شاہ بی بی تسبیح پڑھ رہی تھیں جب اجازت لیکر سویرا اندر داخل ہوئی
” اتنا اندھیرا شاہ بی بی !! لائٹ جلا دوں ؟؟ ” وہ سوئچ بورڈ کی طرف بڑھی
” نہیں بیٹی تم لائٹ چھوڑو اور ادھر میرے پاس آکر بیٹھو ۔۔۔” انہوں نے اپنے پاس جگہ بنائی
” جی شاہ بی بی ۔۔۔” وہ سیدھی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی
” شام سے شاہو آیا ہوا ہے اور تم اس سے ملنے تک نہیں آئی ؟؟”
” شاہ بی بی وہ میں !! ” اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے
” دیکھو سویرا زندگی سے اپنا حق اور اپنی محبت آگے بڑھ کر وصول کرنا سیکھو !!
میں چاہتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں خوشیوں کی مٹھاس ہی مٹھاس ہو تم اپنی زندگی ایسے جیو کے سب کو تم پر رشک آئے اور بیٹا شاہو اتنا برا نہیں ہے دیکھنا وہ تمہیں دنیا کی خوش نصیب عورتوں میں سے ایک بنا دیگا بس کچھ وقت لگے گا اور تمہیں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا ۔۔۔” انہوں نے رسان سے سمجھاتے ہوئے کہا
________________________________________
وہ پتا نہیں کتنے عرصے بعد اتنی گہری پرسکون نیند سویا تھا جب اس کی آنکھ کھلی ۔۔۔۔
شاہ بی بی کسی سے باتیں کر رہی تھیں
” شاہ بی بی !! میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں ڈاکٹر بن کر اپنے بابا کا خواب پورا کرنا چاہتی ہوں آپ پلیز یہ شادی کینسل کروا دیں میں ساری زندگی آپ کا یہ احسان نہیں بھولو نگی ۔۔۔”
دھیمے سروں میں ایک شفاف آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی اس نے اپنے چہرے سے چادر ہٹائی تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا
” ارے شاہو بیٹا اتنی جلدی اٹھ گئے !! ” شاہ بی بی کی نظر اس پر پڑی
سویرا کا چہرہ شہریار کا نام سن کر فق پڑ گیا تھا
” یہ یہ ادھر کیا کررہے ہیں پتا نہیں مجھے دیکھ کر کتنا چلائیں کیسا بی ہیو کریں مجھے یہاں سے چلا جانا چاہیے ۔۔”
وہ ہاتھ مسلتے ہوئے اٹھ کر جانے ہی لگی تھی کہ اسی وقت رخسار نے کمرے میں داخل ہو کر لائٹ جلائی پورا کمرہ جگمگا اٹھا شہریار کی آنکھیں ایک لمحے کو چندھیا سی گئی تھیں اس نے آنکھ مسلی اور کھڑا ہو گیا سامنے ہی نیلے لباس میں ایک بے انتہا خوبصورت پرکشش لڑکی کھڑی اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی اتنا بے داغ حسن دیکھ کر وہ ایک لمحے کو ٹھٹک گیا تھا تبھی اس کے کانوں سے شاہ ہی بی کی آواز ٹکرائی
” شاہو !! سویرا سے مل لو ۔۔۔!! سویرا بیٹی سلام کرو اپنے سر کے سائیں کو !! ” شاہ بی بی نے دونوں کو باری باری مخاطب کیا
شہریار نے ایک اچٹتی سی نظر شاہ بی بی کے پاس کھڑی اسے سلام کرتی سویرا پر ڈالی ۔۔
” شاہ بی بی میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں ڈنر پر ملتے ہیں ۔۔” وہ سویرا کو اگنور کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا
رخسار نے بڑے افسوس سے شرمندہ کھڑی سویرا کو دیکھا اور خود بھی الٹے قدموں شہریار کے پیچھے نکل گئیں
وہ ابھی اپنے کمرے میں آیا ہی تھا کہ تن فن کرتی رخسار اندر داخل ہوئیں
” یہ کیا بدتمیزی ہے شاہو ؟؟ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ”
” میں نے کیا کیا ہے ؟؟ ” اس نے الٹا سوال کیا
” تم سویرا کو سلام کا جواب دئیے بغیر اس طرح اگنور کر کے کیسے آگئے ؟؟ ”
” آپی پلیز !! میں پاکستان آگیا ہوں کیا یہ کافی نہیں ہے ؟؟ ”
“شہریار !! وہ اتنی پیاری ہے تم ایک نظر اسے دیکھ تو لیتے !! “
” آپی پلیز !! مجھے اس کے حسن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے آپ کھانا لگوائیں میں فریش ہو کر آتا ہوں ۔۔”
رخسار نے تاسف سے اسے دیکھا اور باہر نکل گئیں ان کے جاتے ہی شہریار نے اپنا فون نکالا آن کیا تو عروہ کی لاتعداد مس کالز آئی ہوئی تھی
” ایک تو یہ لڑکی بھی !! ” اس نے مسکراتے ہوئے عروہ کے میسجز پڑھے
” شیری آئی مس یو !!!
شیری تم پاکستان پہنچ گئے ؟؟
شیری مجھے نیند نہیں آ رہی
شیری تم فون کیوں نہیں اٹھا رہے ؟؟ ”
وہ آرام سے اپنے بیڈ پر بیٹھ کر عروہ کو فون ملانے لگا لیکن وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی
شہریار کیلیئے عروہ کا فون نا اٹھانا خاصا پریشان کن تھا وہ اسے دوبارہ فون ملانے لگا تو دوسری جانب مسلسل بیل ہونے پر بھی جب عروہ نے فون نہیں اٹھایا تو وہ اضطرابی کیفیت میں گھر گیا اسے عروہ کی فکر ہو رہی تھی ایک تو وہ اسے ساتھ نہیں لایا تھا اس پر عروہ جو ایک گھنٹہ بھی اس سے بات کئیے بغیر نہیں رہتی تھی حالانکہ کے شہریار نے کتنی بار اسے گھڑی گھڑی فون کرنے سے ٹوکا تھا لیکن وہ نہ جانے کس مٹی کی بنی ہوئی تھی کہ دن میں کئی بار بلا جواز اسے فون کرتی تھی جس سے وہ خاصا تنگ تھا اور اب وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی ۔۔۔
اس نے تنگ آکر اسے میسج لکھا
” عروہ کہاں ہو تم فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہو ۔۔۔ فون اٹھاؤ ”
_______________________________________
سنہری بالوں کی پونی بنائے پنک ٹاپ اور لانگ اسکرٹ کے اوپر کوٹ پہننے وہ لندن برج کے پاس کھڑی تھی شہریار کو گئے ابھی صرف چودہ گھنٹے ہی ہوئے تھے وہ انگلیوں پر حساب لگانے لگی لیکن یہ چودہ گھنٹے اسے چودہ صدیوں کے برابر لگ رہے تھے ذہن وسوسوں میں گھرا ہوا تھا عروہ نے جیب سے سیل فون نکال کر ایک بار پھر شہریار کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔
کچھ دیر بعد جھنجھلا کر فون واپس جیب میں ڈالا ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ وقفہ وقفہ سے بار بار اسے فون کر رہی تھی میسجز کررہی تھی اور شہریار اس کا فون اٹینڈ نہیں کررہا تھا شاید اس کا موبائل ہی آف تھا جس پر عروہ کو تشویش ہونے کے ساتھ ساتھ شدید غصہ بھی آرہا تھا وہ جب سے شہریار گیا تھا بےچین سی تھی رات بھر سوئی نہیں تھی
” ڈیم اٹ !! تم نے فون کیوں بند کیا ہوا ہے ؟؟ میری ذات کو اذیت دیکر تم ادھر آرام سے اپنے سو کالڈ گھر والوں کے ساتھ بزی ہو ۔۔۔” وہ بڑبڑائی
ابھی وہ کھڑی اپنا خون ہی جلا رہی تھی کہ اس کا فون بج اٹھا اس نے فون نکال کر چیک کیا
” شہریار کالنگ ” لکھا آرہا تھا ایک گہری سانس بھر کر اس نے فون کو دیکھا
” نہیں شہریار !! اب عروہ اتنی بھی ارزاں نہیں ہے کہ تم اسے جب جی چاہے اگنور کرو اور جب جی چاہے بات کرو ۔۔۔” اس نے غصہ سے فون بند کرکے جیب میں ڈالا اور پارکنگ کی طرف بڑھ گئی
فون وقفہ وقفہ سے بج رہا تھا جس سے عروہ کے دل کو تسکین مل رہی تھی لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ سب شہریار کو تڑپا کر ہی دم لے گی ۔۔۔
________________________________________
شہریار نے دو تین بار مزید عروہ کا نمبر ڈائل کیا لیکن جواب موصول نا ہونے پر تنگ آکر اس نے فون بیڈ پر اچھالا ہی تھا کہ دروازہ ناک ہوا
زاہدہ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوئیں
” اماں آپ !!! مجھے بلا لیتی ۔۔۔” وہ انہیں دیکھ کر حیران ہوا
” شہریار میرے شاہو !! انہوں نے اسے اپنے ناتواں بازوؤں میں بھرا
” کتنے سال بیت گئے کب سے ترس رہی تھی اپنی جان اپنے بیٹے کو سینے سے لگانے کے لیے پیار کرنے کیلئے ۔۔” وہ نم آنکھوں سے اس کا ماتھا چوم رہی تھیں
” اماں !! میں نے بھی آپ کو بہت مس کیا لیکن مجھے آج بھی اس بات کا افسوس ہے کہ ایک لڑکی کی خاطر آپ نے اپنے بیٹے کا ساتھ نہیں دیا ۔۔”
” شاہو وہ لڑکی بھی کوئی غیر تو نہیں تھی !! میرے ہاتھوں کی پلی بڑھی تھی اور تمہارے بابا سائیں بھی تمہاری غیر موجودگی سے ڈھے گئے ہیں تمہاری جدائی نے آج انہیں ہسپتال پہنچا دیا ہے ۔۔۔”
” اماں ! آپ فکر مت کریں کل شام تک بابا سائیں گھر آرہے ہیں میں مان تو رہا ہوں آپ لوگوں کی بات اب سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔”
” تو بیٹا کیا واقعی تم سویرا کو دل سے بیوی تسلیم کرو گے ؟؟ ”
” اماں !! اس رشتے میں دل تو ہے ہی نہیں مگر یہ بات آپ لوگ سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں اس لیے پلیز مجھ سے ایسے سوال مت کریں جن کا جواب میرے پاس نہیں ہے ۔۔”
” کیا باتیں ہو رہی ہیں ماں بیٹے میں ؟؟ اور اماں آپ شاہو کو کھانے کے لیے بلانے آئیں تھی اب جلدی چلیں سب انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔” رخسار نے دروازے کے اندر سے جھانک کر کہا
” چلو بیٹا !! کھانے کی میز پر سب کو انتظار کروانا اچھا نہیں لگتا ۔۔” زاہدہ کھڑے ہوتے ہوئے بولیں
بڑی آبنوسی میز پر طرح طرح کے لوازمات سجے ہوئے تھے اس وقت گھر کے سب ہی افراد میز پر موجود تھے شہریار کے آتے ہی شاہ بی بی نے کھانا شروع کرنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ رخسار سے مخاطب ہوئیں
” رخسار !! سویرا سے کہو میز پر آئے اب کچن کی جان چھوڑ دے ۔۔”
” جی شاہ بی بی ۔۔۔” رخسار تابعداری سے سر ہلاتی ہوئی کھڑی ہوئی
” رک جاؤ رخسار !! اور شاہ بی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے وہ منحوس سویرا کبھی آئی ہے میز پر جو آپ اسے منحوسیت پھیلانے کے لیے آج بلا رہی ہیں ؟؟ سن لیں اگر وہ ادھر آئی تو میں یہاں نہیں بیٹھوں گی ” فرزانہ کاٹ دار لہجہ میں بولیں
شہریار حیرانی سے فرزانہ پھوپھو کا تحقیر آمیز رویہ دیکھ رہا تھا ۔شاہ بی بی نے ایک گہری نظر شہریار اور فرزانہ پر ڈالی اور پھر سب کو کھانا شروع کا اشارہ کیا ۔۔
“زاہدہ شہریار فارغ ہو کر میرے کمرے میں آؤ ۔۔” وہ جلد ہی پلیٹ پرے کرتے ہوئے اٹھ گئی تھی
شہریار نے رخسار کی طرف دیکھا تو وہ ناسمجھی سے کندھے اچکا کر رہ گئی
_______________________________________
شاہ بی بی کمرے میں تسبیح پڑھ رہی تھی جب اجازت لیکر زاہدہ اور شہریار اندر داخل ہوئے
” شاہ بی بی آپ نے بلایا تھا ؟؟ ”
” آؤ بیٹھو !! ” انہوں نے اشارہ کیا
شہریار ان کے نماز کے تخت پر بیٹھ گیا اور زاہدہ سامنے رکھے صوفہ پر بیٹھ گئی
” شہریار !! تمہاری واپسی کب تک ہے ؟؟ ” شاہ بی بی نے سنجیدگی سے پوچھا
” شاہ بی بی !! بچہ ابھی آج ہی تو آیا ہے اور آپ واپسی کا پوچھ رہی ہیں ۔۔” زاہدہ نے شکوہ کیا
” شہریار !! کل تمہارے بابا سائیں گھر آ رہے ہیں ٹھیک تین دن بعد جمعہ کا مبارک دن ہے اسی دن رخصتی رکھ لیتے ہیں ۔۔ ” شاہ بی بی سنجیدگی سے بولیں
” آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے نا کہ اگر ایک سال تک بھی ہماری انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو سکی تو پھر آپ مجھے یہ رشتہ توڑنے سے نہیں روکیں گئیں ” شہریار بلا کی سنجیدگی سے بولا
” سب یاد ہے بس تم رخصتی کروا کر اپنی نئی زندگی شروع کرو باقی سب اب وقت بتائے گا ۔لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دو تمہاری واپسی کب کی ہے تاکہ سویرا کے ٹکٹ کا انتظام کیا جائے ۔۔ ” شاہ بی بی آرام سے بولیں
” شاہ بی بی !! ” شہریار تیزی سے سیدھا ہو کر بیٹھا
” سویرا میرے ساتھ کیسے جاسکتی ہے ؟؟ ابھی میں اسے یہی چھوڑ کر جاؤں گا ہاں ملنے آتا رہوں گا اس کی آپ فکر مت کریں ۔۔۔” اس نے اپنا پلان بتایا
” نہیں شاہو !! بات سال ایک ساتھ گزارنے کی ہوئی تھی اب یا تو تم سویرا کو ساتھ لیکر جاؤ یا پھر خود ایک سال تک ادھر ہی رہو ۔۔ ” وہ دو ٹوک لہجے میں بولیں
” شاہ بی بی آپ بات کو سمجھیں لندن جانا ہے کوئی کراچی یا لاہور نہیں اس کیلئیے کاغذات پاسپورٹ وغیرہ بنوانا ہوگا ویزا لگے گا اور ادھر میرا کاروبار چل رہا ہے سارا کام ملازمین پر چھوڑ کر آیا ہوں میں نہیں رک سکتا ۔۔” وہ سر مسلتے ہوئے بولا
” کاغذات کی تم فکر مت کرو وہ ہم نے پہلے ہی تیار کروا رکھے ہیں سویرا کا داخلہ بھیج دیا تھا اسے اسٹوڈنٹ ویزا مل گیا ہے اب وہ تمہارے ساتھ ہی جائیگی ۔۔۔” شاہ بی بی نے اطمینان سے کہا
” اسٹوڈنٹ ویزا !! یعنی اب میں اس کی پڑھائی کے چونچلے بھی اٹھاؤں گا ؟؟ بہتر نہیں ہے کہ آپ اسے پہلے پڑھ لینے دیں پھر اس شادی وادی کے چکروں میں ڈالیں ۔۔۔” وہ بھنا اٹھا
” سویرا ہماری پوتی ہے اپنے باپ کی زمین جائیداد کی اکلوتی وارث !! وہ کوئی عام گری پڑی لڑکی نہیں ہے اس کے ویزا ٹکٹ اور داخلے کی فیس وہ بھی پورے سال کی سب ادا ہو چکی ہے اب تم کہو تو تمہاری بیوی کے روٹی پانی کا خرچہ بھی ہم بھجوا دینگے ۔۔” شاہ بی بی نے اس کی طبیعت صاف کی
” مجھے سوچنے کے لئیے وقت چاہئیے ؟؟ ” شہریار ٹھیک ٹھاک چکرا گیا تھا اس کے سارے پلان پر شاہ بی بی نے پانی پھیر دیا تھا
” اب مزید کیا سوچنا ہے ؟؟ کل تمہارا باپ اسپتال سے آرہا ہے صرف تمہاری اور سویرا کی خوشی دیکھنے اس کی بیماری ٹینشن سب ختم ہو جائے گی جب وہ اپنے بھائی سے کیا وعدہ پورا ہوتا دیکھے گا ۔۔۔” زاہدہ نے اسے گھورا
___________________________________________
شہریار اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا لیپ ٹاپ پر اپنی آفیشل ای میلز چیک کررہا تھا جب رخسار دودھ کا گلاس لیکر اندر داخل ہوئی
” شاہو یہ دودھ لے لو ۔۔ ” انہوں نے گلاس اس کی جانب بڑھایا
” تھینکس آپی !! میں اب دودھ نہیں پیتا آپ واپس لے جائیں ۔۔۔” وہ روکھے لہجے میں بولا
” شیرو !! تم بہت بدل گئے ہو ۔۔” رخسار نے شکوہ کیا
” میں نہیں بدلا ہوں بس میں نے عادتیں بدل لی ہیں ۔۔۔” وہ دوبارہ اپنی میلز کی طرف متوجہ ہوا
” شیرو ”
” ہوں ”
” کیا سوچ رہے ہوں ؟؟ ”
” کچھ نہیں آپی اب بچا کیا ہے سوچنے کو ۔۔”
” شیرو میرے بھائی ہم دوست بھی تو ہیں !! کیا تم اپنی باتیں اپنے وسوسے مجھ سے شئیر نہیں کروگے ؟؟ ”
” نہیں آپی !! اب میرا کوئی دوست نہیں ہے بس صرف رشتے ہیں ۔۔۔”
” تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو ؟؟ ”
” اس چار پانچ سال کے عرصے میں میں اتنا تو جان ہی گیا ہوں کہ میرا کوئی دوست کوئی غم گسار نہیں ہے ”
” شہریار یہ جو زندگی ہے نا یہ بہت کٹھن ہوتی ہے اور ہر انسان کو اپنی زندگی کے ہر موڑ پر ،قدم قدم پر کسی نا کسی دوست ہمدرد اور ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے ۔میں تو تمہاری دل جوئی کرنا چاہتی ہوں اور کیا پتہ کوئی اچھا مشورہ ہی دے دوں !! ”
” آپی !! چلیں دیکھتا ہوں آپ کیا کہتی ہیں ۔۔۔ سنئیے میں سویرا کو اپنے ساتھ لیکر نہیں جانا چاہتا ہوں انفیکٹ میں تو اس بے جوڑ شادی کے ہی حق میں نہیں ہوں لیکن آپ اب نے خاندان میں واپس آنے کی اپنی ماں کیا پیار پانے کے لئیے یہ شادی مجھ پر تھوپ دی ہے ۔۔”
” شاہو !! یہ بتاؤ تم سویرا کو ساتھ کیوں نہیں لے جانا چاہتے ؟؟ خداناخواستہ کہیں تم نے دوسری شادی تو نہیں کرلی ؟؟؟ ” رخسار دہل گئی
” میں کوئی کام چھپا کر نہیں کرتا اور دوسری شادی تو مجھے کرنی ہی ہے لیکن سب گھر والوں کی اجازت سے باقی بات سویرا کو ساتھ لے جانے کی تو میرا ادھر حلقہ احباب ہے بزنس ہے میں ہفتوں گھر سے غائب رہتا ہوں ان محترمہ کی چوکیداری نہیں کرسکتا ۔۔۔” وہ بیزاری سے بولا
” ہمم اچھا شاہو ایک حل ہے !! دیکھو سویرا بہت سمجھدار لڑکی ہے تم اس سے بات کرو اسے اپنی ساری مصروفیات بتا دو تاکہ وہ بھی سمجھ جائے اور ہوسکتا ہے وہ خود تمہارے ساتھ جانے سے انکار کردے !! کیونکہ یہ تو میں بھی نہیں چاہتی کہ وہ ہفتوں اکیلی رہے ۔۔۔”
” ٹھیک ہے آپی چلیں ابھی اس سے بات کرتا ہوں ۔۔۔” شہریار لیب ٹاپ بند کرتے ہوئے کھڑا ہوا
” پاگل ہو شیرو !! اتنی رات کو اس کے کمرے میں جاؤ گے ؟؟ اگر پھپھو نے دیکھ لیا تو اس بیچاری کی شامت اجائے گی ۔۔۔”
” تو پھر کب بات کروں ان محترمہ سے ؟؟ کل تو بابا سائیں آرہے ہیں پھر وقت ہی نہیں ہوگا ۔۔۔”
” ایسا کرتے ہیں میں کل صبح اسے کسی بہانے سے تمہارے روم میں بھیج دونگی تم آرام سے بات کرلینا ۔۔۔”
” ٹھیک ہے آپی !! ”
وہ اسے شب بخیر کہتی ہوئی باہر نکل آئی اس کے چہرے پر گہری سوچ کی پرچھائیاں تھی شہریار کا دوسری شادی کا ذکر کرنا بھی الارمنگ تھا لیکن پھر بھی انہیں یقین تھا جب وہ اکیلے میں سویرا سے ملیگا تو شاید اس کے خیالات بدل جائیں گے ۔۔
___________________________________________
چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے
صبح کا وقت تھا گھر میں ایک افراتفری مچی ہوئی تھی اور وہ سر جھکائے چپ چاپ کسی پتھر کی مورت کی طرح بیٹھی ہوئی تھی آج بابا سائیں آرہے تھے اور جمعہ کو اس کی رخصتی طے تھی ابھی بھی بہت سی منفی سوچیں اسے گھیرے ہوئے تھیں کبھی وہ اللہ سے شکوہ کرتی کہ اسے کیوں پیدا کیا کیوں اس کے بیکار وجود کا اس زمین پر ناحق بوجھ ڈال دیا ۔کاش وہ بھی اپنے بابا کے ساتھ ہی مر گئی ہوتی ۔
بچپن کتنا حسین تھا ہر سو بہار تھی بابا کے کندھے سے لٹک کر فرمائشیں کرنا ،رونقیں تھیں خوشیاں تھیں اور پھر پتا نہیں کیا ہوا ایک دن بابا چلے گئے اور سب ختم ہو گیا زندگی تلخ ہو گئی اور سب رشتے داروں کے رویہ بدل گئے ایک باپ کا سایہ کیا اٹھا اس کی تو دنیا ہی بدل گئی تھی ۔۔۔وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب فرزانہ پھوپھو نے آکر اس کے کندھے پر دھپ لگائی
” کس سوگ میں بیٹھی ہوئی ہوں ؟؟ کچن کا کام کیا تمہاری ماں آکر کریگی ؟؟ ” وہ اسے گھور رہی تھی
” سوری پھپھو !! وہ آپ نے منع کیا تھا باہر مت آنا تو میں بس ۔۔۔۔” وہ بوکھلا گئی
” بی بی میں نے شاہو کے سامنے آنے سے منع کیا تھا کام کاج کرنے سے نہیں اٹھو اور جاکر کچن سمیٹو ۔۔” فرزانہ کاٹ دار لہجہ میں بولیں
وہ چپ چاپ دوپٹہ سنبھالتی ہوئی کچن میں آئی جہاں رخسار مائی کے ساتھ سب گھر والوں کے لیے ناشتہ ان کے کمروں میں پہنچوا رہی تھی
” اسلام علیکم آپی ۔۔۔” وہ ان کے پاس جاکر برتن سیٹ کرنے لگی
” وعلیکم اسلام میری پیاری سی بھابھی ۔۔۔” رخسار شوخی سے بولیں
” رخسار آپی !! پلیز ۔۔۔” وہ چھڑائے ہوئے لہجہ میں بولی
” سویرا ایک بات پوچھوں اگر سچ بتاؤ گی تو ؟؟ !! ”
سویرا نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا
” یہ بتاؤ تمہیں شہریار کیسا لگا ؟؟ سچی کتنا خوبرو ہینڈسم ہوگیا ہے نا !!”انہوں نے سویرا کے چہرے کو اپنی نظروں کی گرفت میں لیا
” مجھے نہیں پتہ !! ” سویرا نے رخ موڑ کر برتن اٹھاتے ہوئے جواب دیا
” سویرا نہیں پتہ تو پتا کرو آخر اب اس ہینڈسم نوجوان کے ساتھ ہی رہنا ہے بی بنو کو ۔۔”
” آپی پلیز ایسی باتیں مت کریں !! مجھے ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔” وہ جھنجھلا کر بولی
” اچھا چلو چھوڑو اور ذرا یہ ناشتہ شاہو کو دے آؤ ۔۔۔” وہ ناشتہ کے لوازمات سے سجی ٹرے اس کی طرف بڑھاتی ہوئی بولیں
” ممم میں کیسے ۔۔ ” سویرا کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے
” چلو شاباش ویسے بھی اس کی بیوی ہو تم یہ تمہارا ہی کام ہے ۔۔۔”
” آپی آپ لے جائیں میں یہ نہیں کرسکوں گی ۔۔۔”
” سویرا سیدھی طرح ٹرے پکڑو اور جاؤ سوچ لو اگر ناشتہ ٹھنڈا ہو گیا تو شہریار کا غصہ اور پھپھو کی باتیں سہہ سکوں گی ؟؟ بس تیزی سے جاؤ اور ٹرے کمرے میں رکھ کر واپس آجانا وہ تو ویسے بھی جاگنگ پر نکلا ہوا ہے ۔۔۔” رخسار نے ٹرے زبردستی اس کے ہاتھوں میں پکڑائی اور اسے کچن سے باہر دھکیلا
ابھی سویرا نکلی ہی تھی کہ فرزانہ کچن میں داخل ہوئیں
” سویرا کدھر ہے ؟؟ میں نے اس کام چور کو کام سمیٹنے کے لیے بھیجا تھا ۔۔۔” وہ کڑی نظر سے رخسار کو گھور رہی تھیں
” پھپھو میں نے اسے واپس کمرے میں بھیج دیا ہے آج بڑا دن ہے بابا گھر آرہے ہیں خوامخواہ بقول آپ کے منحوسیت پھیلتی !! میں نے ٹھیک کیا نا پھپھو ؟؟ ” رخسار معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے پوچھ رہی تھی
” چلو شکر ہے تمہیں بھی عقل آئی اب شام کو اپنے باوا کو بھی سمجھانا کہ یہ رخصتی وغیرہ کے چکروں میں مت پڑیں ۔”
_______________________________________
شام ڈھل رہی تھی ماحول میں خنکی رچی ہوئی تھی رنگارنگ تقریب میں کئی حسین چہروں کے بیچ میں سفید بلاؤز اور پنک اسکرٹ میں لمبے سنہری بالوں کا جوڑا بنائے کانوں میں ڈائمنڈ کے نازک سے ٹاپس پہنے ہوئے ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ بے انتہا خوبصورت نظر آرہی تھی ، جو نظر بھی اس کے دلکش سراپے پر اٹھتی تھی واپس آنے سے انکاری ہو جاتی تھی اس کی سبز چمکتی ہوئی آنکھوں میں ایک عجیب سا درد تھا وہ بہت زندہ دل لڑکی تھی ہر پارٹی کی جان لیکن آج وہ خاموش سی بلوری گلاس ہاتھ میں تھامے ایک کونے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔کہ قریب سے اٹھتی ہوئی بھاری مردانہ آواز نے اسے چونکا دیا ۔۔
” ایکسکیوز می مس !! اگر میں غلط نہیں تو آپ شاید میرے بزنس پارٹنر شہریار کی دوست ہیں ؟؟ ” جونس نے سشتہ انگریزی میں بات کا آغاز کیا
” آپ !!! ”
” جی میں جونس !! جس دن ہماری ڈیل سائن ہوئی تھی آپ آفس کے باہر شہریار کا ویٹ کررہی تھیں اینڈ آئی مسٹ سے شہریار از آ لکی مین ۔۔۔۔” وہ دلچسپی سے اس کے نازک سراپے کو دیکھتا ہوا بولا
” ویل مسٹر جونس !! میں شہریار کی دوست نہیں بلکہ گرل فرینڈ ہوں ہم بہت جلد شادی کرنے والے ہیں ۔۔۔” وہ شہریار کا نام سن کر کھل اٹھی تھی
” کین آئی سیٹ ہئیر ؟؟ ” جونس نے ساتھ بیٹھنے کی اجازت مانگی
عروہ جو رات سے شہریار سے فون نا کرنے پر ناراض تھی اس وقت اس کا ذکر سن کر خوش ہو گئی تھی ناراضگی روٹھنا منانا اپنی جگہ لیکن محبوب کا ذکر ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے کے لیے کافی تھا ۔۔
” آپ اکیلی کیوں ہیں !! شہریار کدھر ہے ؟؟ ” وہ مارٹینی کے سپ لیتے ہوئے بولا
” شہریار اپنے فادر سے ملنے پاکستان گیا ہوا ہے ۔۔” وہ لاپرواہی سے بولی
” پاکستان !! کتنے دنوں کے لئیے اور آپ ساتھ نہیں گئیں ؟؟ ”
” شاید ایک یا دو ویک کیلیئے اس کے فادر کی سرجری ہے اور جہاں تک میری بات ہے یو نو وہ تھرڈ ورلڈ کنٹری ہے میں اگر جاتی تو بیمار ہو جانا تھا سنا ہے وہاں بجلی بھی نہیں ہوتی اور ڈسٹ گندگی بہت ہے تو بس میں اسی لئیے نہیں گئی ۔۔ ” وہ نخوت سے بولی
ابھی وہ دونوں باتیں ہی کررہے تھے کہ ہلکا ہلکا سا میوزک بجنا شروع ہوا لائٹس ڈم ہو گئی تھی ماحول خوابناک سا ہو گیا تھا
” مس عروہ !! وڈ یو لائک ٹو ڈانس ود می ؟؟ ” جونس نے اپنا ہاتھ اس کی سمت بڑھایا
عروہ نے ایک گہری نظر جونس پر ڈالی شہد رنگ بال ہلکی ہلکی بئیرڈ نیلی آنکھیں مضبوط جسامت وہ کسی خوبصورت ماڈل کی طرح اس کی جانب ہاتھ بڑھائے کھڑا ہوا تھا
” سوری جونس !! ڈانس تو میں صرف شیری کے ساتھ کرتی ہوں تم کوئی اور پارٹنر سلیکٹ کر لو ۔۔” وہ اس کے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے کھڑی ہو گئی
” ویل مس عروہ !! لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں لیکن مجھے ایشین بیوٹی بہت متاثر کرتی ہے ایک عجیب سی کشش محسوس ہوتی ہے اور سنا ہے کہ پاکستانی لڑکیاں بہت وفادار ہوتی ہیں ۔۔۔” جونس نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا
” مے بی !!! مجھے پاکستانی لڑکیوں کا اتنا نہیں پتا میں تو برٹش ہوں !! لیکن اب آپ کیلئے کسی اچھی لڑکی کو ضرور نظر میں رکھوں گی ۔۔” وہ مسکراتے ہوئے بولی
” اوکے مسٹر جونس !! اٹس ٹائم ٹو گو ہوم ۔۔آپ سے مل کر اچھا لگا ٹیک کئیر ۔۔۔” عروہ نے جانے کیلئے پر تولے
“ڈونٹ کال می مسٹر !! مجھے جونس کہو دوستی میں یہ تکلفات اچھے نہیں لگتے اور تم گھر کیسے جاؤ گی ؟؟؟ ” جونس نے بڑی تیزی سے آپ سے تم تک کا سفر طے کیا
” ہم دوست ہیں یہ کب ہوا ؟؟ ” عروہ نے حیرت سے پوچھا
” کیوں کیا نہیں ہوسکتے ؟؟ ” جونس نے الٹا سوال کیا
” سوچنا پڑیگا !!” عروہ شرارت سے بولی
” تم گھر کیسے جاؤ گی ؟؟ ” جونس نے سوال کیا
” جیسے آئی تھی !! ڈرائیو کر کے ”
” چلو میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں اب اتنی خوبصورت لڑکی آدھی رات کو اکیلی ڈرائیو کرے یہ مجھے منظور نہیں ۔۔۔” جونس نے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا
” جونس میری گاڑی ۔۔۔۔”
” فکر مت کرو میرا ڈرائیور تمہارے گھر پہنچا دیگا ۔۔” وہ لاپرواہی سے بولا
ڈرائیور کو ہدایات دیکر وہ عروہ کو لیکر پارکنگ کی طرف بڑھا رات گہری ہو چکی تھی کچھ منچلے باہر بیٹھے بئیر پی رہے تھے عروہ کو دیکھتے ہی وہ اشارے بازی کرنے لگے
” عروہ یہ کوٹ پہن لو ۔۔” جونس کو ان کی نظریں اچھی نہیں لگیں اس نے اپنا کوٹ اتار کر عروہ کی سمت بڑھایا
” مگر کیوں ؟؟ ” وہ حیران ہوئی
” یہ لڑکے تمہیں گھور رہے ہیں اور یہ مجھے پسند نہیں ۔۔۔” وہ سخت لہجہ میں بولا
عروہ نے حیرت سے اس گورے کو دیکھا جس کی مینٹیلیٹی ٹیپیکل دیسی مردوں جیسی تھی اور خاموشی سے کوٹ اس کے ہاتھ سے لیکر پہن لیا اس نے عروہ کو گاڑی میں بٹھایا
” میں بس ایک منٹ میں آتا ہوں ۔۔۔” وہ اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دئیے بغیر دروازہ لاک کرکے ان لڑکوں کی طرف بڑھا اور جاتے ہی ایک زور دار پنچ سامنے بیٹھے لڑکے کو مارا
دیکھتے ہی دیکھتے اسٹریٹ فائٹ شروع ہو گئی تھی جونس نے بڑے آرام سے تینوں لڑکوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا پھر اس نے اپنے والٹ سے بڑے بڑے نوٹ نکال کر ان پر پھینکے
” اپنی مرہم پٹی کروا لینا اور آیندہ کسی بھی لڑکی کو چھیڑنے سے پرہیز کرنا ۔۔۔” وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے واپس گاڑی کی طرف بڑھا
” جونس !! تم کریزی ہو کیا ؟؟ اگر پولیس آجاتی تو ۔۔۔۔” عروہ اس کے بیٹھتے ہی شروع ہو گئی
” پولیس ! پولیس سے کون ڈرتا ہے ؟؟ ”
” بہرحال تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔”وہ منھ پھلا کر بیٹھ گئی
جونس نے اس کے پھولے ہوئے منھ کو دیکھتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی اور تیز رفتاری سے دوڑاتا ہوا اس کے گھر تک پہنچا
عروہ تیزی سے اتر ہی رہی تھی کہ جونس نے اس کے ہاتھ میں پکڑا سیل اپنی گرفت میں لیا اور اس سے اپنے سیل پر رنگ دیکر اسے واپس اس کے ہاتھ میں تھمایا ۔۔۔
وہ بنا کچھ کہئے تیزی سے گھر کے اندر چلی گئی اس کے اندر جانے کا اطمینان کرنے کے بعد جونس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور روانہ ہو گیا
_______________________________________
اک موم کی گڑیا ہے
اک پریم کہانی ہے
اک شاخ ہے نازک سی
کلیوں کی جوانی ہے
وہ پھول کی تتلی ہے
شعلہ ہے کہ پانی ہے
ہے شان سمندر کی
لہروں کی روانی ہے
وہ نور سحر ہے یا
اک شام سہا نی ہے
دیکھوں تو سپنا ہے
سوچوں تو کہا نی ہے
کیا نام رکھوں اسکا
کیا بات کہوں اس سے
وہ دن کا اجالا ہے
وہ رات کی رانی ہے
اک موم کی گڑیا,ہے
اک پریم کہا نی ہے
وہ ناشتہ کی ٹرے ہاتھوں میں اٹھائے شہریار کے کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی اسے علم تھا کہ وہ باہر جاگنگ پر گیا ہے مگر پھر بھی اندر داخل ہونے کی ہمت وہ نہیں کر پا رہی تھی بڑی مشکل سے اس نے ہمت کرتے ہوئے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا وہ جلدی سے اندر داخل ہوئی اس کا ارادہ ٹرے میز پر رکھ کر بھاگ جانے کا تھا ..
کمرہ خالی تھا وہ تیزی سے سائیڈ میز کی جانب بڑھی ٹرے رکھ کر سیدھی ہوئی ہی تھی کہ باتھ روم سے تولیہ سے ہاتھ صاف کرتا ہوا شہریار باہر نکلا
سفید ہالف سلیو شرٹ بلیو جینز پہنے وہ اسے گھور رہا تھا وہ اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی وہ مضبوط قد و قامت ورزشی جسم کا مالک ایک پرکشش مرد تھا ۔۔۔
” کیا دیکھ رہی ہو؟؟ ” وہ اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کر چکا تھا
سویرا نے خود کو ملامت کرتے ہوئے فوری اپنی نظریں جھکائیں
” وہ یہ آپی نے ناشتہ بھیجا تھا ۔۔۔” وہ میز کی طرف اشارہ کرتی ہوئی واپسی کیلئے پلٹی
“تمہیں اتنے بھی مینرز نہیں ہیں کہ ناشتہ سرو کرو اور چائے بنا کر دو ؟؟ ” وہ کرخت لہجے میں بولا
سویرا سر جھکائے واپس مڑی اور ٹرے میں سے ناشتے کے لوازمات نکال کرسیٹ کرنے لگی شہریار کرسی گھسیٹ کر بیٹھا آج اتنے عرصے بعد پہلی بار وہ اسے دیکھ رہا تھا گزرتے وقت نے سویرا کو بہت تبدیل کردیا تھا وہ اب ایک تیرہ سال کی بچی نہیں رہی تھی ۔۔۔وہ بغور اس کے تاثرات کو جانچ رہا تھا ۔۔۔
دودھیا رنگت چہرے پر ہلکی ہلکی سی خوف کی پرچھائیاں تھیں لمبی گھنی چوٹی کمر پر جھول رہی تھی کچھ شریر لٹیں گلابی رخساروں کو چوم رہی تھیں جوانی کی سرحدوں کو چھوتی وہ ایک دلکش دوشیزہ کا روپ دھار چکی تھی ۔جو اس وقت اس کی موجودگی کی وجہ سے ہراساں اور بوکھلائی ہوئی تھی ۔۔۔
” سنو لڑکی !!! ” اس نے نرمی سے اسے مخاطب کیا
” میں کسی بھی صورت ہمارے اس بے جوڑ رشتے کے حق میں نہیں ہوں لیکن ہمارے بڑے یہ بات نہیں سمجھتے ہیں اس لئیے میں آج تم سے ایک ڈیل کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔” وہ نپے تلے انداز میں بول رہا تھا
سویرا دم سادھے اس کی بات سن رہی تھی لفظ ڈیل پر اس نے سر اٹھایا
” دیکھوں اب اس رخصتی کو تو میں چاہ کر بھی نہیں روک سکتا لیکن میں چاہتا ہوں تم بابا سائیں سے کہو کہ تمہیں میرے ساتھ نہیں جانا تم ادھر حویلی میں سب کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور بدلے میں میں تمہاری پڑھائی شروع کرواتا ہوں تم بی اے ایم اے جو چاہے پڑھو اور جب بھی تم آزادی مانگو گی میں دے دونگا انفیکٹ تمہاری دوسری شادی بھی کوئی اچھا سا تمہارا ہم عمر لڑکا دیکھ کر کروا دونگا ۔۔۔۔” وہ بولتے بولتے چپ ہوا اور دم سادھے بیٹھی سویرا کو دیکھنے لگا
” آخر تم کچھ بولتی کیوں نہیں ہو ؟؟ دیکھو اگر میری بات نہیں مانو گی تو تمہاری زندگی جہنم بن جائیگی سکون کو ،عزت کو ترسو گی تم اور ویسے بھی کسی کی ان چاہی بیوی تو تم بھی بننا نہیں چاہو گی !!! جواب دو میں ویٹ کررہا ہوں ۔۔۔” وہ تیز ہوا
” آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں میں تایا ابو کو منع کردونگی ۔۔۔” وہ ہاتھ مسلتے ہوئے کھڑی ہوئی
” گڈ گرل !! ویسے بھی ہم میں کزن کا رشتہ ہے اور وہ کافی ہے بس اب تم آج ہی بابا سائیں کو جب وہ تم سے لندن جانے کا سوال کریں تو انکار کردینا !! انڈر اسٹینڈ ؟؟ ”
سویرا نے اثبات میں سر ہلایا
” اب تم جا سکتی ہو ۔۔۔” شہریار نے اسے باہر کا راستہ دکھایا اور وہ خاموشی سے باہر نکل گئی ۔۔
—————————————————————-
دوپہر ڈھل رہی تھی سلیم صاحب اسپتال سے گھر آچکے تھے ایک میل نرس بھی ان کی دیکھ بھال کیلئے ساتھ تھا پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی شاہ بی بی نے ان کی نظر اتاری اور اس وقت صدقہِ خیرات کا سلسلہ جاری تھا ۔۔۔
” سلیم بیٹا بس اس تھال پر اور ہاتھ لگا دو پھر اندر جا کر آرام کروں ۔۔۔” شاہ بی بی نے ہدایت دی
انہوں نے تھال پر ہاتھ لگاتے ہوئے شہریار کو پاس آنے کا اشارہ کیا اور پھر اس کے بازوؤں کے سہارے اندر اپنے کمرے میں چلے گئے ۔۔
” بابا سائیں !! ” شہریار نے انہیں بیڈ پر بیٹھنے میں مدد دی
” آپ میرے ساتھ لندن چلیں آپ کا علاج وہاں بہتر طور پر ہو سکے گا میں بڑے سے بڑا ڈاکٹر ارینج کرونگا ۔۔۔” وہ ان کے ہاتھ تھامتے ہوئے بولا
” شہریار میرے بیٹے !! اس عمر میں کسی بھی باپ کیلیئے اس کی اولاد کی خوشی فرمانبرداری ہی سب کچھ ہوتی ہے جس باپ کا جوان بیٹا اسے چھوڑ جاتا ہے وہ میری طرح جیتے جی ادھ موا ہو جاتا ہے پر اب تم آگئے ہو دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔” وہ شفقت سے بولے
” پر بابا سائیں !! آپ ایک بار تو ساتھ چلیں ۔۔۔اماں آپ کہئیے نا ایک بار چلیں ڈاکٹر کو دکھائیں میرا گھر آفس دوست احباب سب دیکھیں ۔۔۔” وہ ساتھ لے جانے پر مصر تھا
” میں ضرور آؤنگا پر ابھی نہیں پہلے تم سویرا بیٹی۔ کے ساتھ سیٹ ہو جاؤ پھر تم دونوں سے ملنے آؤنگا ۔۔۔”
” بیگم سویرا بیٹی کدھر ہے ؟؟ اسے بلائیں یقین کریں اتنے دن سے اپنی بچی کو نہیں دیکھا اور نا ہی اس کے ہاتھوں کی بنی چائے پی ہے ۔۔۔” سلیم صاحب کو سویرا کے ہاتھ کی بنی چائے بہت پسند تھی بہت شوق اور اصرار سے بنوا کر پیتے تھے
” آپ باپ بیٹا باتیں کریں میں سویرا کو چائے کا کہتی ہوں ۔۔۔” زاہدہ خوش دلی سے کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی
” شہریار تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے میں کتنا خوش ہوں آج تم نے رخصتی کی بات مان کر سویرا کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی رضامندی دیکر بیٹا ہونے کا حق ادا کر دیا ہے اب بس تم دونوں بچے آرام سے لندن چلے جاؤ پھر وہی آکر ملونگا تم دونوں سے اور ساتھ ساتھ تمہاری ماں اور دادی کو بھی لیکر آؤنگا پھر سب مل کر گھومیں پھریں گے ۔۔۔” وہ چمکتی آنکھوں سے پلان بنا رہے تھے
” ٹھیک ہے بابا سائیں جیسے آپ کی مرضی !! آپ آرام کریں میں اکرم بھائی کے ساتھ ذرا زمینوں کا چکر لگا آؤں ۔۔” وہ ان سے اجازت لیکر آٹھ کھڑا ہوا ۔
ابھی وہ کمرے سے باہر نکلا ہی تھا کہ سامنے سے سویرا چائے لئیے آتی نظر آئی وہ دو قدم آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا
” راستہ دیجئے پلیز ۔۔۔ ” وہ نظریں جھکا کر بولی
” سنو لڑکی !! ابھی بابا سائیں سے کچھ مت کہنا ۔۔۔” اس نے خشک لہجے میں کہا
” میں سمجھی نہیں !! ” سویرا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
” صبح ہماری جو بھی بات ہوئی تھی اسے بھول جاؤ اور بابا سائیں سے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔” وہ تحکم بھرے لہجہ میں بولا
” اور ایک بات!! ” اس نے سویرا کو راستہ دیتے ہوئے روکا
” کسی بھی قسم کی خوش فہمی کو اپنے دل میں جگہ مت دینا یہ رشتہ یہ رخصتی اور تمہارا میرے ساتھ جانا ایک جان بوجھ کر کی گئی غلطی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے میں تمہیں ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتا لیکن پھر بھی کبھی نا کبھی تمہیں یہ ٹھیس ضرور لگے گی کیونکہ ہم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں ۔۔۔۔”
سویرا چپ چاپ نم آنکھوں سے اس کی بات سنتی رہی کوئی بھی فیصلہ اس کے اختیار میں نہیں تھا اس کی حیثیت ایک کٹھ پُتلی سے زیادہ نہیں تھی شہریار اپنی بات ختم کرکے جا چکا تھا وہ اپنے آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے تایا ابو کے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔
کچھ باتیں ہیں
جو ہونٹوں پر آکر تھم سی گئ ہیں
کچھ درد ایسا ہے
جو دل سے نکلنے کو بیتاب ہے
کچھ غم کے کچوکے ہیں
جو بسے ہے جسم میں ناسور کی طرح
کچھ ماضی کی یادیں ہے
جوہیں تریاق کی طرح
کچھ ٹوٹے ہوۓ خواب ہیں
جو چبھتے ہیں آنکھوں میں شیشے کی طرح
بڑی بےدرد سی یہ دنیا ہے کہ
لگاکے پہرے لبوں پہ میرے
کہتی ہے بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔۔۔
(شزا خان )
رخصتی کی تاریخ مقرر ہوتے ہیں گاؤں بھر میں چراغ ہو گیا تھا ایک ایک گھر میں مٹھائی بانٹی گئی تھی سارے انتظامات اکرم بھائی نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے تھے شاہ بی بی زاہدہ سلیم صاحب سب اس شادی کو یادگار بنانا چاہتے تھے حویلی کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا مہمانوں کا تانتا بندھ گیا تھا ۔۔۔
” شاہ بی بی ! اتنے جھمگٹے کی کیا ضرورت ہے؟؟ آپ یہ رخصتی سادگی سے کیوں نہیں کرتیں مجھے یہ سب شور شرابہ عجیب سا لگ رہا ہے ۔۔”
” شاہو !! میرے بیٹے کتنے عرصے بعد حویلی میں خوشیاں اتری ہیں میرا بس چلے تو سارے جگ کو اپنے بچوں کی خوشیوں میں شامل کر لوں ۔۔۔”شاہ بی بی کی خوشی کا الگ ہی عالم تھا
وہ سب سے بچتا بچاتا اپنے کمرے میں آیا اور عروہ کو فون ملانے لگا ۔۔۔۔
” ڈیم اٹ عروہ !! فون اٹھاؤ ۔۔۔۔” وہ ٹھیک ٹھاک اس کی ضدی طبعیت پر تپ اٹھا تھا
_______________________________________
کمرے میں تیز میوزک بج رہا تھا اور وہ بڑے اطمینان سے سیل فون پر شہریار کے میسجز پڑھ رہی تھی اس کی کئی مس کالز بھی آئی ہوئی تھیں ۔۔۔
” اچھا ہے اب تڑپتے رہو ۔میں بھی جواب نہیں دونگی ۔۔۔” وہ بڑبڑائی ہی تھی کہ سیل بجنا شروع ہوا نمبر انجان تھا اس نے ریموٹ اٹھا کر ساؤنڈ سسٹم کا والیم کم کیا
” ہیلو ۔۔۔” اس نے فون کان سے لگایا
” کسی شریف انسان کی چیز لیکر واپس بھی کی جاتی ہے ۔۔۔” ایک بھاری مردانہ آواز گونجی
” جی کیا مطلب ؟؟ اور آپ کون ہیں ؟؟ ” وہ حیران ہوئی
” واؤ اتنی جلدی بھول گئی تم ؟؟ ابھی دو روز پہلے سینڈرا کی پارٹی میں میں نے تمہیں گھر ڈراپ کیا تھا ابھی اتنا عرصہ تو نہیں گزرا کہ تم مجھے بھول جاؤ ؟؟ ” دوسری طرف سے وہ مسکراتے ہوئے بولا
” اوہ جونس !!” اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا
” مسٹر جونس !! آپ کا زبردستی کا دیا ہوا کوٹ میرے پاس رکھا ہے آپ ایڈرس دیں میں ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دیتی ہوں ۔۔”
” نہیں ڈرائیور کے ہاتھ نہیں چاہئیے تم خود واپس کرو ۔۔”
” میں !! میں کیسے واپس کروں ؟؟ مجھے کیا پتہ آپ کدھر ہیں ۔۔۔” وہ الجھی
” میں ٹھیک ایک گھنٹے میں تمہارے گھر آرہا ہوں تیار ہو جاؤ ڈنر پر چلتے ہیں پھر تم ادھر ہی میرا شکریہ ادا کرکے کوٹ واپس کر دینا ۔۔”
” میں سوچتی ہوں ۔۔۔”
” اب اس میں سوچنا کیا ہے ؟؟ ایک دوست کے ساتھ ڈنر کرنے کیلئے بھی کیا کوئی سوچتا ہے ؟ جبکہ وہ دوست خود آپ سے بڑی عزت سے ملنے کی خواہش کا اظہار کررہا ہوں ۔۔۔”
“آپ !!آپ کہیں مجھے غلط تو نہیں سمجھ رہے ہیں ؟ ”
” کیا مطلب ؟؟ ”
” میرا مطلب !!” وہ الجھ گئی
” میں ٹھیک ایک گھنٹے میں تمہارے گھر کے باہر ہونگا تم ایسا کرنا کہ سارے مطلب مجھے میرے سامنے بیٹھ کر سمجھا دینا ۔۔۔” جونس نے مسکراتے ہوئے کہا اور فون بند کردیا
________________________________________
چند ایک مسئلے ہیں زندگی سے
ہاں مجھے گلے ہیں زندگی سے
اُس کو کہا تھا زندگی اور پھر
بہت غم ملے ہیں زندگی سے
تُو ہے پہلو میں مگر جانے کیوں
پھر بھی فاصلے ہیں زندگی سے
سُنا ہے دور رہو تو قدر بڑھتی ہے
سو ہم بھی دور چلے ہیں زندگی سے
میں خود سےبھی نہیں خوش
کب فقط گلے ہیں زندگی سے
(عاقب بٹ )
شاہ بی بی نے بیوٹیشن کو گھر بلوالیا تھا اور اب وہ تیار ہو چکی تھی رخسار مسلسل اس کے ساتھ تھیں ہمیشہ سے سادگی سے رہنی والی سویرا پر غضب کا روپ آیا تھا مگر وہ اتنی افسردہ تھی کہ یہ تعریفیں بھی اسے چبھ رہی تھیں دل اداس تھا آنکھیں ضبط گریہ سے لال سرخ ہو رہی تھیں لمبی گھنی مسکارے سے سجی پلکیں نم تھی دل اداس تھا آج بابا بہت یاد آرہے تھے ایسی سوگواریت میں بھی وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین کسی اپسرا کی مانند لگ رہی تھی ۔۔
رخسار اور کئی کزنز لڑکیاں اسے دوپٹہ کے جھروکے میں لیکر باہر اسٹیج کی جانب بڑھیں
شہریار جو چپ چاپ بیزار سا اسٹیج پر بیٹھا ہوا تھا اس کی نظریں دور سے لڑکیوں کے جھرمٹ میں آتی سویرا پر پڑی یہ پہلی بار تھا کہ اس کی نظریں اس حسن و دلکشی کے پیکر پر جم سی گئی تھیں بلاشبہ وہ اس وقت بلا کی حسین لگ رہی تھی ایک لمحے کو اسے اپنا دل پہلو سے نکلتا ہوا محسوس ہوا مگر پھر دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے دل پر قابو پایا ۔۔۔
” یہی تو سب چاہتے ہیں کہ میں اس حسن کے ہتھیار سے زیر ہو جاؤں لیکن ایسا نہیں ہوگا تم سے شادی کرنا میری مجبوری ہے لیکن اس مجبوری کو میں کبھی بھی اپنے گلے کا ہار نہیں بناؤ گا ۔۔۔” وہ زہر خند انداز میں سوچ رہا تھا ۔۔۔
” بہت خوبصورت اور کم عمر ہے تمہاری دلہن ۔۔” کسی رشتے دار خاتون کی آواز اس کے سماعت سے ٹکرائی
________________________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...