زمانے والے کہاں اعتبار کرتے ہیں تیرے افسانے مجھے بے قرار کرتے ہیں
تیرے خلوص کو ہم نقد جان پیش کریں کہ ہم اہل دل یہی کاروبار کرتے ہیں
خود پر نہ کسی اور پے احسان ہے یارو ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو
غیروں کی طرح تُم نہ سمجھ لو مجھے پاگل خدشہ ہے یہی ذہن پریشان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
کہتا ہے نہیں زخم کو مرہم کی ضرورت کیسا وہ میرے شہر کا لقمان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
میں بھی تو ہوں آکاش کا ٹوٹا ہوا تارا میری بھی ذرا چاند سے پہچان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
بدلی ہے جفا پیشہ حسینوں کی نگاہیں بے لوث فقیروں کی وہی شان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
کیا اُن کے خدوخال کی توصیف رقم ہو آیئنہ دمِ جلوہ پریشاں ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
ہر سانس کسی درد کا مجروع فسانہ کیا زیست بھی مجھ پر کوئی تاوان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
وہ سامنے آئے تو پھڑکتا رہے یہ دل میں سخت پشیماں ہوں نادان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
اب جس کی وضاحت کے لیے لفظ نہیں ہیں وہ درد میری زیست کا عنوان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
بے سود ہے اِس وقت مسیحہ کا بلاوا بیمار تو بس رات کا مہمان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
بکھری ہوئی یادوں کے بُجھائے نہ دیئے ہم نے اپنا تو یہی کُچھ سروسامان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے
پیتا ہے گناہ گار ہے کافر تو فاروقؔ فرشتہ نہیں اِنسان ہے یارو
ہر غم سے محبت میرا ایمان ہے یارو خود پر نہ کسی اور پے خود پر نہ کسی اور پے