” اذلان پتر کل کی کیا خبر ہے؟ ” شاہ بی بی کو آج بہت دنوں بعد تنہائی ملی تھی ان کے ساتھ۔
” کل واپسی ہے اماں۔” اذلان نے بتایا۔
“ہم بھی چلیں گے آپ کے ساتھ۔” شاہ بی بی نے بتایا۔
” اماں ابھی ہم نے اس سے بات نہیں کی آپ تھوڑا رک جائیں اصل میں۔۔۔۔” اذلان نے انہیں پچھلی ساری صورتحال بتائی تھی۔
” پھر تو ہمیں جتنا جلدی ہو جانا ہوگا لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں وقت پہ پروا نہ کرو تو بکھر جاتی ہیں۔ ” شاہ بی بی فکر مندی سے بولیں۔
” اماں وہ حساس ہونے کے ساتھ بیوقوف بھی بہت ہے۔بجائے اس کے کہ وہ شکر کرے عزت بچ جانے پہ الٹا روتی بسورتی رہتی ہے۔” اذلان شاہ بیزاری سے بولا۔
” کم عمر ہے، ناسمجھ ہے راستہ ملے گا رہنمائی ہوگی تو سمجھ جائے گی۔بس خیر سے کل صبح کا ہی پروگرام رکھنا۔” شاہ بی بی نے حکم دیا۔
” جی اماں سائیں!” اذلان نے مزید بحث مناسب نہ سمجھی۔
” ایلاف بیگم!اب نجانے تم نے کونسا کارنامہ سر انجام دیا ہوگا؟” اذلان شاہ نے اکتاہٹ سے سوچا۔
” میں گوہر آپا سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر خرم شاہ غائب ہے۔ سنا ہے کاغان کی طرف ہے آج کل میں واپس تو لوٹے گا تو اسے پوچھیں گے۔” اذلان شاہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
” ابھی ٹھہر جاؤ اذلان۔مت بھولو اس کی غلطی اب آپ کی عزت ہے ۔کیوں اپنے آپ کو کھوٹا کر رہے ہو خرم شاہ پہ ہاتھ ذرا اور طرح سے ڈالو۔” شاہ بی بی کا اشارہ کس طرف تھا اذلان شاہ سمجھ چکا تھا۔
صبح جو وہ جاگیر سے نکلے تو دھند کے باعث شام کو ہی شہر پہنچ سکے تھے۔ گھر میں خاموشی کی فضا طاری تھی جس کو کبھی کبھی امیراں کے گانے کی آواز توڑتی تھی۔ ایلاف حسب معمول کمرہ نشین تھی۔ عشا ہو چکی تھی امیراں نے ان دونوں کو دیکھا تو بولتی بند ہوگئی۔
” بڑی بی بی آپ!بھاگ لگ گئے ہمارے تو۔” امیراں مارے خوشی کے ان سے لپٹ گئی۔
” ارے بھاگ کی بچی تیرا بچپنا کب رخصت ہوگا۔ ” شاہ بی بی نے اسے جھاڑا۔
” سچ بی بی آپ تو آتی نہیں۔میں نے آج آپ کی پسند کی ماش کی دال بنا لی تھی مکھن ڈال کے وہ ایلاف بی بی کو بھی پسند ہے۔ ایک لگتا ہے دال ہی شوق سے کھاتی ہیں۔” امیراں اپنی ہانکتے ہوئے بولی۔
” کہاں ہے ایلاف؟ ” شاہ بی بی نے پوچھا۔
” ہونا کہاں ہیں اپنے کمرے میں سارا دن ہوتی ہیں۔چپ چاپ یا تو نماز پڑھیں گی یا مراقبہ۔” امیراں کو بہت چڑ ہوتی تھی ایلاف کے خاموش رہنے سے۔
“بلاؤ اسے! ” اذلان نے کہا۔
” نہیں شاہ!ہم خود جائیں گے کہاں ہےاس کا کمرہ؟” شاہ بی بی نے روکتے ہوئے پوچھا۔
” آپ!نہیں اماں یہ مناسب نہیں ہے۔” اذلان کو اچھا نہیں لگا۔
” ہم جارہے ہیں۔ ” وہ بھی اذلان کی ماں تھیں جو کہتیں وہی کرتی تھیں۔
وہ ایلاف کے کمرے میں داخل ہوئیں تو ایلاف نماز پڑھ رہی تھی وہ چپ چاپ ایک طرف صوفے پہ بیٹھ کے ایلاف کا جائزہ لینے لگیں۔
فیروزی رنگ کے سوٹ میں اس کی شہابی رنگت دمک رہی تھی۔ سیاہ چادر کے ہالے میں اس کا چہرہ نہایت پرکشش لگ رہا تھا۔مجموعی طور پہ ایلاف کا تاثر ایک خوبصورت لڑکی کا پڑتا تھا۔
وہ شاہ بی بی کو شکلا اچھی لگی تھی یہ ایک معیار ہے مگر مکمل نہیں اب یہ تو بات کر کے پتاچلتا کہ وہ واقعی ان کے بیٹے کی ہم سفر ہوسکتی ہے کہ نہیں۔
ایلاف نے نماز ختم کی تو ایک اجنبی خاتون کو کمرے میں دیکھ کے حیران ہوگئی۔
” جی آپ؟” ایلاف نے پوچھا۔
” ہم اذلان شاہ کی ماں ہیں۔شاہ بی بی کہتے ہیں ہمیں۔” شاہ بی بی نے اپنا تعارف کرایا۔
ایلاف کے اردگرد کے زمیں آسمان ساکت ہوگئے تھے۔ وہ حیران و پریشان سی اس عورت کی شکل دیکھنے لگی۔
” اب اس کا کیا مقصد ہے؟” ایلاف پریشانی سے سوچنے کے قابل بھی نہ رہی تھی۔
______________________________
“اذلان شاہ تم ہمیشہ سے ہی ایسے ہو یا میرے ساتھ ہی ایسا کرتے ہو۔اچانک سے وار کرتے ہو کہ میں کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہتی۔تم واقعی اتنے ہی اچھے ہو یا پھر یہ کوئی نیا ڈھونگ ہے اپنے شملے کی حفاظت کیلئے تم نے پینترا بدلہ ہے۔
کیا ہو تم؟’کون ہو تم؟
کیا ہے تمہارا اصل چہرہ ؟
ابھی کل تک تم جو ایک ملازمہ کے سامنے اقرار کرنے سے ہچکچا رہے تھے آج اپنی ماں کو میرے مقابل لے آئے ہو۔
کونسا انداز ہے تمہارا یہ؟”
” کونسی مثال دوں
ہر ستم بے مثال کرتے ہو”
ایلاف شاہ بی بی کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
” السلام علیکم!” ایلاف کے حواس قابو میں ہوئے تو اس نے سلام کیا وہ کم از کم اذلان کی ماں کے سامنے کچھ الٹا سیدھا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
“وعلیکم السلام!ٹھیک ہو بیٹی۔” شاہ بی بی اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔
” ٹھیک ہوں۔ ” ایلاف دھیمے سروں میں بولی۔
“بھئی ہم تم سے فورا ملنا چاہتے تھے مگر حالات کچھ ایسے تھے کہ صبر کرنا پڑا۔” شاہ بی بی نے کہا۔
” آپ خود کیوں آگئیں مجھے بلا لیتیں۔مجھے پتا ہوتا کہ آپ آرہی ہیں تو باہر ہی ہوتی اس وقت۔” ایلاف نے ان کی نرم روئی کا جواب بھی نرم روئی سے دیا۔
” اذلان شاہ تمہاری ماں کے سامنے ہی میں اپنا مقدمہ رکھوں گی۔دیکھتی ہوں کہ کیسے آپ اب اپنے لاڈلے بھانجے کی پردہ پوشی فرماتے ہیں۔” ایلاف کو تو جیسے اندھیرے میں امید کی کرن دکھی تھی۔اس کی کچلی ہوئی انا کی تسکین کا کوئی تو راستہ نکلا,اتنے دن سے سوچے جانے والے منصوبوں کو کوئی عمل کا دھاگہ تو ملا۔
” یہ یقینا تمہاری نیک تربیت بول رہی ہے بیٹا مگر پتا ہے ایلاف،میدان جنگ میں سپاہیوں کی عیادت اور ان کے زخموں پہ مرہم طبیب آ کے خود رکھتا ہے تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے انہیں بھی اندازہ ہو کہ ان کی بھی کسی کو چاہ ہے،کسی کو پرواہ ہے،کسی کے خیال کا احساس بڑا غنیمت ہوتا ہے بچے۔” وہ ایلاف کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
بل واسطہ اسے بتا رہی تھیں کہ
وہ تنہا نہیں
اس کے گرد کوئی درد گر ہے
اس کا بھی کوئی ہمدرد ہے
شاہ بی بی کی جوہر شناس نظروں نے ایلاف کے ہیرے جیسے وجود کو پرکھ لیا تھا۔
ایک تراش کی ضرورت ہے
اور
یہ لڑکی صورت اور سیرت میں با کمال ہوگی۔
جس کی ہم سفری پہ اذلان شاہ کو ناز ہوگا۔
شاہ بی بی نے سوچا تھا۔
” امیراں کھانا لگا چکی ہوگی،ہم گاؤں والے بہت جلدی کھانا کھا لیتے ہیں اور آج تو ویسے بھی سفر تھا۔تم ہمارا ساتھ دوگی بچے؟” شاہ بی بی مبہم لہجے میں بولیں۔
” توبہ! ان ماں بیٹے کو کتنا شوق ہے مجھے کھانا کھلانے کا بیٹا ہے تو وہ سر پہ سوار رہتا ہے یہ کھاؤ وہ پئیو اور اب ان کی والدہ،کیا کھلا کھلا کے ماریں گے۔” ایلاف نے جل کے سوچا۔
وہ کھانے پینے کی چور لڑکی اچھا بھلا اذلان کی غیر موجودگی میں اپنی مرضی سے دل کیا تو کھا لیتی چڑیا جتنا اور اب دوبارہ سے وہی ناٹک شروع تھا۔
“آپ آئیں۔” انہیں کہوں کیا ایلاف نے انہیں کہتے ہوئے سوچا۔
“سب ہمیں شاہ بی بی کہتے ہیں لیکن اذلان ہمیں اماں سائیں کہتے ہیں۔ ہمیں اچھا لگے گا اگر تم بھی ہمیں یہی کہو۔” شاہ بی بی نے جیسے اس کی سوچ پڑھ لی تھی۔
ظاہر ہے وہ یہاں آئی ہی ایلاف پہ ریسرچ کرنے تھیں سو ایلاف انکی ایکسرے کرتی نگاہوں کی ذد میں تھی۔
ایلاف نے کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے لائٹ آف کی اور پھر دروازہ دھیرے سے بند کر دیا۔
” آئیں!اماں چلتے ہیں۔” ایلاف نے ان کی بات مان لی تھی۔
ایلاف’ شاہ بی بی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگی۔
اس کی چال میں الہڑ پن نہیں تھا نہ ہی وہ گنواروں کی طرح تیز تیز قدم اٹھاتی تھی اس کی چال میں توازن تھا وقار تھا۔
شاہ بی بی کو اب تک صورت حال ٹھیک ہی لگ رہی تھی۔ انہیں لگ رہا تھا اذلان اور ایلاف کا ایک حادثہ میں آمنے سامنے ہونا بے مقصد نہیں۔
کچھ تو چاہتی ہے قدرت
کچھ تو ہے تقدیر کے اسرار
اور ایلاف سوچ رہی تھی کہ ” اذلان شاہ جیسے تم میٹھی چھری بنے ہو تو زہر اب میں بھی نہیں اگلوں گی۔میں بھی اب جیسے کو تیسے والا حساب کروں گی۔ابھی تو دیکھتے ہیں تمہاری ماں بھی تمہاری شراکت دار ہے یا ان سے بھی تم نے چھپا رکھے ہیں اپنے لاڈلے کے کرتوت۔” ایلاف کو جب سے پتا چلا تھا کہ خرم شاہ اس کا لاڈلا بھانجا ہے تب سے وہ اسے اور قصوروار لگنے لگا تھا۔
اذلان شاہ ابھی ایلاف کی اتنی فرمانبردای دیکھ لیتا تو حیران ہی رہ جاتا ہر بات پہ بحث کرنے والی اس وقت کتنی فرمانبردار بنی ہوئی تھی۔
______________________________
وہ دونوں ڈائینگ ٹیبل پہ پہنچیں تو امیراں کھانا لگا چکی تھی۔
” اذلان کہاں ہے امیراں؟” شاہ بی بی نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
” وہ جی ان کا کوئی ضروری فون تھا وہی سنتے سنتے کمرے میں چلے گئے تھے کہہ رہے تھے آپ آجائیں تو بلا لوں انہیں۔” امیراں نے ان کی طرف سالن کا ڈونگہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
” ہاں بلا لو!رزق کو انتظار نہیں کراتے۔” شاہ بی بی نے کہا۔
اسی پل اذلان شاہ خود چلا آیا تھا۔ سیاہ آرام دہ شلوار قمیض میں شانوں پہ سرمئی شال لپیٹے، چہرے پہ وہی ازلی سکون لئے وہ ان کی طرف آیا تھا۔
” السلام علیکم” ایلاف کو پچھلی بار کا تجربہ یاد تھا اس لئے جھٹ سلامتی بھیجی تھی۔
” وعلیکم السلام!” اذلان شاہ نے حیرانی سے جواب دیا۔
” گویا دھیرے دھیرے سہی محترمہ کو عقل آرہی ہے۔” اذلان شاہ نے بیٹھتے ہوئے سوچا۔
شاہ بی بی کی موجودگی میں وہ سربراہی کرسی پہ تو نہیں بیٹھتا تھا سو وہ ان کے مقابل بیٹھ گیا تھا یوں کہ سامنے ہی ایلاف بیٹھی تھی۔
ایلاف نے نظریں جھکا لیں۔
” بیٹا یہ ڈش پکڑاؤ اذلان کو۔” شاہ بی بی نے آرڈر پاس کیا۔
ایلاف تو مانو خاک ہی ہوگئی تھی۔
” یہ یہاں مجھ سے اپنے بیٹے کی چاکری کروانے آئی ہیں۔” ایلاف نے جل کے سوچا اور ڈش اتنے فاصلے سے اذلانو پکڑائی کہ اذلان کو اس کا گریز صاف محسوس ہوا۔ ایک غیر محسوس سی مسکراہٹ اذلان کے لبوں پہ آئی تھی۔
ایلاف دوبارہ اپنی پلیٹ پہ یوں جھکی تھی کہ اس سے ذیادہ ضروری کام اور کوئی ہے نہیں۔
” ایلاف گلاس میں پانی نہیں ڈالا آپ نے اذلان کیلئے۔ ” شاہ بی بی نے تو آج قسم کھا لی تھی ایلاف کا جی جلانے میں۔
” اس ساتھ کیلئے مجھے آفر کر رہی تھیں ۔” ایلاف نے جگ میں سے پانی اڈیل کے اذلان کے سامنے یوں رکھا جیسے آب حیات ہو ساتھ میں اذلان کو گھورا بھی۔
اذلان بنا کوئی ردعمل ظاہر کئے خاموش سا کھانا کھاتا رہا اور ایلاف جل جل کے خاک ہوتی رہی۔
” پہلے ہم نے سوچا تھا کہ آپ کو جاگیر ہی بلوا لیں پھر سوچا کہ ایلاف ابھی نئی ہے بہت سی باتیں ہیں پہلے ہم وہ کہہ سن لیں پھر جاگیر بھی چلیں گے۔” شاہ بی بی نے یہ بات کیا کی ایلاف کو لگا اس کے جلتے دل پہ پھوار پڑنی شروع ہوگئی ہے۔
یہی ایک کام کی بات کی تھی اتنی دیر میں۔
” جاگیر تو میں ضرور جاؤں گی اصل عدالت تو وہاں لگی گی۔ان معصوموں کو بھی تو پتا چلیں ان ناخداؤں کے اصل چہرے۔” ایلاف کے عزائم بے حد خطرناک ہوچلے تھے۔
” ایلاف ہم نماز پڑھ کے فارغ ہوجائیں تو تم ہمارے کمرے میں آجانا۔ ہم امیراں کو بھیجیں گے کچھ باتیں کرنیں ہیں تم سے۔ابھی جاگی ہوئی ہو ناں۔” شاہ بی بی نے بتاتے ہوئے پوچھ لیا۔
” باتیں تو مجھے بھی کرنی ہیں اماں۔” ایلاف نے کہا اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ اذلان اس کی شکل دیکھنے لگا۔
” نیند تو اب مجھے اس دن آئی گی جس دن حساب پورا ہوگا۔اس دن میری جلتی روح کو سکون ملے گا۔” ایلاف نے اذیت سے سوچا۔
” آپ لوگ باتیں کریں ہم اب آرام کریں گے،امیراں کافی دے جانا ہمیں۔” اذلان شاہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا نظریں ہنوز ایلاف کا چہرہ کھوج رہی تھیں۔
” ہوں ٹھیک ہے آرام کرو بیٹا اور ایلاف تم بھی کرلو کچھ جو کرنا ہے تمہیں۔” شاہ بی بی دونوں کو ایک ساتھ جواب دیتے ہوئے اٹھ گئی تھیں۔
______________________________
کمرے میں آکے ایلاف شاہ بی بی کے رویے پہ غور کرنے لگی تھی۔اب تک اسے شاہ بی بی سارے قصے سے بے خبر لگ رہیں تھیں ورنہ کون ایسی لڑکی کو اتنی اپنائیت دیتا ہے جس پہ زمانے بھر کا گند اچھالا گیا ہو۔
“اذلان شاہ یقینا تم نے آدھی کہانی گڑھی ہے پر فکر نہ کرو میں ہوں نا پوری گواہی دوں گی،مکمل حساب دوں گی۔” ایلاف کی سوچ کے اپنے ہی معیار تھے۔
ایسے ہی تو اذلان اس کی عقل پہ ماتم نہیں کرتا تھا۔
” بی بی تساں آجاؤ،وڈی بی بی بلا رہی ہیں۔” امیراں دروازے سے جھانکتے ہوئے بولی۔
” ہاں آرہی ہوں۔کہاں ہیں وہ؟” ایلاف نے چپل پہنتے ہوئے پوچھا۔
” وہ جی اپنے کمرے میں ہیں۔ ” امیراں نے بتایا۔
” اور ان کا کمرہ کہاں ہے؟” ایلاف نے اکتاہٹ سے پوچھا۔
مجال ہے جو یہ عورت ایک بار میں پوری داستان سنائے۔
” آپ میرے ساتھ آؤ میں چھوڑ دیتی ہوں آپ کو۔” امیراں نے اپنی خدمات پیش کیں۔
” بڑی مہربانی آپکی۔چلیں!” ایلاف نےطنزیہ کہا۔
جتنا وہ جلدی چاہ رہی تھی یہ امیراں خاتون اتنی ہی دیر فرما رہی تھیں۔
شاہ بی بی کے کمرے کے دروازے پہ دستک دے کے امیراں اسے اندر لے آئی۔ایلاف اپنے کمرے کے علاوہ آج پہلی بار کسی اور کمرے میں آئی تھی۔
“کیا شاندار کمرہ تھا۔ ” ایلاف نے سوچا۔
” یہاں آؤ بیٹی۔ہمارے پاس بیٹھو۔” شاہ بی بی بیڈ پہ کمبل اوڑھے بیٹھی تھیں،اسے بھی پاس بلا لیا۔
شاہ بی بی نے ذیادہ دیر مناسب نہیں سمجھی تھی وہ جس مقصد کیلئے آئی تھیں، وہ انہوں نے ابھی سے شروع کر دیا تھا۔
ایلاف ان کے پاس آکے بیٹھی تو شاہ بی بی امیراں سے کہنے لگیں۔
” جاؤ ہم دونوں کیلئے دودھ لے آؤ چائے پئیں گے تو پھر نیند نہیں آئی گی۔دودھ لے آؤ۔ ”
” یہ واقعی اذلان شاہ تمہاری ماں ہیں۔تم انہی پہ پڑے ہو جیسے تم ویسے تمہاری اماں۔” ایلاف بھی ایمان لے آئی تھی۔
اور یہ تو زمانہ کہتا تھا کہ اذلان شاہ اپنی ماں کا پرتو ہے۔
امیراں آرڈر سن کے جا چکی تھی۔
شاہ بی بی تسبیح سائیڈ پہ رکھ کے اس کی طرف متوجہ ہوئیں اور اس پہ پھونک ماری۔
” اتنی عزت نہ دیں شاہ بی بی جب آپ کو حقیقت پتا چلے گی تو آپ کیسے پھر یہ اپنائیت کے جلوے دکھائیں گی۔” ایلاف پھر ایلاف تھی۔
شاہ بی بی سے ابھی وہ بات کرنے کیلئے لفظ اور ہمت دونوں ڈھونڈ رہی تھی جب ان کا سیل فون بجنا شروع ہوا۔
“اس وقت کون ہے بھئی؟” سیل فون ہاتھ میں لیا دیکھا تو سیدھی ہو کے بیٹھ گئیں۔
چھوٹی حویلی سے فون تھا ان کی دیورانی کا،یہ یقینا تانیہ شاہ کی کارستانی تھی۔ اس میں خود تو ہمت تھی نہیں کہ شاہ بی بی سے سن گن لیتی سو اس نے اپنی ماں کو آگے کیا تھا۔
شاہ بی بی جانتی تھیں کہ اب ان کے ایک دو گھنٹے کہیں نہیں گئے اس لئے کال ریسیو کرنے سے پہلے وہ ایلاف سے مخاطب ہوئیں۔
” ایلاف بچے برا نہیں ماننا چھوٹی حویلی سے فون ہے۔آپ آرام کریں اب ہم صبح بات کریں گے۔جائیں آپ محسوس نہ کیجئے گا۔” شاہ بی بی رسان سے بول رہی تھیں۔
” کوئی بات نہیں شب بخیر۔” ایلاف نے کہا اور بوجھل قدموں سے باہر نکل آئی۔
” کب تک چین کی نیند سوؤگے اونچی حویلی والو!ایک مظلوم کا انتقام تمہاری حویلی کی بربادی کو پکار رہا ہے۔” ایلاف نے نہایت ذودورنج ہوتے ہوئے کہا۔
“سب برباد کردوں گی میں۔”وہ مٹھیاں بھینچ کے چلائی تھی۔
اپنی سوچوں میں گم وہ چل رہی تھی جب جھٹکے سے اسے کسی نے اپنی طرف کھینچا تھا۔
ایلاف کے بازو کو شدید جھٹکا لگا اپنے بازو کو سہلاتے ہوئے اس نے نظریں اٹھائیں تو بس حیران ہوکے مجسم ہونے کی بات رہ گئی تھی۔
______________________________
” کیا طریقہ ہے یہ اس طرح روکتے ہیں کسی کو؟حد ہے بھئی!” ایلاف پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولی۔
وہ اذلان شاہ تھا ایسی جرات وہی کرسکتا تھا۔
” ایسوں کو ایسے ہی روکا جاتا ہے۔بیٹھ جائیں آرام سے بات کرتے ہیں۔” اذلان شاہ حسب معمول آگ لگا کے پرسکون تھا۔
” آپ کے ہوتے ہوئے اور آرام۔ہو ہی نہیں سکتا،فرمائیں! کیا تکلیف آن پڑی ہے؟” ایلاف کے تیور نہایت تھیکے تھے۔
” کیا باتیں کرنی ہیں اماں سے آپ نے؟” اذلان شاہ تو اس کا بھید پا گیا تھا۔
اور پھر ایلاف کے انداز!
“کیوں آپ کو کیوں بتاؤں؟آپ اماں تھوڑی ہیں۔” ایلاف اب بھی کمرے کے بیچ اکڑی کھڑی تھی۔
“ہم ان کے بیٹے ہیں۔وہ ہماری ماں ہیں، ایک بات کان کھول کے سن لیں ایلاف بی بی۔ہماری ماں سے کچھ الٹا سیدھا آپ نے اگر کہا تو آپ کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔” اذلان نے اسے باور کرا دیا تھا۔
” کیوں پیر سائیں بہت تکلیف ہورہی ہے؟ ایسی ہی تکلیف مجھے بھی ہوتی ہے۔میری کچلی ہوئی انا کو انصاف چاہئے۔آپ کی ماں کو سننی ہی ہوگی اپنے لاڈلوں کے کرتوتوں کی کہانی۔” ایلاف چیخی۔
“یہ شخص مجھے روک نہیں سکتا میں ہر حد پار کر جاؤں گی۔” ایلاف فیصلہ کرچکی تھی۔
” چلائیں مت!اونچی آواز ہمیں پسند نہیں۔واویلا کرنا آپ عورتوں کی پرانی عادت ہے۔آپ کے ساتھ اتنا ظلم نہیں ہوا جتنا مداوا ہوچکا ہے مگر آپ کا رونا ختم ہی نہیں ہوتا۔ایک گھٹیا انسان کے مقابلے میں آپ ایک شریف آدمی کے نکاح میں ہیں پھر بھی آپ کے مزاج نہیں ملتے۔ہم آپ سے کہہ رہے ہیں ہماری برداشت کا امتحان مزید نہ لیں۔” اذلان شاہ برہمی سے بولا۔
” شریف اور آپ۔واؤ!ہوتی ہوگی آپ لوگوں کی شرافت بہت زیادہ،آئی ایکسیپٹ۔ پر پتا ہے کیا رات کی تاریکی میں آپ لوگوں کی شرافت کا چولہ اتر جاتا ہے۔آپ شرافت کا دعوی نہ کریں پیر سائیں ہم گنہگار گواہ ہیں آپ کی حقیقتوں کے،نکاح کر کے کوئی احسان نہیں کیا،مت کرتے نکاح ہم جاگیر جائیں گے اماں سائیں کے ساتھ وہاں آپ کے پورے خاندان کے سامنے آپ کے بھانجے کی شرافت کی اصلیت دکھائیں گےتب ہوگا مداوا۔” ایلاف بپھرا ہوا طوفان بنی ہوئی تھی جو سب تہس نہس کردیتا ہے مگر مقابل بھی پیر اذلان شاہ تھا۔ اسے طوفانوں کو روکنا آتا تھا سیلابوں پہ بندھ باندھنے آتے تھے۔
” پھر تو واقعی کوئی فائدہ نہ ہوا آپ سے نکاح کرنے کا ایلاف بی بی۔ہم تو سمجھے تھے مداوا ہوگیا۔ ” اذلان شاہ کا لہجہ بہت عجیب سا تھا۔
اس کی انا پہ زبردست چوٹ پڑی تھی۔مرد سب برداشت کرسکتا ہے مگر انا کی مار نہیں اور ایلاف کو تو اپنے مزاج کے خلاف وہ کافی چھوٹ دے چکا تھا۔
” مداوے یوں ہوتے تو کیا بات تھی۔میں آپ کو بتاؤں گی کہ کفارہ کیسے ادا کرتے ہیں؟مداواکیسے ادا کرتے ہیں؟” ایلاف اذلان شاہ کے انداز پہ اور نڈر ہوگئی تھی۔
اس لئے اپنی بات کہہ کے اس نے کمرے سے نکلنے کیلئے فورا قدم بڑھائے تھے لیکن اذلان شاہ کو سمجھنا اتنا آسان ہوتا تو بات ہی کیا تھی۔
ایلاف کے مڑتے قدموں کو بریک لگی تھی۔اذلان شاہ اس کے مقابل آن کھڑا ہوا تھا اور جھٹکے سے اسے پیچھے کر کے دروازہ بند کیا تھا۔
” یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟” ایلاف کی ساری بہادری رخصت ہونے لگی تھی۔
” آپ جاگیر جائیں گی لوگوں کو ہماری اصلیت بتائیں گی۔ہمارے راز کھولیں گی۔آپ تو پہلے بھی فائدے میں رہی تھیں۔اب بھی فائدے میں رہیں گی۔خسارے تو سارے پھر ہمارے حصے میں آئیں گے۔ ” اذلان شاہ اس کے شانوں پہ اپنی گرفت کا احساس ڈالتے ہوئے بولا۔ شہد رنگ آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے، وہ ایلاف کو بتا رہا تھا اس کے پلانز کے بارے میں۔
” انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے تو، پھر شکوہ کیسا شکایت کیسی؟” ایلاف نے ہمت کرتے ہوئے مضبوط لہجے میں بولی۔
” تو پھر ہم کیوں خسارے میں رہیں ایلاف بی بی تاکہ ہمیں بھی نہ شکوہ رہے کہ ہم آپ کے حقوق پورے نہ کرسکے اور نہ آپ کو شکایت رہے۔” اذلان شاہ کی ذومعنی بات نے ایلاف کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔
” کیا کہہ رہے ہیں آپ؟دماغ خراب ہوگیا ہے آپ کا میں جارہی ہوں۔آپ ان چیپ حرکتوں سے مجھے نہیں روک سکتے۔” ایلاف کی جان ہی نکل گئی تھی۔
اذلان شاہ کے انداز اسے بہت کچھ جتا رہے تھے۔
” نہیں ایلاف بی بی ہم نے آج تک کوئی نقصان کا سودا نہیں کیا۔ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے تو چلیں آپ کو ثبوت بھی دے دیتے ہیں۔ آپ تو ہماری زوجہ ہیں حق رکھتے ہیں آپ پہ،ہمیں کون روکے گا۔ایلاف بی بی آج آپ مہر لگواہی لیں اپنے الزامات پہ سچائی کی۔ ” اذلان کا گہرا مزید تنگ ہورہا تھا۔اس کا پرتپش لمس ایلاف کو جھلسا رہا تھا۔
” نہیں!پلیزآپ ایسا نہیں کرسکتے۔” ایلاف کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ چہرہ سرخ پڑگیا تھا۔ وہ اس شخص کے سامنے جتنا اکڑتی تھی خدا اسے اتنا ہی جھکاتا تھا۔
ظاہر ہے ایلاف کی زبان کی صدقے تھا یہ سب اور فی الحال ایلاف کو یہ سمجھانے والا کوئی نہ تھا۔
” کیوں ہم ہی تو ہیں جو سب کرسکتے ہیں۔نہیں ایلاف ابھی آپ ہی نے تو کہا تھا۔چلیں ایک ڈیل کرتے ہیں۔” اذلان شاہ آہستہ آہستہ اپنے پتے پھینک رہا تھا۔
” کیا؟” ایلاف بے تابی سے بولی۔
اسے یہ صورتحال مرنے کے برابر لگ رہی تھی۔اذلان شاہ اور اسکی قربت! اسکی جان نکال رہی تھی۔
” آپ کی زبان بندی!آپ اپنی اعلی سوچ اور گواہی اپنے تک محدود رکھیں گی۔ نہ اماں سے نہ جاگیر میں اور کسی سے کچھ کہیں گی۔بولیں منظور ہے؟”اذلان شاہ گیند اس کے کورٹ میں ڈال چکا تھا۔
اور ایلاف وہ تو اس کی ذہانت پہ حیران ہی رہ گئی تھی، عش عش کر اٹھی تھی۔
” یہ جانتا ہے کہ میں اپنی عزت اور انا کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہوں۔اس لئی یہ سب کیا اس نے،خدا پوچھے تم سے اذلان شاہ۔” ایلاف سن سی ہوگئی تھی۔
کیا داؤ کھیلا تھا؟
” نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا۔” ایلاف نے آخری کوشش کی۔
” جلدی نہیں؟ ایلاف بی بی پوری رات اپنی ہے۔آپ آرام سے سوچ لیں،یہ دروازہ تب ہی کھلے گا جب آپ فیصلہ کریں گی۔اب یہ آپ پہ ہے کہ اپ یہ دروازہ ابھی پار کرنا چاہتی ہیں یا صبح کی روشنی میں۔” اذلان شاہ نے اس پہ اپنا ارادہ واضح کردیا تھا۔
مرد اپنی کرنے پہ آئے تو کون روک سکتا ہے؟
ایلاف نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اذلان شاہ کسی رعایت کے موڈ میں نہیں تھا۔
” آپ آل ریڈی میرا بہت امتحان لے چکی ہیں۔اب مزید کتنا وقت درکار ہے آپ کو؟” اب وہ جیسے اس کی سانسیں گن رہا تھا۔
” کوئی بات نہیں اذلان شاہ۔کبھی تو میرا وقت بھی آئے گا۔اس وقت میں مجبور ہوں تمہاری طلب اتنی آسانی سے پوری نہیں ہونے دوں گی،تشنہ ہی رہوگے تم۔” ایلاف نے آخر ہارمان لی تھی۔
” ٹھیک ہے اذلان شاہ آپ جیتے میں ہاری لیکن میری نظروں سے آپ گر گئے،آپ نے اچھا نہیں کیا۔” ایلاف نے اپنے آخری تاثرات بیان کرنا ضروری سمجھا۔
“گڈ!کافی سمجھدار ہوگئی ہیں آپ ہمارے ساتھ رہ کے۔بھیجے میں موجود عقل استعمال کرلیا کریں۔یونہی فائدے میں رہیں گی۔” اب وہ وہی پرانا اذلان شاہ تھا پرسکون سا۔
” آپ کو ضرورت نہیں میری فکر کی۔ ” ایلاف جل کے بولی۔
اذلان اب اس سے یوں لاتعلق ہو کے دروازہ کھول کے، اپنی اسٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ چکا تھا جیسے وہاں وہ ہے ہی نہیں۔
اذلان شاہ جانتا تھا کہ ایلاف کو کیسے قابو کرنا ہے۔ اتنے دنوں میں وہ اس کے مزاج سے واقف ہوگیا تھا سو اس نے بنا کسی ذاتی خواہش کہ ایلاف پہ یوں حق جتایا تھا۔
جانتا تھا وہ انا کی ماری ہوئی لڑکی پابند ہوجائے گی ایلاف کی زبان بندی مناسب وقت تک بے حد ضروری تھی ورنہ وہ بیوقوف سب برباد کر دیتی باوجود اس کے اذلان شاہ بی بی کو سب بتا چکا تھا مگر ایلاف تو نہیں جانتی تھی نا اور نہ اذلان اسے بتانا چاہتا تھا۔
______________________________
میں راکھ ہوں گیلی لکڑی کی
کیوں پھونکوں سے بہکاتے ہو
جو سوکھے میری کلائی میں
وہ پھول کہاں سے لاتے ہو
تو دھوپ کی شال اڑا مجھ کو
تب جانوں کہ میں ہاری پیا!
میں ہاری پیا!
” اذلان شاہ تم نے آج جو کیا ہے میں چاہوں بھی تو نہیں بھول سکتی۔بھلا اپنے حق کا کوئی یوں بھی ناجائز استعمال کرتا ہے؟کیوں مجھے بار بار جلتی دھوپ جیسے سائبان ہونے کا احساس دیتے ہو،کیوں مجھ سے میرا حق چھینا تم نے؟
اب تو میں شکایت بھی نہیں کرسکتی
پابند کر دیا تم نے مجھے
اب مجھے کون دوا دے گا میرے درد کی؟
تم نے پھر سے مجھے ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔”
ایلاف کی ساری رات یونہی گزر گئی تھی۔صبح ناشتے پہ اس کی سرخ آنکھیں شاہ بی بی نے دیکھیں تو بے چین سی ہوگئی تھیں۔
” ایلاف کیا بات ہے؟آنکھوں میں اتنی سرخی’ جاگتی رہی ہو؟”
ایلاف نے نظریں اٹھا کے دیکھا سامنے ہی اذلان شاہ تھاجس کی آنکھوں میں تنبیہہ واضح تھی۔
” بد عہدی کی تو یاد رکھئے گا،بقول آپ کے ہم تو ہیں ہی موقع کی تلاش میں۔آپ ہماری پہنچ سے باہر نہیں۔” اذلان شاہ نے اسے اچھی طرح باور کرادیا تھا۔
” بس آنکھوں میں کچھ پڑ گیا تھا رات کو۔” ایلاف دھیرے سے بولی۔
” یہ رات کو آپ کے کمرے سے آرہی تھیں غالبا تبھی کچھ پڑ گیا تھا۔ہم نے مدد کی تھی ان کی اب یہ ٹھیک ہیں۔” اذلان شاہ نے جلتی پہ تیل کا کام کیا تھا۔
” ایلاف بیگم ذرا آپ بھی کچھ مزہ لیں۔” اذلان شاہ سوچتے ہوئے کھڑا ہوگیا تھا اور پھر چلا گیا تھا۔
شاہ بی بی اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگی تھیں ادھر ادھر کی پھر اچانک پوچھنے لگیں۔
” کیا عمر ہے ایلاف تمہاری؟” شاہ بی بی نے پوچھا۔
” دو ماہ بعد اٹھارہ سال کی ہوجاؤں گی۔ ” ایلاف نے جواب دیا۔
” اوہ!یعنی تم اذلان سے دس برس چھوٹی ہو۔وہ اٹھائیس کا ہے۔خیر اتنا فرق تو عام ہے تمہارے سسر میں اور مجھ میں چھ سال کا فرق تھا اور عالیہ شاہ اور اذلان شاہ میں آٹھ برس کا پھر بھی دونوں کی شادی ہوگئی،کھیل نصیب کے۔” شاہ بی بی نے اذلان شاہ کی زندگی کا پہلا راز کھولا تھا۔
اور ایلاف کو جیسے بچھو نے ڈنگ مارا تھا۔
” تو تم پہلے سے ہی شادی شدہ ہو۔تمہاری روح سیراب ہےتبھی تم نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔” ایلاف ایک اور انکشاف پہ ماتم کدہ تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...