(Last Updated On: )
ایک معطر جھونکے کے ساتھ وہ میرے کیبن میں داخل ہوئی۔ ہلکے سرمئی رنگ کے برقعے میں ملبوس، دراز قد، بڑی بڑی چمکیلی آنکھیں، جن سے ذہانت ٹپک رہی تھی۔
’’حمساء التمش۔‘‘ اس نے رجسٹریشن فارم ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
میں نے فارم پر سرسری نظر ڈالی تو جانا کہ اس کی شادی کو صرف دو سال ہوئے تھے۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ اور اس کا شوہر دونوں ہی یونانی ڈاکٹر تھے۔ شوہر کسی کالج میں طب کے طلبہ کو پڑھاتا تھا، اور حمساء کسی ہسپتال میں پریکٹیس کر رہی تھی۔
’’میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘ چونکہ وہ تعلیم یافتہ خاتون تھی اس لیے میں نے بغیر کسی تمہید کے سوال کر ڈالا۔
’’جب سے میری شادی ہوئی، تب سے میں مسلسل تذبذب کا شکار ہوں۔ ذہنی تناؤ سے گزر رہی ہوں۔ صحیح اور غلط کی چکی میں پس رہی ہوں۔ خود سے لڑ رہی ہوں۔ عجیب سی کشمکش میں مبتلاء ہوں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں؟ اس کا اضطراب اس کے لہجے سے جھلک رہا تھا۔‘‘
’’اولاد کا مسئلہ ہے۔؟‘‘
میں نے اندیشہ ظاہر کیا، تو وہ ایک دم چونک گئی۔
’’آپ نجومی ہو؟‘‘ اس نے بے ساختگی سے پوچھا۔
’’نہیں تو، بچوں والا خانہ خالی تھا تو سوچا ہو سکتا ہے وہی تمہاری پریشانی کا سبب ہو۔‘‘ میں نے انکشاف کیا۔
’’آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’دباؤ سسرال والوں کا ہے یا شوہر کا؟‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
’’میڈم آپ کو یہ جان کر تعجب ہو گا کہ دباؤ بچہ پیدا کرنے کے لئے نہیں، بلکہ بچہ پیدا نہ کرنے کے لیے ہے۔ التمش کو بچے نہیں چاہئیں۔‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
’’اس کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’وجہ ضرور ہے۔ میرے لئے بے تکی سی لیکن التمش کے لیے خاص۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں بچوں سے سخت نفرت ہے، کیوں کہ بچے سارا گھر سر پر اٹھا لیتے ہیں، چیزوں کو بکھیر دیتے ہیں، گھر گندا کر دیتے ہیں۔ ان کی شرارتیں، شور شرابے سے انہیں الرجی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اولاد کے بغیر ہم زندگی زیادہ بہتر، پر لطف اور آزادی سے گزار سکتے ہیں، جو اولاد کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں، کیوں کہ وہ بھر پور توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔‘‘ حمساء نے وجہ بتائی۔
’’اگر التمش کے والد بھی اسی طرز فکر کے حامل ہوتے تو کیا آج التمش کا وجود اس دنیا میں ہوتا؟ اولاد کا طلب کرنا بھی نکاح کے مقاصد میں سے ہے۔ نسل انسانی کی بقا بھی اسی سے ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول پر حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں۔ اس تناظر میں ایک مسلمان کا اس حدیث سے انحراف کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے حمساء کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ان کا غرور، تکبر، بے دینی اور من مانی؛ میں نے کئی مرتبہ اس حدیث کے ذریعہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔‘‘ حمساء کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔
’’معاشی حالات کیسے ہیں؟ کیوں کہ عصر حاضر میں معاشی بدحالی اور پس ماندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی لوگ بچے پیدا کرنے سے گھبرا رہے ہیں، اور خاندانی منصوبہ بندی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کم سے کم اولاد اور چھوٹا خاندان ہو تو ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل آسانی سے ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے نسل نو کا نظریہ پیش کیا۔
’’الحمد للہ! ہم لوگ معاشی طور پر بہت خوش حال ہیں۔ دولت کی کمی نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ معاشی نہیں ہے، بلکہ آرام و آسائش کا ہے۔ التمش کا رجحان بڑا خطر ناک ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بچے ہمارے عیش و آرام میں رکاوٹ بنیں گے۔‘‘ حمساء کا انداز مایوسانہ تھا۔
’’حمساء! آج کل Luxury Life کا جو کلچر پیدا ہوا ہے، یہ اسی کی دین ہے۔ جو جتنا مال دار اور خوش حال ہے، اتنی ہی اس کی اولاد کم ہے۔ یہ بیماری خوش حال گھرانوں کے علاوہ کسی حد تک متوسط طبقے میں بھی پائی جا رہی ہے۔ جب کہ آج بھی غریب طبقے میں اولاد کی کثرت ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر ایک گہری سازش ہے۔ یہ فحاشی اور عریانی کو پھیلانے اور مسلم نوجوانوں کو عیش و عشرت میں مبتلا کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘‘ میں نے موجود حالات کا نقشہ کھینچا۔
’’عام طور پر خاندانی منصوبہ بندی میں ایک یا دو بچوں کی پیدائش کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، لیکن میرے شوہر کی خاندانی منصوبہ بندی میں بچوں کا شمار ہی نہیں ہے، جب کہ میں ماں بننے کے لئے تڑپ رہی ہوں۔ ماں بننے کا احساس ہی کتنا پر تقدس ہوتا ہے۔‘‘ وہ تصور کی وادیوں میں ڈوب گئی تھی۔
’’میڈم! مجھے ماں بننا ہے۔ ماں بنے بغیر مجھے اپنا وجود ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ میں تخلیق کے عمل سے گزرنا چاہتی ہوں۔ ایک نئے وجود کو اس دنیا میں لانا چاہتی ہوں جو میرا پرتو ہو گا۔ میں اپنے قدموں تلے جنت کی متمنی ہوں، لیکن میرا شوہر مجھے اس سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو التمش کی دین تھے، جسے وہ بڑے درد کے ساتھ بہا رہی تھی۔ میں آہستہ آہستہ اس کا کندھا تھپتھپاتی رہی جب تک کہ طوفان کا زور تھم نہ گیا۔
’’اگر تم چاہو تو میں التمش سے بات کر سکتی ہوں۔‘‘ میں نے اسے اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔
’’جی بالکل کیجیے!‘‘ اس نے اجازت دے دی۔ میں نے التمش کا نمبر ڈائل کیا۔ سلام کے بعد جب میں نے التمش سے اولاد کے بارے میں ذکر کیا تو وہ ایک دم بھڑک اٹھا، اور کہنے لگا ’’منگنی کے بعد میں اور حمساء فون پر اکثر چیٹنگ کیا کرتے تھے۔ اس وقت میں نے حمساء کو کھلے لفظوں میں بتا دیا تھا کہ مجھے بچے پسند نہیں ہیں۔ زندگی بچوں کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے، اور حمساء نے اس بات کو قبول کرتے ہوئے مجھ سے نکاح کیا تھا۔ اب وہ اسی بات کو لے کر بضد ہے، جس کا ذکر میں شادی سے پہلے کر چکا تھا۔ اب آپ بتائیں کہ اس میں کس کا قصور ہے؟‘‘ اتنی اہم بات کا ذکر حمساء نے مجھ سے نہیں کیا تھا۔
’’شادی سے پہلے ہی اس بات کا فیصلہ؟ کوئی خاص وجہ؟ جب کہ نکاح کا مقصد جہاں جنسی تسکین ہے وہیں اولاد کا حصول بھی ہے۔ امت محمدیہ کے افراد کا زیادہ ہونا بھی ایک اہم مقصد ہے، جس کی حضورﷺ نے تمنا فرمائی ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا۔ اس کے باوجود اس سلسلہ میں آپ کا انکار؟‘‘ میں نے توقف کیا ہی تھا کہ وہ بول پڑا:
’’میں اس حدیث سے واقف ہوں۔ اس کے باوجود اپنے فیصلہ پر اٹل ہوں۔ کوئی بھی مجھے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ حمساء کو اگر خوشی خوشی یہ بات منظور ہے تو میرے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے ورنہ اس کی مرضی۔‘‘ اسی کے ساتھ التمش نے فون منقطع کر دیا۔ میں نے دوبارہ ڈائل کیا تو اس نے میرا فون ریسیو نہیں کیا۔ افسوس! جس شخص نے ماں کی کوکھ سے جنم لیا تھا وہی شخص اپنی بیوی کو ماں بننے سے محروم کر رہا تھا۔
’’حمساء! التمش نے شادی سے پہلے ہی اولاد کے متعلق اپنے خیالات کا جو اظہار کیا تھا۔ کیا وہ سچ ہے؟‘‘ میں حمساء کی توثیق چاہتی تھی۔
’’ہاں، التمش نے شادی سے پہلے ایسا ضرور کہا تھا، جس کو میں نے مذاق سمجھا اور سنجیدگی سے اس بات پر غور ہی نہیں کیا۔‘‘ حمساء نے قبول کیا۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، اور چہرے پر ندامت کے آثار ابھر آئے تھے۔
’’جس کو تم نے مذاق سمجھا تھا، آج وہی بات تمہاری شادی شدہ زندگی کے لئے خطرہ بن گئی۔ کاش! نکاح سے قبل تم نے مذاق والی بات اپنے والدین کو بتائی ہوتی تو ہو سکتا ہے وہ اس بات کی گہرائی کو جاننے کی کوشش کرتے، اور صحیح فیصلہ لینے میں تمہاری مدد کر پاتے۔ خیر، جو ہو چکا اس کا خمیازہ تو تم بھگت رہی ہو۔ اب یہ سوچو کہ آگے کیا کرنا ہے؟‘‘
’’میڈم! یوں تو میں عورت کہلاتی ہوں، لیکن در حقیقت میں تو اپنی ذات کے آئینے میں نظر آتا مرد ہوں، اور شاید یہ مرد ہر عورت کے وجود میں دکھائی دیتا ہے، کیونکہ ہر عورت جانے انجانے یا مجبوری کے تحت اسی مرد کے نظریات، اس کے خیالات، اس کی سوچ، اس کے فیصلے، اس کی مرضی کے ساتھ ہی تو جیتی ہے۔ عورت کے وجود میں اس کا خود کا کیا ہوتا ہے؟ بتائیں آپ!‘‘ وہ جھنجھلا اٹھی، اور میں سوچ رہی تھی کہ واقعی عورت تو مرد کے رویہ کی آئینہ دار ہے۔ وہ کتاب ہے جو خود اس نے اپنے قلم سے تحریر کی ہے، جس کے باب محبت، نفرت، ذلت، الفت، قربت، دیانت، شراکت، سوچ، گھٹن، شک و شبہات، بد اعتمادی، بد سلوکی وغیرہ سے بھرے پڑے ہیں۔ حمساء کی سونی سونی گود، اس کے چہرے پر بکھری بے سکونی، فکر اور پریشانی، شرمندگی سے جھکا سر، التمش کے ظلم کی نشاندہی کر رہا تھا۔
’’اگر میں التمش کے ساتھ زندگی گزاروں تو مجھے ماں بنے بغیر زندگی گزارنی ہو گی۔ سب سے زیادہ تکلیف مجھے اسی بات کی ہے کہ میں اپنی مرضی سے بچہ بھی پیدا نہیں کر سکتی۔ مجھے اس کا بھی حق نہیں۔ مجھے تو خود پر اختیار بھی نہیں کہ میں اس ضمن میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔‘‘ حمساء اس وقت خود کو بہت بے بس و مجبور محسوس کر رہی تھی۔ شوہر تو اپنی بیوی کے لیے پیار و محبت کا پیکر ہوتا ہے، جو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، اسے کبھی بھی بکھرنے نہیں دیتا، بلکہ اس کے نکھرنے کا سبب بنتا ہے، جس کو یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے تو عورت کی زندگی کو جنت بنادے یا جہنم؛ اس نے حمساء کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا تھا۔
’’حمساء! التمش نے تو اولاد کے لئے صاف منع کر دیا ہے، اور جواز یہ دیتا ہے کہ شادی سے پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ اب یا تو تمہیں اسی کے ساتھ، ادھورے پن کے احساس کے ساتھ جینا ہو گا یا پھر اس دلدل سے باہر نکلنا ہو گا۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔‘‘ میری بات سننے کے بعد وہ کچھ دیر تک سر جھکائے خاموش بیٹھی سوچتی رہی، پھر اچانک اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ میں اپنے آپ کو اس بت پندار کی بھینٹ نہیں چڑھاؤں گی۔‘‘ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ضرور تھیں، لیکن لہجے میں عزم جھلک رہا تھا۔ اس کے لہجے سے ایک نئی سمت کا تعین ہو رہا تھا۔
سوالات
(1) لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت شوہر سے ان کی ذہنی ہم آہنگی کا خیال رکھنا کیوں ضروری ہے؟
(2) پر تعیش زندگی کی چاہ میں اولاد جیسی خدا کی نعمت سے محرومی کے اس رجحان کو ختم کرنے کی کیا تدابیر ہو سکتی ہیں؟
(3) کیا نکاح سے پہلے نکاح کے مقاصد سے زوجین کو واقف کروایا جاتا ہے؟
٭٭٭