نغمہ اے عشق سناتا ہوں میں اس شان کے ساتھ رقص کرتا ہے زمانہ میرے وجدان کے ساتھ
ہے میرا ذوق جنون کفر و خرت کی ذد میں اے خدا اب تو اُٹھا لے مجھے ایمان کے ساتھ
غم جان غم ہستی غم حالات شکیل کیا کہوں کتنی بلائیں ہیں میری جان کے ساتھ
جنون کو ضبط سکھا لوں تو پھر چلے جانا میں اپنا آپ سنبھالوں تو پھر چلے جانا
اُسی طرح ہے ابھی تشنگی اُن آنکھوں میں
غم جہاں کے فسانے تلاش کرتے ہیں یہ فتنہ گر تو بہانے تلاش کرتے ہیں
یہ انتہا ہے جنون ہوس پرستی کی پرائے گھر میں خزانے تلاش کرتے ہیں
اُسی طرح ہے ابھی تشنگی اُن آنکھوں میں اِن کی پیاس بجھا لوں تو پھر چلے جانا
میرا یہ وہم کہ تُم لوٹ کر نہ آؤ گے
کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے تیرا غم رہے سلامت میرے دل میں کیا نہیں ہے
کہاں جامِ غم کی تلخی کہاں زندگی کا درماں مجھے وہ دُوا مِلی ہے جو میری دوا نہیں ہے
تو بچھائے لاکھ دامن میرا پھر بھی ہے یہ دعوہ تیرے دل میں میں ہی میں ہوں کوئی دوسرا نہیں ہے
میرا یہ وہم کہ تُم لوٹ کر نہ آؤ گے یہ وہم دل سے نکالوں لو پھر چلے جانا
تُم میں کہہ دیا ستم گر یہ قصور تھا زبان کا مجھے معاف کر دو میرا دل برا نہیں ہے
مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا لے یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے
میری آنکھ نے بھی تُجھ کو باخدا شکیلؔ پایا میں سمجھ رہا تھا مجھ سا کوئی دوسرا نہیں ہے
نثار ہوتے ہیں شمع پہ کیسے پروانے یہ جشن تُم کو دکھا لوں تو پھر چلے جانا
کیا کیجیے شکوہ دوری کا ملنا بھی غضب ہو جاتا ہے جب سامنے وہ آ جاتے ہیں احساس اَدب ہو جاتا ہے
معلوم ہے دل کی فتنہ گری پھر بھی نبھانا پڑتا ہے اِس عشق میں اکثر دُشمن کو سینے سے لگانا پڑتا ہے
شَب فراق کے سائے تھے کچھ رفیق میرے انہیں گلے سے لگا لوں تو پھر چلے جانا
اُنکی مست آنکھوں سے کُچھ ایسی عقیدت ہو گئی جام مذہب بن گیا صہاحبہ شریعت بن گئی
پہلے پیتے تھے کوئی معقول موقع ڈھونڈ کر رفتہ رفتہ بے سبب پینے کی عادت ہو گئی
قسم خدا کی میں پی کر بہک نہیں سکتا اگر میں جام اچھالو تو پھر چلے جانا
یہ گفتگو تھی ستاروں کی تُم نہ آؤ گے میں اِنکی شمیں بجھا لوں تو پھر چلے جانا
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے بے حِس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
یوں دیجیے فریب محبت کے عمر بھر میں زندگی کو یاد کروں اور زندگی مجھے
پڑھے ہیں داغ میرے دل پہ بدگمانی کے یہ داغ دل سے مٹا لوں تو پھر چلے جانا
خددر بن کر رہے زمانے میں خود جو بھٹکے تو راستہ نہ ملا
روشنی باٹنتے رہے لوگوں میں اپنے گھر کے لیے دیا نہ ملا
پھر اِس کے بعد ملاقات ہو نہ ہو فاروقؔ تمھارا قرض چکا لوں تو پھر چلے جانا