جینیفر نے رات کو بیڈ پر لیٹتے ہوۓ کہا۔
“(شاہ آئی وانٹ ٹو جوائن آفس”)
شاہ میں آفس جوائن کرنا چاہتی ہوں
“(اوکےبٹ آئی تھاٹ کہ یو شڈ اسپینڈ سم ٹائم ایٹ ہوم۔یو کین جوائن آفس آفٹر سم ٹائم۔”)
“ .اوکے،لیکن میں نے سوچا کہ تم کو تھوڑا ٹائم گھر پر گزارنا چاہئے،تم کچھ ٹائم بعد جوائن کرلینا۔”
شاہ ویر نے اسکو اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ کہا۔
“(نو شاہ،آئی گیٹ بورڈ ایٹ ہوم۔آئی رئیلی وانٹ ٹو جوائن آفس،اینڈ یو آر آلسو گوئنگ دین وائی ناٹ می۔”؟؟)
“نہیں شاہ میں بور ہوجاتی ہوں گھر پر،مجھے آفس جوائن کرنا ہے۔اور تم بھی تو جا رہے ہو تو میں کیوں نہیں”
جینیفر نے لاڈ سے شاہویر کےبال بگاڑے۔
“اوکے ،ایز یو وش۔بٹ آئی تھاٹ کہ یو شڈ اسپینڈ سم ٹائم ود ممی۔شی از الون ایٹ ہوم۔بٹ اف یو وانٹ ،دین اٹس یور چوائس۔”)
“جیسے تمھاری مرضی،مجھے لگا تھا کہ تم کو ممی کے ساتھ کچھ ٹائم گزارنا چاہیے۔وہ گھر پر اکیلی ہوتی ہیں۔مگر اگر تم کو لگتا ہے کہ تم کو آفس جوائن کرنا ہے تو تم کرلو”
شاہویر نے جینیفر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا۔
“(شاہ آئی گاٹ میرڈ ود یو،ناٹ ود یور ممی۔آئی وانٹ ٹو اسپینڈ ٹائم ود یو ناٹ ود یور ممی۔وائے دیز ایشین مامز آلویز کیپ دئیر سنز ود دیم اینڈ میک دئیر میرڈ لائف میزرایبل”)
“شاہ میں نے تم سےشادی کی ہے،تمہاری ممی سے نہیں۔میں تمہارے ساتھ ٹائم گزارناچاہتی ہوں،تمہاری ممی کے ساتھ نہیں,یہ ایشین مائیں ہمیشہ اپنے بیٹوں کو اپنے ساتھ کیوں لگا کے رکھتی ہیں،اور انکی شادی شدہ زندگیاں مشکل بناتی ہیں”
جینیفر نے بے زاری سے کہا۔
شاہ ویر کی کنپٹی کی رگ ابھر کے معدوم ہوئی، جیسے اس نے غصہ کو برداشت کیا ہو،وہ بولا تو اسکی آواز بہت سنجیدہ مگر لہجے میں بہت ٹہراؤ تھا۔
“(جینیفر ریمیمبر ون تھنگ،شی از مائی مدر اینڈ مینز آلوٹ ٹو می۔اف یو ڈونٹ وانٹ ٹو میک اینی ریلیشن ود ہر،اٹس فائن۔بٹ ڈونٹ بی ڈس ریسپیکٹ فل ٹوورڈز ہر۔)”
“جینیفر ایک بات یاد رکھنا،وہ میری ماں ہیں،اور میرے لئے بہت اہم بھی۔اگر تم کو ان سے ریلیشن نہیں بنانا تو ٹھیک ہے مگر آئندہ انکی بے عزتی مت کرنا”
۔جینیفر نے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھنچا اور کروٹ بدل کے لیٹ گئ۔
شاہ ویر کو لگ رہا تھا یہ وہ جینیفر نہیں ہے جس سے اس نے شادی کی تھی یا شاید وہ جینیفر کو سمجھنے میں غلط تھا۔جب سے وہ پاکستان آۓ تھے جینیفر اکھڑی اکھڑی رہتی تھی اور وجہ شاہ ویر سمجھنے سے قاصر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینیفر کو دو دن بعد ہی شاہویر کا آفس جوائن کرلیا تھا۔فی الحال وہ شاہ ویر کے روم میں ہی بیٹھ رہی تھی۔اسکا موڈ آجکل کافی بہتر رہنے لگا تھا،شاہ ویر کے لئے یہ کافی اطمینان بخش تھا۔ورنہ وہ جینیفر کے موڈ سوئنگز کو لے کر کافی پریشان رہتا تھا۔
انکی شادی کو دو مہینے ہونے کو آۓ تھے مگر انکے بیچ انڈرسٹینڈنگ سے زیادہ غلط فہمیاں پیدا ہو گئ تھیں۔شاید شادی سےپہلے دونوں نے جو ایک دوسرے کے لئے ایکسپیکٹیشن رکھی تھیں دونوں اسکو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے تھے۔
بہر حال شاہویر کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ جینیفر کو خوش رکھ سکے مگر پھر بھی دونوں کے بیچ کچھ نہ کچھ ان بن چلی آرہی تھی۔
شاہ ویر کوئی کنزرویٹیو قسم کا بندہ نہیں تھا،اسکو جینیفر کے کرئیر پر توجہ دینے میں کوئ اعتراض نہ تھا، مگر وہ فی الحال چاہتا تھا کہ اسکی ماں جو پچھلے تین سال سے اکیلے رہ رہی تھی انکو کچھ وقت اپنوں کے ساتھ گزارنے کا مل جاۓ۔اور فی الحال شاہ ویر کے پاس ماں کے لئے وقت نہیں تھا،اس پر بزنس کی پوری ذمہ داری تھی اسلئے وہ چاہتا تھا کہ جینیفر اسکا ساتھ دے۔وہ گھر پر کچھ وقت گزار لے۔
ادھر جینیفر کو لگتا تھاکہ شاہویر کو بزنس اور ماں کا زیادہ خیال ہے،اسکی پرواہ نہیں ہے،اور شاید سوچوں کا یہ تضاد دونوں کے بیچ ایک خلیج حائل کر رہا تھا۔فی الحال آفس جوائن کرنے کے بعد سے جینیفر کے موڈمیں کافی خوشگوار تبدیلی آئی تھی،اور یہ شاہ ویر کے لئے خوش کن تھا،مگر اسکو نہیں پتہ تھا اسکا یہ سکون عارضی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجل کے کمرے سے جانے کے بعد نساء نے ایقان کو کال ملائی۔
“اسلام و علیکم ایقان،کیسے ہیں آپ؟”
“وعلیکم اسلام ،ہاں بولو”۔
ایقان نے سرد مہری سے جواب دیا۔
نساء کے ہاتھ ٹھنڈے برف ہورہے تھے،ایقان کے تیور اسکا فیصلہ بتا رہے تھے۔
“ایقان وہ مجھے آپ سے ہماری شادی کو لے کر بات کرنی تھی”۔
نساء نے ہچکچاتے ہوۓ کہا۔دوسری طرف سے صرف ہوں کی آواز آئ۔
“وہ آپ کی پاپا سے بات ہوئ ہے نہ”۔
نساء کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں سے شروع کرے۔
“اصل میں میں یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ نے اس بارے میں کیا سوچا ہے؟”
آخر نساء نے اپنی بات مکمل کی۔
“نساء میں تم کو پہلے ہی بتا چکا تھا کہ میرے لئے یہ وزٹ کتنا امپورٹنٹ ہے،فی الحال میں شادی جیسی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا ہوں،مگر شاید تم اپنے والدین کو ٹھیک سے سمجھا نہیں پائیں۔”
ایقان نے طنزاً کہا۔
“ایقان میں نے پا پا سے بات کی تھی،مگر وہ میری نہیں سن رہے،انکو لگتا ہے شاد ی کرکے جانے میں کوئی حرج نہیں۔”
نساء نے آہستگی سے کہا۔
“نساء تمہارے پاپا کے لگنے سے کیا ہوتا ہے،ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا،تمہارے پاپا فالتو کی ضد کر رہے ہیں،تو انکو بتا دینا کہ میں ضد میں ان سے چار ہاتھ آگے ہوں”۔
ایقان نے تنفر سے کہا۔
“ایقان یہ آپ کیسے بات کررہے ہیں ،پاپا نے ایسا تو کچھ نہیں کہا آپکو۔”
نساء کو غصہ اور رونا ایک ساتھ آرہا تھا۔
“ہاں تو نساء وقار تمہارے پاپا ٹھیک ہیں تو میری طرف سے یہ رشتہ ختم سمجھو،میرے والدین تمہارے والدین کو آفیشلی کال کر دیں گے۔”
ایقان نے سفاکی سے کہا۔اور کال منقطع کردی۔
نساء کو لگا جیسے قیامت ایسے ہی آۓ گی،اچانک،اور سب تہس نہس کردے گی۔ایک پل میں اسکی زندگی ویران ہوگئی تھی۔وہ خالی خالی نظروں سے موبائیل کو دیکھے گئی۔اس نے سوچا تھا وہ ایقان کی منت کرکے اسکو راضی کرلے گی،اسکو سمجھاۓ گی،مگر اس سب کی تو نوبت ہی نہیں آئی۔اسکا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔وہ وہیں زمیں میں بیٹھتی چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن ہوگئے تھے ،اسجد نے سجل نے بات نہیں کی تھی۔اور ایسا پہلی بار ہوا تھا،ورنہ اسجد تھوڑی دیر بعد ہی سب بھلا اسکو منا لیتا تھا۔سجل جو پچھلے ۱۵دن سے اسجدسے بات نہ کرنے کی رٹ لگا ئے تھی،اب جو دو دن سچ میں بات نہ ہوئی تو اسکو سمجھ نہیں آرہا تھا،وہ کیا کرے۔اسجد کو کال کرنے کی صورت میں سبکی ہے،تو نہ کرنے کی صورت میں اس دل کا کیا کرے جو اسجد سے بات کئے بغیر کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔
وہ کافی دیر سے موبائیل ہاتھ میں لئے بیٹھی تھی،اور مخمصے کا شکار تھی،کہ اچانک اسکرین جگمگا اٹھی،اور اسجد کالنگ بلنک کرنے لگا۔سجل کو لگا،جیسے ایکدم ہی اسکو کوئی خوشی مل گئی ہو۔اس نے فوراً کال ریسیو کی۔دوسری طرف اسجد کی آواز سن کر ساری کلفت دور ہوگئ۔
“اسلام و علیکم کیا حال ہیں جناب کے”؟؟
وعلیکم اسلام،آگیا خیال تم کو؟”
سجل نے جل کے جواب دیا۔جو بھی ہو مگر اسجد پر بھرم بھی تو رکھنا تھا۔
“اچھا تو ضروری ہے کہ ہر بار خیال مجھ کو ہی آۓ”؟
اس نے ہنستے ہوۓ پوچھا۔
“ہاں تو غلطی تم کرتے ہو تو تم کو ہی منانا بھی چاہیۓ۔”
شانِ بے نیازی سے بولا گیا۔
“میں غلطی پر ہوتا ہوں ہمیشہ؟”
اسجد کی حیرت سے پوری آنکھیں کھل گئیں۔
“دیکھ لو ابھی بھی لڑائ کے موڈ میں ہو۔”
سجل نے اسکو چھیڑا۔
“اوکےسیز فائر۔”
اسجد نے ہاتھ اٹھاتے ہوۓ کہا،مبادہ سجل کا موڈ واقعی نہ خراب ہوجاۓ۔
“ویسے آج ڈنر کے بارے میں کیا خیال ہے؟”
ااسجد نے پیپر ویٹ گھماتے ہوۓ پوچھا۔وہ اس ٹائم آفس میں تھا۔لنچ بریک تھاسب لنچ میں بزی تھے سو اس نے سجل کو کال ملا لی۔
“اچھا پرسوں آئسکریم نہ کھلانے کی کمپیشن ہے یہ؟”
سجل نے ہنستے ہوۓ کہا۔
اسجد کا زوردار قہقہ بلند ہوا۔
“لگتا ہے میری بیگم کو آئسکریم نہ کھانے جانے کا دکھ ہے”۔
اس نے سجل کو چھیڑا۔
“اسجد تم پٹو گے۔”
سجل نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
“اچھا پھر ریڈی رہنا،میں رات کو آوںگا۔اور آئسکریم بھی کھلا دونگا۔”
اسجد نےشرارت سے کہا
“اسجد کےبچے”۔
سجل نےدانت کچکچاۓ۔
“ارے ہاں میرے بچوں کو مت لانا۔آج صرف مسٹر اینڈ مسز جائیں گے۔”
اسجد نے آنکھ دباتے ہوۓکہا۔
“کیوں بھئ کس خوشی میں؟”
سجل نے حیرت سے پوچھا۔
“ارے بہت دن سے اکیلے تمہارے ساتھ ٹائم اسپینڈ نہیں کیا۔آج ڈیٹ مارنے کا موڈ ہے۔”
اسجد نے شرارت سے کہا۔
“اچھا جی کیا یاد کرو گے ،کس بیوی سے پالا پڑا ہے۔نساء کے پاس چھوڑ کر آجاوں گی دونوں کو۔”
سجل نے اتراتے ہوۓ کہا۔
“اوکے باۓ،بہت کام پڑا ہے،پھر رات کو ملتے ہیں۔لو یو”۔
“ لو یو ٹو۔باۓ۔”
سجل نے مسکرا کر کال ڈسکنکٹ کی۔اسجد سے بات کرکے وہ ہلکی پھلکی ہو گئی تھی۔اب اسکا رخ نساء کے روم کی طرف تھاتاکہ اسکو اپنا پلان بتا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجل روم میں داخل ہوئ تو نساء ایک کونے میں گٹھنوں میں سر دئے بیٹھی تھی۔اور پاس ہی موبائیل پڑا تھا۔
“ نساء کیا ہوا؟”
اس نے نساء کو آواز دی۔
نساء نے خالی خالی نظروں سے سجل کو دیکھا۔آنسؤں کی خشک لکیر اسکے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔چہرے پر ایک ویرانی تھی۔سجل کو اسکو دیکھ کر گھبراہٹ ہوئ۔
“نساء کچھ بولو ،کیا ہوا؟”
سجل نے اسکو جھنجھوڑتے ہوۓ کہا۔
“سب ختم ہوگیا آپی”۔
نساء اسکے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
“آپی اس نے مجھے چھوڑ دیا۔”
نساء ہچکیوں کے بیچ بول رہی تھی۔سجل کی سمجھ نہ آیا وہ اسکو کیا تسلی دے۔سارے الفاظ کہیں گم ہوگۓ تھے۔وہ بس خاموشی سے اسکو تھپکے گئ۔ایک سیلِ رواں اسکی آنکھوں سے بھی جاری تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار صاحب گھر میں داخل ہوۓ تو کلثوم بیگم انکے پژمژدہ چہرے کو دیکھ کر ایکدم پریشان ہوگئیں۔اب تک نساء یا سجل نے انکو ایقان کا فیصلہ نہیں بتایا تھا۔
“خیریت تو ہے آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟”
وہ جلدی سے صوفے سے اٹھ کر انکے قریب آئیں۔وقار صاحب انکو دیکھتے بیڈ روم کی طرف بڑھ گئے۔وہ جلدی سے پانی کا گلاس لیکر انکے پیچھے گئیں۔
“کیوں مجھے ہولا رہے ہیں،کیا ہو گیا ہے؟”کلثوم بیگم نے جھنجھلا کر پوچھا۔
“ابھی کچھ دیر پہلے علی صاحب کی کال آئ تھی،وہ معذرت کر رہے تھے،ایقان نے رشتے سے منع کر دیا ہے۔”
وقار صاحب نے آہستگی سے بتایا۔کلثوم بیگم وہیں بیڈ پکڑ بیٹھ گئیں۔
“کلثوم یہ میرے گناہوں کی سزا ہے جو میری بیٹیاں بھگت رہی ہیں،میں نے کسی کی بیٹی کو دکھ دئے تھے،اسلئے آج میری بیٹیاں دکھی ہیں۔ایک شادی شدہ ہوتے بھی اپنے گھر کی نہیں ہے تو دوسری کا گھر بسنے سے پہلے اجڑ گیا۔”
وہ بہت دلبرداشتہ ہو رہے تھے۔
“ارے ایسے کیسے سوچ رہے ہیں آپ،یہ وقتی آزمائش ہے ،اور خدا گواہ ہے میں نے آپ کے لئے دل میں کبھی برا نہیں سوچا۔آپ سے جب میرے تعلقات اچھے نہیں تھے،تب بھی میں نے آپ کے لئے ہمیشہ دعا کی ہے۔آپ یہ بات دل سے نکال دیں۔”
کلثوم بیگم نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔
“نہیں کلثوم یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے،شاید اللہ اور بندے کا معاملہ کا تو اللہّ قیامت کے دن حساب کرے گا۔مگر بندوں سے کیا ہوۓ عمل کا حساب اسی دنیا میں دے کر جانا ہوتا ہے۔تم مجھے معاف کردو۔”
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دئے۔
“اللہ کیوں مجھے گناہگار کر رہے ہیں۔میں نے کہا نہ میرے دل میں آپ کے لئے کوئ بات نہیں ہے۔آپ میرا سائبان ہیں آپ کا برا کیسے چاہ سکتی ہوں میں۔اور آپ ایسا کیوں سوچ رہے کہ یہ سزا ہے،کبھی کبھار اللہّ پاک اپنے بندوں کو آزمائش سے گزارتا ہے۔یہ وقتی پریشانیاں ہیں انشااللہّ اللہ ّ پاک ہی اس سے نکالے گا۔”
انہوں نے تڑپ کے وقار صاحب کے جڑے ہاتھ پکڑے۔
“نہیں کلثوم تم ایک بار منہ سے کہ دو تم نے مجھے معاف کردیا ہے۔میں نے شاید عقل آنے کے بعد تمھارے حقوق ضرورادا کیئے مگر اپنے کئے کی معافی نہیں مانگی تھی۔”
“اچھا میں نے آپکو معاف کیا،اب آپ کوئ ایسی بات نہیں کریں گے۔”
انہوں نے دوپٹے کے پلّو سے اپنی آنکھیں خشک کیں۔
“آپ فریش ہوں میں آپ کے لئے چاۓبھجواتی ہوں۔کلثوم بیگم کہتی کمرے سے نکل گئیں۔وقار صاحب آنکھیں موند کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ماضی کے اوراق انکی آنکھوں کے سامنے پلٹنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلثوم کی شادی بہت ہی کم عمری میں وقار احمد سے ہوگئ تھی۔ماں حیات نہیں تھی،والد صاحب نے اپنی زندگی میں انکے فرض سے سبکدوش ہونے کے لئیے انکو پیا دیس سدھار دیا۔اور زندگی نے بس انکو کلثوم کی شادی کی مہلت ہی دی تھی۔انکو رخصت کرنے ایک ہفتے بعد ہی وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
ادھر کلثوم کی ساس ایک تیز و طرار خاتون تھیں۔وہ وقار احمد کی شادی کلثوم سے اسی لئے کرکے لائ تھیں کیونکہ انکو اندازہ تھا کہ بن ماں کی کم عمر لڑکی کو وہ بآسانی وہ اپنے قابو میں کر لیں گی۔انکا نام شاکرہ ضرور تھا،مگر صبر اور شکر جیسی صفات تو انکو چھو کر بھی نہیں گزری تھیں۔ہر وقت شکوہ کناں رہنا،لوگوں کےکاموں میں نکتہ چینی کرنا،اور گھر میں پھڈے ڈلوانا انکے پسندیدہ کام تھے۔وقار احمد انکے سب سے چھوٹے اور فرمانبردار بیٹے تھے۔دونوں بڑے بیٹے اپنی فیملی کے ساتھ الگ رہتے تھے،کیونکہ شاکرہ بیگم کے ساتھ کسی بہو کاگزارہ آسان نہیں تھا۔
یہی وجہ تھی کہ وقار احمد کی شادی کے ٹائم انہوں نےبڑی سمجھداری سے کام لیا تھا،کیونکہ وقار احمد کے بغیر وہ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔کلثوم کی طرف سے انکو میکہ کا خوف بھی نہ تھا،کیونکہ میکہ کے نام پر ایک بھائ تھا۔جسکی بیوی عادات و اطوار میں شاکرہ بیگم کی ہی ہم پلہ تھیں۔اسلیۓ کلثوم پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کوئ رکاوٹ نہیں تھی۔رہا بیٹا تو وہ ایسا فرمانبردار کہ ماں کی ہر بات کو آمنا صدقنا کہنا اسکا اولین فرض تھا۔
اور وہی ہوا شاکرہ بیگم کاگھاگ تجربہ کام آیا ،اور کلثوم آتے ہی انکے قابو میں آگئ۔اس نے جلد ہی پورے گھر کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔اور شاکرہ بیگم کی خدمت میں کوئ کسر نہیں چھوڑی،کیونکہ وقار احمد نے پہلے ہی دن اسکو بتا دیا تھا کہ وہ ماں کی خدمت میں کوئ کوتاہی نہیں برداشت کرییں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہی سےکلثوم جلدی جلدی کام نمٹانے میں لگی ہوئ تھی،کیونکہ آج اسکے عزیز از جان بھتیجے اسجد کی سالگرہ تھی۔یوں تو اسکو میکے جانے کا موقع نہیں مل پاتا تھا،شاکرہ بیگم اسکو پورے وقت کسی بکھیڑے میں پھنسا کر رکھتی تھی،اور باقی رہی سہی کسر اسکی بھاوج جہاں آرا پوری کردیتی تھی،وہ ہمیشہ حیلوں بہانوں سے اسکو گھر آنے منع کردیتی تھی۔
آج کافی دن بعد اسکو اسجد کو دیکھنے کا موقع ملنے والا تھا۔اسلئے وہ صبح سے ہی کافی خوش تھی۔مگر اسکی خوشی تھوڑی دیر میں خاک میں ملنے والی تھی۔
اسکا اندازہ اسکو نہ تھا۔کلثوم نہا کر باہر نکلی،تو زینت بوا نے آکر وقار صاحب کے فون کی اطلاع دی۔کلثوم کے اندر خطرے کی گھنٹی بجنے لگی،کیونکہ آج تک وقار احمد نے اس کو کال نہیں کی تھی۔وہ فون ضرور کرتے تھے مگر ماں سے بات کرکے رکھ دیتے تھے،جسکی ہدایت انکو ماں سے ہی ملی تھی۔
“اسلام و علیکم”۔
کلثوم نے دھڑکتے دل سے سلام کیا۔
“وعلیکم اسلام،وہ میں یہ کہ رہا تھا کہ ہم سالگرہ میں رات کو جائیں گے،تو تم شام سے تیار مت ہوجانا۔”
وقار احمد نے اسکی سماعت پر بم پھوڑا۔
“ممم مگر سالگرہ تو شام کو ہے نہ؟”
کلثوم کو انکا یہ نیا حکم کچھ سمجھ نہ آیا۔
“ہاں وہ دراصل رفعت آرہی ہے،تو ہم رات کے کھانے سے فارغ ہوکر جائیں گے۔”
انہوں نے بہت اطمینان سے کہا۔
“مگر رفعت آپا تو ہر ہفتے آتی ہیں،اور پھر میں نے سارا کام بھی نمٹا دیا ہے،باقی کھانا وغیرہ زینت بوا نکال دیں گی۔”
کلثوم نے جلدی جلدی صفائ دی۔
“نہیں وہ اماں بتا رہی ہیں، زینت بوا اپنے گھر جارہی ہیں انکی بیٹی کی طبعیت خراب ہے،تو اماں تو اب کام نہیں کریں گی نہ؟”
انہوں نے تھوڑا سختی سے پوچھا۔
“جی ٹھیک ہے”۔
کلثوم نے مری مری آوازمیں کہا،اور فون کریڈل پر رکھ دیا۔اسکی آنکھوں میں پانی بھر رہا تھا ،مگر سامنے ہی شاکرہ بیگم بیٹھی تھیں وہ انکے سامنے رو کر اپنا آپ ہلکا نہیں کرنا چاہتی تھی۔سو خاموشی سے آنسو پیتی کچن کی طرف چل دی۔
شاکرہ بیگم نے فاتحانہ انداز میں پان کا بیڑہ منہ میں دبایا،اور اونچی آواز میں ٹی وی کھول کر بیٹھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسجد سجل کو ڈنر پر لے جانے آیا تھا۔اسکا خیال تھا کہ سجل تیار بیٹھی ہوگی۔مگر گھر آنے پر اسکو دھچکہ لگا جب اس نےسجل کو گھر کے حلیے میں دیکھا۔سجل کوبھی اسجد کو دیکھ کر ڈنر یاد آیا۔وہ تو پریشانی میں اسجد کو بتانا ہی بھول گئ تھی کہ وہ نہیں جا سکے گی۔اسجد کو اس نے آنکھوں سے چپ رہنے کو کہ دیا تھا،کیونکہ کلثوم بیگم پاس ہی بیٹھی تھیں۔وہ انکو سلام کرکے وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔
کلثوم بیگم کو اندازہ ہوا ،اسجد کچھ کہنا چاہتا ہے اسلئے وہ بہانے سے اٹھ کر چلی گیئں۔کلثوم بیگم کےجاتے ہی اسجد نے ناراضگی سے سجل سے پوچھا۔
“یار تم تیار کیوں نہیں ہویں اب تک؟؟”
جواباً سجل نے اسکو ساری روداد سنا دی۔اسجد ساری بات سن کر خود بھی شاک میں آگیا۔
“مگر ایقان نے تو پسند کی منگنی کی تھی نساء سے پھر کیا ہوگیا؟”
وہ حیرت اور بے یقینی کے بیچ تھا۔
“نساء کہاں ہے؟کیسی ہے وہ؟”
نساء کا خیال آتے ہی اس نے اسکی خیریت پوچھی۔
“وہ سو رہی ہے،میں نے بچوں کو بھی جلدی سلادیا تاکہ وہ ڈسٹرب نہ ہو”۔
سجل نے افسردگی سے بتایا۔
“چلو اللّہ پاک کی کوئ بہتری ہوگی تم لوگ پریشان نہ ہو۔”
اسجد نے سجل کو گلے لگاتے ہوے تسلی دی۔سجل نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا۔
“اوکے چلو میں پھر چکر لگاؤں گا۔اپناخیال رکھنا۔”
وہ اسکو اللّہ حافظ کہتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...