رپورٹ اگر صحافتی اسلوب سے ایک قدم آگے بڑھ کر ادبی پیرایہ اظہار کا دامن تھام لے تو وہ رپورتاژ بن جاتی ہے۔صحافتی تحریر سے جب ادبی تحریر کی طرف رجوع کیا جائے تو صحافت اور ادب کے مابین رپورتاژ ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں رپورٹ کے عناصر کے ساتھ ساتھ ادبی خصوصیات بھی ہوتی ہیں۔ دیگر اصناف ادب میںرپورتاژ ہی صحافت سے قریب تر ہے۔ رپورتاژ گرچہ حقیقی واقعات پر مبنی ہوتا ہے لیکن اس کے اندر افسانوی ادب کی چاشنی کے ساتھ ساتھ ،مزاحیہ پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے، جس سے پڑھنے والوں کے لئے معلومات کے علاوہ ذہنی آسودگی بھی حاصل ہوتی ہے۔ رپورتاژ میں سفر نامے کی سی روداد سفر ہے تو اس کے اندر خاکہ نگاری کی خصوصیت بھی موجود ہے ۔ رپورتاژ میں اگر خطوط کی طرح دل کی ترجمانی ہے تو انشائیے کا اسلوب بیان بھی نظر آتا ہے۔ رپورتاژ میں افسانہ و ناول کے افسانوی کردار حقیقی کردار میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ رپورتاژ میں طنز اور مزاح بھی ہے اور یہ تاریخی واقعات اور حقائق سے بھی مملو ہوتا ہے۔ گویا کہ ایک رپورتاژ میں اصناف ادب کی بیشتر خصوصیات پنہاں ہیں۔ انھی خصوصیات کی وجہ سے رپورتاژ رپورٹ سے ممتاز و ممیز ہوجاتا ہے۔ رپورٹ کی تیاری میں قلت دقت کا مسئلہ دامن گیر ہوتا ہے جبکہ رپورتاژ فرصت کے لمحات میں شعور و حواس کے اجتماع سے وجود میں آنے والی تحریر ہے ۔رپورٹ جہاں صرف خارجی ہوتی ہے وہیں رپورتاژ خارجی اور داخلی دونوں احساسات کا مجموعہ ہوتا ہے۔اک نوع سے ہم رپورثاژ کو تخلیقی حسیت کا آئینہ دار کہہ سکتے ہیں ۔
اردو ادب کی بعض دیگر اصناف کی طرح رپورتاژ بھی مانگے کا اجالا ہے یعنی یہ صنف بھی مغرب سے مستعار ہے یہ الگ مسئلہ ہے کہ اردو کے ادیبوں نے اس صنف کو اس طرح گلے لگایا کہ اب نہ صرف اس صنف میں اردو ادب کا ایک معتبر ذخیرہ سامنے آچکا ہے بلکہ لوگوں کی دلچسپی اور اس صنف کے تئیں ادیبوں کی ہنرمندیوں نے اسے قابل رشک بنا دیا ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں ٹیگور کا ناول ’’سنجوگ‘‘ ایک تجزیاتی مطالعہ – ڈاکٹر سلمان فیصل )
اردو رپورتاژ کے بنیاد گزاروں میں سجاد ظہیر اور کرشن چندرکا نام سرفہرست ہے۔ گویا کہ اردو رپورتاژ کی بنیاد ترقی پسند تحریک کے زیر سایہ رکھی گئی۔ لہذا اردو کے اولین اور نمائندہ رپورتاژوں میں ترقی پسندی کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کی روداد کی اشاعتوں نے اردو میں رپورتاژ نگاری کی راہ ہموار کی ہے، کیونکہ یہ رودادیں ادبی پیرائے میں لکھی جاتی تھیں۔ ہفتہ وار اخبار ’’نظام‘‘ میں حمید اختر کی ترقی پسند مصنفین کے اجلاس کی رودادوں کو بہ شکل رپورتاژ بہت پسند کیا گیا۔ لیکن اردو میں پہلا رپورتاژ جس تحریر کو تسلیم کیا گیا وہ کرشن چندر کا ’’لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ ہے ۔ یہ رپورتاژ لاہور سے بہرام گلہ تک کے سفر کے روداد پر مبنی ہے۔ گرچہ یہ رودادِ سفر ہے لیکن اس تحریر سے اردو میں رپورتاژ کی مستحکم بنیاد پڑتی ہے۔ ’’لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ ایک ایسا رپورتاژ ہے جس میں کرشن چندر کے شگفتہ انداز بیان اور دلکش پیرایہ اظہار کے نمونے جا بجا نظر آتے ہیں۔ یہ کرشن چندر کی کتاب ’’طلسم خیال‘‘ میں ۸۲ تا ۱۰۴ صفحات پر مشتمل ایک مختصر رپورتاژ ہے ،جس میں کرشن چندر کی رومانی تحریروں کی سحر انگیزی ہے۔ اس رپورتاژ کا اسلوب بہت رواں، سلیس اور دلچسپ ہے ۔یہ کرشن چندر کے اسلوب بیان کا کمال ہی ہے کہ قاری ایک نشست میں اسے پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اختتام پر قاری کا ذہن کشمیر کی مختلف وادیوں میں سیر کرنے لگتا ہے ۔ سیرِ کشمیر کی جس کیفیت کو کرشن چندر نے اس رپورتاژمیں بیا ن کیا ہے وہی کیفیت قاری پر بھی طاری ہونے لگتی ہے۔ کرشن چندر نے اس رپورتاژ میں قدرت کے مناظر کی عکاسی کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق اور تاریخی افسانوں کا ذکر بھی کیا ہے ۔اس میںمیرپور، پونچھ اور بہرام گلہ کے بارے میں تاریخی معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں ۔ پونچھ اور بہرام گلہ کے قلعوں اور وادیوں کے بارے میں کرشن چندر کاجادو بھرا انداز بیان حقیقت کا منظرنامہ پیش کرنے لگتا ہے ۔ ان قلعوں اور وادیوں کے خوش نما مناظر کی عکاسی اورجزئیات نگاری بہت ہی فن کارانہ ہے جو دلوں کو مسحور اور ذہنوں کو محظوظ کرتی ہے۔ بطور نمونہ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
’’دوسرے دن سٹہرہ سے جو چلے تو شام کو شہر پونچھ پہنچ گئے۔ابھی شہر سے چار پانچ میل کے فاصلے پر تھے کہ ہمیں ریاست پونچھ کا یہ چھوٹا سا خوبصورت یہ تخت خوشنما باغات سے گھرا ہوا نظرآیا،سامنے سرسبز اور اونچے پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک حسین وادی تھی جس کے بیچ و بیچ دریائے پونچھ کا نیلا پانی پتھروں پر شور مچاتا ہوا گزر رہا تھا۔ دور تک دھان کے وسیع کھیت پانی سے لبالب بھرے ہوئے نظرآرہے تھے۔ مرغابیوں کے خوشنما پر ہوا کے دوش پر پھیلے ہوئے تھے اور غروب آفتاب کی ارغوانی کرنوں میں پونچھ کا تاریخی قلعہ ایک اونچے ٹیلے پر شہر کی باقی عمارات سے اوپر اٹھا ہوا ایک ترشے ترشائے ہیرے کی طرح چمک رہا تھا۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ ہم ایک نالے کے قریب پہنچے جس پر نیلے پتھروں کا ایک چھوٹا سا پل بنا ہواتھا۔ پل کے پار چنار کے دو درخت کھڑے تھے۔ اب شہر بالکل نزدیک آگیا تھا۔ چھوٹا سا خوبصورت شہر، جو سامنے بہتے ہوئے دریا کے باہر واقع تھا۔ شفق کی ارغوانی روشنی بڑھتے ہوئے اندھیرے میں گم ہو گئی تھی اور شہر کی کھلی ہوئی کھڑکیوں اور درختوں کی پھیلی ہوئی ٹہنیوں میں بجلی کے قمقمے ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کی طرح چمک رہے تھے۔‘‘(لاہور سے بہرام گلہ تک، مشمولہ ’طلسم خیال‘:کرشن چندر،ناشر:انڈین بک کمپنی لمیٹڈ، چرچ روڈ کشمیری گیٹ دہلی،سنہ اشاعت:ندارد،ص:۸۹)
کرشن چندر کا دوسرا رپورتاژ ’’پودے ‘‘ ہے۔ یہ ایک بیانیہ ہے جس میں خود کرشن چندر بحیثیت متکلم نہیں بلکہ ایک کردار کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ یہ رپورتاژ ۱۹۴۵ء میں حیدرآباد میں ترقی پسند مصنفین کی کل ہند کانفرنس کی رودادپر مبنی ہے۔ یہ رپورتاژ کا نفرنس کے انعقاد کے بہت بعد یادداشت کی بنیاد پر لکھا گیا تھا۔ کل ۱۴۴ صفحات پر مشتمل ’’پودے ‘‘ کی اشاعت پہلی بار ۱۹۴۵ء میں دیپک پبلشر جالندھر سے ہوئی ۔ سجاد ظہیر کا خطبۂ صدارت بھی شامل کتاب ہے۔ کرشن چندر نے ۱۳ تا ۳۲ صفحات پر مشتمل ایک طویل پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ یہ رپورتاژ نو عنوانات یعنی پوری بندر، گاڑی میں، حیدرآباد اسٹیشن، حیدرگوڑہ، اجلاس، پرانا محل ، بطخوں کے ساتھ ایک شام، واپسی اور منزل پر مشتمل ہے۔ ان مختلف عناوین کے تحت کرشن چندر نے مختلف واقعات، مشاہدات، تجربات، داخلی اور خارجی احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ اس رپورتاژ میں بھی کرشن چندر کی تخلیقی تحریروں کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس میں بھی منظر کشی ہے، جزئیات نگاری ہے، کردار ہیں، مکالمے ہیں، غرض افسانوی تخلیقات کے عناصر اس میں ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ خلیل الرحمن اعظمی نے اس رپورتاژ کے بارے میں لکھا ہے کہ: (یہ بھی پڑھیں ابن صفی کی کہانی ’’شکرال کی جنگ‘‘ ایک نثری رزمیہ – ڈاکٹر سلمان فیصل)
’’۔۔۔اس صنف ]رپورتاژ[ کو سب سے زیادہ مقبولیت اس وقت حاصل ہوئی جب کرشن چندر نے اپنا مشہور رپورتاژ ’’پودے‘‘ لکھا۔ کہنے کو تو یہ حیدر آباد اردو کانفرنس کا سفرنامہ ہے لیکن اس میں کرشن چندر کی شخصیت اور وہ تمام ادیب جو ان کے ساتھ بمبئی سے اس کانفرنس میں شریک ہونے گئے تھے افسانے کے کرداروں کی طرح جاندار اور بھر پورنظر آتے ہیں یہی نہیں بلکہ راستے کے مناظر، ریل کے مسافروں کی نفسیات، کانفرنس میں ملنے والوں اور شریک ہونے والوں کا مرقع ،مہمانوں اور میزبانوں کا مشاہدہ غرض یہ رپوتاژ تمام واقعات کو ہو بہو ہمارے سامنے لاکھڑا کرتا ہے بلکہ مصنف نے اپنی تخلیقی قوت سے ان تمام بحثوں ، مکالموں، چٹکلوں اور دلچسپ لطیفوں کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ یہ واقعات ایک نئی اور بہتر صورت اختیار کرلیتے ہیں‘‘۔(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، خلیل الرحمن اعظمی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، ۲۰۰۸، ص:۲۶۶۔۲۶۷)
پیش لفظ میں کرشن چندر نے ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند مصنفین کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد کا احاطہ کیا ہے۔ اس تحریک کی ابتدا اور اس کے ارتقا پر کرشن چندر نے گفتگو کی ہے اور آخر میں اردو کے مسئلے پر یہ نکتہ بھی پیش کیا ہے:
’’ یہاں میں یہ بات نہایت صراحت سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں سمجھتا ہوں اور مجھے اس کی تاریخی ارتقاء کا مطالعہ ابھی تک اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ میں اسے صرف مسلمان قوم کی زبان نہ سمجھوں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس زبان کے غالب حصہ پر ہر مسلم قوم کی تہذیبی چھاپ ہے اور ہندوؤں نے اس کی ترویج و اشاعت میں بھی مسلمانوں سے کم حصہ لیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلانے سے خود فریبی کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لیکن اس بدیہی امر کے باوجود اس بات کو بھی کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ ہندوؤں نے اور اس ملک کی دوسری قوموں نے بھی اردو کی اشاعت میں، اسے پھیلانے میں، بڑھانے اور اپنانے میں ایک معتدبہ حصہ لیا ہے اور دوسری قومی زبانوں کی ترقی کے باوجود اور فرقہ وارانہ رجحانات کی افزائش کے باوجود اور اس بدنصیب ملک کی کوتاہ سیاست کے باوجود مسلمانوں نے اور ہندوؤں نے اور سکھوں نے اور دوسری قوموں نے سب نے مل کر اس کی ترقی کے لیے اپنے بہترین انسان کا لہو دیا ہے۔(پودے، کرشن چندر، دیپک پبلشرز جالندھر، اپریل ۱۹۶۴، ص:۲۸)
کرشن چندر آگے لکھتے ہیں کہ:
’’ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی مختلف قوموں کو حق خود اریت دینے کے باوجو اور دوسری صوبائی زبانوں کو پروان چڑھانے کے باوجود ایک ایسی زبان کی ضرورت باقی رہتی ہے جو اس ملک کی تمام قوموں کی زبان بن سکے۔ میرے خیال میں اردو اس ضرورت کو کماحقہ طور پر پورا کرتی ہے اور ہمیں تمام پریشانیوں اور دقتوں اور مزاحمتوں اور سیاسی مناقشات کے باوجود اس کی ترویج و اشاعت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھنی چاہیے۔‘‘(یضاً۔ص:۲۹)
گویا کہ کرشن چندر نے اردو کو ایک رابطے کی زبان کے طور پر پیش کیا اور اصرار کیا کہ اس کے اندر موجود ہندوستان کی مشترکہ تہذیب تمام قوموں کو زبان کے ایک دھاگے میں باندھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
اس رپورتاژ میں سفر کی صعوبتوں، قیام گاہ کی آسائشوں، اجلاس کی کاروائیوں اور حسین شاموں کا تذکرہ بہت دلچسپ انداز میں کیاگیا ہے۔ طنز و مزاح کی پھلجھڑیاںپھوٹتی نظر آتی ہیں۔ ادیبوں اور شاعروں کی آپسی گفتگو اور نوک جھونک مزید برآں شگفتہ انداز بیان رپورتاژ کو مزید دلچسپ بناتا ہے۔ اس میں جابجا ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مناظر، ہندوستانی طور طریقے اور آداب معاشرت کے نمونے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ لیکن اس دلچسپ اندازِ بیان اور ہنسی مذاق میں کرشن چندر اپنے مطلب کی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں ۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ (یہ بھی پڑھیں کہانی کوئی سناؤ، متاشا :صادقہ نواب سحر کا ایک مونولاگ ناول – ڈاکٹر سلمان فیصل )
’’راجہ شامراج کا محل- پرانا محل- شہر میں واقع ہے۔ اونچی فصیل کے اندر ایک خوشنما باغیچہ ہے ۔ باغیچے میں ایک مور ناچ رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی بڑی لائبریری اتنی اچھی لائبریری ہر موضوع پر کتابیں جنھیں غالباً آج تک کسی نے کھول کر پڑھا نہ تھا۔ پوری لائبریری میں صرف دو بچے پڑھ رہے تھے۔ یہ سنگ مرمر کے مجسمے تھے اور ایک سنگ مرمر کی کتاب کھولے ہوئے اس پر جھکے ہوئے تھے۔ اور نہ جانے کتنے سال سے اس طرح جھکے ہوئے اسی کتاب کے اسی صفحے کو پڑھ رہے تھے۔ یہ سنگ مرمرکی کتاب ، یہ سنگ مرمر کے محل، لیکن ہم لوگ یہاں کیا کررہے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک کمرہ اشتراکیت کے موضوع سے متعلق تھا۔ یہاں ہزاروں کتابیں جمع تھیں۔ مصائب ہمیں اس طرح دیکھ رہے تھے۔ گویا ہم تماشہ ہوں، اور وہ تماشائی ۔ ان کی نظریں گویا کہہ رہی تھیں تمھارے ایسے سینکڑوں لوگ یہاں آتے ہیں اور دعوت کھا کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ یہاں ہم ادیبوں کو بلاتے ہیں اور سرکس والوں کو بھی اور مداریوں کو، اور مسخروں کو، یہاں سیاح آتے ہیں اور بھک منگے بھی اور سیاست داں بھی ۔ ہمارے راجہ صاحب بہت اچھے ہیں۔ لیکن ان کے اچھا ہونے سے آپ لوگ اچھے نہیں ہوسکے۔ سردار صاحب آپ کی قمیض پھٹی ہوئی ہے۔ آپ کی شیروانی کا بٹن غائب ہے، سبطے میاں۔ قدوس صاحب آپ نے یہ جھولا کیسے لٹکا رکھا ہے۔ مہندر بھائی آپ نے سر پر یہ جنگل سا کیا لگا رکھا ہے۔ کرشن صاحب آپ کی پتلون پر دس پیوند ہیں آپ لوگ یہا ںکیا کھا کر ترقی پسندی کا دعوی کریں گے۔۔۔۔۔۔سامنے مور ناچ رہا ہے۔‘‘ ((پودے، ص:۱۰۴۔۱۰۷)
اس اقتباس میں کرشن چندر نے سرمایہ داروں اور اشتراکیوں کا تذکرہ بہت فن کارانہ طریقے سے کیا ہے۔ مختلف علامات کے استعمال کے ذریعے کرشن چندر نے سرمایہ داریت اور اشتراکیت کی کئی باریکیوں کو بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ باتوں باتوں میں ہی کرشن چندر نے ترقی پسند ادیبوں کی حالت زار کو بھی پیش کردیا ہے۔
’’صبح ہوتی ہے‘‘ کرشن چندر کا تیسرا رپورتاژ ہے۔ یہ ۱۹۵۰ء میں کتب پبلشر بمبئی سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا ایک بوسیدہ نسخہ دہلی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں موجود ہے۔غالباً اس کے بعد اس کی اشاعت ثانی نہیں ہوئی ہے۔ یہ رپورتاژ کیرلہ کے تریچور علاقے میں منعقدہ جنوبی ہند کے ممتاز ترقی پسندادیبوں کی کانفرنس کی روداد پر مبنی ہے۔ لیکن کانفرنس کی روداد بہت مختصرہے جبکہ کیرلہ کے سفر کی روداداور وہاں کی وادیوں کا دلفریب و دلچسپ اور حسین بیان ہے، اس رپورتاژ میں کرشن چندر نے کیرلہ کے کسانوں اور مزدوروں کی کئی کہانیاں بیان کی ہیں جو کردارہیں وہ حقیقی کردار ہیں۔ اس رپورتاژ میں کیرلہ کے مختلف اسفار کے دوران پیش آنے والے واقعات اور لوگوں سے حاصل ہوئی معلومات کی فراوانی ہے۔ کرشن چندر نے بمبئی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین میں سیٹ کی بکنگ سے رپورتاژ کاآغازکیا ہے، جو کہ بہت دلچسپ ہے اوریہی دلچسپی قاری کومزید پڑھنے پر اکساتی ہے۔یوں تو رپورتاژ میں کرشن کی سحر انگیز تحریر قاری کی قرأت میں یکسوئی کو ختم نہیں ہونے دیتی ہے اور قاری کے ذہن کا تجسس ہی اس تحریر کو آگے پڑھنے پر مجبور کرتا ہے ۔ کرشن چندر نے کیرلہ کے کئی مقامات کی منظر کشی کی ہے جس سے قاری کے ذہن میں کیرلہ دیکھنے کی خواہش بھی ابھرتی ہے۔ تریچور، الوائی، تری وندرم، کوئی لون، الپی اور کنیاکماری سمیت کئی مقامات کا تذکرہ ہے۔ (یہ بھی پڑھیں خلیل الرحمن اعظمی کی نظمیں ’’ زندگی اے زندگی‘‘ کے حوالے سے – ڈاکٹر سلمان فیصل)
دوران سفر کرشن چندر کی ملاقات کئی پادریوں سے ہوئی کرشن چندر نے ان ملاقاتوں کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے اور باتوں باتوں میں انگریزوں پر طنز بھی کیا ہے۔ اس سلسلے کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔
’’میں نے پوچھا۔ فادر تمھیں شکار کا بہت شوق ہے؟
اسکا گول گول بچوں کا سا چہرہ کھل اٹھا، بولا ’’تری میندوس‘‘
میں نے کہا، فادر تم فرانسیسی ہوکہ اطالوی؟
وہ بولا۔ میں ڈچ ہوں، مجھے یہاں آئے ہوئے تیس سال ہوگئے۔
تیس سال اسی حلقے میں گذر گئے؟میں نے گاڑی سے باہر اشارہ کیا۔
وہ سر ہلا کے بولا۔ہاں، مجھے یہ جگہ بہت پسند ہے، یہاں شکار بہت اچھا ملتا ہے، ریچھ، شیر، چیتے، سور، ہرن، ہر طرح کا شکار ملتا ہے، مگر نہیں ملتا ہے تو بس ایک ہاتھی نہیں ملتا ہے اس علاقے میں۔
میں نے کہا فادر! تم غلط کہتے ہو، ہاتھی تو یہاں بھی ملتا ہے،مگر تم نے کبھی اسے شکار کرنے کی کوشش نہیں کی، تم ہمیشہ غریب آدمیوں کا شکار کرتے رہے اور ہاتھیوں کو جنگل میں اکیلا چھوڑ دیا، ورنہ ہاتھی تو ہندوستان ہی میں ملتا ہے اور نیچے جاؤ تو سیلون میں بھی ملے گا، برما میں بھی اور ملایا میں بھی، ہاتھی انڈونیشیا میں بھی ملتا ہے، مگر ہاں اسکارنگ سفید ہوتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ سفید ہاتھی بڑا متبرک ہوتا ہے، اور بڑی مشکل سے ملتا ہے، مگر میرا تو یہ خیال ہے کہ ایشیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں یہ سفید ہاتھی نہ ملتا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ اب یہ سفید ہاتھی عرب، عراق ، سیریا، اور فلسطین کے ریگستانوں میں بھی ملنے لگا ہے۔ جہاں جہاں تیل کے چشمے ہیں، لوہے کی کانیں ہیں، ربڑ اور چائے کے باغات ہیں وہاں یہ سفید ہاتھی پایا جاتا ہے۔‘‘(صبح ہوتی ہے، کرشن چندر، کتب پبلشرز بمبئی ،۱۹۵۰، ص:۲۷۔۲۸)
اس اقتباس میں ہاتھی کی علامت کے ذریعے سرمایہ داروں اور انگریزوں پر طنز اور دنیا کی ہر اس جگہ کا ذکرکرشن چندر نے بہت خوبی سے کیا ہے جہاں تک ان کی پہنچ ہے اور سرمایہ داریت کو تقویت ملتی ہے ۔ اس قسم کی باتیں اور طنز کرنے کی مثالیں اس رپورتاژ میں بہت ہیں۔ جگہ جگہ کرشن چندر نے کمیونسٹ عقائد اور ترقی پسند نظریہ کی عینک سے چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے اور برجستہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مذہبی پیشواؤں پر طنز کرتے ہوئے کرشن چندر لکھتے ہیں کہ ’’جب مذہب کے سہارے عوام کو لوٹا جاسکتا ہے، گولی چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ گولی تو اس وقت چلائی جاتی ہے جب اپنے منافع کھرے ہونے کا اور کوئی ذریعہ سمجھ میں نہ آتا ہو۔‘‘ (صبح ہوتی ہے،ص۔۳۷)
کرشن چندر نے اس رپورتاژمیں پریس کی آزادی پر بھی گفتگو کی ہے ۔حکومت کے دباؤ اور سختی و پابندی کے باوجود اخبارات نکلنا ترقی پسندی کی علامت ہے کیونکہ اخبارات جمہور کے ہوتے ہیں اور جمہور کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے۔ کرشن چندر کے ان خیالات کو ذیل کے اقتباس میں ملاحظہ کیجیے۔
’’جمہور کا اخبار کبھی نہیں مرتا ہے۔ اس کے اتنے ہی نام ہوتے ہیں۔ جتنے عام لوگوں کے نام ہوتے ہیں۔ وہ نام بدل بدل کے سامنے آتا رہتا ہے، اور بازاروں، اور گلیوں اور کوچوں میں اپنی صدا سناتا رہتا ہے۔ اور جب زمین کے اوپر جمہور کے دشمن اپنی طاقت سے اس کے لیے قانون کے سارے دروازے بند کردیتے ہیں۔ تو یہ اخبار زمین کے نیچے چلا جاتا ہے، اور پھر وہاں سے اک ہری کونپل کی طرح پھوٹتا ہے، اور دوسرے روز اس کے صفحے عوام کے دلوں میں پھیلتے جاتے ہیںاور اس کی صدا گلیوں اور کوچوں اوربازاروں میں پھر سے سنائی دینے لگتی ہے، اور لوگ سرگوشیوں میں اسکا چرچا کرتے ہیں، اور طالب علم اور مزدور اور کسان اپنے وطن کی بھلائی چاہنے والے محب الوطن اسے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے جاتے ہیں جیسے شمع سے شمع جگمگا اٹھتی ہے۔ جیسے تبسم سے تبسم چمک اٹھتا ہے۔ اسی طرح سے جمہور کا اخبار عوام کے دلوں کو انقلاب کی ضو سے جگمگاتا ہوا چاروں طرف پھیل جاتا ہے اور پہرے داروں سے گھرے ہوئے بند کمروں کے اندر ظالم چونک اٹھتے ہیں۔ یہ اخبار پھر زندہ ہوگیا۔ ارے ہم نے تو اسے قتل کردیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج یہ پھر زندہ ہے اور اخبار کے الفاظ ان کی آنکھوں کے سامنے اک فاتحانہ مسرت سے رقص کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہم نہیں مرسکتے۔ کیونکہ ہم عوام کے الفاظ ہیں، اور کوئی ہمیں خرید نہیں سکتا ہے اور کوئی بیچ نہیں سکتا ہے۔‘‘(صبح ہوتی ہے،ص۔۹۶۔۹۷)
کرشن چندر نے اس رپورتاژ میں جگہ جگہ کئی حسین مقامات کا ذکر خوبصورت انداز میں کیا ہے اور کرشن چندر کی یہ خاصیت ہے کہ وہ صرف مناظر، تعمیرات، اور واقعات کی عکاسی نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے نظریات اور عقاید کو بھی پیش کرتے ہیں۔ اس منظر کشی کے دوران وہ ماضی کی یادوں کو کریدتے ہیں۔ حال کا جائزہ لیتے اور حسین مستقبل کے لیے ان کے دل میں جذبات کے گہرے سمندر کی موجیں ٹھاٹھیں مارنے لگتی ہیں، کنیا کماری کے ساحل پر غروب آفتاب کا ایک حسین اور دلکش منظر ملاحظہ کیجیے۔
’’سورج کنیا کماری پر غروب ہورہا تھا۔ کنیا کمار ی جہاں مشرقی اور مغربی گھاٹ دونوں آکے مل جاتے ہیں۔ کنیا کماری جہاں تین سمندر آکے گلے ملتے ہیں بحر عرب ، بحر بنگال، بحر ہند۔ اور یہ تینوں سمندر ایک عظیم الشان نیم دائرے میں پھیلے ہوئے ہیں، اور بیچ میں زمین کی آخری نوک ہے اور کنیا کماری کی گلابی ریت پر تینوں سمندروں کی لہریں ایک دوسرے کے گلے مل کر مچل مچل کر رقص کر رہی ہیں۔
’’کنیا کماری کی آخری چٹان پر کھڑا ہوکے میں سامنے بحر ہند کو دیکھتا ہوں جو انسان کی ترقی کی طرح ناپید کنارہ ہے۔ پھراس مغرب کی سمت سے آنے والے بحر عرب کو دیکھتا ہوں جس نے آٹھ سو سال پہلے میرے ملک میں اک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ جہاں سے ایک ہزار سال پہلے مسیح کے چیلے اس ساحل پر آئے تھے۔ جہاں سے بارہ سو سال پندرہ سو سال پہلے ہند کی کشتیاں اور جہاز روم کو گئے تھے، روم اور وینس اور یونان کی سمت سے تہذیبیں ادھر سے ادھر آئی تھیں اور ادھر سے ادھر گئی تھیں، اور مذہبوں ، خونوں اور تہذیبوں کی آمیزش ہوئی تھی۔
پھر میں مڑکر مشرق کی جانب دیکھتا ہوں بحیرہ بنگال مشرق کی ہوائیں لاتا ہے ۔برما، سیام، ملایا، ہند چینی، اور چین کی فضائیں لڑاکے گیت گاتی ہوئی امڈتی چلی آتی ہیں۔ وہاں بھی گیت ، دیش ، قومیں ، مذہب اور تہذیبیں چھینی گئی تھیں۔ وہاں بھی کسانوں سے زمین، مزدوروں سے کارخانے ہتھیا لئے گئے تھے۔ وہاں بھی بدیسی بندوقوں سے گیتوں کا گلا گھونٹا تھا۔ ادیبوں کے گلے پر چھری رکھی تھی، اور ان کی کتابوں کوآگ لگائی تھی۔
تینوں سمندر مل گئے۔ عرب ، ایران اور ہندوستان ایک ہوگئے۔ ریت کے آخری ذروں پر بھی پانی کی موج ظفر یاب آگئی۔ اور ہنستے ہنستے کہنے لگی کام کرنے والوں کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔ کوئی رنگ نہیں ہوتا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ سب انسان ہوتے ہیں، اور ساری دنیا کے وارث ہوتے ہیں۔‘‘(صبح ہوتی ہے،ص: ۱۱۶،۱۱۷،۱۱۸)
یہ اقتباس صرف ایک منظر کشی پر مبنی نہیں ہے بلکہ کرشن چندر نے اس میں تاریخ کے سیکڑوں اور اق سمودیے ہیں۔ کئی ملکوں کی تاریخ کا فلیش بیک سیکنڈوں میں پیش کردیا ہے۔الغرض کرشن چندرجہاں صف اول کے ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں وہیں وہ رپورتاژ کے مستحکم بنیادگزار بھی ہیں۔ ان کے یہ تینوں رپورتاژ وہ ٹھوس بنیاد ہیں جن پر آگے چل کر اردو رپورتاژ کی پائیدار عمارت کی تعمیر عمل میں آتی ہے۔ جب بھی رپورتاژ کا تذکرہ ہوگا تو سب سے پہلے کرشن چندر کے رپوتاژوں کا ذکر آئے گا۔ یہ صرف رپوتاژ ہی نہیں بلکہ ترقی پسند مصنفین کی تاریخ کی ایک جھلک بھی ہے۔ اس میں سرمایہ داریت اور اشتراکیت کی کشمکش بھی نظرآتی ہے۔ ہندوستان کے حسین مناظر کا تذکرہ ہے تو مزدوروں اور کسانوں کی حالت زارکو بھی بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے اندر ہندوستان کی مشترکہ تہذیب بھی ہے۔ گویاکہ کرشن چندر کے یہ تینوں رپورتاژ کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی اہمیت اور افادیت سے انکارممکن نہیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...