میں اپنے کیبن میں بیٹھی گھریلو تشدد کے کیسز کی اسٹڈی کر رہی تھی کہ پڑوسی محلہ کی نرس کا فون آیا، جو ٹی بی کے ہسپتال میں کام کرتی ہے۔
’’نوشین میڈم! ایک پریشان حال شوہر کو آپ کے پاس بھیج رہی ہوں، جس کی بیوی بچوں کے ساتھ غائب ہو گئی ہے۔‘‘
’’بھیج دو۔‘‘ کوئی اور سوال کیے بغیر میں نے اسے جواب دیا۔
’’شکریہ! میں جانتی ہوں کہ آپ کی تنظیم خواتین کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد پر کام کرتی ہے، لیکن اس کیس میں شکایت مرد لے کر آیا ہے تو مجھے آپ سے کہنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔‘‘ نرس نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
’’شکایت بھلے ہی مرد لایا ہو، مسئلہ تو خاتون کا ہی ہے ناں؟ بلا تردد انھیں بھیج دیں، کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ میں نے بتایا تو اس نے خوش ہو کر فون رکھ دیا۔
کچھ ہی دیر بعد ایک گورا چٹا، دبلا پتلا طویل قد والا بندہ میلے کچیلے کپڑے اور بکھرے بالوں کے ساتھ مجھ سے ملنے چلا آیا۔ اس کے کیبن میں داخل ہوتے ہی عجیب سی بو سارے کیبن میں پھیل گئی۔ میں نے اپنی ناک سکوڑی، اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کاؤنسلنگ واقعی بہت صبر والا کام ہے۔ اس کام میں تعریف اور عزت کے ساتھ مختلف قسم کے لوگ، مختلف لہجے، طنز، غصہ، مختلف رویے، شراب گٹکے کی بو، زہریلے الفاظ، دھمکیاں، سب کچھ سہنا پڑتا ہے۔
’’بیٹھو اغلب!‘‘ میں نے رجسٹریشن فارم پر اس کا نام پڑھتے ہوئے کہا۔
’’میڈم! میں بہت پریشان ہوں، میری آٹھ ماہ کی حاملہ بیوی، تین بچوں کو لے کر کسی غیر مسلم کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔‘‘ اس کی آواز میں لرزہ تھا۔
’’کیا کہا؟ حاملہ خاتون تین بچوں کے ساتھ فرار ہو گئی؟ لیکن کیوں؟ تم نے کیا کیا تھا اس کے ساتھ؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’میں نے کچھ نہیں کیا میڈم! میں تو گھر پر تھا بھی نہیں، میری غیر موجودگی میں اس نے ایسا غلط قدم اٹھایا۔ آپ کچھ بھی کر کے مجھے میری بیوی بچے واپس دلا دیں، ورنہ میری زندگی برباد ہو جائے گی، میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔‘‘ وہ کسی بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
میں نے اسے ٹشو پیپر دیا اور پانی کا گلاس جسے اس نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ ’’پی لو بہتر محسوس کرو گے۔‘‘ میں نے گلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’میڈم جی! بیوی نے ایسی حرکت کی ہے کہ اب تو زہر پینے کا من کر رہا ہے۔‘‘ اس نے گلاس ٹیبل پر پٹخ دیا۔
میں نے اسے ایموشنل منیجمنٹ کے دو مشق کروائے۔ اس کے بعد تفصیلی گفتگو کے ذریعہ حقائق کا جائزہ لیا۔ اغلب ایک مزدور پیشہ انسان ہے۔ جو سات سال پہلے روزی روٹی کی تلاش میں یوپی سے نقل مقام کر کے اپنی بیوی کے ساتھ حیدر آباد میں آ کربس گیا۔ یہاں وہ ٹھیلے پر ترکاری بیچتا ہے، اور اپنے بیوی بچوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اغلب کے والدین یوپی کے کسی قصبے میں رہتے ہیں۔ عرصۂ دراز سے وہ اپنے والدین سے نہیں ملا تھا۔ لہٰذا اس نے ارادہ کیا کہ جنوری کے مہینے میں وہ اپنے والدین سے ملنے ضرور جائے گا۔ اس بات کا اظہار بیوی بچوں سے کیا تو وہ بھی ساتھ چلنے کی ضد کرنے لگے، لیکن اغلب کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ سب کو ساتھ لے جاتا، لہٰذا وہ تنہا چلا گیا۔ وہ گیا تو تھا ایک ہفتہ کے لیے، لیکن جانے کے بعد ناگزیر حالات کی وجہ سے اسے وہاں دو مہینے کے لیے رکنا پڑا، اور اس دوران اسے اپنی بیوی کے فرار ہونے کی روح فرسا خبر ملی، جسے سنتے ہی وہ دوڑا چلا آیا، اور پولیس میں رپورٹ لکھوا دی، کیونکہ اس کی بیوی کا فون بھی بند آ رہا تھا۔ مرد یہ قدم بہت جلد اٹھاتا ہے، جب کہ خواتین پولیس کی مدد لینے کے بارے میں ہزار بار ہزار زاویوں سے سوچتی ہیں، اس کے بعد بھی ہچکچاتی ہیں، ڈرتی ہیں، گھبراتی ہیں تب کہیں پولیس اسٹیشن جاتی ہیں۔
’’یہ کام تم نے اچھا کیا کہ پولیس کی مدد لی۔ وہ لوگ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔ ہم تمہارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ جس وقت وہ پولیس تھانے آئے، آپ کے پاس سے کوئی میرے ساتھ ہو، کیونکہ میرا دماغ ماؤف ہو گیا ہے، مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہاں کیا ہو گا؟ میں کیسے ان حالات کا سامنا کر پاؤں گا؟‘‘ وہ بہت بے چین تھا، اور حواس باختہ بھی، جیسے جرم اس کی بیوی نے نہیں بلکہ اس نے کیا ہو۔
’’ٹھیک ہے، ہماری ٹیم سے رخشندہ میڈم پہنچ جائیں گی، تم اطلاع کر دینا۔‘‘ میں نے اسے ڈھارس بندھائی تو وہ چلا گیا۔
دو دن بعد رخشندہ نے مجھے رپورٹ کیا کہ وہ اغلب کی اطلاع پر پولیس اسٹیشن گئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ الماس (اغلب کی بیوی) اور اس کے بچے سنجو کی بائک پر سوار ہو کر پولیس اسٹیشن پہنچے، سنجو دیکھنے میں گبرو جوان لگ رہا تھا، پولیس اسٹیشن میں الماس نے بیان دیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، فی الحال جہاں کہیں بھی وہ رہ رہی ہے وہ جگہ اس کے اور بچوں کے لیے محفوظ ہے اور بچے بھی وہاں خوش ہیں۔ بچوں سے بیان لیا گیا تو بچوں نے بھی اپنے باپ کے گھر جانے سے صاف انکار کر دیا۔ الماس اور بچوں کو سنجو نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ بیانوں کو سننے کے بعد پولیس نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ الماس اگر اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو کوئی بھی اسے رہنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا، اور چونکہ بچے بھی اپنے باپ کے پاس جانے کے لیے راضی نہیں، لہٰذا وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ ہی رہیں گے۔ یہ سن کر اغلب دیوانہ وار دیوار سے اپنا سر ٹکرانے لگا، چیخنے چلانے لگا کہ پولیس کا فیصلہ غلط ہے، جب کہ خود اس کی بیوی اس کے خلاف تھی۔ حسب توقع پولیس نے رخشندہ کو الماس سے ملنے کی اجازت نہیں دی، لیکن اس کے پاس پلان بی تیار تھا، جس وقت الماس واپس جانے کے لیے پولیس کی جیپ کی طرف بڑھ رہی تھی تو رخشندہ نے پولیس کی نظریں بچا کر میرا وزیٹنگ کارڈ اسے تھما دیا اور کہا: ’’کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے سے پہلے ایک مرتبہ نوشین میڈم سے بات کر لینا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا یہ فیصلہ زندگی بھر کے لیے پچھتاوا بن جائے۔‘‘ اس نے کارڈ کو پرس میں ڈالا اور آگے بڑھ گئی۔
دو دن بعد اس کا فون تو آیا لیکن وہ آفس آنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسے قائل کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی، دین کا واسطہ دینا پڑا، تب کہیں جا کر وہ ہماری آفس آنے کے لیے راضی ہوئی۔
ایک ہفتہ بعد الماس میرے سامنے موجود تھی۔ اس کے داخل ہوتے ہی بھینی بھینی سی خوشبو کیبن میں مہکنے لگی۔ تیکھے نقوش، کھلتا ہوا رنگ، سرمئی رنگ کا برقعہ پہنے ہاتھ میں چھوٹا سا پرس تھامے حاملہ ہونے کے باوجود وہ بڑی جاذب نظر لگ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ماڈرن طرز کے خوش رنگ لباس میں ملبوس اس کے بچے بھی موجود تھے، جو بہت ہی خوبصورت تھے۔ الماس اور بچوں کو دیکھ کر بالکل بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی ٹھیلے والے کے بیوی بچے ہوں گے، بلکہ وہ کسی مڈل کلاس خاندان کی تصویر پیش کر رہے تھے۔ میں نے کچھ دیر بچوں سے باتیں کیں، پھر انہیں چاکلیٹس اور ڈرائینگ شیٹس دے کر باہر بھیج دیا، تاکہ دوران گفتگو وہ ہمارے درمیان نہ رہیں۔ ایسی باتیں بچوں کے ذہن کو پراگندہ کرتی ہیں۔ الماس کے ساتھ میرا سیشن تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا۔ اس کو اعتماد میں لے کر مسئلہ کی جڑ تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ دو گھنٹے کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ:
الماس کا تعلق بھی یوپی سے ہی ہے۔ اس نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی جب کہ اغلب ناخواندہ تھا، چونکہ اس کا شوہر بھی اسی کی برادری سے تعلق رکھتا تھا اور جہیز کی مانگ نہ تھی، اس لیے اس کے شادی اغلب سے کر دی گئی۔ شوہر کا بیوی کو وقت نہ دینا، عدم توجہی، عدم التفات، غصہ کی زیادتی، گالی گلوچ کرنا، شک کرنا، کبھی کبھار ہاتھ اٹھا دینا، رشتہ داروں سے ملنے پر پابندی وغیرہ ایسی حرکتیں تھیں جس کا مقابلہ وہ سات سالوں سے کرتی آ رہی تھی، لیکن جو سب سے اہم وجہ تھی، جس کی بنیاد پر الماس گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئی، وہ تھی ’’پاکی صفائی۔‘‘
’’میڈم! جب سے ہماری شادی ہوئی میں ایک ہی بات اسے سمجھاتی رہتی ہوں کہ صاف ستھرے رہا کرو، لیکن یہ بندہ تو کئی کئی دن تک نہیں نہاتا، حاجت غسل ہو تب بھی نہیں نہاتا، جب کہ میں اس کے لیے غسل خانے میں گرم پانی، صابن، تولیہ سب کچھ رکھ دیتی ہوں۔ پھر بھی نہیں نہاتا۔‘‘ اس کے لہجے میں کراہیت کا عنصر نمایاں تھا۔
’’وجہ کیا ہے؟ کیا پانی سے اس کوڈر لگتا ہے؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’ایسا کچھ بھی نہیں ہے، کاہلی سمجھ لیجیے، صفائی کی عادت نہیں، میں اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئی کہ صاف ستھرے انسان کو ہر کوئی پسند کرتا ہے، جب کہ گندے شخص سے ہر کوئی دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے باوجود نہ وہ طہارت کا خیال رکھتا ہے نہ ہی صفائی کا، اس لیے جب وہ میرے قریب آتا ہے تو مجھے اس سے گھن آنے لگتی ہے۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ میرے پاس آنا ہو تو صاف ستھرے آنا ورنہ مت آنا۔ اس بات پر اسے بہت غصہ آتا ہے، اور پھر ہمارے درمیان لڑائی جھگڑا شروع ہو جاتا ہے اور وہ مجھ پر ہاتھ بھی اٹھاتا ہے۔‘‘ وہ بغیر رکے بولے جا رہی تھی۔
’’میری خواہش ہے کہ میرا شوہر پاک صاف رہے، بال بنائے، خوشبو کا استعمال کرے، اور سستا ہی سہی لیکن ڈھنگ سے سلے کپڑے پہنے۔
اکثر شوہر اپنی بیویوں کو اپنی مرضی کے کپڑے پہناتے ہیں، اور انھیں سجے سنورے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، لیکن اغلب کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ میں اپنے شوہر کے لیے کپڑے خرید کر لاتی ہوں، چار ماہ پہلے سلوانے کے لیے درزی کو دیا تھا، ابھی تک وہیں پڑے ہیں، پہننا تو دور کی بات ہے لایا تک نہیں۔ جب کہ سنجو اس کے بر عکس ہے، وہ کوڑا چننے کا کام کرتا ہے، لیکن کام کے بعد نہا کر ایسا تیار ہوتا ہے کہ ہیرو لگتا ہے، اس کے پاس سے کوڑے کی نہیں بلکہ عطر کی خوشبو آتی ہے۔‘‘ وہ اپنے شوہر کا موازنہ ایک غیر مسلم کنوارے شخص سے کر رہی تھی، جس کے جال میں وہ پھنس چکی تھی۔
’’تمہاری سنجو سے ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی؟‘‘ میں اصل مقصد کی طرف آ گئی تھی۔
’’اغلب آٹھ دن کا کہہ کر مجھے میرے والدین کے پاس چھوڑ کر چلا گیا، اور واپسی کی کوئی خبر نہیں، روزمرہ کے خرچہ کے لیے پیسے بھی نہیں دیئے، میرے والدین کا انحصار بھی بھائی پر ہے اور بھائی بھی مزدوری کرتا ہے۔ اس کی آمدنی اس کے خاندان کے لیے ہی ناکافی ہے، وہ بھلا میرا خرچ کب تک اٹھائے گا؟ لہٰذا، مجھے اس حالت میں بھی کام کے لیے نکلنا پڑا۔‘‘ اس کی آنکھیں بھرنے لگیں تھیں۔
’’سنجو سے میری ملاقات ویسٹ مینجمنٹ کے کارخانے میں ہوئی، جہاں مجھے جمع کیے ہوئے کوڑے کو اس کی قسم کے حساب سے الگ کرنے کا کام دیا گیا تھا۔ وہ بہت ہمدرد اور مخلص ہے۔ مجھے اس حالت میں کام کرتا دیکھ کر اسے مجھ پر بہت ترس آتا۔ کہنے لگا اسے اگر موقع ملے تو وہ مجھے اس حالت میں کام ہی نہ کرنے دے اور ہر قسم کا آرام بہم پہنچائے۔ وہ میرے بچوں کی ذمہ داری لینے کے لیے بھی راضی ہو گیا۔ اس نے اسلام قبول کر کے مجھے اپنانے کی پیشکش کی تو میں انکار نہ کر سکی۔ تپتی دھوپ میں ریگستان پر برہنہ پا چلنے والوں کے لیے کھجور کے درخت کا سایہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اغلب کا رویہ میرے لیے نا قابل برداشت ہو رہا تھا، اس لیے اس موقع کو غنیمت جان کر میں نے اٹیچی میں کپڑے بھرے بچوں کو لیا اور سنجو کے گھر چلی گئی۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے ایک گہری سانس لی اور اپنی نظروں کو جھکا لیا۔
اُف! یہ بات کتنی تکلیف دہ تھی کہ ایک عورت شوہر کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے تب بھی ظلم سہے۔ الماس نے اپنی بپتا سنا دی تھی۔ اب مجھے اپنا کام شروع کرنا تھا۔ میں نے اسے پہلے تو بریتھنگ ایکسرسائز کروائی، تاکہ وہ تھوڑا ریلیکس ہو جائے۔ اس کے بعد اس کے ذریعہ لیے جانے والے فیصلے اور اس کے دور رس نتائج کا نقشہ اس کے سامنے پیش کیا، جس کا اسے اندازہ ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد الماس کو بتایا گیا کہ غیر مسلم جو کہ پاکیزگی کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہیں، اور نہ ہی عمل کرتے ہیں جب کہ دین اسلام صفائی اور پاکیزگی کی بنیاد پر ہی حلال اور حرام میں تفریق کرتا ہے، شریعت کے مطابق وہ جو کر رہی ہے وہ حرام ہے۔ اگر اسے شوہر سے اختلاف ہے اس کے ساتھ گزارہ ممکن نہیں تو اسلام اسے خلع کی اجازت دیتا ہے۔ پھر عدت کے بعد کسی نیک مسلمان بندے سے وہ عقد ثانی کر سکتی ہے، لیکن اس کے لیے بھی اسے وضع حمل تک رکنا ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ الماس کو موجودہ سیاسی حالات، مسلمانوں کے تحت غیر مسلم سنگھی جماعتوں کی سازشیں اور اس سے محفوظ رہنے کی ترغیب بھی دی گئی۔ سیشن کے بعد الماس کے چہرے پر تذبذب، پریشانی اور مایوسی کے سارے آثار دکھائی دے رہے تھے۔
’’میں اپنے شوہر کے گھر واپس جا رہی ہوں۔‘‘ وہ صحیح فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اغلب نے سنا تو وفور جذبات سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ ہم نے اغلب کی ذہن سازی کے لیے ’’صحت و صفائی‘‘ کے موضوع پر ہفتہ وار سیشن پلان کیے، اور الماس چونکہ حاملہ تھی تو اس کے لیے آن لائن سیشن پلان کیے گئے۔ دونوں میاں بیوی نے پابندی سے سیشن میں حاضر رہنے کا وعدہ کیا۔ ہمیں قوی امید ہے کہ یہ سیشنز ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی کا باعث بنیں گے، ان شاء اللہ۔
سوالات
(1) دینی مدارس اور جماعتوں کو سماج کے نچلے طبقہ کے ہر فرد تک رسائی حاصل کرنے اور ان کی تربیت کرنے کے لیے موجودہ لائحۂ عمل میں کس قسم کی تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے؟
(2) پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ اس پر عمل آوری کو یقینی بنانے کے لیے کس قسم کے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟
(3) بیوی بچوں کی کفالت شوہر کے ذمہ ہوتی ہے۔ کسی بھی حالات میں اپنی ذمہ داری کسی اور کے سپرد کرنا کہاں تک درست ہے؟
٭٭٭