ہوا گھر کی طرف مڑا
شہریار گاڑی لاک کرتا ہوا تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوا ہوا تو اسے کچن کی لائٹ چلتی نظر آئی اندر سے کھٹر پٹر کی آوازیں آرہی تھیں تھی اور اور کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پورے کچن میں پھیلی ہوئی تھی وہ کچن کے کاؤنٹر تک آیا سامنے ہی گلابی لباس میں ملبوس سویرا بڑے انہماک سے پتیلی میں چمچ ہلا رہی تھی اس کی نظریں اس کے گلابی چہرے پر اٹھیں آور ایک لمحے کو جم سی گئی تھیں کچھ لمحے بنا پلکیں جھپکے وہ اسے دیکھتا رہا جو بڑے ہی مگن انداز میں کھانا پکا رہی تھی بالوں کا اونچا جوڑا بنایا ہوا تھا جس سے اس کی نازک سی گردن اور واضح ہو رہی تھی ۔۔۔
” یہ محترمہ ادھر اتنے آرام سے ہے اور ادھر گھر والوں نے فون کر کر کے دماغ کھا لیا ہے ۔۔۔”
اس نے جیب سے گاڑی کی چابی نکالی اور زور سے ریک پر رکھی۔۔۔
وہ جو بڑے آرام سے کام میں مگن تھی چابیوں کی کھنک سن کر چونکی تو سامنے ہی شہریار چابی اور اپنا بریف کیس ریک پر رکھ دیا تھا اس نے خفیف سا ہوتے ہوئے اپنا دوپٹہ سر پر رکھا ۔۔
” اسلام علیکم !! آپ آگئے ۔۔۔” سویرا اسے سلام کیا
” وعلیکم السلام ۔۔۔” وہ روکھے پن سے جواب دیتا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا
سویرا نے چکن کڑھائی کا برنر بند کیا اور ٹرے میں پانی کا گلاس نفاست سے رکھ کر اس کے کمرے کے دروازے پر ناک کیا
” یس کم ان ۔۔۔۔”
وہ جھجکتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی
” یہ پانی ۔۔۔” اس نے ٹرے بڑھائی
” تھینکس ۔۔۔۔” وہ گلاس اٹھاتے ہوئے بولا
“کھانا لاؤ آپ کیلیئے ۔۔۔۔؟ ” وہ سادگی سے پوچھ رہی تھی
” نہیں ابھی کافی لے آؤ ۔۔۔۔” وہ نا چاہتے ہوئے بھی کہہ اٹھا
وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی چلی گئی
“مجھے اتنا نہیں سوچنا چاہیے آفٹر آل وہ میری کزن بھی تو ہے ایک سال ہی کی تو بات ہے خواہ مخواہ ٹینشن کری ایٹ کرنے سے کیا ہوگا ۔۔۔” اس نے سر جھٹکا اور پانی کا گلاس رکھ کر شاور لینے کے لیے اٹھ گیا
سویرا نے جلدی سے کافی میکر آن کیا اور ساتھ ساتھ تھوڑے سے چاول ابالنے لگی اسے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں شہریار اس کے اس طرح گروسری کرنے اور کھانا پکانے پر ناراض نا ہوجائے جس طرح وہ روکھے انداز میں سلام کا جواب دیکر اندر گیا تھا وہ گم سم سی ہو گئی تھی لیکن اب اس نے اس کے ہاتھ سے پانی لیا اور کافی کا بھی کہا تھا یہ اس کا حوصلہ بڑھا رہے تھے ۔۔۔
وہ کافی تیار کرکے اس کے کمرے میں رکھ آئی تھی اور اب ڈنر فائنل کررہی تھی کہ باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی پھر پینسل ہیل کی ٹک ٹک اندر آتی ہوئی لگی ۔۔۔
” شاید اینا !! مگر اس نے دروازہ کیسے کھولا ؟ ” سویرا اپنے ہاتھ صاف کرتی ہوئی کچن سے نکلی.
___________________________________________
وہ اپنے ہاتھ صاف کرتی ہوئی کچن سے نکلی ہی تھی کہ سامنے سبز میکسی میں ملبوس سانچہ میں ڈھلا سراپا سنہرے گھنگھریالے بال ہلکا ہلکا سا میک اپ لئیے لئیے بالکل باربی ڈول جیسی لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔۔
******************
عروہ اپنی دھن میں مگن اچھی طرح سے تیار ہو کر شہریار سے ملنے کیلئے نکل گئی تھی شیری کے پاکستان جانے سے پہلے اس نے زبردستی گھر کی چابیاں اس سے لی تھیں تاکہ پودوں کو پانی دے سکے اور جب جب شیری یاد آئے گھر جاکر وقت گزار سکے آج موقع تھا چابیاں بھی واپس کرنی تھیں اور ساتھ ساتھ شیری سے شادی کا ، اس کے پیرنٹس کا سب پوچھنا تھا وہ گاڑی پارک کرکے تیزی سے گھر کی جانب بڑھی مین دروازے پر پہنچ کر کلچ میں سے پرفیوم نکال کر اسپرے کیا ہونٹوں پر لپ گلوس لگا کر بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے چابی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی لابی سے گزر کر اندر داخل ہوئی تو کچن کی لائٹ جل رہی تھی اس سے پہلے وہ مزید آگے بڑھتی ایک نوجوان خوبصورت لڑکی کچن سے نکلتی نظر آئی عروہ کا دماغ بھک سے اڑ گیا ۔۔۔
“تم ۔۔۔۔؟ ” عروہ شاک سے اسے دیکھ رہی تھی شیری کے گھر میں ایک لڑکی ، جوان لڑکی کی موجودگی اتنی شاکنگ تھی کہ وہ کچھ پوچھ بھی نہیں پائی بس اسے دیکھے جا رہی تھی
سویرا اس انجان لڑکی کو اچانک سے اپنے سامنے پاکر حیران تھی جو بنا پلکیں جھپکے اسے دیکھے چلی جا رہی تھی
” جی فرمائیے ۔۔۔۔” سویرا نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا
” شیری !!!! شیری ۔۔۔۔۔” وہ سویرا کو اگنور کرتے ہوئے چلائی
” وہ اندر ہیں آپ پلیز بیٹھیں میں انہیں اطلاع کرتی ہوں ۔۔۔”
” سنو !! تم کون ہو ؟ ادھر کیا کررہی ہوں ؟؟ ” عروہ نے تیزی سے پوچھا اس کے انداز میں ایک وحشت سی تھی
سویرا عمر میں کم سہی مگر وقت اسے بہت کچھ سکھا چکا تھا خاص کر لوگوں کے رویے اس لڑکی کا مالکانہ انداز میں گھر میں داخل ہونا شیری کی پکار لگانا سب کچھ تو واضح تھا وہ بڑی مشکل سے مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹی
” آپ اندر تو آئیں ادھر کچن میں میں کیوں کھڑی ہیں ۔۔۔۔” وہ بمشکل تھوک نگلتے ہوئے بولی
کچھ بھی تھا یہ تو طے تھا کہ وہ شہریار کی زندگی کا ایک ناپسندیدہ کردار تھی جو زبردستی اس کی زندگی میں شامل ہوئی تھی اور وہ شہریار کی زندگی کو مزید الجھانا نہیں چاہتی تھی سامنے کھڑی لڑکی کے تاثرات پریشانی اور تفکر سے اس کے اور شہریار کے بیچ کا رشتہ صاف واضح ہو رہا تھا
عروہ چلتی ہوئی صوفہ پر آکر بیٹھ گئی اس سے پہلے سویرا پلٹ کر شہریار کو بلانے جاتی اس نے سوال اٹھایا
” سنو تم کون ہو ؟ اپنا تعارف تو کرواؤں ۔۔۔” عروہ نے پوچھا
” جی وہ میں میں ۔۔۔۔” سویرا ٹھیک ٹھاک گھبرا گئی
” یہ سویرا فاروق ہیں میری فرسٹ کزن ۔۔”شہریار اندر داخل ہوتے ہوئے بولا
سویرا نے پرسکون ہو کر شہریار کو دیکھا اور تیزی سے باہر نکل گئی
” شیری یہ تمہارے گھر میں کیا کررہی ہے ؟؟ اور تم نے اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی ۔۔”
” ریلیکس یار !! بچی ہے ادھر پڑھنے آئی ہے اور ابھی تو آئی ہے اس میں چھپانے والی کون سی بات ہے ؟؟ ”
” بچی ؟؟؟ آر یو ان یور سینسس شیری ؟؟ وہ سترہ سال کی پرکشش لڑکی تمہیں کس اینگل سے بچی لگ رہی ہے ؟؟ ”
” کم آن عروہ !! میں اور تم اس سے گیارہ سال بڑے ہیں ہمارے لئیے تو وہ بچی ہی ہے ۔۔۔”
” پھر بھی تم نے مجھے اس کی آمد کا بتایا کیوں نہیں ؟؟ ”
” وہ میرے ساتھ ہی آئی تھی اب جلد ہی اس کا اسکول وغیرہ شروع ہو جائیگا خیر تم چھوڑو یہ سب چلو تمہارا فیورٹ ڈنر آرڈر کرتے ہیں ۔۔” وہ سیل فون اٹھاتے ہوئے بولا
ابھی وہ فون پر چائینیز آرڈر کر فارغ ہوا ہی تھا کہ سویرا اندر داخل ہوئی
” آپ چائے لینگی یا کافی ؟؟ ” اس نے پاس آ کر پوچھا
” ارے نہیں اس فارمیلٹی کی ضرورت نہیں یہ میرا اپنا گھر ہے مجھے جو چاہئیے ہوگا میں خود لے لونگی ۔۔۔۔” عروہ چبھتے ہوئے لہجہ میں بولی
” سنو لڑکی !! تم ڈنر ٹیبل سیٹ کرو ابھی ڈیلوری بوائے آتا ہی ہوگا ۔۔۔۔” شہریار نے سویرا کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا
” شیری میں کوئی پہلی بار تو نہیں آئی اس گھر کا چپہ چپہ مجھ سے واقف ہے میں ہمارے لئیے ٹیبل خود سیٹ کر لونگی تم اس لڑکی کو زحمت مت دو ۔۔۔” عروہ ٹھنک کر کہا
سویرا خاموشی سے باہر نکل کر سیدھی گیسٹ روم جو آجکل اس کا ٹھکانہ تھا کی جانب بڑھ گئی
____________________________________________
کھانا ڈیلیور ہو چکا تھا وہ اور عروہ بیگ لیے کچن میں آئے کچن میں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی سامنے شیشے کی میز پر دو افراد کے لئیے برتن بھی سیٹ تھے
” چلو ٹیبل تو سیٹ ہے ۔۔۔” وہ ٹیبل پر شاپر رکھ کر کھولتے ہوئے بولی
شہریار نے تاسف سے کچن میں پکے کھانے کو دیکھا اور ڈش اٹھا کر ٹیبل کی جانب بڑھا عروہ نے کھانا ڈش آؤٹ کیا اتنے میں وہ کوک کے کین نکال کر لایا
” کیا ہوا تمہیں بھوک نہیں ہے کیا ؟؟ ” عروہ نے اسے بیدلی سے نوڈلز میں فورک ہلاتے دیکھ کر پوچھا
” نہیں ۔۔۔۔”
” نہیں ؟؟؟ کیوں نہیں ہے بھوک ؟ کہیں تم نے اس لڑکی کے ساتھ تو کھانا نہیں کھا لیا ؟؟ ” وہ شکی لہجے میں بولی
” کم آن عروہ ناؤ اٹس ٹو مچ !! میں آج فرسٹ ڈے آفس گیا تھا بہت تھک گیا ہوں اوپر سے تم فضول بکواس کر کے میرا دماغ کھا رہی ہو ۔۔۔” وہ کرسی گھسیٹ کر پلیٹ کھسکاتے ہوئے کھڑا ہو گیا
عروہ تیزی سے کھڑی ہوئی اور چلتے ہوئے اس کے پاس آئی
” سوری شیری !! تمہیں برا لگا لیکن میں کیا کروں ایک تو اتنے دن بعد ہم مل رہے ہیں اور تم نے مجھے غور سے بھی نہیں دیکھا تعریف تک نہیں کی بس جب سے ملے ہیں وہ لڑکی بیچ میں آئی ہوئی ہے ۔۔۔” وہ اس کے بازو پر سر رکھتے ہوئے بولی
” اٹس اوکے !! میں بہت تھک گیا ہوں آرام کرونگا تم بھی ابھی گھر جاؤ ہم بعد میں بات کرینگے ۔۔۔”وہ بیزار سا ہوا
” ٹھیک ہے جیسا تم کہوں ۔۔۔” عروہ نے پیار سے اس کے بازوؤں پر ہاتھ پھیرا
__________________________________________
عروہ کے جانے کے بعد وہ لائٹ آف کرتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھا کمرے میں داخل ہو کر سبھی بستر پر بیٹھا ہی تھا کہ اس کا فون بجنے لگا پاکستان سے کال تھی
” او گاڈ !! ابھی تو شاہ بی بی سے اس لڑکی کی بات کروانی تھی ۔۔۔۔”
وہ فون بند کرتے ہوئے اٹھا اور سویرا کے کمرے کی جانب بڑھا دروازے پر ناک کرنے کے لئیے ہاتھ رکھا ہی تھا کہ دروازہ کھلتا چلا گیا
اندر ہلکی آواز میں ٹی وی چل رہا تھا اور سویرا بستر پر سر رکھے کارپٹ پر بیٹھی ہوئی تھی دوپٹہ شانوں سے پھسل رہا تھا ، اس کی لمبی گھنی چوٹی فرش کو چھو رہی تھی وہ گہری سانس لیکر کھنکھارنے ہوئے اندر داخل ہوا
اس کے کھنکھارنے کی آواز سن کر سویرا ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی
” آپ ۔۔۔۔”
” تم نے کھانا نہیں کھایا ؟؟ ”
” جی بس وہ بھوک نہیں تھی ۔۔۔۔” وہ شرمندگی سے بولی
” جب بھوک نہیں تھی تو پکایا کیوں تھا ؟؟ ” اس نے سوال کیا
” چلو جا کر کھانا گرم کرو ۔۔۔۔” وہ تحکمانہ انداز میں بولا
سویرا حیرانگی سے اسے دیکھتے ہوئے باہر نکل گئی سامنے ٹیبل پر سارا بازاری کھانا ایسے ہی پڑا تھا لگتا تھا کسی نے بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا اس نے خاموشی سے وہ سارا کھانا مائیکرو ویو میں گرم کر کے رکھا پھر ساتھ ہی ساتھ اپنی بنائی ہوئی چکن کڑھائی اور سارے چاول نکالے ٹیبل سیٹ کر کے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی جہاں شہریار صوفہ پر بیٹھا ٹی وی پر بزنس نیوز دیکھ رہا تھا وہ اندر داخل ہوئی اب اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے کیسے مخاطب کرے
” سنئیے ۔۔۔۔۔” وہ دھیرے سے بولی
” ہاں بولو ۔۔۔۔” وہ ریموٹ سے آواز کم کرتے ہوئے بولا
” کھانا لگا دیا ہے ۔۔۔” وہ سر جھکائے کھڑی تھی
” تو میں کیا کروں ؟؟ ” وہ ابرو اچکا کر بولا
” آپ !! آپ نے کہا تھا کھانا لگانے کو ۔۔۔”
” میں تو کھانا کھا چکا ہوں ۔۔۔تم جاؤ کھانا کھا لو پھر میں تمہاری شاہ بی بی سے بات کرواتا ہوں ۔۔” وہ بڑے اطمینان سے بولا
سویرا کے خوبصورت چہرے پر ایک یاسیت سی لہرا گئی تھی وہ سر جھکائے ہوئے خاموشی سے پلٹی
شہریار ایک گہری سانس لیتے ہوئے اٹھا اور کچن میں پہنچا جہاں سویرا ٹیبل سے برتن اٹھا رہی تھی
” لسن گرل !! یہ کھانا پینا چھوڑ کر تم کیا ثابت کرنا چاہتی ہو ؟؟ مجھ پر اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔”
سویرا نے نم آنکھوں سے اس کٹھور کو دیکھا
” آج کچھ باتیں طے کر لیں ۔۔۔تم میری ذمہ داری ہر گز نہیں ہو اس گھر کو تم اپنے لیے ایک ہاسٹل سمجھ سکتی ہوں خاموشی سے اپنی زندگی گزاروں پڑھائی کرو اور اپنا کیرئیر بناؤ خود کو اسٹیبلش کرو اور میری جان چھوڑو سمجھ رہی ہوں میری بات ۔۔۔”
” جی ۔۔۔” سویرا نے اثبات میں سر ہلایا
” کھانا کھا کر یہ سب سمیٹ کر میرے کمرے میں آؤ میں تمہاری شاہ بی بی سے بات کرواتا ہوں اور خیال رکھنا ہمارے درمیان میں ، اس گھر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے متعلق پاکستان میں کچھ نہیں کہنا بس سب ٹھیک ہے کہوں اور بات ختم ۔۔۔۔” وہ اسے وارن کرتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا
____________________________________________
ایک میٹنگ نبٹا کر وہ ابھی آفس میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ عروہ اس کے سامنے آکر بیٹھ گئی
” اب کیسے ہو ۔۔۔”
” کیا مطلب ؟؟ ”
“مطلب بھی میں بتاؤ ؟؟ خیر چھوڑو یہ بتاؤ تمہاری اس کزن کا اور تمہارا کیا چکر ہے ؟ ”
” کیا بکواس ہے تم ایک بچی سے مجھے لنک کررہی ہوں ۔۔۔” وہ غرایا.
” خیر وہ اتنی بچی بھی نہیں ہے ۔۔۔” عروہ ہاتھ جھلاتے ہوئے سامنے بیٹھ گئی.
” اٹس انیف عروہ !! تم نے تو لگتا ہے قسم ہی کھا لی ہے ہر وقت شک ہر وقت ٹینشن اگر اتنی ہی بے اعتباری ہے تو پھر ادھر کیا کررہی ہو ؟؟ ختم کرو یہ سب کچھ ۔۔۔” وہ اکھڑ گیا تھا.
عروہ نے ایک نظر اس کے غصہ سے تپتے ہوئے چہرے پر ڈالی جو بھی تھا وہ شہریار کو نہیں چھوڑ سکتی تھی. چار سال سے اس کے ساتھ تھیں دونوں نے ایک ساتھ یونیورسٹی ختم کی تھی. اس نے جاگتی آنکھوں سے شہریار کے خواب دیکھے تھے اور اب !!!
” سنو شیری !! تم اس لڑکی کو چلتا کرو ویسے بھی ینگ لڑکی ہے دیکھنا جلد ہی کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ سیٹ ہو جائے گی ۔۔۔” عروہ نے اطمینان سے کہا.
شہریار کی آنکھوں میں حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات اتر آئے یہ اس کی برداشت کی حد تھی ۔۔۔
” عروہ !! ہر لڑکی بکاؤ نہیں ہوتی اور اسے کچھ بھی کہنے سے پہلے یہ مت بھولو وہ لڑکی میری کزن ہے ، میرے خاندان سے ہے ، میری ذمہ داری ہے وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے اور میں اسے سپورٹ کررہا ہوں ڈیٹس اٹ ۔۔۔۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولا.
شہریار کے انداز نے عروہ کے اندر شرارے بھر دئیے تھے. کچھ تو تھا جو شہریار جیسا لڑکیوں سے دور بھاگنے والا اس دبو سی لڑکی کیلیئے اس سے عروہ حسین سے الجھ رہا تھا.
” تو ٹھیک ہے تم اسے سپورٹ کرو انفیکٹ میں بھی اس کی ہیلپ کرونگی. لیکن دیکھو ایک جوان جہان لڑکی کا اس طرح تمہارے ساتھ اکیلے گھر میں رہنا ٹھیک نہیں ہے لوگ باتیں بنائیں گئے تمہیں اس دبو سی دیسی لڑکی سے لنک اپ کرینگے ، تم ایسا کرو اسے ہاسٹل بھیج دو اور جب ہاسٹل کی سہولت موجود ہے تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہئیے ۔۔۔” وہ چالاکی سے بولی.
” ہمممم ” شہریار نے عروہ کو دیکھا
” شیری ڈارلنگ !! وہ بچی ہے اپنا برا بھلا نہیں سمجھ سکتی اور میں بھی چاہتی ہوں کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے اپنا کانفیڈینس بڑھائے مستقبل بنائے ، تم اسے میرے حوالے کر دو میں سب سیٹ کر دونگی ۔۔۔” وہ آرام سے پینترا بدل کر بول رہی تھی.
” دیکھو عروہ !! میں اسے سپورٹ کررہا ہوں اور سمپل سی بات ہے گھر والوں نے مجھ پر بھروسہ کر کے اسے بھیجا ہے میں اسے تنہا تو نہیں چھوڑ سکتا. ابھی وہ اس شہر میں ، اس ماحول میں اجنبی ہے سال گزرنے دو وہ خود سیٹ ہو جائے گی ۔۔۔۔”
” پر شیری ۔۔۔۔۔”
” بس اب مزید ہم اس ٹاپک پر بات نہیں کرینگے تم اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ میری تم سے کمٹ منٹ ہے اور میں اپنے لفظوں سے مکرتا نہیں ہوں اس لیے اس طرح کی بے اعتباری والی باتیں کرنا بند کرو. ایسا نا ہو کہ مجھے اپنی کمٹ منٹ پر افسوس ہونے لگے ۔۔۔۔” وہ سرد لہجے میں بولا.
” میں ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوں. ہم دوست پہلے ہیں اور دوستوں میں ایک دوسرے پر ٹرسٹ کیا جاتا ہے. دوستی کا مان رکھا جاتا ہے اور شیری یاد رکھنا عروہ کو تم سے محبت ہی نہیں بلکہ تم پر اعتماد بھی ہے ۔۔۔” وہ سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی.
شہریار اس کی بات سن کر خاموش ہو گیا تھا. کہنے کو تو اس کے پاس بھی بہت کچھ تھا. اس نے سوچا تھا عروہ کو اپنے اور سویرا کے رشتے کی حقیقت بتائے گا لیکن عروہ کا شکی اور ہٹ دھرم انداز اسے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کر گیا تھا ۔اب جب سویرا کو یہاں لا کر شاہ بی بی کا ایک سال ساتھ گزارنے والا اسٹیپ لے ہی لیا تھا تو وہ کسی بھی قسم کی ناکامی افورڈ نہیں کرسکتا تھا. بس ایک سال ہی کی تو بات تھی پھر شاہ بی بی اس کی اور سویرا کی ناکام ازدواجی زندگی کو دیکھتے ہوئے ان کی طلاق کروا دیتیں اور وہ اس بندھن سے آزاد ہو جاتا. اس لیے ابھی عروہ کو نا بتانا ہی بہتر تھا. ویسے بھی اس نے سوچ لیا تھا کہ کچھ عرصے بعد وہ سویرا کو کسی ہاسٹل میں داخل کروا دیگا ۔۔
********************