سرو قد، میدہ جیسی رنگت، ستواں ناک، بادامی آنکھیں جن میں جھیل جیسی گہرائی، سڈول، جسم ہونٹ غالب کے شعر کے ترجمان کہ:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
اس کے حسن نے میری آنکھوں کی پلکوں کو جھپکنے کا درس بھلا دیا تھا۔ اس کے کیبن میں داخل ہوتے ہی کیبن معطر ہو گیا تھا۔ اس کی وضع قطع اور مہک بتا رہی تھی کہ اس کا تعلق دبئی یا سعودی عرب سے ہو گا۔
’’تشریف رکھیں!‘‘
میں نے صوفہ کی جانب اشارہ کیا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں، جنہیں وہ ٹشو پیپر میں جذب کرنے لگی۔ میں نے اس کا رجسٹریشن فارم دیکھا۔
نام گل بدن …
عمر 32 سال…
اس کے بعد اہم جانکاری فراہم کرنے والے سارے خانے بالکل خالی تھے۔ جیسے شوہر کا نام، شوہر کا رابطہ نمبر، بچوں کے نام اور ان کی عمریں، متبادل رابطہ نمبر وغیرہ وغیرہ۔
’’آپ نے اہم کالم ادھورے چھوڑ دیئے؟‘‘
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کلائنٹ اپنا دکھ درد تو ہم سے شیئر کرتی ہیں، ساتھ ہی وہ اس بات کی خواہاں ہوتی ہیں کہ ہم اس کے خاندان کے کسی بھی فرد سے فوری طور پر رابطہ نہ کریں۔ اور ہمیں ان کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ سیشنز کے بعد وہ خود متاثر ہو کر ہمیں اجازت دیتی ہیں کہ ہم ان کے افرادِ خاندان کے ساتھ بھی سیشن کریں۔
’’کیا سارے کالمس پر کرنا ضروری ہے؟‘‘ اس کا لہجہ کسی قدر ترش ہو گیا تھا۔
’’فیملی کونسلنگ کے لئے ضروری تو ہوتی ہیں۔ لیکن آپ اگر یہ معلومات فراہم نہیں کرنا چاہتیں تو نہ کریں، جبر نہیں کروں گی۔ ویسے اپنے کلائنٹس کی راز داری ہمارا بنیادی اصول ہے۔‘‘ میں نے اسے یقین دلانے کی ناکام کوشش کی۔
اس نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی داستان کا آغاز کیا
’’میری شادی ہوئے دس سال کا عرصہ گزر گیا – یہ میرے بچے ہیں۔‘‘ اس نے فون میری طرف بڑھا دیا۔ جس میں آٹھ اور نو سالہ دو لڑکیوں اور ایک سات سالہ لڑکے کی تصویر تھی۔ جو اپنی ماں سے زیادہ خوبصورت اور پر کشش لگ رہے تھے۔
’’لیکن اب میرے شوہر کو مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا۔
پری پیکر مونا لیزا کا جیتا جاگتا مجسمہ میرے سامنے موجود تھا۔ جس کے حسن کا جادو کسی کے بھی سر چڑھ کر بول سکتا تھا اور وہ کہہ رہی تھی کہ اس کے شوہر کو اس میں کوئی رغبت نہیں۔ میرا دل اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔‘‘
’’وجہ؟‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا، جو سرخ ہو رہی تھیں۔
’’ہم جنس پرستی۔‘‘ اس نے اپنی نظریں نیچے جھکا لی تھیں۔ جیسے وہ بذات خود اس عمل کی مرتکب ہوئی ہو۔
مشرقی عورت کی یہی تو خاص بات ہوتی ہے کہ وہ حتی الامکان اپنے شوہر کی برائیوں اور عیبوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ وہ یہ سوچتی ہے کہ اگر وہ ان باتوں کو طشت از بام کرے گی تو اس کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ اور اگر کبھی بتائے گی بھی تو بڑی راز داری سے، احتیاط سے، سر اور نظروں کو نیچے جھکائے جیسے وہ خود کسی جرم کا اعتراف کر رہی ہو۔ ایسا انداز تو وہ شوہر بھی اختیار نہیں کرتا جو حقیقتاً ظلم کرتا ہے۔ وہ پہلے تو اپنی زیادتیوں کو قبول ہی نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ اس زیادتی کو اپنا حق سمجھتا ہے، اور اگر کبھی قبول کر بھی لے تو اسے Justify کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا پھر بہت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے چیلنج بھی کرتا ہے کہ جہاں جانا ہے جاؤ، جو کرنا ہے کر لو۔ کوئی میرا کیا بگاڑ لے گا؟ ایسے شوہروں کو نہ خدا کا ڈر ہوتا ہے نہ ہی آخرت کی فکر!
’’بیان کی صداقت کا پیمانہ دلیل ہوتی ہے آپ کے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے؟‘‘
’’دلیل اور ثبوت دونوں ہیں میرے پاس۔‘‘ اس کا لہجہ پر اعتماد تھا۔
’’دلیل یہ ہے کہ میری طرف ان کی کشش کم ہو گئی ہے۔ ان کا جذباتی تعلق صرف ان کے مرد ساتھیوں کے ساتھ ہے۔ اور ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ’گرینڈر‘ اور ’پلاٹینیئم رومیو‘ نامی ایپس جوائن کر رکھا ہے، جہاں ہم جنس پرستوں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیے جاتے ہیں۔ اس ایپ میں بہت سارے نوجوان شامل ہیں۔ جو ایک دوسرے سے رابطے میں رہ کر اس بد فعلی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘
’’کیا اس کی وجہ دین سے دوری ہے؟‘‘ میں نے وجہ جاننا چاہی۔
’’نہیں …مجھے تو ایسا بالکل بھی نہیں لگتا، کیونکہ میرے شوہر دین دار ہیں۔ ڈاڑھی رکھتے ہیں، نماز روزہ کے پابند ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں، اتنی خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں کہ روح مسرور ہو جائے۔ در اصل وہ مذہبی احکامات کی موجودہ تشریحات کو درست نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم جنس پرستی ان کا اور ان کے خدا کا معاملہ ہے۔ ان کی جنسی پسند ان کی اپنی ہے۔ اور وہ اسے سراسر ان کا ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے شوہر کا نظریہ پیش کیا۔
’’اسلام دین فطرت ہے۔ جن چیزوں سے رکنے کا حکم دیا گیا ہے یقیناً وہ کسی نہ کسی مصلحت پر مبنی ہے۔ جن میں سے کچھ کا احساس ہمیں ہو پاتا ہے اور کچھ کا نہیں۔ ہم جنسی بھی فحش عمل اور بدکاری ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے، اور جس کے برے نتائج آ رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اس سے بچنا خدا کا حکم ہے اور خدا کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا فرض ہے۔ اگر یہی عمل آپ کرتیں تو…؟‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔
’’وہ تو خود ہی مجھ سے کہتے ہیں کہ میں گے ہوں، تو تم لیسبیَن بن جاؤ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ اس کے پاس میرے سوال کا جواب پہلے سے موجود تھا۔
’’لاحول ولاقوة!‘‘ میں نے دل ہی دل میں لاحول پڑھا۔
کسی بھی قسم کی برائی میں ملوث انسان کو جب اس برائی سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے تو وہ سب سے پہلے تلقین کرنے والے کو ہی اسی برائی میں شامل کر کے برائی کا چسکہ لگانا چاہتا ہے، تاکہ اس کے کام میں رخنہ ڈالنے والا کوئی نہ ہو۔ اور وہ اطمینان سے برائی کا کام انجام دیتا رہے، اسی لئے وہ گلبدن کو بھی برائی کی ترغیب دے رہا تھا۔
’’میں شدید نوعیت کے حالات سے دوچار ہوں۔ میری امیدیں اور خواب دن بدن ٹوٹ رہے ہیں۔ پہلے تو اس موضوع کے بارے میں کسی سے کھل کر بات چیت نہیں کر سکتی۔ والدین اور ساس کو بتایا تو وہ یہ کہتے ہیں کہ شیطان نے انہیں بہکا دیا ہے، کچھ دنوں میں سنبھل جائیں گے۔ ان میں سے کوئی بھی میرے شوہر سے اس موضوع پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔
’’حال ہی میں کچھ دنوں کے لئے جب وہ انڈیا آئے تھے تو مجھ سے بات بھی نہیں کر رہے تھے۔ ہمیشہ مجھے نظر انداز کرتے رہے۔ چھونا پکڑنا تو دور کی بات، وہ تو مجھ سے بھی دور بھاگتے رہے۔ جس انسان کے لئے میں نے اپنا گھر بار چھوڑا، سات سمندر پار جا کر اس کی دنیا آباد کی، پھول جیسے بچوں سے اس کے آنگن کو گلزار کیا، ہمیشہ اس کی پسند اور خواہشات کو اوّلین ترجیح دی۔ آج… آج …وہی شخص میرے پورے وجود کو ہی مسترد کر رہا ہے۔ ایسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنا تو پل پل مرنا ہے۔ اس نے شوہر اور بیوی کے پاکیزہ رشتہ کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ مجھے ٹھیس پہنچائی ہے۔ ایسے رشتے کا کیا فائدہ جس میں نہ عزت ہے، محبت ہے نہ ایمان داری نہ وفاداری۔ اب مجھے بھی اسے مسترد کرنا ہی ہو گا۔‘‘ اس نے فیصلہ لے لیا تھا۔ وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جیسے کوئی بچہ اپنا پسندیدہ کھلونے کے ٹوٹنے پر روتا ہے۔
معمولی معمولی وجوہات پر خواتین کو مسترد کرنا مرد کا شیوہ بنتا جا رہا ہے۔ کبھی وہ اسے ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے مسترد کرتا ہے تو کبھی جہیز کے لئے، کبھی شک کی بنیاد پر تو کبھی خاندانی پس منظر کے باعث۔ وجہ چاہے کوئی بھی ہو، خواتین کو مسترد کرنے کے بعد انہیں اپنی مردانگی میں مزید اضافہ محسوس ہوتا ہے۔ مردوں کو جنم دینے والی خواتین بغیر کسی ٹھوس وجہ کے، آخر کب تک مسترد کی جاتی رہیں گی؟
’’لیموں پانی!‘‘
جب گلبدن کے آنسوؤں کی باڑھ تھمی تو میں نے لیموں پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔ جو اس دوران ملازمہ لے آئی تھی۔
’’میں نے ایم بی اے کیا ہے۔ کسی بھی فرم میں آسانی سے ملازمت مل جائے گی۔ اس کے علاوہ میرا تعلق امیر گھرانے سے ہے۔ دولت و جائداد کی کمی نہیں۔ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ذمہ داری بخوبی نبھا سکتی ہوں۔ اس کے باوجود کیا مجھے ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا چاہیے جو غیر شرعی طریقے سے اپنی خواہش کی تکمیل کرتا ہے؟ یہی نہیں بلکہ مجھے بھی گناہ کے دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھا۔
’’انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں!‘‘ میں نے صلاح دی۔
’’اصلاح کی کوئی صورت بھی تو ہو، وہ جدہ میں رہتے ہیں، مجھ سے بات کرنا گوارہ نہیں، گھر کے بزرگوں کے لئے تو یہ مسئلہ موضوع ممنوعہ ہے۔ ان حالات میں کیسے اصلاح ہو سکتی ہے؟‘‘ وہ پریشان ہو رہی تھی۔
’’آپ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ آپ کے شوہر کے نیک یا بد اعمال، آپ کی اور آپ کی اولاد کی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں، اس کا تجربہ بھی کر رہی ہیں۔ لہٰذا فیصلہ بھی آپ ہی کو کرنا ہے، تاکہ کل کو آپ مجھے مورد الزام نہ ٹھہرائیں کہ میری وجہ سے آپ نے غلط فیصلہ لیا تھا۔ اطمینان سے گھر جائیں، استخارہ کریں اور فیصلہ لیں۔ ہم دعا کریں گے کہ اللہ آپ کے حق میں خیر کا معاملہ کرے۔‘‘ میں نے تسلّی دی۔
’’آمین‘‘ کہتی ہوئی وہ اچانک اٹھی اور دروازہ کھول کر تیزی سے باہر نکل گئی۔
ایک ہفتہ بعد میں نے گلبدن کو فون کیا تاکہ اس کے فیصلہ کے بارے میں جان سکوں۔
’’میں جس حال میں آپ کے پاس آئی تھی، اسی حال میں ہوں، میرے والدین نہیں چاہتے کہ میں اپنے شوہر سے خلع لوں۔ انہیں صرف سماج کا ڈر ہے، وہ انگشت نمائی سے خوف زدہ ہیں، لیکن انہیں اپنی بیٹی کے کرب اور تکلیف کا احساس نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے شوہر کا ٹیگ لگائے بقیہ زندگی اسی کے نام پر کاٹ دوں۔ بھلے ہی وہ حق زوجیت ادا کرے یا نہ کرے، مجھ سے محبت کرے یا نہ کرے، وہ من مانی کرتا رہے اور میں سب کچھ سہتی رہوں۔‘‘ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
’’آپ اپنے والدین کو ہمارے کونسلنگ سنٹر لے آئیں۔ ایک مرتبہ ان لوگوں سے بھی ملاقات کر لیں گے۔ ہو سکتا ہے اس کے بعد ان کا نظریہ بدل جائے۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔
’’میں نے کہا تو تھا، وہ آنا ہی نہیں چاہتے، اس موضوع پر بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔ آپ لوگ ویمن اسٹیٹس پر رپورٹس تو لکھتی ہی ہوں گی یا کسی سمینار میں شرکت ہو تو اس بات کا ذکر ضرور کیجیے گا کہ آج بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون کو اپنی زندگی سے متعلق فیصلہ لینے میں کتنی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ کس طرح خواتین کی فیصلہ سازی کی طاقت کو کچلا جاتا ہے۔ کوئی بھی میرے برے وقت میں میرا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سب میرے خلاف ہیں، اور اس شخص کی حمایت کر رہے ہیں، جس نے مجھے مسترد کر دیا ہے۔ کچھ لوگ رشتوں کو بدن پر پہنے ہوئے کپڑوں کی طرح سمجھتے ہیں۔ جنہیں کسی وقت بھی اتارا جا سکتا ہے، لیکن میرے خیال میں رشتے تو شریانوں میں بہنے والے لہو کی طرح ہوتے ہیں، جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور زندگی سے وابستہ یہ تعلق کبھی دل سے جڑا ہوتا ہے اور کبھی روح سے۔ کتنے کم ظرف ہوتے ہیں وہ لوگ جو دلوں اور روحوں سے جڑے رشتوں کو تار تار کرنے کے بعد نمازوں اور سجدوں میں جنت مانگتے ہیں۔‘‘
’’گلبدن! میرا ذاتی تجربہ ہے کہ زندگی کے مختلف ادوار میں بہت کچھ بدلتا ہے اور بدلتا بھی رہے گا۔ اکثر بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ہماری مرضی کے خلاف ہوتا ہے، ہو سکتا ہے تمہیں بہت کچھ چھوڑنا بھی پڑے، بہت کچھ جھیلنا بھی پڑے، مشکلیں آتی ہیں، آئیں گی اور آتی رہیں گی۔ دکھوں کے بگولے بھی آ سکتے ہیں، آئیں گے بھی، لیکن ان سب سے لڑنے کے لیے کوئی بھی تمہارے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا۔ بھلے ہی تمہارے اپنے کیوں نہ ہوں۔ سو، اللہ کے سوا کسی سے امید مت لگانا کہ وہ تمہیں حوصلہ دیں گے، تمہارے برے وقت میں، تمہاری مشکل میں تمہارا ساتھ دیں گے، یہ کام تمہیں خود ہی کرنا ہے اور کرنا پڑے گا۔ یہ دنیا ہے یہاں اپنی لڑائی خود لڑنی پڑتی ہے۔ وقت کیسا بھی آئے، کوئی تمہارے ساتھ ہو نہ ہو، لیکن تم خود اپنے پاس ضرور موجود رہنا، کیونکہ آخر میں تمہیں ضرورت اپنی ہی پڑے گی۔‘‘ میں نے حوصلہ دیا اور یہی تو میں کرتی ہوں۔
’’شاید آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ آج کے بعد میں ہمیشہ خود کے لئے اپنے پاس موجود رہوں گی، اور اپنی لڑائی خود لڑوں گی اور مشکلوں سے کہوں گی کہ میرا خدا بڑا ہے۔‘‘ اس کی آواز گلو گیر تھی، لیکن لہجہ پر عزم تھا۔
سوالات
(1) ہم جنس پرستی ایک فکری موضوع ہے۔ کیا اس موضوع کو ’’موضوع ممنوعہ‘‘ مان کر یکسر نظر انداز کر دینا چاہیے، یا اس پر کھل کر گفتگو کرنا چاہیے؟
(2) گلبدن کے شوہر کی بد اعمالی کو شیطان کا بہکاوا مان کر بہت ہی آسانی سے سنبھلنے کا موقع دیا گیا۔ کیا خواتین سے ہونے والی غلطیوں کو بھی اتنی ہی آسانی سے شیطان کا بہکاوا مان کر قبول کیا جاتا ہے؟ کیا انہیں بھی خود سے سنبھلنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ امتیاز کیوں؟
(3) ہم جنس پرستی جرم ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اس جرم سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمارے مساجد اور مذہبی رہنماؤں، اداروں کے پاس کیا کوئی حکمت عملی ہے؟
***