خون کو رنگِ حنا زخم کو گلزار کہا دِل سے بے بس ہیں کے قاتل کو بھی دلدار کہا
اَب اُسی آنکھ میں آنسو ہیں ہماری خاطر جس نے ہم اہل محبت کو خطاوار کہا
صاف دِل آپ ہیں لیکن یہ زمانہ تو نہیں سب سے ہنس کر نہ ملا کیجئے سو بار کہا
پارسا وہ ہیں جو انسان کا لہو پیتے ہیں ہم نے پی آگ تو سب نے ہمیں مہہ خار کہا
مت پوچھو کیا حال ہوا ہے عشق میں ہم دیوانوں کا
غم کے اُفق میں ڈوب گیا ہے چاند حسین اَرمانوں کا
آتے جاتے نین ملے ہیں جانیں کس بنجارن سے
جانے کس چنچل نے لُوٹا منواہ ہم مستانوں کا
مت پوچھو کیا حال ہوا ہے
پہلے ہی ہر شہر میں اَپنی رُسوائی کے چرچے ہیں
نگر نگر اَب ذکر نہ چھیڑو بھولے ہوئے افسانوں کا
مت پوچھو کیا حال ہوا ہے
اَب تو ہر سُو دُھوم مچھی ہے دِل والوں کے پینے کی
کیا ہو گا ساقی اِ ے محفل شاہوں کے پیمانوں کا
مت پوچھو کیا حال ہوا ہے
بستی بستی جلتی رہیں گی مہرو وفا کی قندلیں
عشق کی آگ میں جلنا مرنا شیوا ہے پروانوں کا
مت پوچھو کیا حال ہوا ہے
سوچتا رہتا ہے یہ دانشؔ راتوں کے سناٹوں میں
اِس نگری میں کون ہے پُر ساں ہم دُکھیا اِنسانوں کا
مت پوچھو کیا حال ہوا ہے