زندگی کیا ہے پوچھ لے مجھ سے
میں بتاتا ہوں غور سے سن لے
اِس سے پہلے کہ تُو کہاں تھا یہاں
غور اِس پر کبھی کیا ہے بھلا
اَن گنت صدیوں سے ہے
تیرا جہاں اور یہاں
پر نہیں ہے یہ صرف تیرا جہاں
تجھ سے پہلے یہاں کئی آئے
آئے اور آہا کیا وہ خوب آئے
پر نہیں ہیں اب اُن کے نام و نشاں
یاں کسی کو کسی نے کب پوچھا
پھر وہ چاہے خدا ہو یا انساں
صرف دارا فرعوں نہیں مٹتے
کتنے یزداں بھی تو ہوئے ہیں فنا
ہم جو باسی دہکتے کوئلے کے
اَن گنت صدیوں سے نہیں تھے ہم
اور پھر ایک دن نہیں ہوں گے
دو نہ ہونے کے بیچ میں یہ کہیں
ایک موہوم سا بس ہونا ہے
اور نہیں جانتے کہ یہ ہونا
واقعی میں یہ ہونا ہے بھی سہی
یا کہ پھر محض ایک سپنا ہے
یہ جسے ہم بڑے دھڑلّے سے
زندگی کہتے ہیں نہیں تھکتے
یہ بھی ممکن ہے خواب ہو کوئی
اور پھر اس کے بعد جینا ہو
یا کہ یہ بھی ہے ایک وہم کوئی
زندگی آج بھی تو راز ہے اِک
کون اس راز تک پہنچ پایا
بات پھر مختصر وہیں پہ کھڑی
دو نہ ہونے کے بیچ میں یہ کہیں
ایک موہوم سا بس ہونا ہے
اور پھر یہ بھی تو نہیں معلوم
کیا یہ ہونا بھی سچ میں ہونا ہے
یا کہ بس زندگی کو ڈھونا ہے
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...