شباب و شوق کا اپنا بھی اک زمانہ تھا خبر نہیں تھی کہ حقیقت تھی یا فسانہ تھا
نصیب اب تو نہیں شاخ بھی نشیمن کی لدا ہوا کبھی پھولوں سے آشیانہ تھا
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارہ کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینی حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
یہ برہمی کی ادا ناز التفات کے بعد پیام موت ہے میرا میری حیات کے بعد
نگاہ پہ اشک الم دل پہ پا کہ ضبط فغاں جو ہم ہسے بھی تو کتنے تکلفات کے بعد
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
ملے گا کیا کسی مجبور کو ستانے سے خدا کے واسطے باز آو دل دکھانے سے
تمام عمر کے رونے سے تو یہ بہتر تھا کہ باز آتا میں اک بار مسکرانے سے
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی وللہ تم چل کر آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارہ کرتے ہیں
زاہد جو عبادت میں رب کو دن رات پکارا کرتے ہیں
جو رند ہیں وہ اک قطرے میں جنت کا نظارہ کرتے ہیں
جو غم بھلانے کو خاطر شراب پیتے ہیں جہاں کے ظلم ستم کا جواب پیتے ہیں
خدا کے رحم و کرم کا حساب کیا کرنا جو پیتے ہیں تو وہ پھر بے حساب پیتے ہیں
جو رند ہیں وہ اک قطرے میں جنت کا نظارہ کرتے ہیں
پہلے تو پلا کر آنکھوں سے اک آگ سی دل میں بھڑکائی
دامن سے ہمارے اب ہوش میں لایا کرتے ہیں
توں نے کہا تھا میں تیری کشتی پہ بوجھ ہوں چہرے کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ
دامن سے ہمارے اب ہوش میں لایا کرتے ہیں
تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گذارہ کرتے ہیں