رخصتی میں ابھی کچھ وقت درکار تھا وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہوگئی
دروازے پر دستک ہوئی تو وہ چوںکی
بیٹا زین آپ سے ملنا چاہتا ہے حمنہ بیگم نے کمرے میں اکر اطلاح دی !!!
وہ جو کسی گہری سوچ میں ڈوبی تھی انکی بات بے دھیانی سے سن رہی تھی چوںک کر حمنہ بیگم کی طرف دیکھنے لگی
آنٹی۔۔۔
مرہا من من قدم چلتی حمنہ بیگم کے مقابل کھڑی ہوگئی
مائین تو اولاد کو خوب اچھی طرح جانتی ہیںہیں نا ؟؟؟
حمنہ بیگم نے نا سمجھی سے مرہا کو دیکھا
آپ بھی جانتی ہیں کے یہ شادی کیوں ہوئی ۔۔۔۔اور مین بھی جانتی ہوں ۔۔۔۔۔
اور جس مقصد کے لیے یہ نکاح ہوا ہے وہ مقصد تو میرے نکاح نامے اور دستخط کرنے سے ہی پورا ہوگیا
۔مینے زین کی شرط کے مطابق وہ سب کیا جو اس کی مرضی تھی
لیکن ۔۔۔جہاں تک بات ملاقات کی ہے تو میں ملاقات نا کرنے کے لیے آپ کے بیٹے سے معذرت خواہ نہیں ہوںنا ہی میں اس سے ملنے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہوں
آپ اسے بتا دیں کے میں ….. اس سے ملنے کی خوائش مند نہیں ہوں لہذا اپنی ملاقاتیں وہ مجھ پر مسلط نا کرے یہ ہی بہتر ہے مرہا نے زور دے کر کہا
حمنہ بیگم بس مرہا کو دیکھتی رہ گئیں
پھر سر اثبات میں ہلاکر باہر چلی گئیں
مرہا نے گہری سانس لی
وہ جو مرہا سے ملاقات کرنے کے لیے بےتاب تھا حمنہ بیگم کو آتے دیکھ کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا
حمنہ بیگم نے نفی میں سر ہلایا
وہ مرہا کے اس ردعمل پر دانت پیس کر رہ گیا
دیکھ لونگا تمہیں۔۔۔
اس نے مرہا کو موبائل سے ٹیکسٹ کیا
ہونہ اور تمہیں آتا ہی کیا ہے زین آفتاب تمہارے ہر ردعمل کے لیے تیار ہوں میں بے فکر رہو مرہا نے جواب لکھ کر بیڈ سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں
مرہا سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی زین کو۔۔۔۔
رخصتی کا وقت ہوا تو شگفتہ بیگم نے مرہا کو اپنے ساتھ لپٹا کر اپنا ضبط کھو دیا مرہا نے سب سے ملتے وقت بہت ساری ضبط کے آنسو اپنے اندر اتارے
وہ زین کے سامنے اپنے آنسو ضایح نہیں کر سکتی تھی
لیکن آنسوں تو آنسوں ہوتے ہیں ان پر کہاں کسی کا اختیار ہوتا ہے اپنی مرضی سے پلکوں کی باڑ توڑ کر آجاتے ہیں
ایک ننھا سا آنسوں نکال کر مرہا کے گال پر لڑک گیا مرہا نے جلدی سے آنسوں پوھنچا ،،،کہیں زین نا دیکھ لے
لیکن کسی نے اس کا آنسوں دیکھ لیا تھا نا چاہتے ہوے بھی ۔۔۔ایک درد سا دل میں اٹھا تھا نا جانے کیوں مرہا کے آنسوں نے زین کو بے چین کیا تھا
وہ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا منتظر سا مرہا کے بیٹھنے کا انتظار کر رہ تھا مرہا بیٹھی تو اس نے کار سٹارٹ کر دی
مرہا نے وہی سرخ بڑا سا دوپٹہ اوڑھ لیا تھا جس میں اس کی چمکتی دودھیہ رنگت اور بھی کھل رہی تھی زین نے بیک ویو مرر میں مرہا کا چہرہ دیکھا
وہ جانتی تھی کے زین کی نظریں اسکی طرف ہی اٹھی ہوئی ہیں حمنہ بیگم کی موجودگی میں وہ کچھ نہ کر سکتی تھی البتہ ایک گھوری سے اسنے زین کو نوازا !!!
دیکھ تو ایسے رہا ہے جیسے کبھی کچھ دیکھا ہی۔ نہیں بدتمیز کہیں سے بھی کسی شریف ماں کا بیٹا نہیں لگتا مرہا نے دل ہی دل میں زین کی گہری نظروں سے عاجز آکر زین کو کھری کھوٹی سنائی
مرہا کے گھورنے پر اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ رینگ گئی اس نے توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کر لی
گاڑی ایک شاندار تین منزلہ گھر کے سامنے رکی خوبصورتی سے آرہیستا گھر ایک محل کی طرح معلوم ہوتا تھا گاڑی آتے دیکھ کر گارڈ نے بیرونی دروازہ کھول دیا
پورا گھر لائٹس سے روشن تھا حمنہ بیگم کے ہمراہ وہ کار سے نیچے اتری
گھر جتنا باہر سے خوبصورت تھا اندر سے بھی اتنا ہی خوبصورت تھا مرہا نے ستائش بھری نظروں سے گھر کو دیکھا
حمنہ بیگم مرہا کو لیے اوپر والے کمروں کی طرف لے گئی
مرہا کو وہ دھیمی آواز میں کچھ کہ رہیں تھی لیکن وہ سن نہیں۔ رہی تھی سننے والی حس مفلوج ہوگئی تھی
کمرہ خوبصورت اور صاف ستھرا تھا سامنے وال پر فیملی فوٹو لگی ہوئی تھی مرہا نے گہری سانس لی
حمنہ بیگم نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئی
بیٹا !!! حمنہ بیگم نے مرہا کو شانو سے تھام لیا
مجھے معاف کردو زین نے تمہارے ساتھ جو کیا بہت برا کیا !! وہ دل کا برا نہیں ہے بس بہن کے لیے تھوڑا جذباتی ہے حمنہ بیگم نے مرہا کے ہاتھ ہونے ہاتھوں میں لے لیے
مرہا استہازا ہنسی
برا کوئی بھی نہیں ہوتا انٹی بس کسی کسی کے ساتھ برا ہوجاتا ہے
برے وقت میں بھی کوئی نا کوئی حکمت ہوتی ہے بیٹا آپ تو بہت بہادر ہیں اتنی بڑی قربانی آپ نے دی ہے یہ ہر کوئی تو نہیں کر سکتا نا
مرہا خاموشی سے سنے گئی
چلو میں تمہیں اپنے روم میں چھوڑ آؤں
مرہا نے جھکا سر اٹھایا
انٹی میں اس روم میں نہیں جا سکتی کیوں نہیں
جاسکتی یہ وجہہ آپ کو معلوم ہے ویسے بھی زین نے صرف بدلے کے لیے مجھسے نکاح کیا محبت کی وجہہ سے نہیں !!
میں اس کے روم مین نہیں جاؤنگی مرہا نے دی ٹوک انداز میں کہا
ٹھیک ہے بیٹا میں آپ کے ساتھ زبر دستی نہیں کرتی آپ اج سے اس روم میں رہنا ٹھیک !!!
اب جا کر چینج کر لو تھک گئی ہوگی نا؟؟ حمنہ بیگم نے مرہا کے گال پر ہاتھ رکھا
مرہا نے سر ہلایہ
وہ کمرے میں آیا ٹھٹکا تو کمرہ خالی تھا کمرے میں کوئی نہیں تھی
زین نے وارڈروپ سے کپڑے نکالے اور چینج کرنے چلا . گیا
وہ روم میں آیا تو کمرہ ہنوز خالی تھا زین کو اجنبھا ہوا
یہ کہاں چلی گئی؟؟ زین می گیلا ٹاول صوفے پر پھینکا اور کمرے سے باہر نکل آیا
اسے غصہ آنے لگا تھا مرہا اسے کہیں نظر نہیں آ رہی تھی
وہ پیر پٹہختا حمنہ بیگم کے روم کی طرف بڑھا
ماں !!! مرہا ۔۔۔۔اسکے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے سامنے ڈریسنگ مرر کے سامنے وہ دشمن جان بیٹھی بالوں میں برش پھیررہی تھی
زین نے سینے پر بازو لپیٹ لیے
کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ تم روم میں کیوں نہیں آئ ؟؟؟
جواب نادارد !!!
تم سے بات کر رہا ہوں میں سنائی نہیں دیتا تمہیں زین نے چلا کر کھا
سن رہی ہوں بہری نہیں ہوں آہستہ بولو
مرہا نے سکوں سے جواب دیا
زین بیچ وتاب کھا کر رہ گیا
میرے سوال کا جواب دو ”’
مرہا ڈریسنگ ٹیبل سے خاموشی سے اٹھی اور بیڈ کی طرف بڑھی
زین نے بھرتی سے اسکا بازو جکڑ لیا اور کھینچ کر اسے اپنے قریب کیا مرہا کو اس ردعمل کی توقح نہیں تھی تبھی زین کے چھوڑے سینے سے لگتے لگتے بچی
کیا بدتمیزی ہے یہ ۔۔؟؟
مرہا نے زین کو ڈبٹا !!
اچھا یہ بدتمیزی ہے تم کرو تو سہی میں کروں تو بدتمیزی؟؟
زین کے ہاتھ مظبوطی سے مرہا کے بازو پر جمے تھے
دور رہ کر بات کرواوکے زین کی قربت نے مرہا کی آواز میں لچک پیدا کر رہی تھی
مرہا کی سانسیں تیز ہونے لگی
گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی
مرہا نے کھا جانے والی نظروں سے زین کو گھورا
اف ایسے نہ مجھے تم دیکھو ۔۔۔۔سیںے سے ۔۔۔ زین کے الفاظ منہ میں رہ گئے
کیوں کے مرہا نے زین کے ہاتھ پر پھر سے دانت گاڑھے تھے
اففف کیا اگلے جنم میں جنگلی بلی تھی تم ؟؟؟زین نے ہاتھ سہلایا
اپنی بکواس اپنے تک محدود رکھو سمجھے مرہا نے انگلی اٹھا کر وارن کیا
اچھا اور اگر میں ایسا نہ کروں تو ؟؟؟
تو میری بلا سے جہنم میں جاؤ مرہا نے چبا کر کہا
زین کا قهقا بلند ہوا
مرہا دانت پیس کر رہ گئی اسے زہر لگتا تھا زین کا ہنسنا
بہت ہوگیا اب چلو روم میں زین نے سنجیدگی سے حکم صادر کیا
مرہا نے رخ موڑلیا
مینے کچھ کہا ہے زین نے زور دے کر کہا
تمہارا حکم ماننے کی پابند نہیں ہوں میں سمجھے؟
اپنی حد میں رہو بھولی نہیں ہوں میں تم نے جو کچھ بھی میرے ساتھ کیا ہے
زین بس ہونٹ بھینچے مرہا کو دیکھتا رہ گیا اسنے کیسے ماں لیا کے مرہا سب کچھ بھلا کر زین کے ساتھ چل دیگی
اسنے مرہا کو پا تو لیا تھا لیکن حاصل ۔۔۔نہیں کر سکا تھا
اور آئندہ مجھ پر حکم مت چلانا سمجھے تم اور تمہارے ساتھ میرا رشتہ صرف ایک ڈیل ہے
اسے ڈیل ہی رہنے دو آئ سمجھ
زین بس ضبط کے گھونٹ بھر کر رہ گیا
وہ کمرے میں آیا تو زور سے دیوار پر ہاتھ مارا
مرہا نے بے اختیار دروازہ بند کیا اور منہ اور ہاتھ رکھے اپنی سسکی کا گلہ گھونٹا
کہنے کو زین نے نکاح کر لیا تھا لیکن وہ یہ بات جان گیا تھا کے مرہا کو وہ حاصل نہیں کر پایا
وہ ہوش میں آیا تو چہرے پر ہاتھ پھیر کر اٹھا اسے اب گھر جانا تھا
کار میں بیٹھا تو اسے وہی الفاظ سنائی دینے لگے
قبول ہے قبول ہے قبول ہے !!!
عریش نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں اور خود کو کمپوز کر کے گاڑی سٹارٹ کر لی
اس کا دل رو رہا تھا تڑپ رہا تھا ایک سوگ سا تھا اسکی دھڑکنوں میں جو اس وقت اس کا دل منا راہ تھا
اپنی محبت کو اپنی آنکھوں کے سامنے کسی اور کا ہوتا دیکھنا کتنا درددیتا ہے کتنی اذیت دیتا ہے یہ کوئی عریش سے پوچھتا
کچھ ہی پلوں میں اس کی زندگی سے ساری رنگ ہٹ گئے تھے صرف ایک رنگ باکی تھا
“”سیاہ رنگ “”
اس کی زندگی میں صرف اندھیرا تھا جو پھیلتا جا رہ تھا اس اندھیرے نے اب پھیلنہ ہی تھا آخر محبت سے ہارے شخص نے اور کرنا بھی کیا تھا
اپنے محبوب کے لیے صرف آنسوں ہی بہانے تھے
اس نے گھر کے سامنے گاڑی روکی اور تاروں سے سجے آسمان کو دیکھا جو خاموشی سے اس کی اجڑی دنیا کے بارے میں سوال کر رہے تھے
بیٹا اتنی دیر سے کہاں تھے آپ عذرا نے آتے ہی سوال کیا
کچھ لینے گیا تھا لیکن مجھسے پہلے کوئی اور وہ لے گیا عریش نے ٹوٹی ہوئی آواز میں جواب دیا
عذرا بیگم کو کچھ سمجھ نہ آیا
وہ کہ کر ہونے کمرے میں چلا گیا پیچھے سے عذرا بیگم اسکو پکارتی رہ گئیں
اسے کیا ہوا؟ ایسی بہکی بہکی باتیں کیوں کر رہا تھا عذرا بیگم نے مناہل کی طرف دیکھ کر پوچھا
مناہل اپنے بھائی کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی عذرا بیگم کو اسنے کوئی جواب نہیں دیا
صبح کی سنہری دھوپ کھڑکیوں سے اندر آئ تو مرہا کی آنکھیں چھندیا گئیں اسنے بے اختیار آنکھوں پر ہاتھ رکھا
اف خدایا فجر قضا ہوگئی اتنی دیر کیسے سوتی رہی میں مرہا نے بلنکٹ پھینکا اور واشروم میں گھس گئی
ٹی پنک سوٹ پر ہم رنگ دوپٹہ شانو پر پھیلاے
اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے اآئینے میں اپنا عکس دیکھا
ہلکا سا کاجل لگایا اور کمرے سے باہر آ گئی
نیچے لان میں سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے مرہا بھی نیچے جانے لگی زین کیوں کے وہاں موجود نہیں تھا مرہا نے سکوں کا سانس لیا اور نیچے جانے کے لیے قدم بڑھاے
کہاں جا رہی ہو ؟؟تبھی کمرے سے زین نکلا اور سامنے ہوکر پوچھنے لگا
مرہا کی پشت سیڑیوں کی طرف تھی اور زین کا رخ سیڑیوں کی طرف تھا
میری مرضی جہاں بھی جاؤں
مرہا نے بگڑے موڈ سے کہا
اس ک موڈ خاصا خراب ہوا تھا زین کو دیکھ کر جو وائٹ شلوار کمیز کی استیں کہنیوں تک موڑے بالوں کو برش سے سیٹ کیے فریش سا مرہا کے سامنے کھڑا تھا
تم سہی طریقے سی جواب کیوں نہیں دیتی ہاں زین آگے ہوا مرہا پیچھے ہوئی تبھی اسکا پاؤں سلپ ہوا
وہ پیچھے ہوئی
امی !!!!!!!
مرہا کے منہ سے چیخ برآمد ہوئی اس نے سختی سی آنکھیں میچ لیں
سدا شکر کے زین نےوقت پر اس کی کلائی مظبوطی سے تھام لی وہ گرتے گرتے بچی زین نےاسے اوپر کھینچا
جس کی وجھہ سے مرہا کا سر زین کے سینے سے لگا
ایک پل کے لیے تو وہ بوکھلا گئی کچھ سمجھ ہی نہیں آیا اسے کے کیا ہورہا ہے اس نے رخ موڑ کے سیڑیوں کی طرف دیکھا اس کا چہرہ سفید پڑنے لگا پھر اسنے اپنی کلائی دیکھی جو ابھی تک زین کی گرفت میں تھی
مرہا نے تھوک ھوں نگلا م
زین نے گہری سانس لی اور مرہا کو خود سی قریب کیا
دھیان رکھا کرو ہر بار میں نہیں بچانے آؤنگا تمہیں ۔۔تمہیں خود کو خود اٹھانا ہوگا کہ کر وہ سیڑیوں کی جانب نیچے بڑھ گیا
مجھے گرانے والے بھی تو آپ ہیں مرہا کہ کر کمرے میں چلی گئی
زین کے قدم وہیں جامد ہو گئے
اس نے مڑ کر دیکھا وہ وہاں نہیں تھی
ایک درد تھا جو زین کو ہوا تھا کچھ چبہنے کا درد !!!
بیٹا اب تمہاری طبیت کیسی ہے ؟؟
عذرا بیگم نے ناشتے کی ٹرے بیڈ پڑ رکھتے ہوے عریش سی پوچھا
مجھے نہیں پتا امی!!
عریش نے کھوے ہوے انداز میں کھا
سب ٹھیک تو ہے نہ بیٹا ؟؟ کوئی مسلہ ہے تو اپنی ماں کو بتاؤ عذرا نے پریشانی سے اپنے بیٹے کو دیکھا
ہاں امی اب سب ٹھیک ہے اس نے منصوئی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر جوب دیا
عذرا کو اسکی مسکراہٹ بے جان اور بناوٹی لگی
ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہہ سی اس کے بیٹے کا یہ حال ہوگیا تھا عذرا کو فکر لاحق ہوئی
بیٹا ایک بات مانوگے میری
جی امی بولیں ”
عریش نے ساعتمندی سی کھا
تم شادی کرلو _ آخر کب تک ایسے بیٹھے رہوگے تمہاری عمر کے لڑکوں کی تو شادی کے بعد بچے ہونے لگے ہیں اور تم بھی تک بیٹھے ہو
شادی !!؟؟ عریش کے سامنے ایک چہرہ لہرایا
اس نے دھیرے سے سر عذرا بیگم کی گود میں رکھ دیا
آپ کی جہاں مرضی ہو کر دیں شادی
عذرا بیگم کو اسے اس جواب کی امید نہیں تھی
تم؟ ؟ مذاق کر رھے ہو نہ ؟؟
میں سچ کہ رہا ہوں امی ایک ہفتہ ہے آپ کے پاس آپ جہاں چاہے میری شادی کر لیں اس کے بعد مجھے مت کہئے گا عریش نے دو ٹوک انداز میں اپنا حتمہ فیصلہ سنایا
عذرا کا بس نہیں چل رہا ٹھ کے ابھی اپنے بیٹے کو دولہا بنا لے خوشی سی اس کی آنکھیں لبریز ہوگئین بے اختیار اس نے عریش کو گلے لگایا
سلمہ (عذرا کی بھابھی)کی بیٹی مہوش کا رشتہ آیا تھا تمھرے لیے میں تو کب سے تیار تھی بس تمہاری مرضی کا انتظار کر رہی تھی دیکھنا میں تو دھوم دھام سے شادی کرونگی ایک ایک خوائش پوری کرونگی آخر میرے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے خوشی اتنی تھی کے عذرا بیگم بار بار عریش کا ماتھا چوم رہیں تھین
میں ابھی جاکر سلمہ کو ہاں کرتی ہوں عذرا بیگم خوشی سی پھولے نہیں سما رہیں تھیں
کسی کا ساتھ پانا بھی کبھی آسان نہیں ہوتا
کسی کے دور جانے سے یہ دل ویران نہیں ہوتا
وجہہ کچھ اور بھی مل جاتی ہے دنیا میں جینے کی
کسی کی آس پر جینا بھی تو آسان نہیں ہوتا
نصیبوں میں ہی نہ لکھا ہی تو وہ کیسے مل جاۓ
کہیں نہ چین آے تو کیا کریں ؟؟
یہ دل جو رو رہا ہے تو کہیں سے صبر مل جاۓ
ہوے جو بد گمان ہم تو کیا کریں؟ ؟
یہ ممکن تو نہیں جو دل نے چاہا تھا وہ مل جاۓ
کوئی امید ٹوٹے تو کیا کریں ؟؟؟
شام کا وقت تھا وہ ایک ہی روم میں بیٹھے بیٹھے اکتا گئی تھی اسنے دوپٹہ درست کیا اور ہاف بالوں میں کیچر لگا کر نیچے لان میں بیٹھ نے کا سوچا
لان میں سے قهووں کے آواز پر وہ چوںکی
حمنہ بیگم کسی لڑکی کے ساتھ بہت ہی ہنسی خوشی بات کر رہی تھی
دراز قد بڑی بڑی سیاہ آنکھیں سرخ سفید رنگت بالوں کو جوڑے میں باندھے ایک خوش شکل لڑکی کو وہ دیکھ کر ٹھٹکی !!!
حمنہ بیگم نے جیسے ہی مرہا کو دیکھا بے اختیار اس کی طرف بڑھی
آؤ بیٹا تمہیں میں ایک مہمان سی مل واؤن حمنہ بیگم نے مرہا کو اس لڑکی کے ساتھ بٹھایا
مرہا جھکتی ہوئی ساتھ بیٹھ گئی
یہ لاریب ہے _میری دوسری بیٹی حمنہ بیگم نے خوش دلی سے بتایا
بیٹی؟
مرہا نے زیرلب دوہرایا
جی بھابھی اور آپ کی نند لاریب نے مسکرا کر کہا
وہ بہت باتوںی اور ھسمک لڑکی تھی کہیں سی بھی نہیں لگتا تھا کے پہلی بار کسی سی مل رہی ہے مرہا کا دل بھی لاریب سی بات کر کے ہلکا ہوگیا
لاریب اٹھ کر اپنے روم میں چلی گئی تو مرہا بھی کچن میں حمنہ بیگم کے پاس چلی گئی
آؤ بیٹا آؤ کیسی ہے میری بیٹی ؟؟؟
اچھی ہوں انٹی مرہا نے کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھ گئی
اصل میں یسرا اور لاریب ٹوئنز ہیں یسرا یہاں میرے پاس رہی اور لاریب میری بہن کے پاس کیوں کے میری بہن کی کوئی بیٹی نہیں تھی نہ حمنہ بیگم نے اسکی کنفیوژن دور کی
یسرا سے کافی مختلف ہے نہ لاریب ؟؟حمنہ بیگم نے پھر سے سوال کیا
ارے تم نے تو دیکھا ہی نہیں یسرا کو میں بھی نہ حمنہ نے ماتھے پر ہاتھ مارا
کیا بات ہے بہی لگتا ہے بہو اور ساس کی خوب جم رہی ہے آپس میں ؟؟زین نے آتے ہی ہانگ لگائی
مرہا کا حلق تک کڑوا ہوگیا زین کو دیکھ کر
ارے وہ آپ بھی یہیں ہیں زین نے ایسے مسکرا کر مرہا کو دیکھا جیسے مانو انکی شادی بہت خوشی سی ہوئی ہے
لیکن ہائے ری قسمت سوچنے سیے کہاں کچھ بدلتا ہے
میں بنا دیتا ہوں نہ امی چائے آخر کو میری بیوی ہے یہ زین نے ابرو اٹھا کر مرہا کو دیکھا
مرہا اٹھ کھڑی ہوئی
زہر تو میری زندگی میں کھول دیا ہے آپنے اب اس خدمت سے اس زہر کو کم کرنے کی زحمت نا کریں مرہا جل کر کہتی باہر چلی گئی حمنہ بیگم نے تاسف سے زین کو دیکھا
رات کا کھانا بھی مرہا نے اپنے روم میں کھایا ایک چبھن تھی جو اس کے دل میں اٹھ رہی تھی ایک بے سکونی تھی جو اسکی روح میں اتر رہی تھی
وہاں پر زین اپنے روم میں بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا بار بار دروازہ نوک کرنے سے بھی مرہا نے دروازہ نہیں کھولا تھا مرہا کی ناراضگی اس کے لیے نفرت غصہ زین کو بچیں اور بے سکون کر رہا تھا
ہم دوسروں کا دل دکھا کر انکو تکلیف دے کر یہ کیسے سمجھ لیتے ہیں کے ہمارا سوری کرنا انکی اذیت کو کم کر دیگا مافیان قبول ہوجاتی ہیں لیکن کسی نے آپ کے ساتھ جو برا کیا وہ درد ایک کانٹے کی طرح آپ کے دل آپ کی روح میں اٹک جاتا ہے پھر جن کے دل پر ہمنے تکلیفوں کے کانٹے بو دئے ہوں ان کے دل پر محبت کے پھول کہاں سے کھلینگے ؟؟؟
چه دں بعد عریش کا نکاح تھا اور شادی کی تیاریان بہت زور و شور سی جاری تھیں عریش کم ہی گھر آتا تھا بھلا جو اجڑ جاتے ہیں انکا دل ان محفلوں میں کہاں لگتا ہے وہ اجڑے دل والے تو تنہائ پسند ہوتے ہیں انکی دنیا تو تاریکی ہوتی ہے انکا روشنیوں میں دل کہاں بھاتا ہے محبت سے ہارے لوگوں کا تو دل ہی مر جاتا ہے ۔۔۔۔
جانتی ہو مینے سوچا تھاکے واپس آکر تمہیں اپنی زندگی میں شامل کر لونگا کیوں کے میری دھڑکنو میں تو پہلے ہی تم بس چکی تھی میرے حواسوں پر تو پہلے ہی تمہارا اختیار تھا لیکن میں ۔۔۔۔بھول گیا تھا کے ہمارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا محبت تو قسمت والوں کو ملتی ہے کسی کو بن مانگے مل جاتی ہے تو کسی کے تڑپنے بلکنے پر نہیں ملتی
مینے ایک بات سیکھ لی ہے مرہا اس نے مرہا کی تصویر کو آگے کیا جو شادی کی تکریب میں کھینچی تھی
مینے یہ سیکھا ہے کے جنکا ملنا قسمت میں نہ لکھا ہوتا نہ انہی سے محبت باخدا کمال کی ہوتی ہے ایک ننھا سا آنسوں عریش کی آنکھ سی نکال کر مرہا کی تصویر پر لڑک گیا
اس نے اپنے جذبات کا گلہ گھونٹ کر مرہا کی تصویر ڈیلیٹ کر دی
ٹوٹے دل اور بکھرے وجود والا وہ شخص آنکھوں میں نمی لیے اپنی محبت کا سوگ منہ رہا تھا
تم کسی اور کے ہو اب سہا مجھسے نہیں جاتا
مجھے جو درد ہوتا ہے کہا مجھسے نہیں جاتا
جیسے کوئی فرش پڑ ٹوٹ کے شیشہ بکھر جاتا ہے
ویسے ٹوٹا ہوا دل اپنا نظر آتا ہے
مرہا بیٹا حمنہ بیگم نے دروازے پر دستک دی
مرہا نے اٹھ کر دروازہ کھولا
آئین انٹی اسنے سائیڈ پر ہوکر حمنہ بیگم کو راستہ دیا
اللہ خوش رکھے میری بچی تمہیں حمنہ نے مرہا کا ماتھا چوما مرہا کو بے اختیار شگفتہ بیگم کی یاد آئ وہ نم آنکھوں سی مسکرا دی
ہاں امی بھابھی تو خوش رہینگی ہی آخر میرے اتنے سوہنے بھائی جو ملے ہیں انکو
لاریب نے مرہا کو چھیڑا
ہونہ سوہینہ مائے فٹ مرہا کا حلق تک زین کے ذکر پر کڑوا ہوگیا
اصل میں بیٹا کل میری بہن کی فیملی آرہی ہے کل تمہارا اور زین کا ولیمے کا فنکشن ہے نہ تم فکر مت کرو بیوٹیشن کو مینے بلوا لیا ہے وہ تمہیں آکر ریڈی کر دیگی بس تم تیار رہنا حمنہ نے مرہا کے سر پر ہاتھ رکھا
مرہا نے نہ چاہتے ہوے بھی ہاں کہ دی اسے ہاں کہنا ہی تھا سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق تو نہیں ہوتا نہ مرہا نے سوچ کر سر جھٹکا
سبھا ہوئی تو مرہا کی آنکھ الارم کی آواز اور کھلی اسنے بلنکٹ ہٹایا اور نماز کے لیے وضو کرنے چلی گئی پندرہ منٹ کے بد وہ نماز سی فارغ ہوئی تو جانماز فولڈ کرکے شیلف میں رکھی اور دوپٹہ کندھوں پر پھیلا کر کمرے سے باہر آ گئی
زین کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا
یہ اس وقت اٹھتا ہے؟؟ مرہا کوشعبہ ہوا
وہ اپنی دھن میں چلی جا رہی تھی تبھی اسکا سر زور سے کسی کے مضبوط سینے سے ٹکرایا
آہ !!!! مرہا نے سر پکڑ لیا سامنے زین کھڑا تھا سفید شلوار کمیز پہنے کندھوں پر سیاہ شال ڈالے گہری نظروں سے مرہا کو دیکھ رہا تھا
مرہا نے ہوش سمبھالا اور زین سے دور ہوئی
وہ بس مسکرا کر رہ گیا
ہونہ بدتمیز بار بار ٹکرا جاتا ہے مرہا نے دل ہی دل میں جل کر زین کو سنائی
تکریبن 9:30_ بجے بیوٹیشن آ گئی تھی مرہا کا دل بلکل نہیں چاہ رہا تھا تیار ہونے کو بے دلی سیے وہ تیار ہونے کے لیے ماں گئی
بی بی جی یہ آپ کا ڈریس ملازما نے ایک بڑا سا شاپر مرہا کی طرف بڑھایا
جس میں اس کا آج کا ولیمے کا ڈریس تھا مرہا نے ڈریس اٹھایا اور واشروم چینج کرنے چلی گئی
بیوٹیشن نے دو گھنٹے بد اسے تیار کیا سب لوگ تیار تھے بس مرہا کا انتظار کر رھے تھے
ماشااللہ ماشاءالله بھابھی آپ بہت ہی پیاری لگ رہی ہیں قسم سے بھائی تو آج گئے کام سے لاریب نے مرہا کو دیکھ کر دل سے اسکی تعریف کی
بیٹا واقعی بہت پیاری لگ رہی ہو حمنہ نے مرہا کی بالاعین لیں
بیوٹیشن جا چکی تھی لاریب بھی نیچے چلی گئی تھی کمرے میں صرف حمنہ اور مرہا تھے
انٹی میں آپ کے ساتھ چلوں گی زین کی گاڑی میں۔ میں نہیں جاؤنگی مرہا نے حمنہ کا ہاتھ تھام لیا
لیکن بیٹا باہر مہمان کیا کہیںگے
میں نہیں جنتی اگر میں زین کے ساتھ گئی تو پھر مجھے نہیں جانا کہیں میں نہیں چلوں گی مرہا نے حتمہ انداز میں کھا
ٹھیک ہے بیٹا تم ہمارے ساتھ چلنا میں زین کو بتا دوں ذرا وہ سلک کی ساڑہی کا پلو سمبھالے باہر نکل گئیں
مرہا نے گہری سانس لی
حمنہ بیگم نے جیسے ہی زین کو بتایا زین نے سختی سے مٹھیان بہنچ لیں روانگی کے لیے لیٹ ہورہی تھی اور وہ مرہا کی ضد کو جانتا تھا اس لیے خاموشی سے اسنے کار سٹارٹ کی اور ہال کی طرف بڑھ گیا
حمنہ بیگم کے ہمراہ وہ ان کے ساتھ کار میں بیٹھی
کار اپنے سفر کو پوھنچی اس نے بے اختیار سکھ کا سانس لیا سدا شکر اس کو زین سے کچھ وقت کے لیے چھٹکارا ملا مرہا نے دل ہی دل میں شکر کیا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...