نیا نیا رنگ ہوا گھر بہت پیارا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔
“چڑیا کا گھر”
چھوٹے سے نکھرے نکھرے گھر کو دیکھ کر اسے جو خیال آیا وہ اس پر ہنس پڑی ۔۔۔۔۔
صبح کی رعنائی اپنے عروج پر تھی ۔۔۔۔ چائے کا آخری سپ لے کر اس نے ایک گہری سانس بھری تھی ۔۔۔۔ وہ اس ماحول کو اپنے اندر اتارنا چاہتی تھی مگر باہر سے آتی گٹر اور کچرے کی بو ۔۔ اس کا مزاج بگاڑ گئی تھی ۔۔۔۔ برے ہوتے دل کے ساتھ وہ کچن میں گھسی تھی ۔۔۔۔ پہلے اپنا کپ دھو کر واپس رکھا پھر آٹے کے کنستر سے آٹا نکالنے لگی تھی ۔۔۔۔ پانی گرنے کی آواز پر چونک کر کچن سے باہر جھانکا ۔۔۔۔
“اسلام علیکم’صبح بخیر”
صحن میں لگے نلکے سے بالٹی میں پانی بھرتے ہوئے داود نے بڑا جاندار سلام کیا تھا ۔۔۔
منہ ہی منہ میں بڑ بڑا کر سلام کا جواب دیتی وہ پھر کچن میں گھسی تھی مگر لمحوں بعد چھپاک چھپاک پانی گرنے کی مستقل آواز پر پھر باہر نکلی صدمے کی کیفیت میں اسے دیکھ رہی تھی جو ننگا پنگا گھٹنو تک آتے کچھے میں ٹھنڈے پانی سے ہی غسل کر رہا تھا ۔۔۔ انداز میں عجلت تھی ۔۔ بری طرح گڑبڑا کر اس کی طرف پشت کرتی وہ بھینچی آواز میں چلائی تھی ۔۔۔۔ “آپ یہاں کیوں نہا رہے ہیں؟ آپ کو شرم نہیں آ رہی” ؟
“تمہیں آ رہی ہے تو چلی جائو یہاں سے ۔۔۔ میں تو یہاں ایسے ہی نہاتا ہوں” ۔۔۔۔
“آپ واش روم میں کیوں نہیں نہا لیتے” ؟
خولہ کی حیرت ہی ختم نہیں ہو رہی تھی ۔۔
“کیونکہ وہ واش روم ہے ۔۔۔ اور صرف و صرف واش روم ہے” !
“جب اجیہ کو مسئلہ ہو سکتا ہے تو اس لمبے تڑنگے کو کیوں نہیں” ۔۔۔۔
اس دن کی اجیہ کی بات ذہن میں آنے پر وہ سر جھٹک کر چلی جانا چاہتی تھی مگر نظریں اس خاتون پر پڑ گئیں جو اپنی اونچی دیوا پر ٹنگی ان ہی کے گھر میں جھانک رہی تھیں ۔۔۔۔۔
پھیلتی آنکھوں کے ساتھ اس نے ان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تھا ۔۔۔ اور اگلے ہی پل اس کی غیرت نے جوش مارا تھا ۔۔۔۔
“کیا مسئلہ ہے آنٹی” ؟
آنکھوں سے شیمپو کا جھاگ ہٹا کر داود نے چونک کے اس کے مخاطب کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ وہ جو کوئی بھی تھیں ۔۔۔۔ تیزی سے پیچھے ہو چکی تھیں ۔۔۔۔
بے ساختہ ہی اس کے حلق سے قہقہ نکلا تھا ۔۔۔۔
“ہنسی تو بڑی آ رہی ہے ۔۔۔ مگر شرم نہیں آ رہی” !
بڑبڑاتی ہوئی وہ بند آنکھوں کے ساتھ بمشکل پلنگ گھسیٹ کر اس کے آگے کھڑا کرتی اس کے مزید ہنسنے کا سامان کر رہی تھی ۔۔۔۔
“جیلس ہو رہی ہو” ؟
“جیلس ہوتی ہے میری جوتی ! ایک چیز شرم بھی ہوتی ہے” ۔۔۔۔
اچھا واقعی ؟ کس رنگ کی ہوتی ہے ؟ اور کیا میں غریب افورڈ کر سکتا ہوں” ؟
جواباً کچن میں کچھ بہت زور سے پٹخا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
********
گیلے بالوں کو انگلیوں سے سنوارتا وہ پلنگ پر بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔ آتی جاتی نرم سی دھوپ اس کے کانپتے وجود پر کوئی اسر نہیں کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
چائے کی طلب شدید تھی مگر وہ خولہ کی کچن میں موجوگی میں وہاں جا کر اپنا سر نہیں تڑوانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔
اسے ناشتے کی ٹرے اٹھائے آتے دیکھ کر وہ بھی اٹھنے لگا تھا مگر حیرت زدہ سا اسے ٹرے اپنے سامنے رکھ کر واپس مڑتے دیکھ کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔
“آہم! یہ میرے لیئے ہے” ؟
“نہیں’ان ہی چھت والی آنٹی کے لیئے” ۔۔۔۔
“تم نے بنایا ہے” ؟
“نہیں ان ہی چھت والی آنٹی نے” ۔۔
وہ بمشکل اپنی ہنسی روک پایا تھا ۔۔۔
“لگتآ ہے چھت والی آنٹی کو دل پر لے لیا ہے”!
جب تک وہ اپنا ناشتہ اور چائے لے کر آئی وہ اپنا ناشتہ ختم کر چکا تھا ۔۔۔۔
“سنو ! اگر میری جانے کے بعد محلے سے کوئی آنٹی وغیرہ ملنے آئیں تو پلیز ان سے اچھے طریقے سے ملنا”
چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے وہ منتی سے انداز میں بولا تھا ۔۔۔
“اگر وہ آنٹیاں بھی مجھے ان ہی چھت والی آنٹی جیسی لگیں تو صاف صاف منہ پر نکل جانے کو کہ دونگی میں” ۔۔۔۔
خولہ کا انداز قطعی تھا ۔۔۔
“اور تمہیں کیسے اندازہ ہوگا کہ وہ بھی ویسی ہی ہیں” ۔۔۔۔
“باتوں سے اندازہ ہو جاتا ہے ۔۔۔ نادان نہیں ہوں میں ۔۔۔۔۔
ویسے مجھے یہ علاقہ کچھ “سہی” قسم کا نہیں لگا”
” اے ! یوں مت بولو ۔۔۔ یہاں کی اکثر آنٹیوں نے بہت مدد کی ہے میری نانی کی مجھے پالنے میں ۔۔۔۔ ماں سمعان ہیں تقریباً سب ہی”
داود کو اس کی یہ بات کچھ پسند نہیں آئی تھی تبھی لہجے میں خفگی نمایاں تھی
“اچھا”
خولہ کے انداز میں کچھ تھا کہ وہ چونک کے اسے دیکھنے لگا تھا ۔۔۔۔۔
“کیا یہ ماں سمعان آنٹیاں ۔۔۔۔ گرمیوں کی گرم ترین دوپہر میں یا سردیوں کی سرد ترین راتوں میں تمہیں اپنے ذاتی کاموں کے لیئے دوڑاتی نہیں پھرتی تھیں ؟ با وجود اس کے’ کہ سب ہی کے گھروں میں تمہارے ہم عمر بچے موجود تھے” ۔۔۔۔ ؟
یہ بات اس نے کبھی نوٹ نہیں کی تھی ۔۔۔۔ ہاں مگر یہ حقیقت تھی ۔۔۔۔ اور اب’ اس گھڑی اسے اندازہ ہوا تھا کہ یہ ایک کڑوی حقیقت تھی ۔۔۔۔
بجھتے چہرے کے ساتھ اس نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا تھا ۔۔۔۔
مگر ہمت کر کے’ کچھ پر امید سا وہ پھر گویا ہوا تھا ۔۔۔
“یہ سب تم اپنی تائی امی وغیرہ کے رویے کے بل بوتے پر کہ رہی ہو نا ؟
سب ایک جیسے نہیں ہوتے !
اور بعض دفعہ تو اپنوں سے بڑھ کر پرائے اپنے لگتے ہیں” ۔۔۔
“کوئی کسی کا اپنا نہیں ہوتا ۔۔ دراصل پرایوں سے ہمیں کوئی امید نہیں ہوتی ۔۔۔ اس لیئے ان کا تھوڑا سا “اچھا” بھی ہمیں بہت لگتا ہے ۔۔۔۔
جبکہ اپنوں سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ۔۔۔ سو ان کا تھوڑا سا “برا” بھی ہمیں بہت لگتا ہے” !!
داود بے ساختہ مسکرایا ۔۔۔
“تو تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ تم نا شکری ہو” ؟
“جی نہیں ! میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ بلا وجہ کے احساسِ تشکر سے باہر نکل آئیں” ۔۔۔۔
“نا شکرے لوگ کبھی خوش نہیں رہتے ۔۔۔ اور تم اس بات کا چلتا پھرتا ثبوت ہو”
“ہنہ!”
تیزی سے برتن سمیٹ کر وہ پھر کچن میں گھس گئی تھی ۔۔۔۔
“ویسے مجھے یقین نہیں آ رہا ! “محل کی رانی” نے اتنا اچھا پراٹھا اور آملیٹ کیسے بنا لیا ؟”
“محل کی رانی نہیں محل کی ان چاہی ! سب آتا ہے مجھے” ۔۔۔
کچن سے آتی آواز پر کمرے کی طرف بڑھتے اس کے قدم ساکت ہوئے تھے ۔۔۔
“میری باتیں یاد کرنی شروع کر دی ہیں ۔۔۔ ایک دن مجھے بھی یاد کرنا شروع کر دے گی ۔۔ انشااللہ”
وہ پر یقین ہوا تھا۔ ۔۔
*******
چائے کا تیسرا کپ پیتے ہوئے وہ نرم گرم دھوپ سے لطف اندوز ہو رہی تھی جب اس کے فون نے گنگنانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔
فون کرنے والے کا نام پڑھ کر اس کا موڈ کچھ آف ہوا تھا ۔۔۔
“اسلام علیکم اجیہ باجی” ۔۔۔۔۔
“وعلیکم سلام ۔۔۔۔ کیسی ہو تم” ؟
“الللہ کا شکر ہے ۔۔۔۔۔ آپ کیسی ہیں ؟ اور باقی سب” ؟ (صبح صبح فون کیوں کیا ہے انہوں نے) دل ہی دل میں بڑبڑاتی خولہ کو اب چائے بھی کڑوی سی لگنے لگی تھی ۔۔۔۔۔
“یونہی ۔۔۔۔۔ کیا میں بغیر وجہ کے فون نہیں کر سکتی” ؟
“کر تو سکتی ہیں ۔۔۔۔ لیکن کبھی کیا نہیں آپ نے” ۔۔۔۔۔
اس کے صاف گوئی سے کہنے پر اجیہ کھکھلا کے ہنس پڑی تھی ۔۔۔۔۔
“وہ نہ ! میرے سسرال والوں نے آج سب گھر والوں کو رخصتی کی تاریخ طے کرنے کے لیئے بلوایا ہے” ۔۔۔۔۔
“مبارک ہو” !
“خیر مبارک ۔۔۔۔ اور پتہ ہے ! وجاہت کہ رہے تھے کہ ہنی مون پر ہم ورلڈ ٹور پر چلیں گے” ۔۔۔۔
(شروع ہو گئی ان کی) !
“اللہ جانا نصیب کرے”
“آمین ۔۔۔ میں نہ رات سے اللہ کا شکر ادا کر رہی ہوں ! کہ سبحان انکل نے میرج ہال پہلے ہی بک کروا لیا تھا ۔۔۔ یا کینسل نہیں کروا دیا ۔۔۔ ورنہ وجاہت وغیرہ کے سامنے کتنی انسلٹ ہو جات۔۔۔ کیونکہ داود بھائی تو شائد گلی میں ٹینٹ لگوا کر ولیمہ ارینج کرتے ۔۔۔۔ ہاہاہاہاہا !!! بائ دا وے ۔۔۔ تم لوگ ہنی مون پر کہاں جا رہے ہو؟ کم از کم کسی پارک میں تو چلے ہی جانا’ ہی ہی ہی !! کتنی فنی ہوں نہ میں؟”
“جہنم میں جائیں گے آپ چلیں گی ؟”
بھڑک کر کہتی وہ جزبات میں آ کر فون ہی آف کر چکی تھی ۔۔۔۔ “اللہ کرے وجاہت بھائی کا بزنس ڈوب جائے” ۔۔۔ ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ بآواز بلند بد دعا دے کر وہ دوپٹہ منہ پر رکھ کے چت پڑگئی تھی ۔۔۔
*******
“اسلام علیکم بھائی” ۔۔۔۔ ارباز کی طرف سے خود سے فون کیا گیا تھا ۔۔۔۔ سو وہ بڑبڑاتے سبحان سعید سے چھپتا چھپاتا اپنے کمرے میں پہنچا تھا ۔۔۔ “کب تک بل سے نکلنے کا ارادہ ہے” ؟
“بہت جلد نکلوں گا اور ایسا نکلوں گا کہ تجھے بل میں چھپنے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا” !
“فلحال تو آپ اپنی خیر منائیں” ۔۔۔
مزے سے کہ کر وہ جلانے والے انداز میں ہنسا تھا ۔۔۔۔
“چیونٹی کے بھی پر نکل آئے !! ابا کا بتائو ؟ کیسے مزاج شریف ہیں” “اماں تھوڑا سمجھا کر انہیں بمشکل رام کرتی ہیں کہ ان کا کوئی جاننے والا اچانک ہی انہیں یہ احساس دلا جاتا ہے کے آپکی غلطی کتنی بڑی تھی اور آپ کی وجہ سے ابا کو پرائی برادری میں کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی” ! معاز کے بتانے پر وہ تلملایا تھا ۔۔ “کون ہیں یہ لوگ ؟ انہیں گھر میں گھسنے مت دیا کرو” ۔۔۔۔
“بچوں والی بات کر رہے ہیں آپ بھائی! اچھا آپ کو پتا ہے ؟ داود بھائی کا گھر اتنا پیارا لگ رہا ہے ۔۔۔ اس میں ۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو ؟ لو ! فون کاٹ دیا” منہ بسور کر وہ پھر گیم آن کر چکا تھا ۔۔