مندرجہ بالا عنوان سے یہ تأثر پیدا ہوتا ہے کہ میں اپنے قارئینِ کرام کے ملاحظے کے لیے اقبال اور رومی کا تقابلی مطالعہ پیش کرنے جارہا ہوں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ میری نظر کے آگے علامہ اقبال کی کلیاتِ اردو کا صفحہ ۲۲۳ (بالِ جبریل) کھلا ہو اہے۔ اس پر ایک نظم ’’پیر و مرید‘‘ کا آغاز ہو رہا ہے۔ ’مریدِہندی‘ سے منسوب پہلے شعر میں ’علمِ حاضر‘ کو موضوع بنایا گیا ہے۔
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
یہ نہیں بتایا گیا کہ ’مریدِ ہندی‘ اور کوئی نہیں علامہ اقبال خود ہیں۔
’علمِ حاضر‘ کے بعد مریدِ ہندی ’دورِ حاضر‘ کو موضوع بناتے ہیں۔
’دورِ حاضر‘ مریدِ ہندی کی رائے میں بے سرور موسیقی میں مست ہے اور وہ عارضی، یقین سے تہی اور حضوری سے خالی ہے۔ ’دورِ حاضر‘ کے ساتھ ہی مریدِ ہندی یورپ اور یورپ کے واسطے سے مغربی دنیا کا حوالہ سامنے لاتے ہیں۔
پیرِ رومی سماع کا حوالہ دیتے ہیں جو اہلِ مغرب کے لیے ایسا ہے جیسے مرمکے کے لیے انجیر۔ اس کے بعد مریدِ ہندی علومِ شرق و غرب سے بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہیں اور پیرِ رومی ان کو اپنی طرف یہ کہہ کر بلاتے ہیں کہ نااہلوں کے ہاتھوں تو بیمار ہوگیا ہے، اب ماں کے پاس آ کہ تیری تیماداری ہو۔ مریدِ ہندی جہاد کے موضوع پر بات چھیڑتے ہیں۔ یہی وہ حکمِ جہاد ہے جو مسلم فکر اور فکرِ مغرب کے مابین متنازع فیہ ہے۔ پیرِ رومی اس ضمن میں اپنا ایک ایسا شعر سامنے لاتے ہیں جو گمبھیر فکریات کے کسی دریا کو نہیں بلکہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔
’’نقشِ حق‘‘ را ہم بہ ’’امرِ حق‘‘ شکن
’’بر زجاج دوست‘‘ ’’سنگِ دوست‘‘ زن
موضوع کے خلاف اور موضوع کے موافق دلائل میں نہ کسی کو مسترد کیا جارہا ہے اور نہ ہی کسی کو قبول۔ یہ واضح طور پر تسلیم کیا جارہا ہے کہ جہاد انسانی معاشرے میں شکستگی کا باعث بنتا ہے لیکن جب یہ ضروری ہو جاتا ہے تو اس کو ’’امرِ ربی‘‘ کی صورت میں جواز حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ صورتِ حال ایسی ہوتی ہے جیسے آئینے پر پتھر مارنا جب کہ آئینہ بھی دوست کا اور پتھر بھی دوست کا۔
بات چیت کا رُخ بدلتے ہوئے حسین عورتوں کا تقابلی مطالعہ موضوع بنتا ہے۔ مغرب اور مشرق کی حسینائوں کے بارے میں پیرِ رومی چاندی کا حوالہ دیتے ہیں جو سپید ہوتی ہے لیکن اس سے ہاتھ اور کپڑے سیاہ ہوتے ہیں۔ مغرب کی گوریوں پر اتنی کڑی تنقید رومی کے حوالے سے حیران کن لگتی ہے۔ نوجوان نسل کی مغرب پرستی پر رومی کا تبصرہ حقیقت پسندانہ ہے کہ مشرق کا نوجوان اڑنے میں نوآموز پرند ہے جس کو مغرب کی بلی نے اپنا لقمہ بنایا ہوا ہے۔ آگے چل کر دین اور وطن کا مسئلہ سامنے آتا ہے اور رومی اختتامِ شب کی نوید پر قولِ فیصل سناتے ہیں۔ اس کے بعد آدمِ خاکی کے رازِ سربستہ کی تفہیم کی جاتی ہے۔ ظاہر اور باطن میں تقابل دکھایا جاتا ہے۔ مریدِ ہندی غایتِ آدم کو موضوع بنا کر سوال کرتے ہیں کہ آیا وہ خبر ہے یا نظر؟
پیرِ رومی کی رائے میں آدمی نظر ہے۔ وہ نظر کو محبوب کی دید سے مشروط کر دیتے ہیں۔ مریدِ ہندی سوال کرتے ہیں کہ قوموں اور امتوں کی موت کس مرض سے ہوتی ہے؟ پیرِ رومی جواب دیتے ہیں کہ ماضی میں جو قوم یا امت ہلاک ہوئی اس سبب سے ہوئی کہ اس نے جندل کو عدد قیاس کیا۔
مریدِ ہندی مسلماں فرد اور امت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں آج کے مسلمان کا لہو اگلے وقتوں کے مسلمانوں کے لہو کی مانند گرم اور پُرجوش نہیں ہے۔ پیرِ رومی وضاحت کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کسی بھی قوم کو زوال آشنا نہیں کرتا جب تک اس قوم میں اہلِ دل ہوتے ہیں۔ مریدِ ہندی معاشرے کی عام بے رونقی اور سرد بازاری کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کرتے ہیں کہ اس ماحول میں کس طرح کے سودے میں نفع ہے۔ پیرِ رومی مشورہ دیتے ہیں کہ آدمی کو چاہیے کہ چالاکی بیچے اور اس کے بدلے میں حیرانی خریدے، کیوں کہ چالاکی (زیر کی) دھوکا ہے اور حیرانی ’’نظر‘‘ ہے۔ مریدِ ہندی شکوہ کرتے ہیں کہ اس کے ساتھی بادشاہوں کے مقرب ہیں اور وہ فقیر ہیں اور ان کے سر پر کلاہ (شان دار ٹوپی) بھی نہیں ہے۔ پیرِ رومی اُن کو تسلی دینے کے انداز میں کہتے ہیں کہ کسی روشن دل بزرگ کی غلامی اختیار کر یہ اس سے بہتر ہے کہ بادشاہوں کے سروں اور چہروں پر توجہ دے۔ مریدِ ہندی ’’جبر و قدر‘‘ کی وضاحت کے طالب ہوتے ہیں تو پیرِ رومی باز اور زاغ کے مابین تفریق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ باز بادشاہوں کے ہاتھوں تک رسائی پاتا ہے جب کہ زاغ کا میدانِ عمل قبرستانوں تک محدود رہتا ہے۔
مریدِ ہندی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی مقصدیت کا نکتہ چھیڑتے ہیں اور دو آپشن (رویوں)(۱) شاہی، حکومتی طور طریق اور (۲) رہبانیت/ ترکِ دنیا کا پوچھتے ہیں۔ پیرِ رومی براہِ راست دینِ اسلام اور عیسائیت کے حوالوں پر آجاتے ہیں۔ ان کے مطابق اسلام زندگی کے تحرک اور جدوجہد اور لازم ہو تو جنگ سے جڑ جاتا ہے جب کہ عیسائیت پہاڑوں اور غاروں کی زندگی کو ترجیح دیتی ہے۔ آدمی کے مٹی اور پانی کے مزاج میں متوازن کیفیت پیدا کرنا اور دل کو دلِ بیدار کی صورت دینا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ پیرِ رومی حکم صادر کرتے ہیں کہ سب سے پہلے بندگی اختیار کر اور زمین پر گھوڑے کی مانند چل۔ ایسا نہ بن کہ لوگوں کی گردن پر اٹھے۔ مریدِ ہندی گفتگو کا رُخ دین کے راز ہائے مخفی ( ّسرِ دین) کی جانب موڑتے ہوئے قیامت پر تشکیک سے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔
جواب میں کہتے ہیں پیرِ رومی، قیامت آئے گی تب ہی دیکھی جائے گی۔ ہر چیز کو دیکھنے کے لیے یہی طریقہ مقرر ہے۔ مریدِ ہندی کے ذہن پر ’’خودی‘‘ کی فکر غلبہ کرتی ہے اور مرید، مرشد کو اس کا ابلاغ کرنے لگتا ہے:
آسماں میں راہ کرتی ہے خودی
صید مہر و ماہ کرتی ہے خودی
بے حضور و بے فروغ و بے فراغ
اپنے نخچیروں کے ہاتھوں داغ داغ
پیرِ رومی عشق سے خودی کو سنوارنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ مریدِ ہندی ایک بار پھر ملت کی زندگی میں استحکام کا مسئلہ چھیڑتے ہیں۔ پیرِ رومی زندگی میں استحکام کے مسئلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ آدمی اپنے بارے میں درست فیصلہ کرے۔ وہ جیسا بنے گا اس کی زندگی کا انجام ویسا ہی ہوگا۔ دانہ بنے گا تو اس کو پرند چُن کھائیں گے، غنچہ بنے گا تو بچے توڑ لیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے ’’دانے‘‘ کو چھپا کر خود سر سے پائوں تک جال (دام) بن جائو اور اپنی اندر کی کلی کو چھپا کر بلندی پر اُگی ہوئی کائی بن جائو۔
مریدِ ہندی اور مرشدِ رومی کا مکالمہ قدرے زیادہ بے تکلفانہ انداز اختیار کرنے لگتا ہے اور موضوع بھی ’’دل‘‘ منتخب ہوتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ’’دل‘‘ وہ نہیں ہے جو رومانی ادب و شعر میں جان ڈالتا ہے۔ یہ ’’دل‘‘ ہے اقبال کا، یہ دل ہے رومی کا۔ آئیے اس دل کی دھڑکن سنتے ہیں۔
اقبال پیرِ رومی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
تو یہ کہتا ہے کہ دل کی کر تلاش
’’طالبِ دل باش و در پیکار باش‘‘
جو مرا دل ہے، مرے سینے میں ہے
میرا جوہر میرے آئینے میں ہے
پیرِ رومی سرزنش کرتے ہیں کہ اہلِ دل کی جستجو کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
مریدِ ہندی اپنی حالت بیان کرتے ہیں کہ ان کی فکر آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچتی ہے لیکن وہ زمین پر خوار و زار اور دکھی ہیں۔ دنیا کے کاموں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ بعد میں انھیں خیال آتا ہے کہ دین میں کامیاب لوگ دنیا میں ابلۂ دنیا بن کر زندگی گزارتے ہیں۔
پیرِ رومی یہ نہیں مانتے کہ جو آسمانوں پر چلتے ہیں ان کو زمین پر چلنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔
مریدِ ہندی علم و حکمت کو ناپید اور گم محسوس کرتے ہیں اور سوز و درد و داغ کو پانے کی تدبیر کے متلاشی ہیں۔
پیرِ رومی کے مطابق حلال کھانے سے علم و حکمت حاصل ہوتی ہے اور عشق اور گداز (رخت) بھی اکلِ حلال سے بہریاب ہوتی ہے۔
مریدِ ہندی سوزِ سخن، کلام میں اثر انگیزی کو خلوت (تنہائی) سے مشروط کرکے زمانے کا شکوہ کرتے ہیں کہ عصرِ حاضر کا مزاج اجتماعیت اساس ہے۔
پیرِ رومی نے اپنا مؤقف واضح کیا ہے کہ دوست سے خلوت سوچی بھی نہیں جاسکتی، البتہ غیروں کے درمیان خلوت کی خواہش کا جواز بنتا ہے۔
مریدِ ہندی ملک کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے اظہارِ تأسف کرتے ہیں کہ اہلِ دل کی زندگی تاریک ہے، نہ تو نور ہے اور نہ ہی سوز۔
پیرِ رومی اس مسئلے کو ملک سے متعلق نہیں کرتے جیسا کہ مریدِ ہندی نے کیا ہے۔ پیرِ رومی ملک کے باسیوں کو ملک کی حالت سدھارنے اور بگاڑنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ پیرِ رومی کے مطابق ملک کے باسی اگر مرد ہیں تو ملک کو روشن اور زندگی کو حرارت سے معمور کر دیں گے۔ بصورتِ دیگر اگر ملک کے باشندے نکمے اور پست ہمت ہیں اور مردانگی سے عاری ہیں تو وہ ڈھیٹ پن اور بے حیائی کا رویہ اختیار کرکے ملک کی زوال پذیری اور بربادی کے بارے میں حیلوں اور بہانوں سے کام لیں گے۔
’’بالِ جبریل‘‘ میں اقبال نے خود کو مریدِ ہندی اور رومی کو پیرِ رومی کے طور پر پیش کیا ہے۔ (ص۔ ۲۳۳ تا ۲۳۸، ’’کلیاتِ اقبال‘‘ سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ۲۰۰۹)
مریدِ ہندی اور پیرِ رومی کے مابین گفتگو کا آغاز جو شاعری کی زبان میں کی جارہی ہے۔ مریدِ ہندی (اقبال) کے مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے:
چشمِ بینا سے ہے جاری جوئے خوں
علمِ حاضر سے ہے دیں زار و زبوں
اس شعر سے پڑھنے والوں کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اس کا سابقہ کسی نوع کے انٹرویو (مصاحبے) سے نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مریدِ ہندی اپنے کسی ذاتی مسئلے کے سلسلے میں پیرِ رومی سے ہدایت یا اعانت کا طالب نہیں ہے۔
اقبال (مریدِ ہندی) کے جواب میں پیرِ رومی علم کے بارے میں اپنے نظریے سے روشناس کرتے ہیں:
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
اس حیران کن صورتِ حال سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے کہ اقبال (مریدِ ہندی) پیرِ رومی سے مخاطب ہیں، اس پیرائے میں جیسے پیرِ رومی ان کے رو بہ رو ہیں اور وہ پیرِ رومی کی خدمت میں حاضر ہیں۔ سوال و جواب کی یہ مجلس تادیر جاری رہتی ہے۔ چوبیس، پچیس موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں۔
اس مجلس کی مثال دنیائے علم و ادب میں، بلکہ تاریخِ ادب میں نہیں ملتی۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اقبال اور رومی جن کے درمیان صدیوں پر مشتمل وقت کی خلیج حائل ہے، ہم مجلس ہوگئے؟
ظاہر ہے کہ علامہ اقبال نے یہ سب کیا اور اپنی کتاب ’’بالِ جبریل‘‘ میں اس مجلس کو ناممکن سے ممکن بنا کر مرتبۂ دوائم پر فائز کیا۔ اس مجلس میں پیش کیے گئے علامہ اقبال کے اشعار تو ہیں ہی علامہ کے، لیکن مولانا جلال الدین رومی کے اشعار پر علامہ اقبال نے اپنے حسین انتخاب کی مہر لگا دی ہے اور اس طرح ان اشعار کو اپنا لیا ہے مناسب توقیر کے ساتھ، کچھ اس طرح کہ پیر کے اشعار پیر کے اور مرید کے اشعار مرید کے رہتے ہیں، حدودِ ادب و لحاظ کے رکھ رکھائو کے ساتھ۔
آگے چل کر حیرانی مزید گمبھیر ہو جاتی ہے۔ ’’ضربِ کلیم‘‘ میں ہمارا واسطہ علامہ اقبال کی انتہائی مختصر محض گنتی کے دو اشعار پر مشتمل نظم ’’اقبال‘‘ سے پڑتا ہے:
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش
’’بالِ جبریل‘‘ کے علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’پیر و مرید‘‘ میں، وقت میں پیچھے کی طرف صدیوں کا سفر طے کیا تھا اور جلال الدین رومی کے ساتھ سوال جواب کی مجلس رچائی تھی۔
’’ضربِ کلیم‘‘ کے اقبال نے وقت میں آگے کی جانب سفر کیا ہے۔ اتنا آگے، اتنا آگے کہ جنت ان کی منزل بن گئی ہے۔ علامہ اقبال نے جنت الفردوس میں بھی ایک مختصر سی مجلس رچائی ہے۔ اس مجلس کے شرکا ہیں حضرت رومی، حضرت سنائی اور حضرت حلاج۔ اس مجلس کا موضوعِ فکر بھی مشرق ہے۔
حضرت سنائی، حضرت رومی سے مخاطب ہیں۔ ان کے مطابق مشرق میں حالات کی صورت ویسی ہی ہے جیسی ان کے وقتوں میں تھی۔ مشرق بیمار ہے اور اس کے پیالے میں جو کا پانی یا کوئی اور پتلی غذا ہے، جیسے پتلا شوربا وغیرہ۔ اس کے صحت مند ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ حضرت حلاج، ان کو یہ نوید دیتے ہیں کہ ایک مردِ قلندر نے خودی کے اسرار سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ مردِ قلندر سے علامہ اقبال مراد ہیں۔ (ص۔ ۲۴۹، ’’ضربِ کلیم‘‘)
جس انداز اور پیرائے میں علامہ اقبال نے اپنے آپ کو اپنی نظم ’’اقبال‘‘ کا موضوع بنایا ہے، وہ بھی کچھ کم حیران کن نہیں ہے۔
سنائی:
حکیم عبدالمجید مجدود ابنِ آدم سنائی غزنوی
غزنوی شہنشاہیت کے دور میں خراسان کے نام ور فارسی زبان کے شاعر (خراسان آج کے افغانستان میں شامل ہے۔)
سالِ وفات:۱۱۳۱ء
حلا٭ّج:
حضرت حسین بن منصور الحلاج کے بارے میں یہ روایت سامنے آتی ہے کہ وہ حضرت جنید بغدادی کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے پوچھا گیا، ’’کون‘‘ حضرت منصور الحلاج نے اپنا نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے جواباً فرمایا، ’’اناالحق‘‘۔
حضرت حسین بن منصور الحلاج کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ چند ایک خطوط میں انھوں نے از جانب ’’حق‘‘ لکھا۔
حسین بن منصور کو گرفتار کر لیا گیا۔ مقدمہ چلایا گیا اور موت کی سزا دی گئی (ازروئے روایت سنگسار کیے گئے)۔
وفات: ۲۶ مارچ ۹۲۲ء بغداد، عراق
ولادت: ۸۵۸ء فارس، ایران
عہد: عباسی شہنشاہیت کا دور
حضرت جنید بغدادی:
حضرت سلافی الجنید البغداد/ ابو القاسم ابن محمد الجنید البغداد۔
ولادت: ۸۳۰ء، بغداد، عراق
وفات: ۹۱۰ء بغداد، عراق
تصوف، طریقت، شریعت اور اسلامی دینی علوم میں وہ اپنے وقت کے جید استاد اور عالم تھے۔ ان سے بغدادی مکتبِ فکر کو امتیاز حاصل ہوا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...