(Last Updated On: )
نہ دن کو سکون ہے مجھ کو نہ رات سکون ہے سنگدل تمھارے عشق کا ایسا جنون ہے
جو رچائے ہیں ہاتھ توں نے مہندی سے وہ مہندی نہیں ہے میرے دل کا خون ہے
اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا یار ہی نے لوٹ لیا گھر یار کا
اَشکوں کی مالا میرے گلے پہنا کے خوش ہے وہ گھر کسی اور کا بسا کے
کر دیا خون میرے اعتبار کا یار ہی نے لوٹ لیا گھر یار کا
ناز تیرے تو ہم ہنس کے اُٹھائے ہیں اشکوں کے موتی تیری یاد میں بہائے ہیں
سن کبھی شور دِل کی پکار کا یار ہی نے لوٹ لیا گھر یار کا
تیرے پیار والے سبھی پھول مُرجھا گئے کانٹے خزاہوں والے میرے حصے آ گئے
راس نہ آیا سپنہ بہا ر کا یار ہی نے لوٹ لیا گھر یار کا
رات دن صادقؔ دیکھے تیری راہوں کو کیوں ترساتا ہے تو دل کی نگاہوں کو
حال برا ہوا دل بےقرا ر کا یار ہی نے لوٹ لیا گھر یار کا