شاہ ویر کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی،وہ آفس نہیں گیا تھا،میرم کی کال آئی تھی کہ اسکو کچھ پیپرز پر شاہ ویر کے سائن چاہیے۔
شاہ ویر نے کہہ دیا تھا کہ وہ ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دے،وہ گاڑی بھیج رہا ہے،مگر میرم خودبھی ساتھ ہی آگئی۔
شاہ ویر اس وقت لاؤنج میں بیٹھا نیشنل جیوگرافک دیکھ رہا تھا،اسکو آتا دیکھ کر اس نے ٹی وی آف کیا۔
“ارے تم نے کیوں تکلیف اٹھائی بلاوجہ کی،میں نے ڈرائیور بھیجا تو تھا”۔
شاہ ویر نے اسکو اندر آتے دیکھ کر کہا۔
“جی سر ڈرائیور کے ساتھ ہی آئی ہوں،میں نے کہا آپ کی طبعیت بھی پوچھ لونگی،اور یہ پیپرزامپورٹنٹ ہیں تو میں خود ہی لیکر جاؤں۔”
اس نے مسکرا کر فائل آگے بڑھائی۔
“تھینکس،میں بیٹر ہوں”۔
شاہ ویر نے رسمی سا مسکراتے ہوۓ کہا۔
“ارے تو کھڑی کیوں ہو،بیٹھو۔”
شاہ ویر نے سائن کرتے کرتے اچانک اسکو کھڑا دیکھ کر بیٹھنے کی آفر کی۔میرم اسکے سامنے والی چئیر پر بیٹھ گئی۔
“تمہارا لنچ ٹائم تھا،تم نے بلاوجہ خراب کیا،اب ایسا کرو ہمارے ساتھ لنچ کرلو”۔
شاہ ویر نے اسکو فائل واپس کرتے ہوۓ مروتاً کہا۔
“ارے نہیں سر،آپکوتو پتہ ہے،میں گھر سے لیکر آتی ہوں لنچ،خراب ہوجاۓ گا،وہ نہیں کھاؤں گی تو،گیٹ ویل سون،ٹیک کئیر۔”
وہ مسکرا کر کہتی کھڑی ہوگئ۔جب ہی رابعہ عالم لاؤنج میں داخل ہوئیں،ایک خوبصورت لڑکی کوشاہ ویر سے مسکرا کر بات کرتا دیکھ کر ان کے دماغ میں فوراً شاہ ویر کی شادی کاخیال آیا۔
“(میرم شی ازمائی ممی)”
“میرم یہ میری ماں ہیں”
“اور ممی یہ میرم رضوان ہیں،میری سیکریٹری۔”
شاہ ویر نے رابعہ عالم کو آتا دیکھ کر دونوں کاتعارف کروایا۔
“اسلام وعلیکم آنٹی”۔
میرم نے انکو مسکرا کر سلام کیا۔جواباً انہوں نے بھی اسکو گلے لگا کر وعلیکم اسلام کہا۔انکی نظروں میں میرم کے لئے ستائش تھی۔جو شاہویر سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔وہ سر جھٹک کر رہ گیا۔
ان کے بہت اصرار کے باوجود بھی میرم نہیں رکی،اور آئندہ آنے کا وعدہ کرکے چلی گئ۔اس کے جانے کے بعد رابعہ عالم شاہ ویر کی طرف مڑیں۔
“یہ تم نے کب سیکریٹری رکھی؟”
ان کے لہجے میں شرارت تھی۔
“ممی پلیز،ایسا کچھ نہیں ہے،جو آپ سننا چاہ رہی ہیں،اور یہ آپ کے اس چہیتے احد کی وجہ سے رکھنی پڑی۔ورنہ مجھے ایک مچیور سکریٹری چاہیے تھی۔”
اس نے ایک پل میں رابعہ عالم کو حقیقت بتا کر انکا سپنا چور چور کردیا۔
“شاہ ویر کب تک مجھے ستاؤ گے،میں نے ہمیشہ تم لوگ کی خوشی کو اوپررکھا،تم مجھے ایک چھوٹی سی خوشی نہیں دے سکتے،تم نے پہلی شادی اپنی مرضی ،پسند سے کی،میں اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی میں شریک تک نہ ہو سکی،مگر میں نے تمھاری خوشی کے لئے تم کو اجازت دےدی۔تو کیا تم میرے کہنے پر شادی نہیں کر سکتے؟ضروری نہیں ایک شادی ناکام ہوگئ تو آگے بھی اللہ نہ کرے یہی سب ہو،ہوسکتا ہے یہ میری آخری خواہش ہو،بعد میں پھر نہ پچھتانا۔”
انہوں نے آج اپنے سارے پتے پھینک دئے تھے،وہ جانتی تھیں،شاہ ویر انکو زیادہ انکار نہیں کر سکتا ہے،اور وہی ہوا،شاہ ویر نے آخر اپنی ضد توڑ دی۔
“اچھا ممی،آپکا جو دل چاہے کریں،مگر مجھے اس سب میں نہیں گھسیٹیں گی آپ،لڑکی پسند کرنی ہو یا جو بھی ارمان آپ نے پورے کرنے ہوں،شوق سے کریں،میں بس شادی کے دن تیار ہوکر چلا جاؤنگا۔”
شاہ ویر ناراضگی سے کہتا واپس ٹی وی کھول کر بیٹھ گیا۔رابعہ عالم کے لئے فی الحال اسکامان جانا ہی غنیمت تھا،انہوںنے سوچ لیا تھا،وہ میرم کی پوری معلومات احد سے لیں گی،اور جلد ازجلد اس کام کو نمٹائیں گی۔
“اللہ تم کو ہمیشہ خوش رکھے”۔
وہ شاہ ویر کے ماتھے پرپیار کرتی ہوئی،ہدایت کو کھانا نکالنے کے لئے کہنے اٹھ کھڑی ہویئں۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخرسجل کی محبت انا کے آگے جیت گئی۔اس نے سوچ لیا تھا کے وہ اسجد کی برتھ ڈے اپنے گھر پر ہی سیلیبریٹ کرے گی اور شاید اسجد کے لئے اس سے بڑا کوئ تحفہ بھی نہیں تھا جو وہ اسکو دے سکے۔
وہ صبح اٹھتے ہی اپنی پیکینگ میں بزی ہو گئ تھی۔ بچے بھی بہت خوش تھے کیونکہ وہ پاپا اور گھر کو بہت مس کر رہے تھے۔بچوں کو ننھیال میں ہر طرح کا پیار اور لاڈ میسر تھا مگر پھر بھی سجل نے نوٹ کیا تھا کہ بچے چڑچڑے اور بدتمیز ہو رہے تھے۔شاید وجہ اسجد سے دوری تھی۔بچوں کو اپنے رویۓ کی وجہ نہیں پتہ ہوتی مگر ماں باپ سے دوری ان کے رویوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
بہرحال سجل نے اللہ کا شکر ادا کیا کے تھوڑی دیر سے ہی سہی مگر اسے سمجھ آگئ تھی کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے دور ہو کر نا صرف خود ادھورے ہوتے ہیں بلکہ بچوں کو بھی ادھورا کر دیتے ہیں۔
اس نے لان کا ایمبرائیڈد سوٹ نکال کر پریس کیا یہ سوٹ اسکو اسجد نے اینیورسری پر دیا تھا۔ ٹیل گرین اور فان کے کامبینیشن کا یہ سوٹ اسنے ماریہ بی پر پسند کیا تھا مگر پیسے زیادہ ہونے کی وجہ سے اسنے اسجد کو بول دیا تھا اسے کامبینیشن اچھا نہیں لگ رہا۔مگر اسجد اسکی آنکھوں میں پسند کی جھلک دیکھ چکا تھا اسلئے اگلے ہفتے آنے والی اینیورسری کے لے اس نےسجل کے لئے وہی سوٹ لیا تھا، اور اس کے لئے اس نے اپنا بجٹ کہاں کہاں سے کٹ ڈاون کیا تھا یہ صرف وہ جانتا تھا۔ بہرحال اس سوٹ کو پانے کے بعد سجل کے چہرے پر آنے والی خوشی ہر قیمت کے آگے ہیچ تھی۔
اس ٹائم سجل نے وہی سوٹ نکالا تھا وہ آج بہت دل سے تیار ہوئی تھی۔ وہ چاہتی تھی اسجد کے گھر پہنچنے سے پہلے پہنچ کر وہ اسکو سرپرائز دے۔
اس نے لائٹ گولڈن میک اپ کیا تھا اور بالوں کو ہاف کیچر لگا کر چھوڑ دیا تھا۔ اسجد کو اسکے بالوں کا گھنگریالا پن بہت پسند تھا۔
کلثوم بیگم کی آج خوشی کی انتہاء نہیں تھی وہ بار بار اسکو دعائیں دے رہی تھیں اور جہاں آرا بیگم کے منہ نہ لگنے کی تنبیہ کئے جا رہی تھیں۔ ڈرائیور نے سجل اور بچوں کو گھر چھوڑ دیا تھا اس نے بیل بجائی تو ملازمہ نے دروازہ کھولا سجل کو دیکھ کر اسکو بھی خوشگوار حیرت ہوئی۔بچے بھاگ کر گھر میں داخل ہوگئے۔
سجل کو یہ سوچ کر گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ وہ جہاں آرا کا سامنا کیسے کرے گی۔جہاں آرا بیگم سامنے ہی صوفے پر بیٹھیں تھیں اور کوئی رسالہ پڑھنے میں مگن تھیں سجل کو دیکھتے ہی ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا سجل انکو سلام کرتی ہوئی اپنے بیڈ روم میں چلی گئی کوئی اور وقت ہوتا تو جہاں آرا بیگم طنز کرنے سے بعض نہ رہتیں، پر پچھلے واقعہ کے بعد اسجد سلام دعا کے علاوہ ان سے کوئی اور بات کرنے کو تیار نہ تھا اسلئے وہ یہ خطرہ نہیں مول سکتیں تھیں۔ وہ جلدی سے فون ملا کر فاریہ کو بریکنگ نیوز دینے پہنچ گیئں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے
میں نے کہا تجھے عشق ہو یہ خدا کرے
کوئی اس کو تجھ سے جدا کرے
تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جائیں
تیری آنکھیں پرنم رہا کریں
تو اس کی باتیں کیا کرے
تو اسکی باتیں سنا کرے
تجھے عشق کی وہ جھڑی لگے
تو ہر پل ملن کی دعا کرے
تو گلی گلی میں پھرا کرے
تو نگر نگر میں صدا کرے
تجھے عشق کا پھر یقین ہو
اسے تسبیحوں میں پڑھا کرے
میں کہوں عشق ڈھونگ ہے
تو نہیں نہیں کی صدا کرے
نساء اسوقت پروین شاکر کی کتاب پڑھ رہی تھی اس غزل میں موجود ہر ہر لفظ اسکو اپنے جذبات کی ترجمانی کرتا ہوا لگ رہا تھا۔شیریں آنٹی کے پاس سے آنے کے بعد سے وہ کافی سنبھل چکی تھی۔مگر پھر بھی دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسکے ساتھ یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔
اس نے نماز شروع کی تھی پر اسکو لگتا تھا کہ اسکو کسی پل چین نہیں آرہا ہے۔وہ بس ایک ہی نکتے پر سوچ رہی تھی کہ ایقان پاپا کی بات مان لیتا یا وہ بھی اسکی طرح پتھر دل ہوتی اسکو بھی اتنا جذباتی لگاو نہ ہوا ہوتا۔ کئی بار وہ سوچتی وہ ایقان کو کال کرے اس سے بات کرے مگر یہ اسکی خودادری کے لئے ٹھیس تھی۔کیونکہ وہ اتنا تو جانتی تھی کہ ایقان کبھی بھی نہیں مانے گا اور مزید اسکے باپ کا سر جھک جائے گا۔مگر وہ اپنے دل کا کیا کرے اسکو سمجھ نہیں آرہا تھا اسکو لگتا تھا کہ شاید اس سے کوئی گناہ ہو گیا ہے جو اللہ نے اسکو سزا دی ہے۔دل بہت گھبرانے لگا تو اس نے شیریں آنٹی کو کال ملائی۔ اسکو دل ہلکا کرنے کیلئے کوئی چاہئے تھا۔
شیریں آنٹی نے بہت شفقت سے اسکا حال چال پوچھا،پھر باتوں باتوں میں انہوں نے اس سےنماز کے بارےمیں سوال کیا۔
“ تم نماز پڑھ رہی ہو؟ “
“جی آنٹی پر میرا دل نہیں لگ رہا “۔
اس نے صاف گوئی سے بتایا۔۔
“کیونکہ بیٹاتم یہ سوچ کہ نماز پرھ رہی ہو کہ شاید اس سےمیرا غم ہلکا ہوگا۔نماز کو تم اپنا غم ہلکا کرنے کیلئے پڑھ رہی ہو۔ نماز کو خالصتا اللہ کیلئے نہیں پڑھ رہی ہو. نماز تو اللہ اور اسکے بندے کے بیچ گفتگو ہے تو بس جب نماز پڑہو تو اللہ اور اپنے بیچ کسی کو نہ آنے دو کسی دنیاوی فائدے کیلئے نہ پڑھو”۔
انہوں نے اسے پیار سے سمجھایا۔
“مگر آنٹی میرا دل نہیں لگتا “۔
اس نے بے بسی سے کہا۔
“دیکھو کوئی بھی کام شروع شروع میں مشکل لگتا ہے مگر آہستہ آہستہ ہم اس کام کے عادی ہو جاتے ہیں۔دل تو تمھارا پڑھنے میں بھی نہیں لگ رہا مگر تم پیپر دے رہی ہو نا؟ دیکھو تم کو خود کے ساتھ زبردستی کرنی ہو گی اور ساتھ ہی تم اس لڑکے کو سوچنا چھوڑ دوکیونکہ جب ہم کوئی غلط کام کرتے ہیں نہ تو ہم سےنماز کی توفیق چھن جاتی ہے۔جب دل میں غیر اللہ کے محبت ہوگی،تو اللہ کی محبت کیسے آۓ گی۔تم بس اپنانصیب اللہ کے سپرد کردو،وہ خود تمھارے راستے آسان کردے گا۔”
انہوں نے اسکو رساں سےسمجھایا۔
“آنٹی مجھے لگتا ہے،جیسے یہ آزمائش نہ ہو،سزا ہو میرے کسی گناہ کی”۔
اس نے افسردگی سے کہا۔
“دیکھو بیٹا،اگر یہ سزا بھی ہو تو اللہ پاک تو بہت رحیم ہے،تم اس سے گڑگڑا کے جانے انجانے گناہ کی معافی مانگو،یہ تو انسان ہوتا ہے،جس پر دوسرے کے رونے گڑگڑانے کا اثر نہیں ہوتا،مگر اللہ پاک تو سچی توبہ کے لئے نکلا ہوۓ ایک آنسو پر بھی بندے کو بخش دیتا ہے۔اور دوسری بات اللہ اگر تمھاری دعا کا جواب نہیں دے رہا تو ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ تم سے ناراض ہے۔
تم کو پتہ ہے جب چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نہیں آئی اور نہ جبرئیل علیہ سلام آۓتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت افسردہ ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا کہ اللہ پاک ان سے ناراض ہوگیا ہے،اور اب بنوت کا منصب ان سے لے لیا ہے،جب ہی اللہ پاک نے سورہ والضحی نازل فرمائ،اورفرمایا۔
تیرے رب نے تجھ کو نہیں چھوڑا اور نہ بیزار ہوا۔
تو سورہ والضحی ہر وہ انسان جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجائے اسکو ضرور پڑھنی چاہیے،جس میں رب وعدہ کرتا ہے کہ وہ جلد ہی نوازے گا،بس تم اسکی نعمت بیان کرتے رہو۔دعائیں پوری نہ ہونے کا مطلب اللہ پاک کی ناراضگی ہرگز نہیں ہوتی ہے۔یہ منفی باتیں نکال دو دل سے۔اور اس رب کا شکر ادا کرو،جس نے ابھی بھی بہت سی نعمت سے نوازا ہوا ہے ہم کو۔”
شیریں آنٹی نے اپنے مخصوص انداز میں سمجھایا۔
نساء نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ اب سچے دل سے اللہ سےمانگی گی اور اللہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔اس نےخود سے عہد کیا تھا کہ وہ اللہ سے اس پر واویلا کرنے بجاۓ جو اس نے لے لیا،اس پرشکر ادا کرے گی،جس سے اس نے نوازا۔وہ ایک عزم سے مغرب کی نماز پڑھنے اٹھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابعہ عالم نے احد کو کال کرکے بلایا تھا،شاہ ویر آفس سے واپس آکر ایک گھنٹے کے لئے جم جاتا تھا۔یہ ہی وقت رابعہ عالم کے لئے سب سے موزوں تھا،جب وہ احد سے کھل کر بات کر سکتی تھیں۔انکے کہنے کے مطابق احد ٹھیک سات بجے آگیا تھا۔رابعہ عالم نے اسکے لئے چاۓ پہلے ہی ریڈی رکھی ہوئی تھی۔
“اسلام و علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟”
اس نے گھر میں داخل ہوتے ہوۓ کہا۔
“وعلیکم اسلام،جیتے رہو۔”
رابعہ عالم نے اسکو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا۔
“خیریت تو آنٹی ،شاہ ویر کے پیچھے بلانے کی وجہ؟؟”
احد نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
“ہاں ہاں خیریت ہے،اللہ کاشکر،بلکہ خوشی کی بات ہے۔”
انہوں نے تھوڑے جوش سے بتایا۔
“ارے واہ،گڈ،شاہ ویر شادی کے لئے مان گیا کیا؟”
احد نے رابعہ عالم کی خوشی کو دیکھتے ہوۓ اندازہ لگایا۔
“جی ہاں بلکل درست جواب،اور یہ کباب تمھارا ہوا۔”
انہوں نے کباب کی پلیٹ سے ایک کباب اٹھا کر اسکو پلیٹ میں رکھ کر دیا۔احد نے قہقہ لگا کر پلیٹ پکڑی۔
“اللہ پاک آپکو ہمیشہ ایسے ہی خوش رکھے۔”
احد نے کیچپ اٹھاتے ہوۓ انکو دعا دی۔
“اچھا چلو اب کام کی بات پر آتے ہیں،کل دراصل میرم ہمارے گھر آئی تھی۔”
انہوں نے اصل مدعے کی طرف آتے ہوۓ کہا۔احد کا ہاتھ منہ میں لے جاتے جاتے رک گیا۔میرم کے نام پر اس کے دل میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔رابعہ عالم نے اپنے بات جاری رکھتے ہوۓ کہا۔
“وہ لڑکی مجھے بہت پسند آئی،اور شاہ ویر بھی اس سے بات کرتے ہوۓ کافی خوش لگ رہا تھا۔
(یہ رابعہ عالم کو خود سے ہی لگ گیا تھا،جس کا حقیقت سے کوئ تعلق نہیں تھا)۔تو تم مجھے یہ معلوم کرکے بتاؤ کہ وہ انگیجڈ وغیرہ تو نہیں ہے؟مجھے اسکے گھر وغیرہ کا ایڈریس بھی لا کر دو۔”
انہوں نےاحد کے جذبات سے بے خبر احکامات جاری کئے۔احد کے لئے تو سانس لینا دوبھر ہوگیا تھا۔وہ انکو کوئی جواب نہیں دے پایا۔
“آنٹی وہ ذرا مجھے اچانک ایک بہت ضروری کام یاد آگیا ہے،میں آپ سے بات کرتا ہوں پھر۔”
وہ جلدی سے بہانہ کرکے وہاں سے اٹھ گیا۔اس کے دل و دماغ میں ایک آندھی چل رہی تھی،ڈرائیونگ کرتے ہوۓ بھی وہ مسلسل یہی سوچ رہا تھا کہ کیا یہ سب شاہ ویر کی رضا مندی سے ہو رہا ہے؟وہ تو جانتا ہے،میرم کے لئے میرے جذبات کو،پھر اس نے آنٹی کو ہاں کیوں کی۔
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے،اس سے ڈرائیونگ نہیں ہو پارہی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...