(Last Updated On: )
اُف یہ خوں آشام تنہائی
کسے آواز دوں
اُف یہ محتاجی یہ رسوائی
کسے آواز دوں
پڑھتے پڑھتے دُکھ گئی ہیں پُتلیاں
اور دھندلاتی ہوئی جاتی ہے بینائی
کسے آواز دوں
دل دھڑکنے کا سبب کیا ہے
کسے معلوم ہو تو دے بتا
ہم کو تو کچھ دے سجھائی اب نہ یاں
کسے آواز دوں
درد کی تعبیر سے آگے
کہیں یہ زندگی
ہمنوا کوئی نہیں یاں
ہم نفس کے روپ میں
ہو چکی ہے بے اثر اب ہر دُہائی
کسے آواز دوں
اُف یہ خوں آشام تنہائی
کسے آواز دوں
اُف یہ محتاجی یہ رسوائی
کسے آواز دوں
٭٭٭