(Last Updated On: )
دنیا بھر کے رومی شناسوں کے زبانی بیانات اور تحریروں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں، جتنے قلم اتنے نکتہ ہائے خیال۔ مغرب میں رالف والڈو ایمرسن (Ralph Waldo Emerson) جیسے محتاط اور سنجیدہ مزاج مفکر، ادیب اور ناقد کی تحریروں میں رومی کی موجودگی سے کون قاری حیران نہیں ہوگا۔ یوں تو تیرھویں صدی سے اکیسویں صدی تک یعنی آج تک ہر صدی میں مولانا، مولوی، میلوی محمد جلال الدین وخشی، خراسانی، تاجکستانی، بلخی، افغانی، ایرانی، قونوی، ترکستانی، رومی کا نامِ نامی، اسمِ گرامی، زندہ، تابندہ اور پائندہ رہا ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے وہ جریدئہ عالم پر مہرِ دوام کی صورت ثبت ہوگیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب آپ کو اور مجھ کو حضرت رومی کے جنازے کے جلوس کے مندرجہ ذیل بیان پر توجہ دینے سے حاصل ہو جائے گا۔
’’….. وصیتیں کرکے جمادی الثانی ۶۷۲ھ کی پانچویں تاریخ، یک شنبہ کے دن، غروبِ آفتاب کے وقت انتقال کیا۔ رات کو تجہیز و تکفین کا سامان مہیا کیا گیا، صبح کو جنازہ اٹھا۔ بچے، جوان، بوڑھے، امیر، غریب، عالم، جاہل ہر طبقے اور ہر فرقے کے آدمی جنازے کے ساتھ تھے، اور چیخیں مار مار کر روتے جاتے تھے۔ ہزاروں آدمیوں نے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ عیسائی اور یہودی تک جنازے کے آگے آگے، انجیل اور توریت پڑھتے اور نوحہ کرتے جاتے تھے۔ بادشاہِ وقت جنازے کے ساتھ تھا۔ اس نے ان کو بلا کر کہا، تم کو مولانا سے کیا تعلق؟ بولے کہ ’’یہ شخص اگر تمھارا محمد ا تھا تو ہمارا موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام تھا۔‘‘ صندوق جس میں تابوت رکھا تھا، راہ میں چند دفعہ بدلا گیا اور اس کے تختے توڑ کر تبرک کے طور پر تقسیم کیے گئے۔ شام ہوتے ہوتے جنازہ قبرستان میں پہنچا۔ شیخ صدر الدین (وصیت کے مطابق) جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے لیکن چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے۔ آخر قاضی سراج الدین نے نماز پڑھائی۔ چالیس دن تک لوگ مزار کی زیارت کو آتے رہے۔ (ص:۲۵۔۲۶)
سوانح مولانا روم
از علامہ شبلی نعمانی
مطبوعہ نامی پریس کانپور
۱۹۰۶ء
مندرجہ بالا ذکر جس کو درج کرتے ہوئے میری آنکھوں نے آنسو بہائے اور دل بھی رویا، زیرِ بحث موضوع کو آگے بڑھانے کے لیے کافی و شافی ہے لیکن برسبیلِ تذکرہ میں ناظرین و قارئین کی خدمت میں اسی ذکر کو ایک امریکی خاتون مصنف لزلی وائنس (Leslie Wines) کی زبانِ قلم سے اردو ترجمے (آزاد) کی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔ مندرجہ بالا بیان یا ذکر بیس ویں صدی کے آغاز سے اور مندرجہ ذیل بیان یا ذکر اکیس ویں صدی کے آغاز سے تعلق رکھتا ہے۔ امید ہے کہ دونوں کا تقابلی مطالعہ باجواز سمجھا جائے گا۔
’’جس وقت ۱۷؍ دسمبر ۱۲۷۳ء کا آفتاب ڈوب رہا تھا، رومی رخصت ہوگئے۔ اس وقت، روایات کے مطابق قونیہ پر مکمل سکوت طاری ہوگیا تھا۔ رومی کی بلی ان کی وفات سے بہت متأثر ہوئی اور اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور وفات کے ایک ہفتے کے اندر خود بھی مرگئی۔ رومی کی بیٹی نے اس کو رومی کے پاس ہی دفن کر دیا۔
آج بھی قونیہ میں ۱۷؍ دسمبر کو ’شادی کی رات‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
رومی کی وفات کا سوگ قونیہ میں کوئی چالیس روز منایا گیا۔ غریب اور امیر دونوں طبقات کے لوگوں نے اپنے اپنے طور پر منایا۔ مختلف النوع طریقوں سے عیسائی، یہودی اور مسلمان اس میں مل کر شریک ہوئے۔ واویلا بھی بہت ہوا۔ ماتم، جیسا بھی ہوا۔ پہلے روز تو اس طرح کے جلوس نکالے گئے جس میں شرکا نے اپنے گریبان چاک کرکے اپنے سروں پر رکھے ہوئے تھے۔ سینہ کوبی بھی ہوئی اور سرکوبی بھی۔‘‘
(Death: Dervish Style: Rumi: A Spiritual Biography, Leslie Wines)
رومی کی شہرت اور مقبولیت کا راز صرف اور صرف ان کی روا داری میں چھپا ہے۔ وہ کھلے دل اور روشن ذہن کے بامروت اور نرم مزاج آدمی تھے۔ اگر ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ان کا رویہ بامسلمان اﷲ، اﷲ— بابرہمن رام، رام تھا تو بھی بات پوری نہیں ہوگی، کیوں کہ آدمیوں میں وہ فرق نہیں کرتے تھے۔ نیک و بد میں بھی نہیں کیوں کہ وہ اچھے بُرے دونوں طرح کے آدمیوں سے محبت کرتے تھے۔ رومی کی یہ شخصی خصوصیت اس کی نثری نگارشات جیسے ’’فیہ مافیہ‘‘ کے مکتوبات میں اور شاعری میں مغرب کے قاری کو متاثر کرتی ہے۔ جدید ترین دور کی مصنفہ لزلی وائنس نے رومی کی شاعری سے مندرجہ ذیل اقتباس کو نمایاں جگہ دی ہے:
تم مرے عاشق ہو ، میں تمھیں حیران کر دوں گا
زیادہ تعمیر کی مت سوچنا کیوں کہ تم کو ویرانے میں رکھنا ہے
اگر تم دو سو گھر بنائو— جس طرح شہد کی مکھی بناتی ہے
میں تمھیں ایسا بے گھر بنا دوں گا جیسی مکھی
اگر تم اپنی تعمیر کو کوہِ قاف جیسا استحکام دو گے
یا اپنے آپ کو—
میں تم کو ایسے گھمائوں گا جیسے چکی—!!
شاعری سے اس اقتباس کو پیش کرکے لزلی وائنس لکھتی ہے:
’’ان اشعار سے مغرب کا قاری نہ صرف قدرے معمول سے ہٹے ہوئے استعاروں کا ذائقہ چھکتا ہے بلکہ محبت اور عشق کو ظاہر سے زیادہ باطن تک جانچتا اور پرکھتا ہے۔ رومی کی دنیا اور معاشرہ قطعی غیر مستحکم اور ایک نوع کی مسلسل اتھل پتھل کا شکار تھا۔ اقدار کی غیر یقینی صورت اس وقت کی انسانی زندگی کو ہر طرح کے مقصد اور معانی سے تہی کرتی جارہی تھی۔ رومی کی شاعری میں یہ سب منعکس ہی نہیں بلکہ متحرک اجزاے ترکیبی کی صورت میں موجود تھا۔ مغرب کے قاری کے لیے یہ شاعری ’سچے اور کچے‘ (raw) تجربے سے ہم آہنگ شاعری تھی۔ جس سے مغرب ناآشنا تھا۔ مغرب کے قاری اپنے شعر و ادب کے لادینی اور مادّی مزاج کے مقابلے میں رومی کی عشق و محبت اور حبِ الٰہی کی شاعری کو قدرے زیادہ توجہ سے دیکھتا ہے اور پلٹ کر اپنے شعر و ادب کو مزید روشن کرتا ہے۔
ایسے قاریوں کی بھی کمی نہیں جو رومی کو اس کی اسپینی تاریخ سے الگ کرکے اپنا ہم زمان و ہم مکان (ہم عصر) سمجھ بیٹھتے ہیں۔‘‘
’’رومی کی شاعری کا مغربی اور ہندوستانی انداز میں استعمال‘‘ کی ثانوی سرخی کے تحت لزلی وائنس اور بھی بہت کچھ لکھتی ہے۔
۱۔ نیو یارک کے لباس ڈیزائنر ڈونا کرن (Donna Karan) کے ملبوساتِ بہار کی تقریب ۱۹۹۸ء میں دیپک چوپڑا کا عقب میں رومی کی شاعری پر موسیقی پیش کرنا۔
۲۔ موسیقار فلپ گلاس (Philip Glass) اور رابرٹ ولسن (Robert Wilson) کا اوپرا ’مونسٹرس آف گریس‘ (Monsters of Grace) جس کو مشہور شاعر اور رومی کے ممتاز مترجم کولمین بارکس (Coleman Barks) کی ترجمہ کی ہوئی رومی کی منظومات کی اساس پر مرتب کیا گیا تھا اور جس کو دیکھنے کے لیے تین ڈائی مینشن والی عینکوں کی ضرورت پڑتی تھی۔
۳۔ ماہ بہ ماہ ’’رومی کارڈس‘‘ کا اجرا، ان کی کتابوں کی دکانوں میں فروخت اور ان سے قسمت کا حال دریافت کرنے کا دل چسپ شوق اور مشغلہ۔
۴۔ رومی سے معنون ویب سائٹس (Web Sites)۔
۵۔ رومی کا کاروباری استعمال (Commercialised Rumi)۔
۶۔ رومی شاعرِ عشق و محبت۔
۷۔ رومی کی شمس تبریز سے محبت اور تعلق۔
۸۔ رومی کی بحیثیت ایک ’’صاحبِ اسرار‘‘ شناخت
۹۔ بندے کا دیگر بندے سے مجازی عشقیہ ربط برائے حصولِ عشقِ حقیقی و معرفت و جذب۔
لزلی وائنس نے جہاں مغربی دنیا میں رومی کے قاریوں کی رومی شناسی کو موضوع بنایا ہے وہاں اسلامی ممالک اور معاشرے سے تعلق رکھنے والے قاریوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔
مسلم دنیا کا قاری جس رومی سے والہانہ اُنس و عقیدت کا رشتہ استوار کرتا ہے، وہ ایک مختلف رومی ہے۔ اس رومی کو مغربی ذہن گرفت میں لانے کا اہل نہیں ہوسکتا۔
’’اسلامی ذہن کے مطابق سیکولر (لادینی) دنیا اور روحانی دنیا میں کوئی تفریق نہیں ہے یا آدمی اور خدا میں۔‘‘ (مجھے یہ کہنے کی اجازت ہونی چاہیے کہ لزلی وائنس کا یہ فقرہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اس نے اسلامی ذہن کو نہ جانے کیا سمجھ رکھا ہے؟ اسلام میں رہبانیت کی ہمت افزائی نہیں کی گئی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام میں سیکولر اور اسپریچوئل کے مابین فرق نہیں روا رکھا جاتا۔ قرآن مجید کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے دنیا کو آدمیوں کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ آدمی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ عبادات سے فارغ ہو کر دنیا میں پھیل جائے اور اﷲ تعالیٰ کا فضل تلاش کرے۔
چند ایک مغربی مفکرین نے اسلامی دنیا میں، رومی کی تعلیمات سے جو مفاہیم اخذ کیے ہیں، ان کے مطابق قانون، تاریخ، فطرت، ادب جیسے مضامین کا علم اپنے طور پر مقصد نہیں ہے بلکہ حصولِ مقصد کا ذریعہ ہے اور مقصدِ اصلی ہے اﷲ تعالیٰ کی معرفت— غیر مرئی دنیا— اور خالقِ کائنات کا دیدار اور ربط— مغرب اس نکتے سے باخبر نہ ہوسکا کہ اسلام بہ یک وقت دنیا اور کائنات اور خالقِ کائنات کی معرفت کا طالب ہے۔ لزلی وائنس اس ضمن میں رومی کی چھہ جلدی شاہکار ’’مثنوی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دیتی ہے کہ اپنی حیران کن وسعت اور تنوع کے باوجود اس تصنیف کو یک مقصدی (single purpose) کہنا پڑتا ہے اور وہ مقصد ہے ’’ذاتِ مطلق سے ارتباط‘‘ (Communion with the Absolute)۔
اتنی اہم بات کے بعد دلائل کو ان حدود تک پھیلا دیا ہے جو ابہام سے لبریز اور نزاعی بن گئے ہیں۔ رومی کے والد کے افکار میں ارسطوئی مزاج کا سراغ تو لگایا گیا لیکن اس کے بارے میں ان کے مؤقف کو نظر انداز کیا گیا کہ یہ قیاس درست نہیں کہ حضرت بہاء الدین (رومی کے والد) اپنے ارسطوئی موقف کی وجہ سے کسی مخالفت کی زد میں آئے تھے۔
اس زمانے کے ایک اور جید عالم اور جانے مانے مفکر فخر الدین رازی کے فکر و فلسفے کے بارے میں بھی ایسا ہی رویہ اپنایا گیا۔
مولوی (میلوی) مسلک (Order) کو بھی موضوع بناتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مسلم دنیا رومی کی فکر اور مسلک کے معاملے میں تقسیم شدہ (devided) تھی۔ اس نوع کی فکر بھی اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ مغرب کے مبصر تصوف کے سلاسل اور شریعہ کے حامل علما کے مابین فکری ٹکرائو اور تصادم کو حکمرانوں کی سیاسی مصلحت سے جدا کرکے دیکھتے رہے۔ ’’رقصِ درویشاں‘‘ کی مخالفت جس طرح مسلم دنیا میں کی گئی اور جتنی بھی کی گئی، اس کے بارے میں دو ایک مغرب کے مبصرین کا تجزیہ غیر سنجیدہ ہے۔ یہ غلط ہے کہ سوچے سمجھے طریقے سے شعوری طور پر خود رومی نے اس صوفیانہ طریق ’’رقصِ درویشاں‘‘ کو عوامی مقبولیت دلائی۔ پہلی مرتبہ کسی بازار میں رقصاں ہو کر اور بعد میں اپنے ایک عزیز دوست کی وفات پر جنازے میں شریک بہت سارے لوگوں کو حیران کرکے۔رومی سے جب کبھی اس طرح کی جنبشِ اعضا کی حرکات سرزد ہوئیں، غیر ارادی طور پر ہوئیں۔ ایران سے فارسی زبان میں رومی اور اس کی شاعری پر کثیر تعداد میں مقالات شائع ہوئے ہیں۔ مغرب نے ترکی زبان کو نظر انداز کیا ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ رومی کے بارے میں اتنی زیادہ رائے زنی کیوں اور اس کو جانچنے کے اتنے راستے کیسے؟
اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ یہ مفروضہ ہی غلط باندھا گیا ہے کہ رومی یک مقصدی ہے۔ لزلی وائنس کے مطابق ’’رومی بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ غیر مرئی کائنات کی اہمیت اور کیفیت کو الفاظ کا جامہ پہنائیں۔ ایسا کام (وہ آزادانہ اعتراف کرتے ہیں) جو صرف جزوی طور پر انجام دیا جاسکتا ہے۔ رومی نے ایسا کیوں کہا، اس کو مغربی ذہن سمجھ نہ سکے گا۔ اس ضمن میں لزلی وائنس رومی کی دی ہوئی حضرت سلیمان علیہ السلام اور ہُدہُد کی حکایت کا حوالہ نکلسن کے ترجمے سے اخذ کرکے دیتی ہے۔
رومی لکھتے ہیں: ’’کیا تو ہر چیز کا نام اس جاننے والے سے سنتا ہے! سن بہت اندر کے اسرار کو، ہماری حد تک ہر چیز کا نام اس کی ظاہری صورت کے مطابق ہے، خالق کے مطابق ہر چیز کا نام اس کی باطنی (اندرکی) حقیقت پر ہے۔ مثنوی جلد اوّل و دوم، ص: ۶۷ (نکلسن)‘‘
قاضی سجاد حسین (مثنوی، دفتر اوّل، ص: ۱۵۴) سے اقتباس درجِ ذیل ہے:
اسمِ ہر چیزے تو از دانا شنو
رمز و سرِ علم الاسما شنو
(تو ہر چیز کا نام دانا (آدمی) سے سن،
علم الاسما کا رمز اور بھید سن)
اسمِ ہر چیزے برما ظاہر ش
اسمِ ہر چیزے برخالق سرش
(ہمارے نزدیک ہر چیز کا نام اس کے ظاہر پر ہے
اﷲ کے نزدیک ہر چیز کا نام اس کے باطن پر ہے)
لزلی وائنس نے جس انداز میں رومی کو بہ یک وقت شاعر اور شخص دونوں حیثیتوں میں منفرد ثابت کرتے ہوئے خراجِ تحسین پیش کیا ہے، وہ پڑھنے اور ستائش کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ رومی شناسی کے سلسلے میں اس کی اہمیت مسلّم ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں:
Rumi was a wonderful poet– uniqualy capable of transcending “outward appearences” and conjuring up the mystical “inward reality”. Yet he is entirely realistic and modest about the limitations of his words— and there are very few such writers in the world.
رومی حیران کر دینے والا شاعر تھا۔ ’’خارجی مظاہر‘‘ سے منفرد انداز میں ماوریٰ پراسرار، ’’باطنی حقیقت‘‘ کا جادو جگانے کی صلاحیت کا مالک، تاہم پورے طور پر حقیقت پسند اور منکسرالمزاج، اپنے الفاظ کی حد بندیوں اور کمی کے اعتراف میں— دنیاے ادب میں معدودے چند ہی قلم کار اس جیسے ملیں گے۔
فوراً بعد وہ یہ بھی لکھتی ہے کہ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ رومی کی سب سے طویل تصنیف ’’مثنوی‘‘ فارسی کے ادبِ عالیہ (کلاسک) میں شامل ہے اور اس کی ادبی حیاتِ جاوداں کی ضامن۔
لزلی وائنس نے رومی کی اپیل (مقبولیت) کو اس کی شاعری کے کوسموپولٹین مزاج کا مرہونِ منت بتایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی وسیع القلبی کا دائرہ کوسموپولیٹن مزاجی کے دائرے سے زیادہ بڑا ہے۔ آپ نے اور میں نے یہ دیکھا تھا کہ ان کے جنازے کے جلوس میں، مسلمان، عیسائی اور یہودی تھے۔ دیگر دھرموں کے ماننے والے بھی ضرور ہوں گے جیسے پارسی وغیرہ جن کا ذکر رہ گیا۔ اسی طرح ہر طبقے کے لوگ تھے۔ علامہ شبلی نعمانی کے مطابق اس علاقے کا بادشاہ بھی تھا۔ سارے شہر نے چالیس دن کا سوگ منایا— رومی کی تصانیفِ نظم و نثر میں جو پیغام ملتا ہے، وہ بھی اتنا متنوع اور صد رنگ ہے جو رومی کو عالمی، کائناتی اور گلوبل شخصیت کے روپ میں سامنے لاتا ہے۔ رومی کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ خالق سے زیادہ عشق کرتے تھے یا اس کی مخلوق سے کیوں کہ ان کا عشق بہ یک وقت خالق اور اس کی مخلوق کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔ اسی سبب سے رومی کا قاری ان کی گرفت میں آجاتا ہے۔ وہ پودوں، پرندوں، آبی مخلوق اور ارضی مخلوق، حیوانات، نباتات، جن و انس، اولیا، پیغمبروں، فرشتوں اور اﷲ سے جڑے ہوئے تھے۔