نکاح ہو چکا تھا خضر صاحب بسمہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر باہر آ گئے جہاں سب لوگ اویس کو مبارکباد دے رہے تھے جسے وہ کھلے دل سے قبول کر رہا تھا ۔۔۔ اس نے دل میں عہد کیا تھا کہ آج رات وہ اللہ کے خضور سجدہ ریزہ ہو گا اور ان تمام نعمتوں کا شکریہ ادا کرے گا جو بن مانگے اللہ نے اسے عطا کیں ۔۔۔ یہ نہیں تھا کہ اس نے کبھی سجدہ نہیں کیا اور نہ یہ تھا کہ شاید کبھی اس نے نماز نہیں تھی پڑھی ۔۔۔ وہ نماز پڑھتا تھا لیکن اب اس نے شکرانے کے نفل پڑھنے تھے ۔۔۔ وہ دل سے اتنا خوش تھا کہ اللہ کے آگے جھک کر سجدہ بجا لانا چاہتا تھا اور یہ تو ہر انسان کو کرنا چاہیے ۔۔۔ خضر صاحب بھی آگے بڑھے اور اپنے بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔
کچھ وقت وہیں بیٹھے بات کرتے رہے ۔۔۔ نغمہ سب کے لیے چائے اور ساتھ بیسکٹ کا انتظام کر کے لے آئی اس سے فارغ ہو کر خضر صاحب نے عالیہ بیگم سے جانے کی اجازت مانگی۔
“ٹھیک ہے بھابھی ہم چلتے ہیں کافی وقت ہو گیا ۔۔۔ اب ہماری بیٹی آپکے پاس ہماری امانت ہے جسے ہم جلد لینے آئیں گے اسکا خیال رکھیے گا۔” خضر صاحب نرمی سے بولے
“جی بھائی ضرور۔” عالیہ بیگم اپنی بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو کر خوش تھیں ۔۔۔ انہوں نے اللہ پر چھوڑ کر جو فیصلہ کیا تھا وہ اس پر مطمئن تھیں ۔۔۔ اویس نے سر جھکا کر ان سے پیار لیا اور خضر صاحب کے ساتھ کھڑا ہو گیا
“طُوبہ بیٹا۔” طُوبہ کو بیٹھے دیکھ کر خضر صاحب نے اسے پکارا
“بابا میں آج بسمہ کے پاس رک جاتی ہوں۔” طُوبہ نے فکر مندی سے کہا ۔۔۔ وہ اسکے پاس بیٹھی تھی اسے اسکی خاموشی سے اسکی طبیعت ٹھیک نہیں لگی اس لیے اس نے اسکے ساتھ رکنے کا فیصلہ کیا
“طُوبہ بیٹا آپ بسمہ کے لیے پریشان نہ ہوں ۔۔۔ اسکی زندگی کا سب سے اہم سفر اور فیصلہ جس انداز میں ہوا ہے وہ اس سے کچھ گھبرائی ہوئی ہے کچھ وقت وہ اکیلا رہے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔” عالیہ بیگم اسکی پریشانی بھانپ کر بولیں
“جی آنٹی۔” طُوبہ نے سمجھداری سے سر اثبات میں ہلایا اور خدا حافظ کہتی اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ چل دی ۔۔۔ اویس نے ایک نظر بسمہ کے بند کمرے کی طرف اٹھائی اور پھر دہلیز پار کر گیا۔
____________
“بسمہ بیٹا کیا ہوا کیا تم خوش نہیں ہو اس رشتے سے ؟؟” انکے جانے کے بعد عالیہ بیگم بسمہ کے کمرے میں داخل ہوئیں جہاں وہ بیڈ پر بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی انکی آواز پر سر اٹھا کر انہیں دیکھا ۔۔۔ بسمہ کی آنکھوں میں آنسو شیشے کی طرح چمکے ۔۔۔عالیہ بیگم نے بے اختیار آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگا لیا
“بسمہ بتاؤ کیا میرا انتخاب غلط ہے ؟؟” عالیہ بیگم نے اسے ساتھ لگائے پوچھا
“ایسی بات نہیں ہے امی ۔۔۔ بس اتنی جلدی اس بات کو تسلیم نہیں کر پا رہی ۔۔۔ سب کچھ اتنا اچانک ہوا ہے کہ ۔۔۔” بسمہ نے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔ اسکی آواز میں بھی آنکھوں کی طرح نمی تھی
“بسمہ بیٹا جب رشتہ ایک بار جڑ جائے تو اسے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے اسکے لیے دل کو آمادہ آپ نے خود کرنا ہوتا ہے اور آپکا دل کیوں اس رشتے کو نہیں مان رہا ؟؟ کیا اویس میں آپکو کوئی خامی نظر آئی ہے ؟؟” عالیہ بیگم نے اس سے الگ ہوتے پیار سے پوچھا جس پر اس نے نفی میں سر ہلایا
“میں نے تمہاری تربیت کی ہے مجھے یقین ہے کہ تم میں احساسِ کمتری نہیں ہو گی لیکن پھر بھی پوچھتی ہوں کیا تمہیں احساسِ کمتری محسوس ہو رہی ہے ؟؟” عالیہ بیگم اسکے دل کو اس رشتے کو ماننے کے لیے ایسے سوال کر رہیں تھیں اس سوال پر بھی اس نے سر نفی میں ہلایا
“کیا تم عباس کی وجہ سے ہرٹ ہو مطلب اسکے لیے کوئی جذبات۔۔۔؟؟” عالیہ بیگم کے اس سوال پر بسمہ نے فوراً آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا
“نہیں امی ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔ میں حقیقت پسند ہوں ۔۔۔ یہاں تک کہ جب میری بات طے ہوئی تھی تب بھی میں نے ایسا ویسا کچھ نہیں سوچا تھا کیونکہ وہ میرے لیے نامحرم تھا کجا کہ کوئی جذبات رکھوں۔” بسمہ نے جلدی سے بتایا جس پر وہ مسکرا دیں
“تو بیٹا جب ایسا کچھ نہیں ہے تو تم اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کر رہی ۔۔۔ اویس بہت اچھا ہے میں نے اسکی آنکھوں میں عزت دیکھی ہے طُوبہ تمہاری دوست ہے اسے بھی تم اچھے سے جانتی ہو ۔۔۔ خضر بھائی بھی بہت اچھے اور نرم مزاج کے ہیں تو بیٹا اس رشتے کو اللہ کی رضامندی سے مان لو ۔” انہوں نے بہت پیار سے اسے سمجھایا
“جی امی۔” بسمہ نے آہستہ سے فرمابرداری سر ہلایا تو عالیہ بیگم نے اسکی پیشانی چوم لی پھر وہ اسکے لیے نغمہ کو کھانے کا کہنے کے لیے اٹھ گئیں۔
_____________
“السلام علیکم!” صبح اویس کی آنکھ دیر سے کھلی تھی کیونکہ رات نوافل کی ادائیگی کے بعد تہجد اور پھر فجر پڑھ کر اسکی آنکھ لگی تھی ۔۔۔ وہ فریش ہو کر گرے پینٹ کوٹ میں ملبوس بالوں کو جیل سے سنورے ڈائیننگ ٹیبل پر آیا جہاں خضر صاحب اور طُوبہ بیٹھے تھے ۔۔۔ ملازمہ انکے سامنے ناشتہ سرو کر رہی تھی ۔۔۔ طُوبہ بھائی کو لیٹ آتے دیکھ کر مسکرائی تھی ۔۔۔ اویس اسکی شرارت سمجھ کر سنجیدگی سے سلام کرتا اپنی چیئر پر بیٹھ گیا
“بابا میں آج سکول نہیں جا رہی ۔۔۔ میں بسمہ کے گھر جاؤں گی۔” طُوبہ نے بھائی کو سلام کا جواب دے کر تنگ کرنے کا ارادہ ترک کیا اور خضر صاحب سے مخاطب ہوئی
“اوکے بیٹا۔” خضر صاحب نے اسے اجازت دے دی اسکے بعد ان تینوں نے خاموشی سے ناشتہ کیا۔
“برخودار رخصتی کا کیا سوچا ہے پھر آپ نے ؟؟” ناشتے کے بعد خضر صاحب نے ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتے پوچھا
“بابا ابھی آنٹی کو بسمہ کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور بسمہ کو بھی ابھی وقت چاہیے اس رشتے کو تسلیم کرنے کے لیے ۔۔۔ اس لیے فلحال اس ہفتے نہیں لیکن اگلے ہفتے رخصتی کی تاریخ آنٹی سے پوچھیں گے۔” اویس نے سوچ کر انہیں بتایا
“ہمم صحیح ۔۔۔ بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔” خضر صاحب اسکی بات سے متفق ہوئے اور پھر وہ سکول کے لیے روانہ ہو گئے۔
“گڑیا” خضر صاحب کے جانے کے بعد طُوبہ اٹھنے لگی تھی جب اویس نے اسے پکارا
“جی لالہ۔” طُوبہ واپس بیٹھ گئی ۔۔۔
“بسمہ کا نمبر تمہارے پاس ہو گا ؟؟” اویس نے سراسری سا پوچھا اسکی بات پر طُوبہ نے مسکراہٹ دبائی
“جی لالہ ہے ۔۔۔ میں دیتی ہوں ۔” طُوبہ نے اپنا فون پکڑا اس میں بسمہ کا نمبر نکال کر اویس کے سامنے کیا
“لالہ بسمہ کا نمبر۔” اویس نے اپنے موبائل میں وہ سیو کیا پھر طُوبہ کو دیکھا اور کھڑا ہو گیا
“گڑیا وہ تمہاری بھابھی بن چکی ہے اس لیے بھابھی کہنا شروع کر دو۔” اویس یہ کہہ کر رکا نہیں بلکہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔ اسے پیچھے طُوبہ کے ہوو کی آواز کے ساتھ کھلکھلانے کی آواز سنائی دی تو اسکے ہونٹوں پر بھی خوبصورت سی مسکراہٹ ابھری۔
______________
“آج انکے نکاح کو تیسرا دن ہو چلا تھا لیکن اسکی ملاقات اویس سے نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ طُوبہ دو دن روز اس سے ملنے آتی رہی ۔۔۔ آج وہ حسبِ عادت سکول جانے کی تیاری کر رہی تھی۔
“باجی میں نے سنا ہے زاہدہ باجی کی چھوٹی بیٹی کا رشتہ جس امیر گھر میں طے ہوا تھا انہوں نے رشتہ توڑ دیا ہے۔” نغمہ نے عالیہ بیگم کو بتایا
“ہاں میں نے بھی سنا ہے ۔۔۔ انکا ہمارے ساتھ جیسا بھی رویہ ہے ہم انکے لیے دل سے دعا گو ہیں ۔۔۔ اللہ سب بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔” عالیہ بیگم نے گہرا سانس لے کر کہا
بسمہ خاموش رہی ۔۔۔ رشتہ ٹوٹنے کی بات پر اسے بھی افسوس ہوا تھا دل میں وہ بھی دعا گو تھی۔
“اچھا امی میں چلتی ہوں۔” بسمہ نے اپنا بیگ اٹھایا اور کندھے پر ڈالتی ماں کی طرف آئی
“اپنا خیال رکھنا ۔۔۔ اللہ حافظ۔” بسمہ نے انکی پشانی پر بوسہ دیا اور نغمہ اور انہیں خدا حافظ کہتی باہر چلی آئی۔
_____________
“السلام علیکم بھابھی جان۔” سکول میں جب وہ طُوبہ کے کیبن میں داخل ہوئی تو اسکے منہ سے بھابھی لفظ سن کر بھونچکا کر رہ گئی ۔۔۔ چہرہ جلدی سے سُرخ ہوا تھا
“ارے میری بھابھی تو بھابھی لفظ سے ہی شرمانے لگیں ہیں لالہ سے آپ بات کیسے کرتی ہوں گی ۔۔۔؟؟” طُوبہ نے اسکے سُرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر شرارت سے کہا ۔۔۔ دو دن سے وہ گھر پر اویس کے سامنے تو بسمہ کو بھابھی کہہ کر مخاطب کرتی تھی لیکن جب بسمہ سے ملتی بھابھی کہنے سے ذرا باز رہی کیونکہ بسمہ کو ابھی وقت چاہیے تھا لیکن کل سے بسمہ کافی حد تک نارمل تھی ۔۔۔ اس نے رشتے کو قبول کر لیا تھا تبھی آج اس نے بھابھی کہہ کر مخاطب کیا
“تمہارے لالہ نے حالات کو دیکھ کر نکاح تو کر لیا لیکن اب لگتا ہے وہ پچھتا رہے ہیں۔” بسمہ کی بات پر طُوبہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
“مطلب ؟؟ ”
“مطلب کچھ نہیں ۔۔۔ مجھے لگ رہا ہے شاید انہوں نے حالات سے مجبور ہو کر نکاح کیا ہے ۔۔۔ اسی لیے میرا حال بھی کبھی نہیں پوچھا نہ دیکھنے کی زحمت کی۔” پہلے رشتہ نہیں تھا لیکن اب تو رشتہ بن گیا تھا ۔۔۔ اویس کل شام کو ایک دفعہ آیا تھا لیکن اس نے بسمہ سے ملاقات نہیں کی تھی بس عالیہ بیگم کو لان میں مل کر چلا گیا ۔۔۔ اسکے اس لاتعلقی کو بسمہ نے اور انداز میں لے لیا ۔۔۔ جبکہ طُوبہ کو یقین نہیں آ رہا تھا
“کیا لالہ نے تمہیں کال بھی نہیں کی ؟؟” طُوبہ نے حیرت سے پوچھا
“نہیں انکے پاس نمبر نہیں ہے میرا۔” بسمہ نے معصومیت سے آہستہ آواز میں کہا ۔۔۔ طُوبہ خاموش ہو گئی
“ایسا کیسے ہو سکتا ہے لالہ نے تو اسی دن نمبر لے لیا تھا تو پھر بات کیوں نہیں کی۔” طُوبہ دل میں سوچنے لگی
“وہ کام میں کافی بزی ہیں شاید اس لیے وقت نہ ملا ہو ۔۔۔ اس لیے جلدی میں نہ ملے ہوں۔” طُوبہ نے نارمل انداز میں کہا جس پر وہ بس بس مسکرا دی۔
_____________
“گڑیا تمہاری بھابھی سے تم ملی ہو آج ؟؟” شام کو جب اویس گھر آیا تو کھانے کے بعد بھائی اور بہن بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔۔۔ جب اویس نے سراسری سا پوچھا
“جی ہوئی تھی۔” طُوبہ نے غور سے اویس کو دیکھتے بولی تھی
“کیسی ہے اب وہ۔۔؟؟” اویس نے چائے کا سِپ لیتے پوچھا
“پہلے سے زیادہ پیاری ہو گئی ہیں۔۔” طُوبہ نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔ اویس بھی مسکرا دیا
“مطلب اب میں اس سے مل سکتا ہوں۔” اویس نے طُوبہ کو دیکھ کر کہا جو اسے گھور رہی تھی
“یہ بات آپکو آج یاد کیوں آ رہی ہے ؟؟” طُوبہ کی گھوری ہنوز قائم تھی
“آج تم گھور کیوں رہی ہو بھئ ؟؟” اویس نے سوال کیا ۔۔۔ بسمہ کو لے کر ان میں نوک جھوک ہوتی رہتی تھی ۔۔۔ طُوبہ اسے کسی نہ کسی بات پر تنگ کرتی جس پر وہ مسکرا دیتا لیکن آج وہ اسے تنگ کرنے کی بجائے گھور رہی تھی اس لیے اسکا پوچھنا بنتا تھا
“دراصل لالہ مجھے آج آپکی شکایت ملی ہے۔” طُوبہ کی بات پر اویس نے الجھ کر اسے دیکھا
“بسمہ کو میرا مطلب ہے بھابھی کو لگتا ہے کہ آپ نے مجبوری میں ان سے نکاح کیا ہے۔”
“واٹ ؟؟” اویس فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا
“آپ نے مجھ سے نمبر لیا تھا لیکن آپ نے تو کوئی بات کی ہی نہیں اور نہ آپ کل گئے تو اسے مل کر آئے اسی لیے انہیں لگتا ہے۔” طُوبہ نے اسے بتایا
“ہمم” اویس پوری بات سن کر مسکرایا
“کل اب اس سے مل لیجیے گا ورنہ وہ یہی سمجھتی رہے گی۔” طُوبہ نے اسے مشورہ دیا جس پر اویس نے گردن ہلائی
“آپ کو میری مدد چاہیے تو لے سکتے ہیں میں اچھا ارینجمنٹ بھی کروا دوں گی۔” طُوبہ کھڑی ہو کر بولی اور فٹا فٹ وہاں سے بھاگ گئی ۔۔۔ اویس نے اسے گھورا تھا لیکن وہ دیکھ نہیں پائی ۔۔۔ وہ ایسے ہی تھے بھائی بہن میں بہت سے رشتے لیے ہوئے ۔۔۔ اویس بڑا بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ کئی بار بالکل خضر صاحب جیسا اسے ٹریٹ کرتا ۔۔۔ ماں کی طرح اسکی فکر کرتا اور بھائی کی طرح اسکی حفاظت کرتا ۔۔۔ کبھی دوست بن جاتا اسی لیے ان میں مذاق چلتا رہتا تھا ۔۔۔ لیکن یہ تنگ کرنا ، مذاق کرنا بھی ایک حد تک تھا۔
_______________
اگلے دن بسمہ سکول کے لیے گھر سے نکلی تھی ابھی وہ سوسائٹی کے مین گیٹ کے قریب آئی تھی جہاں اس نے رکشہ میں جانا تھا جب ایک گاڑی اسکے سامنے آ کر رکی ۔۔۔ بسمہ نے گاڑی کی طرف دیکھا اندر اویس تھا وہ وہیں رک گئی
بلیک شلوار قمیض میں بلیک ہی واسکٹ پہنے وہ بہت پیارا لگ رہا تھا ۔۔۔ اس سے جتنی ملاقات ہوئیں تھی ان میں آج اسے شلوار قمیض میں دیکھا بلاشبہ وہ شلوار قمیض میں بہت زیادہ ہینڈسم لگتا تھا
اویس نے آنکھوں پر لگے گوگلز اتار کر گاڑی کا فرنٹ ڈور اسکے لیے کھولا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ بسمہ نے کچھ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا پھر اویس کو جو اسے آنکھوں سے ہی بیٹھنے کا حکم دے رہا تھا ۔۔۔ وہ کچھ پل سوچتی رہی پھر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی ۔۔۔ اسکے بیٹھتے اویس نے گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی
“میں نے سکول جانا تھا۔” گاڑی کسی اور راستے پر دیکھ کر بسمہ جلدی سے بولی
“فکر مت کرو میں ایک گھنٹے بعد چھوڑ آؤں گا تمہیں۔” اویس ڈرائیو کرتے سنجیدگی سے بولا ۔۔۔ بسمہ خاموش ہو گئی ۔۔۔ وہ اسکا محرم تھا اس لیے وہ کچھ نروس ہو رہی تھی بس ۔۔۔ وہ اس رشتے کو قبول کر چکی تھی اس لیے ڈر نہیں رہی تھی
گاڑی ایک پارک کے پاس رکی جو بہت خوبصورت تھا اویس گاڑی سے اتر کر اسکی طرف آیا اور اسکی طرف کا ڈور کھول کر اسے باہر نکلنے کو کہا ۔۔۔ وہ چپ چاپ باہر آ گئی
اویس اسے اشارہ کرتا پارک کے اندر داخل ہوا ۔۔۔ وہ بھی اسکے پیچھے چلتی آئی ۔۔۔ ایک جگہ اویس رکا اور اسکی طرف اپنا رخ کیا
بسمہ نے جگہ کو دیکھا ۔۔۔ یہ پارک کا ایک خاموش گوشہ تھا ہر طرف ہریالی تھی ۔۔۔ جہاں اس وقت وہ دونوں تھے بس ۔۔۔ بہار کا موسم تھا ۔۔۔ سائیڈز پر لگے پھولوں کی پتیوں اور ہری گھاس پر دھوپ کی کرنیں پڑ رہیں تھیں ۔۔۔ دھوپ میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس ماحول کو اور زیادہ خوبصورت بنا رہا تھا ۔۔۔ دھوپ اور ٹھنڈی ہوا میں نہ گرمی لگ رہی تھی اور نہ ہی سردی ۔۔۔ ہر طرف بہار تھی وہ ماحول کا اس قدر انہماک سے جائزہ لے رہی تھی کہ اسے بتا ہی نہیں چلا دو گہری آنکھیں اسے پوری توجہ سے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ اویس نے اسے ماحول میں کھوئے دیکھا تو خود کو بات کرنے کے لیے ریڈی کیا
“میں نے سنا ہے تمہیں مجھ سے شکایت ہے۔۔۔؟” اویس کی آواز پر وہ اس ماحول سے نکلی اور اویس کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اس نے فوراً نظریں جھکا لیں
“نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔” بسمہ کو سمجھ نہیں آئی کہ کیا بولے
“مطلب گڑیا جھوٹ بولنے لگی ہے۔” اویس کچھ سوچتے ہوئے بولا
“ہمم۔” بسمہ گڑبڑا گئی اور فوراً اویس کو دیکھا جو پوری توجہ سے اسے دیکھنے میں لگا ہوا تھا ۔۔۔ اویس تھوڑا سا جھکا اور اپنی گھمبیر آواز میں بولا
“مسز آپ کو ایک بات واضح کر دوں تاکہ اس پل کے بعد تم کبھی یہ سوچ کر مجھ سے بدگمان نہ ہو کہ شاید میں نے یہ نکاح کسی مجبوری کے تحت کیا ہے ۔۔۔ میں نے نکاح اپنے پورے ہوش و حواس میں کیا ہے ۔۔۔ تم میری زندگی میں داخل ہونے سے پہلے ہی میرے دل میں داخل ہو چکی ہو ۔۔۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا تھا تبھی کی ۔۔۔ بس تمہارا میری زندگی میں آنا کچھ اس طرح ہی اللہ نے لکھا تھا ۔۔۔” اویس نے اسکی آنکھوں میں جھانکا
“میں نے کہیں پڑھا تھا عورت کے ہر انداز میں وفا ہوتی ہے ۔۔۔ محبت میں کوئی اس سے جیت نہیں سکا اور نفرت میں کوئی اسے ہرا نہیں پایا ۔۔۔ میں تمہیں محبت کرنے کو نہیں کہتا کیونکہ محبت اس پاک رشتے میں اللہ خود پیدا کر دیتا ہے ۔۔۔ تم اس دنیا میں وہ خاص انسان ہو جس کے ساتھ میرا دنیا کا سب سے خوبصورت اور پاک رشتہ جڑ چکا ہے ۔۔۔ میں تم سے ہمیشہ کا ساتھ چاہتا ہوں بسمہ کیا تم میرا ہر قدم پر ساتھ دو گی ؟؟” اویس اسکی آنکھوں میں دیکھتا ایک جزب سے بولا تھا ساتھ ہی اپنا مضبوط دایاں ہاتھ اسکی طرف بڑھایا جسے کچھ توقف کے بعد بسمہ نے ہلکی سی مسکان لبوں پر سجا کر تھام لیا ۔۔۔ اویس بے اختیار آگے جھکا اور اسکی صبیح پیشانی کو چھوا ۔۔۔ بسمہ کا چہرا اس بے اختیاری پر پل میں سُرخ ہوا تھا اور وہ اپنا سر جھکا گئی ۔۔۔ اویس محبت سے اسے دیکھتا مسکرایا ۔۔۔ کچھ پل یونہی معنی خیز خاموشی کی نظر ہو گئے ۔۔۔ بسمہ نے پوری ہمت جمع کر کے پلکیں اٹھائیں ۔۔۔ اویس کی آنکھوں میں جذبات کا سمندر پوری شدت سے جھلک رہا تھا یہ اسکی نگاہوں کی تپش کا ہی کمال تھا کہ بسمہ کو اپنے گال دہکتے محسوس ہوئے اس بار اس نے پلکوں کے ساتھ سر بھی جھکا لیا ۔ اویس اسکے ری ایکشن سے محفوظ ہوا ۔۔۔ پھر آنکھیں بند کر کے گہرا سانس لے کر اسکا ہاتھ یونہی مضبوطی سے تھامے ہری روش پر چلنے لگا۔
بسمہ بھی اسکے ہم قدم ہوئی ۔۔۔ اویس کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ کا راج تھا اور وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسے دیکھتا جبکہ بسمہ کے لبوں پر شرمیلی مسکراہٹ تھی اور اسکے چہرے پر قوس قزح کے بہت سے رنگ بکھیرے ہوئے تھے ۔۔۔ آخر کیوں نہ ہوتی اللہ نے اسکی ساری دعائیں سنی تھیں جو اس نے ہر نماز میں مانگیں تھیں اور اسے ایک بہترین ہمسفر سے نوازا تھا جس کی چاہ اس نے کی تھی ۔۔۔ بیشک اللہ سب کی دعائیں سنتا ہے ۔ اسے یقین تھا یہ بہار کا موسم تو بدل جائے گا لیکن یہ موسم اسے جو بہار دے کر جا رہا ہے یہ ہمیشہ اسکے سنگ رہے گی۔
مخاطب ہے بندے سے پروردِگار
تُو حُسنِ چمن تُو ہی رنگِ بہار
تُو معراجِ فن تُو ہی فن کاسنگار
مصور ہوں میں تُو میرا شاہکار
یہ صُبحیں یہ شامیں یہ دن اور رات
یہ رنگین دلکش حسیں کائنات
یہ حورُ ملائک اور جنات میں
کیا ہے تجھے اشرف المخلوقات
میری عظمتوں کا حوالہ ہے تُو
تُو ہی روشنی ہے اُجالا ہے تُو
فرشتوں سے سجدہ بھی کروا دیا
کہ تیرے لئے میں نے کیا نہ کیا
یہ دنیا جہاں بزم آرائیاں
یہ محفل یہ میلے تنہائیاں
فلک کا تجھے شامانہ دیا
زمیں پر تجھے آب و دانہ دیا
ملے آبشاروں سے بھی حوصلے
پہاڑوں میں تجھ کو دیئے راستے
یہ پانی ہوا اور یہ سمش و قمر
یہ موجِ رواں یہ کنارہ بھنور
یہ شاخوں پہ غنچے چٹختے ہوئے
فلک پہ ستارے چمکتے ہوئے
یہ سبزے یہ پھولوں بھری کیاریاں
یہ پنچھی یہ اڑتی ہوئی تتلیاں
یہ شعلہ یہ شبنم یہ مٹی یہ سنگ
یہ جھرنوں کے بجتے ہوئے جلترنگ
یہ جھیلوں میں ہنسے ہوئے سے کنول
یہ دھرتی سے موسم کی لکھی غزل
درندوں چرندوں پہ قابو دیا
تجھے بھائی دے کر بازو دیا
بہن دی تجھے اور شریکِ سفر دیا
یہ رشتے یہ ناطے گھرانہ یہ گھر
اولاد بھی دی دیئے والدین
عقل و ذہانت شعور و نظر
یہ بستی یہ صحرا یہ خشکی و تر
اور اس پر کتابِ ہدایت بھی دی
نبی بھی اُتارے طریقت بھی دی
غرض کہ سبھی کچھ ہے تیرے لئے
اب بتا کیا نہیں کرتا میں تجھ سے محبت ؟؟
____________
(ختم شد)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...