نسیم اے صبح ہو تُو اِتنا انہیں بتا دینا لبوں پہ جان ہے صورت ذرا دکھا دینا
ملا نہ دینا تمنا یہ خاک میں میری نہ حسرتوں کے گلے پہ چُھری چلا دینا
جنازہ میرا تہہ بام آج ٹھہرا کر عزیزو رُخ سے پردہ ذرا ہٹا دینا
تمھارے ہار کے باسی جو پھول ہوں اُن کو مزارِ عاشقِ ناشاد پر چڑھا دینا
خیال رکھا اے میڈی میت اُتے میرا کوئی لگدا نہ رو وے
کرو کفن دفن دی بہوں جلدی نہ خبر سجنڑ کوں پووے
متاں لا کے مہندی سگناں دی آ میت دے کول کھلووے وے
خورشیدؔ دا باقی کے راسی جے اُوندا اِک اَتھرو ڈِھگ پووے
عشق میں ہم تم میں کیا بتاہیں کِس قدر چوٹ کھائے ہوئے ہیں
موت نے ہم کو مارا ہے اور ہم زندگی کے ستائے ہوئے ہی
اُس نے شادی کا جوڑا پہن کر صرف چوما تھا میرے کفن کو
بس اُسی دن سے جنت کی حوریں مُجھ کو دُولہا بنائے ہوئے ہیں
عقل کے سوگ مار دیتے ہیں عشق کے روگ مار دیتے ہیں
اور آپ خود تو نہیں مرتا کوئی دوسرے لوگ مار دیتے ہیں
عشق میں ہم تم میں کیا بتاہیں
سُرخ آنکھوں میں کاجل لگا ہے رُخ پہ غازہ سجائے ہوئے ہیں
ایسے آئے ہیں میت پہ میری جیسے شادی پہ آئے ہوئے ہیں
اِے لحد اپنی مٹی سے کہہ دے داغ لگنے نہ پائے کفن کو
آج ہی ہم نے بدلے ہیں کپڑے آج ہی ہم نہائے ہوئے ہیں
بِکھری زُلفیں پریشاں چہرہ اَشک آنکھوں میں آئے ہوئے ہیں
اِے اَجل ٹھہر جا چند لمہے وہ عیادت کو آئے ہوئے ہیں
دُشمنوں کی شکایت ہے بے جا دوستوں سے گلا کیا کریں گے
تُم کیا جانو تُم کیا سمجھو بات میری تنہائی کی اَنگڑائی پہ اَنگڑائی لیتی ہے رات جُدائی کی
اور وصل کی شب نہ جانے کیوں اصرار تھا اُن کو جانے پر وقت سے پہلے ڈُوب گے تاروں نے بڑی دانائی کی
اُڑتے اُڑتے آس کا پنچھی دُور اُفق میں ڈوب گیا اور روتے روتے بیٹھ گئی آواز کِسی سوائی کی
دُشمنوں کی شکایت ہے بے جا دوستوں سے گلا کیا کریں گے
جَھڑ چُکے جِن درختوں کے پتے پھر کہاں اُن کے سائے ہوئے ہیں
کیا ہے انجامِ اُلفت پتنگو جا کے شمع کے نزدیک دیکھو
کُچھ پتنگوں کی لاشیں پڑی ہیں پر کسی کے جلائے ہوئے ہیں
دَفن کے وقت سب دوستوں نے یہ چکایا محبت کا بدلہ
”بڑی غور طلب گل ہے“
ڈال دی خاک میرے بدن پر یہ نہ سوچا نہائے ہوئے ہیں
اُن کی تعریف کیا پوچھتے ہو عمر ساری گناہوں میں گذری
پارسا بن رہے ہیں وہ ایسے جیسے گنگاہ نہائے ہوئے ہیں
زندگی میں نہ راس آئی راحت چین سے سونے دو اب لحد میں
اِے فرستوں نہ چھیڑو نہ چھیڑو ہم جہاں کے ستائے ہوئے ہیں
شراب اِس لیے فِلحال میں نہیں پیتا کہ ناپ تول کے پینا مجھے پسند نہیں
تیرے وجود سے انگڑائی لے کے نکلے گا وہ میکدہ جو ابھی بوتلوں میں بند نہیں
دیکھ ساقی تیرے میکدے کا ایک پہنچا ہوا رِند ہوں میں
نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے نہ آنسوں بہانے کو جی چاہتا ہے
حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو یہی ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
دیکھ ساقی تیرے میکدے کا ایک پہنچا ہوا رِند ہوں میں
جتنے آئے ہیں میت پہ میری سب کے سب ہی لگائے ہوئے ہیں
کھوئی کھوئی سی بے چین آنکھیں بےقراری ہے چہرے سے ظاہر
آرزو یہ ہے کہ اُن کی ہر نظر دیکھا کریں وہی اپنے سامنے ہوں ہم جدھر دیکھا کریں
اِک طرف ہو ساری دُنیا اِک طرف صورت تیری ہم تُجھے دُنیا سے ہو کر بے خبر دیکھا کریں
کھوئی کھوئی سی بے چین آنکھیں بےقراری ہے چہرے سے ظاہر
ہو نہ ہو آپ بھی شیخ صاحب عشق کی چوٹ کھائے ہوئے ہیں