عنبر اور عقرب کے آنے تک وہ فرش پر یوں ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ ان دونوں کے پہنچنے کے ساتھ کچھ لوگ ضروری فرنیچر لے کر پہنچ گئے تھے۔ عنبر اور عقرب جلدی سے گھر میں داخل ہوگئے۔ ایلیاء کے پاس پہنچ کر اسے اٹھایا۔ عقرب نے بھی ایلیاء کا بازو تھام کر اسے سہارا دیا۔ وہ اسے ایک کمرے میں لے گئے۔ جہاں وہ بیٹھ کر سیلنگ کو گھورتے ہوئے بس کسی سوچ میں گُم تھی۔ ان دونوں کو تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ… ایلیاء کو کیا ہوا تھا؟ عقرب اسے عارف صاحب کے گھر لے جانا چاہتا تھا لیکن ایلیاء نے گھر جانے سے صاف انکار کردیا تھا۔
“عقرب مجھے فون دو۔” عقرب کا موبائل لے کر ایلیاء کوئی جانا پہچانا نمبر ملایا۔ عاص کے یہاں زبردستی لانے کی وجہ سے ایلیاء کا موبائل گھر ہی چھوٹ گیا تھا۔ عقرب نے ان لوگوں سے گھر کے اندر گنا چنا سامان سیٹ کروادیا تھا۔ ایلیاء کچھ دیر بعد اسے فون واپس کرنے آئی۔
“تم دونوں ہال میں مت آنا۔ ” ایلیاء ان دونوں کو حکم دے کر خود ہال میں چلی گئی۔ عقرب نے موبائل ہزٹری میں نمبر دیکھا تو غصے سے جبڑے کس لیے۔ آخر اتنے سالوں بعد ایلیاء کو مدثر خان سے کیا کام پڑ گیا تھا؟
رات کی تاریکی میں گھر کے اندر وہ نوجوان داخل ہوا۔ سامنے ہی صوفے پر پاوں اوپر سمیٹ کر ایلیاء سر جھکائے بیٹھی تھی۔
“ایلیاء…” اپنا نام اس کی آواز میں سن کر ایلیاء نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ آنکھیں جو عاص کے جانے کے بعد سے آنسوں سے خشک ہوچکی تھیں۔ اپنے سامنے اس وجود کو دیکھ کر پھر سے آنسو بہانے لگیں۔
“مدثر…” ایلیاء اپنی نشست سے فوراً کھڑی ہوگئی اور بھاگ کر اس کے قدموں میں گر گئی۔
“میں قسم کھاتی ہوں۔ میں نے تمھارا کبھی برا نہیں چاہا تھا۔” ایلیاء روتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔ مدثر نے جھک کر اسے بازو سے اٹھانا چاہا لیکن ایلیاء نے سر کو حرکت دے کر اٹھنے سے انکار کردیا تھا۔
“پاگل ہوگئی ہو۔ میں نے ایسا کب کہا؟” مدثر اس کے سامنے ہی گٹھنا ٹکا کر بیٹھ گیا۔
“تو مجھے میری محبت کیوں نہیں مل رہی؟ کیوں وہ مجھے چھوڑنا چاہتا ہے؟” ایلیاء نے بلند آواز میں سوال کیے۔ جیسے کے اندر کوئی کانچ ٹوٹنے کی زوردار آواز اٹھی ہو۔
“دوسروں کا دل توڑنے والوں کا دل بھی تو سالم نہیں رہتا۔”اس کا لہجہ ٹوٹی کانچ کی کرچیوں سا کھنکا تھا۔ “میں نے بھی تو تمھارا دل توڑا تھا… تو میرا دل کیسے سلامت رہتا؟ اس لیے یہ بھی آج ٹوٹ گیا۔” کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ مدثر نے اس کے آنسو صاف کیے۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی ایلیاء کلماتی کو محبت میں اس طرح آنسو بہاتا دیکھے گا۔
“تم نے میرا دل نہیں توڑا تھا… بلکہ تم نے تو اسے غلط راہ پر جانے سے بچایا تھا۔” مدثر نے ہمدرد لہجے میں اسے سمجھایا اور ایلیاء نے اسے نا سمجھی سے دیکھا۔
“تم نے ہی تو کہا تھا کہ مجھے تم سے محبت نہیں صرف وقتی کشش تھی۔” مدثر نے مسکرا کر کہا۔
“میں نے تمھارے انکار کے بعد بھی تمھارے لیے یہی دعا کی تھی۔ تمھیں بھی اس سے محبت ہو جو تمھارا ساتھ ہمیشہ کے لیے نبھائے۔” مدثر نے اس کے چہرے کے پاس جھولتی لٹ کو اس کے کان کے پیچھے کیا اور مسکرا کر ایلیاء کی آنکھوں میں دیکھا۔
“تم نے اس دن میرا دل نہیں توڑا تھا۔ تم نے تو مجھے میرے احساسات سے آگاہ کیا تھا۔ وہ سب وقتی کھینچاو تھا۔ تم ہرگز یہ نہ سوچنا کے یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے میرا دل توڑنے کی سزا ہے۔” مدثر نے اس کے آنسو صاف کیے اور اپنے ساتھ اس کو بازوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔
“کبھی کبھی ہم صرف اٹریکشن کو محبت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ محبت وقت کے ساتھ بدلتی نہیں ہے… ہے نا؟” مدثر نے بھویں تان کر اس سے اپنے سوال کو تصحیح کرنا چاہی تو ایلیاء نے اثبات میں سر ہلایا۔
“پھر یہ کیسی محبت تھی میری.. جو چند مہینوں میں بدل گئی؟” مدثر کے سوال پر ایلیاء اسے دیکھتی رہ گئی۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا یہ وہی مدثر تھا جس نے آج سے کئی سال پہلے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا۔ ایلیاء اسے اپنا دوست مانتی تھی اس لیے اس کے اظہار پر اس نے آرام سے اسے سمجھایا۔ مدثر اس دن کے بعد سے اس کی نظروں سے ایسا غائب ہوا تھا کہ آج دیدار نصیب ہوا۔
ایلیاء کو یوں یادوں میں کھویا دیکھ کر مدثر نے اپنا والٹ نکالا اور اس میں ڈالی گئی اپنی فیملی کی تصویر ایلیاء کی آنکھوں کے سامنے لہرائی۔ ایلیاء نے زرا چونک کر تصویر میں تین چہروں کو دیکھا اور بےساختہ ایلیاء کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
“تمھارا بیٹا تمھاری فوٹو کاپی ہے۔” ایلیاء نے چھوٹے بچے کی تصیور دیکھ کر کہا۔ جو مدثر کی گود میں تھا۔ دونوں نے جو ٹوپیاں پہن رکھیں تھیں۔ ان میں سے ایک پر سٙن یعنی انگریزی زبان میں بیٹا لکھا تھا اور دوسری ٹوپی پر فادر یعنی والد لکھا ہوا تھا۔ بچے کے نقش بھی مدثر سے ملتے جلتے تھے۔
“اب تم بتاو… جب میں اپنی زندگی میں اتنا خوش ہوں تو میں تمھیں بد دعا دوں گا یا دعا دوں گا؟” مدثر کی بات سن کر ایلیاء نے اسے وہ تصویر لوٹا دی۔
” تو پھر مجھے وہ کیوں نہیں مل رہا؟” ایلیاء نے نم نگاہوں سے اسے دیکھا۔ “یا میں نے اس کے لیے دل سنبھالے رکھا جسے اس کی قدر نہیں۔” ایلیاء نے سر جھکا کر کہا۔
“ہر رشتہ زندگی میں کسی نہ کسی آزمائش سے گزر کر مضبوط بنتا اور بکھرتا ہے۔ شاید یہ بھی ایک آزمائش ہے۔ تمھیں ہمت سے کام لینا ہے۔” مدثر نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا ایلیاء نے اسے مسکرا کر دیکھا۔
“شکریہ مدثر…” ایلیاء کے مسکرا کر شکریہ ادا کرنے پر مدثر کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ بکھر گئی۔
“ایلیاء…” عارف کی آواز سن کر مدثر اور ایلیاء نے سامنے دیکھا۔
عنبر کال پر عارف صاحب کو ایلیاء کی طبیعت سے آگاہ کر چکی تھی۔ اس لیے وہ اب اپنی بیٹی کو لے جانے کے لیے آئے تھے۔ انسان کو اپنی اولاد سے بڑھ کر کوئی دوسرا رشتہ عزیز نہیں ہوتا۔ ایلیاء کی طبیعت کا سن کر جب انھوں نے عنبر سے اس سب کی وجہ پوچھی تو اس نے بتا دیا کہ عاص اسے یہاں چھوڑ کر جا چکا ہے۔ اسی بات نے ان کا دل عاص کی جانب سے برا کر دیا۔ ایلیاء کے انکار پر بھی عارف اسے لے جانے کے لیے باضد تھے۔
“اب تک تمھاری محبت کے لیے میں خاموش تھا لیکن میری بیٹی اب تم دیکھنا۔ میں تمھارے شوہر کی عقل ٹھکانے پر لاتا ہوں۔” عارف صاحب اسے اپنے ساتھ گھر سے لے جانے لگے لیکن پھر رک کر عقرب کو دیکھا۔
“تم عاص کو جاکر میرا پیغام دینا… کہ عارف کلماتی کی بیٹی لاواث نہیں ہے۔ جو وہ کسی گھر میں اسے پھینک جائے گا اور اس کا باپ اس سب سے بے خبر رہے گا۔ ” عارف صاحب نے باروب لہجے میں کہا۔ عقرب سمیت مدثر اور عنبر خاموش کھڑے یہ سب سن رہے تھے۔
“جو حکم۔” عقرب نے سر زرا جھکا کر چراغ کے جن کی طرح حکم قبول کیا تھا۔
عارف صاحب کے جاتے ہی عقرب بھی دوسری گاڑی میں یونس کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے گھر کہ باہر ہی گارڈ سے پیغام بھجوا کر عاص کو باہر بلوالیا تھا اور عارف صاحب کا پیغام بھی دے دیا تھا۔
“آپ ابھی جاکر ان سے مل لیں۔” عاص جو خاموش کھڑا کسی سوچ میں گم تھا۔ جب عقرب نے مخاطب کیا۔
“مجھے ڈر ہے وہ میڈم کو کہیں بھیج نہ دیں۔” عقرب سے یہ خبر سن کر تو عاص نے زرا حیرت سے اسے دیکھا۔
“کیا مطلب ہے تمھارا؟” عاص نے حیرت سے پوچھا۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ معاملے کو اس حد تک سنگین بنا دیں گے۔
” معاف کیجئے گا۔ میرے خیال سے اس طرح ان کو بھیج دینے سے تو آپ کا کام آسان ہوجائے گا۔” عقرب نے طنزیہ کہا۔ ” اجازت دیں۔” عقرب رخ موڑ کر جانے لگا۔
” عقرب سیدھی طرح بتاو۔ کیا وہ اسے کہیں بھیج رہے ہیں؟” عاص کی آواز پر عقرب زرا سا مسکرایا لیکن پھر چہرے پر سنجیدگی بکھیرے عاص کی جانب دیکھا۔
“جلد ہی آپ اس رشتے سے آزاد ہوں گے اور مسٹر مدثر سے میڈم کا نکاح کردیا جائے۔” آخری چند الفاظ کو جتانے کے انداز میں ادا کیا تاکہ یہ الفاظ عاص کی توجہ حاصل کرسکیں۔ اس کے بگڑتے تاثرات دیکھ کر لگ رہا تھا کہ بات کی سنگینی اسے اچھے سے سمجھ آگئی ہے۔
اس نے آج اپنی مالکن سے واقعی وفاداری نبھائی تھی۔ عقرب کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے جھوٹ کا عاص پر کتنا اثر ہوا اور اس جھوٹ کے کیا نتائج نکلیں گے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
“یہ موبائل ایلیاء کو دے دینا۔” عاص نے اپنی جیب سے موبائل نکال کر عقرب کی جانب بڑھایا۔ اس نے موبائل لے کر اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی کی جانب چل دیا۔
عقرب کے چلے جانے کے بعد عاص گہری سوچوں میں واپس اپنے گھر میں داخل ہوا۔ ہال میں موجود رقیہ ، عقیل اسے بے خیالی کی حالت میں دیکھ کر حیرت میں تھے۔ عاص اپنے کمرے میں داخل ہوا اور ہاتھوں میں سر گرا کر بیڈ پر جاکر بیٹھ گیا۔
“”اچھا ہوا اللّه نے تم سے تمکین کو دور کردیا… تم ناشکرے اور بے قدر انسان ہو… عاص.. تمھیں محبت کرنے والوں کی قدر نہیں ہے۔” ایلیاء کی آوازیں اس کے دل کو بوجھ تلے دبا رہیں تھیں۔ وہ واقعی ناشکرا ہے؟ وہ اس کی محبت تھا۔ اس نے کیا کیا اس کے ساتھ؟
عاص کی سوچ دروازے پر دی گئی دستک سے متاثر ہوئی۔ اس نے آنے والے کو باآواز اندر آنے کی اجازت دی۔ رقیہ کو داخل ہوتا دیکھ کر عاص نے سر جھکا لیا۔ رقیہ اس کے قریب بیٹھ گئیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
“اسے لے آو۔” ان کے محبت سے کہے گئے جملے پر عاص نے حیرت سے انھیں دیکھا۔ رقیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ عاص نے نظر جھکا کر اثبات میں سر ہلایا لیکن کچھ کہا نہیں۔
“کیا سوچ رہے ہو؟” رقیہ نے اس کا بازو تھام کر مدھم لہجے میں سوال کیا۔ عاص نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کی نگاہوں میں دیکھا۔
“امی جو انسان اللّه عزوجل کی کرم نوازی کا شکر ادا نہیں کرتا… تو اللّه اس کو کیا سزا دیں گے؟” رقیہ کو اس وقت وہ معصوم سا بچہ لگ رہا تھا۔
“میرے خیال سے اس انسان کے لیے تو یہ سزا ہی کافی ہوگی کہ.. اللّه اس انسان کو اپنی نعمت سے محروم کر دیں۔ ” رقیہ کی بات پر عاص ساکت ہوگیا۔ ذہن نے ایلیاء کا ہستا ہوا چہرہ جگمگایا اور عقرب کا جملہ دوہرایا۔
“جلد ہی آپ اس رشتے سے آزاد ہوں گے اور مسٹر مدثر سے میڈم کا نکاح کردیا جائے۔” عاص کو ایک عجیب خوف نے گھیر لیا تھا۔
اس نے واقعی ناشکری کی تھی۔ رب نے اسے تمکین کے بدلے ایلیاء کی محبت سے نواز دیا تھا۔ ان کا محبت کا رشتہ نکاح کے دھاگے سے پرویا گیا تھا۔ وہ کیسے اسے ٹوٹنے دے سکتا تھا؟ عاص نے رقیہ کا ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگایا۔
“میرے لیے دعا کریں کہ خدا اپنے کرم سے مجھے محروم نہ کردے۔” عاص کی گزارش پر رقیہ نے اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اس کی پیشانی پر پیار کیا۔
“میری دعائیں تمھارے ساتھ ہیں۔” انھوں نے مسکرا کر کہا۔ عاص ان سے مل کر جلدی سے کھڑا ہوا۔ تاریکی میں وہ گھر سے نکل گیا۔ اس کی منزل کیا تھی وہ رقیہ کو آگاہ کر چکا تھا۔
•••••••
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...