لمحہ لمحہ گزرتے ہوئے وقت نے روز و شب ماہ و سال گزارے، ایک دو نہیں آٹھ صدیاں پار کر ڈالیں، لیکن تیرھویں صدی میں طلوع ہونے والے اور روشن ہونے والے چاند حضرت محمد جلال الدین رومی نے ماند پڑنے کے بجائے لمحہ لمحہ روشن تر ہونے کا سلسلہ جاری رکھا اور ساتھ ہی اپنے سورج حضرت شمس الدین تبریزی کو اپنے اندر سمیٹ کر یا شاید ان میں سمٹ کر، وقت کے ساتھ، روشنی کا سفر جاری رکھا اور عصرِ موجود یعنی اکیسویں صدی میں سارے ارضی گلوب کو اپنی روح پرور، ٹھنڈی دل آویز تابانی میں لپیٹ لیا ہے۔
آ خر کون ہے یہ رومی؟
کیسا ہے صدیوں سے یہ چمکنے والا چاند؟
اور
کون ہے یہ سو رج جس نے اس ٹھنڈی روشنی والے چاند کو اپنی دو مختصر مدت کی رفاقتوں کی آگ میں تپا کر شخص سے شخصیت میں بدلا۔
ایسی شخصیت جو شہروں شہروں، ملکوں ملکوں پڑھنے، لکھنے، اور سننے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اور اپنی جادوئی کشش کا مبتلا بنا دیتی ہے۔ رنگ، نسل، کلچر، مذہب مسلک، ملک، قوم اور لسان کے تفرقات اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتے اور نہ کبھی بن سکیں گے؟
وقت— بڑوں بڑوں کو گم نامی کے گہرے غاروں میں گرا دیتا ہے۔ تاریخ کے پنوں میں، کمپیوٹروں میں یا میوزیموں میں محفوظ کر چھوڑتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح سب داستانِ پارینہ بن جاتے ہیں۔ وہ جو وقت کی لپیٹ میں نہیں آتے اور وقت سے محفوظ و مامون رہتے ہیں، وہ بڑے نہیں، بہت بہت بڑے ہوتے ہیں۔
کیا واقعی حضرت محمد جلال الدین رومی اور حضرت شمس تبریزی بڑے نہیں، بہت بہت بڑے ہیں؟
یا میرے اللہ! اگر یہ دونوں شخصیات اتنی ہی بڑی ہیں، بہت بہت بڑی ہیں تو ان کے خط و خال واضح کیوں نہیں ہیں؟
صاف طور پر عیاں کیوں نہیں ہیں؟ اور اگر عیاں ہیں تو ان کی تلاش کیوں جاری ہے؟ اتنی ساری ویب سائٹس پر، اتنے سارے وڈیوز میں، فلموں میں محفوظ کرنے والے اور تشہیر کرنے والے نت نئے برقی ذریعو ں میں، ایجو کیشنل ،سو شل اور انٹر ٹینمٹ میڈیائوں میں، رسائل، جرائد اور کتا بوں (برقی اور کاغذی) میں۔ ان کی تلاش کرنے والو ں میں ادیب، شاعر، موسیقار، ماہرانِ رقص، بڑے اور چھو ٹے اسکرین کی چھو ٹی بڑی معروف اور غیر معروف شخصیات، عالم، مؤرّخ، مفکر، محقق، سوانح نگار، سیرت نگار، تذکرہ نویس، نقاد اور مبصر ان کے علاوہ عام لکھنے والے شا مل ہیں۔
جس صورتِ حال کی جانب میںنے آپ کی توجہ مبذول کرنے کی ممکنہ کوشش کی ہے، اس سے آپ کو یہ محسوس ہوتا ہوگا کہ اتنی ساری تگ و دو، جستجو بے سبب نہیں ہوسکتی۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ تلاش اور جستجو کی صورتیں نہیں ہیں بلکہ اظہار اور ابلاغ کے مظاہر ہیں۔ حضرت جلال الدین رومی کو تلاش نہیں کیا جارہا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ نمایاں (project) کیا جا رہا ہے۔ آپ کی بات سر آنکھوں پر، لیکن کیا کیا جائے کہ میں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کر رہا ہوں کہ حضرت رومی کو شناخت کرنے، جاننے، پہچاننے اور فہم کے دا ئر ے میں لانے کی مسا عی کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہو نے کے با وجود ہنوز جاری ہے۔ یہی سبب ہے کہ میں اس کو تلاش اور جستجو کا نام دیتا ہوں اور آپ سے اس موضوع پر بحث و تمحیث سے گریز کرتے ہوئے خلوص اور محبت سے دعوتِ رفاقت دیتا ہوں کہ میرے ساتھ (دیگر برائے ابلاغ سے بڑی حد تک قطعِ نظر کرتے ہوئے) کتا بوں (پرنٹ میڈیا) میں حضرتِ رومی کی تلاش کا سفر آغاز کریں۔ میری رسائی کتا بوں تک محدود ہے۔ آئیے کتابوں میں حضرت رومی کو تلاش کرتے ہیں۔
اپنے سفر پر آگے قدم بڑھانے اور در پیش انتہا ئی مشکل صورتِ حال کا اندازہ لگانے کے لیے اس مشہور فقرے کو پیشِ نظر رکھنا پڑے گا جو حضرت رومی کے ایک ممتاز مترجم اور شارح رینولڈ نکلسن (Reynold Nicholson) کی زبان پر آیا، جب وہ بسترِ مرگ پر تھے، مذکورہ فقرہ درجِ ذیل ہے:
Rumi, now I understand you better.
( رومی اب میں تمھیں بہتر طور پر سمجھ پا رہا ہوں۔)
نکلسن نے ایک عمر حضرت رومی کو سمجھنے اور سمجھانے میں بسر کر دی تھی۔ اس فقرے کا درست ابلا غ قریب قریب محال ہے۔ اس فقرے سے یہ ضرور قیاس میں آ تا ہے کہ اگر نکلسن کی زندگی وفا کرتی اور اس کی عمر میں مزید اضافہ ہوجاتا، وہ کچھ اضا فی سانسوں سے بہرہ یاب ہو جاتا تو اُس (حضرت) رومی سے سا ری دنیا کو روشناس کراتا جس سے عین دمِ مرگ بہتر آگاہ ہوا تھا۔ افسوسں اسے اضافی زندگی نہیں ملی اور دنیا اس کے بقو ل ’’اصل رومی‘‘ سے آگاہ ہونے سے محروم رہ گئی۔
ظاہر ہے، رینولڈ نکلسن جیسے رومی شناس کے رومی ناشناسی/ تاخیر شناسی کے اس لبِ مرگ اعتراف کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارا یہ سوال انتہائی سنجیدگی سے ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔
رومی کون —؟
رومی شناسی میں آفاقی شہرت کی حامل خاتون این میری شمل (Annemarie Schimmel) کے بارے میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ اس نے رومی پر چالیس برس پر محیط تحقیقی کام کیا۔ اس سلسلے میں ان کی دو تصانیف زیادہ مشہور اور معتبر سمجھی جاتی ہیں۔
۱۔ ’’ فاتح آ فتاب‘‘ (The Triumphant Sun)
۲۔ اعداد کی پیچیدگی (The Mystery of Numbers)
این میری شمل اور رینولڈ نکلسن دونوں ہی اعلیٰ مرتبے پر فائز رومی شناس، محقق اور مفکر ہیں۔ ان سے متأثر ہونے والے رومی شناس خاصی بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ حتمی فیصلے دینے سے گریز کرتے ہیں۔
رومی کے بارے میں حتمی فیصلے لینے اور صادر کرنے میں دو نوں اعلیٰ مرتبے کے رومی شناسوں کا گریز قابلِ فہم بھی ہے کیوں کہ وہ مولانا ہے، مولوی (میلوی) ہے۔ وہ ان شخصیات کے ہم مرتبہ ہے جن کے بارے میں خود اس نے مندرجہ ذیل لفظیات کا استعمال روا رکھا ہے:
بہ زیرِ کنگرئہ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
( اللہ تعالیٰ کے آ سمان تلے ایسے لوگ ہیں جو فرشتوں اور پیمبروں کو صید اور یزداں کو اپنا لیتے ہیں۔)
وہ جس کی جستجو عالم عا لم ہے اور وہ خود مصر وفِ جستجو ہے:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود ، آنم آرزوست
٭ اس کی جستجو کا محور اور آرزو کا مقصود وہ ہے جس کی صفت ہی ’’دستیاب نہ ہونا‘‘ ہے اگرچہ وہ فرشتہ صید، پیمبر شکار اور یزداں گیر ہے۔ یہ سب کچھ آسانی سے سمجھ میں آنے والا معاملہ نہیں ہے۔
٭ اس کی تفہیم اور رومی کو ’پانے‘ کی منزل کی جانب اپنے قارئین کے ساتھ میں بھی قدم آگے بڑھاتا ہوں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...