عشق میں ہم تم میں کیا بتائیں کس قدر چھوٹ کھائے ہوئے ہیں
موت نے ہم کو مارا ہے اور ہم زندگی کے ستائے ہوئے ہیں
سدی سدی گل اے ایکوں سمجھو نہیں تے مزہ نہیں آنڑاں، داد دیو کنجوسی نہ کرو
میں نے خط لکھ کے انکو بلایا آ کے قاصد نے دکھڑا سنایا
میں نے خط لکھ کے انکو بلایا، لیاقت صاحب کدھر چلے گے ہیں خط دینٹر گے نے،
لیاقت صاحب آپ آ جائیں آپکو کچھ نہیں کہا جائے گا۔
میں نے خط لکھ کے انکو بلایا آ کے قاصد نے دکھڑا سنایا
خط تساں وی لکھدے او میں وی لکھدا آں، کوئی اپنڑیں دوستاں کوں لکھدا اے،
کوئی اپنٹریں پیو کوں لکھدا اے، کوئی اپنٹریں سجنڑاں کوں لکھدا اے، میں وی کیں
کوں لکھدا آں، خط اچ مختلف مضمون ہوندے نے تساں پتہ نہیں کیا لکھدے اے او
میں کہ لکھدا آں
اب تو آو مورے سجنڑاں موری عمریاں بیتی جائے
اب تو آو پاس ہمارے دل کے سہارے آنکھ کے تارے
اب تو آو۔۔۔ شعر تواڈے کم دا اے تساں اے اپنٹرین ذہین اچ رکھنا میں اے خط
اپنٹریں معشوق نو خط اچ کہ لکھیا اے
اب تو آو مورے سجنڑاں موری عمریاں بیتی جائے
میری ہنٹر عمر پنجاہ سال تھی گئی ہنٹر کتھے خط وی نہیں لکھدا اے
اب تو آو پاس ہمارے دل کے سہارے آنکھ کے تارے بیت چلی مہتاب کی راتیں پیار کے میٹھے خاب کی راتیں
ہجر کے دن بھی کتنے گذارے اب تو آو پاس ہمارے
میں نے خط لکھ کے انکو بلایا آ کے قاصد نے دکھڑا سنایا
ان کے پاوں میں مہندی لگی ہے
فرض کرو میری کی پرابلم ہے تے اودی کی پرابلم ہے، میں ایڈیاں مشکلاں
نال خط لکھا اے، مضمون لکھا اے، تے واپس آ کے کیا آھدا اے
انکے پاوں میں مہندی لگی ہے آنے جانے کے قابل نہیں ہیں
بے وفا یوں تیرا مسکرانا
جب سے دیکھا ہے جلوہ تمھارا کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
کوئی زلفاں وے چھلے او چھلے
سوہنٹریں تاں بہوں وسدے وے میڈے یار توں تھلے او تھلے
جب سے دیکھا ہے جلوہ تمھارا کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
کوئی جوڑی وی پکھیاں دی
تیڈے سارے بدن وچوں سرداری وے اکھیاں دی
جب سے دیکھا ہے جلوہ تمھارا کوئی آنکھوں میں جچتا نہیں ہے
لاکھ دیکھے یہاں حسن والے کوئی عالم میں تجھ سا نہیں ہے
بے وفا یوں تیرا مسکرانا
میں نے جب بھی کی عرض تمنا زلف کی طرح بل کھا کے بولے
اساں رج رج پیندے آں
قسم چواں گھن وے تیڈی آس تے جیندے آں
میں نے جب بھی کی عرض تمنا زلف کی طرح بل کھا کے بولے
ماہیا تواڈے آستے ہے ذرا توجو فرماسو
بہوں ظلم کما لے نی
مرن تاں ڈیواں ہا نی پہلو غیر بنڑا لے نی
میں نے جب بھی کی عرض تمنا زلف کی طرح بل کھا کے بولے
ایسے عاشق کو سولی چڑھا دو رحم کھانے کے قابل نہیں ہے