آفس پہنچتے ہی میری اسسٹنٹ جوہی ڈائری کے ساتھ میرے سامنے موجود تھی۔
’’میڈم! ۱۱ بجے آپ کو امّارہ کے شوہر اور ساس سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’اوکے، تھینکس! میں کر لوں گی۔‘‘
جوہی کے جاتے ہی میں نے سسٹم پر امّارہ کی فائل کھولی۔
امّارہ ۱۸ سالہ عالمہ تھی، جس کی شادی ۸ ماہ پہلے نظام آباد کے ٹرک ڈرائیور سے ہوئی تھی، اور پھر دوسرے ہی ماہ وہ حاملہ بھی ہو گئی تھی۔ ساس اور شوہر کے ظلم سے تنگ آ کر اس نے شوہر کا گھر چھوڑ دیا تھا اور پچھلے ۳ ماہ سے میکے میں قیام پذیر تھی۔ شوہر یا سسرال والوں سے رابطہ منقطع تھا۔
ٹھیک ۱۱ بجے میں نے امّارہ کے شوہر کا نمبر ڈائل کیا۔ اور سلام سے کلام کی ابتداء کی۔
’’السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ!‘‘
’’وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!‘‘
دوسری جانب سے کسی خاتون نے سلام کا جواب دیا تھا
’’کیا میں امّارہ کے شوہر فیض سے بات کر سکتی ہوں؟‘‘
میں نے فون ریسیو کرنے والی خاتون سے پوچھا۔
’’فیض باہر گیا ہوا ہے، آپ کون؟ فیض سے کس سلسلے میں بات کرنی ہے؟‘‘ ان کی زبان اور لہجہ بالکل دیہاتی تھا۔
’’میں فیملی کونسلر رفیعہ نوشین بول رہی ہوں، حیدر آباد سے۔ آپ کے گھر میں امّارہ سے متعلق جو بھی نا اتفاقی ہوئی ہے اس سلسلہ میں بات کرنی تھی، آپ غالباً امّارہ کی ساس ہیں۔‘‘ میں نے اندازہ لگایا۔
’’ہاں میں ہی اس کی ساس ہوں، کیا آپ عالمہ کی استانی ہو؟‘‘ وہ شاید کونسلر کا مطلب سمجھ نہیں پائی تھیں، انہوں نے سمجھا میں امّارہ کی معلّمہ بول رہی ہوں۔
’’عالمہ؟ شاید آپ امّارہ کی بات کر رہی ہیں، لیکن میں ان کی استانی نہیں ہوں۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’اچھا پوچھیے، کیا پوچھنا ہے آپ کو؟‘‘ وہ بولیں۔
’’امّارہ سے آپ لوگوں کی مخالفت کی وجہ؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’وہ …عالمہ نے نہیں بتایا آپ کو؟‘‘ سوال کے جواب میں انہوں نے بھی سوال کر ڈالا تھا۔
’’انہیں جو بتانا تھا انہوں نے بتا دیا، لیکن مجھے آپ سے بھی جاننا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟‘‘
میں نے پوچھا۔
’’آپ نے نہ جانے کتنی عالماؤں کو دیکھا ہو گا، مگر ایسی عالمہ آپ کو کہیں بھی دکھائی نہ دی ہو گی۔‘‘
’’ہم روزانہ فجر کے لیے ۵ بجے جاگ جاتے ہیں۔ میرا بیٹا جاگنے کے بعد خود پانی گرم کر کے نہاتا دھوتا ہے، پھر اپنی بیوی کے لئے بھی پانی گرم کر کے اسے جگاتا ہے کہ اٹھو! امّارہ نماز کا وقت ہوا جاتا ہے۔‘‘
’’آپ نماز کے لئے جائیں، میں اٹھ جاؤں گی۔‘‘ یہ جواب دے کر وہ دوبارہ سو جاتی تھی۔
اس کے جاگنے کی راہ دیکھتے دیکھتے میں ہی سارے گھر کو جھاڑو لگاتی، ناشتہ بناتی اور ۱۰ بجے کے قریب اسے دوبارہ نیند سے جگاتی ’’ابھی صرف۱۰ ہی تو بجے ہیں، آپ جائیں، میں آتی ہوں۔‘‘ یہ جواب دے کر وہ پھر سے سو جاتی، فجر کی نماز بھی نہیں پڑھتی تھی۔ ۱۲، ۱ بجے نیند سے جاگنے کے بعد ناشتہ ہوتا تھا عالمہ کا۔ عالمہ ایسی ہوتی ہے بھلا؟ آپ جواب دیں۔‘‘ اس نے شکایت کا دفتر کھول دیا تھا۔
’’نماز تو فرض ہے اور ہر صورت میں ادا کرنا ہی ہے، اس سے مفر نہیں۔ صبح دیر تک سونا اس کی کوئی مجبوری رہی ہو گی۔‘‘
میں نے اپنا نظریہ پیش کیا۔
’’مجبوری؟ کا ہے کی مجبوری؟ مزاج خراب ہو تو دو چار دن، مگر عالمہ کا تو روزانہ جاگنے کا وقت ہی۱۲ بجے تھا۔‘‘
اس بات کو سن کر امّارہ کا جملہ میری سماعت سے ٹکرانے لگا۔
’’میری ساس مجھے چین سے سونے بھی نہیں دیتی۔‘‘
’’میں ہمیشہ اس سے کہتی کہ تم نئی نویلی دلہن ہو، کنگھی چوٹی کر کے اچّھے سے تیار ہونا اور سر پر سے پَلّو لینا۔ گھر میں دیور بھی ہے، مجال ہے جو اس نے کبھی ایسا کیا ہو، چاہے مغرب ہو یا عشاء اس کے بال ہمیشہ کھلے رہتے، اور شانوں پر لہراتے رہتے، سر ڈھکنا تو اسے معلوم ہی نہ تھا، خدا نخواستہ اگر اسے اثرات ہو جاتے تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہوتا؟ آپ بولو۔‘‘ وہ اپنے ہر سوال کا جواب مجھ سے پوچھ رہی تھیں، گویا کہ اپنی بات کی تصدیق چاہتی ہوں۔
اور مجھے ان کے ہر سوال کے بعد امّارہ کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ اس نے کہا تھا۔
’’میری ساس مجھے سجنے سنورنے نہیں دیتی، وہ چاہتی ہے کہ میں گھر میں بھی ہمیشہ بڈھوں کی طرح اوڑھ لپیٹ کر رہوں۔‘‘
اس دوران فیض گھر آ چکا تھا۔ میرے بارے میں جاننے کے بعد اس نے کال کانفرنس پر ڈال دی تھی۔ اب گفتگو ہم تینوں کے درمیان ہو رہی تھی۔
’’السلام علیکم‘‘
اس نے سلام کیا تو میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اسے فون کرنے کا مقصد بتایا۔
’’میں نے بہت خوشی سے شادی رچائی کہ میری بیوی عالمہ ہے۔ میں نے سوچا کہ یقیناً میں نے کچھ اچھے کام کیے ہوں گے، جس کی وجہ سے مجھے ایسی بیوی ملی جو عالمہ ہے، مگر مجھے بہت بڑا دھوکہ ہوا، وہ عالمہ نہیں تھی، کیونکہ وہ عالم والے کورس میں پڑھائے جانے والی کسی بات پر بھی عمل نہیں کرتی تھی، بلکہ وہ تو مجھے ہی اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتی تھی، کیا کوئی اپنے شوہر کو غلام بناتا ہے؟ بتائیں تو!‘‘
فیض کا لہجہ اور انداز ہو بہو اپنی ماں جیسا تھا، دیہاتی اور جارحانہ۔
’’ہو سکتا ہے یہ آپ کی غلط فہمی ہو؟‘‘ میں نے آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
’’غلط فہمی؟‘‘
’’میں سمجھ گیا میڈم۔‘‘
’’آپ لوگ خواتین کی غلطیوں کو مانتے کہاں ہیں؟ ہمیشہ مرد ہی کو دوشی قرار دیتے ہیں، آخر ہماری کون سنے گا؟‘‘
اس نے قدرے ناراضگی کا اظہار کیا۔
یہ مسئلہ کونسلرز کو ہمیشہ درپیش رہتا ہے کہ غیر جانب داری سے گفتگو کرو تب بھی شوہر کو لگتا ہے کہ بیوی کی طرف داری کی جا رہی ہے، اور بیوی کو لگتا ہے کہ شوہر کی طرف داری کی جا رہی ہے۔
’’میں تو آپ کو بھی سننا چاہتی تھی، اسی لئے تو میں نے خود آپ کو فون کیا، ورنہ آپ کو فون کرتی ہی کیوں؟‘‘ میں نے صفائی پیش کی۔
’’اگر ایسا ہے تو سنیے! میں آپ کو اس کے ظلم کی داستان سناتا ہوں۔‘‘
میری بات سے اسے تقویت مل گئی تھی۔
’’کسی بھی دن اگر اس نے کام پر جانے سے منع کر دیا تو پھر میں کام پر جا ہی نہیں سکتا۔ دن میں کسی بھی وقت اگر اس نے کہا کہ کام چھوڑ کر گھر آؤ تو آنا پڑتا تھا۔ اگر میں نے کہا کہ اس وقت تو میں نہیں آ سکتا، کام ہے، تو جواب ملتا ہے تمہارا کام جائے بھاڑ میں۔‘‘ کام کو بھاڑ میں ڈال کر دن بھر اگر میں بیوی کے ساتھ وقت گزاروں تو گھر کیسے چلے گا؟ بتاؤ آپ!‘‘
اس کے پاس سنانے کو بہت کچھ تھا۔ اور میں اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ فیض نے وقفہ لیا ہی تھا کہ اس کی ماں پھر سے شروع ہو گئی۔
’’عالمہ کو گھر کا ایک کام بھی کرنا نہیں آتا تھا۔ نہ پکانا آتا نہ ڈھنگ سے دھونا آتا۔ رمضان کی عید کے دن سیویاں پکانے کے لئے کہا گیا تو صاف کہہ دیا کہ نہیں آتا، مجھے تو شوگر کی بیماری ہے، میں تو میٹھا کھاتی بھی نہیں مگر بچّوں کے لئے میں نے سیویاں پکائیں۔ میں تو اسے ہمیشہ بیٹا بیٹا کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھی لیکن وہ اکثر مجھے بُڈّھی بُڈّھی بُڈّھی ہی کہا کرتی۔ وہ عالمہ ہے ناں، اس لئے ہمیشہ جوان رہے گی کبھی بوڑھی نہیں ہو گی غالباً۔‘‘
اس کا پارہ چڑھ رہا تھا۔ وہ سانس لینے کے لئے رکی ہی تھی کہ فیض شروع ہو گیا۔
’’میں کبھی دوستوں سے ملاقات کے لئے نکلا تو جانے کے کچھ ہی دیر بعد اس کا فون آتا اور وہ مجھے فوراً واپس آنے کے لئے کہتی ساتھ ہی دھمکی بھی دیتی کہ اگر تم پانچ منٹ میں گھر نہیں پہنچے تو میں اپنی رگیں کاٹ لوں گی۔‘‘
’’ہر چھوٹی چھوٹی بات کے لئے چاقو لے کر ہاتھ کاٹنے کی کوشش کرنا اس کا معمول بن گیا تھا، عالمہ ایسی ہوتی ہے؟‘‘
’’کیا اسے مدرسہ میں یہی سب سکھایا گیا تھا؟‘‘
وہ طنز کے تیر چلائے جا رہا تھا۔
فیض کی اس بات پر مجھے پھر سے امّارہ کی بات یاد آئی اس نے کہا تھا۔
’’میرے شوہر تو اپنے دوستوں میں جاتے، ہوٹل جاتے، تفریح کرتے مگر میں گھر میں رہ رہ کے تنگ آ چکی تھی، گھر کے باہر قدم نہیں رکھ سکتی تھی، نہ کہیں جانا نہ آنا۔ گھر میں ٹی وی بھی نہیں کہ دل بہلا لوں، میرا دم گھٹ رہا تھا، اس لئے میں ماں کے پاس آ گئی، ماں کے گھر میں تو باہر کے چبوترے پر ہی گھنٹوں گزر جاتے، اور وقت کا احساس بھی نہ ہوتا۔‘‘ اس کی اس بات سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ لڑکی چبوترہ کلچر کی پروردہ ہے۔ سلم علاقوں میں جیسے ہی شوہر کام پر جاتے ہیں۔ ۴ تا ۵ خواتین اور لڑکیاں گروپ بنا کر کسی چبوترے پر بیٹھ جاتی ہیں، اور پھر گھر گھر کی کہانیاں غیبت کا روپ لے کر خواتین کو گناہ کے دلدل میں دھکیلنے کا کام کرتی ہیں۔ خواتین اپنے اس برے عمل سے بے پرواہ اس کو مفت تفریح کا سامان مان کر روزانہ اس عمل کو دوہراتی رہتی ہیں۔ یہ موقع امّارہ کو اپنے سسرال میں نہیں مل رہا تھا۔ وہ اپنے دل کا غبار نکال نہیں پا رہی تھی۔ جس سے اس کا تناؤ بڑھ رہا تھا۔
’’رمضان کی عید کے دن فیض اپنے دوستوں سے ملنے گئے تھے۔ دوست اسے جبراً فلم دیکھنے لے گئے، آنے تک دیر ہو گئی۔ جیسے ہی فیض واپس آئے، امّارہ نے ان سے خوب جھگڑا کیا، اور چاقو سے خود کو نقصان پہچانے کی کوشش کر رہی تھی۔‘‘
’’امّارہ ایسا مت کرو تمہارے پیٹ میں بچہ ہے۔ ’’کم از کم اس کا تو خیال کرو!‘‘ کہتی ہوئی میں نے اسے روکنے کی کوشش کی تو چاقو میرے انگوٹھے میں دھنس گیا اور میرا انگوٹھا کٹ گیا۔ مجھے دوا خانے لے جایا گیا، جہاں میرے زخم کو سینے کے لئے چار ٹانکے لگے۔ امّارہ نے خود ہی فون کر کے اپنی ماں اور بہن کو بلایا۔‘‘
ساس، اس کے ساتھ ہوئے حادثے کے بارے میں بتا رہی تھی۔
’’اس کی ماں کو میں نے انگوٹھے کا زخم بتایا تو وہ کہتی ہے کہ تم نے اسے روکا ہی کیوں؟ مداخلت کرنے کی وجہ سے ہی تو انگوٹھا کٹا۔ بہتر تھا اپنی جگہ خاموش رہتیں۔‘‘
’’اس کا مطلب تو صاف یہ ہوا کہ امّارہ اگر چاقو سے خود کو نقصان بھی پہنچا لے تب بھی میں خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہوں۔‘‘
’’پہلے زمانے کے لوگ کہا کرتے تھے کہ نماز بخشوانے گئے تو روزے گلے پڑے، وہی حال میرا ہو گیا۔ میں ہمدردی میں جان بچانے گئی تو میری ہی جان آفت میں پڑ گئی، اب کیا کریں؟ بتائیں آپ!‘‘
اس کا کہنا سچ ہی تو تھا۔ ساس کا میاں بیوی کے نجی معاملے میں دخل اندازی سے احتراز ضروری ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال سنگین تھی، وہ اگر مداخلت نہ کرتی تو ممکن ہے امّارہ خود کو نقصان پہنچا لیتی۔
’’ایک کام کرتے ہیں، آپ دونوں وقت نکال کر حیدر آباد آ جائیں۔ میں امّارہ کو بھی بلا لیتی ہوں، اور ہم سب بالمشافہ اس بارے میں گفتگو کر کے مناسب حل تلاش کریں گے۔‘‘ میں نے تجویز رکھی۔
’’ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ہم کہیں بھی نہیں جائیں گے۔ جس نے گھر چھوڑا ہے وہی لوٹ آئے، ورنہ اس کی مرضی۔‘‘ ساس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ اس کے بعد میں نے ماں اور بیٹے کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اگر آ جائیں تو معاملہ سدھر سکتا ہے، لیکن وہ اپنی انا کے تابع تھے، سو آنے سے صاف انکار کر دیا۔
سوالات
۱) دور جدید کے دینی مدارس لڑکیوں کو Practising Alima بنانے میں کس حد تک کامیاب ہیں؟
۲) کیا شادی سے پہلے Pre-Marriage کونسلنگ ضروری ہے؟
۳) کیا لڑکیوں کو صرف پروفیشنل تعلیم دینا کافی ہے؟ یا گھر گرہستی کی تربیت بھی ضروری ہے؟
۴) کیا چبوترہ کلچر کا رُخ تعمیری کام کی جانب موڑا جا سکتا ہے؟
٭٭٭