پھر انہوں نےمجھے اپنے ساتھ شامل کرلیا….
مجھے تھوڑی مشکل ہوئی
مگر کیا کرتی اب رہنا انکے ساتھ ہی تھا آہستہ آہستہ عادت ہوتی گئی اور میں پرفیکٹ ہوگئی……
پھر میری مختلف جگہوں پہ ڈیوٹی لگنے لگی کبھی اس سگنل تو کبھی اس سگنل…..
میری ذات بےمعنی ہوکر رہ گئی….
مجھے دو وقت کھانا ملنے لگا اور رہنے کی جگہ مل گئی اسکے علاوہ اب اور کیاچاہیے تھا اب کوئی امید کوئی خواہش ہی باقی نہیں رہی تھی
پھر اک روز سگنل پہ میں نے تمہیں دیکھا تم گاڑی میں تھے صبح کا وقت تھا اک بچہ تھا تمہارے ساتھ میں اسکو غور سے نہیں دیکھ پائی مگر اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ یقینا میرا بیٹا راحم ہوگا…..
مجھے لگا کہ مجھ میں زندگی لوٹ آئی….
میں ہر روز صبح اسی سگنل پہ آنے لگی جبکہ میری ڈیوٹی بھی نہیں ہوتی تھی مگر میں نےکسی کی پرواہ نہیں کی اک روز میں تمہاری گاڑی سے پہلے والی گاڑی کے پاس آئی مجھے اس وقت بھیک سے کوئی مطلب نہیں تھا میں صرف تمہیں اور راحم کو دیکھناچاہتی تھی اورمیں اس میں کامیاب بھی ہوگئی…..
پھراک روز میں نے تمہاری گاڑی کا پیچھا کیا….
راحم کا اسکول دیکھ لیا…. مگر مجھے ڈر یہ تھا کہ اسکول کی انتظامیہ مجھے یہاں کھڑا نہیں ہونے دے گی میں چھٹی کے وقت منہ چھپا کر آنے لگی اور راحم کو دیکھ کر چلی جاتی…..
مجھے ٹھنڈک سی مل جاتی اسکو دیکھ کے…
میں نے ہمت کی اور تمہارے گھر کیطرف بھی چلی گئی وہ تو اتفاق تھا کہ شام کا وقت تھا تو بچے پارک وغیرہ جاتے تھے میں نے راحم کے ساتھ اسکول سے واپسی پہ اک بچے کو دیکھا تھا تو اس روز شام کو اسی بچے کو پارک جاتے دیکھا میں پارک چلی گئی کہ شاید راحم وہاں ہو مگر اس بچے نے مجھے دیکھ لیا اور وہ کافی ڈر گیا…..
اسنے آنا چھوڑدیا مگر پھر میں نے راحم کو اس بچے کے ساتھ دیکھا پارک میں….
میں چھپ گئی کہ مجھے وہ دیکھ نا لے اور اس نے مجھے دیکھا بھی نہیں…
پھر میری ڈیوٹی کہیں اور لگ گئی…..
اور آج میں یہاں سےگزر رہی تھی تو تمہیں دیکھا بس مجھ سے رہانہیں گیا…..
باذل چپ سادھے اسکی کہانی سن رہا تھا…. اسکا فون بھی دو دفعہ بج بج کےبند ہوگیا تھا…. اسکے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ شانزے سے کچھ کہتا….. اک بار پھر کال آنے لگی اسنے دیکھا تو مونا کی کال تھی یاد آیا کہ گھر میں اسکا انتظار ہورہا ہوگاکافی دیر بھی ہوگئی تھی وقت کا اندازہ نہیں ہوا…. اس نےکال ریسیو کی اور کہاکہ بس میں دس منٹ میں آرہا ہوں….. شانزے چپ ہوگئی تھی…. باذل نے کہا….. مجھے دیر ہورہی ہے شانزے اب میں جانا چاہتا ہوں….. میری بیوی انتظار کررہی ہے میرا……
شانزے کی آنکھوں میں آنسو آگئے…. “کس سے کی تم نے شادی….؟؟ شانزے نے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا…..
اپنی خالہ کی بیٹی سے بہت اچھی ہے وہ…
اور بھی بچے ہیں تمہارے..؟؟ اس نے پوچھا….
ہاں اک بیٹی اور ہے…
ماشاءاللّٰہ۔۔۔۔ خوش رہو ہمیشہ چلو تم جاؤ اب اور ہوسکتا ہے آج کےبعد میں کبھی تمہیں نا دیکھوں یہاں سے جارہی ہوں….
باذل نے اسکو دیکھا اور کہا…. “میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے بس اتنا کہوں گاکہ تم اپنےبارے میں سوچو زندگی ایسے نہیں گزرتی….
شانزے مسکرادی اور کہا تم جاؤ دیر ہورہی ہے تمہیں….
اتنا کہہ کر وہ گاڑی سے اتر گئی…. باذل نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پیٹرول بھرواکر گاڑی گھر کی طرف موڑ لی…. راحم نے اسکو دیکھا تو ناراض ہوگیا کہ پاپاآپ نے اتنی دیر لگادی…. مونا بھی کہہ رہی تھی ۔۔ باذل نے ان دونوں سے سوری کی اور گاڑی میں بیٹھنے کو کہا…. مونا کو وہ جانے سے پہلے والا باذل نہیں لگا کافی چپ چپ سا تھا اسنے اس وقت اس سے کچھ نہیں پوچھا…
پورے رستے وہ خاموش رہا….. راحم نےجہاں جانے کی فرمائش کی تھی وہ اسکو وہیں لے گیا…. جو جو اس نے کہا اس نے کھلایا…. جھولوں پہ بھی اس نے کافی انجوائے کیا اور پھر وہ لوگ واپس آگئے…. بچوں کو سلانے کے بعد مونا فارغ ہوکر اسکے پاس آئی تو وہ کسی سوچ میں گم تھا….
کیابات ہے…؟ شام سے دیکھ رہی ہوں اتنے چپ چپ کیوں ہو..؟؟ باذل نے اسکو دیکھا اور کہا…. بس کچھ نہیں سوچ رہا ہوں کہ انسان کیسا ہوتا ہے آسمان کی بلندیوں پہ پہنچ کر اتنی زور سے گرتا ہے کہ زمین پہ گرنے کے بجائےپاتال میں گرجاتا ہے جہاں سےنکلنا کبھی کبھی ناممکن ہوجاتا ہے…..
کس کی بات کررہے ہو…؟؟ کس کو دیکھ لیا..؟ اس نے پوچھا…
شانزے کو….. باذل نے بتایا…..
شانزے کو…؟؟ مگر کہاں اور کیسے…؟ مونا حیران ہورہی تھی کہ شانزے کہاں سے آگئی….
باذل نے اسکو شانزے سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا…. مونا آنکھیں اک جگہ مرکوز کیے دم بخود اسکی باتیں سن رہی تھی…. اسکی آنکھیں بھی نم ہوگئیں…..
باذل کیا تمہیں شانزے اب بھی یاد آتی ہے..؟؟ مونا کسی انجانے خدشے میں گھر گئی اور پوچھ بیٹھی…..
باذل نے اسکی طرف دیکھا تو خود پہ افسوس ہوا اسنے فورا مونا کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا ارے نہیں مونا…. مجھے وہ اب بلکل یاد نہیں آتی نا ہی میں اسکو سوچتا ہوں…. بلکہ میں تو خود کو بہت خوشنصیب سمجھتا ہوں کہ تم میری زندگی میں آئی ہو میری زندگی سنور گئی ہے…. اسکی یہ بات سن کر مونا سرشار ہوگئی…..
*****
باذل نے راحم کو بتادیا تھا کہ مونا اسکی سگی ماں نہیں ہے، اسکی ماں بچپن میں اسکو چھوڑ کر چلی گئی تھی…..
باذل جانتا تھا کہ راحم اک سمجھدار بچہ ہے…. اسلیے اس نے اسکو اصل حقیقت سے آگاہ کردیا تھا…..
راحم اور ارمینہ دونوں اک دوسرے کی جان تھے لڑتے بھی تھے پھر صلح بھی کرلیتے….. ہنستے کھیلتے شوخیوں اور شرارتوں میں رہتے بچپن کب گزرا پتہ ہی نا چلا….. انٹر کے بعد ارمینہ کا اک بہت اچھا رشتہ آیا تو باذل نے اسکو ٹھکرانا مناسب نہیں سمجھا اور منظور کرلیا….. یوں ارمینہ سب کی دعاؤں کے سائے میں رخصت ہوکر اپنے سسرال چلی گئی….. راحم اور روحان کی دوستی بھی مضبوط سے مضبوط ہوتی گئی….. دونوں اسکول، کالج اور کالج کے بعد اب یونیورسٹی میں بھی اک دوسرے کے ساتھ رہے…. روحان مزید پڑھائی کے لیے ملک سے باہر چلا گیا…. جبکہ راحم نے یہیں پڑھنے کو ترجیح دی….اسکی پڑھائی مکمل ہونے میں چند مہینے تھے انہی دنوں حریم اپنی ماں کے ساتھ کام پہ لگی تھی… راحم پڑھائی میں مصروف رہتا تھا جس وجہ سے حریم نے اسکو کبھی نہیں دیکھا تھا….. مگر جب دیکھا تو محبت کر بیٹھی…. لیکن اپنی قسمت جانتی تھی سو بنا کسی سے کچھ کہے کسی اور کے سنگ رخصت ہوگئی۔۔۔۔ہادیہ کچھ عرصے کے لیے مکرم کے ساتھ انگلینڈ اپنے چھوٹے بھائی کے پاس چلی گئیں تھیں…. راحم کی پڑھائی مکمل ہوئی تو باذل نے اسکو اپنے ساتھ بزنس میں لگالیا….. مونا اکیلی ہوتی تھی تو اسکا دل گھبراتا اس نے اسلیے اب راحم کو شادی پہ زور دینا شروع کردیا مگر وہ انکار کررہا تھا… وجہ شاید حریم تھی اسکی محبت بھی اسکے دل میں گھر کرچکی تھی مگر وہ کسی اور کے سنگ رخصت ہوگئی تھی تو راحم کو بھی وقت درکار تھا…. شاید کچھ سال بعد وہ اسکو مکمل دل سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتا اگر حریم طلاق لیکر نا آتی تو….. مونا نے اسکو کئی لڑکیوں کی تصویریں بھی دکھائیں مگر اسکو ان میں سے کسی سے کوئی غرض نہیں تھی…..
“بیٹا اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو اب تو بتادو…. میں تمہارا رشتہ وہیں کردوں گی….. اب تو تم باذل کے ساتھ بزنس میں بھی کافی اسٹیبل ہوگئے ہو….. مونا پہلے بھی اس سے کئی دفعہ پوچھ چکی تھی اب بھی اس نے یہی سوال کیا…..
جی ماما…. مگر….!! راحم نے اپنی بات ادھوری چھوڑدی….
ارے تو پہلے کیوں نہیں بتایا…. میں کتنی دفعہ تو تم سےپوچھ چکی ہوں…..
مونا اک دم خوش ہوکر بولی….
جی ماما مگر مجھے جو پسند ہے میں جانتا ہوں آپ کبھی اسکے لیے راضی نہیں ہونگی شاید کوئی بھی نہیں…. راحم نے یقین سے کہا….
ایسا کیوں کہہ رہے ہو بیٹا….. تمہاری پسند ہماری پسند….. تم بتاؤ تو سہی کون ہے وہ.۔۔۔؟
ماما آپ نے مجھے ہمیشہ یہی سبق دیا ہے نا یہی سکھایا ہے کہ کسی کو بھی اپنے سے کمتر مت سمجھو….. انسان کا اخلاق اسکا کردار ہی سب سے اہم چیز ہے پیسہ ان سب کے آگے بےمعنی ہے…. انسان کا دل صاف ہو تو سب اچھا ہے…. راحم نے اس سے سوال کیا….
ہاں بلکل یہی سکھایا ہے میں نے اور یہی بات سچ بھی ہے…. مگر وہ لڑکی ہے کون… مونا اس کی بات کی تائید کرتےہوئے پوچھا….
آپ مان جائیں گی…؟؟؟
میری جان تم بتاؤ تو سہی کون ہے وہ……؟؟ مونا نے اسکےچہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا…..
حریم…. ہے وہ!!!! راحم نے نظریں جھکا کر کہا…..
کیا….؟ حریم…. راحم یہ کیا کہہ رہے ہو بیٹا… مونا نے بےیقینی کی کیفیت میں پوچھا
کیوں ماما….؟ کیا برائی ہے اس میں…. غریب گھر کی ہے مجبوری میں کام کرنے نکلی تھی….. شادی ہوئی پھر سسرال والے ظالم نکلے مارا پیٹا اور اولاد نا ہونے پہ اسکو گھر سے نکال دیا…. کتنا ظلم ہوا ہے ماما اس پہ…. ماما ہمارے درمیان اسٹیٹس کا بہت فرق ہے مگر میں انسانیت کے ناطے اس فرق کو مٹانا چاہتا ہوں…. راحم نے صفائی پیش کی….
تم ہمدردی میں کرنا چاہتے ہو کیا….؟مونا نے پوچھا
نہیں ماما… میں محبت کرتا ہوں اس سے اور وہ بھی کرتی تھی مجھ سے…. بس اسلیے ہی دل کسی اور کے حق میں نہیں مانتا….
مونا حیران ہوگئی….. راحم تم اس سے محبت کرتے ہو کب سے…؟؟
پتہ نہیں ماما یہ پوچھ کر کب ہوتی ہے…. مگر ماما حریم بہت اچھی ہے پلیز ماما…
راحم نے جیسے التجائی لہجے میں کہا…. مونا کو اپنا وقت یاد آگیا…. اس نے بھی تو باذل سے محبت کی تھی اور اپنی محبت کو کسی اور کا ہوتے ہوئے بھی دیکھا تھا پھر اسکو اسکی محبت مل گئی جو شانزے ٹھکرا کر چلی گئی تھی…. اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دے گی
اس نے باذل سے بات کی پہلے تو وہ بھی حیران ہوا مگر راحم کی پسند تھی اور غریب ہونا کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں تھا سو وہ بھی مان گیا…. ہادیہ اور مکرم کو بھی بتادیا وہ بھی خوشی خوشی راضی ہوگئے…. مونا نے حریم کی ماں سے بات کی حریم کے رشتے کے لیے اسکو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا….. اسنے گھر جاکر حریم کو بتایا تو اسنے انکار کردیا….
نہیں اماں تو انہیں منع کردے میں نہیں کرسکتی وہ بڑے لوگ ہیں…. حریم کی دلی خواہش تھی مگر وہ پہلی شادی کی ناکامی کے بعد ڈر گئی تھی…. اسکی ماں نے اسکو بہت سمجھایا مگر وہ نا مانی….. اسکی ماں نے مونا کو کہا حریم نہیں مانتی بیگم صاحبہ….مونا نے راحم کو حریم کے انکار کے بارے میں بتایا…..
ماما میں حریم سے ملنا چاہتا ہوں اسکے گھر جاکر….
راحم نے کہا
ابھی اسکی عدت چل رہی ہے جب ختم ہوجائے گی تو پھر دیکھتے ہیں….. راحم خاموش ہوگیا….. وقت گزرتا رہا حریم کی عدت پوری ہوگئی تو مونا باذل اور راحم اسکے گھر گئے…. حریم جب بھی انکاری تھی… وہ باہر آئی تھی اور مونا کو انکار کرکے چلی گئی…. مونا سمجھتی تھی اسکی کیفیت…. راحم نے کہا میں حریم سے کچھ بات کرناچاہتا ہوں…. حریم کی ماں اسکو دوسرے کمرے میں لے گئی…..
راحم نے اسکی ماں کے جانے کے بعد حریم سے پوچھا…..
” حریم تم کیوں انکار کررہی ہو شادی سے؟؟”
راحم صاحب بس میرے لیے اک تجربہ کافی ہے…. میں اب شادی نہیں کرنا چاہتی….!!!
حریم نے دو ٹوک لہجے میں کہا….
تم محبت نہیں کرتی مجھ سے…؟؟ راحم نے پوچھا
راحم صاحب وہ میرا ماضی تھا…. میں اپنی اوقات سمجھتی ہوں…اور اپنی اوقات سے بڑھ کر میں بس خواہش تو کرسکتی ہوں مگر حاصل نہیں کرسکتی…..اسلیے آپ مجھے معاف کردیں وہ جو بھی کچھ اگر آپ نے سنا تھا تو مجھ سے غلطی ہوئی تھی میری غلطی سمجھ کر معاف کردیں…. اور اگر آپ ہمدردی میں یہ سب کرنا چاہتے ہیں تو پلیز مت کریں….
حریم نے نظریں جھکائے ہوئے اٹل لہجے میں کہا…..
لیکن اگر میں کہوں کہ میں یہ سب تمہاری محبت میں کررہا ہوں تو….؟؟؟
حریم نے اک دم نظریں اٹھائیں اور بےیقینی کی کیفیت میں دیکھا…. راحم نے سر ہلایا…..
ہاں حریم تمہارے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تمہاری محبت یکطرفہ نہیں تھی…. جب تمہاری شادی ہوگئی تھی تو میں نے خود کو بہت سمجھایا اور ماما بھی مجھ سے شادی پہ زور دیتی رہیں مگر میرادل نہیں مانتا تھا…. تمہاری طلاق کا سنا پھر تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا میں نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ شادی کروں گا تو اب تم ہی سے کروں گا…..
حریم اس کو یک ٹک دیکھے جارہی تھی… راحم صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ..؟؟؟
ہاں حریم یہ سچ ہے…. راحم نے کہا…. پلیز مان جاؤ اب….
مگر….. میں اس قابل نہیں ہوں…. آپ کو تو بہت اچھی لڑکیاں مل جائیں گی آپ میرے لیے اپنی زندگی مت برباد کریں… میں اک غریب اور طلاق یافتہ عورت ہوں….. حریم نے اسکو قائل کرنے کی کوشش کی….
تم واقعی اس قابل نہیں ہو حریم…. اس شخص کے جس نے تمہاری قدر نہیں کی…. تم غریب ہو مگر میں نہیں ہوں…. اور طلاق یافتہ ہو تو وہ اسلیے کہ بےبنیاد وجہ پہ تمہیں طلاق دی گئی… وجہ صرف انکی جہالت تھی… راحم نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا…. حریم کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں….
تو پھر میں ہاں سمجھوں…..؟؟؟؟؟ راحم نے شرارتی لہجے میں پوچھا…..
راحم صاحب آپ پھر سوچ لیں کہیں بعد میں پچھتانا ناپڑے آپکو….
ہاں پچھتاؤں گا تو میں اب…جب میں تمہیں چھوڑ دوں گا… مگر میں تمہارا ساتھ پاکر نہیں پچھتانا چاہتا پلیز حریم ہاں کردو……!! راحم نے اس سے التجاء کی…..
ٹھیک ہے جیسے آپکی مرضی…
تھینکیو حریم…. راحم اسکا شکر گزار ہورہا تھا… پھر وہ کمرے سے باہر آگیا اور کہا مبارک ہو….. سب نے اسکو دیکھا تو راحم نے کہا حریم مان گئی ہے…. مونا بھی بہت خوش ہوئی اور حریم کو بلواکر اسکی انگلی میں انگوٹھی پہنادی..۔۔۔
ہادیہ اور مکرم نے بھی مبارک باد دی اور اگلے ہفتے اپنی واپسی کا بتایا……. منگنی کی باقاعدہ تقریب ہادیہ اور مکرم کے آنے کے بعد طے ہونا تھی مگر راحم نے نکاح کی بات کی اور ساتھ ہی رخصتی کی بھی…. ان لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا….. گھر واپس آکر بھی راحم بہت خوش تھا….. مونا بھی بیٹے کو دیکھ کر خوش تھی….. اگلے دن سے تیاری شروع ہوگئی مونا نے راحم کے ساتھ جاکر حریم اور اسکی ماں کے لیے مارکیٹ سے بہت کچھ خریدا اسکے دونوں بھائیوں کے لیے بھی راحم نے ڈھیر ساری شاپنگ کی…
باذل نے حریم کی ماں سے کہہ دیا کہ وہ حریم کی شادی کے بعد اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ ہمارے ساتھ رہے گی مگر اس نے منع کردیا…. اور کہا کہ نہیں صاحب میں یہیں ٹھیک ہوں… باذل نے اسکو گھروں میں کام کرنے سے منع کردیا… اسکے دونوں بیٹوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات کی ذمہ داری بھی اپنے سر پہ لے لی…. اسکے گھر میں رنگ و روغن بھی کروادیا اور جو مرمتی کام تھا وہ بھی کروادیا…. حریم کی ماں تو باذل اور اسکے تمام گھر والوں کو دعائیں دیتے نا تھک رہی تھی….. ہادیہ اور مکرم بھی آگئے اور انکے آتے ہی راحم اور حریم کا نکاح ہوگیا اور رخصتی بھی ساتھ ہی کردی گئی….. حریم کے قدم ان لوگوں کے لیے بہت مبارک ثابت ہوئے اور ان کا کاروبار وسیع سے وسیع ہوتا گیا….. مونا اورباذل نے ان دونوں کو عمرہ کے ٹکٹ کروادیے…. اور وہ دونوں ولیمہ کے کچھ دنوں بعد عمرے کی ادائیگی کے لیے چلے گئے…..
ساری بات ظرف کی ہوتی ہے کوئی کہہ جاتا ہے تو کوئی سہہ جاتا ہے…. غرور اور تکبر انسان کو آسمان کی بلندیوں سے پاتال میں گرادیتا ہے اور کسی کا صبر اور شکر اسکو زندگی میں بہت خوشیوں سے نوازتا ہے…. یہ حریم کا صبر ہی تھا جو اس نے کچھ وقت تکلیف میں گزارا مگر اسکو اللّٰہ نے وہ بھی دے دیا جس کو اس نے کبھی صرف سوچا تھا…..
***ختم شد****
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...