تم کو مبارک بستی بستی، اجلی پیلی کالی دھوپ
میرے بدن کو سینک رہی ہے بس میرے گھر والی دھوپ
بھیگی پسینے میں بل کھاتی الہڑ اور متوالی دھوپ
سر پہ بوجھ کو لادے پگڈنڈی پہ چلی سنتھالی دھوپ
کمروں سے آنگن میں لائی مہک پراٹھوں کی سب کو
اماں، بہوئیں، بیٹے، بچے، پان، سروتہ، چھالی، دھوپ
نئی دلہن کی نرم ہتھیلی سہلاتی ہے درد مرا
بغل میں چمٹی کاٹ کے فوراً بھاگ گئی ہے سالی دھوپ
اب کہتے ہو رشتے سارے جھلس رہے ہیں کمروں میں
سائے کی جڑ کاٹ کے تم نے آنگن میں کیوں پالی دھوپ
شب کی مستی اُف اور آہ کی تکراروں پر ختم ہوئی
پہلی کرن کے شامل آئی تھو تھو کرتی خالی دھوپ
تم کیا جانو نئے مزاجو، ان تابندہ قدروں کو
آج بھی حدّت پہنچاتی ہے مولانا کی حالی دھوپ
آنکھیں مل کر پٹ کھولا تو سڑک پہ پہلا منظر تھا
ہاتھ کے رکشے پر بیٹھی تھی سندر سی بنگالی دھوپ
پچھلی شب بے نام نوالے مہمانوں سے چھوٹ گئے
جوٹھے پتے چاٹ رہی ہے پچھواڑے کنگالی دھوپ
اپنی چھت کا سایہ اب دلشادؔ بہت یاد آتا ہے
لوٹ چلو گھر خوب کمایا صحرا کی بھی کھا لی دھوپ