تو چل وحید یہاں سے
سائیں جی کے غصے کا تو تجھے پتہ ہی ھے اور اب تو وہ ہوش میں بھی نہیں ھیں
پی رکھی ھے انھوں نے کہیں غصے میں تجھے جان سے ہی نا مار دیں
طاہر وحید کو آ ہستہ سے بولتے ھوئے کھینچ کر فارم ھاؤس سے لے گیا جبکہ گیٹ سے باہر نکلتے ھوے بھی وحید کی نظریں فہد کے پیچھے چھپی عیلی پر تھیں
وحید اور طاہر فارم ھاؤس سے چلے بھی گئے تھے مگر عیلی ابھی بھی فہد کے پیچھے چھپی اس کے کرتے کو پکڑے بری طرح کانپ رہی تھی
کچھ دیر تو فہد اسی طرح کھڑا رھا کہ عیلی خود اس کے کرتے کو چھوڑ کر سامنے آ جائے مگر جب عیلی اسی طرح کھڑی رہی تو فہد نے انپا ھاتھ پیچھے کیا اور عیلی کے ھاتھ کو پکڑ کر اسے کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا
عیلی اس اچانک حملے کے لئے تیار نہیں تھی اس لئے سیدھا فہد کے سینے سے آ کر ٹکرائی
آ ہ
عیلی کے منہ سے ایک کراہ سی نکلی جبکہ فہد عیلی کو خود سے الگ کر کے اسے غور سے دیکھنے میں مصروف تھا
سفید روشن چہرہ جو اس وقت ڈر کے مارے کچھ زیادہ ہی سفید لگ رھا تھا
کانپتے ھوئے گلابی ھونٹ سہمی ھوئی ڈارک براؤن آنکھیں جو اس وقت آنسوؤں کی برسات کرنے والی تھیں
پتلی سی تیکھی چھوٹی سی ناک جس میں سرخ زنگ کی نوز پن پہنی ھوئی تھی
سلکی سیاہ بال جو اس وقت پونی سے نکل کر عیلی کے منہ پر گر رھے تھے
لمبی سی پتلی سی لڑکی جو جینز شرٹ میں ملبوس فہد کو بہت اپنی اپنی سی لگی
جیسے وہ جس لڑکی کو اب تک ڈھونڈ رھا تھا کہ وہ فہد کے بکھرے ھوئے دل کو سمیٹ کر اسے اپنی محبت سے سنھبال لے گی وہ فہد کو مل گئی ھو عیلی کی صورت میں
حالانکہ عیلی فہد کو عمر میں خود سے بہت چھوٹی لگی مگر پھر بھی جب کسی پر دل آ جائے تو ان چیزوں کی کب ویلیو رہتی ھے
کون ھو تم
یہاں کی تو نہیں لگتی
فہد نے خود کو واپس ھوش میں لا کر عیلی کی آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
ووووہ
آا پ ی۔۔۔یہاں ککے سائیں ھ۔۔۔۔ھیں کیا
مج۔۔۔۔مجھے آ پ ککی م۔۔۔۔مدد چاھیے
عیلی نے کانپتے ہوئے فہد سے سوال کیا جبکہ نظریں ابھی بھی فہد کے پیروں پر تھیں
ھاں
لیکن تم ھو کون
اور تم مجھے کیسے جانتی ھوں
جواب دو
فہد نے عیلی سے تیز لہجے میں کہا جبکہ عیلی جو کب سے اپنے آنسو روک رہی تھی فہد کے اس طرح ڈانٹنے سے رونا شروع ہو گئی
اب رو کیوں رہی ھو
فہد چڑ کر بولا
کیونکہ فہد کو عیلی کا یوں رونا بہت برا لگا اور خود پر بھی غصہ آ یا کہ اسے عیلی کے ساتھ سکون سے بات کرنی چاھیے تھی اس لئے عیلی کو دیکھ کر دوبارہ قدرے پیار سے بولا
دیکھو اس میں رونے کی کیا بات ھے
بتاؤ تو سہی کہ کون ھو تم
اب تم اس طرح روتی رھو گی تو مجھے کیسے پتہ چلے گا تمہارے بارے میں
کہ تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتی تھی اور مجھ سے یا کام ھے تمہیں
فہد اب عیلی سے قدرے آ رام کے ساتھ بات کر رھا تھا اس لئے عیلی نےچہرہ اٹھا کر ایک نظر فہد کی طرف دیکھا اور بس دیکھتی رہ گئی
سرخ بڑی بڑی آ نکھیں تیکھی مغرور ناک اور چہرے پر بڑھی ہوئی شیو
جبکہ ھایٹ فہد کی عیلی سے کچھ تین چار انچ ہی لمبی تھی کیونکہ عیلی خود بھی 5 فٹ 7 انچ تھی مگر پھر بھی فہد کا کسرتی وجود ھونے کی وجہ سے عیلی اس کے سامنے کوئی چھوٹی سی گڑیا لگ رہی تھی
اندر چلو بیٹھ کر بات کرتے ھیں
فہد نے عیلی کو خود کو دیکھتے ھوئے پایا تو اس لئے عیلی کی آ نکھوں میں دیکھ کر بولا
جبکہ عیلی نے فوراً اپنی نظریں جھکا لیں اور چپ چاپ فہد کے پیچھے چل پڑی
اب بتاؤ کیا کہنا چاہتی ھو
فہد نے عیلی کو صوفے پر بیٹھا کر پوچھا
میرا نام علیشاہ رانا ھے
ہم کراچی میں رہتے ھیں آ ج میں اور میری آ پی باے روڑ لاھور جا رھے تھے
میں راستے میں سو گئی مگر جب میری آ نکھ کھلی تو آپی کو کچھ لوگ گاڑی میں کڈنیپ کر کے لے جا رھے تھے
میں نے بابا کو کال کرنے کی کوشش کی مگر موبائل کی بیٹری لو ھو گئ پھر میں ہیلپ کی تلاش میں سڑک پر چل رہی تھی کہ ایک عورت ملی مجھے اور پھر انہوں نے کہا کہ یہاں پر آ پ کا حکم چلتا ھے تو آ پ میری مدد کریں گے مگر پھر انہوں نے کچھ لوگوں کو مجھے پیسے لے کر بیچ دیا اور پھر میں وہاں سے بھاگ کر آ پ کے پاس آ گئی
پلیز سائیں جی میری مدد کریں ورنہ وہ لوگ میری آ پی کو مار دیں گے
عیلی نے ایک ہی سانس میں فہد کو ساری بات بتا دی جبکہ فہد بس عیلی کے خوبصورت چہرے کو دیکھ رھا تھا
اور اوپر سے عیلی کا فہد کو سائیں جی کہنا
فہد کو کچھ زیادہ ہی اچھا لگا
آ پ میری مدد کریں گے نا سائیں جی
عیلی نے مدد طلب نظروں سے فہد کی طرف دیکھا جبکہ فہد عیلی کی آ واز سے واپس ھوش میں آ یا اور پھر منہ پھیر کر بولا
ھاں میں کروں گا تمہاری مدد مگر تم نے گاڑی کا نمبر دیکھا کہ وہ کس کی گاڑی تھی
مطلب اس طرح تو یہاں اس روڑ سے بہت سی گاڑیاں گزرتی ھیں تو تمہاری آ پی کو کون لے کر گیا ہم اس بات کا کیسے پتہ لگائیں
فہد نے عیلی سے کہا تو عیلی مزید پریشان ھو گئ
ھاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں
اب ہم آ پی کو کیسے ڈھونڈیں گے
عیلی کہہ کر پھر سے رونے لگی جبکہ فہد نے دوبارہ عیلی کی طرف دیکھا اور پھر جلدی سے بولا
ریلیکس علیشاہ پلیز رونا بند کرو
رکو میں کچھ سوچتا ھوں کہ کیسے تم
بھائی آ پ یہاں پر کیا کر رھے ھیں اور
اور یہ لڑکی کون ھے
ابھی فہد بات کر ہی رھا تھا کہ اسد جو دعا کو لے کر ابھی فارم ھاؤس آ یا تھا فہد کو وہاں دیکھ کر بولا۔
اسد
فہد اسد کو دیکھ کر زیر لب بولا اور پھر بھاگ کر اسد کے پاس گیا اور اسے فارم ھاؤس کے باہر لے جانے لگا تاکہ اس سے یہاں آ نے کی وجہ دریافت کرسکے
اسد تم یہاں پر کیوں آ ے ھو
تم تو کراچی چلے گئے تھے تو پھر یہاں پر کیا کر رھے ھو
بھائی وہ
قاسم رکو
کون ھے یہ لڑکی
ابھی اسد فہد کو جواب دینے ہی والا تھا کہ اچانک فہد کی نظر قاسم پر پڑی جو دعا کو زبردستی گاڑی سے نکال کر فارم ھاؤس کے اندر لے جا رھا تھا
خدا کا واسطہ ھے
پلیز چھوڑ دو مجھے
آ پ کی اپنی بھی تو ماں بہن ھو گی نا
میں بھی تو کسی کی بیٹی کسی کی بہن ھوں
میں کسی کو بھی نہیں بتاؤں گی آ پ لوگوں کے بارے میں بس مجھے جانے دو پلیز
میری بہن وہاں گاڑی میں اکیلی ھو گی
وہ بہت ڈرپوک ھے بہت کمزور دل ھے اس کا
میرے بغیر نہیں رہ پائے وہ
اس سنسان جگہ پر اگر اسے کچھ ھو گیا تو میں بھی مر جاؤں گی
رحم کرو مجھ پر
پلیز مجھے چھوڑ دو
فہد چلتا ھوا دعا کے پاس آ یا تو دعا روتے ھوئے فہد کی منتیں کرنے لگی
تمہاری بہن
نام کیا ھے اس کا
فہد کے دماغ میں اچانک سے عیلی کا خیال آ یا
عیلی مطلب علیشاہ
وہ بہت چھوٹی ھے صرف 17 سال کی
اور سب سے بڑھ کر وہ بہت معصوم ھے دنیا داری نہیں جانتی کبھی گھر سے باہر بھی نہیں نکلی
لیکن اگر کسی نے یہاں پر اس کا فائیدہ اٹھا لیا تو
پلیز میں نے انھیں تھپڑ مارا ھے نا
تو وہ مجھے چاہے جتنے مرضی تھپڑ مار لیں میں اف بھی نہیں کروں گی مگر پلیز اس کے بعد مجھے یہاں سے جانے دیں
پلیز آ پ تو مجھ پر رحم کریں سمجھائیں نا انھیں کہ وہ مجھے چھوڑ دیں
دعا نے اسد کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا جبکہ فہد عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہو گیا کہ آ خر وہ کرے تو کیا کرے
اسد تو دعا کے ساتھ بغیر کچھ کرے اسے چھوڑے گا نہیں
اور جب اسد دعا کو اپنا مطلب پورا کر کے چھوڑ دے گا تو دعا ضرور اسد کے خلاف بولے گی کیونکہ یہ تو فہد کو پتہ چل ہی گیا تھا کہ دعا چپ چاپ ظلم سہنے والوں میں سے تو نہیں تھی اس لئے تو اسد کو اس نے تھپڑ مارا
اور عیلی اگر دعا یہاں سے چلی گئی تو عیلی بھی چلے جاے گی اور اگر عیلی ایک دفعہ مجھ سے دور چلی گئی تو دوبارہ میں کبھی اس سے نہیں مل پاؤں گا
میں عیلی کو نہیں کھو سکتا
ابھی تو مجھے جینے کی وجہ ملی ھے عیلی کی صورت میں
وہی تو ھے جو مجھے اور میرے بکھرے ہوئے دل کو سمیٹے گی تو کیسے میں عیلی کو یہاں سے بھیج دوں
نہیں میں ایسا نہیں کروں گا
اسد چاھے جو مرضی کرے اس لڑکی کے ساتھ اور پھر چاھے اسے چھوڑ دے یا مار دے
مگر عیلی وہ یہاں سے کبھی نہیں جاے گی وہ صرف میری ھے اسی لئے تو میرے پاس آ گئی
ہمیشہ رہنے کے لئے
اور اگر دعا بچ گئی تو پھر بھی وہ عیلی کو کبھی نہیں ڈھونڈ پاے گی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ عیلی کہیں گم ھو گئی ھے
ھاں یہ ٹھیک ھے
فہد نے دعا کو دیکھتے ہوئے دل میں سب پہلوؤں پر سوچا اور پھر خود غرضی سے کام لیتے ھوئے یہ فیصلہ کیا کہ دعا کا فیصلہ اسد کرے گا مگر عیلی کو فہد کبھی بھی ادھر سے نہیں جانے دے گا
تم رکو ادھر میں اسد سے بات کر کے آ تا ھوں
فہد نے ایک آ خری نظر دعاا پر ڈالی اور اسد کی طرف جانے لگا
بھائی میں آپ کو بول رھا ھوں کہ میں اس دو ٹکے کی لڑکی کو بغیر سبق سیکھاے یہاں سے جانے نہیں دوں گا
اسد نے فہد کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا
ریلیکس اسد
میں ایسا کچھ نہیں کہوں گا تمہیں
تم جو چاہو اس لڑکی کے ساتھ کرو اور پھر دل کرے تو چھوڑ دو ورنہ
آ گے تم خود سمجھ دار ھو
اب لے کر جاؤ اسے اندر مگر بغیر کوئی ڈرامہ کیے
بلکہ رکو میں ابھی آ یا
فہد نے اسد کو دیکھ کر کہا اور جلدی سے فارم ھاؤس کے اندر چلا گیا
سائیں جی آ پ کہاں چلے گئے تھے
عیلی فہد کو دیکھ کر جلدی سے بولی
وہ
دیکھو عیلی تم ایسا کرو کہ میرے روم میں چلو اور وہاں رھو
میں تھوڑی دیر تک آ کر تم سے بات کرتا ہوں
فہد نے عیلی کو ھاتھ پکڑ کر اٹھاتے ھوئے کہا
لیکن سائیں جی
عیلی گھبرا کر جلدی سے بولی
بلیو می
تمہیں کچھ نہیں ھونے دوں گا
آ ئ پرومس
مگر پلیز تم ایک دفعہ میری بات مان لو
بھروسہ کرتی ھو مجھ پر
بولو عیلی
فہد نے جواب طلب نظروں سے عیلی کی طرف دیکھا
جبکہ عیلی نے فہد کی سرخ آ نکھوں میں دیکھا اور پھر سر جھکا کر ھاں میں گردن ہلا کر فہد کے ساتھ چل پڑی
عیلی تم ادھر بیٹھو میں ابھی تھوڑی دیر میں تمہارے پاس آ تا ھوں پھر دونوں مل کر باتیں کریں گے
کچھ تم اپنے بارے میں بتانا اور کچھ میں بتاؤں گا تمہیں اپنی زندگی کے بارے میں
تبھی تو ہم ایک دوسرے کو اچھے سے جان پائیں گے
فہد اس وقت کوئی سائیکو سا شخص ہی لگ رھا تھا جسے اور کسی چیز کی پرواہ نہ ھو
بس اپنی ہی ذات سے مطلب ھو کہ بس وہ خوش رھے باقی جیسے کسی اور کی کوئی اہمیت ہی نہیں
ھاں اسد آ جاؤ تم لوگ
مگر خاموشی سے
فہد نے عیلی سے بات کرنے کے بعد اسد کو کال کی اور پھر عیلی کے غصے سے سرخ ھوتے چہرے کی طرف دیکھا
سائیں جی
میں یہاں باتیں کرنے نہیں آ ئ ھوں
آ پ سے ھیلپ چاھیے مجھے اپنی آ پی کو ڈھونڈنے کے لیے اسی لئے یہاں پر موجود ھوں میں
مگر آ پ تو پتہ نہیں
ایک منٹ آ پ مجھے عیلی کہ رھے ھیں نا
مگر یہ نام تو میرے بابا اور میری آ پی لیتے ھیں تو پھر آپ کو میرے اس نام کا کیسے پتہ چلا
عیلی جلدی سے بولی اب وہ کافی حد تک خود کو ریلیکس کر چکی تھی اس لئے فہد سے بغیر ڈرے بات کر رہی تھی اور ویسے بھی عیلی کو فہد کچھ مشکوک سا لگ رھا تھا
کوئ سایکو سا انسان
اس کے دیکھنے کا انداز کتنا عجیب سا تھا جیسے کوئ پیاسا پانی کو دیکھتا ھے
اور اوپر سے اس کی باتیں
کیسے آ رام سے کہ رھا تھا کہ ہم بیٹھ کر باتیں کریں گے جیسے کچھ ھوا ہی نہ ھو اور عیلی اس کی کوئی بہت اچھی دوست ھو جس سے بیٹھ کر باتیں کرنی ھیں
بولیں سائیں جی
آ پ کو کیسے پتہ میرا نام
عیلی بغیر ڈرے اب فہد کو دیکھ کر بات کر رہی تھی جبکہ اس سے پہلے کے فہد کوئی جواب دیتا اچانک دعا کے چیخنے کی آ واز آ ئ
آ پی
ییہیہ یہ آ پی کی آ واز ھے نا
آ پی باہر ھیں
مجھے جانا ھو گا آ پی کے پاس
سائیں جی پیچھے ہٹیں
عیلی فہد کو دروازے کے آ گے کھڑا دیکھ کر بولی جبکہ فہد بس دیوانہ وار عیلی کو ہی دیکھے جا رھا تھا
پیچھے ہٹیں
عیلی نے فہد کے بازو کو پکڑ کر کھینچنا چاہا مگر فہد اپنی جگہ سے ٹس سے مس بھی نہ ھوا
کیا چاہتے ھیں آ پ مجھ سے کیوں نہیں جانے دے رہے ھیں مجھے
جب عیلی فہد کو دروزے کے آ گے سے ہٹانے میں ناکام رہی تو رو کر فہد سے کہنے لگی
ششش تم رو مت عیلی پلیز
تمہارے آ نسو مجھے تکلیف دے رھے ھیں
میں میں تو بس تمہیں اپنے پاس رکھنا چاہتا ھوں ہمیشہ کے لئے
تم سمجھ رہی ھو نا کہ میں کیا کہہ رھا ھوں
فہد نے کھینچ کر عیلی کو اپنے قریب کیا اور اب ہلکا سا جھک کر عیلی کے چہرے سے آ نسو صاف کرتے ھوئے بول رھا تھا جبکہ عیلی کو اس کے منہ سے شراب کی سمیل آ رہی تھی جو کہ پہلے وہ ڈر کی وجہ سے محسوس نہیں کر پا رہی تھی
پہلے اتنا ھوش ہی کب تھا اسے مگر اب جب فہد کی باتوں پر غور کیا تو اسے اندازہ ھوا کہ کیوں فہد ایسی بہکی بہکی باتیں کر رھا ھے
آ پی ھیں نا باہر
عیلی نے سرخ آ نکھوں سے فہد کے چہرے کو دیکھ کر کہا جو کہ اس وقت عیلی کے چہرے کے بہت قریب تھا
ھاں تمہاری بہن ھے باہر مگر تم اس بات پر دھیان مت دو یہ اسد اور تمہاری بہن کا معاملہ ہے تو انھیں ہی فیصلہ کرنے دو
تم بس میری بات سنو
فہد نے عیلی کی بازو کو پکڑا اور اسے بیڈ پر بیٹھا کر خود اس کے پاس زمین پر بیٹھ گیا جبکہ ایک ھاتھ ابھی بھی عیلی کے ھاتھ پر تھا
عیلی تو ویسے بھی دعا کی چیخیں سن کر بہت ڈر گئی تھی اوپر سے فہد کی باتیں اور حرکتیں اسے اور ڈرا رہی تھیں
اس لئے چپ چاپ فہد کی بات سننے لگی کہ کہیں انکار کی صورت میں فہد اسے یا پھر دعا کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے
کیونکہ اس وقت وہ ہوش و ہواس میں تو بالکل بھی نہیں تھا تبھی تو صرف ایک بات پر سوئ اٹکی ھوئی تھی کہ عیلی کو اپنے پاس رکھنا ھے ورنہ وہ فہد کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی اور فہد پھر سے اکیلا ھو جائے گا
عیلی تمہیں پتہ ھے کہ میں نے ایک دفعہ اپنی سکول ٹیچر سے محبت کی تھی
مگر اس نے مجھے ریجیکٹ کر دیا
بہت انسلٹ کی میری اور پھر خود کسی اور سے شادی کرنے لگی
مجھے بہت غصہ آ یا اس پر اور تمہیں پتہ ہے میں نے کیا کیا میں نے سارہ (سکول ٹیچر)کو جان سے مار دیا
میں ایسے کیسے کر سکتا ھوں عیلی
میں تو محبت کرتا تھا نا اس سے
پھر کیسے
ابھی تک ابھی تک مجھے سکون سے نیند نہیں آتی
ابھی بھی مجھے سارہ کا وہ آ خری بار مجھے دیکھنا یاد ھے مجھ سے اپنی جان کی بھیک مانگنا یاد ھے مگر میں نے اس پر ترس نہیں کھایا اور اسے مار دیا
بہت بہت تکلیف ھوتی ھے مجھے
اور پھر اس تکلیف کو دور کرنے کے لئے میں ڈرنک کرتا ھوں جیسے اب کی ھوئی ھے
پھر مجھے تم نظر آ ئ
زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی نے مجھے چھوا یہ احساس ہی بہت پر کشش تھا کہ کوئی لڑکی میرے اتنے قریب آ ئ
حالانکہ آ ج تک میں نے کسی لڑکی کو اتنی اہمیت ہی نہیں دی کہ وہ مجھ سے بات تک کر سکے مگر تم نے تم نے مجھے ٹچ کیا بغیر کسی خوف کے
اور تمہارا ٹچ کرنا
آ ئ سویر مجھے برا نہیں لگا
ایک عجیب سا احساس ھوا جیسے مجھے بھی کوئی ایسا انسان مل گیا ھو
جو مجھے سنبھالے گا
میرے پاس رھے گا
مجھے سکون دے گا
لیکن تم نے کہا کہ تم اپنی بہن کے ملتے ہی یہاں سے چلی جاؤ گی یعنی میں پھر سے اکیلا ھو جاؤں گا
مگر میں اکیلا نہیں رہنا چاہتا ھوں عیلی
مجھے تمہاری ضرورت ھے
تاکہ میں بھی خوش رہوں
میں بھی ایک نارمل زندگی گزار سکوں
اور یہ سب صرف تمہارے ساتھ ممکن ھے
فہد نے نم آ نکھوں سے عیلی کی طرف دیکھ کر کہا جبکہ عیلی کے دل میں اچانک سے فہد کے لئے ہمدردی پیدا ھوئ
ٹھیک ھے سائیں جی
آ ئ پرومس میں آ پ کے ساتھ رہوں گی ہمیشہ مگر آ پ کو بھی میری بات ماننی پڑے گی
عیلی نے فہد کے چہرے کو دیکھتے ھوئے کہا جو کہ اچانک سے عیلی کی بات سے کھل اٹھا تھا
بولو عیلی
آ ئ پرومس
میں سب کچھ کروں گا جو تم کہو گی
بس تم میرے پاس رہو
مجھے اور کچھ نہیں چاہیے
کیونکہ اب میں تمہیں نہیں کھو سکتا
فہد جلدی سے عیلی کی بات ماننے کے لئے راضی ھو گیا جو کہ اگر وہ ہوش میں ھوتا تو نہ تو اتنی جلدی عیلی کی بات ماننے کے لئے راضی ھوتا اور نہ ہی عیلی کو اپنے دل کا حال اور اپنی اب تک کی تکلیف بیان کرتا جو اس نے کبھی کسی سے شیئر نہیں کی تھی
اسد سے بھی نہیں جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتا تھا مگر اب عیلی بھی انجانے میں فہد کے دل میں اس مقام پر پہنچ چکی تھی جہاں اسد موجود تھا
ٹھیک ھے سائیں جی
ایک ڈیل کرتے ھیں کہ آ پ میری آ پی کو چھوڑ دیں اور میں ایک دفعہ اپنی آ پی سے مل کر ہمیشہ آ پ کے ساتھ رہوں گی
بولیں سائیں جی
یہ ڈیل منظور ھے آ پ کو
عیلی بغیر کچھ سوچے سمجھے جذبات میں خود ہی فیصلہ کر چکی تھی
جبکہ فہد نے غور سے عیلی کی طرف دیکھا اور کچھ دیر تک بغیر پلکیں جھپکائے عیلی کو اسی طرح دیکھتا رہا
جواب دیں سائیں جی
کیا آ پ کو یہ ڈیل منظور ھے
عیلی نے دوبارہ فہد کی طرف دیکھ کر کہا اور اپنا ھاتھ فہد کے آ گے کیا
جبکہ فہد واپس ہوش میں آ یا اور بے اختیار اپنا ھاتھ عیلی کے ھاتھ پر رکھ دیا
منظور ھے مگر تم ہمیشہ میرے پاس رہو گی
فہد نے جیسے ہی عیلی کے ھاتھ پر اپنا ھاتھ رکھا تو عیلی نے جلدی سے اپنا ھاتھ واپس کھینچا مگر فہد نے دوبارہ عیلی کا ھاتھ زور پکڑ کر کہا
دوبارہ مجھ سے اپنا ھاتھ چھڑوانے کی کوشش مت کرنا عیلی
میں خود تمہیں نکاح کے بغیر ھاتھ نہیں لگاؤں گا مگر تم دوبارہ ایسا نہیں کرو گی
اور اب میں یہاں سے جا رھا ھوں
تاکہ تمہاری بہن کو یہاں سے بھیج سکوں تو تم کوئی بے وقوفی نہیں کرو گی
چپ چاپ میرے واپس آ نے کا انتظار کرو گی
ٹھیک ہے
فہد نے عیلی سے کچھ غصے میں بات کی کیونکہ عیلی کا فہد سے ھاتھ چھڑوانا فہد کو غصہ دلا چکا تھا
اسی لئے اب عیلی سے وہ غصے میں بات کر رھا تھا
جی سائیں جی
میں چپ چاپ یہاں پر آ پ کے آ نے کا ویٹ کروں گی
آ پ بے فکر ھو کر جائیں
عیلی نے نظریں جھکا کر جواب دیا تو فہد بغیر کچھ بولے عیلی کو کمرے میں چھوڑ کر باہر نکل گیا جبکہ عیلی فہد کے واپس آ نے کا بے صبری سے انتظار کرنے لگی