“آپ!” ثنا بمشکل بولی تھی۔
” کیوں آپ کیا توقع رکھتی ہیں کہ آپ کسی کی بھی عزت اچھالتی رہیں گی اور سکون سے رہیں گی۔وہ اور ہوتے ہوں گے ثنا صاحبہ ہم سفیان شاہ ہیں۔کہاں سے سنی تھی یہ بکواس آپ نے؟” سفیان کا ایک ایک لفظ تلخی سے بھرپور تھا۔
ثنا کے پاس کہنے کیلئے کچھ بھی نہ تھا ۔کیا کہتی وہ کہ میں جل گئی تھی،اپنی حسد کی آگ میں،تمہاری خوش باش فیملی کو دیکھ کے،تمہاری ماں کے ساتھ تمہاری بانڈنگ دیکھ کے،تمہارے باپ کا پیار تمہاری ماں کیلئے دیکھ کے۔
کہنے کو تمہاری سوتیلی ماں مگر سگوں سے بڑھ کر،ماں تو میری بھی سوتیلی تھی مگر مجھے تو کبھی ایسا مان نہ ملا،نہ کبھی پیار ملا۔
میرے بچپن کی محرومیوں نے میرے اندر وہ خلا پیدا کئے ہیں’جنہیں کوئی محبت کا گارا کوئی شہرت کا لمحہ نہیں بھر سکتا۔
میری کوئی فیملی نہیں تو پھر میں کیسے تمہارے پاس یہ سب رہنے دیتی؟مجھے یہی سکھایا گیا تھا کہ جو تمہارے پاس نہیں تو دوسروں کے پاس بھی نہیں رہنا چاہئے۔
“میں کیا کہوں!سفیان شاہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔میں حرف حرف غلط ہوں،جو دل چاہے سزا دو۔مٹا دو!اس حسد میں جلتے وجود کو جو تمہارا دل چاہے کرو۔” ثنا کا جھکا ہوا سر مزید جھک گیا تھا
” کچھ پوچھا ہے آپ سے،کیا کان گروی رکھ دئیے ہیں آپ نے؟” سفیان دھاڑا تھا۔
“میں!آپ کی جاگیر میں ایک عورت تھی,کوئی بوڑھی سی۔۔۔۔اس نے کہا۔۔۔۔” ثنا کےلبوں سے آدھے ادھورے جملے نکلے تھے۔
“کیا کہا تھا اس نے؟” سفیان کی پیشانی پہ بل پڑگئے تھے۔
” اس نے کہا کہ ایلاف بی بی نے سفیان شاہ کو سگوں سے بڑھ کے چاہا ہے۔پرائی اولاد کے کون اتنے لاڈ اٹھاتا ہے۔” ثنا نے حقیقت بیان کردی تھی۔
” اور اس سے آپ کو لگاکہ ہم پیروں کی اولاد نہیں ہیں۔واہ! کیا کہنے ہیں آپ کے ثنا۔ ” سفیان طنزیہ انداز میں بولا تھا۔
واقعی اس بات سے کون عقلمند کہہ سکتا تھا کہ سفیان کا تعلق پیروں کے خاندان سے نہیں ہے۔بس وہ ایک تھی ثنا سکندر،اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والی۔
“میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔” ثنا کو لگا تھا کوئی اس کے وجود سے جان نکال رہا ہو۔
کتنا مشکل ہوتا ہے اپنی خطاؤں کا اقرار کرنا۔
“واہ!کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری۔ہماری دو کوڑی کی عزت نہیں چھوڑی، ہم سوالیہ نشان بن کے رہ گئے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ سے غلطی ہوگئی۔کسی کی عزت یوں اچھالنا آسان نہیں ہوتا،سزا ملے گی آپ کو!” سفیان کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔
ثنا کے حقیقتا چودہ طبق روشن ہوئے تھے۔ڈیزی اس وقت گھر پہ نہیں تھی۔
وہ مکمل طور سے اس وقت سفیان شاہ کے رحم و کرم پہ تھی۔
مال کے بدلے مال
جان کے بدلے جان
اور!
عزت کے بدلے عزت
“نہیں!”ثنا نے اپنے خشک لبوں پہ زبان پھیری تھی۔
“کیا کرنا چاہتے ہیں آپ؟” ثنا پریشانی سے بولی تھی۔
“کیا کریں آپ کا؟آپ بیوقوف ہیں سدا کی یہ تو معلوم تھا مگر حاسدی ہیں،خائن ہیں،یہ آج پتہ چلا۔آپ تو اپنے پیشے کی لاج بھی رکھ نہ سکیں بغیر تحقیق کئے آپ نے ایک بے مقصد بات کی پبلیسٹی کی۔ کیا سزا دیں آپ کو؟” سفیان اسکی جانب بڑھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ثنا دیوار سے جا لگی تھی۔اس کا حلق خشک ہوگیا تھا۔
اف!یہ کیا ہونے لگا تھا؟
“آپ!ایسا نہیں کرسکتے۔”
” کیا نہیں کرسکتے؟ہم کریں تو خطا آپ کریں تو ادا۔نہیں! ثنا بی بی جب جرم مکمل ہے تو سزا بھی پوری ملے گی۔”سفیان کے قدم تھمے نہیں تھے۔وہ اس کے روبرو ہورہا تھا۔
” تو آج پیروں کے نام لیوا اس سیاہ رات میں کسی کی عزت کی چادر کو داغدار کریں گے۔” ثنا نے اپنا دفاع کرنا تھا ہر حال میں۔اس لئے بنا سوچے سمجھے وہ ایک تلخ بات کرگئی۔
سفیان کے بڑھتے قدم تھمے۔
” کیا بکواس ہے؟کیا سوچ رہی ہے یہ بیوقوف،ہم اور یہ سب! ” سفیان سلگ کے رہ گیا تھا۔
” اوہ!آپ کو کیا لگتا ہے ہم آپ کی طرح نیچ سوچ کے نہیں ہیں کہ عزت کو معمولی شے سمجھیں۔آپ جیسوں کو ہم منہ لگانا پسند نہ کریں کجا کہ ہاتھ لگانا۔ہماری عزتوں کے معیار بہت بلند ہیں،جہاں تک پہنچنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔” سفیان نے ثنا کی طبیعت ہری کردی تھی۔
اور ثنا پہ گھڑوں پانی پھر گیا تھا۔
“وہ تو سیف شاہ تھا اس کا۔وہ بھلا اتنا نیچ کام کیسے کرسکتا تھا۔”
“ہم یہاں صرف آپ کو وارننگ دینے آئے ہیں جو گند آپ نے پھیلایا ہے،وہ آپ نے خود ہی صاف کرنا ہوگا۔دو دن ہیں آپ کے پاس ہم اپنی صفائی کسی کو نہیں دیں گے ثنا لیکن قانون آپ کا منہ کھلوانا جانتا ہے۔” سفیان نے وارننگ دی تھی۔
وہ اب بھی اسے لڑکی ہونے کے ناطے اسپیس دے رہا تھا۔
“میں معافی کے تو قابل نہیں ہوں سیف مگر دوستوں کو ایک موقع تو دینا چاہئے۔ جب وہ بھٹک جائیں تو انہیں سہارادینا چاہئے روشنی میں لانے کیلئے،سیف شاہ میرے جرم نے میرے لب سی دئیے ہیں۔میں تمہارے سامنے سر نہیں اٹھا سکتی۔تم عالی ظرف ہو،سیف شاہ!” ثنا کے لفظوں پہ سفیان کو کرنٹ لگا تھا۔
” سیف شاہ!” یہ تو بہت پرسنل سا نام تھا جو اس کے دوست اس کیلئےاستعمال کرتے تھے اور یہ ثنا اس کی دوست کب سے ہوگئی تھی۔
“سیف شاہ!اب یہ تمہیں کس نے بتا دیا، میں اور تمہارا دوست؟” سفیان کچھ حیرانگی سے بولا تھا۔
” کیا سفیان تم بھول گئے،اس لڑکی کو جس کے ساری دنیا میں واحد دوست تم تھے۔جس کے غمگسار صرف تم تھے،جسے تم جھولے پہ یوں ہی روتا چھوڑ گئے اور پلٹ کے پوچھا بھی نہیں کہ وہ اداس لڑکی اب کس سے اپنا دکھ کہتی ہوگی؟اب کس طرح اپنا درد سہتی ہوگی۔دیکھ لو سیف شاہ بیچ راستوں میں جنہیں چھوڑ دیا جائے وہ یونہی ہوتے ہیں میری طرح،پیاسے کنویں کی مانند،آکاس بیل کی طرح جس سے بھی لپٹتے ہیں اسے برباد کردیتے ہیں۔” آنسوؤں نے اس کا پورا چہرہ بھگو دیا تھا اور سفیان شاہ
وہ اس نئے انکشاف پہ سن تھا۔
وہ اسکی کرائنگ گرل تھی،اس کی چھوٹی سی دوست جو اسے اپنا سب کچھ مانتی تھی۔
سفیان کو اذلان شاہ کے ایکسیڈنٹ کے بعد اپنا اسکول چھوڑ کے پاکستان آنا پڑا تھا۔سب اتنا اچانک تھا کہ سفیان کو اسے بتانے کا موقع بھی نہ ملا تھا مگر اب اس سب کا کیا فائدہ تھا دوستی تھی،وہ اب نہ رہی۔
محبت تھی اگر سفیان کو ،تو بھلا اب کیسے وہ اس سےمحبت کر پائے گا؟
” جو بھی ہے ثنا،غلطی تمہاری ہے۔مداوا بھی تم کروگی۔ہم مزید تمہاری بیوقوفیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔تمہارا وقت گنا جا چکا ہے،کیسے کروگی یہ تمہیں پتہ ہونا چاہئے۔” سفیان شاہ وقتی کیفیت سے نکل چکا تھا۔
اپنی عزت نفس کی قربانی دے کر رشتوں کو کبھی پروان نہیں چڑھایا جاسکتا۔
ثنا بے جان قدموں سے بیٹھ گئی تھی۔
“کیسے کروں مداوا؟الٹا مجھ پہ کیس بن جائے گا۔میرا کرئیر شروع ہونے سے پہلے ختم ہوجائے گا۔کیا کروں ایسا؟اف خدایا۔”ثنا سوچ سوچ کے تھک رہی تھی مگر کوئی سرا ہاتھ میں نہ آتا تھا۔
ڈیزی نہ جانے کتنے وقت کے بعد لوٹی تھی۔ثنا کو مجسمے کی طرح ساکت دیکھ کے چونکی تھی۔
” کیا ہوا ثنا؟”
“وہ۔۔۔سفیان شاہ!” ثنا نے کہنا چاہا کچھ۔
“کیا ہوا سفیان شاہ کو اب کیا کر ڈالا تم نے ثنا کیوں دوسروں کی زندگی میں آگ لگاتی رہتی ہو؟” ڈیزی پریشانی سے بولی تھی۔
” اسے کچھ نہیں ہوا۔وہ یہاں آیا تھا ڈیزی اس نے کہا غلطی میں نے کی ہے مداوا بھی میں کروں۔” ثنا کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کرے۔
“ہاں تو ٹھیک ہی تو کہا ہے شاہ سر نے،مداوا کرو اب یوں بیٹھ کے آنسو مت بہاؤ۔وہ اور مردوں سے بہت مختلف ہے،مجھے حیرت ہے اس نے تمہارا منہ کیوں نہیں توڑا؟میں حیران ہوں اس نے تم سے محبت کرنے کا سوچا بھی کیسے؟مگر تم نے جو کیا ہے اس کے بعد وہ تم پہ تھوکنا بھی پسند نہیں کرے گا۔” ڈیزی بے ساختہ سختی بولی تھی۔
ثنا اسے دیکھ کے رہ گئی تھی۔
وہ ڈیزی کے گھر سے باہر آگئی تھی۔سرد ہوا کے ساتھ پانی کی بوندوں نے بھی استقبال کیا تھا۔
” جب تک تم معاف نہیں کروگے سیف میں تب تک تمہارے راستے میں آؤں گی۔ ” ثنا کے قدم جانے پہچانے راستوں پہ تھے۔
______________________________
” سفی کب لوٹے تم اور یہ کیا کیا آپ نے؟ ” ایلاف کے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا فریم تھا۔
جس میں جھولے پہ بیٹھی ایک پھولے پھولے گالوں اور سیاہ آنکھوں والی بچی کی تصویر تھی۔
ایسی ہی ایک تصویر ان کے لاہور والے گھر میں بھی تھی۔
“پھینک دیں اسے مام۔” سفیان کی بھوری آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔
” یہ تو تمہاری فیورٹ تصویر تھی نا؟” ایلاف نے پوچھا تھا۔
اس تصویر کو تو وہ ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا اور اب اسےپھینکنے کو کہہ رہا تھا۔
” آپ جانتی ہیں کہ یہ تصویر کس کی ہے؟یہ اس کی ہے جس نے مجھے کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رکھا۔یہ ثنا سکندر ہے۔” سفیان نے ایک نفرت بھری نگاہ اس تصویر پہ ڈالی تھی۔
سیاہ آنکھوں والی کا دل بھی کتنا سیاہ تھا۔
” ثنا!مگر یہ تو بچپن کی ہے تمہارا اور اسکا کیا کنکشن؟” ایلاف الجھی تھی۔
سفیان کے ساتھ اس نے کبھی اس بچی کو نہیں دیکھا تھا پھر یہ ثنا اس کے ماضی میں کہاں سے آگئی۔
“یہ میرے ساتھ سوئیزرلینڈ میں پڑھتی تھی۔ ہم دونوں بہت اچھے دوست تھے۔تب ہی مجھے اس کی جانب کوئی انجانی کشش کھینچتی تھی۔اس کی کالی رات جیسی سیاہ آنکھوں سے کچھ شناسائی محسوس ہوتی تھی۔اس سے بات کرنے کو دل کرتا تھا” سفیان کھویا کھویا سا بول رہا تھا۔
” تم اس سے محبت کرتے ہو؟” ایلاف نے حیرت سے پوچھا تھا۔
” محبت! اب نہیں۔”سفیان انکاری تھا۔
ایلاف چپ چاپ اس کی شکل دیکھ رہی تھی۔
“اگر محبت کہیں تھی تو سفیان شاہ وہ اپنا حق اتنی آسانی سے کیسے مارنے دے گی تمہیں،کیسے رہ پاؤ گے تم؟”
ایلاف سوچ رہی تھی۔
______________________________
” مام!حادثہ کیوں ہوتا ہے؟” سفیان رات میں اس سے مخاطب تھا۔
ایلاف نے سارے دروازے کھڑکیاں بند کردی تھیں۔بادل برسنے کو ویسے بھی تیار رہتے تھے سو اب بھی لندن بھیگنے والا تھا۔
“ہر حادثہ ایک سبق ہوتا ہے۔جستجو کو جگائے رکھتا ہے،رب سے قریب کرتا ہے۔” وہ اور ایلاف آتش دان کے پاس بیٹھے تھے۔
” حادثوں پہ صبر کیسے کرتے ہیں؟ ” سفیان نہ جانے کونسی گتھیاں سلجھانا چاہتا تھا۔
“حادثوں پہ صبر کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک کونے میں بیٹھ جائیں تو یہ صبر ہوا۔حادثے اس لئے ہوتے ہیں کہ ہم میں آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہو۔صبر تو یہ ہوتا ہے کہ رب کی رضا میں راضی رہتے ہوئے اپنے حالات بدلنے کی کوشش کی جائے،اپنی بقا کی جنگ لڑی جائے۔” ایلاف کو اپنا وقت یاد آرہا تھا۔
اس کا ہر لمحہ جدوجہد سے عبارت تھا
تو ثمر میں بھی رب نے اسے جھولی بھر بھر کے عطا کیا تھا۔
“آزمائشیں کیوں ہوتی ہیں مام؟” سفیان بھیگے بھیگے لہجے میں بولا تھا۔
“تاکہ ہم شکر کریں رب کو یاد کریں۔اس کے قریب ہوجائیں دعا مانگیں۔یہ عمل اللہ کو محبوب ہے سفیان،خدا اپنے نیک بندوں کا امتحان لیتا ہے کہ اس کا بندہ مصائب سے تکلیف سے گھبرا کر تو کہیں اس کی راہ نہیں چھوڑ رہا۔” ایلاف نے دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانی شروع کردیں تھیں۔
سفیان کو جیسے سکون ملنا شروع ہوگیا تھا۔
” باہر کوئی ہے؟اس برستی بارش میں۔” ایلاف کو پہلے پہل اپنا وہم لگا تھا پھر مسلسل ہوتی ڈور بیل نے اس کا شک یقین میں بدل دیا تھا۔
“میں دیکھتا ہوں۔کون ہوسکتا ہے؟” سفیان کھڑا ہوتے ہوئے بولا تھا۔
” تم!کیا لینے آئی ہو یہاں؟” سفیان کو دروازہ کھولتے ساتھ ہی ثنا کی شکل نظر آئی تھی۔
” سفیان شاہ مجھے مداوا کرنا نہیں آتا۔کوئی سبیل بتاؤ کوئی راستہ سمجھاؤ۔مجھے نہ زمین پناہ دینے کو تیار ہے نہ آسمان اپنی امان میں لینے کو رضامند۔میں جاؤں تو کہاں جاؤں؟ہر جگہ سے دیس نکالا مل رہا ہے۔”ثنا کے ہونٹ سردی سے نیلے پڑ رہے تھے۔
اس کے اندر ایک جنگ چھڑ چکی تھی۔
” جب کہیں امان نہ ملے تو خدا سے رجوع کرو۔ جب کوئی سہارا نہیں دیتا تو خدا وسیلہ بناتا ہے ۔وہ کبھی کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ایک بار اس سے رجوع کر کے تو دیکھتیں پھر یوں تم ہر پل راکھ نہ ہوتیں۔” ایلاف سفیان کے پیچھے کھڑی ثنا کی بات سن چکی تھی اس لئے رسان سے بولی۔
” مجھے کبھی کسی نے بتایا ہی نہیں،میں نے تو بس ایک ہی چیز سیکھی اور دیکھی تھی بچپن سے۔” ثنا نے شکوہ کیا تھا۔
” بچپن تو نادانی کا مرحلہ ہوتا ہے لیکن شعور کی عمر میں تو انسان خود بہت سی باتیں سیکھتا ہے کسی کو بتانا نہیں پڑتا ثنا۔آئی ایم شیور تم نے اسکول اور کالج میں حسد پہ مبنی حدیث ضرور پڑی ہوگی اور سبق بھی تعلیم تو شعور دیتی ہے نا پھر وہ شعور تمہیں کیوں نہ مل پایا۔اچھائی اور برائی کرنا ہمارے اختیار میں ہوتا ہے پھر تم کیوں نہ رک سکیں؟” ایلاف کے الفاظ ثنا کیلئے سوچ کا در کھول رہے تھے۔
سفیان ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ کے اندر جا چکا تھا۔
” اندر آجاؤ!باہر سردی ہے موسم بھی خراب ہے۔” ایلاف نے اسے بھیگتے ہوئے دیکھ کے کہا تھا۔
ثنا اسے حیرت سے دیکھنے لگی تھی۔
اتنی باظرف عورت تھی یہ ایلاف!
اسے تو دو جوتیاں مار کے ثنا کو باہر نکال دینا چاہئیے تھا کجا کہ وہ اسے سرد موسم سے بچا رہی تھی۔
ثنا اندر آگئی تھی۔
” حسد کیا ہوتا ہے؟” ثنا نے وہ سوال پوچھا تھاجس کی تلاش میں وہ اب نکلی تھی ایک عمر گزارنے کے بعد۔
” ہم انسان گیلی لکڑی کی مانند ہوتے ہیں ثنا اور حسد آگ ہے،دیمک ہے جو قطرہ قطرہ سلگاتی ہے،ہولے ہولے پورا وجود کھوکھلا کردیتی ہے۔” ایلاف آتشدان کی طرف مڑتے ہوئے بولی تھی۔
نارنجی شعلوں کی زد میں ایلاف کا چہرہ سنہری سا ہورہا تھا۔اس کے چہرے میں عجیب سی جاذبیت تھی،نور تھا اور ملائمت تھی۔
ثنا یک ٹک اسے دیکھے گئی۔
” آپ تو سفیان کی سگی ماں نہیں ہیں پھر بھی آپ کو اس سے اتنا پیار ہے۔میری ماں بھی تو سوتیلی ہے مجھے پھر ایسا پیار کیوں نہ ملا؟” ثنا نے پوچھا تھا۔
” تمہیں کیا لگتا ہے ثنا مرتبے یوں ہی مل جاتے ہیں۔ میں اگر سفیان پہ جان دیتی ہوں تو یہ یک طرفہ نہیں دونوں طرف سے ہے۔سچ تو یہ ہے ثنا کہ سفیان خود میری طرف پہلے آیا تھا۔اس نے مجھے اتنا مان دیا تھا اور اگر آپ کسی کو عزت دیں تو محبت مل ہی جاتی ہے عزت کے ساتھ،کیا تم نے کبھی اپنی ماں کو یوں عزت دی جیسے تم اپنی سگی ماں کو دیتی ہو؟” ایلاف نے اس سے پوچھا تھا۔
ثنا نے اپنا سر جھکا لیا تھا۔
عزت دینا تو دور کی بات ثنا کونہیں یاد پڑتا تھا اس نے کبھی اپنی سوتیلی ماں سے ڈھنگ سے بات کی ہو پھر بھی غنیمت تھا نا کہ اسکی ماں نے اسے پڑھنے دیا۔گھر سے بے گھر نہیں کیا۔
یہ سارے احساس ثنا کو تب ہورہے تھے جب پلوں کے نیچے سے پانی گزر چکا تھا۔
” کیا سفیان مجھے معاف کردے گا؟” ثنا نے ہلکی آواز میں پوچھا تھا۔
” میرا بیٹا کوئی فرشتہ نہیں ہے ثنا مگر ہاں وہ تمہیں معاف کردے گا کیونکہ اسے یہی آتا ہے۔وہ کینہ پرور نہیں ہے مگر تمہیں مداوا کرنا ہوگا کیسے یہ تم جانتی ہو۔” ایلاف یونہی تو سفیان کا اندر نہیں پڑھ لیتی تھی۔
بے شک اس نے سفیان کو جنم نہیں دیا تھا مگر تربیت تو کی تھی نا اس نے۔
ثنا اٹھ کھڑی ہوئی تھی ایک خیال بہت تیزی سے دماغ میں آیا تھا۔
” میں کہہ دوں گی یہ سب بکواس میں نے کی تھی پھر سب سفیان پہ یقین کرلیں گے۔” ثنا کو یہی حل لگا تھا۔
” چہ! چہ یہی سب کرنا ہوتا تو ثنا، سفیان خود بھی کرلیتا۔ایک اسٹیٹمنٹ کی مار ہے یہ قصہ،ایسے تو تم اپنے پیروں پہ خود ہی کلہاڑی مار لوگی۔پہلے ہی ہر دروازہ تم اپنے ہاتھ سے بند کرچکی ہو۔مصائب کا مقابلہ اپنا اشتہار لگا کے نہیں کرتے،سوچ بچار کے دانائی سے کرتے ہیں۔” ایلاف اسے سمجھاتے ہوئے بولی تھی۔
” پھر؟ایسا کون سا راستہ ہے کہ میں بھی بچ جاؤں اور سفیان کا وقار بھی بحال ہوجائے؟” ثنا نے سوچا تھا۔
“یا خدا میری مدد کر!”ثنا کی نظریں ایلاف پہ تھیں۔
جب ہی اسے ایک خیال آیا تھا۔
“اوہ!یہ میں نے پہلے کیوں نہیں سوچا؟”
” میں اب چلتی ہوں۔” ثنا جلدی سے بولی تھی۔
وقت کم تھا اور مقابلہ سخت!
” بہت بارش ہے رک جاؤ۔” ایلاف نے رسان سے کہا تھا۔
” نہیں!مجھے جانا ہے آپ بس میرے لئے دعا کریں۔میں اپنا حسد ختم کرنے کی کوشش کروں گی۔” ثنا نے کہا تھا۔
” تم کیا رات بھر سوئی نہیں۔” صبح ڈیزی اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کے بولی تھی۔
” تم نے کہا تھا نا ڈیزی مداوا بھی مجھے کرنا ہے تو دیکھو میں نے مداوا کردیا۔” ثنا نے اس کے آگے لیپ ٹاپ کی اسکرین کی تھی۔
اور ڈیزی چونک کے ثنا کی شکل دیکھنے لگی تھی۔
یہ پتھر کو جونک کیسے لگی،ٹھوکر کھا کے عقل کیسے آئی؟
کیا مداوا کیا تھا ثنا سکندر نے ڈیزی عش عش کر اٹھی تھی تو بالاخر ثنا نے مداوا کر ہی دیا تھا۔
______________________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...