احد نے ایک کارنر پر گاڑی روکی اور شاہ ویر سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
شاہ ویر اس وقت ٹریڈ مل پر رننگ کر رہا تھا،یس کا بٹن پریس کرکے اس نے رننگ جاری رکھی،اور پھولی ہوی سانسوں کے بیچ میں ہیلو کہا۔
“تم نے آنٹی سے میرم کے لئے کہا ہے؟ا”
احدنے چھوٹتے ہی سوال کیا۔
“ہیں”؟؟؟
شاہ ویر نے ناسمجھی سے بولا۔
“تم نے شادی کے لئے ہاں کی ہے؟؟”
احد نے سوال بدل کے دہرایا۔شاہ ویر کو احد کی بوکھلاہٹ سے ساری وجہ سمجھ آگئی۔
اس نے ٹریڈ مل آف کی اور پانی کی بوتل کھول کر دو گھوںٹ پانی پئیے۔ٹاول سے پسینہ پونچھتا وہ یک کارنر پر آگیا تھا۔
“او بھائی ،میں ساری کہانی سمجھ گیا،کل میرم گھر آئی تھی پیپرز سائن کروانے تو ممی نے اسکو دیکھا تھا،میں نے شادی کے لئے ضرور ہامی بھری ہے مگر میرم کے لئے نہیں۔لڑکی کی چوائس بس ممی پر چھوڑ دی تھی۔”
شاہ ویر نے اپنا سامان بیگ میں ڈالتے ہوۓ کہا۔
“اوہ اچھا،میں یہی سوچ رہا تھا تجھکوپوری دنیا میں میرم ہی ملی تھی،ہاں کرنے کے لئے”۔
احد کی اب کچھ جان میں جان آئی تھی،وہ اپنے ازلی اندازکی طرف لوٹ آیا تھا۔
“ہاں میں نے تو ممی پر چھوڑ دیا ہے،اب انہوں نے میرم کو پسند کرلیا تو انکی پسند پر میں خوش”
شاہ ویر نےمسکراہٹ دباتے ہوۓ گاڑی ان لاک کرتے ہوۓ کہا۔
“میں تیرا گلا دبا دونگا”۔
احد زور سے چلایا۔آس پاس کے چلتے ہوۓ لوگوں نےاسکو مڑ کے دیکھا ،جس پر وہ تھوڑا خجل ہوگیا۔
اس سے پہلے کوئی آپکی پہلی نظر کی محبت کو لے جاۓ،آنٹی آنکل کو لے جا اسکے گھر”۔
شاہ ویر نے کار اسٹارٹ کرتے ہوۓ کہا۔
“ہاں یار ،آج تو آنٹی نے میری جان ہی نکال دی تھی۔میں کل ہی میرم سے پوچھ لوں پہلے،پھر ممی پاپا کو بھیجتا ہوں۔”
احد نے خیالوں میں میرم کا سراپا لاتے ہوۓ کہا۔
“اوکے ٹیک کئیر،کل ملاقات ہوتی ہے”۔
اس نے اللہ حافظ کہ کر کال منقطع کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احدنے میرم کو آج آفس کے بعد پروپوز کیا تھا۔
“یار مجھے یہ پروپوز وغیرہ کیسے کیا جاتا ہے،یہ سب تو نہیں پتہ،مگر تم بس مجھُکو اچھی لگتی ہو،اور میں اپنے پیرنٹس کو تمھارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔بس تم سے تمھاری مرضی جاننا ضروری تھا۔”
اس نے بہت ہی سیدھے الفاظ میں میرم تک اپنے دل کی پہنچائی تھی۔
احد میں تمھارے جذبات کی قدر کرتی ہوں۔مگر تم کو پتہ ہے،میرے اوپر بہت ذمہ داریاں ہیں،میرے بہن بھائی ابھی پڑھ رہے ہیں۔امی پر میں دوبارہ برڈن نہیں ڈالنا چاہتی ہوں۔ان کی پڑھائی ختم ہونے تک میں شادی کے بارے میں نہیں سوچ سکتی۔”
میرم نے جھکی گردن کے ساتھ اسکو انکار کیا۔
“میرم تم شادی کے بعد بھی انکو سپورٹ کر سکتی ہو،میرے طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی،اور پھر وہ میرے بھی بہن بھائی ہونگے،ہم دونوں مل کر انکی ذمہ داری اٹھائیں گے۔”
احد نے امید سے میرم کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
“احد مجھے سوچنے کےلئے وقت چاہیۓ۔”
میرم نے اپنا سامان سمیٹتے ہوۓ کہا۔
“ہاں تم کو جتنا وقت چاہیۓ لے لو،مگر مجھے جواب کل دے دینا۔”
احد نے سر کھجاتے ہوۓ کہا۔
“احد”۔۔۔۔
میرم اسکو گھورتے ہوۓ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
“تو کب دوگی جواب؟”
احد نے پیچھے سے پوچھا۔
“امی سے بات کرکے بتاتی ہوں”۔
میرم نے دروازہ پکڑے ہوۓ مڑ کے کہا،اور باہر نکل گئی۔احد اس کو جاتا ہوا دیکھتا رہا،جب تک کہ وہ لفٹ میں نہیں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نساء کا آج فائنل پیپر تھا،بہت اچھے تو نہیں مگر اس نے سارے پیپر دے دئے تھے،اور امید تھی کہ سب میں ہی پاس ہو جاۓ گی۔
وہ گھر آئی تو اسکو ڈرئنگ روم میں باتوں کی آواز آئی۔ناہید سے پتہ چلا کہ کلثوم بیگم کی کوئی پرانی دوست آئی ہوئی ہیں۔نساء روم میں چلی گئی۔ابھی وہ شاور لے کر نکلی تھی جب ہی ناہید کلثوم بیگم کا پیغام لئے حاضر ہوئی۔
“باجی،وہ بڑی بی بی نے آپکو بلایا ہے”۔
ناہید نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکو خبر دی۔
“اچھا،تو وہ خاتون چلی گئیں؟”
نساء نے بالوں میں برش کرتے ہوۓ پوچھا۔
“نہیں باجی،وہ ان سے ملنے ہی تو بلایا ہے،مجھے تو جی لگ رہا ہے وہ آپکو دیکھنے ہی آئی ہیں۔شاید ایک ہی بیٹا ہے،ٹھیک سے سن نہیں پائی میں،مگر اسی کی شادی کی بات کررہی تھیں۔”
ناہید نے اپنی طرف سے ان خاتون پر ہوم ورک مکمل کیا ہوا تھا۔
“تم کام کرتی ہو کہ سب کی باتوں میں کان لگا کر رکھتی ہو۔؟؟”
نساء نے گھورتے ہوۓ پوچھا۔
“وہ باجی کام تو چلتا رہتا ہے نہ،کان بھی کھلے رہتے ہیں۔میں تو جی ناشتہ پانی رکھنے گئی تھی،تو سن لیا،میں نےتو اسلئے بتادیا کہ آپ اچھے سے تیار ہوکر جاؤ۔”
ناہید نے دانت نکالتے ہوۓ کہا۔
“اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ،اور سنو اب زیادہ اس خبر میں مرچ مصالحہ لگا کر باقیوں کو سنانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
نساء نے اسکو تنبیہ کی۔وہ جانتی تھی ابھی ورنہ ناہید کا رخ ڈرائیور کے کوارٹر کی طرف ہوتا،جہاں اسکی بیوی کے ساتھ بیٹھ کے نساء کے مستقبل پر غور و خوذ ہوتا۔
“نہیں جی،میں تو کام کرنے جارہی ہوں۔”
ناہید نے مرے مرے لہجے میں کہا۔نساء نے اسکا گوسپ ٹائم شروع ہونے سے پہلے ہی ملیامیٹ کردیا تھا۔وہ منہ بناتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
نساء نے بھی آئینہ میں ایک بار خود کو دیکھا اور دوپٹہ ٹھیک کرتی ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی۔ڈرائنگ روم میں اسکو ایک بہت ہی نک سک سے تیار خاتون بیٹھی نظر آئیں،انہوں نے شفون کی پرنٹڈ ساڑی پہنی ہوئی تھی،بالوں کا نفیس سا جوڑا بنا ہوا تھا،ہاتھ میں گھڑی اور کان میں سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹاپس پہنے تھے۔
“اسلام و علیکم “۔
نساء نے اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا۔
“وعلیکم اسلام “۔
کلثوم بیگم اور ان خاتون نے ایک ساتھ جواب دیا۔
“اور کیسا پیپر ہوا؟”
کلثوم بیگم نے پیار سے پوچھا۔
“جی مما بس ٹھیک ہوا۔”
نساء نے صاف گوئی سے بتایا۔
“چلو اللہ کامیاب کرے گا۔”
انہوں دعا دی۔
وہ خاتون بھی مسکرا کر نساء کو دیکھ رہی تھیں۔کچھ ہی دیر بعد وہ اٹھ کر چلی گئیں۔ان کے جانے کے بعد کلثوم بیگم نے نساء کو بتایا،کہ وہ انکے کالج کی دوست تھیں،رابعہ عالم،کلثوم بیگم کی تو انٹر کرتے ہی شادی ہوگئی تھی،مگر رابعہ عالم نے آگے بھی پڑھا تھا۔شادی کے بعد کلثوم بیگم گھر کے جھمیلوں میں ایسی پھنسی کہ کسی سے کوئی رابطہ ہی نہیں رہا۔
آج وہ انکو ڈالمین سٹی مال میں شاپنگ کے دوران نظر آئیں اور دونوں نے ہی ایک دوسرے کو پہچان لیا۔کلثوم بیگم نے انکو گھر چلنے کو کہا تو وہ فوراً راضی بھی ہوگئں۔
“دو بچے ہیں،بیٹی کی تو شادی ہوگئی،کینیڈا میں ہوتی ہے،بیٹے کی بھی ہوئی تھی،مگر لڑکی امریکن تھی،چلی گئی چھوڑ کر واپس۔”
کلثوم بیگم نے کن انکھیوں سے نساء کو دیکھتے ہوۓ بتایا۔
“اچھا مما میں سونے جارہی ہوں،یونیورسٹی میں کھا لیا تھااسلیے کھانے کے لئے نہیں اٹھائے گا۔”
اس کو رابعہ عالم کی اسٹوری میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔
“اچھا،چلو ٹھیک ہے”۔
وہ پر سوچ انداز میں نساء کو جاتا دیکھتی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسجد گھر آیا تو لاؤنج میں بچوں کو دیکھ کر اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔دونوں بچے بھاگ کر اسکی گود میں چڑھ گئے۔اس نے دونوں کوبھینچ کر پیار کیا۔
“اور مما کہاں ہیں؟؟”
اسجد نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا،اسکو ڈر تھا کہ کہیں سجل نے خالی بچوں کو تو واپس نہیں بھیج دیا۔
“مما آپ کی برتھ ڈے کا سرپرائز ریڈی کر رہی ہیں۔”
عنایہ نے سرپرائز کو آہستہ سے اسجد کے کان میں بتایا۔اسجد زور سے ہنس دیا۔
“(یو سلی گرل،اٹ واز اے سرپرائز)”
“بدھو لڑکی،وہ سر پرائز تھا”
آذر نے ناراض ہوتے ہوۓ کہا۔
“اوپس”
عنایہ نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے۔اسجد ان دونوں کی نوک جھونک میں بیڈ روم تک پہنچ گیا۔
بیڈروم کا دروازہ کھولنے پر وہ مبہوت رہ گیا۔پورا روم بلونز سے سجا تھا،جگہ جگہ فلاورز بوکے رکھے تھے،پورا کمرہ مسحور کن خوشبو سے مہک رہا تھا۔اور روم کے درمیاں میں فلور کے اوپر کینڈل ٹی لائٹ سے ایک ہارٹ بنا ہوا تھا۔
کمرے میں اندھیرا تھا،اور کینڈل لائٹ اس ماحول کو بہت رومانٹک بنارہی تھی۔اور اس سب میں سب سے بہترین منظر ہاتھ میں اسجد کا فیورٹ بلیک فارسٹ کیک لئے کھڑی سجل تھی،کینڈل لائیٹ میں اسکا چہرہ دمک رہا تھا۔
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو،ہیپی برتھ ڈے ٹو یو،مے یو ھیو مینی مور،ہیپی برتھ ڈے،ہیپی برتھ ڈے ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔
سجل نے اسجد کو دیکھتے ہی اسکو وش کیا۔بچوں نےبھی اسکا ساتھ دیا۔اسجدکی سمجھ نہیں آرہا تھا،وہ اس خوشی کا اظہار کیسے کرے،اس نے تینوں کو ایک ساتھ گلے لگالیا۔
(“آئی کانٹ بلیو اٹ۔”)
“مجھے یقین نہیں آرہا”۔
“تھنکس فار بینگ ان مائی لائف،تھنکس فار ایوری تھنگ۔۔۔”)
اس نے سجل کو گلے لگاۓ ہوۓ کہا۔جذبات میں اسکی آنکھوں سےخوشی کے آنسو نکل کر سجل کےدوپٹے میں جذب ہوگئے۔
“(آئی ایم ان کمپلیٹ ود آؤٹ یو”)
“میں تمھارے بغیر ادھوری ہوں”
سجل نے اسجد سے الگ ہوتے ہوۓ ہلکے سے مسکرا کر کہا۔
“چلو بچوں باہر چلو،کیک دادو کے ساتھ کٹ کریں گے۔”
سجل نے بچوں کو باہر نکالتے ہوۓ کہا۔اسجد نے حیرت سے سجل کو دیکھا،اسکو یقین نہیں آرہا تھا،جو کچھ اس نے سنا وہ واقعی سچ ہے۔
“سنو منہ بند کرلو،مکھی چلی جاۓ گی”۔
سجل نے اسکو شرارت سے چھیڑا۔
“ارے مجھے تو کوئی بتادے یہ کیا کایا پلٹ ہوگئی ہے”۔
اس نے سجل کا ہاتھ پکڑ کر اسکو روکا۔
“جناب میں اب یہیں رہوں گی،بعد میں تفصیل سے بات کرتے ہیں،پہلے چل کر کیک کٹ کرلو،بچے بہت ایکسائیٹد ہیں۔”
“اچھا جی،جو حکم سرکار کا”۔
اسجدنے گردن جھکا کر کہا۔سجل ایک ادا سے بال جھٹکتی ہوئی باہر نکل گئی۔
وہ لوگ جہاں آرا بیگم کے کمرے میں داخل ہوۓ تو وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹی ہوئی تھیں۔
“ممانی جان چلیں اسجد کی برتھ ڈے کا کیک کٹ کروالیں۔”
جہاں آرا نے حیرت سے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا۔سجل اور اسجد دونوں ہی کھڑے تھے۔وہ ایکدم شرمندہ نظر آنے لگیں۔
“کیا اتنا ظرف بھی ہوتا ہے کسی میں کہ بغیر معافی معاف کردے”۔
انہوں نے حیرت سے سجل کو دیکھا۔
“آفرین ہے کلثوم کی تربیت پر،میری اتنی نا انصافی کے بعد بھی تم میرے پاس آگئیں۔مجھے معاف کردوبیٹا میری ساری زیادتیوں کے لئے۔”
انہوں نے روتے ہوۓ ہاتھ جوڑے۔
“ارے ممانی یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟؟بڑے معافی مانگتے اچھے نہیں لگتے۔”
سجل نے انکے دونوں ہاتھ پکڑ کر چومے۔
“نہیں بیٹا بڑے غلطی کر سکتے ہیں تو معافی بھی مانگ سکتے ہیں”۔
جہاں آرا روتے ہوۓ بولیں۔
“امی ،چھوڑیں ،جو ہوا،اب سجل واپس آگئی ہے،آئندہ سب ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے۔”
اسجد نے بھی انکے برابر بیٹھتے ہوۓ کہا۔جہاں آرا بیگم نے دونوں کو گلے لگایا۔
“پلیز کیا آپ لوگ کیک کٹ کرنے آئیں گے،ہم کب سے انتظار کر رہے ہیں۔”
آذر نے اندر جھانکتے ہوۓ کہا۔وہ تینوں ہنس کر کھڑے ہوگئے۔انکی چھوٹی سی دنیا پھر سے خوشی،ہنسی اور رنگوں سے سج گئی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...