(Last Updated On: )
میں معصوم تھی اور مجھے ورغلایا
کبھی شعر کہہ کر کبھی دھُن سنا کر
کبھی سپنے دنیا جہاں کے دکھا کر
کبھی میٹھی میٹھی سی لوری سنا کر
میں معصوم تھی اور مجھے ورغلایا
کبھی یہ کہا کہ مِری جاں تِرا ہوں
کبھی یہ کہا کہ میں تیرا جہاں ہوں
مجھے ایسی باتوں میں اکثر لگا کر
کیا پورا جو بھی ارادہ تھا اُس کا
میں بیٹھی ہوں اب
جوگ خود کو لگا کر
تھا پاس اپنے جو بھی
وہ سب کچھ لُٹا کر
مِرے ہم نفس میرے
پیارے سے دلبر
کہیں اور مصروف ہیں آج کل وہ
سنا ہے کسی اور کے ہیں سرہانے
محبت کی باتیں وہ جھوٹے فسانے
کسی اور کو وہ سنانے لگے ہیں
کسی اور کو ورغلانے لگے ہیں
اثر: راگ تلک کامود
سکیل: C-sharp major
تال: دادرا (6 ماترے)
٭٭٭