’’برے لوگ‘‘
اردو ناول کی تاریخ میں جہاں بھی عزیز احمد کا تذکرہ آیا ہے وہاں ان کے کم و بیش چھ ناولوں ’’ہوس۔ مرمر اور خون، گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی اور شبنم کا ذکر کیا گیا اور شبنم کو ان کا آخری ناول قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید بھی کچھ اس طرح کی بات کہتے ہیں :۔
’’عزیز احمد نے شبنم، کے بعد کوئی ناول نہیں لکھا من بعد انہوں نے چار ناولٹ لکھے ‘‘۔ ۱۴۲؎
لیکن انہوں نے ان چار ناولٹ کے نام نہیں لکھے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد (دسمبر1991ء) سے شائع کردہ اپنی کتاب ’’اردو افسانے کے روایت‘‘1903ء تا1990، ص 376۔ 375 میں عزیز احمد کے حالات زندگی اور ان کی تصنیفات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے تین ناولٹ کے نام بھی گنائے ہیں نمبر ایک مثلث، نمبر دو خدنگ جستہ، نمبر تین ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘ ان میں سے آخر الذکر ناولٹ ہی دستیاب ہے اول الذکر دو ناولٹ نایاب ہیں۔
عزیز احمد کے ناولوں میں شبنم آخری ناول نہیں بلکہ اس کے بعد بھی عزیز احمد نے دو ناول اور لکھے تھے، ایک ناول ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ ہے جس کا ذکر مرزا حامد بیگ نے بھی کیا ہے اور دوسرا ناول ’’برے لوگ‘‘ ہے۔ عزیز احمد کے ناول بہت کم دستیاب ہیں، اس لئے گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ’’برے لوگ‘‘ ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ اور چند ناولٹ خدنگ جستہ، جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور مثلت کے بعد عزیز احمد نے ناول نگاری ترک کر دی تھی اور اپنے آپ کو اسلامی و انگریزی ادب سے منسلک کر دیا تھا، زیر نظر کتاب میں ناول ’’برے لوگ‘‘ پر پہلی مرتبہ تبصرہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ناول پر سنہ اشاعت درج نہیں ہے لیکن قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ ناول 1955-60ء کے درمیان لکھا گیا ہو گا۔ پہلی مرتبہ اسے ناشر سلطان احمد تاجر کتب اردو بازار دہلی نے خواجہ پریس دہلی سے شائع کرایا ہے۔ عزیز احمد کے ابتدائی دو ناولوں ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمر اور خون‘‘ کی طرح یہ بھی ایک مختصر ناول ہے جس کے صفحات کی کل تعداد 128 ہے۔ ناول کے موضوعات اسلوب، کردار نگاری، مخصوص طرز بیان اور دوسرے عناصر کے تجزیہ کے بعد بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ عزیز احمد کا ہی ناول ہے۔ عزیز احمد کے حالات زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ تقسیم ہند و ریاست حیدرآباد کے انضمام کے بعد 1949ء میں وہ پاکستان ہجرت کر گئے تھے، اور وہاں تقریباً 12سال قیام کے بعد برطانیہ چلے گئے تھے، ’’برے لوگ‘‘ کا بنیادی موضوع تقسیم ہند کے بعد وقوع پذیر ہونے والے حالات و اثرات ہیں جو اس وقت برصغیر کے لوگوں پر خاص طور سے سرحد کے اطراف رہنے والوں کی زندگی پر پڑے تھے۔
زندگی شکست و ریخت، نشیب و فراز سے شائد ہی کسی وقت دوچار ہوئی ہو گی جتنی اس وقت دوچار تھی، بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہجرت، ہندو مسلم فسادات، معصوم، عورتوں کا اغوا، عصمت ریزی اور مظالم، انسان کا انسان سے ڈر جانا بڑے پیمانے پر معاشی بدحالی یہ ایک بڑی سماجی تبدیلی تھی جس کے انمٹ نقوش آج بھی لوگوں کو یاد ہیں اور اس یاد کو پر اثر بنا کر محفوظ رکھنے میں اردو شعر و ادب، ناول و افسانوں نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی عزیز احمد کا یہ ناول ’’برے لوگ، ہے اس میں انہوں نے تقیسم ہند کی تباہ کاریوں سے متاثرہ چند نوجوانوں کی زندگی کا تجزیہ نفسیاتی طور پر پیش کیا ہے۔
اس ناول میں شمع اور نسرین دو ایسی لڑکیوں کی داستان الم رقم ہے جو تقسیم کے وقت چند درندہ صفت لوگوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ سکندر نامی ایک نوجوانوں کی زندگی کے احوال بھی پیش ہوئے ہیں جو آزاد وطن کی نوید سن کر ہندوستان سے سرحد پار چلا جاتا ہے، جہاں طرح طرح کی مشکلات اور معاشی بدحالی کے سبب وہ زندگی کی فطری خوشیوں سے محروم ہو جاتا ہے اور غلط راہ پر چل پڑتا ہے بالآخر شمع سے ملاقات کے بعد نسرین سے متعارف ہوتا ہے۔ عزیز احمد نے ناول میں شعور کی روکی ٹیکنک استعمال کرتے ہوئے سکندر، شمع اور نسرین کی زندگی کے ماضی کو پیش کرتے ہوئے ناول کو آگے بڑھاتے ہیں، شمع جسم فروشی کے ذلیل پیشہ میں طویل عرصہ گذارنے کے بعد ایک ہمدرد شاعر کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے اور دونوں شادی کیلئے رضا مند ہو جاتے ہیں۔ سکندر اور نسرین کی موجودہ حالت کی ذمہ داری وہ خود نہیں بلکہ ظالم سماج ہے اور نسرین کے رونگٹے کھڑا دینے والے حالات سننے کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے کی مظلوم لڑکی ہے اور مجبوراً جسم فروشی پر آمادہ ہے۔ اس کے اندر بھی ایک مشرقی عورت کا دل ہے اور اس کے جذبات پاکیزہ ہیں تو وہ (شمع اور شاعر کی شادی پر رضامندی کے ساتھ) نسرین کا ہاتھ شادی کیلئے تھام لیتا ہے اس طرح یہ ناول انجام کو پہنچتا ہے۔
’’برے لوگ‘‘ میں عزیز احمد نے زیادہ تر نفسیاتی کشمکشوں کو پیش کیا ہے، اس طرح یہ ایک نفسیاتی ناول بن کر رہ گیا ہے، اس کیلئے انہوں نے تحلیل نفسی کے اصول کو اپناتے ہوئے کرداروں کی نفسیات کی گرہ کشی کی ہے۔ ناول کے نظریہ حیات کے سلسلہ میں انہوں نے زندگی جنس معاشرہ کے بارے میں تقریباً وہی خیالات دہرائے ہیں جو انہوں نے اپنے ابتدائی ناولوں ’’ہوس‘‘ ’’مرمر اور خون‘‘ اور ’’گریز‘‘ میں پیش کئے تھے۔ ناول میں سب سے تعجب خیز بات اس کا خاتمہ بالخیر ہے۔ عزیز احمد کے بیشتر ناولوں میں کردار محبت کے غیر فطری نظریہ کو پیش کرتے ہوئے جنسی گھٹن میں مبتلا یا جنسی بے راہ روی میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں یا نا اسودگی کے سبب اپنی زندگی سے غیر مطمئن دکھائی دیتے ہیں، ان کرداروں میں جیسے ہوس کا نسیم اور گریز کا نعیم حسن میں معاشرہ کی فطری قوانین سے بیزارگی دکھائی دیتی ہے اور وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کو ہی فوقیت دیتے ہیں ان پر سماج یا معاشرہ کی کسی ذمہ داری کا کوئی احساس ہی نہیں دکھائی دیتا لیکن ’’برے لوگ‘‘ میں سکندر اور نسرین کا شادی کیلئے راضی ہو جانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور سکندر عزیز احمد کے ناولوں میں پہلا کردار بن جاتا ہے جو اپنی ہوس پوری ہونے کے بعد بھی کسی لڑکی کو ٹھکرا نہیں دیتا بلکہ اس کی غم زدہ زندگی کے غم بانٹتے ہوئے اسے اپنا شریک غم بناتا ہے اس سے شادی پر رضامند ہو جاتا ہے اور زندگی کے مثبت، صحت مند اور فطری نقطہ نظر کی عکاسی کی ہے۔
ناول کے پیش کردہ ماحول سے پتہ چلتا ہے کہ عزیز احمد نے پاکستان جانے کے بعد وہاں پر پہنچنے والے ہندوستانیوں کی پریشان حال زندگی دیکھ کر یہ ناول تحریر کیا ہے۔ ناول میں متذکرہ مقامات جیسے صدر بازار، لالو کھیت، کلفٹن کی بندرگاہ کے نام پڑھنے کے بعد یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تقسیم کے بعد بڑے پیمانے پر ہندوستان سے مسلمان مہاجرین جب پاکستان پہنچے تو ان کی باز آبادکاری کراچی سندھ کے علاقہ میں ہی عمل میں آئی تھی۔
عزیز احمد کے ناولوں میں کردار نگاری بلند پائے کی ہوتی ہے۔ ’’ برے لوگ‘‘ میں بھی عزیز احمد نے سکندر، شمع اور نسرین کے کرداروں کو فنکاری سے پیش کیا ہے اور ان کرداروں کو پیش کرنے اور ان کی زندگی کی جزئیات کو حقیقی رنگ دئیے میں انہوں نے تحلیل نفسی کے اصول کو اپنایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس ناول کا مرکزی کردار سکندر ہے، یہ ایک ایسا نوجوان ہے جو آزاد وطن میں سانس لینے کا خواب لئے اپنے آبائی مقام الہ آباد سے ماں باپ کو اور اپنی بی اے فائنل کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر سرحد کی طرف چل پڑتا ہے۔ والدین کاروبار کی وجہہ سے نقل مقام نہیں کر پاتے، سکندر بڑی مشکلات اور راستہ کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے کسی طرح سرحد کے اس پار پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مہاجر کیمپ میں چند دن رضا کارانہ طور پر خدمت انجام دینے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کر دیتا ہے اور لوگوں کی طرح وہ بھی ایک غیر مسلم کے فلیٹ کو اپنے نام کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ سکندر کے یہاں تک حالات اس وقت تقریباً سبھی مہاجرین کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ سکندر کردار بھی اس نوعیت سے اپنے عہد کا عکاس بن جاتا ہے۔ مختلف دفتروں میں چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرتے کرتے اور ہوٹل کا کھانا کھا کر سکندر اکتا جاتا ہے، اور اپنی عمر کے فطری تقاضے کے تحت وہ شادی کرنے اور گھر بسانے کیلئے فکر مند رہتا ہے لیکن اکیلا ہونے اور معاشی تنگی کے سبب وہ اپنے ارادہ پر عمل نہیں کر پاتا، صدر بازار میں ایک دفعہ شمع نامی بازاری عورت سے مڈ بھیڑ کے بعد وہ غلط راہوں پر چل پڑتا ہے، سکندر جیسے نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکانے میں اس طرح کی لڑکیاں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ شمع بے باکی سے سکندر کو ہوٹل کی کیبن میں لے جاتی اور کچھ وقت گزارتی ہے، پہلی مرتبہ عورت سے اس طرح کی قربت سکندر کی اکیلی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتی ہے، اور وہ اپنی اس حرکت کو فطری تقاضہ سمجھ کو اس کے موافق دلیلیں سوچنے لگتا ہے یہاں پر سکندر کی ذہنی کشمکش کو ملاحظہ فرمائیے :۔
’’اگر بھوکے کو روٹی نہ ملے تو وہ بالآخر چوری کو جائز قرار دیتا ہے کیونکہ انسان ذہن کو ہر چیز کے حق میں اور خلف دلیلیں مل جاتی ہیں انسان کے کردار کو بچانے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ اس کی جائز ضرورتوں کو پورا کر دیا جائے ورنہ افراد اور جماعت دونوں گناہوں اور بدیوں کے شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، صرف یہ کہہ دینے سے کہ چوری نہ کرو چوری ختم نہیں ہوسکتی صرف یہ فتوی صادر کر دینے سے کہ کسبیوں کے پاس مت جاؤ اس علت کا ازالہ نہیں ہوسکتا، اس کیلئے ان بنیادی وجوہات کا دور کر دینا ضروری ہے جو انسان کے ہاتھ پک کر انہیں کشاں کشاں تاریکیوں میں لے جاتی ہیں ‘‘۔ ۱۴۳؎
اس طرح کے خیالات پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے سکندر کے کردار میں زندگی کے حقیقت سے فراریت کو پیش کیا ہے۔ جب کسی قوم کے افراد میں بے عملی اور معاشرہ میں برائیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو اکثر نوجوانوں کے ذہن میں اس طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔
سکندر، شمع کے بہکاوے میں آ کر شراب نوشی و سگریٹ نوشی شروع کر دیتا ہے اور ہر ماہ جب کہ اس کی جیب گرم ہوتی ہے وہ شمع جیسی دوسری لڑکیوں کے ہاں جا کر سکون قلب تلاش کرتا ہے۔
ایسے ہی ایک موقع پر شمع کے ذریعہ اس کی ملاقات نسرین نامی ایک لڑکی سے ہوتی ہے جو شمع کی سہیلی ہے اور نامساعد حالات کے سبب طوائف بن بیٹھتی ہے۔ ابتداء میں سکندر اور نسرین کی ملاقاتیں تسکین جذبات کی حد تک ہوتی ہیں اور سکندر بھی مطلب پرست کی طرح نسرین سے محبت کے جھوٹے دعوے کرتا ہے اور دام چکا کر جانے لگتا ہے، لیکن بہت جلد اسے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ عام جسم فروش لڑکی نہیں بلکہ مصبیت کی ماری مظلوم ہے اور اسے سچے پیار کی تلاش ہے۔ نسرین، سکندر کی دیکھ بھال کرتی ہے اور اسے نوکری سے متعلق مفید مشورے دیتی ہے، سکندر بھی محسوس کرنے لگتا ہے کہ اسے جس معیار کی لڑکی کی تلاش تھی وہ نسرین ہی ہے۔ سکندر، نسرین سے ملاقات کے بہانے اس کے گھر آنے لگتا ہے اور دونوں میں دوستانہ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ نسرین کے ماضی کے حالات سننے کے باوجود اس کے دل کی پاکیزگی کو اہمیت دیتا ہے :۔
’’کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ نسرین کے ساتھ لپٹ کر سوجائے اور اس سے پہلے کہ اور اس سے بعد کی تمام باتیں ذہن سے نوچ کر پرے پھینک دے، اس کے اندر سے کوئی سفلی جذبہ بار بار کہہ رہا تھا، پگلے نسرین جانتی ہے کہ تم کیوں یہاں ٹھہرتے ہو، وہ آخر کار ایک۔ ۔ ۔ ۔ سکندر تڑپ کر اٹھ بیٹھا نہیں یہ سب واہیات ہے وہ اب بھی کنواریوں کی طرح مقدس ہے اس نے آج تک میرے ساتھ کبھی اس قسم کی بات چیت نہیں کی جس سے ثابت ہوسکے کہ وہ مجھے گاہک سمجھتی ہے اور خود مجھے کبھی کسی بھی لمحہ دکاندار معلوم نہیں ہوئی‘‘۔ ۱۴۴؎
نسرین کے برتاؤ کے سبب سکندر کے دل میں اس طرح کے خیالات آتے ہیں اور سکندر نسرین سے واقعی محبت کرنے لگتا ہے، ایک دفعہ سکندر اور نسرین سیر و تفریح کیلئے نکلتے ہیں۔ سکندر نسرین سے کہتا ہے :۔
’’میں تمہارے بغیر تنہائی محسوس کرتا ہوں، مجھے تم سے محبت ہے، جو کچھ گذر گیا اسے بھول جاؤ، اب اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے حالات اگر بدی کی طرف لے جاتے ہیں تو نیکی کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں، جب تک ضمیر زندہ رہے کسی انسان پر برا ہونے کا عصمت یافتہ ہونے کا فتویٰ صادر نہیں کیا جا سکتا، یہ آنسو پونچھ لو اور یہ یاد رکھو کہ میں بھی تم سے بہتر ہستی نہیں ہوں، میں نے کبھی کوٹھے کی خاک چھانی ہے اگر ہم گنہگار ہیں تو دونوں گنہگار ہیں ‘‘۔ ۱۴۵؎
سکندر اپنے خیالات پیش کرنے کے بعد ناول کے آخر میں شمع و شاعر کی طرح نسرین کا ہاتھ شادی کیلئے تھام لیتا ہے، اس طرح ناول میں سکندر کا کردار منفی رجحانات سے مثبت رجحانات کی جانب ترقی کرتا ہے۔ اس کی زندگی میں مایوسی اور بے عملی کو دور کرنے میں شمع اور نسرین دونوں کا اہم رول ہے۔ سکندر کا نسرین کے ساتھ بدلتا ہوا رویہ عزیز احمد کی کردار نگاری میں اہم موڑ ہے اور سکندر عزیز احمد کے کرداروں میں ایک مثبت کردار بن کر ابھرتا ہے۔
سکندر کے علاوہ ’’برے لوگ‘‘ میں دوسرا اہم کردار نسرین کا ہے ناول کی حقیقی زندگی میں نسرین ایک پیشہ کرنے والی عورت کی طرح پیش ہوتی ہے اور سکندر سے ابتدائی ملاقاتوں میں عام گاہکوں کی طرح پیش آتی ہے لیکن سکندر کی ہمدردانہ اور جذباتی گفتگو اور اس کی جانب التفات سے وہ اپنی پچھلی زندگی سے پردہ اٹھاتی ہے، نسرین کے ماضی کے حالات سنانے میں عزیز احمد شعور کی رو کی ٹیکنک استعمال کرتے ہیں، نسرین کے احوال بھی تقریباً ان سبھی مظلوم لڑکیوں جیسے ہی جنہیں تقسیم کے موقع پر ہوئے فسادات میں ظلم و بربریت کا سامنا کرنا پڑا تھا، فسادات میں نسرین کی آنکھوں کے سامنے اس کے والدین اور بہن کا قتل ہو جاتا ہے اور وہ اغوا کر لی جاتی ہے، ایک سال تک ظالموں کے مظالم سہتی ہے، اور آخر کار برآمد کر لی جاتی ہے اور پاکستان پہنچ جاتی ہے جہاں پر مظالم کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور وہ مجبوراً پھر سے جسم فروشی پر مجبور ہو جاتی ہے ایک ہمدرد آدمی کے ذریعہ ایک نواب صاحب کے ہاں ملازمت مل جاتی ہے لیکن بہت جلد نواب صاحب بھی مرد کی فطرت کے اصل رنگ دکھاتے ہیں۔ نسرین اپنے ہونے والے بچہ کا خاتمہ کر دیتی ہے جس کے عوض نواب صاحب رہنے کیلئے اسے مکان دیتے ہیں، اُسی مکان میں سکندر سے اس کی ملاقات ہوتی ہے، نسرین اپنی داستان الم سناتے ہوئے بار بار جذباتی ہو جاتی ہے وہ کہتی ہے کہ :۔
’’وہی نوچا کھسوٹی وہی جذبات اور جسم کی توہین وہی روح کا قتل میری داستان میں بار بار یہی ایک دور آتا ہے ‘‘۔ ۱۴۶؎
ناول میں نسرین کا سکندر کے ساتھ برتاؤ جذباتی نوعیت کا سا ہے سکندر جب نسرین سے سچی محبت کی تلاش کا تذکرہ کرتا ہے تو نسرین جو کہ زندگی کے تلخ حقائق سے دوچار ہونے کے تجربات کی بھٹی میں کندن بن جاتی ہے کہتی ہے :
’’محبت‘‘ وہ ہنس پڑی اور اس ہنسی میں بڑا طعن تھا، محبت صرف شاعری میں پائی جاتی ہے یہاں محبت نام کی کوئی چیز نہیں بکتی، یہاں صرف جسم بکتا ہے، میرے جسم کی قیمت روپے ہے ‘‘۔ ۱۴۷؎
لیکن بہت جلد سکندر کا اس جانب محبت بھرا ہمدردانہ التفات اور دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ سیر و تفریح کرنا، نسرین کے خیالات میں بہت بڑی تبدیلی لاتا ہے، ناول میں نسرین ایک مضبوط کردار کی حامل لڑکی کے طور پر پیش ہوتی ہے، زمانہ کے سخت ترین حوادث کا شکار ہونے کے باوجود زندگی کے بار ے میں اس کا نظریہ مثبت رہتا ہے اور وہ مرد ذات سے مرعوب ہونے کے بجائے اپنے تجربہ کی بناء پر اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کرتی ہے۔
ناول میں نسرین کی ساتھی شمع کا بھی کردار اہم ہے۔ ابتداء میں شمع کے کردار کو ایک بے باک طوائف کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سکندر سے پہلی مڈ بھیڑ میں وہ کہتی ہے :
’’بس ڈر گئے ؟ اس نے آنکھیں گھما کر اس کے چہرے پر گاڑتے ہوئے کہا، پھر وہ بولی ’’سالہ وہ کل والا آدمی بھی بہت ڈرتا تھا پر رات بھر میری ہڈی پسلی ایک کر کے رکھ دی اس نے، یہ مرد لوگ بہت حرامی ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ تم یوں میری طرف ٹکر ٹکر کیا دیکھ رہے کہیں چلنا ہے تو چلو نہیں تو اپنا راستہ ناپو‘‘۔
لیکن شمع جب سکندر کو اپنے احوال سناتی ہے اور کہتی ہے کہ کس طرح ایک شاعر کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے تو اس کے کردار میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے، شاعر کے جیل سے چھوٹنے کی خوشی میں وہ خریداری کرتی ہے اور اس کا استقبال کرتی ہے آخر میں شمع و شاعر اپنی شادی کی خوشخبری سنانے نسرین کے گھر آتے ہیں۔ ۔ ۔
برے لوگ میں عزیز احمد کرداروں کے درمیان گفتگو کے ساتھ بعض دفعہ اپنے مخصوص نقطہ نظر کا اظہار بھی کر جاتے ہیں، ایک جگہ ترقی پسندی کا ذکر یوں کرتے ہیں :
’’یہ ترقی پسند کیا ہوتے ہیں ؟ شمع نے آ کر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا ’’ہوتے ہیں تو آدمی ہی‘‘ سکندر نے جواب دیا، مگر یہ عموماً عورتوں کی زلفوں کی تعریف کرنے کے بجائے مزدوروں اور کسانوں کے پھاوڑے کے گیت گایا کرتے ہیں۔ یہ لوگ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے سخت خلاف ہوتے ہیں اور یہ بھی سنا ہے کہ حکومت کے خلاف لکھتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں یہ لوگ اصل میں کمیونسٹ ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ مذہب کو نہیں مانتے اور مادہ پرست ہوتے ہیں سنا ہے یہ روس کی طرح حکومت ہر جگہ قائم کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔ ۱۴۸؎
عزیز احمد نے اپنے دوسرے ناولوں جیسے گریز، آگ وغیرہ میں بھی ترقی پسند ی کے خیالات پیش کیا ہے جس سے یہ بات کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ کمیونسٹ خیالات کی بھرپور تائید و تبلیغ کرتے ہیں، عزیز احمد تقسیم ہند کے موقع پر ہونے والے فسادات کو وقت کا المیہ قرار دیتے ہیں :
’’جو لوگ حالات کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے وقت اُن کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتتا۔ وقت ایک ظالمانہ فعل ہے اور زندگی اور احساس سے مطلقاً عاری ہے ‘‘۔ ۱۴۹؎
’’برے لوگ‘‘ چونکہ تقسیم ہند کے فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اس لئے اس میں جذبات نگاری کے پر اثر نمونے ملتے ہیں۔ شمع اور نسرین کے ماضی کے احوال پیش کرتے ہوئے عزیز احمد جذباتی اسلوب اختیار کرتے ہیں نسرین اپنی داستان سناتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتی ہے :
’’کیمپ کی زندگی کے دوران میرے ساتھ جو سلوک ہوا یہ ایک الگ داستان ہے لیکن خود میری اپنی نفسیات بڑی تکلیف دہ تھی لوگ میری طرف رحم اور ہمدردی کے ساتھ بھی پیش آئے ہونگے، اُن کی نگاہ میں خلوص بھی ہو گا مگر خود مجھے ہر ہر نگاہ جسم کے آر پار ہوتی ہوئی معلوم ہوتی تھی، ہر چہرہ ایک گھونسہ کے طرح میرے سامنے بنا ہوا تھا، مجھے یوں لگتا جیسے ہر آدمی مجھے دیکھ کر دل ہی دل میں کہہ رہا ہے یہ لڑکی بہت سے مردوں کے تصرف میں رہ چکی ہے ‘‘۔ ۱۵۰؎
نفسیاتی ناول میں منظر نگاری اہم نہیں ہوتی لیکن عزیز احمد زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کرتے ہوئے منظر نگاری اور جزئیات نگاری سے بھی کام لیتے ہیں ایک منظر ملاحظہ ہو:۔
’’شام کی رنگت سیاہ پڑ چکی تھی اور باغ کی گہما گہمی کم ہو رہی تھی، باغ کی روشوں پر پڑی بنچوں پر لوگ سوئے ہوئے تھے اور بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے گاہے گاہے کہیں سے ’’تیل مالش‘‘ کی آواز گونج اٹھتی چاند چودھویں کا نہیں تھا، مگر خوب روشن تھا اور آسمان کے ایک سرے سے آہستہ آہستہ بلند ہو رہا تھا۔ اس کی دودھیا اور خشک روشنی میں درختوں کے سائے پھیل رہے تھے اور ماحول اپنی تمام تر غلاظتوں کے باوجود مقدس ہو گیا تھا‘‘۔ ۱۵۱؎
ٹیکنک کے اعتبار سے بھی ’’برے لوگ‘‘ اہم ناول ہے، اس میں عزیز احمد نے تخیل نفسی کے ذریعہ کرداروں کی زندگی کے پیچ و خم پیش کئے ہیں اور ان کی زندگی میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شعور کی رو کی ٹیکنک کے ذریعہ کرداروں کے ماضی سے پردہ اٹھایا ہے اس انداز میں واقعات پیش کرنے سے قاری کا تجسس بھی قائم رہتا ہے۔ ’’برے لوگ‘‘ کی ایک اور اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ اس میں عزیز احمد نے تاریخ کے اہم واقعہ ’’تقسیم‘‘ کو پس منظر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے مواد کو پیش کیا ہے۔ عزیز احمد کی ناول نگاری کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس میں تاریخی شعور پایا جاتا ہے اور ان کے ناول حقیقی زندگی کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔
’’برے لوگ‘‘ کی ایک اور خصوصیت اس کا تعجب خیز اختتام ہے۔ جب شمع اور شاعر اپنی شادی کی دعوت دینے نسرین کے گھر آتے ہیں اور سکندر کہتا ہے۔ ’’ذرا ٹھہرئیے اس نے بھاری اور جذباتی انداز میں کہا کہ ’’وہ لوگ رک گئے اور اس کی طرف دیکھنے لگے، سکندر نے آگے بڑھ کر نسرین کا ہاتھ پکڑ لیا ’’ہم بھی تمہاری ساتھ چل رہے ہیں ‘‘۔
ناول کے اس خوشگوار انجام کو دیکھ کر ناول کا عنوان کچھ عجیب سالگتا ہے کیونکہ اس میں پیش کردہ کردار حالات کی وجہہ سے برے ہوئے ہیں، جس کیلئے سماج اور معاشرہ زیادہ ذمہ دار ہے۔ ناول کے ابتدائی حصہ میں جب کہ شمع و نسرین کی جسم فروشی کے تذکرے ہیں اور سکندر کی بے راہ روی کا ذکر ہے عزیز احمد جنسیات کے موضوع پر اپنے مخصوص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں ۔ اس سے قطع نظر ’’برے لوگ‘‘ کردار نگاری اور جذبات نگاری کا ایک اعلیٰ نمونہ بن جاتا ہے اور تقسیم ہند کے اثرات پر لکھے گئے ناولوں کی فہرست میں ایک کامیاب ناول کے طور پر شامل ہو جاتا ہے۔
٭٭
’’تری دلبری کا بھرم‘‘
’’برے لوگ‘‘ کے علاوہ عزیز احمد کا جو ناول دستیاب ہوا ہے اس کا نام ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ ہے عزیز احمد کے ناولوں میں یہ آخری ناول ہے۔ اس کے بعد عزیز احمد نے کوئی ناول نہیں لکھا، چند ایک ناولٹ لکھنے کے بعد عزیز احمد نے اپنے آپ کو اسلامیات اور انگریزی ادب کیلئے وقف کر دیا تھا۔
’’تری دلبری کا بھرم‘‘ پہلی بار 1964ء میں شائع ہوا۔ اس کے ناشر میر اینڈ کمپنی ارد و بازار دہلی ہیں اس ناول کی ضخامت ایک سو ساٹھ 160صفحات ہے۔
عزیز احمد کی ناول نگاری کے جائزے میں یہ بات خصوصیت سے واضح ہوتی ہے کہ ان کے ناولوں میں ان کا مطالعہ، مشاہدہ وسیع تجربہ اور علمیت ضرور شامل ہوتے ہیں۔ عزیز احمد کسی مقام یا افراد کے بارے میں اس وقت تک نہیں لکھتے جب تک ان کا عمیق مشاہدہ نہ کر لیں، 1957ء تا 1962ء میں وہ انگلستان میں مقیم تھے، چنانچہ ان کا ناول ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ برطانوی زندگی سے متعلق ہے۔ اس ناول کا بنیادی موضوع مشرق و مغرب کے لوگوں کی زندگی کا فرق پیش کرنا ہے اس ناول میں عزیز احمد نے نسل پرستی اور رنگ و نسل، مذہب و تہذیب کی بنا لوگوں میں تفریق، پاکستانی نوجوانوں کی انگلستان میں آزادی، ایشیائی تارکین وطن کے مسائل، طرح طرح کے لوگوں کے جذبات و خیالات غرض مختلف موضوعات پر فلسفیانہ مباحث کے ذریعہ وہاں کی زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا ہے اس کے علاوہ مشرق کے اعلیٰ تہذیبی و اخلاقی اقدار کے ساتھ وہاں کے لوگوں کی اخلاقی گراوٹ اور مغرب میں نسلی امتیاز برتنے والوں کے باوجود لوگوں میں مشرق و مشرقی اقدار سے دلچسپی کے تضاد کو مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ اس ناول میں کوئی بنیادی قصہ نہیں بلکہ عزیز احمد نے اپنے اطراف کے ماحول سے چند کردار منتخب کئے ہیں اور ان سے بات چیت کے ذریعہ ان کے احوال پیش کرتے ہوئے مختلف موضوعات کے تحت ناول کے مواد کو پیش کیا ہے۔
ناول کے پلاٹ کو قائم رکھنے اور اُسے کمزوری سے بچانے کیلئے عزیز احمد نے اس میں دو کرداروں کو مرکزی حیثیت دی ہے ان میں سے ایک ڈاکٹر جمشید علی خان ہیں جو ڈاکٹر ’’جم‘‘ سے مشہور ہیں۔ دوسرے ان کی انگریز نژاد اور ہم پیشہ بیوی ڈاکٹر کرسٹل ہیں جو ڈاکٹر ’’کرس‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس ناول میں ڈرامے کے اسٹیج کی طرح عزیز احمد نے ڈاکٹر جمشید اور ڈاکٹر کرس کے کلینک کو استعمال کیا ہے، جہاں مختلف بیماریوں کے مریض آتے ہیں اور اپنی بیماری جو کہ جسمانی بھی ہوتی ہے نفسیاتی بھی ہوتی ہے اور روحانی بھی کے احوال سناتے ہوئے مختلف طرز ہائے فکر کو پیش کرتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔
ناول کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ڈاکٹر جمشید علی خان ہے جو انگریزی حلقوں میں ڈاکٹر جم کے نام سے مقبول ہیں، انہوں نے یونیورسٹی کالج اسپتال سے 1929ء میں ڈگری لی تھی لندن میں ان کی مقبولیت ایشیائی حلقوں میں زیادہ تھی، اپنی انگریز نژاد بیوی ڈاکٹر کرسٹل کے ساتھ بیس سالہ خوشگوار ازدواجی زندگی گذارتے ہوئے انگلستان میں پیشہ طب سے وابستہ ہیں۔ اور روزانہ مختلف مریضوں کے علاج کرتے ہوئے ان کی دوائیں تجویز کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے باتیں کرتے ہوئے اور انہیں ماہرانہ مشورے دیتے ہیں۔
ناول کا دوسرا مرکزی کردار ڈاکٹر کی بیوی ڈاکٹر کرسٹل براؤن ہیں، جو مسز خان کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ دونوں آپس میں ایک دوسرے کو جم اور کرس کے نام سے پکارتے تھے۔ کرسٹل براؤن کو بچپن ہی سے مشرق اور مشرقی لوگ بہت پسند تھے، ان کے بال کالے تھے اور اسی طرح کے لڑکے انہیں پسند تھے برطانیہ کے سرد موسم کے مقابلہ میں انہیں گرم ممالک کی آب و ہوا پسند تھی، چنانچہ ڈاکٹر جمشید سے شادی کے بعد انہوں نے طویل عرصہ لاہور میں گذارا، عزیز احمد دونوں کی شادی شدہ زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہ دونوں میاں بیوی جمشید اور کرسٹل جو دنیا کے دو کناروں کے رہنے والے تھے اور جنہوں نے بیس سال ایک ساتھ گذارے تھے صرف دو چیزیں ان کے درمیان مشترکہ تھیں ایک تو انسان کی جنسی کشش جو انہیں ایک دوسرے کے قریب کھینچ لاتی ہے اور دوسرے ان کا پیشہ ڈاکٹری، جس نے انہیں ایک دوسرے سے الگ نہ ہونے دیا تھا‘‘۔ ۱۵۲؎
جدا جدا رنگ و نسل اور مختلف مذاہب کے ہونے کے باوجود دونوں میں گہری محبت تھی جس کا اظہار وہ آپسی گفتگو اور چھیڑ چھاڑ کے ذریعہ کرتے ہیں دونوں کے معمولات کے بارے میں عزیز احمد لکھتے ہیں :
’’روز ٹھیک نو بجے صبح کو جے اے خان اور ڈاکٹر کرسٹل خان کے انفرادی وجود ختم ہو جاتے تھے، اتوار کے سواہر روز ان دونوں کی جگہ کوئی اور دو مشینیں لے لیتی جو اپنے آپ اور اپنے مسائل میں نہیں دوسروں میں محو ہو جاتیں، مریضوں میں دو آئینے تھے جن میں جراثیم کی ستم ظریفی جھلکتیں، دو عکس گیر کیمرے تھے، دو حساس آلے تھے، جو دل کی دھڑکنیں ناپتے اور یہ سلسلہ شام تک رہتا‘‘۔ ۱۵۳؎
’’تری دلبری کا بھرم‘‘ میں ڈاکٹر جمشید اور کرسٹل مرکزی کردار نبھاتے ہوئے اپنے کلینک میں آئے مریضوں سے احوال سنتے ہیں، اس طرح عزیز احمد نے اپنے ناول کو آگے بڑھا یا ہے، سب سے پہلے ماسٹر اقتدار الاولیاء آتے ہیں، یہ بنگلہ دیشی ہیں جو اُس وقت مشرقی پاکستان کہلاتا تھا ان کی عمر 26برس ہے اور چاٹگام کے ایک مدرسہ میں ہیڈ ماسٹر ہوتے ہوئے لندن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن میں ایم اے کے طالب علم ہیں، مذہبی آدمی ہیں اور اعصابی کمزوری کے علاج کیلئے ڈاکٹر صاحب کے یہاں آتے ہیں ڈاکٹر صاحب سے نسخہ لے کر جب وہ لندن کی تیز رفتار زندگی میں ایک مرتبہ پھر داخل ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرنے لگتے ہیں، یہاں کے لوگوں کے بارے میں ان کے خیالات ملاحظہ ہوں :
’’یہ سب کون ہیں جو پریتوں اور پریوں کی طرح اپنے اپنے کام سے چلے جا رہے ہیں۔ کوئی کسی سے بات نہیں کرتا، راستہ میں کوئی کسی کو ٹھہرا کر خیریت نہیں پوچھتا کسی کو کسی سے غرض نہیں ‘‘۔ ۱۵۴؎
ماسٹر اقتدار الاولیاء مشرق کے ایک غیر ترقی یافتہ ملک سے آئے تھے، جہاں زندگی اور ممالک کے مقابلہ میں سست روی سے چل رہی تھی اور لوگوں کے پاس اتنا وقت تھا کہ ایک دوسرے کی خیریت پوچھ لیتے، لیکن لندن جیسے شہر میں جہاں صنعتی انقلاب کے بعد زندگی مشینی ہو گئی تھی اور لوگ مادہ پرست ہوتے جا رہے تھے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں رہا تھا کہ وہ سماجی اخلاقیات نبھانے کیلئے اپنا کچھ وقت دے سکیں لیکن مغرب کی یہ ترقی بعض معاملات میں ماسٹر صاحب کو اچھی لگتی ہے ان کا خیال ہے کہ :
’’ہر چیز قسطوں پر ملتی ہے، یہاں ہر ایک کو دوسرے پر کتنا اعتبار ہے، یہاں ہر معاملہ کی ابتداء اعتبار سے ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں بے اعتباری سے ہمارے ملک میں ہر شخص اس وقت تک مجرم ہے جب تک وہ اپنے آپ کو بے گناہ نہ ثابت کرے ‘‘۔ ۱۵۵؎
اس طرح عزیز احمد نے مشرق و مغرب کے تضاد کو پیش کرتے ہوئے یہ بات بتائی کہ مغرب میں علم کی ترقی اور نظم و ضبط کی بدولت ترقی ہوئی ہے اور مشرق اس لئے پیچھے ہے کہ وہاں ظلمت کا اندھیرا دور نہیں ہوا ہے اور قدیم فرسودہ روایات کے پس پردہ قوم جہالت میں ڈوبی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر جمشید کے پاس ایک مزدور ’’گوکر‘‘ نامی آتا ہے وہ باتوں باتوں میں لندن کی زندگی سے متعلق خبریں سناتا ہے وہ نسلی تفریق کے بارے میں کہتا ہے :
’’گورے لوگ کالے لوگوں کو پسند نہیں کرتے، میں کہتا ہوں یہ بات ٹھیک نہیں ہے اپنا اپنا رنگ ہے، سب رنگ خدا کا بنایا ہوا ہے کوئی گورا ہے کوئی کالا ہے مگر حبشی لوگ سفید آدمی کی لڑکی کیوں لے جاتا ہے، کالے کالے کا میل ہے گورے گورے کا میل ہے ‘‘۔ ۱۵۶؎
مزدور کے ذریعہ اس طرح کے خیالات کو پیش کرتے ہوئے عزیز احمد نے دنیا میں اس وقت پھیلی نسل پرستی کی وبا کو پیش کیا ہے، یہ اپارتھائیڈ کا نظریہ ہے۔ جنوبی افریقہ کے سفید فام لوگوں نے یہ کہہ کر کہ وہ ہی سفید چمڑی کے ہیں، اور ساری دنیا کے لوگ سیاہ فام ہیں دنیا کے لوگوں سے مقاطعہ کرنا شروع کیا، اس طرح یہ وبا انگلستان اور دوسرے یوروپی ممالک کے ساتھ امریکہ میں بھی پھیلی اور سیاہ فام لوگوں پر مظالم ڈھائے جانے لگے تھے جس کی وجہہ سیاہ فام اور سفید فام لوگوں میں رنگ ونسل کی تفریق پر بڑے پیمانے پر جھگڑے فسادات ہوئے، یہ اس وقت کا سنگین مسئلہ تھا جس کی طرف عزیز احمد نے اپنے ناول میں اشارہ کیا، اور مزدور کے خیالات کے ذریعہ نسلی تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ایک اور ہندوستانی مریض فساد کے بارے میں پوچھنے پر ڈاکٹر کے سامنے جذباتی انداز میں کہتا ہے :۔
’’ہونے دو جی اﷲ مالک ہے ہم بھی کوئی بزدل کا تخم نہیں ہے دس پانچ کو مار کے مرے گا، انگریز لوگ ہمارے ملک پر ڈیڑھ سو سال حکومت کیا اب ہم غریب آدمی نوکری کرنے پیٹ پالنے آتا ہے تو کیوں چڑ جاتا ہے وہ کیا ہمارے ملک میں ہمارا چھوکری نہیں لے جا تا تھا، نہیں لے جاتا تھا تو پھر یہ سب اینگلو انڈین کیا پیدا ہوا ہم بھی برابر اُس کا چھوکری لے جائے گا‘‘۔ ۱۵۷؎
انگریز قوم کے خلاف اس طرح کے جذبات صدیوں غلامی کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اور حصول آزادی کے بعد بدلہ کی نیت لے کر اٹھے ہیں، چنانچہ ایک عام مزدور بھی انگریزوں کو نیچا دکھانے کی سوچ رہا ہے۔
ڈاکٹر کے پاس مریضوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، سلامت اﷲ نامی ایک پاکستانی شخص جو اپنے وطن میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ کر کم عرصہ میں امیر بننے کا خواب لئے برطانیہ آتا ہے لیکن حقیقت کے انکشاف اور مسلسل بے روزگاری کے سبب وہ پریشان ہوا اٹھتا ہے اور ڈاکٹر سے علاج کے بہانے کچھ روپیہ بھوک مٹانے اور سگریٹ کی طلب پوری کرنے کیلئے لیتا ہے، بھوک کے عالم میں وہ پریشان ہو اٹھتا ہے :
’’بھوک کے دوسرے دن اس کے قدم خودبخود ریستوران کے سامنے رک جاتے وہ کئی کئی منٹ تک شیشوں کے اندر رکھے ہوئے کیک، مٹھائیاں، سینڈوچ، گوشت کے ٹکڑے، بھنے ہوئے مرغ دیکھتا اور پھر آگے بڑھ جاتا اور پھر کبھی کبھی پلٹ کے دیکھتا، اور سڑکیں پھر اسے لندن کی ایک رگ سے دوسری رگ میں بہا لے جاتیں ‘‘۔ ۱۵۸؎
ایک دفعہ اسے ایک بوڑھی خاتون ہوٹل میں کھانا کھلاتی ہے۔ سگریٹ نوشی کے سبب اُسے کھانسی ہو جاتی ہے، ڈاکٹر صاحب اسے معائنہ کرانے کا مشورہ دیتے ہیں کسی طرح اُسے ہوٹل میں صفائی کی نوکری مل جاتی ہے لیکن وہ اپنی بیماری اور مسلسل بیکاری کے سبب پریشان رہتا ہے اور ایک دن ڈاکٹر کو پولیس کے ذریعہ اطلاع ملتی ہے کہ سلامت اﷲ نامی شخص نے ریل کے آگے آ کر خودکشی کر لی ہے۔ پولیس کی تفتیش کا جواب دیتے ہوئے خودکشی کی وجہہ ڈاکٹر یوں بیان کرتا ہے :
’’جس انسان کا مستقبل غیر محفوظ ہو تو ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے عام بات ہے۔ ۔ اس خودکشی کی کوئی اور وجہہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے ؟ بیکاری کا ڈر۔ ۔ اس کے سوا تو شائد کچھ بھی نہیں ‘‘۔ ۱۵۹؎
سلامت اﷲ کے روپ میں عزیز احمد نے بیشتر تارکین وطن کی معاشی پریشانیوں کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح لوگ زیادہ دولت کے لالچ میں اپنے خاندان، اپنے وطن کو چھوڑ کر امید کے سہارے چلے آتے ہیں اور طرح طرح کی مشکلات میں گرفتار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کرسٹل کے پاس ایک لڑکی حمیرہ آتی ہے جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے انگلستان میں مقیم ہے، وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان اور غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہے۔
’’کوئی گھر، کہیں سہی کراچی، راولپنڈی، ڈھاکہ کہیں سہی مگر گھر میں دروازے ہوتے ہیں جو بند ہو جاتے ہیں اور بلاؤں کو داخل ہونے نہیں دیتے، گھر پر چھت ہوتی ہے چولہا ہوتا ہے، گھر میں مفر نہیں، مگر گھر کہاں ہے ‘‘۔ ۱۶۰؎
ایک اچھے محفوظ گھر کا خواب دیکھنا ہر لڑکی کا حق ہے مگر کچھ ہی لڑکیوں کے یہ خواب حقیقت میں بدلتے ہیں، کیونکہ ایک ایسا معاشرہ پرورش پانے لگا تھا جہاں زندگی کے بازار میں دلہے بکنے لگے تھے اور کم حیثیت لوگوں کے حصہ میں صرف یاس و امید ہی رہ گئی تھی۔
ڈاکٹر جمشید کے ہاں ایک لڑکی میبل ایشمول آتی ہے جسے نیند نہ آنے کی شکایت ہے کیونکہ اسے افضل نامی ایک پاکستانی لڑکے نے دام محبت میں گرفتار کر لیا تھا اور جھوٹی محبت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے اس سے بے وفائی کی تھی بھولی بھالی سترہ سالہ لڑکی میبل نے اس سے یہ مشورہ لیا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں کونسا مضمون پڑھے، افضل نے اسے اسلامی تاریخ کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیا اور اس مضمون کو سمجھانے کا وعدہ بھی کیا، افضل کی باتوں میں آ کر وہ اسلامی تاریخ پڑھنے کا تہیہ کر لیتی ہے اور اس سے دوستی کرتے ہوئے ہوٹلوں، سینما گھروں میں اس کے ساتھ اچھا وقت گزارتی ہے۔ لیکن افضل کا مشغلہ صرف نئی نئی لڑکیوں کے ساتھ میل بڑھانا اور سیر و تفریح میں وقت گذارنا تھا چنانچہ میبل جب دیکھتی ہے کہ افضل کسی اور لڑکی کے ساتھ محبت کے ڈھونگ رچا رہا ہے تو وہ خفا ہو جاتی ہے، افضل کے معافی مانگنے پر کہتی ہے :
’’تمہاری طرح میں نے کبھی محبت اور بسترکو ہم معنی نہیں سمجھا ہے میرے خیال میں محبت کا تعلق ذہن اور ہمدردی، انسانیت اور دکھ درد میں شریک ہونے سے بھی ہے، اور تمہیں محض ایک چیز سے محبت ہے محض ایک چیز سے اپنے نفسیاتی نفس سے ‘‘۔ ۱۶۱؎
اور ڈاکٹر کو پاکستانی لڑکوں کا مزاج بتاتے ہوئے میبل کہتی ہے :۔
’’ڈاکٹر صاحب معاف کیجئے گا میں جتنے پاکستانی لڑکوں کے ساتھ ادھر ادھر گئی ہوں، میں نے ان سب کو ضرورت سے زیادہ چالاک پایا ہے سب ایک ہی چیز چاہتے تھے جنس اور جنس کے پیچھے جو عورت ہوتی ہے اس کی انسان ہونے کا انہیں احساس ہی نہیں ‘‘۔ ۱۶۲؎
ایک مغرب زدہ لڑکی کے ان خیالات کے ذریعہ عزیز احمد نے یہ بات پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستانی نوجوان کس حد تک اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہیں۔ یہ نوجوان پڑھائی کے لئے یہاں آئے ہیں لیکن آزادانہ ماحول کے سبب بگڑ گئے ہیں، افضل کی اپنے دوستوں سے گفتگو اس طرح کے خیال کو پیش کرتی ہے۔
’’دیکھ چائے کے وقت عشق لڑاتا ہوں، اگر پیچ گئی تو اچھا ہے، ورنہ میری جان تم نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی وہاں کوئی نہ کوئی گٹھ ہی جائے گی، میٹو ہو، نوکرانی ہو، دھوبن ہو، ہمیں کیا، کیا شادی کرنا ہے، بری سہی برے کام کیلئے بری نہیں ‘‘۔ ۱۶۳؎
اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ماحول میں پاکستانی نوجوان کس حد تک گر گئے تھے، لیکن وقت پر باخبر ہونے پر میبل اپنے آپ کو خوش قسمت کہتی ہے اور اپنی تجربہ کار ماں سے کہتی ہے :۔
’’اماں تم جو کہتی تھیں سب ٹھیک تھا، میں سترہ سال کی ہوں اور بے وقوف ہوں مجھے دنیا کا کوئی تجربہ نہیں، اور میں نے محض اس کیلئے اسلامی تاریخ پڑھنا شروع کی، فارسی شروع کی، میں نے جو شروع کیا اس کو جاری رکھوں گی‘‘۔ ۱۶۴؎
اور ڈاکٹر جمشید میبل کے حالات سننے کے بعد اُسے مشورہ دیتے ہیں کہ وہ خود اپنے حالات پر وقت کے گذرنے کے ساتھ قابو پآ سکتی ہے۔
اس طرح عزیز احمد ان مختلف کرداروں کو مریضوں کے روپ میں پیش کرتے ہوئے زندگی کے جدا جدا رنگ پیش کئے ہیں اور ناول کے آخر میں ڈاکٹر جمشید اور کرسٹل کے درمیان مشرق و مغرب کی تہذیب کے بارے میں فلسفیانہ بحث ہوتی ہے، جس میں تہذیب و تمدن کا تضاد قدیم مذاہب، عورت اور مرد کے درمیان فرق اور زندگی کے مختلف رجحانات پر بحث شامل ہے اور دونوں مشرق اور مغرب کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے لئے ایک ایسا یادگار بچے کی خواہش کرتے ہیں جو دونوں تہذیبوں کا سنگم ہو، اس کی خوبیوں کا ذکر یوں کرتے ہیں :
’’ہم دونوں کو اپنا ایک بچہ چاہئے جو ہنر اور اعتقاد اور تخیل ہو جو ہنر اور اعتماد اور پرواز ہو۔ اور جو قدیم ہو، جدید ہو، پھر دونوں نے کہا ’’اس کیلئے ہم استنبول میں باسفورس کے کنارے ایک چھوٹا گھر بنائیں گے ‘‘۔ ۱۶۵؎
اس طرح ناول ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ اختتام کو پہنچتا ہے، عزیز احمد نے یہ ناول، ناول نگاری کی عام روایتوں سے ہٹ کر لکھا ہے، اس میں پلاٹ، قصہ یا کردار نگاری کو اہمیت حاصل نہیں ہے بلکہ زندگی کی چند ٹھوس حقیقتوں کو پیش کرنے کیلئے ایک مخصوص ماحول سے چند کرداروں کو پیش کیا ہے۔ جن کی زندگی میں آنے والی مختلف طرح کی کشمکشوں کے ذریعہ عزیز احمد نے اشارے کئے ہیں۔ یہ اشارے اپنی زندگی سے مشاہدہ کے بعد لئے ہیں لندن کی تیز رفتار زندگی کو پیش کرنے کیلئے انہوں نے وہاں کے انڈر گراونڈ ریلوے، ریسٹوران، بار، ناچ گانے کی محفلوں کا ذکر کیا ہے، ایشیائی باشندوں کی اعلیٰ تعلیم کے بعد مغرب میں سکونت پذیری کے اظہار کیلئے پاکستانی ڈاکٹر جمشید اور انگریز خاتون کرسٹل کی کامیاب ازدواجی زندگی کو پیش کیا ہے اور وہیں مزدور طبقے اور کم پڑھے لکھے لوگوں کی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے سلامت اﷲ جیسے کرداروں سے متعارف کروایا ہے۔ سلامت اﷲ کے انجام کے ذریعہ عزیز احمد نے یہ ثابت کیا ہے کہ لوگوں کا یہ سوچنا غلط ہے کہ انگلستان میں روزگار کے مواقع یا دولت مند بننے کے مواقع زیادہ ہیں، گورے اور کالے لوگوں کے تذکرہ کے ذریعہ سے عزیز احمد نے نسل پرستی و تعصب جو وباء کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے اشارہ کیا ہے، اور اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ کا فنی حیثیت سے جائزہ لیا جائے تو یہ ناول فنی لوازم پر پورا نہیں اترتا، اس میں کسی کردار یا کرداروں سے متعلق کوئی ایسا واقعہ نہیں جو پورے ناول پر محیط ہو، مختلف کرداروں کی زندگی کے مسائل سے متعلق چند بیانات ملتے ہیں، اس ناول میں کردار نگاری بھی اعلیٰ پیمانے کی نہیں ہے۔ ڈاکٹر جمشید کے علاوہ سلامت اﷲ، ماسٹر اقتدار الاولیاء افضل جیسے کردار ہیں جو مشرقی تہذیب کے حامل ہیں اور لندن کی زندگی میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مشرقی اقدار کو پسند کرتے ہیں، ناول کا پلاٹ گتھا ہوا نہیں ہے، مختلف کرداروں کے حالات و واقعات کو ایک تار میں پرونے کیلئے عزیز احمد نے ڈاکٹر جمشید کے کلینک کا سہارا لیا ہے، جو ڈرامہ کے اسٹیج کے طور پر کام کرتا ہے جہاں مختلف کردار اپنا پارٹ ادا کرتے جاتے ہیں ناول کی سب سے اہم خوبی زندگی کے مختلف مسائل چھوٹے چھوٹے جملوں اور لفظوں یں پیش کرنا ہے، یہ الفاظ زندگی کے استعارہ بن جاتے ہیں اور ناول کے اسلوب میں انوکھا پن پیدا کرتے ہیں اور اسلوب میں چونکا دینے والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ افضل کی بے وفائی آشکار ہونے کے بعد میبل کہتی ہے ’’محبت، محبت، اس نے ہسٹریائی لہجہ میں عاجز آ کے کہا، جب تمہاری زبان سے یہ لفظ نکلتا ہے میرا جی متلانے لگتا ہے، تمہاری محبت کو اچھی طرح جانتی ہوں، مساس بستر، آج ایک کل دوسری، تم اپنا اور میرا وقت ضائع کر رہے ہو‘‘۔
اس ناول میں عزیز احمد نے ’’نظر‘‘ ٹیلیفون کے ریسیورز، لوح محفوظ وغیرہ کو تمثیلی انداز میں اور سائنس، خلائی سفر، قدیم اسلامی تاریخ، عربی علوم، شعر و شاعری، حب الوطنی سے متعلق خیالات فلسفیانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، ان خیالات کی پیشکشی کے دوران عزیز احمد اپنے مخصوص نظریات کا کھل کر پرچار کرتے ہیں۔ عزیز احمد کا یہ ناول ان کے مقابلہ میں یعنی دوسرے ناولوں کے مقابلہ میں کمزور اور ناکام ہیں۔