(Last Updated On: )
لَو قتل ہوئی صرف دھواں میری لیے تھا
حجرے میں کوئی اور کہاں میرے لیے تھا
اتنا ہے مجھے یاد میرے بھائی تھے پیچھے
اور سامنے اک اندھا کنواں میرے لیے تھا
مانوس سی خوشبوئے محبت ہی نہیں تھی
اک جسم اندھیرے میں عیاں میرے لیے تھا
چھت پر تو کئی اور چھتوں کے تھے حسیں خواب
پر زیرِ زمیں ایک مکاں میرے لیے تھا
اک آس گزرتے ہوئے لمحوں سے پرے تھی
اک شخص کئی سال جواں میرے لیے تھا
دانستہ سی اس ہار پہ افسردہ نہیں ہوں
میں جیت بھی جاتا تو زیاں میرے لیے تھا
دنیا نے کہا رُک ابھی سامان ہے باقی
پھر سامنے اک کوہِ گراں میرے لیے تھا
دلشادؔ میں الزام اُسے دوں بھی تو کیسے
وہ دوست نما دشمنِ جاں میرے لیے تھا