کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت پسندی کا راستہ دکھانے والا مصنف؟اس تھریڈ کاايک مقصد اس بات کو بھی اجاگر کرناہے کہ کس طرح رياست اور اس پر قابض طبقہ اپنے جبر کو قائم رکھنے کيليے مابعد الفطرت شخصيات اور انکے ماضی پرست نظریات کی ترویج کرتی ہے اور جديد علوم اور انسانی شعور کے ارتقاء کے پيمامبروں کے علم کا راستہ روکتی ہے۔آج ہم نے اس مختصر تھریڈ ميں اسی مدھے کا موازنہ کرنے کيليے دو نام منتخب کئے ہيں ان دونوں کا تعلق تقريبا ایک ہی علاقے سے ہے۔ایک رياست پاکستان کی سب سے مقدس شخصيت علامہ محمد اقبال اور دوسرے ایک غیر معروف کالم نگار جناب اکبر علی ايم اے کو( جن کے نام سے شاید انکے اپنے آبائی شہر گجرات کے لوگ بھی واقف نہ ہوں)۔
علامہ اقبال مغرب سے اعلی تعلیم یافتہ اور يورپ کی صنعتی ترقی کو اپنی آنکھوں سے ديکھنے کے باوجود اپنی ترقی کيلیے سینکڑوں سال پيچھے کیطرف ديکھتے ہيں اور اسکا حل بھی ماضی سے تلاش کرتے ہیں، جبکہ انکے مدمقابل علی اکبر گجرات جیسے پسماندہ علاقے ميں پرورش پانے اور بحثیت سکول ٹيچر (جو صرف بچوں کے سرتھے) نے ترقی کا راز سائنس و صنعت ميں ڈھونڈا۔جیساکہ “مستقبل پر قبضہ سائنس کرسکتی ہے۔ تاريخ میں پھنسے رہنے سے ثقافتوں کے نشانات بھی باقی نہيں رہتے”۔مزید فرمايا کہ “سائنس کے تاریخی عمل نے يہ ثابت کيا ہے کہ تبديلی کی قوت محرکہ سائنس اور صنعت ہے”اور ماضی بارے لکھا کہ “تاریخ ماضی کا حافظہ ہے اور سائنس تاريخ کا مستقبل۔ ماضی کسی قيمت پر مستقبل کو مغلوب نہيں کر سکتا”۔اقبال کی عصبیت پرستی کے مقابلے ميں لکھتے ہيں کہ “سائنس اور ٹيکنالوجی ميں پس ماندہ سماج کيليے سب سے پہلا مسلہ علمی لحاظ سے اپنے کلچر کا بانجھ پن ختم کرنا ہوتا ہے، اور قبائلی، نسلی ، علاقائی اور فرقہ پرست عصبیتوں سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے جو سائنسی کلچر کے فروغ ميں بڑی رکاوٹيں ہيں “۔
اقبال اپنے مخاطبين کو پلٹنا چھپٹنا اور پلٹ کر چھپٹنے يعنی عقاب(شاہین) جيسے پرندے کی اخلاقیات سيکھنے کا درس دیتے ہيں جو انسانی سرشت ميں شامل ہی نہيں، اقبال اپنی خودی ميں فرد کو سماج سے الگ کرتا ہے جبکہ اس کے مدمقابل اکبر علی کے فرد کی پہچان سماج سے ہے فرمایا”انڈسٹری اور کلچر کا ارتقاء لازم وملزوم ہيں، کلچر کی تخلیق صنعت سے ہوتی ہے اور کلچر کا استقلال صنعت پر منحصر ہوتا ہے۔ انجن کے ہارس پاور نے اپنا کلچر پيدا کيا ہے اور آج بے پہيہ کمپيوٹر کی برين پاور اپنا کلچر پیدا کر رہی ہے”۔ مزید لکھتے ہيں کہ “ جدید کلچر کی طاقت کا سر سرچشمہ صنعتی طاقت ہے اور صنعتی طاقت کا مذہب سائنس اور ٹيکنالوجی ہے۔ ان کے حصول کے بغیر جديد زندگی کے کسی بھی مسلے کو حل نصيب نہيں ہوسکتا”۔
علامہ اقبال خلافت اور بادشاہوں کے قصيدے گو تھے ساتھ الہامی علوم اور جنون (عشق) پر ايمان رکھتے ہيں جبکہ انکے مقابلے ميں اکبر علی ايم اے نے سماج کی طبقاتی ساخت اسکی حرکیات، سرمايہ داری نظام کی مختلف جہتوں و سماجی زندگی ، انسانی ارتقاء سائنس و صنعت کی پیداواری طاقت وغيرہ کو موضوع بحث بنايا۔انکی مستقبل بينی کا اندازہ اس سے لگاہيے کہ پاکستان ميں ابھی پرنٹ ميڈيا اآذاد نہ ہوا تھا تو انھوں نے کمپيوٹر کی ايجاد کے ابتدائی دونوں ميں دنيا ميں برپا ہونے والے اس انقلاب کو بھانپ ليا تھا، AI کے concept کو سونگھ ليا تھا اور روبوٹ کے فيوچر کو تسليم کرليا تھا، آج کے سوشل ميڈيا کا دور دور تک کوئی نام ونشان تک نہ تھا ليکن انکی دور بينی آنکھ اسکی چغلی کھا رہی تھی۔اکبر علی کے نزديک “سائيٹيفک اور اکنامک سوساہٹی کے بغیر آزادی ایک واہمہ ہے”۔
عشروں پہلے کہہ دیا تھا کہ “ايٹم بم قومی سلامتی کی آخری ضمانت ہيں۔ ابتدائی ضمانت معیشت اور سماج کی سویلين ترقی ہے”
اکبر علی پہلے پاکستانی تھے جہنوں نے دنيا کو اقوام ميں تقسيم کرنے کی بجاے “گلوبل ويلج” کا استعارہ دیا۔ جدید جدید معاشی جنگ پر “لڑتے ہيں ہاتھوں ميں تلوار بھی نہيں” کے عنوان سے کالم لکھا۔
اکبر علی کہتے ہيں” آج دنيا کو بينکوں کے زريعے کنٹرول کيا جارہا ہے”۔مضبوط دفاع کے حامیوں پر تبرا کرتے ہوے فرمایا “آج کا دور اسلحہ دے کر فوجوں کو فتح کرنے کا دور ہے”۔ حصول انصاف کی دھائئ دینے والوں سے مخاطب ہوکر کہا “انصاف وساہل رزق کی تخلیق سے فروغ پاتا ہے”۔ آج کرپشن کا منترہ پڑھنے والوں کو 40 سال پہلے سائنينٹفک تجزيہ کر کے دے گے تھے کہ “ کرپشن اور جرائم مادی ارتقاء ميں پسماندگی کی پيداوار ہوتے ہيں”۔
اگر اقبال کی شاعری ہم عصر شعرا سے مختلف تھی تو اکبر علی ايم اے کے مضامین بھی ہم عصر مارکسی تحریروں سے منفرد تھے۔ خود فرما گے ہيں۔
“تاریخ کا فیصلہ ہے کہ زندگی مقابلے کا میدان ہے اور مقابلے کا میدان بہتر عقل، بہتر ہنر، بہتر ٹیکنالوجی اور تخلیقِ رزق کے بہتر اوزاروں سے جیتا جا سکتا ہے نا کہ عشق و مستی کے نعروں سے۔مشرق نے ہزاروں کی تعداد میں عشق و مستی کے مجذوب پیداکیے، اسی لیے زوال کی طرف گامزن ہے۔ مغرب نے بیس تیس سائنس دان و موجد پیدا کیے، تہذیب و تمدن کا سارا نقشہ تبدیل ہو کر انسانیت کے لیے فیض، ترقی اور قوت کا عظیم سرچشمہ بن گیا“
اہيے آخر ميں اقبال اور اکبر کا بطور انسان موازنہ کرتے ہيں علامہ اقبال راج کے وظیفہ خوار تھے اور سر کا خطاب لے رکھا تھا۔ جنرل ڈاہر نے جب جيليانوالہ باغ ميں قتل عام کيا تو اقبال نے بطور احتجاج ٹیگور کی طرح اپنا سر کا خطاب واپس نہ کیا، بلکہ مذمت تک نہ کی کہ شاید وظيفہ بند نہ ہوجاے۔ جبکہ دوسری طرف مسعود اختر ایڈووکیٹ کی کوششوں سے ايک روز PTV پر اکبر علی ايم اے کے انٹرویو کيلیے اسلام آباد ميں اہتمام ہو گيا، ریکارڈنگ سے اگلے روز جب اکبر علی کو مطلع کیا گيا تو انھوں نے اس لئے انکار کرديا کیونکہ انکی بھينس حاملہ تھی اسکے دن پورے ہو چکے تھے۔ مسعود اختر نے کہا کہ وہ کم از کم چند ڈاکٹرز سمیت 10 بندوں کا اہتمام کريں گے اور وہ اتنے بڑے انٹرویو کيليے چلے جاہيں مگر اکبر علی ایم اے نے يہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ اس مشکل وقت ميں اپنی بھینس کو اکيلے نہيں چھوڑ سکتے۔ اندازہ کيجیے ايک طرف جسکو ہم شاعر مشرق و حکیم الامت کہتے ہيں خودی کا درس دينے والے کو ہزاروں انسانوں کے قتل عام سے زيادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز تھا جبکہ دوسری طرف ايک شخص کے پاس مشہور ہونے کا نادر موقع تھا مگر اس نے اپنی شہرت سے زیادہ اپنے جانور(بھينس) کے درد کا خیال کیا۔اکبر علی نے انتہائی سادہ اور سچی زندگی گزاری بڑے انسان کے ساتھ ساتھ بقول صلاح الدین شہبازی”اکبر علی ایم۔اے واقعات اور اشیاء کو سائنس دان کی نظر سے دیکھتے، فلسفی کی طرح تجزیہ کرتے، مفکر کی طرح نتیجہ اخذ کرتے اور انشاء پرداز کی طرح اظہار کرتے ہیں۔ان کی تحریروں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ گویا کوئی انکشاف کر رہے ہیں”۔
تف ہے اس شہر پر جہاں امام دین گجراتی اکبر علی ايم سے زيادہ بکتا ہے۔سیدی وجاہت مسعود نے جامع بات لکھی کہ “اکبر علی ایم اے اب سے چالیس برس پہلے کی نسل کو خرد افروزی کا درس دیتے تھے۔ سادہ زبان میں سائنس سمجھاتے تھے، عقلیت پسندی کی دعوت دیتے تھے، انصاف، آزادی اور جمہوریت کے موضوعات پر ایک نسل کی تربیت کی۔ 1930 میں پیدا ہونے والے اکبر علی 15 اکتوبر 2002 کو رخصت ہو گئے “
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...