رات کا پچھلا پہر تھا جب اس کی جسم میں لرزش پیدا ہو گئی تھی۔ منھ سے لعاب گرنے لگا تھا اور زبان قدرے باہر کی جانب نکل آئی تھی۔ اطلاع ملی تو میں نے فوری طور پر ایک شناسا اور تجربہ کا ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ اس نے بہ نظر غائر اس کا معائنہ کیا اور خاصا فکر مند ہو گیا۔ مجھے ایک گوشے میں لے جا کر اس نے سرگوشیوں میں کہا۔
’’یہ سگ گزیدگی کا شکار ہوا ہے۔ شاید اس نے ریبیز کے انجکشن نہیں لگوائے اس لیے۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
میں نے کسی قدر حیرت سے کہا۔
’’میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ سگ گزیدگی کا شکار نہیں ہوا۔ آپ کی تشخیص بالکل غلط ہے۔‘‘
ڈاکٹر کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے۔ اس نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’میری تشخیص غلط ثابت ہو گئی تو میں یہ پیشہ ہی تج دوں گا۔ یہ ضروری نہیں کہ سگ گزیدگی کا شکار یہ حال ہی میں ہوا ہو۔ برسوں بعد بھی یہ مرض ابھر سکتا ہے۔ آپ کو یقین نہ ہو تو ایک گلاس پانی لے آئیں۔‘‘
میں فوراً ہی ایک گلاس میں پانی لے آیا۔ ڈاکٹر گلاس پکڑے ہوئے مریض کے قریب چلا آیا۔ اس نے گلاس اس کی سمت بڑھاتے ہوئے نرمی سے کہا۔ ‘‘لو! پانی پیو۔‘‘
اس نے کانپتے ہاتھ سے گلاس تھام لیا اور آہستہ آہستہ اسے اپنے ہونٹوں کے قریب لے جانے لگا۔ ابھی گلاس اس کے ہونٹوں تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اس کی نگاہ گلاس میں موجود پانی پر پڑی۔ یکایک ایسا لگا جیسے اسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا اور گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر پڑا۔ اس کی آنکھوں میں وحشت ابھر آئی اور اس کے منھ سے نکلتا ہوا لعاب گریبان پر گرنے لگا۔ ڈاکٹر نے میری طرف قدرے فخریہ اور ستائشی نگاہوں سے دیکھا تو خوف و حیرت کا مجھ پر بیک وقت حملہ ہوا۔
’’دیکھا آپ نے۔۔۔ یقینی ہائیڈرو فوبیا۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر کی آواز مجھے کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’اب کیا ہو گا ڈاکٹر؟ اس کے علاج کی کوئی صورت۔۔۔‘‘
قدرے توقف کے بعد میری آواز ابھری۔
’’نہیں!‘‘ ڈاکٹر نے گہری نا امیدی میں سر کو جنبش دی۔
’’تا حال اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ اب یہ ایک یقینی اور اذیت ناک موت کی طرف سرعت سے گامزن ہے۔ پوری دنیا میں اس مرض کا شکار کوئی فرد آج تک زندہ نہیں بچا۔ یہ شخص بھی زیادہ سے زیادہ چار پانچ دنوں کا مہمان ہے۔‘‘
ڈاکٹر مریض کی زد سے دور اور محفوظ رہنے اور جلد سے جلد ہسپتال میں داخل کر دینے کا مشورہ دے کر رخصت ہو گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ ڈاکٹر پر مجھے کامل اعتماد تھا اور پھر اس نے اس پر جو تجربہ کیا تھا اس سے بالکل واضح ہو گیا تھا کہ وہ سگ گزیدگی کا ہی شکار ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حادثہ کب پیش آیا کہ مجھے مطلق خبر نہ ہوئی۔ میرے سامنے اس کی مکمل زندگی ورق ورق کھلی کتاب کی مانند تھی۔ اس کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جو میری نگاہوں کی دسترس سے باہر رہا ہو پھر اس المیے سے میں کس طرح لاعلم رہ گیا۔ میں دیر تک یقینی اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا وہاں کھڑا رہا۔
زمانے کے سرد و گرم سے نبرد آزما وہ ایک با حوصلہ اور اصول پسند شخص تھا۔ اسے اپنی زندگی میں اتنے تلخ تجربے ہوئے تھے کہ اس کے انداز و اطوار شدید تلخی در آئی تھی۔ اس نے کہا تھا۔
’’میرا وجود زبردستی اور در اندازی کی زندہ مثال ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میرے والدین کے دو بچے تھے۔ انہیں کسی تیسرے بچے کی نہ خواہش تھی اور نہ ہی ضرورت۔ اسی لیے میری ماں ضبط تولید کے لیے مانعِ حمل گولیاں استعمال کرتی تھی۔ اس کے باوجود میں اس کے حمل میں در آیا۔ میرے وجود کا احساس ہوتے ہی اس نے ڈاکٹر سے رابطہ قائم کیا۔ اس نے اسقاطِ حمل کی کچھ دوائیں دیں لیکن میرا سخت جان وجود اس وار کو بھی جھیل گیا۔ میرے باپ کے علم میں یہ بات آئی تو وہ بھی خاصا مشتعل ہوا۔ دونوں مجھ سے نجات حاصل کرنے کی تدبیر کرنے لگے۔ ایک گائنولوجسٹ سرجن سے رجوع کیا گیا۔ اس نے معائنے کے بعد فیصلہ سنایا کہ کچھ زیادہ ہی دن ہو گئے۔ ابارشن ممکن تو ہے لیکن اس میں میری ماں کی جان کو خطرہ ہے۔ ڈاکٹر سے ایک غلطی ہوئی کہ اس نے یہ بات میری ماں کی موجودگی میں کہہ دی۔ اگر وہ صرف میرے باپ سے مشورہ کرتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ بخوشی تیار ہو جاتا۔ لیکن میری ماں نے جان کا خطرہ سن کر گہری نفرت سے اپنا پیٹ سہلاتے ہوئے میرے نادیدہ اور ناگوار وجود کا جیسے گلا گھوٹنے کی سعی کی اور شکست خوردہ سی پیچھے ہٹ گئی۔
گرچہ میری پیدائش کے بعد انہوں نے میرے وجود کو بہ حالت مجبوری ہی سہی، قبول کر لیا تھا۔ انہوں نے مجھ پر محبتیں لٹانے کی بھی کوششیں کی لیکن کچھ دنوں بعد دوران حمل ان کے عمل کا علم ہوتے ہی میں ذہنی طور پر ان سے بد ظن اور دور ہوتا گیا۔ والدین کی موجودگی کے باوجود مجھ پر یتیمی و یسیری کا احساس غالب ہوتا گیا۔‘‘
نفرت ہو یا محبت، اس کی تیز بو خانۂ دل میں ہی کیوں نہ مخفی ہو، متعلقہ فرد پر آشکار ہو ہی جاتی ہے۔ اس کے والدین بھی اس کی کیفیت سے بتدریج آشنا ہوتے گئے اور انہوں نے اس کی شدت پسندی کو زائل کرنے کے لیے اسے خود سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھا۔
بورڈنگ میں اس نے خود کو قدرے آزاد اور خوشگوار فضا میں پایا اور دل جمعی کے ساتھ تعلیمی مراحل طے کرنے لگا۔ فطرتاً ذہین اور حساس تھا۔ قبل از وقت سنجیدگی کی پرتیں چڑھی ہونے کے باوجود چہرے پر گہری معصومیت اور جاذبیت تھی۔ شاید اسی وجہ سے وہ انگریزی کے استاد دیا شنکر کی نگاہِ انتخاب میں آیا۔ اس نے کہا تھا۔
’’عمر کی ڈھلان سے اترتے ہوئے وہ ایک مشفق اور محنتی استاد تھے۔ ان کے خلوص و التفات سے میں بے حد متاثر ہوا۔ میرے لیے ان کا وجود تپتے ہوئے ریگستان میں ایستادہ کسی سایہ دار شجر کی طرح تھا۔ میری تعلیم میں بہتری لانے کے لیے انہوں نے اپنے گھر پر بلا معاوضہ ٹیوشن کا آفر دیا جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ ان کے گھر آنے پر انکشاف ہوا کہ اس تنہا شخص نے تعلیم جیسے مقدس فریضے کے لیے خود کو وقف سا کر دیا تھا۔ میری تشنہ لبی کے لیے وہ شیریں دریا ثابت ہوئے اور مجھ پر سیرابی کی کیفیت طاری ہوتی گئی۔ اس کیفیت میں سرشار مجھے احساس تک نہیں ہوا کہ کب میرا نرم و نازک جسم ان کے نوکیلے پنجوں میں آیا اور کب ان کے ہوسناک تیز دانت میری شہ رگ میں پیوست ہوئے۔ عرصہ دراز تک میں ان کے اس فعل کو کتابِ محبت کا ہی ایک باب تصور کرتا رہا۔ جانے کتنی مدت میں مفعول بنا ان کی فعالیت کو خوش دلی سے قبول کرتا رہا۔ آخر مجھے شعور ہوا تو میں نے جانا کہ میری سیرابیِ دل کا خراج انہوں نے میرے نرم نرم گوشت سے حاصل کیا تھا۔ میں ان کی اسیری سے نکلا تو میرے ذہن میں ایک اور مقدس رشتہ بری طرح مسخ ہو چکا تھا۔‘‘
بہت دنوں بعد جب وہ بی۔ اے فائنل ایئر میں تھا تو اس کی زندگی میں سریکھا داخل ہوئی۔ وہ بے حد خوبصورت اور خوش گفتار تھی۔ جلد ہی وہ اس کے حسن کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔ سریکھا بھی اسے ٹوٹ کر چاہنے لگی تھی۔ اسی کی ترغیب پر چشم زدن میں اس نے اس کے بدن کے تمام نشیب و فراز طے کر لیے۔ شروع شروع میں وہ شدید احساس گناہ کا شکار ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر کسی قدر مطمئن ہو گیا کہ جب زندگی کا سفر اسی کی معیت میں طے ہونا ہے تو اس راہ کے اسرار کچھ قبل ہی افشا ہو گئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن اس وقت اس پر گاج گری جب امتحان سے فارغ ہونے کے بعد اس نے سریکھا کے سامنے مستقل ہم سفر بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ بے حد تلخ و ترش لہجے میں گویا ہوئی۔
’’تم تنگ نظر لوگوں میں یہی عیب ہے۔ ہر پسندیدہ شئے پر مالکانہ حقوق کی مہر ثبت کرنا چاہتے ہو۔ تمہاری مردانہ وجاہت پر توجہ مرکوز ہوئی اور چند پر لطف لمحے گذارنے کے لیے تم سے وابستہ ہو گئی۔ اب یہ وابستگی ایسی تو نہیں کہ اسے مستقل روگ بنا لوں۔ زندگی صرف وجاہت کے سہارے نہیں گذاری جا سکتی۔ میں اندر سے شادی کرنے والی ہوں۔ مانا کہ وہ تمہاری طرح وجیہ نہیں لیکن اس کے پاس زندگی کی دیگرآسائشیں تو موجود ہیں۔‘‘
سریکھا کے اس روپ نے اس پر سکتے کی کیفیت طاری کر دی۔ عرصہ دراز بعد اسے ماسٹر دیا شنکر یاد آئے اور پھر اسے یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ سریکھا کے خدوخال میں ان سے گہری مشابہت کی جھلک تھی۔ وہ ایک بار پھر خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگا۔ وہ بری طرح دلبرداشتہ ہوا۔ کچھ دنوں تک اس پر عجیب سا اضمحلال طاری رہا تھا کہ اسی دوران وویک سریواستو سے ملاقات ہو گئی۔ وہ منتشر ذہن کے ساتھ سڑکیں ناپ رہا تھا کہ ایک چورا ہے پر ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے گونجتے نعروں نے اس کے قدم روک لیے۔ وہ یوں ہی بے خیالی میں مجمع کی جانب تکنے لگا جو ایک اسٹیج کے گرد جمع تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اسٹیج پر کھادی کے کرتے پاجامے میں ملبوس چالیس بیالیس سال کا ایک قد آور شخص نمودار ہوا۔ مجمع جوش و خروش سے نعرے بازی کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں مائک سے اس کی پاٹ دار آواز ابھری اور وہ اس آواز کے سحر میں کھوتا چلا گیا۔
’’ہمیں ایک ایسے سماج کا نرمان کرنا ہے جس میں استحصال نہ ہو۔ مذہبی تفریق نہ ہو۔ نا انصافی اور نابرابری نہ ہو۔ ایسا سماج جس میں کمزور سے کمزور فرد کے حقوق کی بھی حفاظت ہو۔ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ دولت چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے فائدے ادنیٰ سے ادنیٰ طبقے تک بھی پہنچیں۔ کوئی اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کمزوروں پر ظلم و ستم نہ ڈھائے۔ ایک شاہراہ امن ہو جس پر برادرانِ وطن بلا تفریق مذہب و نسل اپنی منزل کی سمت گامزن ہوں۔ یہ استحصال، یہ تفریق اور یہ خلیج ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ آپ لوگ سماجی انصاف کے نعرے کے ساتھ سماج واد کے پرچم تلے جمع ہو جائیں اور متحد ہو کر اس انقلابی تحریک کو کامیاب بنائیں۔‘‘
تقریر پر اثر تھی کہ لمحہ۔ اس کے دل پر خاصا اثر ہوا اور وہ وویک سریواستو جی کے قریب ہوتا چلا گیا۔ سریواستو جی اس کی صلاحیت اور قابلیت سے متعارف ہوئے تو اسے اپنا نجی سکریٹری ہی مقرر کر دیا۔ وہ خود تو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن عوام کی نبض پر ان کی خاصی گرفت تھی۔ کچھ ہی عرصے میں وہ جد و جہد اور انقلاب کے ایسے پیکر بن گئے تھے کہ استحصال زدہ لوگوں کی پر امید نگاہیں ان پر مرکوز ہو گئی تھیں۔ وہ بھی ان سے بے حد متاثر ہوتا چلا گیا تھا کہ ایک ہی جھٹکے میں وہ ان کے سحر سے آزاد ہو گیا۔
ایک دن وہ سریواستو جی سے ملنے پہنچا تو ان کے آفس کے دروازے پر ہی اس کے قدم ٹھٹک گئے۔ سریواستو جی اندر کسی سے محو گفتگو تھے۔ ایک با رعب آواز ابھری۔
’’انتخاب کا وقت سر پر آ پہنچا ہے۔ تم یہاں اپنی اور جماعت کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کرو۔‘‘
’’کوشش تو کر رہا ہوں۔ پس ماندہ طبقوں اور اقلیتوں میں جماعت نے اچھی خاصی مقبولیت حاصل کر لی ہے۔‘‘
سریواستو جی بولے تو اس آواز نے سخت لہجے میں ان کی تردید کی۔
’’یہ کافی نہیں ہے۔ انہیں اپنی جانب مکمل طور سے کھینچنے کا واحد طریقہ ہے۔ خوف۔ ان میں خوف پیدا کرو۔ اور اس کی سب سے آسان صورت ہے۔ فساد۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ فساد کا سارا الزام فرقہ پرست جماعت کے سر جائے گا اور اس کے رد عمل میں یہ لوگ ہماری جماعت کے پرچم تلے ہی پناہ لیں گے۔‘‘
’’لیکن فساد۔۔۔ کس طرح؟‘‘
سریواستو جی کسی قدر الجھتے ہوئے بولے تو اس آواز نے جیسے سرکوبی کی۔
’’ارے بھئی! فساد کے لیے کتنے ہی آزمودہ نسخے موجود ہیں۔ کسی عبادت گاہ کو نجس کروا دو یا پھر کسی سڑک کنارے ایستادہ مورتی کی بے حرمتی کروا دو۔ یا پھر کسی ایک فرقے کی لڑکی کو دوسرے فرقے کے لونڈوں سے اٹھوا دو۔‘‘
’’ہاں۔ یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘
سریواستو جی قدرے جوش میں بولے۔
’’بہت دنوں سے ایک لڑکی پر نگاہ ہے لیکن وہ اپنی پشت پر ہاتھ ہی رکھنے نہیں دیتی۔ کیوں نہ اسے ہی اٹھوا لوں؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔ لیکن وہ لڑکی تمہاری محبت کی داستان سنانے کے لیے زندہ نہیں رہنی چاہیئے۔‘‘
ایک قہقہہ لگا جس میں سریواستو جی بھی شریک تھے۔ وہ شکست خوردہ سا خاموشی سے باہر نکل آیا۔
کچھ ہی دنوں بعد وہ لڑکی اغوا ہوئی اور پھر اس کی عصمت دریدہ لاش ملی۔ فساد تو چار دن بعد ہی رک گیا لیکن ماحول پر دہشت ہفتوں طاری رہی۔ اسی ماحول میں انتخاب ہوا اور توقع کے مطابق سریواستو جی اور ان کی جماعت فتح یاب ہوئی۔
اور پھر ڈھیر سارے دن پنکھ لگا کر اڑتے چلے گئے۔ اس نے اپنی تعلیمی صلاحیت کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنے کی بے حد تگ ودو کی لیکن بغیر کسی سفارش اور رشوت کے وہ ناکام و نامراد ہی ہوتا رہا۔ مجبوراً وہ ایک ایسے نجی اسکول میں پیشۂ درس و تدریس سے وابستہ ہو گیا جسے اساتذہ کے قطرہ قطرہ لہو سے سینچا جا رہا تھا۔ تنہائی کا غلبہ ہوا اور فطری تقاضے نے سر ابھارا تو دوستوں کے اصرار پر اس نے شادی بھی کر لی۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے ترستی ہوئی اس کی بیوی ہمیشہ کبیدہ خاطر ہی رہی۔ اس کی پیشانی کی ناگوار شکن مٹانے کے لیے وہ دن رات محنت کرتا رہا لیکن ضرورتوں کا ناگ اس کی خوشیوں میں زہر کی آمیزش ہی کرتا رہا۔
ایک روز اس کے اسکول میں انتظامیہ کی جانب سے ایک ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ مہمان خصوصی کے طور پر ریاستی وزیر تعلیم کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان کا استقبال کرنے والوں میں اسے بھی شامل رکھا گیا۔ اس کے ذمے وزیر تعلیم کی بیج پوشی تھی جبکہ نئی ٹیچر مس سیما کو ان کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈالنے کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ وقت مقررہ پر وزیر تعلیم تشریف لائے۔ ان کی شکل میں سریواستو جی کو دیکھ کر وہ سخت متعجب ہوا۔ سریواستو جی بھی اسے دیکھ کر تھوڑے چونکے۔ ان کی آنکھوں میں شناسائی کا عکس لہرایا۔
’’تم۔۔۔ تم کہاں غائب ہو گئے تھے؟ میں تو سمجھا تھا کہ اس فساد میں کہیں تم بھی۔۔۔۔ لیکن تم کہاں رہے؟ ہم سے ملے کیوں نہیں؟‘‘
’’بس یوں ہی۔۔‘‘
اس نے سر جھکاتے ہوئے الجھی آواز میں کہا۔
’’اس فساد کے بعد میں بہت دلبرداشتہ ہوا۔ ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔‘‘
’’تم کسی دن ہم سے ملنا۔ تفصیل سے گفتگو ہو گی۔‘‘
ان کے گلے میں مس سیما کے مالا ڈالنے کے بعد وہ آگے بڑھ گئے تو اسے احساس ہوا کہ وہاں موجود منتظمین کی نگاہوں میں یکلخت اس کی وقعت بے حد بڑھ گئی ہے۔ سکریٹری سریواستو جی کو اسٹیج پر پہنچا کر تیزی سے پلٹا اور اسے بڑی تعظیم سے لے جا کر ان کے قریب والی کرسی پر بٹھایا۔ پورے پروگرام کے دوران وہ شدید اضطراب میں رہا۔ وداع ہوتے وقت سریواستو جی نے ایک بار پھر ملاقات کی یاددہانی کرائی اور اس نے رسمی طور پر سر کو اثبات میں جنبش دی۔
اس رات وہ بے حد کشمکش میں مبتلا رہا۔ کئی بار اس نے بغل میں سوئی ہوئی اپنی بیوی کی جانب دیکھا۔ اس کے چہرے کی زردی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے حمل میں موجود بچے نے اپنی نشو و نما کے لیے اس کے خون کو نچوڑنا شروع کر دیا تھا۔ اپنا خون پلا کر اس کے نطفے کی پرورش کرنے والی اس زردرو عورت کو تکتے ہوئے اس کے اندر شدید احساس جرم پیدا ہوا۔ اس احساس کی ضرب سے وہ پہلی بار قدرے شکستہ ہوا اور دوسرے دن ہی صبح سویرے سریواستو جی کے پاس پہنچ گیا۔ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا کہ سریواستو جی اپنے جسم پر کرتا چڑھاتے ہوئے داخل ہوئے اور اس کے سامنے کے صوفے پر پھیلتے ہوئے گویا ہوئے۔
’’ہاں جی! سناؤ! تمہارے جیسا قابل اور تعلیم یافتہ شخص ابھی تک اس پرائیویٹ اسکول میں کیا کر رہا ہے؟‘‘
’’جی!‘‘ اس نے ان کے سرخی مائل چہرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے کسی قدر تلخی سے کہا۔
’’سرکاری ملازمت کے لیے سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘
’’ارے تو ہم کیا مر گئے تھے؟‘‘
وہ کچھ برہمی سے بولے۔
’’تم تو خود ہی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ورنہ آج کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ تمہیں کیا پتہ کہ تمہارے جیسے وفادار اور قابل آدمی کی ہمیں کتنی ضرورت رہتی ہے۔‘‘
اسی اثنا میں وہ دروازہ ایک بار پھر کھلا جس سے سریواستو جی باہر نکلے تھے اور ایک عورت اپنی ساڑی کا پلّو درست کرتی ہوئی نکلی۔ اس عورت کی نگاہ اس پر پڑی تو ایک ثانیے کے لیے ٹھٹھک کر رہ گئی اور پھر گردن جھٹکتی ہوئی ڈرائنگ روم سے نکلی چلی گئی۔ وہ دیر تک اس کی پشت کو گھورتا رہا اور پھر سریواستو جی سے استفسار کیا۔
’’یہ سریکھا تھی نا؟‘‘
’’اچھا تو تم بھی اسے جانتے ہو۔‘‘
وہ بے تکلفی سے مسکرائے۔
’’تم تو چھپے رستم نکلے۔‘‘
’’لیکن وہ یہاں کیا کر رہی تھی؟‘‘ وہ ابھی تک متعجب تھا۔
’’ارے اس جیسی عورت اور کیا کرے گی؟ تم سے کیا چھپانا۔ رات ضرورت محسوس ہوئی تو اسے ہی بلوا لیا تھا۔‘‘
اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ اس نے استعجاب زدہ لہجے میں کہا۔
’’اس کا ایک شوہر بھی ہوا کرتا تھا۔ اندر کمار۔ وہ کہاں ہے؟‘‘
’’لگتا ہے تم اس کے بارے میں مکمل طور سے نہیں جانتے۔ اندر کمار ہی تو اسے سپلائی کرتا ہے۔‘‘
انہوں نے لاپرواہی سے کہا تو وہ گنگ سا بیٹھا رہ گیا۔
’’ہٹاؤ اس فاحشہ کو۔ تم اپنی سناؤ۔ سویرے سویرے کیسے چلے آئے؟‘‘
اس نے اضطراب میں پہلو بدلا اور پھر قدرے توقف کے بعد ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’ایک سرکاری ہائی اسکول سے میرے پاس انٹرویو لیٹر آیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ محض رسمی خانہ پری ہے۔ امید وار کا انتخاب تو پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔‘‘
’’ارے ہمارے رہتے کسی اور کا انتخاب کیسے ہو جائے گا؟ تم اسکول کا نام اور پتہ بتاؤ اور پھر سمجھو کہ تم منتخب ہو گئے۔‘‘
انہوں نے بڑے اطمینان سے کہتے ہوئے میز پر رکھا بیل بجایا۔ فوراً ہی ایک نوکر حاضر ہو گیا۔ چائے ناشتہ لانے کا حکم پا کر وہ چلا گیا تو ایک بار پھر وہ اس سے مخاطب ہوئے۔
’’ارے ہاں! کل تمہارے اسکول کے پروگرام میں ایک لڑکی تھی نا۔ جس نے میرے گلے میں مالا ڈالی تھی۔ کون تھی وہ؟‘‘
’’جی۔۔۔ وہ نئی ٹیچر مقرر ہوئی ہے۔ سیما نام ہے۔ بے حد شریف لیکن غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
’’اسے کسی روز یہاں لے کر آؤ نا۔‘‘
انہوں نے سرسری لہجے میں کہا تو وہ بری طرح چونک اٹھا۔ اس نے حیرانی سے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر خباثت بھری مسکان رقص کر رہی تھی۔ اسے لگا کہ وہ اندر کمار والی جگہ پر قابض ہو رہا ہے۔ اس نے جھٹکے سے اٹھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں اپنی بیوی کا کمزور اور مضمحل سراپا تیر گیا اور وہ بیٹھا رہ گیا۔
چائے ناشتے سے فارغ ہو کر وہ وداع ہوا تو اس کے قدموں میں لرزش تھی اور ذہن بری طرح منتشر تھا۔ اسکول میں بھی وہ خالی الذہن سا رہا۔ ٹفن کے وقفے میں وہ ایک گوشے میں بیٹھا لقمے زہر مار کر رہا تھا کہ مس سیما اس کے پاس آ موجود ہوئی۔ اس نے کچھ تعجب سے اس کے ‘ہیلو’ کا جواب دیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ خلاف توقع بڑی بے تکلفی سے اس سے محو گفتگو ہو گئی۔ گفتگو کے دوران اچانک اس نے کہا۔
’’لگتا ہے وزیر تعلیم سے آپ کی گہری جان پہچان ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔ ہے تو۔۔۔!‘‘
اس نے گہری نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا۔ آج وہ کچھ زیادہ ہی سجی سنوری تھی۔ ہمیشہ محتاط طریقے سے لباس زیب تن کرنے والی آج لباس کے تئیں قدرے لاپروا سی تھی۔ دوپٹہ اس کے سینے سے ڈھلک آیا تھا اور اس کے پوشیدہ اعضا اپنی بلند قامتی کا فخریہ اعلان کر رہے تھے۔ اس نے اس کی جانب جھکتے ہوئے اپنی گردن سے اترتی دودھیا گھاٹی کو پوری طرح کشادہ کیا اور اپنے لہجے میں شیرینی گھولتی ہوئی مخاطب ہوئی۔
’’آپ ان سے میرا تعارف کرا دیں گے؟ آپ کو جب فرصت ہو مجھے ان کے پاس لے چلئے۔ مجھے ان سے کچھ ضروری کام ہے۔‘‘
وہ اس کی مد بھری آنکھوں سے چھلکتے پیغام کو پڑھ کر بری طرح لرزا۔ وہ اس کا اقرار حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو سر تا پا تیار سی تھی۔ اس نے گھبرا کر بڑی سرعت سے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ کل ہی اسکول ختم ہونے کے بعد چلتے ہیں۔‘‘
سیما نے بے ساختہ اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دبایا اور نشیلی مسکان بکھیرتی ہوئی چلی گئی۔
کچھ ہی دنوں بعد سریواستو جی نے اسے اطلاع دی۔
’’تمہارا انٹرویو تو بے حد کامیاب رہا۔ ہم نے انتظامیہ سے کہہ دیا ہے۔ جلد ہی تمہیں تقرری کا پروانہ مل جائے گا۔‘‘
اور پھر اپنی بائیں آنکھ دبا کر مسکراتے ہوئے بولے۔
’’مس سیما کو ابھی چار چھ مہینے ٹالیں گے۔ اس کے نو خیز حسن میں بلا کی کشش ہے۔ نوکری ملتے ہی یہ مینا تو پھُر سے اُڑ جائے گی۔‘‘
کچھ ہی روز بعد اس نے ملازمت جوائن کر لی۔ اس کی ملازمت کی خبر سن کر مجھے انتہائی خوشی ہوئی۔ مجھے اطمینان سا ہوا کہ ذرا سے سمجھوتے سے اسے زندگی میں تھوڑی فراغت نصیب ہو گئی۔ اب اس کی حاملہ بیوی کسمپرسی کی حالت سے نکل کر ایک صحت مند اور خوشگوار ماحول میں اپنے بچے کو جنم دے گی اور اس کی پیشانی پر موجود مستقل شکن ختم ہو جائے گی لیکن اسی رات اس پر سگ گزیدگی کی کیفیت طاری ہو گئی۔
میں حسرت و غم کی تصویر بنا لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھتے ہوئے اذیت میں مبتلا اس کے وجود کو بے بسی سے تکتا رہا۔ مجھے شدید حیرت تھی کہ آخر وہ سگ گزیدگی کا شکار کب اور کیسے ہوا؟
لیکن بہت دنوں بعد بھی ڈاکٹر کو اس پر قطعی حیرت نہیں تھی کہ وہ کب اور کیسے سگ گزیدگی کا شکار ہوا بلکہ اسے سخت حیرت اس بات پر تھی کہ جو شخص چار پانچ دنوں میں ہی مر جانے والا تھا وہ پانچ سال بعد بھی بالکل نارمل حالت میں زندہ کیسے ہے؟
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...