شام ہوتے ہوتے اس نے اپنا کام مکمل کر لیا۔ ہفتوں کی مسلسل مشقت کے بعد اس کی زمین کاشت ہو گئی تھی۔ اب اس کاشت شدہ زمین پر تخم پاشی کا عمل ہی باقی رہ گیا تھا۔ مٹی سے آلودہ اپنے جسم کو تکتے ہوئے اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ مٹی کے لمس کا بھی ایک اپنا اور گہرا نشہ ہوتا ہے جو مشام جاں میں پہنچ کر روح کو سرشار کر دیتا ہے۔ اس کے لیے کاشتکاری محض ایک کام نہیں تھا بلکہ ایک عبادت تھی۔ ایسی عبادت جو ہر بار اسے ایک نئی اور انوکھی لذت سے ہم کنار کرتی۔ زمین کے کئی روپ ہوتے ہیں اور وہ ہر مرتبہ ایک نئے روپ سے آشنا ہوتا۔ کاشت کی گئی نرم زمین میں جب اس کے پاؤں ٹخنوں تک پیوست ہو جاتے اور زمین گہری وارفتگی میں ان پر اپنے ہونٹ ثبت کرتی تو اس کے رگ وپے میں لطیف سی سہرن دوڑ جاتی اور وہ از خود رفتہ ہو جاتا۔
اس نے زمین کے وسط میں کھڑے ہو کر چہار سمت طمانیت بھری نگاہیں دوڑائیں۔ تھوڑی سی زمین تھی تو کیا؟ اپنی تو تھی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ اس وقت زمین کے تمام اعضاء ڈھیلے اور نرم پڑچکے ہیں اور وہ گہری آسودگی کے عالم میں اس طرح بکھری پڑی ہے جیسے شب وصال کے بعد کوئی دوشیزہ محو خواب ہو۔
زمین، سحرآگیں زمین، اس کے تمام اسرار کس پر منکشف ہوتے ہیں۔ اس کے سحر میں گرفتار ہو کر کتنے ہی اس کے قرب کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن زمین خودسپردگی کے لیے جس قدر التفات اور وابستگی کی شرط رکھتی ہے اس پر کوئی کوئی ہی کھرا اترتا ہے۔ وہ اپنی خلوص آمیز فطرت سے مجبور ہو کر بانہیں تو سب کے لیے وا کرتی ہے لیکن دل کے نہاں خانے میں داخلے کی اجازت سبھی کو نہیں دیتی۔
اس کے والد نے وصال سے قبل اپنی طویل زندگی کے تجربوں سے حاصل کردہ علم اسے تفویض کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’زمین پر جبر نہ کرنا کہ زمین عورت کی طرح نرم و نازک اور حساس ہوتی ہے اور اسی کی مانند مقدس ہوتی ہے کہ تخلیقی عمل سے گزرتی ہے۔ جبر سے اس کی تخلیقی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے یا اس میں ایسا سقم آ جاتا ہے کہ اس کے شکم سے اگنے والے پودوں کی ہیئت ہی بدل جاتی ہے۔
زمین کی تذلیل نہ کرنا کہ زمین بڑی خود دار اور منتقم مزاج ہوتی ہے اور تذلیل کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ اگر کسی طرح وہ اس کی زد سے بچ جائیں تو ان کی نسل اس کے انتقام کی شکار ہوتی ہے۔‘‘
اپنی زمین پر گہرے سائے پڑتے دیکھ کر اس نے نگاہیں اوپر کیں۔ آسمان پر گہرے کالے بادل چھانے لگے تھے۔ اپنے سابقہ تجربوں کی بنیاد پر اس نے شناخت کیا کہ یہ برسنے والے بادل ہیں۔ ان کے استقبال میں وہ خوش دلی سے مسکرایا۔ اگر وہ کچھ دیر کھل کر برس جائیں تو زمین کی تکان اتر جائے گی۔
اس نے اپنے سامان کو سمیٹا، زمین پر محبت آمیز الوداعی نگاہ ڈالی اور گھر کی سمت روانہ ہو گیا۔ کچھ ہی دوری پر اس کی رہائش گاہ تھی۔ اتنی ہی دوری پر کہ وہاں سے وہ اپنی زمین کے مبہم سے نقوش دیکھ سکتا تھا۔ گھر میں داخل ہو کر اس نے وہ بیج نکالے جو زمین میں بوئے جانے والے تھے۔ اس نے ایک بار پھر باریک بینی سے ان کا جائزہ لیا اور بے حد مطمئن ہو کر نہانے کے لیے چلا گیا۔ ہلکے سے ناشتے کے بعد وہ چائے کا کپ لیے ہوئے دریچے پر آ گیا اور اپنی زمین کی سمت دیکھا۔ زمین پر والہانہ انداز میں جھکے ہوئے بادل شاید اب تک تذبذب کی کیفیت میں تھے۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور بوندا باندی ہونے لگی اور پھر دھیرے دھیرے بارش نے زور پکڑ لیا۔ بارش کے تیز چھینٹے اس کے جسم کو بھگونے لگے تو اس نے ایک گہرے اطمینان کے ساتھ دریچے کو بند کر دیا۔
دوسرے ہی روز سے اس نے اپنی زمین پر تخم ریزی شروع کر دی۔ اس عمل سے فارغ ہونے کے بعد وہ بڑی شدت سے بیج پھوٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ جلد ہی یہ انتظار ختم ہوا اور کچھ ہی دنوں میں کونپلیں نکل آئیں۔ ساری زمین سبز لبادے سے ڈھک گئی۔ روزانہ وہ صبح سویرے ہی اپنی زمین کی طرف آ نکلتا اور کونپلوں کے قد و قامت میں کچھ اور اضافہ دیکھ کر فخر و انبساط سے لبریز ہو جاتا۔ ہفتے بھر میں ہی پودے بالشت بھر کے ہو گئے۔ ان کی تیز نشو و نما سے عیاں تھا کہ فصل اچھی ہو گی۔ ممکن ہے کہ فصل اچھی ہی ہوتی اگر وہ واقعہ رو نما نہ ہوتا۔
شام کے وقت وہ حسب معمول چائے پیتے ہوئے اپنی زمین کی سمت ہی دیکھ رہا تھا کہ دور گرد و غبار کے بادل اڑتے دکھائی دیئے۔ قدرے توقف کے بعد ہی ان بادلوں کو چیرتے ہوئے چند گھڑ سوار نمودار ہوئے اور اس کی زمین کی طرف بڑھے۔ دوسرے ہی لمحے اس نے دیکھا کہ اس کی زمین گھوڑوں کے سموں سے روندی جانے لگی۔ وہ وحشت زدہ سا ساکت وصامت دیر تک اس عمل کو دیکھتا رہا۔ یکایک اسے لگا کہ زمین کے ہونٹوں سے دلدوز کراہیں نکلی ہوں۔ وہ اضطراری کیفیت میں باہر نکلا اور اپنی زمین کی طرف بھاگا۔ زمین اور اس کی فصل کو روندتے ہوئے گھڑسواروں نے اسے دیکھا اور کچھ نے آگے بڑھ کر اس کی راہ روک لی۔ ان میں سے ایک نے کاندھے سے بندوق اتاری اور اس کی نال اس کے سینے پر رکھتے ہوئے استفسار کیا۔
’’کہاں بھاگے جا رہے ہو؟‘‘
’’میری زمین۔۔۔۔۔ میری فصل۔۔۔۔!‘‘ وہ ہذیانی انداز میں چلایا تو ان کے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’وہ تو روندی بھی جا چکی۔ اب تمہاری زمین مدتوں تک کوئی فصل اگانے کی جرأت نہ کرے گی۔‘‘
’’ظالم۔۔۔ درندے۔۔۔!‘‘ وہ پاگلوں کی طرح چیخا تھا کہ کسی کی بندوق کا کندہ اس کے سر پر پڑا اور وہ زمین پر گر کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔
ہوش آنے کے بعد وہ کافی دیر تک یوں ہی بے حس و حرکت پڑا رہا۔ وہ لوگ چلے گئے تھے اور چہار سمت گہرا اداس سا سناٹا طاری تھا۔ وہ کسی طرح اٹھا اور لرزتے قدموں سے اپنی زمین کے قریب آیا۔ وہاں زندگی کی رمق بھر بھی نشانی باقی نہ بچی تھی۔ سارے نوزائیدہ پودے دم توڑ چکے تھے۔ ان کی کچلی ہوئی لاشوں کو اپنے سینے سے چمٹائے روندی ہوئی زمین وفورِ غم سے سیاہ پڑ چکی تھی۔ اس نے بے بسی سے آسمان کو تکا اور اسے بھی محو تماشا پا کر سینہ کوبی کرنے لگا۔
ڈھیر سارے شب وروز گزر گئے۔ اداس اور ماتم زدہ شب وروز۔ وہ حزن ویاس کی تصویر بنا گھر کی تنہائیوں میں مقید رہا۔ آہستہ آہستہ اس کے زخم قدرے مندمل ہوئے اور حواس ذرا درست ہوئے تو اسے اپنی زمین کا خیال آیا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ اس دوران اس کے ذہن کے کسی گوشے میں زمین موجود نہیں رہی تھی بس سارے ذہن پر ایک ایک اداس اور بوجھل سا خالی پن مسلط تھا۔ اس نے سوچا کہ غم بھی عجیب ہوتا ہے۔ اپنی انتہا پر مرتکز ہو کر صرف وہی باقی رہ جاتا ہے۔ وہ وقوعہ فراموش ہو جاتا ہے جو اس کے وجود کا باعث بنا تھا۔ اس فراموشی پر اسے گہری ندامت ہوئی اور اس نے ازسرنو اپنی زمین کی نگہداشت کا مصمم ارادہ کیا۔ دوسرے دن علی الصباح وہ اپنی زمین کے قریب آیا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اس کی ساری زمین پر ناگ پھنی کے پودے اگ آئے تھے۔ اس نے گہرے کرب سے سوچا کہ ایک نرم ونازک اور زرخیز زمین کے لیے اس سے بڑا عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی کوکھ سے ناگ پھنی کے پودے اگ آئیں۔ ناگ پھنی کے خاردار پودوں کو تکتے ہوئے اسے لگا کہ وہ خار اس کی روح میں پیوست کر گئے ہوں۔
نوکیلے خاروں کی تیز چبھن کی ناقابلِ برداشت اذیت سے اس نے چیخنا چاہا ہی تھا کہ یکلخت یہ احساس اسے خاصا پر سکون کر گیا کہ اب وہ گھڑ سوار اس کی زمین کو اتنی آسانی سے نہیں روند سکتے۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭