خیالِ ضبط اور ترکِ تعلق
یہی پتھر بہت بھاری ہے اب تک
سورج کی کرنیں اب آہستہ آہستہ مدہم ہو رہی تھی شام کا سیاہ اندھیرہ روشنی ختم کرنے کو بے تاب تھا آسمان پہ اڑتے پرندوں کی پروازوں میں تیزی آگٸ تھی۔۔۔۔۔۔درختوں کے پتے ہولے ہولے لرز رہے تھے۔۔۔۔۔ایسے میں اس کوٹھے کے اس چھوٹے کمرے میں اسے بازٶں میں تھامے وہاج کو پہلی دفعہ اپنی دھڑکنوں کا شور سناٸی دیا تھا اسے محسوس ہوا اس کا دل ابھی پنجرہ توڑ کے باہر نکل آۓ گا ایک لمحے میں اسے محسوس ہوا کہ اس کا سارا غرور خاک میں مل جاۓ گا وہ ابھی تک بے ہوش ساکت اس کی بانہوں میں جھول رہی تھی
وہ بس اسے اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا اسے خود اپنی حالت کی سمجھ نہیں آرہی تھی
اگلے ہی لمحے وہ اپنے حواسوں میں لوٹا اس کا نیچے کیطرف جھولتا ہاتھ جیسے ہی ہاتھ میں لیا اسے محسوس ہوا وہ بخار میں تپ رہی تھی۔۔۔۔۔
اور اگلے ہی لمحے وہ اسے سہارہ دے کے بستر تک لے کے گیا اسے لٹایا کمبل درست کیا
”زری“جہاں آرا۶ بیگم چلی گٸ گیا“؟
اسی لمحے رانی تیزی سے کمرے کے اندر داخل ہوٸی تھی
لٹھ کو انگلی پہ لپیٹتی وہ چونک کے وہی کھڑی ہو گٸ تھی
وہاں موجود شخص کی اس کی طرف پیٹھ تھی لیکن پھر بھی وہ سمجھ گٸ تھی کہ وہ کون ہے۔۔۔۔۔“؟
”خان جی“ آپ یہاں“؟
اس نے وہی کھڑے کھڑے کہا
اس کے لہجے میں حیرت سے ذیادہ حسد نمایاں تھی
”وہ یکدم پلٹا
اسے ایک نظر دیکھا
لیکن اس کے اطمینان میں کوٸی کمی نہیں آٸی
”وہ میں یہاں سے گزر رہا تھا دیکھا یہ نیچے ذمین پہ بے ہوش پڑی تھی
اس نے ایک نظر بیڈ پہ لیٹی زرپاش کو دیکھا اور سہولت سے جھوٹ بولا
پتہ نہیں کیوں وہ نہیں چاہتا تھا یہاں کوٸی اس کے کردار پہ بات کرے
لیکن دروازے میں کھڑی رانی کھوجتی ہوٸی نظروں سے ابھی تک وہاج کو دیکھ رہی تھی
”ایسے کیا کھڑی ہو ۔۔۔۔۔“؟ یہ بے ہوش ہے جاٶ ڈاکٹر کو فون کرو یا ٹھنڈی پٹیاں رکھو۔۔۔۔“
اسے یوں کھڑا دیکھ کہ وہ چڑ گیا اسی لیے اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولا
”آپ جاٸیۓ خان جی۔۔۔۔۔میں دیکھ لوں گی اس کی ماں واپس آگٸ تو بہت ہنگامہ ہو گا۔۔۔۔۔۔“
وہ تیزی سے آگے بڑھی وہاج کے پاس سے گزر کے بیڈ پہ بے ہوش پڑی زرپاش کی طرف بڑھی
لہجے میں جلن کی جگہ اب غصے نے لے لی تھی
”کیوں۔۔۔۔۔“؟ اس کی ماں مجھے کیا کہے گی۔۔۔۔۔۔“؟
اس نے ابرو اچکا کے سوالیہ لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔۔
”آپ کچھ نہیں جانتے خان جی۔۔۔۔۔“
وہ ایک ادا سے مڑی تھی
مکار ہنسی چہرے پہ سجاۓ پلٹی تھی ۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک نظر رانی کو دیکھا تھا پھر رخ موڑ گیا تھا
وہ جانتا تھا رانی اس میں دلچسپی رکھتی ہے وہ اپنے کسی بھی عمل سے یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ زرپاش میں دلچسپی رکھتا ہے
کیونکہ ابھی زرپاش نے رانی کے ساتھ ہی رہنا تھا
”اچھا ٹھیک ہے تم سنبھال لو۔۔۔۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔“
وہ کندھے اچکا کے برے دل کے ساتھ لاپرواہی کا اظہار کرتا آگے بڑھ گیا
رانی کی تیز نظروں نے دور تک اس کا تعاقب کیا تھا
وہاج نے پلٹ کے بیڈ پہ لیٹی زرپاش کو دیکھا تھا اور پھر ایک نظر خود کو گھورتی رانی پہ ڈالی اور آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔
ذہن اس کا ابھی تک زرپاش میں الجھا ہوا تھا
اب کمرے میں صرف رانی اور بیڈ پہ بے ہوش پڑی زرپاش تھی
”ہوں خان جی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی کہیں گے اور ہم یقین کر لیں گے ساری عمر مردوں میں ہی گزاری ہے چلتا مرد دیکھ کہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔۔۔۔۔اگر جہاں آرا۶ کے احسان یاد نہ ہوتے تو اس کو ابھی ہی زہر دے کے یہاں مرنے کے لیے چھوڑ دیتی۔۔۔۔لیکن نہیں میری جان ہم کیوں اپنی ذندگی خراب کریں۔۔۔۔۔ان کی کیوں نہ کریں جنہوں نے ہمیں ٹھکرایا۔۔۔۔۔۔ایسی موت تو بہت آسان ہوتی ہے زری۔۔۔۔۔ہم آپ کو تڑپنے والی موت دیں گے ۔۔۔۔۔“
وہ گلاس میں پانی انڈیلتے ہوۓ زہر خند لہجے میں بڑبڑاٸی اس کے لہجے میں سانپ جیسی زہر تھی۔۔۔۔۔جیسے وہ ڈنگ مارنے کو تیار ہو۔۔۔۔۔
الماری کھولی پٹیاں نکالی اور اس کے ماتھے پہ رکھنے لگی تھوڑی ہی دیر میں زرپاش کو ہوش آگیا تھا
زرپاش نے آنکھیں کھولی تو اسے دھندلا دھندلا دیکھاٸی دینے لگا
پاس چمکیلی قمیض نیچے سلک کی شلوار پہنے رانی کھڑی تھی
کھلے بالوں کو شانوں پہ پھیلا رکھا تھا
آنکھوں میں کاٹ اور چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجا رکھی تھی
وہ جیسے جیسے ہوش میں آتی گٸ پرانے منظر کسی فلم کی طرح اس کے ذہن میں چلنے لگے۔۔۔۔۔
رانی یہاں کیا کر رہی ہے۔۔۔۔۔“؟ اور وہ کہاں ہیں۔۔۔۔۔“؟
”کیا رانی نے ہمیں اس کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔۔۔۔۔“؟
ایسے بہت سے سوال ذہن میں گردش کر رہی تھی
لیکن وہ کچھ پوچھ نہیں پارہی تھی
”ارے زری آپ کو ہوش آگیا کیسا محسوس کر رہی ہیں آپ ۔۔۔۔۔“
وہ مصنوعی محبت لہجے میں سمو کے اس کی طرف بڑھی
اس کے قریب بیٹھ کے اس کے بالوں کو سنوارنے لگی
اس نے ایک نظر رانی کو دیکھا
وہ اسے ہمیشہ سے اپنی بہن کی طرح سمجھتی تھی
اس لیے اس کی قربت پاکے رونے لگی۔۔۔۔
”رانی نے کچھ چونک کے اسے دیکھا
”کیا ہوا زری“ آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔۔۔“؟
وہ سنبھل کے بیٹھی
”ہاں ہم ٹھیک ہیں۔۔۔“
اس نے یکدم اپنی آنکھیں پونچھ ڈالی
دونوں کہنیوں کے سہارے اٹھ کے بیٹھ گٸ
”پکا نا۔۔۔۔“
اس نے تصدیق چاہی۔۔۔۔
”ہاں۔۔۔۔“
وہ کمزور سے لہجے میں بولی۔۔۔۔
”ویسے زری اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھیں۔۔۔۔“؟
وہ گلا کھنکار کے مدعے کی بات پر آٸی
کوٹھے میں باتیں ہو رہی ہیں کے بڑی حویلی کے وہاج خان کی آپ پر بری نظر ہے۔۔۔۔۔“؟
اس نے کمال خوشیاری سے اسے کھوجنا چاہا
اس نے ایک دم گڑبڑا کے رانی کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔
”نہیں۔۔۔۔۔“ایسی بات نہیں۔۔۔۔۔“
وہ اپنی صفاٸی میں ٹھیک طرح سے بول بھی نہ پاٸی۔۔۔۔۔
اور وہ سمجھ گٸ تھی
دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔۔۔۔۔
”ویسے زری ہمارا کام تو نہیں بنتا۔۔۔۔۔۔پھر بھی ایک بڑی بہن ہونے کی حیثیت سے آپ کو ایک بات سمجھانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔“
اس نے معصومیت سے کہا
”مرد تو یوں بھی قابل اعتبار نہیں ہوتے اور کوٹھے میں آنے والے مرد تو بالکل بھی قابل اعتبار نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔تم خود سوچو زری جو مرد باکردار نہیں ہے وہ قابل اعتبار کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔“؟ جو مرد طواٸف کے کوٹھے میں دل بھلانے آتا ہے وہ کبھی بھی کسی طواٸف کے ساتھ دل لگا نہیں سکتا۔۔۔۔۔ان مردوں کی باتوں میں کبھی مت آنا۔۔۔۔۔“
وہ اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے اسے رسان سے سمجھا رہی تھی
اور وہ کسی کٹ پتلی کی طرح اس کے اشاروں پہ چل رہی تھی
اس کی کہی ہوٸی باتوں کو سوچ رہی تھی
”ادھر ہماری طرف دیکھیں۔۔۔۔۔“
یہ مرد جو ہوتے ہیں نا یہ تین طرح کے جال پھینکتے ہیں۔۔۔۔۔
پہلا جال چاہت کا۔۔۔۔
وہ انگلیوں پہ گن کے بتانے لگی
دوسرا جال محبت کا
اس نے درمیانی انگلی اٹھاتے ہوۓ کہا
وہ دم سادھے سن رہی تھی
اور اگر عورت ان دونوں جالوں میں نہ پھنسے تو۔۔۔۔
وہ شاطر نگاہیں اس پہ گاڑتی اس کے تھوڑے قریب ہو کے رازداری سے بولی۔۔۔۔
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی
اور پھر وہ تیسرا اور سب سے آخری جال نکاح کا پھینکتا ہے۔۔۔۔۔
اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ لفظ ”نکاح“ پہ ذور دے کے کہا ۔۔۔۔
وہ الجھی ہوٸی نظروں سے رانی کو دیکھ کے رہ گٸ۔۔۔۔
”لیکن رانی جی نکاح کا رشتہ تو اللہ نے بنایا ہے۔۔۔۔“
وہ ناسمجھی سے بولی
”بے شک میری جان۔۔۔۔۔۔بنایا تو خدا نے ہے لیکن۔۔۔۔لیکن مردوں نے اس کو بھی بدنام کر کے رکھ دیا ہے مرد روح کو کہاں سمجھتا ہے وہ تو جسم کو دیکھتا ہے اسے روح سے کوٸی سروکار نہیں ہوتا وہ جسم کا پجاری ہے تب ہی تو کوٹھے آباد ہیں۔۔۔۔۔“
اس نے ایک ادا سے کہا لہجے میں افسوس بھی بھر آیا
عورت کو ۔۔۔۔۔خود کو طاقتور بنانا چاہیۓ۔۔۔۔۔اس کو اپنی ضرورتوں کے لیے اپنی عزت کو قربان نہیں کرنا چاہیۓ۔۔۔۔“اسے مرد کے نکاح کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیۓ۔۔۔۔۔۔“
وہ جیسے اسے کسی اور ہی دنیا میں لے گٸ تھی
جہاں عورت ایک معصوم پرندہ اور مرد ایک ظالم شکاری تھا
”زرپاش ۔۔۔۔۔“
کسی کے پکارنے پہ وہ جیسے اس دنیا میں واپس لوٹی
دروازے میں اس کی چادر اوڑھے اس کی ماں کھڑی تھی۔۔۔۔
چہرے پہ فکر مندی کے آثار تھے
”اب کیسی طبیعت ہے آپ کی بخار اترا آپ کا۔۔۔۔۔“؟
وہ آگے بڑھی چادر وہی بیڈ پہ پھینک کے زری کی طرف لپکی اس کی پیشانی پہ ہاتھ رکھا
”یا اللہ تیرا شکر۔۔۔۔۔“بخار اتر گیا۔۔۔۔“
وہ تشکرانہ لہجے میں بولی
لمبا سانس لے کے وہی پلنگ پہ زری کے کےقریب بیٹھ گٸ۔۔۔۔
”وہ دھیرے سے مسکرا دی۔۔۔۔
”اچھا میں چلتی ہوں۔۔۔۔۔“
رانی اٹھ کھڑی ہوٸی
زری اس کی طرف دیکھ کے مسکراٸی
وہ بھی مسکرا دی
وہ ہرنی جیسی چال لیتی دروازے تک گٸ پھر ایک نظر پلٹ کے پلنگ پہ اپنی ماں کے ساتھ باتیں کرتی زری کو دیکھا اور پلٹ گٸ۔۔۔۔
اب پیچھے زری کے ذہن میں رانی کی باتیں ہی گردش کر رہی تھی
”کہتے ہیں دشمن اپنا پہلا وار کرتا ہی دماغ پہ ہے دماغ کو مفلوج کرنے کے بعد ہی وہ جسم پر حملہ کرتا ہے کیونکہ جب تک دماغ کام کرتا رہتا ہے دشمن کی جیت کے امکان صفر فی صد ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔“
رانی نے بھی یہی کیا تھا
اب مطمٸین سی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گٸ تھی
اور اندر بیٹھی زرپاش یہ سوچ رہی تھی
کہ اپنی ماں کو بتا دے یا نہیں
وہ کسی نتیجے پہ نہیں پہنچ پارہی تھی
جاٶ جیت کا جشن مناٶ
میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو۔۔۔۔
صبح کی مدہم روشنی نے دھیرے دھیرے اس کوٹھے کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔رات کا ملجگی اندھیرہ اس وقت بھی باقی تھا کیونکہ آسمان پہ کالے بادلوں کا راج تھا ۔۔۔۔مینہ برسنے کو بے قرار تھا۔۔۔۔۔۔صبح کے دس بجے بھی رات کا گمان ہوتا تھا
ایسے میں کوٹھے کی تمام بتیاں روشن تھی۔۔۔۔
آج کوٹھے میں کوٸی رقص نہیں رکھوایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
موسم کی خرابی اور طواٸفوں کی تھکاوٹ بنیادی وجہ تھی
اس لیے آج کوٹھے میں گہما گہمی کم تھی۔۔۔۔۔
وہ سفید رنگ کی قمیض شلوار ذیب تن کیے۔۔۔۔۔کھلے بال کمر پہ پھیلے گھٹنوں کو باہم ملاۓ اوپر تھوڑی ٹکا کر بے زار سی بیٹھی کھڑکی سے باہر بادلوں سے ڈھکے آسمان کو دیکھ رہی تھی
جہاں آرا۶ کوٹھے کے آخری حصے میں نٸ آنے والی لڑکیوں کو رقص سکھا رہی تھی
اور زرپاش کے کمرے کے ساتھ ہی نگار بیگم۔۔۔۔۔چمکیلی ساڑھی ذیب تن کیے اونچا جوڑہ کیے میک اپ سے اٹے چہرے کے ساتھ ورطہ حیرت میں ڈوبی سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
”آپ کو پتہ ہے۔۔۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔“؟
وہ تھوڑا آگے کی طرف سرکی۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں دیکھ کے بے یقینی سے بولی۔۔۔۔
اسی لمحے وہ پلنگ سے اتری۔۔۔۔اور کمرے سے باہر نکلی۔۔۔۔
رخ رانی کے کمرے کی طرف تھا
اسی لمحے شناسا آواز کانوں سے ٹکراٸی تھی
اور اس کے قدم وہی تھم گۓ
”میں زرپاش سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔نگار بیگم۔۔۔۔
وہاج کے یہ الفاظ کسی بم کی طرح ان کی سماعتوں پہ گرے۔۔۔۔۔اور دروازے کے ساتھ لگ کہ کھڑی زرپاش۔۔۔۔۔۔نے بے یقینی سے یہ الفاظ سنے تھے۔۔۔۔۔
”خان جی پاگل ہو گۓ ہیں کیا۔۔۔۔۔“آپ اتنی بڑی حویلی کے خان ہیں آپ ایک طواٸف کی بیٹی سے شادی کریں گے۔۔۔۔۔“؟
منہ سے پان تھوک کے اس بھدے ہوۓ جسم والی خاتون نے برا سا منہ بنا کہ کہا تھا۔۔۔۔۔
اور باہر کھڑی زرپاش سانس روکے سن رہی تھی
”آپ سے مشورہ نہیں مانگا۔۔۔۔۔بس یہ کہہ رہا ہوں کہ زرپاش کا مجھ سے نکاح کروا دیں۔۔۔۔۔“
وہ ابھی بھی اپنی بات پہ باضد تھا تب ہی بگڑ کر بولا تھا۔۔۔۔۔
”پیسوں کی فکر مت کریں جتنے کہیں گے دے دوں گا بس وہ مجھے کسی قیمت پہ بھی وہ چاہیۓ۔۔۔۔۔۔“
وہ دوٹوک لہجے میں کہتے ہوۓ اٹھنے لگا
جب دھڑام سے دروازہ کھلنے پہ وہ چونکا
سامنے لال چہرہ لیے وہ کھڑی اسے گھور رہی تھی۔۔۔۔
”خان جی۔۔۔۔۔آپ کون ہوتے ہیں میری قیمت لگانے والے۔۔۔۔۔کوٹھے پہ ضرور ہوتی ہوں طواٸف کی بیٹی ضرور ہوں لیکن بھیڑ بکری نہیں ہوں کہ خریدار آٸیں اور قیمت لگاٸیں اور دل بھلاٸیں۔۔۔۔۔“
وہ چبھتے ہوۓ لہجے میں کہہ رہی تھی
وہ بس چہرے پہ بے زاری سجاۓ اس کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔۔
”میں قیمت نہیں لگا رہا تمہاری نکاح کر کہ لے کے جاٶں گا ذیادہ باتیں مجھے پسند نہیں ہیں۔۔۔۔“
وہ اسے سختی سے ٹوکتا جانے لگا۔۔۔۔
”اپنا دل بھلانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔نکاح کو بھی بدنام نہ کریں۔۔۔۔۔جانتی ہوں آپ جیسے براۓ نام عزت دار کوٹھوں پہ آتے ہیں دل بھلاتے ہیں قیمت لگاتے ہیں ۔۔۔۔۔پھر چھوڑ دیتے ہیں اور آپ تو اتنے گھٹیا ہیں کہ۔۔۔۔۔۔“
ابھی وہ اتنا ہی بول پاٸی تھی۔۔۔۔۔
جب وہ غصے سے پلٹا اور اس کا بازو پکڑ کہ اپنے قریب کرنا چاہا۔۔۔۔۔کہ زور دار تھپڑ اس کا خون تک گرما گیا۔۔۔۔۔وہ بے یقینی سے لال آنکھوں سے اسے دیکھے گیا
نگار بیگم جو ابھی تک خاموش تماشاٸی تھی
بات بگڑتی دیکھ کہ ۔۔۔۔۔زرپاش کو جھڑکنے لگی
”طواٸف کے کوٹھے میں رہتی ضرور ہوں لیکن طواٸف نہیں ہوں میں ۔۔۔۔۔۔کہ جب جس کا دل چاہے دل بھلاۓ۔۔۔۔۔۔قیمت لگاۓ۔۔۔۔۔آٸندہ مجھے چھونے کی کوشش مت کیجیۓ گا۔۔۔۔۔۔۔“
اور تیزی سے باہر نکل گٸ۔۔۔۔
وہ لال بھبھوکا چہرہ لیے اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔۔۔۔
”خان جی جانے دیجیۓ۔۔۔۔۔آپ کیا دل لگا بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔دل بہلاٸیے۔۔۔۔۔اور بھی خوبصورت لڑکیاں ہیں میرے پاس
”نگار بیگم بات سنبھالنے کی غرض سے بولی۔۔۔
”نہیں اب میری ضد میرا جنون ہے میں ۔۔۔۔۔۔۔اس کا یہ غرور توڑا گا۔۔۔۔۔کہ یہ طواٸف کہ کوٹھے میں رہ کہ بھی طواٸف نہیں ہے میں بناٶں گا اس کو طواٸف۔۔۔۔۔اور میں لگاٶں گا اس کی قیمت اس نے وہاج خان کو تھپڑ مارا ہے اس کا حساب اسے آخری سانس تک دینا ہو گا۔۔۔۔۔۔واقعی کوٹھے میں رہنے والی بیوی نہیں بنتی وہ طواٸف ہوتی ھے اور طواٸف ھی رہتی ہے۔۔۔۔“
وہ دھاڑتے ہوۓ غصے سے بے قابو ہو رہا تھا۔۔۔۔
لیکن یہاں سننے والا کون تھا
جس نے سننا تھا وہ جا چکی تھی
وہ زرپاش سے کم از کام زرپاش سے ایسی توقع نہیں رکھتا تھا کہ وہ ایسا کرے گی وہ آج پہلے والی ڈری سہمی زرپاش نہیں تھی یہ تو کوٸی اور ہی تھی
وہ ابھی تک بپھرے ہوۓ شیر کی طرح لال بھبھوکا چہرا لیے کھڑا تھا
اور اس نے تیزی سے اندر جاکے کمرے کو کنڈی چڑھاٸی اور وہی دیوار کے ساتھ لگ کے اپنا رکا ہوۓ سانس بحال کرنے لگی وہ نہیں جانتی تھی آگے کیا ہو گا۔۔۔۔۔“؟
اسی لمحے دروازہ زور سے بجا وہ ڈر کے مارے اور سمٹ کے بیٹھ گٸ۔۔۔۔۔
”ذری دروازہ کھولیں۔۔۔۔“
جہاں آرا۶ کی آواز سن کے اسے کچھ حوصلہ ہوا۔۔۔۔۔۔اس نے تیزی سے دروازہ کھولا۔۔۔۔
اور ان کے گلے لگ کے زاروقطار رونے لگی۔۔۔۔
وہ گھبرا گٸ تھی
اور زری نے اسے لمحے انہیں سب بتا دیا تھا۔۔۔۔۔
وہ حیرت ذدہ سی وہی کھڑی رہی
پھر بولی تو فقط اتنا
”آپ پریشان نہ ہو ہم نگار بیگم کو جانتے ہیں وہ مر سکتی ہیں لیکن وعدہ خلافی نہیں کر سکتی
انہوں نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا
پتہ نہیں وہ مطمٸین ہوٸی تھی یا نہیں لیکن جہاں آرا۶ اب بہت پریشان نظر آرہی تھی
جن نظروں سے اتنی سال انہوں نے اپنی بیٹی کو بچایا تھا وہ ابھی انہی نظروں کی ذد میں تھی
اور اسی لمحے نگار بیگم کے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ دل میں بھڑکتی بدلے کی آگ لے کے اس کوٹھے سے نکلا تھا
اسے زرپاش کو حاصل کرنا تھا یہ اب اس کی ضد تھی۔۔۔۔
اور زرپاش کسی قیمت پہ اسے قبول نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔
اور یہ صبح دھیرے دھیرے سرک رہی تھی
گزر رہی ہیں گلی سے پھر تیز ہواٸیں
کوار کھولو دیۓ بجھاٶ اداس لوگو۔۔۔۔
اپنے اندر دکھ تکلیف پریشانیاں سموۓ صبح کی روشنی مدہم ہونے لگی اور رات کے اندھیرے نے کمال خوشیاری سے اس روشنی کو ختم کیا۔۔۔۔۔سورج چپکے سے نظریں چرا کے چھپ کے بیٹھا تھا اور چاند محو تماشہ تھا ایسے میں وہ تاروں کے ساتھ ڈھکے ہوۓ آسمان کے نیچے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔آدھی آستینوں والی سفید قمیض نیچے چوڑی دار پاجامہ پہنے وہ ذمین پہ بیٹھی تھی سر پہ چاندی اتر آٸی تھی چہرے پہ ہلکی ہلکی جھریاں بھی جنہیں وہ میک اپ سے چھپاتی تھی اور آج بھی سولہ سترہ سال کی لڑکی لگتی تھی
آنکھوں میں صدیوں کی ریاضت تھی۔۔۔۔۔اور چہرے پہ تھکان۔۔۔۔۔۔
”وہ جہاں آرا۶ تھی اس نے ایک شاندار وقت گزارا تھا اپنے وقت کی سب سے مشہور طواٸف جو ذمین پہ رقص کرتی تھی تو آسمان جھومنے لگتا تھا۔۔۔۔۔لوگ اس کی ایک جھلک کو ترستے تھے۔۔۔۔۔وہ تب تک جہاں آرا۶ تھی جب تک وہ ماں نہیں تھی اور جب وہ ماں بنی تو ماں بن کے ہی رہ گٸ اس دن جہاں آرا۶ کہیں کھو گٸ تھی
بس اس دن صرف زری کی ماں بچی تھی
انہیں آج بھی وہ دن یاد تھا جب۔۔۔۔۔۔وہ رات کو لیٹ کسی شو سے واپس آرہی تھی
انہوں نے کسی بچی کے رونے کی آواز سنی تھی وہ تڑپ کے رہ گٸ تھی
وہ ایک عام عورت تھی لیکن بچی کی چیخ و پکار نے اس کے سوۓ ہوۓ احساسات جگا دیۓ تھے
”فوراً گاڑی روکو۔۔۔۔۔“
سختی سے ڈراٸیور کو رکنے کا کہہ کر وہ دوپٹہ سیٹ کرکے گاڑی سے اتری تھی
آواز کے تعاقب میں گٸ
انہیں پیڑ کے نیچے بے بی کاٹ میں ایک نومولود خوبصورت بچی روتی ہوٸی نظر آٸی۔۔۔۔۔
انہوں نے فوراً اسے گود میں بھر لیا
بچی فوراً خاموش ہوٸی اور اسے دیکھنے لگی
جہاں آرا۶ نے نظریں گھما کے یہاں وہاں دیکھا وہاں کوٸی نہیں تھا
انہیں محسوس ہوا کے کہیں یہ اغوا۶ کار کوٸی گینگ نہ ہو ایک لمحے کے لیے انہوں نے سوچا کے بچی کو واپس رکھ دیں پھر اس کے معصوم چہرے کو دیکھا تو یہ نا کر سکتی
یکدم ان کی نظر ذمین پہ الٹی پڑی تصویر پہ پڑی جس پہ sorry beta کے حروف لکھے دیکھ کہ وہ چونکی۔۔۔۔۔
جھک کے تصویر اٹھاٸی جو کسی مرد کی تھی اور ساتھ یہی بچی
معاملہ انہیں کچھ کچھ سمجھ آگیا تھا
وہ چپ چاپ بچی کو لے کے کوٹھے پہ لے آٸی تھی
انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ نگار بیگم نے کتنا ہنگامہ کیا تھا
تب ان کے قدموں میں بیٹھ کے انہوں نے درخواست کی تھی اور پوری ذندگی خدمت کا وعدہ کیا تھا
تب زرپاش کو اس کوٹھے میں جگہ ملی تھی
وہ چاہتی تو تھانے میں تصویر دیتی بچی کو باپ سے ملوا دیتی لیکن اس لمحے وہ خود غرض ہو گٸ تھی
تب انہوں نے اس کا نام زرپاش رکھا تھا۔۔۔۔۔۔جس کا مطلب ہے بہت خوبصورت۔۔۔۔۔اور وہ تھی بھی بہت خوبصورت۔۔۔۔۔
اور یوں وہ اس کوٹھے میں پلی بڑھی تھی
اور یوں سب ایک دم ختم ہو رہا تھا
وہ جانتی تھی ان کے بعد اس کوٹھے میں زرپاش کا کوٸی نہیں تھا
وہ اٹھی سیڑھیاں اتر کر کمرے میں گٸ
زرپاش گھری نیند سو رہی تھی
دراز کھولا فاٸل نکالی۔۔۔۔
وہ بیماری کی رپورٹس تھی
انہیں بلڈ کینسر تھا۔۔۔
ان کے پاس وقت بہت کم تھا
اور اب وقت فیصلے کا تھا
انہوں نے ایک نظر سوتی ہوٸی زرپاش کو دیکھا اور سونے کے لیے لیٹ گٸ۔۔۔۔۔۔
اتنے خاٸف کیوں رہتی ہو
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو۔۔۔۔۔
اگلی صبح امید روشنی دکھ مایوسی ضد اور افسوس لے کے اتری تھی۔۔۔۔۔
جہاں آرا۶ کی طبیعت خراب تھی وہ۔۔۔۔۔۔کمرے میں سو رہی تھی۔۔۔۔زرپاش اپنے کمرے میں اکیلی تھی
نگار بیگم لڑکیوں کو ہدایات دے رہی تھی
اسی لمحے وہ۔۔۔۔۔۔تیزی سے کوٹھے کے اندر داخل ہوا تھا
اس کا غصہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا
وہ سیدھا زری کے کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔
وہ کھلے بال شانوں پہ پھیلاۓ سابقہ لباس میں شیشے کے سامنے کھڑی کنگی کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔
یکدم کنگی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کے گر گٸ۔۔۔۔
آٸینے میں وہ دیکھ سکتی تھی وہ پیچھے کھڑا تھا
اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا
وہ ہولے سے مسکرا کے وہی پلنگ پہ بیٹھ گیا
سنو ایک طواٸف پہ اتنا غرور نہیں جچتا۔۔۔۔۔
وہ اس کے قریب بیٹھ کہ آنکھوں میں ترخم لے کہ اسے دیکھ رہا تھا
لہجے میں تمسخر نمایاں تھا
وہ نظریں جھکاۓ بھی اس کے لہجے میں ذلت محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔
”میں طواٸف نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔“تم میری قیمت نہیں لگا سکتے۔۔۔۔۔“
وہ برہمی سے کہنے لگی
وہ وہی بیٹھا اس پری پیکر لڑکی کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
جو غصے میں بھی خوبصورت لگ رہی تھی
کوٹھے میں رہنے والی طواٸف ہی ہوتی ہے ۔۔۔۔میری جان شاید یہ تمہیں کسی نے بتایا نہیں۔۔۔۔۔۔؟
وہ لاپرواٸی سے کہتا ہوا اس کے مقابل کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔
”میں کوٹھے پہ رہتی ضرور ہوں لیکن میں طواٸف نہیں ہوں میری قسمت مجھے یہاں لے آٸی تھی۔۔۔۔۔لیکن میں نے آج تک کسی کے سامنے رقص نہیں کیا
وہ روہانسی ہوتے ہوۓ کمزور لہجے میں بولی۔۔۔۔۔
اسے ایک سیکنڈ کے لیے سامنے کھڑی اس لڑکی پہ ترس آیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے اسے وہ طمانچہ یاد آیا تھا جو اس نے اس کے منہ پہ دے مارا تھا۔۔۔۔۔
”ہاں ہاں یہ ٹھیک ہے تم نے کسی کے سامنے رقص نہیں کیا نا تم کوٹھے میں رہتے ہوۓ بھی طواٸف نہیں ہو نا تمہاری آج تک کسی نے قیمت نہیں لگاٸی تمہیں اس بات پہ غرور ہے نا۔۔۔۔۔
اس نے کچھ اتنے ذور سے اس کا بازو پکڑا کہ چوڑیاں ٹوٹ کہ اس کا بازو اور وہاج کا ہاتھ بھی زخمی کر گٸ تھی
اس کی آنکھوں میں درد کے مارے پانی جمع ہونے لگا۔۔۔۔
اور وہاج کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا
”میری ایک بات کان کھول کے سن لو اب تم رقص بھی کرو گی اور تمہاری قیمت بھی لگے گی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔اور تمہاری قیمت میں لگاٶں گا ۔۔۔۔۔۔اب تمہیں وہاج خان پہ ہاتھ اٹھانے کا انجام پتہ چلے گا۔۔۔۔۔۔اور تمہیں بتاٶں گا کوٹھے پہ رہنے والی عورت اگر رقص نہ بھی کرے تو وہ طواٸف ہی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔تیار رہنا اس تھپڑ کی قیمت تمہیں چکانے پڑے گی۔۔۔۔
ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑ کے وہ تیزی سے باہر نکل گیا
اور وہ بے بسی سے اس جنونی انسان کو دیکھ کہ رہ گٸ۔۔۔۔۔۔